حضرت ابراہیم علیہ السّلام بہت اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ کچھ اوصاف بیان کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

(1) آزمائشوں پر صبر کرنے والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السّلام آزمائشوں میں صبر کرتے اور ان آزمائشوں میں پورا اترتے تھے۔ ان پر کئی آزمائش آئیں جیسے راہ خدا میں ہجرت، بیوی بچوں کا بیابان میں تنہا چھوڑنا، فرزند کی قربانی وغیرہ اور آپ ان سب میں سرخرو ہوئے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)

(2) سورہ ابراہیم: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ کے نام کی ایک پوری سورت پارہ نمبر 13 میں موجود ہے۔

(3) ہر باطل سے جدا مسلمان: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نہ یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(4) دینِ ابراہیمی کی پیروی کا حکم: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا : ﴿فَاتَّبِعُوْا مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ابراہیم کے دین پر چلو جوہر باطل سے جدا تھے ۔(پ4، اٰل عمرٰن: 95)تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ "دینِ محمدی کی پیروی کرو کیونکہ اس کی پیروی ملت ابراہیمی کی پیروی ہے، دین محمدی اُس ملت کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔

(5) کامل ایمان والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو کامل ایمان والا بندہ فرمایا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6) سچے نبی: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے ان کو سچا نبی فرمایا۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(7) نعمتوں پر شکر ادا کرنے والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السّلام انعاماتِ الہیہ پر شکر ادا کرنے والے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا ۔( پ14، النحل : 121)

(8،9) تحمل مزاج اور تقوی والے: آپ علیہ السّلام کی صفات میں تحمل مزاجی و تقوی بھی ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(10) گہرا دوست: آپ علیہ السّلام کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنا گہرا دوست فرمایا ۔ ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا: ( پ 5 ، النساء : 125 )

پیارے اسلامی بھائیو! اسی طرح اللہ پاک نے قراٰن کریم میں کئی جگہ پر اور بھی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی فضیلت و صفات کو بیان فرمایا ہے جن کو جاننے کے لیے تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ فرمائیے۔ اللہ پاک ہمیں قراٰنِ مجید کو سیکھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی اسباب پیدا فرمائے جن میں سے ایک انبیائے کرام علیہم السّلام کی تشریف آوری بھی ہے، انبیائے کرام علیہم السّلام نے مختلف طریقوں سے دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیا کبھی بزورِ سیفُ و بازو سچے دین کا لوہا منوایا تو کبھی معجزات دکھا کر لوگوں پر حق ظاہر فرمایا، کبھی لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا فرما کر انہیں راہ راست پر گامزن کیا تو کبھی اپنی دل نواز سیرت و کردار سے انکے دلوں کو فتح فرمایا، چونکہ انسان کی طبیعت پاکیزہ کردار و اوصاف سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اس لیے اللہ پاک نے ان حضراتِ کرام علیہم السّلام کو سِحر انگیز اوصاف سے نوازا۔

یہ اخلاق ہی تو تھے جس سے کفار متاثر ہو کر سچے دین کے گلستان سے فیض یاب ہو جاتے، کفار انبیائے کرام علیہم السّلام کے دلربا کردار پر دل ہار کر انکے گرویدہ ہو جاتے تھے، ان معزز ہستیوں میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذات سر فہرست ہے جنہیں اللہ پاک نے بے شمار اوصاف حمیدہ سے نوازا اور ان پر اپنا خاص لطف و کرم فرمایا۔ جس کا سب سے بڑا شاہد خود قراٰنِ پاک ہے۔

آئیے قراٰنِ پاک میں آپ علی نبينا و عليہ الصلوة و السّلام کے چند اوصاف ملاحظہ کیجئے۔

(1)اللہ پاک کے گہرے دوست: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنی خُلت کا جامہ پہنایا اور اپنا گہرا دوست بنایا۔ اسی پر قراٰنِ پاک میں یہ فرمان جاری فرمایا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

(2) سچے نبی :اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو نبوت کا تاج پہنایا اور سچائی کی لازوال دولت سے مالا مال فرمایا۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(3) اللہ پاک کے حکم بردار: آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے ایسے حکم بردار تھے کہ اللہ پاک کی طرف سے جو حکم ہوتا تھا اسے بلا تاخیر بجا لاتے تھے۔جیسے آپ علیہ السّلام کا حکمِ الہی پر اپنے دل عزیز بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو جانا بلکہ کر گزرنا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(4)اچھے اخلاق والے اور پیشوا: آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ تمام اچھی خصلتوں کے مالک تھے اور دین میں لوگوں کے پیشوا ہیں ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے ۔ (پ14 ،النحل:120)

(5)کامل الایمان بندے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک وصف یہ بھی عطا فرمایا کہ آپ علیہ السّلام کو اپنا کامل ایمان والا بندہ بنایا۔ اس کا ذکر قراٰنِ پاک میں کچھ اس طرح فرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(6،7)تحمل والے، آہیں بھرنے والے: آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے حضور بہت ہی آہیں بھرنے والے تھے اور بہترین قوتِ برداشت کے مالک تھے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا۔ ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

آپ علیہ السّلام بچپن ہی سے اجتہادانہ صلاحیت کے مالک تھے کہ آپ نے ستاروں کے ڈوبنے سے انکے خدا نا ہونے پر استدلال فرما لیا تھا، نیز آپ علیہ السّلام مستجاب الدعوات تھے کہ جتنی دعائیں آپ نے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے حق میں کیں تھی ان سب کو اللہ پاک نے شرف قبولیت عطا فرمایا، آپ علیہ السّلام کو اولو العزم رسولوں میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، آپ علیہ السّلام بہت بڑے مہمان نواز اور سخی بھی تھے۔

اللہ پاک نے اپنے خلیل علیہ السّلام کو اور بھی بہت سے اوصاف و کمالات سے نوازا ہے جن کا قراٰنِ پاک میں واضح بیان ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں جا بجا انبیائے کرام علیہم السّلام کے اوصاف و کردار کو بیان فرمایا ہے تاکہ اہلِ ایمان انکی زندگی سے رہنمائی حاصل کرکے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

اللہ پاک کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت پڑھ کر اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاه خاتم النبيين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز سے محبت :حضرت ابراہیم علیہ السّلام عبادت سے محبت رکھتے تھے۔ آپ علیہ السّلام بڑی رغبت سے نماز ادا فرماتے اور اُس پر غم زدہ ہوتے جو نماز سے غافل ہو۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بار حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے عرض کی : اے میرے رب ! مجھے یہ بات غمزدہ کرتی ہے کہ زمین میں اپنے علاوہ کسی اور کو تیری عبادت کرتا نہ دیکھوں اس پر اللہ پاک نے فرشتے بھیج دیئے جو آپ کے ساتھ نماز پڑھتے اور آپ کے ہمراہ رہتے تھے ۔ (حلیۃ الاولیا، کعب الاحبار، 6/26 )

حسنِ اخلاق: آپ علیہ السّلام کا حسنِ اخلاق بھی مثالی تھا اور انہیں اللہ پاک کی طرف سے اس پر استقامت کا حکم بھی دیا گیا تھا ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا : اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی ۔ اے میرے خلیل ! تم حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے رہو اگرچہ سامنے والے کنار ہوں (ایسا کرنے سے ) تُم ابرار کے زمرے میں داخل ہو جاؤ گے ۔بیشک حسنِ اخلاق والے کے لئے میرا یہ فرمان جاری ہو چکا کہ میں اسے اپنے عرش کا سایہ دوں گا ۔ اور اپنی بارگاہِ اقدس سے سیراب کروں گا اور اُسے اپنی رحمت کے قریب کر دوں گا ۔

توکل اور تسلیم و رِضا: آپ علیہ السّلام توکل و تسلیم و رضا کے بھی اعلیٰ پیکر تھے۔ اللہ کے حکم پر اپنے بیتے حضرت ِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو جانا ،نیز اللہ پاک کے حکم سے اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہ اور اپنے چھوٹی سی عمر کے بیتے کو بیابان میں چھوڑ دینا ایسی تسلیم و رضا کے مرتبے کا اظہار تھا ۔جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آپ نے فرمایا : مجھے اللہ کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے ۔

سخاوت و مہمان نوازی : آپ علیہ السّلام انتہائی سخی اور بڑے مہمان نواز تھے حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک نے میرے دوست جبرائیل علیہ السّلام کو حضر ت ابراہیم علیہ السّلام کی طرف (یہ پیغام دے کر ) بھیجا کہ اے ابراہیم میں نے تمہیں اس لئے خلیل نہیں بنایا کہ تم میرے سب سے زیادہ عبادت گزار ہو بلکہ اس لئے بنایا ہے کہ تیرا دل اہلِ ایمان کے دلوں میں سے سب سے زیادہ سخی ہے۔ (الترغیب )

امورِ آخرت کا اہتمام اور دنیا سے بے رغبتی :اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو علمی اور عملی قوتوں سے نوزا جن کی بناء پر انہیں اللہ پاک کی معرفت اور عبادت پر قوت حاصل ہوئی ۔آپ علیہ السّلام لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے تھے اور دنیا کی محبت نے اُن کے دلوں میں ذرہ بھر جگہ نہیں پائی ۔ ارشادِ باری ہے: اور یاد کرو ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحٰق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو ، بےشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے اور بےشک وہ ہمارے نزدیک چنے ہوئے پسندیدہ ہیں ۔ (پ 23 ، ص آیت 45تا 47 )

آپ بہت اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ۔آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی کامل ایمان والے بندے تھے ۔ ارشادِ باری ہے ترجمہ: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے ارشادِ پاری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا (۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

انعاماتِ الہٰی :آپ علیہ السّلام پر اللہ پاک نے بہت سے انعام و احسان فرمائے ۔ جیسے آپ کو اللہ پاک نے بچپن میں ہی عقلِ سلیم اور رشدُ و ہدایت سے نوازا دیا۔ ارشادِ باری ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے ۔ (پ17، الانبیا:51 )

آپ علیہ السّلام کو نبوت و خلت کے لئے منتخب فرمایا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دی ارشادِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 121 )


قراٰنِ کریم اللہ پاک کی ایک مکمل اور باضابطہ کتاب ہے جو کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمائی ۔ اس کتاب میں جِنْ و اِ نسان تمام کے لئے ہدایت اور جینے کے اُصول ہیں۔انبیا و مرسلین کا مقام و مرتبہ تمام کائنات میں سب سے اَرْفَع و اعلیٰ (بلند) ہے چاہے کوئی بھی ولی یا صحابی ہو الغرض کتنی ہی بڑی شخصیت کا مالک ہو کبھی کسی نبی سے بلند مرتبہ نہیں ہو سکتا جس طرح اللہ پاک نے قراٰن پاک میں کئی انبیا و مرسلین کے مقام و مراتب ذکر فرمائے اسی طرح قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے جن انبیا علیہم السّلام کے اوصاف بیان فرمائے۔ ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ہیں۔ ذیل میں آپ علیہ السّلام کی کچھ صفات بیان کی جارہی ہیں ۔

(1)صدیق ہونا : آپ علیہ السّلام کی ایک صفت صدیق (یعنی سچا ہونا )بھی ہے اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں آپ کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

بعض مفسرین کِرام نے کہا ہے کہ صدیق سے مراد کثیرُ التَّصدِیق ہے ( یعنی جو اللہ اور اُس کی وحدانیت کی ، اِس کے اَنبیا اور اس کے رسولوں کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور احکام ِ الٰہیہ بجا لائے وہ صّدیق ہے) (تفسیر صراط الجنان ،تفسیر ِ خازن)

(2)خلیلُ اللہ :حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ایک صفت یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنا خلیل(یعنی دوست )منتخب فرمایا ۔ اِسی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا لقب خلیلُ اللہ ہے جس طرح مختلف رسولوں کے مختلف القابات ہیں جیسے حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے اپنا محبوب بنایا ، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کلیمُ اللہ بنایا ، ، اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا جیسا کہ قراٰن مجید میں ارشاد ہوا : ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

(3)تحمل مزاجی: آپ علیہ السّلام کی ایک صفت تحمل مزاجی بھی ہے آپ حلیم (یعنی بڑے تحمل والے ) تھے ،اور اللہ سے ڈرنے والے ، بہت گریا و زاری کرنے والے تھے ۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ فرشتے حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم کو ہلاک کرنے آرہے ہیں تو آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ سے ڈرنے لگے تو اللہ پاک نے آپ کی یہ صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(4)کاملُ الایمان والے :آپ کی ایک صفت کاملُ الایمان بھی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنا سارا مال راہِ خدا میں دے دیا تو آپ علیہ السّلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنے بیٹے (اسمٰعیل علیہ السّلام ) کو ذبح فرمائیے تو آپ نے اپنے فرزند کو بھی قربانی کے لئے پیش کر دیا۔ جسے آپ نے اپنی آخری عمر میں بہت دعاؤں کے بعد پایا اور یہ آپ علیہ السّلام کے لئے سب سے سخت آزمائش تھی ۔جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن مجیدمیں ارشادفرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)


انبیائے کرام علیہم السّلام کائنات کی عظیم ترین شخصیات اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی ، حکمتوں کے سر چشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں ۔ انبیا ومرسلین علیہم السّلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ ان پاک نفوسِ قدسیاں میں سے ایک ہستی حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ہے جن کے اوصاف اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں بیان فرمائے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں :۔

(1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کاملُ الایمان بندے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(2) آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 ) بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التَّصدیق یعنی جو اللہ پاک اور اس کی وحدانیت کی، اس کے اَنبیا اور اس کے رسولوں علیہمُ السّلام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 3/ 236)

(3 تا 11) سورۃُ النحل کی آیت 120 تا 122 میں اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے 9 اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللہ پاک کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللہ پاک کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللہ پاک نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122)

(12) حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو نہایت ہی احسن طریقے سے پوری طرح ادا کیا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37) اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی شان کا بیان ہے کہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ انہوں نے پورے طور پر ادا کیا، اس میں بیٹے کو ذبح کرنا بھی داخل ہے اور اپنا آگ میں ڈالا جانا بھی شامل ہے اور اس کے علاوہ اور اَحکامات بھی داخل ہیں۔( ابو سعود، النجم، تحت الآیۃ: 37 ، 5 / 650، ملخصاً)

(13) حضرت ابراہیم علیہ السّلام بڑے تحمل والے، اللہ پاک سے بہت ڈرنے والے ،اس کی بارگاہ میں بہت آہ و زاری کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

اللہ پاک ہمیں بھی یہ صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اٰمین۔


حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا اس لیے آپ کو خلیل اللہ کہا جاتا ہے اور آپ کے بعد والے تمام انبیاو رسل علیہم السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی اعتبار سے آپ کا لقب ابو الانبیاء بھی ہے ۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر آپ کی صفات کو ذکر کیا گیا ہے چنانچہ:

(1) اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

(2) آپ علیہ السّلام تمام امتحانوں میں پورا اترے اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو لوگوں کا پیشوا بنا دیا: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)

(3) آپ علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(4) آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا ۔ ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(5) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے ارشاد باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام کو بھیجا ۔جب وہ(اللہ پاک) کسی کو اپنا محبوب بناتا یا اس کو ولایت یا نبوت عطا فرماتا ہے تو اس پر بے شمار نعمتیں فرماتا اور بَہُت سی صفات عطا فرماتا ہے ۔جن لوگوں کو اللہ پاک نے نبوت سے سرفراز فرمایا ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ہیں۔ ویسے تو تمام انبیائے کرام علیہم السّلام صبر و ہمت والے تھے لیکن آپ علیہ السّلام کے صبر و ہمت کی وجہ سے اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ان نبیوں میں شامل فرمایا جن کو (اُلوا العزم) کہتے ہیں اور یہ صرف پانچ انبیائے کرام علیہم السّلام ہیں۔(آپ علیہ السّلام ان پانچوں میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد پہلا درجہ رکھتے ہیں)۔ آپ علیہ السّلام کا مشہور نام"ابراہیم" ہے ۔ آپ علیہ السّلام کواللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السّلام کے بعد بھیجا ۔آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پجاری تھی (سیرت انبیاء، ص 256) آپ کی ولادت نمرود بن کنعان کے دورِ حکومت میں عراق کے شہر بابل کے نواحی قصبہ میں ہوئی۔(سیرت الانبیاء، ص 257) آپ (علیہ السّلام)کی شان یہ ہے کہ آپ(علیہ السّلام) کے بعد جتنے بھی انبیائے کرام بھیجے گئے وہ سب آپ(علیہ السّلام) ہی کی اولاد میں سے تھے۔ آپ (علیہ السّلام) کے حسن و جمال کے بارے میں حضورِ اکرم (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے فرمایا: حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) (کا حلیہ جاننے کے لیے) اپنے صاحب (محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی طرف دیکھ لو۔(بخاری، حدیث: 3355) (کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے مشابہ تھے۔)

آپ کا نام نامی قراٰن مجید میں 69 بار آیا ہے۔ (اسلام کی بنیادی باتیں، حصہ 3،ص:38) اللہ پاک نے آپ (علیہ السّلام) کو بے شمار صفات عطا کی ہیں جن کا ذکر قراٰن مجید میں مختلف مقامات پر کیا ہے جن میں سے چند یہ ہیں:

( 1) کاملُ الایمان : یہ ایک ایسی صفت ہے جو اللہ پاک کسی کسی کو یا اپنے چنے ہوئے بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ یقیناً حضرت ابراہیم (علیہ السّلام) اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں۔ چنانچہ رب ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

( 2) یہودی، نصرانی اور مشرک ہونے سے پاک ہونا: اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو تمام طرح کے گناہوں اور کفر شرک و گمراہیت سے پاک رکھتا ہے ۔انبیائے کرام علیہم السّلام تو (بدرجہ اولیٰ) بت پرستی اور تمام گناہوں سے معصوم ہیں (خازن) چنانچہ رب کریم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ وہ ہر باطل سے جدا رہنے والے مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(3)حکم کو(فوری طور) پر مکمل ادا کرنے والے : اللہ پاک جو بھی اپنے نیک بندے کو حکم دیتا ہے تو وہ نیک بندے حکم کو (فوری طور پر)مکمل ادا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے بھی اسی طرح ادا فرمایا۔ خواہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم ہو یا بیوی اور بچے کو ایسی جگہ چھوڑنے کا ہو جہاں کھانے اور پینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اس صفت کو اللہ پاک نے قراٰن مجید میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے : ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(4)بہت برداشت کرنے والے: انسان کو چاہیے کہ جب اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس پر وہ صبر کرے اور برداشت کرے حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی بَہُت برداشت کرا کرتے تھے۔ جب آپ علیہ السّلام کو آگ کے اندر ڈالا گیا تو آپ نے اُف تک نہیں کرا۔ بلکہ برداشت کیا اور اللہ پاک پر بھروسہ کرا جس کی برکت سے ان رسیوں کے علاوہ جس سے آپ علیہ السّلام کو باندھا گیا تھا کچھ بھی نہیں جلا ۔برداشت کرنے والی صفات کو اللہ پاک یوں بیان فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

(5)گہرے دوست: بندہ چاہتا ہے کہ جب وہ کسی سے دوستی کرے تو اس کو کوئی ایسا بندہ ملے جس میں عیب نہ ہو اگر کوئی ایسا بندہ ملتا ہے جس میں عیب ہو تو اس سے دوستی نہیں کرتا۔ زیادہ حمد کے لائق اللہ پاک ایسے بندے کو کیوں دوست بنائے گا جس میں کوئی عیب ہو۔ یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السّلام عیب و نقص سے پاک ہیں اور اللہ پاک کے گہرے دوست بھی ہیں۔ گہرے دوست ہونے کی صفت کو اللہ پاک نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا : ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کاملُ الایمان صبر و برداشت کرنے والا بنائے اور دینِ اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مخلصین کی مختلف اقسام ہیں:(1) ایک وہ جو اللہ پاک کے خوف سے اس کی عبادت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔(2) ایک وہ جو جنت و ثواب کی حرص میں رب ذوالجلال کی ریاضت و عبادت کرتے ہیں۔ (3) ایک وہ جو اللہ پاک سے حیاء کرتے ہوئے اُس "وحدہ لا شریک" کی بندگی کرتے ہیں کہ وہ ذات ہے ہی اس لائق کہ اگر جنت، دوزخ نہ بھی ہوں پھر بھی اسی کی عبادت، ریاضت و فرمانبرداری کی جائے۔

آخری طبقہ اگر چہ افضل ہے! لیکن تینوں ہی طبقات رب العالمین کے نیک بندے، مخلصین اور مقربین ہوتے ہیں۔

انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسّلام تو أئمّۃ المخلصین ہیں، مگر اللہ پاک نے ہر نبی کو جدا جدا خصوصیات سے مزین فرمایا ہے۔کسی کو "کلیم اللہ" کسی کو "روح اللہ" تو کسی کو "خلیل اللہ" بنایا، اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی، آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو "حبیب اللہ" بنایا جو کہ سب سے اعلی و ارفع مقام ہے۔

آئیے ان مبارک ہستیوں میں سے ایک ہستی جو کہ آخری طبقے کے مقتدا ہیں، اولو العزم انبیاء علیہم السّلام میں شامل ہیں "اللہ کے خلیل" تمام انبیاء علیہم السّلام میں "حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ" سب سے افضل ہیں، حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسّلام" کی چند صفات کا قراٰن کریم سے ذکر کرتے ہیں۔

آپ خلیل اللہ ہیں: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )علامہ نسفی نے فرمایا: ایک حدیث میں ہے کہ اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل اس وجہ سے بنایا، کہ آپ کھانا کھلاتے، سلام عام کرتے اور رات کو نماز پڑھتے تھے جب کہ لوگ سو رہے ہوتے تھے۔ (تفسیرمدارک(نسفی)پارہ5سورہ نسآء،تحت الآیۃ)

آپ کو رب نے لوگوں کا پیشوا بنایا: یوں تو سارے ہی انبیاء علیہم السّلام متوکلین ہوتے ہیں لیکن آپ کا اللہ پر توکل بے مثال تھا۔ آپ پر اللہ کی طرف سے کئی آزمائشیں آئیں "آپ کو آگ میں ڈالا گیا۔ "آپ کو حکم ہوا کہ زوجہ اور اپنے فرزند کو ریگستان ویرانے میں تنہا چھوڑ آئیں۔ پھر جب وہ فرزند آپ کے ساتھ کچھ کام کرنے کی عمر کو پہنچیں تو اللہ نے فرمایا کہ انہیں ہماری راہ میں ذبح کر دو۔

مگر! آپ ہر ہر آزمائش میں پورا اترے، رب فرماتا ہے: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)اس کی تفسیر میں مفتی قاسم دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: یہاں امامت سے مراد نبوت نہیں۔ کیونکہ نبوت تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ تب ہی تو آپ کا امتحان لیا گیا بلکہ اس امامت سے مراد دینی پیشوائی ہے۔(صراط الجنان)

اللہ کی راہ میں بیٹا قربان: آٹھ ذوالحجۃ کو ابراہیم علیہ السّلام نے خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ”بے شک اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنا بیٹا قربان کر دو !“ آپ ملک شام سے براق پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے پاس مکہ مکرمہ پہنچے، حضرت ہاجرہ سے فرمایا ،کہ اسماعیل کو تیار کرو کہ "دعوۃ الی اللہ" میں جانا ہے، شیطان نے قسم کھائی کہ میں آل ابراہیم میں سے کسی نہ کسی ایک کو ضرور فتنے میں ڈالوں گا، چنانچہ شیطان انسانی شکل میں اولاً ہاجرہ رضی اللہ عنہا پھر اسماعیل علیہ السّلام پھر ابراہیم علیہ السّلام کے پاس آیا مگر ہر بارگاہ سے دھتکار دیا گیا اور ابراہیم علیہ السّلام نے اس کو پہچان کر فرمایا: مجھ سے دور ہو جا اے اللہ کے دشمن! اللہ کی قسم! میں ضرور اپنے رب کا حکم پورا کروں گا۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور سنت ابراہیمی، ص 65،66،67،ملخصاً)

اس واقعے کو اللہ پاک نے "سورۃُ الصّٰفّٰت " میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا: ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 103،102 )

سبحان اللہ! اللہ پاک ہمیں بھی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے صدقے دین کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمین۔

تمام اچھی خصلتوں کے مالک: آپ ہر اچھی خصلت کے مالک اور ہر باطن سے جدا تھے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے ۔ (پ14 ،النحل:120)

اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللہ پاک نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے 9 اَوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللہ پاک کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللہ پاک کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللہ پاک نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔(صراط الجنان،پارہ14،سورۃ النحل،آیۃ120)

آپ علیہ السّلام بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے ہیں: جب اللہ کی طرف سے آپ کو "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ہوا تو آپ ملک شام سے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لائے تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے تیر ٹھیک کرتے ہوئے پایا، اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے والد کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور جذبات سے بھرپور انداز میں اپنے والد سے ملاقات کی، کچھ گفتگو ہوئی، حال احوال پوچھے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا، کہ رب نے مجھے "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ارشاد فرمایا ہے کیا آپ میری مدد کریں گے؟ آپ نے عرض کی جی ہاں! ضرور، پھر دونوں نے مل کر "بیت اللہ" تعمیر کیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب اٹھاتاتھا ابراہیم اس گھر کی نیویں (بنیادیں)اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بےشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ 1، البقرۃ: 127)

اس سے پتا چلا کہ مسجدیں تعمیر کرنا انبیا علیہم السّلام کی سنت مبارکہ ہے خود ہمارے پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے "مسجد قباء" کی تعمیر کی اور کروائی۔ اللہ پاک توفیق دے، جس سے بن پڑے تو کم از کم ایک مسجد تو ہمیں تعمیر کرنے کی نیت کرنی چاہیے! ورنہ ہم عاشقانِ رسول کے ساتھ تعمیر میں حصہ تو لیں ہی سکتیں ہیں، اللہ پاک ہمیں صدقہ و خیرات کرنے والا دل عطا فرمائے اٰمین ۔

آپ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مصلّٰی بنایا گیا: کعبہ مشرفہ کی تعمیر کرتے ہوئے آپ جس پتھر پر کھڑے ہوئے، اس پتھر کے قریب نماز پڑھنے کا اللہ پاک نے حکم ارشاد فرمایا، ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور (اے مسلمانو!)تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(پ1،البقرۃ:125)

اللہ پاک ہمیں ابراہیم علیہ السّلام کے اخلاص کے صدقے میں مخلصین میں شامل فرمائے، ہمیں صبر قناعت اور توکل کی دولت عطا فرمائے، یا اللہ ہم سے اپنے پیارے نبی ابراہیم علیہ السّلام کے صدقے بغیر کسی آزمائش و امتحان کے راضی ہو جا، کیونکہ ہم امتحان کے قابل نہیں۔

امتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ

بے سبب بخش دے مولیٰ ترا کیا جاتا ہے۔(وسائلِ بخشش)


انبیائے کرام علیہمُ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور معصوم بندے ہیں ،جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِۚ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔(پ23،صٓ: 46)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جو اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیائےکرام علیہمُ السّلام پر شیطان کا وار نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔ صراط الجنا ن میں ہے : انبیائے کرام علیہمُ السّلام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے بھی گناہ صادر نہ ہو کیونکہ اگر انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔ (صراط الجنان،1/107) انہیں انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے ایک بہت ہی اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہیں جن کے قراٰنی اوصاف کا تذکرہ کیا جائے گا۔ آپ علیہ السّلام بہت اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں اللہ پاک نے قراٰن میں کئی مقامات پر بیان کیا ہے ۔

(1)کامل ایمان والے : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 23 سورة الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 111 میں فرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(2)صدیق اور نبی: آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 16 سورہ طہ کی آیت نمبر 41 میں فرمایا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(3)اپنے رب کا حکم پورا کرنے والے: آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 27 سورۃُ النجم کی آیت نمبر 37 میں فرمایا: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(4)عقل سلیم اور رشد و ہدایت والے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بچپن میں ہی عقل سلیم اور رشد و ہدایت سے نواز دیا۔ارشاد باری ہے: ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآء : 51)

(5)خلیل اللہ: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا۔ ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

اللہ پاک ہمیں اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہونے اور مبارک زندگی کے مختلف گوشوں سے علم عمل کے موتی چننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین


حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا اس لیے آپ کو خلیل اللہ کہا جاتا ہے اور آپ کے بعد والے تمام انبیاء و رسل علیہ السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی اعتبار سے آپ کا لقب " ابو الانبیاء " بھی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور جنوں کی پجاری تھی، چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیو پاری تھا، دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی کا دعوی کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔ آپ علیہ السّلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ خوبصورت اور آسان فہم دلائل سے سمجھایا کہ اللہ ہی معبود اور خالق و قادر ہے جبکہ بت بے بس و لاچار ہیں، ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام نے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی گئے۔ قراٰن و حدیث اور دیگر کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرت پاک کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔( سیرتِ انبیاء ، ص256)

آپ کا تعارف :نام مبارک : آپ علیہ السّلام کا مشہور نام ابراہیم ہے جو اَبٌ رَحِیمٌ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ”مہربان باپ آپ علیہ السّلام چونکہ بہت مہربان تھے جیسا کہ آپ کی سیرت میں اس کی مثالیں بکثرت نظر آتی ہیں ، یو نہی آپ علیہ السّلام مہمان نوازی اور رحم و کرم میں مشہور ہیں اس لیے آپ کو " ابراہیم " کہا جاتا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں مختلف مقامات پر آپ علیہ السّلام کا نام ابرام ، ابراہم، ابرہم، بر اہم اور براہمہ مذکور ہے، یہ تمام الفاظ ابراہیم ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ (سیرتُ الانبیاء، ص257)

اوصاف: آپ علیہ السّلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر کی جگہ ذکر کیا ہیں ہے یہاں آپ علیہ السّلام کے 14 اوصاف ذکر کی جائیں گے۔

(1) آپ علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(3،2) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

یہاں ایک اہم بات قابل توجہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص، بیان کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی تفہیم ہوجائے جنہیں چند واقعات کی بِنا پر شبہ ہوتا ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا ۔

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سورت کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں کے پجاریوں کا گروہ ہے اور یہ دونوں گروہ اگرچہ گمراہی میں مُشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے۔ چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے واقعے کا اختتام ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا :

اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کریں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ کی قوم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کتابوں کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول نہ تھے تو جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم(کاغیب کی خبر دینا آپ) کی نبوت کی دلیل اور آپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 7 / 541)

یہاں بطورِ خاص حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کے مشرکین اپنے آپ کو مِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگر تم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو تو بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام تو بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ اگر تم ملت ابراہیمی پر قائم ہو تو ان کے دین کو اپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔

آیت کے اس حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صِفات بیان کی جارہی ہیں کہ آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التَّصدیق یعنی جو اللہ پاک اور اس کی وحدانیت کی، اس کے انبیا اور اس کے رسولوں علیہم السّلام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 3/ 236)

یاد رہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے کی یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو چند واقعات کی وجہ سے شُبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا کلام ان مَواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔ ان کی تفہیم کیلئے بطورِ خاص آپ علیہ السّلام کو سچا فرمایا گیا۔

مقامِ صدّیق اور مقامِ نبوت میں فرق: یہاں آیت کی مناسبت سے صدیق اور نبی میں اور صدیق اور ولی میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیْقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور ا س کے قریب ) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 4/ 1237)

اس سے معلوم ہوا کہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد انسانوں میں سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا ہے کیونکہ آپ رضی اللہُ عنہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد صدیقیت کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔

(4 تا 9) آپ علیہ السّلام بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، تمام لوگوں کے پیشوا ہیں، ہر حکم الہی پر سر ِتسلیم خم کرنے والے تھے ، ہر باطل سے جدا اور حق کی طرف یکسو تھے، شرک و باطل سے پاک اور دور تھے ، انعامات الٰہیہ پر شکر کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122) اور ارشاد فرمایا : ﴿ مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(10) آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ(۳۶) وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا اُسے اس کی خبر نہ آئی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے اور ابراہیم کے جو احکام پورے بجالایا۔(پ27،النجم: 37،36)

(11تا14) آپ علیہ السّلام بڑے تحمل والے ، اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے ، اس کی بارگاہ میں بہت آہ و زاری کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(15) اور ارشاد باری ہے : ﴿ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ- اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کر چکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بےشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمّل ہے۔ (پ11، التوبۃ:114)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قراٰنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، 17 / 295، حدیث: 813)

حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، 4/ 369، حدیث: 6273)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والاناء، 2 / 55، حدیث: 5807، الجزء الثالث) اللہ پاک ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


پچھلی مرتبہ ہم نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کا مطالعہ کیا تھا، جو قراٰن مجید میں مذکور ہیں۔ اس مرتبہ ہم ان صفاتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مطالعہ کریں گے جن کو اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰن مجید میں ذکر فرمایا ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1تا9) تمام اچھی خوبیوں کے مالک، تمام لوگوں کے رہنما، اللہ پاک کے مطیع و فرمانبردار، ہر باطل سے جدا یعنی یہودی نہ نصرانی اور نہ ہی مشرک ، اللہ پاک کے بہت شکر گزار، اللہ پاک نے نبوت و خلّت کے لیے منتخب فرمایا، صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت یافتہ ، دنیا میں بھلائی والے اور آخرت میں بھی قربِ الٰہی پانے والوں میں سے ہونگے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ (۱۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122)

(11، 12) خوب بارگاہِ الٰہی میں رونے والے اور برے سلوک پر برداشت کرنے والے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

(13، 14) بہت صبر کرنے والے اور رجوع فرمانے والے: فرمانِ باری ہے : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ (پ12، ھود:75)

(15، 16) صدیق اور نبی: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(17) اعلٰی درجے کے ایمان والوں میں سے ہیں ، فرمانِ خداوندی ہے : ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

مذکورہ صفاتِ ابراہیمی امتِ مسلمہ کے لیے صراطِ مستقیم ہیں۔ ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ ان تمام صفات کو اپنانے کی کوشش کرے جو اسے اعلٰی درجے کے ایمان والوں میں داخل کرے اور رب کریم کی بارگاہ میں سرخرو و سرفراز کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھی صفات اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین


حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا ۔ اور آپ علیہ السّلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ ملا جیسا کہ بہار شریعت ج 1 ص 52 پر ہے۔

نبیوں کے مختلف درجے ہیں بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کا ہے ۔ اور آپ کے بعد والے تمام انبیا و رسل علیہم السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ (پ20،العنکبوت:27) یہی وجہ ہے کہ آپ کا لقب ابو الانبیآ بھی ہے آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتی خود آپ کے چچا آزر بھی بتوں کا پجاری اور بیوپار تھا دوسری طرف نمرود بھی خدائی کا دعوی کر رہا تھا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ و نصیحت کی اور بتایا کہ بت بے بس و لاچار ہیں ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ قراٰن مقدس میں اللہ پاک نے بہت سے مقامات پر آپ کے اوصاف بیان فرمائے ہیں جس میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

(1) کامل ایمان والے: ﴿ ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :111)

(2، 3) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(4تا6)آپ علیہ السّلام تحمل، آہ و زاری ، اور رجوع کرنے والے تھے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(7) آپ علیہ السّلام کی عقل و ذہانت:﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآ : 51)

(8، 9) آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے نبوت و ہدایت عطا فرمائی:﴿اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 121 )

(10)آپ علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرت مبارکہ کے کچھ اوصاف جیسے تحمل، اللہ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرنے والے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم تحمل سے کام لیں زیادہ سے زیادہ اللہ کی بارگاہ میں گر یہ وزاری کریں۔ اور ہر معاملات میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا بنیں۔ اللہ پاک ہمیں ان اوصاف پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔