1( - Copy.jpg)
27 مئی 2022
ء بروز جمعہ دار المدینہ اسلامک اسکول ، لاڑکانہ میں شعبہ تعلیم کےتحت مدنی مشورہ
کیا گیا جس میں ٹیچرز اور وہاں کے اسٹاف نے شرکت کی ۔
تفصیلات کے مطابق شعبہ تعلیم لاڑکانہ ڈویژن کے ذمہ دار مولانا
منصور احمد مدنی عطاری نے اس مدنی مشورے میں شرکت کی اور دیگر ذمہ داران سے ملاقات
کی اور سنتوں بھرا بیان کیا جس میں راہ خدا میں سفر کرنے کی فضیلت پر گفتگو ہوئی
اور ایک ماہ و 12 دن کے مدنی قافلے میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی جس پر وہاں موجود
اسلامی بھائیوں نے خوب اچھی اچھی نیتیں کیں ۔(کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس انصاری )
.png)
علمِ دین یقینا بڑی ہی عظیم نعمت ہے
اور جو خوش نصیب لوگ اسے حاصل کرتے ہیں یقینا وہ دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب
ہوتے ہیں۔ان لوگوں پر اللہ پاک کا فضلِ خاص ہوتا ہے جیسا کہ حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس کے ساتھ
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔علمِ دین کی اہمیت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اللہ پاک کے نزدیک کوئی شے علم سے بہتر
ہوتی تو حضرت آدم علیہ السلام کو وہ ملائکہ
کے مقابل میں دی جاتی کہ فرشتوں کی تسبیح علمِ اسماء کے برابر نہ ٹھہری تو پھر
دیگر علومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہوگی اور جب کوئی بندہ اس علم کو حاصل کرے
تو خود اس کی عظمت و بلندی کا کیا مقام ہوگا!ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے
بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔(پ20،العنکبوت:43)اس
آیتِ مبارکہ سے بھی علم کی روشنی معلوم ہوتی ہے۔علما کی فضیلت پر فرامینِ مصطفٰے:حدیث
نمبر1: نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔(
ابن ماجی،حدیث:223)لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا!جس کے لئے زمین و
آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہوں یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے ان کے
لئے استغفار میں مشغول ہیں۔حدیث نمبر 2:جس نے میری امت کے لیے احکام کی چالیس
حدیثیں یاد کیں اور ان تک پہنچا دیں میں قیامت کے دن اس کا شفیع اور گواہ ہوں گا ۔(جامع
بیان علم وعمل،ص63،حدیث:188)حدیث
نمبر3:تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے علم کو عبادت اور شہادت سے افضل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:عالم کی فضیلت
عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابی پر۔ (ترمذی،4/314،حدیث:2694بتغیر)۔حدیث
نمبر4:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن قسم کے لوگ شفاعت کریں گے انبیا، علما، شہدا۔(ابن
ماجہ،4/526،حدیث:4313)اس حدیث ِمبارکہ سے معلوم ہوا!زیادہ
عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہو اور یہ مرتبۂ
شہادت سے بڑھ کر ہے اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث ہیں۔حدیث نمبر5:نبیِ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو
اٹھائے گااور پھر ان سے فرمائے گا: اے علما کے گروہ !میں تمہیں جانتا ہوں اس لیے
تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہ دیا تھا کہ تمہیں عذاب
میں مبتلا کروں!جاؤ!میں نے تمہیں بخش دیا۔(جامع بیان
علمہ وفضلہ،ص69،حدیث:211)ان تمام آیات و احادیث سے علما کی
فضیلت معلوم ہوئی۔اللہ پاک ہمیں بھی گروہِ
علما سے محبت کرنے والیوں میں شامل فرمائے۔ہم اللہ پاک سے حسنِ خاتمہ کی دعا کرتی
ہیں۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
عِلم زندگی اور جہالت موت ہے۔عِلم کی
فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم علیہ
السلام
کو علم کی وجہ سے فرشتوں پر برتری حاصل ہوئی۔ علم ہی کے ذریعے سے الله پاک کی
پہچان حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ٔکنزالایمان: تم فرماؤ
کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔ ( پ 23 ،الزمر: 9)ایک
اور جگہ ارشادِ باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:الله سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں
جو علم والے ہیں۔ (پ22، الفاطر:28)اولیائے کرام
کا فرمان ہے:صوفِی بے عِلم مسخرہ ٔشیطان است یعنی بے علم صوفی شیطان کا مسخرہ ہے۔ (علما
پر اعتراض منع ہے، ص10-فتاویٰ رضویہ، 24/ 132)5 :فرامینِ
نبی ِآخر الزماں:1: انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
کے وارث:علما کو انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام
کے وارث ارشاد فرمایا۔(احیاء العلوم،1/45-ابن ماجہ،1/146،حدیث:223)
انبیائے
کرام علیہم
الصلوۃ و السلام نے اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے، بلکہ
ان کی میراث علم ہے۔علما کو انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
کے وارث اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام
کی میراث حاصل کرتے ہیں۔ (یعنی علمِ دین)
اور اللہ پاک اور اس کے رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے قرب کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں۔2:
عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں دو آدمیوں ، عابد اور عالم کا
ذکر ہوا، آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے
میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(انوار حدیث، ص63-ترمذی- مشکوة ) 3:عالم
شیطان پر بھاری:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے، مکی مدنی مصطفٰے صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک
عالِم شیطان پر ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ بھاری ہے۔ (انوار حدیث ص
64، ترمذی ، مشکوة ) ایک عالمِ دین لاکھوں لوگوں کو عِلم سکھاتا ہے،راہِ
ہدایت بتاتا ہے،شیطان کے مکرو فریب سے آگاہ کرتا ہے،بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا
ہے جبکہ ایک عابد کا فائدہ صرف اپنی ذات
کے لیے ہوتا ہے۔ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ کا فرمان ہے: بے علم اپنی بے علمی کی وجہ
سے عبادت میں سو گناہ کرتا ہے اور آفت یہ کہ ان کو گناہ بھی نہیں سمجھتا، عالمِ
دین اپنے گناہ میں اللہ پاک کے خوف اور اپنے گناہ پر شرمندگی کی وجہ سے نجات پا
جاتا ہے۔(علما
پر اعتراض منع ہے ص 12،فتاویٰ رضویہ 23 / 687)4: عالِم کے
لیے دعائے مغفرت:زمین و آسمان میں موجود ہر چیز عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔ (
احیاء العلوم، ص45، ابن ماجہ، حدیث:223، ج 1، ص 146)سبحان اللہ!
کیا مقام و مرتبہ ایک عالِم کو حاصل ہے کہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کے لیے
دعائے مغفرت کر رہی ہے۔ کتنا خوش نصیب ہے وہ انسان جس کے لیے زمین و آسمان کی
مخلوق محوِ دعا ہے۔
5: درجۂِ نبوت اور علما:درجۂِ نبوت
کے سب سے زیادہ قریب لوگوں میں سے علما و مجاہدین ہیں ۔ کیوں کہ علما رسولوں کی
بتائی گئی باتیں لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی
حفاظت کرتے ہوئے تلواروں سے لڑتے ہیں۔ (احیاء العلوم ص 46، المرجع
السابق، حدیث 132، ص 148)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ
کا فرمان ہے : راتوں کو عبادت کرنے والے اور دن بھر روزہ رکھنے والے ایک ہزار
عابدوں کی موت ایک عالِم کی موت سے آسان ہے جو اللہ پاک کی حلال اور حرام کی ہوئی
چیزوں کا عِلم رکھتا ہے ۔(احیاء العلوم ص 57،جامع بیان العلم
وفضلہ باب تفضیل العلم علی العبادة ،الرقم 115، ص42 بتغیر)اللہ
پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے۔علمائے اہلِ سنّت کا سایہِ
عاطفت ہم پر تادیر قائم رکھے اور ہمیں علمائے کرام کا احترام کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم ۔( انوار حدیث* احیاء العلوم * علما پر
اعتراض منع ہے )
.png)
قرآنِ پاک میں علما کی فضیلت کچھ یوں
بیان فرمائی گئی ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اللہ تمہارے ایمان والوں اور ان کے جن کو
علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)اس
آیت سے علم و علما کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے ہاں علما
کے درجات بہت بلند ہیں اور وہ عزت دار ہیں۔اللہ پاک نے اہلِ علم کو باقی مخلوق سے
افضل قرار دیا ہے۔ اللہ پاک کا قرب پانے، اپنی آخرت سنوارنے اور مومنین صالحات کے
اوصاف پانے کے لیے علما کی ضرورت ہمارےلیے نہایت اہم ہے۔علما کی فضیلت بہت سی احادیثِ
مبارکہ میں وارد ہے۔اس متعلق پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے:1:حضرت حذیفہ بن یمان رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے
بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا بہترین عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے۔(معجم
اوسط،3/92)2:حضرت سمرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ،نور کے پیکر،سلطانِ بحر و بر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علماکی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا
اور ایک روایت میں ہے :علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ جائے گی۔(تاریخِ
بغداد،2/190)
3:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں:نور کے پیکر صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت
کے دن عالم اور عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا:جنت میں داخل
ہوجاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا:جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔(الترغیب
والترھیب،1/57)4:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے ،اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کو عابد پر ستر درجے فضیلت حاصل ہے
اور ان میں سے ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا تیز رفتار گھوڑے کی ستر
سال دوڑتا سفر ہے۔(الترغیب والترھیب،1/57)5:حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ایک فقیہ عالم شیطان پر ایک ہزار
عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ علمِ
دین حاصل کرنے اور علمائے کرام کا ادب و احترام بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
جس طرح علم کے فضائل
و فوائد قرآنِ کریم اور احادیث اور روایات میں بے شمار وارد ہیں اسی طرح علما کے فضائل
بھی قرآنِ کریم اور احادیثِ کریمہ میں کثرت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں چنانچہ اللہ پاک
قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے
ہیں۔(پ22،الفاطر:28)جو جتنا زیادہ
اللہ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہوگا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ پاک سے ڈرتا ہوگا اور
جس کا علم کم ہوگا تو اس کا خوف بھی کم ہوگا، لہٰذا علمائے کرام کو عام لوگوں کے مقابلے
میں زیادہ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیئے اور لوگوں کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی
چاہیے۔علما کے فضائل کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے۔1:امام ترمذی نے روایت کیا
کہ رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(فیضان علم و علما،ص13)2:حضرت امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یعنی عالم کو ایک نظر
دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔(منہاج
العابدین،ص11)3:ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں علما و مجاہدین درجۂ نبوت کے سب سے زیادہ قریب
ہیں۔علما تو رسولوں کی لائی ہوئی باتوں کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں اور مجاہدین
رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(احیا العلوم،1/46) 4:ایک روایت
میں ہے:علما آسمانوں میں ستاروں کی مثل ہیں جن کے ذریعے خشکی اور تری کے اندھیروں میں
راہ پائی جاتی ہے۔(صراط الجنان،پ28،المجادلۃ:11)5:ہمارے آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔انبیا
علیہم الصلوۃ و السلام نے درہم و دینارترکہ میں نہ چھوڑے ،علم اپنا ورثہ چھوڑا ہے۔جس نے علم پایا اس
نے بڑا حصہ پایا۔(فتاویٰ رضویہ)اللہ پاک ہمیں علمائے
کرام کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
علم وہ دولت ہے جو لٹتی نہیں ،خرچ کرنے
سے کبھی گھٹتی نہیں،اللہ پاک کے فضل و کرم سے آج مجھے علم و علما کے فضائل پر مختصر
سی روشنی ڈالنے کا شرف حاصل ہوا ہے ۔علم حاصل کرنا ہر عاقل و بالغ مرد و عورت پر فرض
ہے عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے چاند کو تمام ستاروں پر ایک عالم کی مثال
کمرے میں رکھے ہوئے چراغ کے مانند ہیں تو چراغ کی روشنی جہاں تک جاتی ہے وہ تمام کمرے
کو روشن کرتا ہے ایسے ہی ایک عالم با عمل اپنے علم سے اپنی بھی دنیا و آخرت کو سنوارتا
ہے اور اپنے علم کا فیض دوسروں تک بھی پہنچاتا ہے ۔علما پیغمبروں کے وارث ہیں ۔علمائے
دین عوام الناس کے لئے علمِ دین کا سرچشمہ ہوتے ہیں جن سے علمِ دین کے پیاسے اپنے علم
کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ علما کی فضیلت احادیث کی روشنی میں۔ 1۔حضرت ابو درداء رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آسمانوں اور زمین میں موجود
تمام مخلوق ،یہاں تک کہ پانی کے اندر مچھلیاں بھی عالم کے لئے مغفرت طلب کرتی ہیں
۔اور عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے چاند کو سارے ستاروں پر فضیلت حاصل ہے
۔ بیشک علما ہی انبیا و رسل علیہم السلام کے وارث ہیں اور
انبیا و رسل علیہم
السلام
نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا ،بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ۔پھر
جس نے اس عالم کو لے لیا اس نے (وراثت نبوت سے )پورا
پوراحصہ لے لیا۔ (جامع ترمذی شریف حدیث نمبر 2682) 2:حضرت عثمان ذو النورین رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین طرح کے لوگ شفاعت
کریں گے :پہلے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر
علمائے دین اور پھر شہدائے اسلام شفاعت کریں گے ۔( ابن ماجہ شریف
،حدیث نمبر4313 ) 3:حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی
اللہ عنہما
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین
کی سمجھ عطا فرما دتا ہے اور بے شک میں علم بانٹنے والا ہوں اور اللہ پاک مجھے عطا
فرمانے والا ہے۔ یہ امت ہمیشہ خیر پر رہے گی ،انہیں خوار کرنے والا کوئی نقصان نہیں
پہنچا سکے گا حتی کی اللہ پاک کا فیصلہ آجائے۔ (
بخاری شریف )
4۔۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں :حضور پر نور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ان میں سے
ایک عالم کا دوسرا عابد تو حضور پر نور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عالم کو عابد پر ایسی فضیلت
حاصل ہے جیسے میری فضیلت تمام ادنی پر ۔ (ترمذی شریف ) 5حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
یہ قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک فقیہ عالمِ دین ابلیس کے اوپر ایک ہزار عبادت
گزاروں سے بڑھ کر بھاری ہے ۔علما کی صحبت کے فوائد:علم حاصل ہوتا ہے ،ایمان کی حفاظت
ہوتی ہیں ،نیک کام کرنے اور گناہ سے بچنے کی توفیق حاصل ہوتی ہے ،اللہ پاک اور اس کے رسول صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت حاصل ہوتی ہے ،حلال روزی کمانے
اور حرام سے بچنے کی سمجھ حاصل ہوتی ہے وغیرہ بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ آخر میں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی علم
سیکھنے اور اس پر عمل کرنے ،اور تمام علما کی تعظیم و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے
۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
ہم کو اے عطار
سنی عالموں سے پیار ہے ان
شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
علما کے فضائل پر 5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ محمد اکرم
عطاریہ،گلشن معمار
.png)
علم کی طلب اور اس کی تلاش آج اس دور
میں جوئے شیر لانے سے بھی زیادہ ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔علم سے مراد قرآن و
حدیث اور تفسیر و فقہ اور وہ جو دین کے لیے مفید ہوں وہی مراد ہے۔ کالج،اسکولوں
اور دوسرے فنون مراد نہیں ہے۔ آج کے دور میں علومِ اسلامیہ کو صرف مخصوص طبقے کے
لیے مخصوص کر رکھا ہے حالانکہ علمِ دین، علم شرعی حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت
پر فرض ہے۔ علم کی فرضیت سے متعلق قرآن و حدیث سے ہمیں روشنی حاصل ہوتی ہے،اسی طرح
علم پڑھانے والوں، سکھانے والوں کے بھی بے شمار فضائل قرآن و حدیث میں بیان کیے
گئے، چنانچہ حج کا ثواب:(1)حضرت ابو سعید خدری رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص دین کی حالت صبح یا شام کو چلا
وہ جنت میں ہے۔(حلیۃ
الاولیا،جلد2-ھامع صغیر،ص176) شیخ عبدالعزیز رحمۃُ
اللہِ علیہ اس حدیث کو ان لفظوں میں نقل فرماتے ہیں:جو
شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت چلے اور اس کا ارادہ صرف یہ ہو کہ وہ علمِ دین سیکھے
اور سیکھائے تو اس کے لیے پورے حج کا ثواب ہے ۔(طبرانی)(2)دنیا
میں جنتی لوگ:سید المبلغین،رحمۃ اللعلمین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو صبح شام جائے اس حال میں کہ وہ اپنے
دین سکھانے میں مصروف ہو تو وہ جنت میں ہے۔(حلیۃ
الاولیاء)
شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:(3)امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ
نے روایت کیا ،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی
اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب
آئے گی۔(جامع
بیان العلم وفضلہ،ص48،حدیث:139)(4)علما شفاعت کریں گے:احیاء العلوم
میں مرفوعاً(مرفوع
اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند حضور نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تک پہنچتی ہو)
روایت کرتے ہیں: خدا پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں
جاؤ!علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم
ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس
علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جائیں گے۔(فیضان علم و
علما،ص14)(3):اللہ
پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے
سوراخ میں یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو
بھلائی سکھاتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص19)سبحان اللہ!فرامینِ
مصطفٰے کی روشنی میں علمائے کرام کی کیسی عظیم شان معلوم ہوتی ہے کہ ان کے لیے
چرند پرند بھی فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں، بھلائی چاہتے ہیں،اللہ پاک کی حفاظت اور
رحمت میں ہوتے ہیں،دنیا میں رہتے ہوئے علما کے لیے جنت کی فضیلت ہے،دنیا والے علما
کی قدر کرتے ہیں ۔حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ
نے روایت کیا:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔معلوم ہوا!عالم
کی زیارت و صحبت بھی عبادت ہے۔دورِ حاضر میں دعوتِ اسلامی لاتعداد مرد و خواتین کو
عالم/عالمہ کورس کی مفت تعلیم دے رہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسا ماحول فراہم کرنے
کی کوشش کی جاتی ہے کہ پڑھنے والے اور والیاں علم وعمل کے پیکر بن کر نکلیں۔اللہ
پاک سے دعا ہے کہ معلمِ عظیم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے ہمیں علم وعمل کی دولت اور علما کے بابرکت
فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں:علم مدارِ کار اور
قطبِ دین ہے۔یعنی علم دین میں کامیابی کی بنیاد ہے یعنی علم کے بغیر کوئی انسان خدا
پاک تک معرفت حاصل نہیں کر سکتا۔فی الواقع کوئی کمال دنیا و آخرت میں بغیر اس صفت یعنی علم کے حاصل اور ایمان
کے بغیر اس کے کامل نہیں ہوتا۔بے علم نتواں خدارا شناخت یعنی بغیر علم کے خدا کو پہچان نہیں سکتے۔اللہ
پاک کی طرف علم سے قریب تر اور کوئی چیز خدا کے نزدیک جہل یعنی بے عملی سے بدتر نہیں
۔اگر خدا پاک کے نزدیک کوئی شے علم سے بہتر ہوتی تو حضرت آدم علیہ السلام کو مقابلہِ ملائکہ
یعنی فرشتوں کے مقابل میں دی جاتی۔فرشتوں کا پاکی بیان کرنا علم اسماء کے برابر نہیں
ٹھہری اور پھر دین کا علم کس قدر مرتبے والا اور اس علم کے ماہر اور جاننے والے کیسے
ہوں گے!قرآنِ کریم سے علما کے فضائل:قرآنِ مجید پارہ 22،سورۂ فاطر: 28 میں فرمانِ رب العزت ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں
میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ ڈر کو علما کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ ہے کہ جب
تک انسان خدا کے قہر اور بے پروائی اور احوالِ دوزخ اور احوالِ قیامت کو تفصیل سے نہیں
جان سکتا اور تفصیل ان چیزوں کی علما کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی
میں علما کی فضیلت:حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:1:ایک عالم شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے کیونکہ
عابد اپنے لیے کرتا ہے اور عالم دوسروں کے لیے کرتا ہے۔(کنزالعمال،ص76،حدیث:28904)حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:2:اس عالم سے بڑھ کر شیطان کی کمر توڑ کر رکھ
دینے والی کوئی شے نہیں جو اپنے قبیلے میں ظاہر ہو۔ (کنزالعمال:28751)حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:3:ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی کے
اندر عالم کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں
رات کے چاند کی فضیلت ستاروں پر اور علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث و جانشین
ہیں۔انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کا ترکہ دینار و درہم نہیں ہیں۔انہوں نے وراثت میں صرف علم چھوڑا جس نے اسے حاصل
کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔ (ترمذی،حدیث:2691)4:شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی رحمۃُ
اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے
گا، روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آ جائے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،حدیث:139)5:علما شفاعت کریں گے:احیاء العلوم میں روایت ہے کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں
اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ!علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے
سے عبادت کی اور جہاد کیا، حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو ،شفاعت کرو
کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس وہ شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جائیں گے۔(احیاء العلوم،ص26)6:علما کی
مجلس میں حاضری کی فضیلت:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت
نماز،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔(قوت القلوب،ص257)7:درجۂ نبوت
سے قریب تر:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے یعنی لوگوں میں سے درجۂ نبوت
سے علما اور مجاہدین ہیں۔(احیاء
العلوم،ص20)رات بھر عبادت سے بہتر:ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان علم والے اور علم
والوں کی قدر کرنے والے تھے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان علم حاصل کرنے کے
معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لینا پسند فرماتے چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مجھے
ایک مسئلہ سیکھنا رات بھر کی عبادت سے زیادہ عزیز ہے۔حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عالم
روزہ دار شب دار یعنی دن رات عبادت کرنے والے
مجاہد سے افضل ہے۔ مخلوق کی بربادی کا سبب:حضرت امام محی السنۃ بغوی رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں
کہ ہلاکِ خلق یعنی مخلوق کی بربادی کی علامت موت علما کی ہے یعنی جب علما مر جائیں
گے لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ ہمیں اللہ پاک سے
دعا کرتی رہنا چاہیے کہ ہمیں علمائے اہل سنت سے محبت کرنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے
کی چلائے ۔رضائے الٰہی کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنے اور علما کے
فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
.png)
علمائے ربانی وہ ہیں
جو خود اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں،جن کی محبت سے خدا کی کامل
محبت نصیب ہوتی ہے۔ جس عالم کی محبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت میں کمی نہ آئے وہ عالم ہے۔ علمِ دین یقیناً بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا سہرا
انہی خوش نصیبوں کے سر پر سجتا ہےجنہیں اللہ پاک اپنے فضل سے خاص نوازتا ہے۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ
بوجھ عطا فرماتا ہے۔علما کے فضائل پر اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: گواہی
دی اللہ نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوائے اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے وہ
اللہ باانصاف یعنی انصاف کرنے والا ہے۔ آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول: ملک شام کے غیر
مسلم علما میں سے دو افراد سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئے۔ جب انہوں نے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا:نبیِ آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہر کی یہی صفت ہے جو اس شہر میں پائی جاتی ہے۔پھر جب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صورتِ مبارکہ
اور اوصافِ کریمہ کو تورات کے مطابق دیکھ کر فوراً آپ کو پہچان لیا اور عرض کی:آپ محمد(صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم) ہیں؟ تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ہاں !انہوں نے پھر عرض کی:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ انہوں نے عرض کی :ہم آپ سے ایک سوال کریں گے اگر آپ نے درست جواب
دے دیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: سوال کرو ،انہوں نے عرض کی: کتاب اللہ میں سب سے بڑی شہادت کون سی
ہے؟ اس پر مذکورہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور اسے سن کر وہ دونوں شامی علما مسلمان ہو
گئے۔ اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیا
علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیا رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس سے معلوم ہوا اہلِ
علم بڑی عزت والے ہیں کہ رب کریم نے انہیں اپنی توحید کاگواہ اپنے ساتھ بنایا لیکن علمائے دین سے مراد علمائے
ربانی ہیں یعنی صحیح العقیدہ اور صالحین علما ہیں۔علما کے فضائل: حدیث نمبر1: امام
ترمذی رحمۃُ
اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا، ایک عابد اور دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا: بزرگی
عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر ۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694) حدیث نمبر2:احیاء
العلوم میں مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ پاک قیامت
کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:بہشت میں جاؤ! علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں
نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند
ہو، شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہو ،پس پہلے علما شفاعت کریں گے پھر جنت میں جائیں
گے ۔(احیاء العلوم،1/62)حدیث نمبر
3:امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں:عالم کو ایک نظر
دیکھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔ (منہاج
العابدین،ص11)حدیث نمبر4: امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے
گا،روشنائی یعنی سیاہی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ (جامع البیان و فضلہ،ص47،حدیث:139)حدیث نمبر5: ابو داؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص طلبِ علم میں کسی راہ پر چلا تو خدا اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور
بے شک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک عالم کے
لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور آسمان والے یہاں تک مچھلیاں پانی میں اور بے
شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی فضیلت سب ستاروں پر اور
بے شک علما وارثِ انبیا ہیں اور بے شک پیغمبروں نےدرہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث
چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔علما کی مجلس کے فوائد:حضرت فقیہ
ابواللیث سمرقندی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص عالم کی مجلس میں جائے اس کو سات فائدے حاصل
ہوتے ہیں اگرچہ اس سے استفادہ یعنی اپنی کوشش سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرے۔1: جب جب تک
اس مجلس میں رہتا ہےگناہوں اور فسق و فجور سے بچتا ہے۔2:طلبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔3:طلبِ
علم کا ثواب پاتا ہے۔4: اس رحمت میں کہ جلسۂ علم پر نازل ہوتی ہے۔5:جب تک علمی باتیں
سنتا ہے عبادت میں ہے۔6:جب کوئی مشکل بات ان علما کی اس کی سمجھ میں نہیں آتی تو دل
ٹوٹ جاتا ہے اور شکستہ دلوں میں لکھا جاتا ہے۔7: علم و علما کی عزت اور جہل وفسق کی
ذلت سے واقف ہو جاتا ہے۔اقوالِ علما:1:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالمِ
با عمل کو ملکوتِ آسمان میں عظیم یعنی بڑا شخص کہتے ہیں۔2حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے درجۂ نبوت سے علما ومجاہدین ہیں یعنی ان علما
کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبے سے بنسبت تمام خلق مخلوق کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز
پر جو پیغمبر لائے تلاوت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس پر کہ پیغمبر تلواروں سے لڑتے ہیں۔حضرت
مولیٰ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:عالم روزہ دار، شب بیدار یعنی عالم دن رات عبادت
کرنے والے مجاہد سے افضل ہے۔دعا:الحمد للہ ہم نے اس مضمون میں علم و علما کے فضائل
پڑھے۔اللہ پاک ہمیں علم و علما کے فیضان سے مالا مال فرمائے ۔آمین اللھم آمین
.png)
علمِ دین یقیناً بہت
بڑی نعمت ہے اور جو خوش نصیب لوگ اسے حاصل کرتے ہیں یقیناً وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو
اور کامیاب ہوتے ہیں اور ان پر اللہ پاک کا فضل خاص ہوتا ہے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں
علما کے متعلق فرماتا ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28)مولانا نقی
علی خان رحمۃُ
اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
ڈر کو علما کے ساتھ خاص لیے کیا گیا کہ ظاہر ہے کہ جب تک انسان اللہ پاک کے غضب اور
بے نیازی اور دوزخ کے احوال اور قیامت کی ہولناکیوں کو تفصیل کے ساتھ نہیں جانتا اس
وقت تک حقیقتِ خوف و خشیت اس کو حاصل نہیں ہوتی اور ان چیزوں کی تفصیل علما کے سوا
کسی کو معلوم نہیں۔(فیضان علم و علما،ص11)علمِ دین کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
اگر اللہ پاک کے نزدیک کوئی شے علمِ دین سے بہتر ہوتی تو وہ ملائکہ کے مقابلے میں حضرت
آدم علیہ السلام کو دی جاتی کہ فرشتوں
کی تسبیح حضرت آدم علیہ السلام کے علم ِاسما کے برابر نہ ٹھہری تو پھر دیگر علومِ دینیہ کی
بزرگی کس مرتبہ میں ہو گی اور غور کیجیے!جب کوئی اس علم کو حاصل کر لے تو اس کی عظمت
و بلندی کا کیا مقام ہوگا! نورِ علم کو جہاں میں بانٹتے پھریں چراغ کو چراغ سے جلائیں
گے یہ عزم ہے۔اس کے علاوہ بہت سی آیات و احادیث میں علما کے فضائل بیان ہوئے،چنانچہ
5 فرامینِ مصطفٰے پڑھئے۔1:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خدائے
پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا کرتا ہے یعنی کوئی
انسان اپنے انجام سے واقف نہیں ہوتا لیکن فقیہ، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اخبار کے ذریعے اپنے انجام کو جانتا ہے اور یہ اللہ پاک نے اس کے ساتھ بھلائی
کا ارادہ کیا۔(فیضان علم و علما،ص16) 2:آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا: ایک عابد اور دوسرا
عالم۔آپ نے فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر
۔(فیضان علم و علما،ص14)3:آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ
یعنی عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری
ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے جبکہ عالم پوری دنیا کو ہدایت کرتا ہے اور
شیطان کے مکر و فریب سے بچاتا ہے۔(فیضان علم و
علما،ص18)4: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت
کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو علما کی دواتوں کی
سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(فیضان علم و علما،ص14)5:رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو طلبِ علم میں کسی راہ پر چلے خدا اسے بہشت کی
راہوں میں سے ایک راہ پر چلا دے گا۔بے شک فرش اپنے بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے
بچھاتے ہیں۔بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں
تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں رات
کے چاند کی فضیلت ستاروں پر۔ بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں ۔بے
شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم
حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا ۔(فیضان علم و
علما)
ہم کو اے عطا ر سنی عالموں سے پیار ہے
ان شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
.png)
راہِ ہدایت پر
چلنے کے لیے گناہوں اور گمراہی والی اندھیری زندگی میں علم چراغ کی روشن لو اور علما اس روشن چراغ کے تیل کی مانند ہیں کہ چراغ میں تیل نہ ہو تو وہ روشن بھی نہ ہو اور نہ
بندہ ہدایت پا سکے ۔اللہ پاک کے نیک اور علم والے بندے ہی اس سے ڈرتے ہیں اور اس کی معرفت رکھتے ہیں
اور وہ ہی امت کے لیئے راہنما ہوتے ہیں ۔
علمائے کرام کو اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ اس کا مکمل
بیان کرنا مشکل ہے۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت
کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو روکا ہوگا حساب کتاب کے لیئے اور علما کو شفاعت کے
لیئے۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور حضور
صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے علما کے کثرت سے فضائل بیان کیےقرآنِ پاک میں ہے:اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ
عِبَادِهِ الْعلماءُ۔ترجمۃ:اللہ پاک
سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔ بندےکے دو احوال ہیں دنیاوآخرت اور
علما ئے کرام دونوں احوالوں میں نہ صرف عام لوگوں پرفضیلت رکھنے والے ہیں بلکہ عابدین پر بھی فضیلت رکھتےہیں
چنانچہ سرکار صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ(علم فقہ
جاننے والا) ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔ (فیضان امہات المؤمنين،ص:118) ،بلکہ ان کے دواتوں کی روشنائی اور شہدا کے خون کا وزن کیا جائے گا۔ فرمایا
ہے:عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس
پر غالب ہو جائے گی ۔(فیضان امہات المؤمنين،ص:118)اس کے لئے دعائےمغفرت کی جاتی ہے۔سرکاردوعالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ
پاک،اس کے فرشتے،آسمانوں اور زمین کی مخلوق یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں
اور مچھلیاں لوگوں کو دین کا علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(مشكواةالمصابیح ،کتاب العلم ،ج 1، ح:202)۔اور
ان کو مقام شفاعت عطا ہو گا۔حضورِ انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’(قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور
عبادت گزار سے کہا جائے گا:’’ تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو
سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی
فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717) اور جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہونگے۔آپ کا فرمان
عالیشان ہے:جنتی جنت میں علمائے کرام کے محتاج ہونگے اس لئے کے وہ ہر جمعہ کو اس
لئے کے وہ ہر جمعہ کو اللہ پاک کے دیدار سے مشرف ہونگے۔اللہ پاک فرمائے گا:یعنی
مجھ سے مانگو جو چاہواور وہ جنتی علمائے کرام کی طرف متوجہ ہونگے کہ اپنے رب کریم سے کیا مانگیں؟یہ مانگو وہ
مانگو!جیسے وہ لوگ دنیا میں علما کے محتاج تھے جنت میں بھی ان کے محتاج ہونگے۔(مدنی پنج سورہ،ص:118) یاد رہے! یہ تمام فضائل علمائے حق کے لیئے ہیں جنہوں نے اخلاص کےساتھ علمِ
دین پھیلایا ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے اور اس کو
پھیلانے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
.png)
اللہ پاک نے
فرمایا:میں چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں عیاں ہوجاؤں تو میں نے کائنات تخلیق فرما دی۔اس
کائنات میں اللہ پاک نے بہت سی مخلوقات کو پیدا فرمایا جن میں حضرت انسان کو بھی
تخلیق فرمایا اور اسے اشرف المخلوقات کا لقب دیا،پھر انہی انسانوں کی ہدایت کے لیے
اللہ پاک نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جنہوں نے انسان کو
اس دنیا میں آنے کا مقصد سمجھایا۔ پیغمبروں کا یہ سلسلہ نبیِ آخر الزماں،حضور محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آ کر اختتام پذیرہوا۔آپ جناب صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب سوال پیدا ہوا کہ نبیوں کے علم کے وارث کون ہوں گے؟ کون اب آنے
والی نسل کو شریعتِ محمدی کی تعلیم دے گا؟ تو اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے علمائے
کرام کو یہ شرف بخشا۔ یہ لوگ اللہ پاک کے بہت ہی خاص بندے ہوتے ہیں۔قرآن و حدیث میں
علمائے کرام کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر علما نہ ہوتے تو لوگ
چوپائیوں کی مثل ہوتے۔شرح: مطلب یہ کہ علما لوگوں کو علم سکھا کر حیوانیت سے نکال
کر انسانیت میں داخل کرتے ہیں۔ حدیثِ پاک نمبر 1:پیارے آقا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا: جب قیامت کے دن اللہ پاک عابدوں اور مجاہدوں سے فرمائے گا کہ جنت میں
داخل ہو جاؤ تو علما عرض کریں گے: ہمارے علم کے طفیل وہ عابد اور زاہد بنے وہ جنت
میں گئے اور ہم رہ گئے! اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: تم میرے نزدیک میرے بعض فرشتوں
کی طرح ہو، تم شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہوئی چنانچہ وہ شفاعت کریں گے پھر وہ
جنت میں داخل گے۔(احیاء
العلوم،1/60)
کسی دانا کا قول ہے:عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔عالم
کا چہرہ اوجھل ہوجاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔عالم کے فضائل پر ایک اور
حدیث پڑھئے:آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
ارشادِ پاک ہے:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی، جس نے عالم سے
ہاتھ ملایا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اور جو دنیا میں میرے پاس بیٹھا وہ روزِ
حساب بھی میرے پاس ہی بیٹھے گا۔(تنبیہ
الغافلین،ص167)حدیث
نمبر3:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:علما دنیا کے چراغ ہیں اور انبیا کے جانشین، میرے اور دیگر انبیا علیہم
الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔(کنزالعمال،10/77)ایک
بزرگ حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے:علما
کی سیاہی کا شہدا کے خون سے وزن کیا جائے گا تو علما کی سیاہی شہدا کے خون سے
بھاری ہوگی۔علما کے فضائل سے متعلق ایک اور حدیث مبارکہ پڑھئے:حدیث نمبر4:حضرت ابو
درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:بے شک عالمِ دین کے لیے آسمانوں اور زمین کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں
دعائے بخشش مانگتی ہیں۔یقیناً عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں رات کے
چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔بے شک علما انبیا علیہم الصلوۃ
و السلام
کے وارث ہیں۔ نبیوں نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، انہوں نے صرف علم
وراثت میں چھوڑا ہے ۔جس نے علم حاصل کر لیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔(مشکوۃ،ص34)علمائے
کرام کے فضائل تو بے شمار ہیں۔قیامت کے روز علمائے کرام عام مومنین میں سے سات سو
درجے بلند ہوں گے اور دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہوگی۔حدیث نمبر5:حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے، پیارے آقا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالموں میں سے کسی عالم کے پیچھے
نماز پڑھی تو گویا اس نے نبیوں میں سے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی۔(کنزالعمال،ص275)جہاں
احادیث میں علما کے فضائل ذکر کیے گئے ہیں
وہاں قرآنِ مجید میں جگہ جگہ علما کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔دو آیاتِ مبارکہ کا
ترجمہ پڑھئے: ترجمہ:اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں
سمجھتے مگر علم والے ۔(پ20،العنکبوت:43)ترجمہ:اور
بے شک ہم ان کے پاس یہ کتاب لائے جسے ہم نے ایک بڑے علم سے مفصل کیا۔ (پ8،الاعراف:52)قرآن
و حدیث سے واضح طور پر علما کے فضائل ملتے ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علمائے
کرام کےفیض سے مالا مال فرمائے اور ان کے صدقے دنیا آخرت کی بھلائیاں نصیب فرمائے۔
آمین