سب سے پہلے جانتے ہیں کہ بغض و نفرت کے معنی کیا ہے؟ بغض کے معنی چھپی ہوئی دشمنی، نفرت محبت کی ضد ہے، قارئین یہ تو تھی لغوی اعتبار سے شرعا اس کی تعریف کیا ہے ایک بہت ہی پیاری کتاب باطنی بیماریوں کی معلومات میں بغض و کینے کی تعریف یوں ہے۔

کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے، نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 53)

افسوس کہ آج کل مسلمانوں کے دلوں میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے ہی نفرت پائی جاتی ہے حالانکہ بغض ایک باطنی بیماری ہے جس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا فرض ہے۔ قارئین میں اسکو فرض اپنی طرف سے نہیں بول رہی بلکہ اعلیٰ حضرت فتاویٰ رضویہ جلد 23، صفحہ 624 پر ارشاد فرماتے ہیں: محرّمات باطنیّہ (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً) تکبر وریا وعجب (یعنی غرور) وحسد وغیرہا اور ان کے معالجات (یعنی علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔

قارئین اگر معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو یہ نظر آئے گا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نفرت پالے ہوئے ہیں یعنی ایک مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائی کے بارے میں اپنے دل میں نفرت پالے بیٹھا ہے کینے کو بسائے بیٹھا ہے، حالانکہ یہ ایک باطنی بیماری ہے جس سے بچنا نہایت ضروری ہے، جس طرح ظاہری امراض کا علاج اس وقت کیا جاتا ہے جب بیماری کی تشخیص ہو جائے اسی طرح جب انسان کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آیا اس کو کون سا باطنی مرض ہے تو وہ اس کا علاج کس طرح کرے گا تو سب سے پہلے بندہ یہ غور و فکر کرے کہ آیا کہیں میرے اندر تو کینہ اور نفرت جیسی بری عادت تو نہیں اگر جواب ہاں میں آئے تو پھر اس کے علاج کی کوششیں کریں اور اگر نہ میں آئے تو بھی غور و فکر کریں کیونکہ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں تو کینہ اور نفرت نہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

آئیے جانتے ہیں کہ کینے کے کیا علاج ہو سکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو ان اسباب پر غور و فکر کریں کہ جس کی وجہ سے دل میں کینہ پیدا ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کوئی بہت غصیلہ ہے اور غصہ ہی کینے کا سبب بنتا ہے تو چاہیے کہ پہلے اپنے غصے کو کنٹرول کرے کیونکہ جب سبب ختم ہوگا تو کینے کا علاج بھی بآسانی ہو سکے گا۔

بعض اوقات نفرتوں کینوں کا سبب دنیاوی چیزیں ہوتی ہیں جیسے کہ اگر کسی کے پاس بہت مال و دولت ہے اور یہ شخص جس کے دل میں کینہ و نفرت بسا ہے اگر اس کے پاس مال نہیں تو یہ مالدار سے حسد کرتا ہے جسکے نتیجے میں نفرت بھی پیدا ہوتی ہے لہذا عقلمندی سے کام لیتے ہوئے یہ سوچیے کہ اس مال و دولت کی وجہ سے جو کہ دنیاوی چیز ہے اس کی وجہ سے اگر میں مسلمان بھائی سے بغض و نفرت کروں اور اس کی وجہ سے اللہ نہ کرے قیامت کے دن مجھے جہنم میں ڈال دیا گیا تو میرا کیا بنے گا اسی طرح جہنم کے عذابات سے بھی خود کو ڈرائیے۔

اسی طرح نفرتوں و کینے سے انسان خود ہی پریشان رہتا ہے دل بے چین رہتا ہے تو بندہ یہ سوچے کہ نفرتوں کا کیا فائدہ اس سے تو مجھے خود ہی نقصان ہو رہا ہے اس طرح بھی کینہ سے بغض و نفرت سے بچنے میں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس طرح ایک علاج یہ بھی ہے کہ مسلمان سے کینے کا جو حکم ہے اس پر غور کرے۔ اب غور تو جب کرے گا جب حکم پتا ہوگا تو سنیے حکم یہ ہے کہ کسی مسلمان سے بغض و کینہ ناجائز و حرام ہے، اب ذرا غور کریں ایک مسلمان سے کینہ کرکے حرام کے مرتکب ہو رہے ہیں اس طرح بھی خوف خدا پیدا کریں اور گناہوں سے بچیں۔ نفرت کریں مگر کافروں سے بے دینوں سے، بد مذہبوں سے،گناہوں سے، کفر سے شرک سے، شیطان لعین سے، الحاصل کہ گناہوں سے تو نفرت کریں مگر گناہگار سے نفرت نہ کریں کیونکہ اگر آپ ان سے نفرت کریں گے تو دوری ہوگی اور جب دوری ہوگی تو آپ اس کی اصلاح کیسے کریں گے مشکل ہو جائے گی اصلاح کرنا۔

ہماری محبت و نفرت کا معیار رضائے الٰہی و رضائے مصطفے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کے دل میں کسی کے لیے بغض و کینہ ہو نفرت ہوتو اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سے کینے و نفرت کے دور ہونے کی سچے دل سے دعا کریں۔ جس سے نفرت و کینہ ہوگیا ہے اس مسلمان بھائی کے لیے خوب خوب دعائیں کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو مسلمانوں کے بغض کینہ و نفرت و دشمنی سمیت تمام باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ


الحمد للہ، ہم سب مسلمان ہیں اور اسلام دین فطرت ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو زندگی گزارنے کے وہ روشن اصول سکھائے جو نہ صرف ان کی دینی بلکہ دنیوی فلاح و کامرانی کے بھی ضامن ہیں۔ معزز قارئین! انہیں اصولوں میں سے ایک آپس میں پیارو محبت قائم رکھنا اور بلا وجہ شرعی ایک دوسرے کے بغض و نفرت سے اپنے دل کو پاک رکھنا بھی ہے دیکھیے! اس کے بارے میں قرآن کریم میں کیسا غور طلب ارشاد خداوندی موجود ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔اس آیت مبارکہ میں اس بات کا بیان واضح طور پر موجود ہے کہ آپس کی بغض و عداوتیں اللہ کی یاد اور پابندیِ نماز سے محروم کر دیتی ہیں، اسی طرح مختلف احادیث مبارکہ میں بھی اس ضمن میں ہماری رہنمائی کے لیے بیان موجود ہے، آئیے! ان میں سے کچھ ملاحظہ کرتے ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔نبی رحمت ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک (ماہ) شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر (اپنی قدرت کے شایان شان) تجلّی فرماتا ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ کینہ(بغض و نفرت) رکھنے والوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الايمان، 3/383،حدیث: 3835)

2۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: بغض رکھنے والوں سے بچو کیونکہ بغض دین کو مونڈ ڈالتا (تباہ کردیتا) ہے۔ (کنز العمال، 3/209، حدیث: 7714)

3۔ ایک دوسرے سے قطع تعلقی نہ کرو ایک دوسرے کی جڑیں نہ کاٹو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور باہم حسد نہ کرو اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ۔ (مسلم، ص 1064، حدیث: 2563)

4۔ تم سب باہم حسد نہ کرو اور نہ بیع (خرید و فروخت) وغیرہ میں اشیاء کی قدر و قیمت بنانے میں مبالغہ و فریب سے کام لو اور نہ باہم دشمنی رکھو اور نہ باہم قطع تعلق کرو۔ (مسلم، ص 1064، حدیث: 2564)

معزز قارئین! مندرجہ بالا تمام روایات کی روشنی میں اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا پیارا دین اسلام ہمیں کس طرح باہم نفرت و دشمنی، بغض و کینہ جیسی مہلکات (ہلاکت میں ڈالنے والی چیزیں) سے دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح ہم پر عیاں ہوتی ہے کہ ہمارا مسلم معاشرہ جس پستی و زوال کا شکار ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ مسلمانوں کی باہم بغض و نفرت ہے جس نے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر کے دوسری قوموں کو ہم پر ظاہری سبقت لے جانے کے مواقع فراہم کیے ہیں تو آئیے! یہ پختہ نیّت کریں کہ بلا وجہ شرعی اپنے مسلمان بھائی سے بغض و نفرت نہیں رکھیں گے بلکہ آپس میں فقط رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر محبت، پیاراور خلوص جیسی پاکیزہ صفات کا عملی مظاہرہ کر کےدنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں سمیٹیں گے۔ ان شاء اللہ 


اللہ تعالیٰ صرف ظاہری صورتوں اور کھالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ دلوں کو بھی دیکھتا ہے، اسی لئے ظاہر کی درستگی کے ساتھ ساتھ ساتھ باطن(دل) کی اصلاح بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ دل تمام جسم کا اصل ہے اس لئے اصلاح قلب کی طرف پوری توجہ دینا بےحد ضروری ہے اگر اسکی طرف توجہ نہ دی جائے تو دل بیماریوں(گناہوں) کا شکار ہوسکتا ہے ان باطنی بیماریوں میں سے ایک بغض و نفرت بھی ہے۔

بغض و نفرت یعنی دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اسکا اظہار کردینا۔ (لسان العرب، 1/888)

مسلمان سے بلاوجہ شرعی بغض ونفرت رکھنا حرام ہے، جبکہ غیر مسلم یا بدمذہب سے بغض ونفرت رکھنا جائز و محمود ہے، بغض و نفرت کی وجہ سے انسان بے شمار گناہوں مثلاً قتل غیبت چغلی حسد وغیرہ کا شکار ہوجاتا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ بیشک چغل خوری اور کینہ پروری جہنم میں ہیں یہ دونوں کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ (معجم اوسط، 3/301،حدیث: 4653)

2۔ جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ کینہ پرور ہے تو وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھ سکے گا۔ (حلیۃ الاولیاء،8/180، حدیث:11536)

3۔ تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کرگئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈتی ہے۔ (ترمذی، 4/228، حدیث: 2518)

4۔ عالم بن یا متعلم یا علمی گفتگو سننے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں(یعنی علم اور عالم سے بغض رکھنے والا)نہ بن کہ ہلاک ہوجائیگا۔ (جامع صغیر، ص78، حدیث: 1213)

5۔ رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی کہ لوگوں میں سے کون افضل ہے؟ فرمایا سلامت دل والا، سچی زبان والا۔ لوگوں نے عرض کی سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہیں یہ سلامت دل والا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یعنی وہ ایسا ستھرا ہے جس پر نہ گناہ ہو نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد۔ (ابن ماجہ، 4/475، حدیث:4216)

بغض و نفرت کا علاج: حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مصافحہ کیا کرو کینہ دور ہوگا اور تحفہ دیا کرو محبت بڑھے گی اور بغض دور ہوگا۔ (موطا امام مالک، 2/407، حدیث:1731)

اے ہماری ظاہری و باطنی بیماریوں کے طبیب! اور اے ہر قسم کی بیماریوں سے نجات دینے والے ہم نہیں جانتے کہ ہماری بیماریوں کی کیا دوا ہے یا کس شے کے ذریعے روز قیامت میری نجات ہوگی تو ہی اصلاح فرمانے والا ہے تو ہی ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرما۔


بغض یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی چیز کو بوجھ جانے اس سے غیر شرعی دشمنی اور بغض رکھے نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔(احیاء العلوم، 3/223)

حکم: کسی بھی مسلمان کے متعلق بلاوجہ شرعی اپنے دل میں بغض رکھنا ناجائزو گناہ ہے۔ محبوب رب تاجدار عرب ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: عرب کی محبت ایمان ہے اور ان کا بغض کفر ہے جس نے عرب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔ (معجم اوسط،2/66، حدیث: 2537)

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: عالم بن یا متعلم، یا علمی گفتگو سننے والا یا علم سے محبت کرنے والا بن اور پانچواں (یعنی علم اور عالم سے بغض رکھنے والا) نہ بن کہ ہلاک ہو جائیگا۔ عالم دین سے خواہ مخواہ بغض رکھنے والا مریض القلب اور خبیث الباطن ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 129 پر فرماتے ہیں: (1)اگر عالم دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کافر ہے اور( 2)اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت(یعنی دشمنی) کے باعث برا کہتا ہے گالی دیتا ہے اور تحقیر کرتا ہے تو سخت فاسق فاجر ہے اور (3)اگر بے سبب (یعنی بلاوجہ رنج) بغض رکھتا ہے تو مریض القلب، خبیث الباطن (یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے) اور اس یعنی خواہ مخواہ بغض رکھنے والے کے کفر کا اندیشہ ہے۔

خلاصے میں ہے: جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی، 4/388)

مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیارہے

انشاءاللہ دو جہاں میں میرا بیڑا پار ہے

حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب کے حق میں خدا سے ڈرو! خدا کا خوف کرو! انہیں میرے بعد نشانہ نہ بناؤ جس نے انہیں محبوب رکھا میری محبت کی وجہ سے محبوب رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اس لئے اس نے ان سے بغض رکھا جس نے انہیں ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی جس نے مجھے ایذا دی اس نے بیشک خدا کو ایذا دی جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اسے گرفتار کرے۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888) یاد رہے کہ بغض و کینہ آج کل کی پیداوار نہیں بلکہ بہت پرانی بیماری ہے ہم سے پہلی امتیں بھی اس کا شکار ہوتی رہی ہیں، دافع رنج و ملال ﷺ کا فرمان باکمال ہے: عنقریب میری امت کو پچھلی امتوں کی بیماری لاحق ہو گی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی! پچھلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تکبر کرنا، اترانا، ایک دوسرے کی غیبت کرنا اور دنیا میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرنا نیز آپس میں بغض رکھنا، بخل کرنا یہاں تک کہ وہ ظلم میں تبدیل ہو جائے اور پھر فتنہ و فساد بن جائے۔ (معجم اوسط، 6/348، حدیث: 9016)

گناہوں سے مجھ کو بچا یاالہی

بری عادتیں بھی چھڑا یا الہی

نفرت کیوں ہوتی ہے؟ ہر مرض کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے، کسی کی نفرت میں مبتلا ہونے کے کم از کم 9 ممکنہ اسباب (Possible Reasons) ہوسکتے ہیں:

(1)جب ہمارا کوئی دوست یا عزیز امید وں کے برعکس ہماری توقعات (Expectations) پر پورا نہیں اترتا مثلاً ہمیں کوئی ایمرجنسی پیش آئی لیکن ہمارے دوست یا عزیز نے ہمارے مدد مانگنے پر بے رخی اختیار کی تو ہمارے دل میں اس کے لئے نفرت کا بیج لگ سکتا ہے جو بڑھتے بڑھتے درخت کی شکل اختیار کرسکتاہے۔

(2)جب ہمارا ماتحت مسلسل ہمارے مزاج کے خلاف کام کرتا رہتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ ہمارے دل سے اتر جاتا ہے اور ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ اس کے عطر (پرفیوم) میں سے بھی ہمیں پسینے کی بو آنے لگتی ہے وہ کیسا ہی شاندار کام کرے ہم خواہ مخواہ اس میں سے کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔

(3)کسی نے لوگوں کے سامنے ہمیں ڈی گریڈ کردیا، یا ڈانٹ دیا یا بے جاتنقید کردی تو ہمیں وہ شخص برا لگنے لگتا ہے۔ اس کیفیت پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہم اس کی نفرت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

(4)اصلاح کا غلط انداز بھی نفرت پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے، ہمارا تو اکثر یہ حال ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بلاضرورت شرعی سب کے سامنے نام لےکر یا اسی کی طرف دیکھ کر اس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کی پولیں بھی کھول کر رکھ دیں گے۔ اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہوا یا اگلے کو ذلیل کرنا ہوا؟ اس طرح سدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا؟ یاد رکھئے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چپ ہو گیا یا مان گیا تب بھی اس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو کہ بغض وعداوت اور نفرت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ کاش!ہمیں اصلاح کا ڈھنگ آجائے۔

(5)کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں لیکن کچھ لوگ ناکام ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کو اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں، ایسے حوصلہ شکن شخص سے محبت کرنے والے کم اورنفرت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔

(6)بولنا (Speaking) ایک فن ہے تو سننا (Listening) اس سے بڑا فن ہے، بولنے کا شوق بہت ساروں کو ہوتا ہے مگر سننے کا حوصلہ کم افراد میں پایا جاتا ہے، ایسے لوگ اپنی کہنے کے لئے بلاوجہ دوسروں کی بات کاٹنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے، ان کا یہ انداز بھی نفرتیں کمانے والا ہے۔

(7)بات بات پر غصّہ کرنا، چیخنا چلّانا، معمولی بات پر مشتعل ہوجانا بداخلاق ہونے کی نشانی ہے، بداخلاقی محبتیں نہیں کماتی بلکہ اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔

(8)کسی کے رشتے پر رشتہ بھیجنا یا سودے پر سودا کرنا بھی نفرتیں پھیلاتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوگھرانوں کے درمیان رشتے کی بات چل رہی ہوتی ہے کہ کوئی تیسرا بھی بیچ میں پہنچ جاتا ہے، یا دو افراد کے درمیان خرید وفروخت کی بات ہورہی ہوتی ہے توکوئی تیسرا اس میں کود پڑتا ہے ایسی صورت میں فائدے سے محروم ہونے والا فریق بنا بنایا کام بگاڑ دینے والے کے بغض اور نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس لئے کسی کے رشتے یا سودے کی بات چیت کے دوران ٹانگ نہ اڑائی جائے بلکہ ان کا معاملہ فائنل ہونے کا انتظار کیا جائے اگر انہوں نے آپس میں سودا یا رشتہ نہ کیا تو اپنی بات آگے بڑھائیے ورنہ رک جائیے۔

(9)کسی کے بارے میں شک و بدگمانی یا جیلسی میں مبتلا ہونا بھی محبتوں کی قینچی ثابت ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں محبتیں پھیلانے والے کام کرنے اور نفرتوں کو عام کرنے والے ذرائع سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


بغض کسی سے حد درجہ جلنے کو کہتے ہیں جبکہ نفرت و کینہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل میں کسی کو بوجھ جانے، اس سے غیر شرعی دشمنی و بغض رکھے، نفرت کرے اور یہ کیفیت ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے۔ (احیاء العلوم، 3/223) اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔

حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: اس آیت میں شراب اور جوئے کے نتائج اور وبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خوری اور جوئے بازی کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جو ان بدیوں میں مبتلا ہو وہ ذکر الٰہی اور نماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا ہے۔

اللہ کے محبوب ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ شعبان کی پندرہویں رات اپنے بندوں پر تجلی فرماتا ہے اور مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرماتا ہے اور رحم طلب کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے جبکہ کینہ رکھنے والوں کو انکی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3835)

کسی بھی مسلمان کے متعلق بغیر کسی شرعی وجہ کے اپنے دل میں بغض و نفرت رکھنا حرام ہے۔

حکایت: حضور ﷺ کے چچا جان حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت بابرکت میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور عرض کی: ہم سفر حج کے لیے نکلے تھے جب ہم مقام ذات الصّفاح پہنچے تو ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ ہم نے اسکو غسل و کفن دیا پھر اسکے لیے قبر کھودی جب اسے دفن کرنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اسکی قبر کالے سانپوں سے بھر گئی بالآخر ہم اسے چھوڑ کر آپکی خدمت بابرکت میں حاضر ہوگئے۔ یہ واقعہ سن کر حضرت عباس نے ارشاد فرمایا: یہ اسکا کینہ ہے جو وہ مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں رکھا کرتا تھا جاؤ اور اسے وہیں دفن کر دو۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 6/83، رقم: 128)

بغض و نفرت کے علاج: سلام و مصافحہ کی عادت بنائیے۔ کیونکہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا یا گلے ملنا کینے کو دور کرتا ہے۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے۔ کیونکہ عموماً کسی کی اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کے بارے میں سوچنے سے بھی کینہ پیدا ہو سکتا ہو۔ مسلمانوں سے اللہ کی رضا کے لیے محبت کیجئے۔ محبت کینے کی ضد ہے لہذا اگر ہم کسی مسلمان کی اپنے دل میں اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھیں گے تو کینے کو دل میں جگہ نہ ملے گی۔ ان شاء اللہ

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بغض و کینہ سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱) (پ7، المائدۃ:91) ترجمہ کنز الایمان: شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے۔

تعریف: دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کا اظہار کرنا بغض و کینہ ہے۔ مثلا کوئی شخص ایسا ہے جس کا خیال آتے ہی آپ کو اپنے دل میں بوجھ سا محسوس ہوتا ہے، نفرت کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے، وہ نظر آ جائے تو ملنے سے کتراتے اور زبان ہاتھ یا کسی بھی طرح سے اسے نقصان پہنچانے کا موقع ملے تو پیچھے نہیں رہتے تو سمجھ لیجئے کہ آپ اس شخص سے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔

بغض و نفرت سے متعلق بعض احکام: مسلمان سے بلا وجہ شرعی بغض رکھنا حرام ہے (فتاویٰ رضویہ، 6/526)

خلاصہ میں ہے جو بلا کسی ظاہری وجہ کے عالم دین سے بغض رکھے اس پر کفر کا خوف ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی، 4/388)

احادیث مبارکہ:

1۔ بغض و نفرت کی مذمت بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ نے بھی اپنی امت کو اس کی ہلاکت خیزیوں سے آگاہ فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: مومن کینہ پرور نہیں ہوتا۔ (احیاء العلوم، 3/637)

2۔ اور ارشاد فرمایا: ہر پیر اور جمعرات کے دن لوگوں کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں پھر بغض و کینہ رکھنے والے دو بھائیوں کے علاوہ ہر مومن کو بخش دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے: ان کو چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اس بغض سے واپس پلٹ آئیں۔ (مسلم، ص1388، حدیث: 2565)

3۔ اور ارشاد فرمایا: تم میں پچھلی امتوں کی بیماری حسد اور بغض سرایت کر گئی، یہ مونڈ دینے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بال مونڈتی ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (ترمذی، 4/228، حدیث: 2518)

بغض و نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی 8 برائیاں:

تمہاری نفرت تمہیں اس چیز پر ابھارے گی کہ تم اس شخص سے زوال نعمت کی تمنا کرو گے۔ تم اس کی مصیبت پر خوش ہو گے۔ قطع تعلقی کرو گے۔ حقیر سمجھنا شروع کر دو گے۔ غلط باتیں منسوب کرنا جو جائز نہ ہوں گی مثلا جھوٹ، غیبت، راز فاش کرنا، عیب بیان کرنا وغیرہ۔ مذاق اڑانا تکلیف پہنچانا حقوق کی ادائیگی نہ کرنا۔ (احیاء العلوم، 3/638)

علاج: دعا کیجئے: اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔

اسباب دور کیجئے، بغض و نفرت کے اسباب میں سے غصہ، بدگمانی شراب نوشی وغیرہ ہیں ان کی عادت نکالئے۔

نعمتوں کا شکر ادا کیجئے۔ سلام و مصافحہ کی عادت بنا لیجئے۔ بے جا سوچنا چھوڑ دیجیے۔ مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے محبت کیجئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے دلوں کو مسلمانوں سے بغض و نفرت رکھنے سے پاک فرمائے۔

ظاہر و باطن ہمارا ایک ہو

یہ کرم یا مصطفیٰ فرمائیے

آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


چونکہ ماہِ رمضان دوسرے مہینوں سے زیادہ شرف وعظمت والا ہے،اس لیے آقا ﷺ  جب رجب کا مہینا آتا تو حضور ﷺیوں دعافرماتے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ پاک ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے ملا دے۔(معجم اوسط،3/85، حدیث : 3939) حضور ﷺ اس کی آمد پہ خوشی کا اظہار فرماتے، خوب دعاؤں ، نمازوں اور تلاوت کا اہتمام فرمایا کرتے۔لہٰذا رمضان میں بھی آپ کے معمولات بے مثل و بے نظیر ہیں۔چنانچہ حدیثِ پاک میں مروی ہے:وعَنِ ابنِ عباس قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ -صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ أَطْلَقَ كُلَّ أَسِيرٍ، وَأَعْطَى كُلَّ سَائِلٍیعنی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ہر سائل کو عطا فرماتےکے تحت لکھتے ہیں:یوں تو سرکار ہمیشہ ہی ہر سائل کو دیتے تھے،کریم ہیں،سخی ہیں،داتا ہیں،مگر ماہِ رمضان میں آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا تھا۔یہاں دوباتیں خیا ل میں رکھیے:ایک یہ کہ امیروں سے صرف مال مانگے جاتے ہیں مگر حضور انور ﷺ سے مال،اعمال،کمال،رضائے رب ذوالجلال اور جنت،نیز دوزخ سے پناہ،ایمان پر خاتمہ سب کچھ ہی مانگا جاتا ہے۔حضرت ربیعہ نے حضور انور ﷺ سے جنت مانگی۔حضور ﷺ یوں تو ہمیشہ خصوصًا رمضان میں ہر سائل کو اس کی منہ مانگی مراد دیتے تھے۔دوسرے یہ کہ سرکار کی یہ بخششیں صرف اس زمانہ سے خاص نہیں تا قیامت ان کا دروازہ ہر فقیر کے لیے کھلا ہے،کیوں نہ ہو کہ رب کریم نے فرمایا:وَ اَمَّا السَّآىٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ()۔سائل میں زمانہ ومکان کی قید نہیں ،لہٰذا اب بھی رمضان میں حضور انور ﷺ سے ہر مومن کو رہائی بھی مانگنی چاہیے اور جنت وغیرہ بھی ۔(مراۃ المناجیح،3/142)

اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ رمضان میں تلاوت ِقرآنِ کریم کی کثرت بھی فرماتے تھے۔چنانچہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا: جبر ئیل ا مین علیہ السلام رَمَضانُ المبارَک کی ہر رات میں ملاقات کیلئے حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دَور فرماتے ۔ ( بخاری ،1/ حدیث:6)

اسی طرح ہمارے پیارے اور آخری نبی ﷺ رمضان کی راتوں میں خوب خوب عبادت کا اہتمام فرمایا کرتے کہ پوری رات بستر مبارک پر تشریف نہ لاتے۔چنانچہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو تاجدارِ کائنات ﷺ رات بھر جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے اور اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔مسلم،ص462،حدیث: 2787

رمضان المبارک میں کی جانے اہم ترین عبادت اعتکاف بھی ہےجو سرکار ﷺ کی سنت بھی ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوا۔ آپ کے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف فرمایا کرتیں۔ (بُخاری،1/664،حدیث:2026)

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ آقا ﷺ رمضان المبارک میں عبادت کا کتنا زیادہ اہتمام فرمایا کرتے ۔اللہ پاک ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے رمضان المبارک کو ایمان و عافیت کے ساتھ پا لینے کے بعد خوب خوب عبادت و ریاضت میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


ماہِ رمضان تمام مہینوں میں سب سے بابرکت اور باعظمت مہینا ہے۔ اس مہینے میں شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے۔ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔اس مبارک مہینے میں مسلمان کثرت سے عبادت کرتے اور رحمتِ الٰہی کے حق دار بنتے ہیں۔حضور ﷺ آمدِ رمضان سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع فرما دیتے اور اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلاتے تاکہ وہ بھی اس مبارک مہینے کی برکتوں سے فیض یاب ہوں ۔

نماز کی کثرت:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم، نورِ مجسم ﷺ کا رنگ مبارک تبدیل ہو جاتا،آپ کی نماز زیادہ ہو جاتی اور خوب دُعا ئیں مانگتے ۔(شُعَبُ الْایمان، 3/310،حدیث:3625 )علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:( رنگ اس لیے تبدیل ہو جاتا)کہ کہیں کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ ہو جائے جس کی وجہ سے حقِّ عبودیت میں کمی ہو۔

(فیض القدیر،5/168،تحت حدیث:: 6681)

قید سے رہائی:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتاتو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رہا کر دیتے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیثِ پاک کے حصےہر قیدی کو رہا کر دیتے کے تحت مرآۃالمناجیح،جلد 3 صفحہ 142 پر فرماتے ہیں: حق یہ ہے کہ یہاں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو حق اللہ یا حق العبد میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق ادا کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔

کمر بند کس لیتے:حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نبیِ پاک ﷺ جب رمضان شریف کا مہینا تشریف لاتا تو اپنی کمر بند کس لیتے۔آپ بستر پر آرام کے لیے تشریف نہ لاتے تھے حتی کہ رمضان گزر جاتا ۔( مسلم،ص462،حدیث: 2787)

رمضان میں سخاوت:حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی تھے اور رمضان شریف میں آپ بہت زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔جبرائیلِ امین علیہ السلام رمضان المبارک کی ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺ ان کے ساتھ قرآن ِمجید کا دور فرماتے۔جب بھی جبرائیل علیہ السلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر( یعنی بھلائی) کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔( بخاری ،1/ حدیث:6)

ہاتھ اٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم! ہیں سخی کے مال میں حقدار ہم

(حدائق بخشش، ص 83)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضور ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے رمضان نیکیوں کے ساتھ گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


رمضان المبارک اپنی عظمتوں، رحمتوں اور برکتوں کے اعتبار سے دیگر مہینوں سے افضل ہے ۔چنانچہ  حدیثِ پاک میں ہے کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:ماہِ رمضان مہینوں کا سردار ہے۔ (موسوعہ ابن ابی الدنیا،1/ 369، حدیث: 33)

اس کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں قرآنِ مجید نازل ہوا اور اسی ماہِ مبارک کا ذکر اللہ پاک نے اپنے کلام قرآنِ مجید میں فرمایا ہے۔اس کے علاوہ کسی اور مہینے کا ذکر قرآنِ پاک میں نام کے ساتھ نہیں آیا۔حضور ﷺ کو رمضان المبارک سے بہت محبت تھی۔آپ کے ظاہری پردہ فرمانے تک کل 9 بار رمضان المبارک نے حاضری دی۔( اسلامی بیانات،14/319)

اس مبارک ماہ سے محبت اور اس کی اہمیت و فضیلت کے پیشِ نظر آپ اس ماہِ مبارک کی آمد پر اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مبارکباد(خوشخبری) دیتے اور آپ اس ماہ میں اپنی عبادات(تلاوت ِقرآنِ پاک اور ذکر و دعا وغیرہ) میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ فرمادیتے۔آئیے! رمضان المبارک میں حضور ﷺ کے مبارک معمولات کے بارے میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیے :

1- آقا ﷺ رمضان المبارک کی آمد پر صحابہ کرام علیہم الرضوان کو مبارکباد دیتے:چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ کا معمول تھا کہ رمضان المبارک تشریف لاتا تو آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو آمد رمضان کی خوشخبری دیا کرتے تھے۔ (موسوعہ ابن ابی دنیا،1/ 364، حدیث: 13)

2-شبِ بیداری اور آخری عشرہ میں عبادت:اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تورسول اللہ ﷺ رات کو زندہ کرتے (یعنی شب بیداری فرماتے)،اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے،عبادت میں خوب کوشش کرتے اور تہبند مضبوطی سے باندھ لیتے (یعنی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے۔)( مسلم،ص462،حدیث: 2787)

3- آقا ﷺ رمضان المبارک میں خوب دعائیں مانگا کرتے:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :جب رمضان تشریف لاتا تو حضور اکرم ﷺ کا مبارک رنگ متغیر(تبدیل) ہو جاتااور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔(شعب الایمان،3/310،حدیث:3625)اس حدیثِ پاک سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم سارا سال خصوصاً رمضان المبارک میں خوب دعائیں کیا کریں ۔

4-ہر قیدی کو رہا فرما دیتےاور اللہ پاک کی راہ میں خوب خوب خیرات فرماتے:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب رمضان آتا تو رسول اللہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر منگتے کو دیتے تھے۔

(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )

اس حدیثِ پاک میں قیدی سے مراد وہ شخص ہے جو حق اللہ یا حق العبد میں گرفتار ہو اور آزاد فرمانے سے اس کے حق ادا کر دینا یا کرا دینا مراد ہے۔یوں تو آپ ہمیشہ ہی سائل کو دیتے تھے کہ آپ کریم ہیں، سخی ہیں، داتا ہیں، مگر ماہِ رمضان میں آپ کی سخاوت سمندر کی موجیں مارتی تھی۔ (مراۃ المناجیح،3/142)

5 - اعتکاف کرنا سنت ہے :ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رحمت عالمین ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ پاک نے وفات ظاہری عطا فرمائی، پھر آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اعتکاف کرتی تھیں۔

(بخاری، 1/ 664،حدیث: 2026)

6 -سحری کرنا سنت ہے:حضرت عرباض ابنِ ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں سحری کے لیے بلایا تو فرمایا:برکت والے ناشتہ کے لیے آؤ۔

(ابوداود،2/442،حدیث: 2344)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں سرکارِ مدینہ،راحتِ قلب و سینہ ﷺ کے صدقے آپ کے طریقہ پر چلتے ہوئے اپنی رضا والی عبادت کی توفیق عطا فرمائے،بالخصوص رمضان المبارک میں خوب عبادت و ریاضت اور سارا سال، ساری زندگی عبادت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


اللہ پاک کا اپنے پیارے پیارے اور آخری نبیﷺ  کی امت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ماہِ رمضان جیسا عظیم الشان مہمان عطا فرمایا ہے۔رمضان المبارک کی اہمیت کے لیے تو یہی ایک فرمان ِمصطفےٰ کافی ہے کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ کاش!پورا سال رمضان ہی ہو ۔ (ابنِ خُزَیمہ،3/190،حدیث:1886)

جنتی صحابی حضرت ابو سعید خُدْرِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،ایک مرتبہ سلطانِ دو جہاں،شہنشاہ ِکون و مکاں،رحمتِ عالمیان ﷺ نے رمضان کی پہلی تاریخ سے 20 رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:میں نے شبِ قدر کی تلاش کے لیے رمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا،پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا، پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے۔( مسلم، ص 457،حدیث:2769)

رمضان کے مہینے کی ایک خصوصیت ہے کہ اللہ پاک نے اس میں قرآنِ پاک نازل فرمایا ہے۔چنانچہ پارہ2 سورة البقرہ کی آیت نمبر 185 میں خدائے رحمن کا فرمانِ عالیشان ہے:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(1۸۵)ترجمہ کنزالایمان: رمضان کا مہینہ،جس میں قرآن اُترا،لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں،تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ پاک تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ پاک کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔

آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ ہو جاتے:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو شہنشاہِ نبوت ،تاجدارِ رسالت ﷺ بیس دن نماز اور نیند کو ملاتے تھے ۔پس جب آخری عشرہ ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے۔ (مسند امام احمد،9/338،حدیث:24444)ایک اور روایت میں فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان تشریف لاتاتو حضور اکرم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر(یعنی تبدیل) ہوجاتا اور نماز کی کثرت فرماتے اور خوب دعائیں مانگتے۔ ( شعب الایمان،3/310،حدیث:3625 )

آقا ﷺ رمضان میں خوب خیرات کرتے:حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو رِہا کرتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے۔( شُعْبُ الْایمان،3/ 311، حدیث 3629 )

رمضان میں ذکر کی فضیلت:امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ انور،مدینے کے تاجدار ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:رمضان میں ذکر اللہ کرنے والے کو بخش دیا جاتا ہے اور اس مہینے میں اللہ پاک سے مانگنے والا محروم نہیں رہتا۔ ( شُعْبُ الایمان،3/311،حدیث:3627)

رمضان المبارک اور معمولاتِ نبوی:نبیِ کریم ﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ رمضان المبارک کا اہتمام ماہِ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ فرماتے تھے۔

نبیِ کریمﷺ کا دعا فرمانا :حضور اکرم ﷺ ماہِ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے: اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ یعنی اے اللہ پاک ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان سے ملا دے۔(معجم اوسط،3/85، حدیث : 3939)

نبیِ کریم ﷺ کس چیز سے روزہ افطار فرماتے تھے؟حضور اکرم ﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتی تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ رسول ِاکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں کوئی روزہ اِفطار کرے تو کَھجور یا چھوہارے سے اِفطار کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے ۔( ترمذی،2/162،حدیث:695)اللہ پاک ہمیں سنت کے مطابق رمضان المبارک گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین یا رب العالمین بجاہِ نبیِ الامینﷺ


حضرت ام المومنین  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقاﷺ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان کے کثرت کے مکمل روزے رکھا کرتے تھے۔(نسائی ،ص365،حدیث : 2179)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب رمضان المبارک کا مہینا آتا تو پیارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ ہر قیدی کو آزاد فرما دیتے اور ہر سوال کرنے والے کو عطا فرما دیا کرتے ۔( شعب الایمان، 3 / 311 ،حدیث:3629)

حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم،نورِ مجسمﷺ تشریف لائے اور فرمایا:آج رات میں نے ایک عجیب خواب میں اپنے امتی کو دیکھا کہ پیاس کی شدت سے زبان نکالے ہوئے تھا اور ایک حوض پر پانی پینے جاتا تھا مگر لوٹا دیا جاتا تھا،اتنے میں اس کے روزے آگئے (اور اس نیکی نے) اس کو پانی پلا کرسیراب کر دیا۔(نوادر الاصول،2/1023 ،حدیث : 1329)

سحری و افطاری:رمضان المبارک میں حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سحری کھانے کے متعلق آپ نے فرمایا :سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔(بخاری، 1/633،حدیث:1923)


خدائے رحمن کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔اس کی تو ہر گھڑی ہی رحمت بھری ہے ۔ماہِ رمضان میں انسان دن بھر اپنے نفس کو کھانے پینے اور خواہشات سے روک دیتا ہے۔ اللہ پاک باطنی عبادت کو پسند فرماتا ہے۔روزہ بھی باطنی عبادت ہے کیونکہ ہمارے بتائے بغیر کسی کو یہ علم نہیں ہوسکتا کہ ہمارا روزہ ہے۔اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ پاک نے قرآنِ پاک نازل فرمایا۔چنانچہ پارہ 2 سورۂ بقرہ آیت نمبر 185 میں رمضان اور نزولِ قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)ترجمہ:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔

یہ وہی ماہِ مبارک ہے جس میں جنت کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا کر دیا جاتا ہے۔ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ بنیادی چیز ہے کہ جس سے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(کتاب اے ایمان والو!،ص97)

حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور ﷺ کا فرمان ہے:پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔(مسلِم،ص144،حدیث:233)

ماہِ رمضان کے فضائل سے کتبِ احادیث مالا مال ہیں ۔اس ماہ میں اس قدر برکتیں اور رحمتیں ہیں کہ ہمارے کریم آقا ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کاش پورا سال رمضان ہی ہو ۔ (ابنِ خُزَیمہ،3/190،حدیث:1886)

رمضان میں پانچ حروف ہیں:ر،م،ض،ا، ن۔ ر سے مُراد رحمتِ الٰہی،م سے مُراد محبتِ الٰہی،ض سے مُراد ضمانِ الٰہی،الف سے مُراد امانِ الٰہی،ن سے مُراد نورِ الٰہی۔رمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتیں ہیں: روزہ،تراویح،تلاوتِ قرآن،اِعتکاف اور شبِ قدر میں عبادت ۔تو جو کوئی سچے دل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ ان پانچ انعاموں کا مستحق ہے ۔ (تفسیر نعیمی،2/208)

ماہِ رمضان میں ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کی عبادت اور اُس کی رضا والے کام کرکے مغفرت کی بھیک مانگیں اور ہر وہ عمل کریں جس میں ہمارے آقا ﷺ کی رضا ہو۔اگر اس مبارک مہینے میں بھی کوئی اپنی بخشش نہ کروا سکی تو کب کروائے گی! ہمارا جو معمول سارا سال ہوتا ہے وہی رمضان میں ہوتا ہے۔ بعض تو ایسی بھی ہیں جو روزہ تو رکھ لیتی ہیں مگر اُن کا ٹائم پاس نہیں ہوتا ۔لہٰذاوہ احترامِ رمضان اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کو نظر انداز کرکے حرام و ناجائز کاموں کا سہارا لے کر وقت پاس کرتی ہیں۔ آئیے!ہمارے سردار محمد مصطفےٰ ﷺ کے رمضان گزرنے کے انداز کے متعلق پڑھتی ہیں:

آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ ہوجاتے:آخری نبی،محمد مصطفےٰ ﷺ اس ماہِ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ خدا میں بہت زیادہ مگن ہوجاتے تھے۔چنانچہ مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراج ﷺ اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر ِمُنَوَّر پر تشریف نہ لاتے ۔( تفسیر در منثور،1/449)

آقا ﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے تھے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا مہینا تشریف لاتا تو حضورِ اکرم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر( بدل) جاتا۔ آپ نماز کی کثرت فرماتے، خُوب گِڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔

(شعب الایمان،2/210،حدیث: 2625)

لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ سحری اور بالخصوص افطار میں لازمی رب کی بارگاہ میں دعائيں مانگیں کہ اس وقت دعا رد نہیں کی جاتی ۔

آقا ﷺ رمضان میں خوب صدقہ خیرات کرتے:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو غمگساروں کے آقا،سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر مانگتے کو دیتے تھے۔

(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )

یوں تو ہمیشہ آپ ہر ایک کو عطا فرماتے مگر ماہِ رمضان میں آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا۔ اِس ماہِ مبارک میں صدقہ و خیرات کرنا بھی سنتِ مبارکہ ہے۔چنانچہ

سب سے بڑھ کر سخی: عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور سخاوت کا دریا اُس وقت جوش پر ہوتا جب رمضان میں آپ سے ملاقات کے لیے جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوتے۔جبرائیل علیہ السلام ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺ اُن کے ساتھ قرانِ عظیم کا دَور فرماتے۔پس رسول اللہ ﷺ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر کے معاملے میں سخاوت فرماتے ۔ ( بُخاری،1/ حدیث:6)

اللہ پاک کی عظیم نعمتوں میں روزہ جیسی نعمت بھی ہے،نیز سید المرسلین ﷺ کا ارشادِ پاک ہے:روزہ رکھو صحت یاب ہو جاو گے۔(معجم اوسط،6/146،حدیث:8312)

معلوم ہوا !روزہ رکھنا اجروثواب کے ساتھ ساتھ تندرستی کا بھی زریعہ ہے۔لہٰذا جہاں ہمیں روزے جیسی نعمت ملی تو ساتھ ہی قوت کے لیے سحری کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس میں بھی ہمارے لیے ڈھیروں ثواب رکھ دیا ۔ہمارے آقا ﷺ اگرچہ کھانے پینے کے ہماری طرح محتاج نہیں،تاہم ہمارے پیارے آقا ﷺ ہم غلاموں کی خاطر سحری فرمایا کرتے اور سحری کے بغیر روزہ رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ سحری سنتِ مبارکہ ہے ۔چنانچہ نبیِ کریم ﷺ اپنے ساتھ جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو سحری کھانے کے لیے بُلاتے تو ارشاد فرماتے: آؤ! برکت کا کھانا کھا لو۔(ابوداود،2/242،حدیث:2344)

اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے حبیب ﷺ نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چُلُّو پانی پیتے۔ ( ابوداود،2/447،حدیث:2365)لہٰذاہماری بھی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افطار میں کباب سموسوں اور بازاری چیزوں کے بجائے میٹھی تر کھجوریں مل جائیں کہ یہ ہمارے میٹھے آقا ﷺ کی میٹھی سنتِ مبارکہ ہے ۔

نوافل و اعتکاف:جب رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے تو سرکارِ مدینہ ﷺ عبادت پر کمر باندھ لیتے،اِن میں راتوں کو جاگا کرتے اور اپنے اہل (یعنی گھر والوں) کو جگایا کرتے۔رمضان المبارک کے ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے،اسے پانے کے لیے ہمارے آقا ﷺ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا اور آخری دس دن کا بہت اہتمام فرمایا،یہاں تک کہ ایک بار کسی عذر کے سبب اعتکاف نہ کر سکے تو شوال المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔(بُخاری،1/671،حدیث:2041)اسی طرح ایک مرتبہ سفر کی وجہ سے آپ کا اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان 20 دن کا اعتکاف فرمایا۔(تِرمذِی،2/ 212،حدیث:803 ملخصاً)آپ کی اسی سنتِ کریمہ کو زندہ رکھتے ہوئے اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی اعتکاف فرمایا کرتیں۔ہمیں بھی اگر ہر سال نہیں تو کم از کم زندگی میں ایک بار اس سنتِ مبارکہ پر عمل کی نیت سے اعتکاف کر لینا چاہیے کہ اعتکاف کرنے کا مقصد شبِ قدر کی تلاش بھی ہے ۔اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اخلاص و آداب کے ساتھ فرض روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،پیارے آقا کریم ﷺ اور آپ کی سنتوں سے محبت عطا فرمائے اور مدینے میں جلد ہی رمضان دکھا ئے۔اللھم اٰمین