علم کے معنیٰ جاننا،آگاہ ہونا یا واقفیت حاصل کرنا ہے،جبکہ علم کا شرعی معنی یہ ہے کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں جو احکامات اور ہدایات دی ہیں ان کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونے کے بارے میں پوری طرح علم جاننا ،جبکہ عالم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنی ضرورت کا علم کتابوں سے نکال سکے۔حضرت نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر اور علم وہی فائدہ مند ہے جس سے نفع اٹھایا جا سکے۔ پہلا فرمان:ابو داؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص طلبِ علم میں کسی ایک راہ چلے خدا اسے بہشت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بیشک فرشتے اپنی بازو طالبِ علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتے ہیں۔بے شک عالم کے لئے استغفار کرتے ہیں۔ سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی سب ستاروں پر اور بے شک علما وارثِ انبیا ہیں اور بےشک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے۔پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔ (فیضان علم و علما،ص 11) دوسرا فرمان:ترمذی کی حدیث میں ہے:تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔ (فیضان علم و علما ،ص 19) تیسرا فرمان:اللہ پاک قیامت کے دن عبادت گزاروں کو اٹھائے گا،پھر علما کو اٹھائے گا اور ان سے فرمائے گا:اے علما کے گروہ !میں تمہیں جانتا ہوں اس لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا ہے اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا ۔( احیاءالعلوم،ص49 ) چوتھا فرمان:صحیح مسلم کی روایت میں وارد ہوا ہے :جو طلِب علم میں کوئی راہ چلے خدا پاک اس کے لئے جنت کی راہ آسان کرے گا۔ جب کچھ لوگ خدا کے گھروں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتابُ اللہ پڑھتے ہیں اور آپس میں درست کرتے ہیں تو ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور خدا اپنے پاس والوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے یعنی فرشتوں پر ان کی خوبی اور اپنی رضامندی ہندی ان سے ظاہر فرماتا ہے۔ (فیضان علم و علما،ص 17) پانچواں فرمان: جو علمِ دین حاصل کرے گا اللہ پاک اس کی مشکلات آسان فرما دے گا اور اسے وہاں سے رزق پہنچائے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو گا۔( احیاءالعلوم،ص47)


علمائے کرام امت کے راہ نما ہیں۔ہم تک شریعت کے احکام پہنچانے کا وسیلہ ہیں۔رہبرِ امت ہیں۔علما کی تعریف اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں فرمائی ہے۔علما وہ ہیں جن کے سینے علم سے منور ہیں۔علما کے بارے میں مزید احادث پڑھتی ہیں کہ علما کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔احادیث: عالم کا رتبہ اس حدیثِ مبارکہ سے اندازہ لگائیے کہ کتنا شاندار ہے چنانچہ(1)حضرت  امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا :عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے بہتر ہے۔(2)امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا، روشنائی یعنی ان کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(فیضان علم وعلما،ص15) (3)امام محی السنہ بغوی رحمۃُ اللہِ علیہم معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :ایک فقیر شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے ۔اس کی وجہ یہ ظاہر فرمائی کہ ایک عابد یعنی عبادت گزار اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا جبکہ عالم ایک عالَم یعنی بہت سے لوگوں کو ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما،ص18)(4) نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:علما انبیا کے وارث ہیں اور یہ بات بدیہی بات ہے کہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام سے بڑھ کر کسی کا رتبہ نہیں اور انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارثوں سے بڑھ کر کسی وارث کا مرتبہ نہیں۔(5)نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مرتبۂ نبوت سے سب سے زیادہ قریب عالم اور مجاہد ہے۔اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ علما نے رسولوں کے پیغامات لوگوں تک پہنچائے اور مجاہد اس لیے کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کے احکامات کو صحیح صحیح پورا کیا اور ان کے احکامات کی پیروی کی۔(مکاشفۃ القلوب،ص471)قولِ عمر فاروق:حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہزار عابد قائم الیل،صائم النہار یعنی رات میں عبادت کرنے والے اور دن میں روزہ رکھنے والے ان کا مرنا ایک عالَم کی موت کے برابر نہیں۔(فیضان علم و علما،ص21)واقعہ:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے علما کی شان دریافت کی تو انہوں نے کہا:علمائے کرام آپ کی امت کی دنیا و آخرت میں چراغ ہیں اور وہ خوش نصیب ہیں جو ان کی قدر و منزلت اور ان سے محبت کرتا ہے جبکہ وہ بڑا بد نصیب ہے جو ان سے مخالفت رکھتا ہے ،مخاصمت(جھگڑا،بغض)رکھتا ہے۔(نزہۃ المجالس،ص303)جب عالم کا وصال ہوتا ہے تو وہ ایسا ہے جیسا کہ روشن گھر سے فانوس نکل گیا۔ اس کے جانے سے دنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔علما کو عین کی برکت سے عزت وعظمت،لام کی برکت سے لطافت اور میم کی برکت سے محبت اورمحافظت زیادہ ہوتی ہے۔اللہ پاک ہمیں علما کا ادب اور ان سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بلاشبہ کوئی بھی عاقل اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ علمائے حق راہ نمائی کے وہ موتی ہیں کہ جو اپنے علم کی چمک سے لوگوں کو فیض یاب کرتے رہتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے ۔ نماز کے مسائل ، روزے کی مشکلات ، حج کے فرائض ، وضو کے واجبات ، زکوۃ کا نصاب نیز ہمیں قدم قدم پہ علما کی ضرورت ہے ، اور یہی ضرورت ہم پہ ان کی اہمیت روز روشن کی طرح واضح کرتی چلی جاتی ہے ، جیسا کہ قرآنِ مجید فرقان حمید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں ۔( سورۃ فاطر ، آیت نمبر 45)اس آیت کی تفسیر میں ہے :علم والے بہت مرتبے والے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں مُنْحَصَر فرمایا ،لیکن یاد رہے !یہاں علم والوں سے مراد وہ ہیں جو دین کا علم رکھتے ہوں اوران کے عقائد و اَعمال درست ہوں ۔(تفسیر صراط الجنان ) صحیح العقیدہ عالم کا دامن تھامنا ، ان کی پیروی کرنا ، قدم قدم پہ ان کی راہ نمائی حاصل کرنا، ان کا ادب کرنا ، دنیا و آخرت میں کامیابی و سعادت مندی کا ذریعہ ہے کہ ان کی خدمت دنیا و آخرت میں فلاح کا باعث ہے ، جیسا کہ فرامینِ مصطفٰے سے واضح ہے : ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد اور دوسرا عالم ، آپ نے فرمایا : فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلٰی اَدْنَاکُم یعنی عالِم کی عابِد پر ایسی فضیلت ہے ، جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔(کتاب فیضان علم و علما ص 13 ، ترمذی ، کتاب : العلم ، باب : ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ ، صفحہ : 632 ، حدیث : 2685) بیہقى روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہىں : اللہ پاک بڑا جَواد(سب سے زیادہ نوازنے والا) ہے اور میں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد اُن میں بڑا سخى وہ ہے جس نے کوئى علم سیکھا پھر اس کو پھیلادیا ۔( کتاب فیضان علم و علما ص 13 ، شعب الایمان، باب فی نشرالعلم، 2/ 281، حدیث : 1767، باختصار ) * حدیث شریف مىں آیا:جو طلب علم مىں مرجائے گا خدا پاک سے ملے گا دراں حالیکہ(اس حال میں کہ) اُس میں اور پیغمبروں مىں درجَۂ نبوت (اور اس کے کمالات)کے سوا کوئى درجہ نہ ہوگا۔( کتاب فیضان علم و علما ص 15 ، الدارمی، المقدمة، باب فی فضل العلم والعالم 1/112 ، حدیث : 354 ) *مَعالِمُ التَّنزیل میں لکھا ہے کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : جو شخص طلبِ علم میں سفر کرتا ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اُس پر سایہ کرتے ہیں اور مچھلیاں دریا میں اور آسمان و زمین اس کے حق میں دعا کرتے ہیں۔(کتاب فیضان علم و علما ص 15 ، ابوداود، کتاب العلم، باب فی کتاب العلم، 3/ 445، حدیث : 3641 ، بتغیر ) * امام مُحى السُّنّہ بغوىرحمۃ اللہ علیہ مَعالِمُ التَّنزیل مىں لکھتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہىں : اىک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھارى ہے۔(کتاب فیضان علم و علما ص 18 ، ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 311، حدیث : 2690 ) اور وجہ اُس کى ظاہر ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم اىک عالَم (بہت سے لوگوں) کو ہداىت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر وفرىب سے آگاہ کرتا ہے۔اللہ پاک ہمیں علما ئے حق کا دامن تھامنے ، ان کی خدمت کرنے ، ادب کرنے ، ان کی سچی تقلید کرنے کا جذبہ عطا فرمائے اور علمِ دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک نے علمائے کرام کو بہت شان و شوکت سے نوازا ہے۔قرآن و حدیث میں علمائے کرام کے فضائل بیان کیے گئے ہیں جن کو پڑھنے سے علمائے کرام کی اہمیت و فضلیت کا اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک بزرگ رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا:انسان کون ہے؟فرمایا:علما۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ نے غیر ِعالم کو انسانوں میں شمار نہ فرمایا کیونکہ علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انسان تمام جانوروں سے ممتاز ہوتے ہیں۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر۔ اس سے معلوم ہوا !اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ اللہ کریم نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا۔(پ3،ال عمران: 18)فرامینِ مصطفٰے:1:علما انبیا کے وارث ہیں۔ اس سے پتہ چلا! اس سے پتا چلا کہ طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(ابن ماجہ،1/ 146،حدیث:223) 2:زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے لہٰذا اس سے بڑا مرتبہ کس کا ہوگا!اس کے لیے زمین و آسمان کے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔یہ اپنی ذات میں مشغول ہیں اور فرشتے استغفار میں مشغول ہیں۔(احیاء العلوم،1/45) 3:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا ،روشنی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(فیضان علم و علما،ص14)4: قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا،علما اور شہدا ۔معلوم ہوا!زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ (ابن ماجہ،4/526) 5:عالِم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔(احیاء العلوم،1/47)اقوالِ بزرگانِ دین:کسی دانا کا قول ہے:1:عالم کی وفات پر پانی میں مچھلیاں اور ہوا میں پرندے روتے ہیں۔عالم کا چہرہ اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اس کی یادیں باقی رہتی ہیں۔(مسند الفردوس،2/87)2:منقول ہے:حضرت لقمان رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بیٹے کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ بیٹا!علما کی صحبت میں بیٹھا کرو،اپنے زانوں کو ان کے زانوں سے ملا دو کیونکہ اللہ پاک نورِ حکمت سے دلوں کو ایسے زندہ کرتا ہے جیسے زمین کو مسلسل بارش سے۔(احیاء العلوم،1/54)جو علم سے متصل ہو، بلندیوں سے جا ملے۔علم ایک روشنی ہے اللہ پاک ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے۔آپ بھی علمِ دین سیکھنے سکھانے کا جذبہ پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مشک بار دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔


عالمِ دین روشنی کی مانند ہیں کیونکہ ہمارے آقائے دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دونوں جہاں کے عالمِ دین ہیں۔ ایک عالم کو اپنے محبوب مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے۔ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔فلاح کا پہلا ستون علما ئے کرام ہیں خواہ ان کو امام سے تعبیر کریں،خواہ قاری سے،خواہ وہ کسی بھی سوسائٹی کا کوئی علمی کردار ادا کر رہا ہو۔علما ئے کرام اپنا بدن کاٹ کر اور فاقے برداشت کر کے بھی اپنی اپنی ملت و قوم کے سامنے اتنا شستہ و عمدہ کردار ادا کرتے ہیں کہ بعض علما کے کردار کو دیکھ کر لوگوں کو اپنے آپ کو اچھے سانچے میں ڈھالنے کا موقع مل سکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:قیامت کے دن علما کی سیاہی اور شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آ جائے گی۔ (جامع صغیر،ص 590 حدیث:10026) فیضانِ علم و علما کتاب میں امیرِ اہلِ سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں:صفحہ 8،9،10 :ترجمہ:کہہ تم فرماؤ کافی ہے اللہ پاک گواہ میرے اور تمہارے بیچ میں اور وہ شخص جس کے پاس علم کتاب ہے۔مراتب کی بلندی:ترجمہ:یعنی اللہ پاک کر دے گا ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے تم میں سے اور ان کے جن کو علم دیا گیا ہے درجے۔اللہ پاک قرآنِ پاک میں فرماتا ہے:ان کے درجے بلند کر دئے جائیں گے جو علم والے ہوں گے یعنی جو عالم ہوں گے ان کے درجے اللہ پاک بلند فرمائے گا ۔سبحان اللہ۔حدیث:ایک فقیہ یعنی عالمِ دین شیطان پر ہزاروں عابدوں سے یعنی عبادت کرنے والوں سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی )حدیث:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں شب میں چاند کی فضیلت سارے تاروں پر ۔(الترمذی،کتاب العلم ،ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادت)ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :حدیث:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔انبیا علیہم الصلوۃ و السلام نے دینار و درہم کی میراث نہیں چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے علم حاصل کیا اس نے انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کی میراث کا بڑا حصہ پا لیا۔(ابو داؤد،3641 )حدیث:بے شک اللہ پاک اور اس کے فرشتے آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق حتی کہ جو چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں سمندر کے پانیوں میں اس کے لیے دعا مانگتی ہیں جو لوگوں کو دین کی تعلیم دے۔( ترمذی،حدیث:2658)کتاب فیضانِ علم و علما میں امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں: صفحہ نمبر 8اور 9 :آیت کا ترجمہ:گواہی دی اللہ پاک نے کہ کوئی بندگی کے لائق نہیں سوا اس کے اور فرشتوں اور عالموں نے وہ با انصاف ہے۔اس میں اللہ پاک نے فرشتوں کے ساتھ علما ئےکرام کا ذکر فرمایا ہے۔ عالم ایسا مرتبہ رکھتا ہے کہ جس کی انتہا نہیں ۔ ایک اور اس میں فضیلت دیکھنے کو ملتی ہے کہ علما ئےکرام کی گواہی مانندِ گواہیِ ملائکہ کے معتبر ٹھہرائی۔دعا:اے اللہ پاک!ہمیں بھی علمِ دین سیکھنے اور سیکھانے کی توفیق عطا فرما۔ہمیں بھی عالمات کی زیرِ نگرانی رہنے کی توفیق عطا فرما ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ پاک نے علمائے کرام کو بے شمار فضیلتوں سے نوازا ہے۔قرآن ِکریم میں ارشاد ہے:ترجمہ:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ22،الفاطر:28) علم والوں کی شان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں لہٰذا علمائے کرام کو عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی اللہ پاک سے ڈرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔حضرت ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس کے دل میں اللہ پاک کا خوف نہیں وہ عالم نہیں۔قرآنِ کریم میں ہے:ترجمہ: اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11) اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ علمابڑے درجے والے اور دنیا و آخرت میں ان کی عزت ہے۔علمائے کرام کے بارے میں 5 فرامینِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائیے۔1:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن سے بحروبر کی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔(مسند احمد،4/314)2:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نور کے پیکر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عابد عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا: جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا: جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترھیب،1/57)3:حضرت ثعلبہ بن حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اپنے بندوں کا فیصلہ کرنے کے لیے جب قیامت کے دن کرسی پر قعود فرمائے گا جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو علما سے فرمائے گا:بے شک میں نے اپنا علم اور حلم تمہیں اسی لیے دیا تھا کہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرما دوں اور مجھے کوئی پروا نہیں۔(طبرانی،2/84)4:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں بلند مرتبہ جنتیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیوں نہیں! ضرور بتائیے، ارشاد فرمایا:ھم علماء امتی یعنی وہ میری امت کے علما ہیں۔(منہاج العابدین،ص31-32)5:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس علم کو قبض ہونے سے پہلے حاصل کر لو اور اس کے قبض ہونے سے مراد اس کا اٹھا لیا جانا ہے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شہادت اور بیچ کی انگلیاں ملا کر ارشاد فرمایا:عالم اور متعلم خیر میں حصہ دار ہیں اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(ابن ماجہ،1/150)اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کے فیوض و برکات سے مال فرمائے اور ہمیں ان کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اللہ پاک قرآنِ مجید، فرقانِ حمید میں پارہ 21، سورة العنكبوت ،آیت نمبر 49 میں ارشاد فرماتا ہے:بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِىْ صُدُوْرِالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ طترجمۂ كنزالایمان : بلکہ وہ روشن آیتیں ہیں ان کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا۔سبحان اللہ! اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اہل ِعلم کی کس طرح فضیلت بیان فرمائی!علما کو اللہ پاک نے کس قدر بزرگی اور مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ ان کے فضائل کو مکمل طور پر بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ ان کی فضیلت و عظمت قیامت کے دن کھلے گی جب عام لوگوں کو تو حساب و کتاب کے لیے روکا جائے گا لیکن علما کو ان لوگوں کی شفاعت کے لیے روکا جائے گا۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں اور اس کے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے احادیثِ طیبہ میں علما کے کثرت سے فضائل بیان فرمائے ہیں ۔ کہیں ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اپنا خوف اور خشیت ان کے دلوں میں رکھی،تو کہیں فرمایا:یہ انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ کہیں ان کو عبادت گزاروں پر فضیلت عطا فرمائی ،تو کہیں ان کو لوگوں کے لیے حقیقی راہ نما قرار دیا۔چنانچہ علما کے فضائل پر مشتمل 5 احادیث درج ذیل ہیں۔(1) حضور نبیِ رَحمت،شفیعِ اُمَّت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے ۔ (جامع بیان العلم و فضل ،حدیث : 225،ص 74) (2) حضور نبیِ کریم، رؤف رحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے : عالم اور عابد کے درمیان 100 درجے ہیں اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سَدھایا ہوا عمدہ گھوڑا 70 سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے ۔ (جامع بیان العلم وفضلہ ، باب تفضیل العلم علی العبادة ، حدیث :118 ، ص 43 )

(3) حضور نبیِ پاک،صاحبِ لولاک،سیاحِ افلاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے : انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔ ( ابن ماجہ ،کتاب الزھد ، باب ذکر الشفاعۃ ،حدیث: 4313،ج 4 ، ص 526 )معلوم ہوا! زیادہ عظمت والا مرتبہ وہ ہے جس کا ذکر مرتبۂ نبوت کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ مرتبۂ شہادت سے بڑھ کر ہے۔ اگرچہ شہادت کی فضیلت میں بھی کثیر احادیث مروی ہیں۔(4) دو عالم کے مالک و مختار ، مکی مدنی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مشکبار ہے : علما ،انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ ( ابن ماجہ ، کتاب السنۃ،باب فضل العلم و الحث الخ ، حدیث: 223 ، ج 1 ، ص 146 ) اس سے پتہ چلا!جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت (یعنی علم ) سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(5) تاجدارِ رِسالت ، شہنشاہِ نبوت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لئے استغفار کرتی ہے۔( ابن ماجہ ، کتاب السنۃ ، باب فضل العلم والحثالخ ، حدیث: 223، ج 1 ، ص 146 )

لہٰذا اُس کا مرتبہ کس قدر بلند ہوگا جس کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوق مغفرت کی دعا کرتی ہو۔ اللہ پاک ہمیں علما کے مرتبے کو سمجھنے اور اس کے مطابق ان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام میں علم کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کثیر آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ علم کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ علم ہی وہ چیز ہے جس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور دنیا و آخرت بہتر ہوجاتی ہے۔ لیکن اس علم سے مراد وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سنورتی ہیں، اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئیں ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (بہارِ شریعت، حصہ 16، 618/3، ملخصا)علمِ دین حاصل کرنے کی بدولت علمائے کرام کو عظیم الشان دینی اور دنیاوی انعامات و اکرامات اور مقام و مرتبہ سے نوازا جاتا ہے۔ البتہ یہ امر پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ علمائے دین سے مراد علمائے ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علما۔ علمائے ربانی وہ ہیں جو خود اللہ والے ہیں اور لوگوں کو اللہ والا بناتے ہیں، جن کی صحبت سے خدائے پاک کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اورحضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں، ظالم ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمران، تحت الآیۃ 18)علما دین کے فضائل بیان کرتے ہوئے اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:1:علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ کا پتا چلتا ہے اور اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔(المسند للإمام أحمد بن حنبل،مسند انس بن مالک،حدیث: 12600 ،ج 4 ،ص 314)2:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمھارے ادنیٰ پر۔ (اس کے بعد پھر فرمایا :) ﷲ کریم اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی اس کی بھلائی کے خواہاں ہیں، جو لوگوں کو اچھی چیز کی تعلیم دیتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء في فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث: 2694 ،ج 4 ،ص 313)3:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء في فضل الفقہ علی العبادۃ، حدیث: 2690 ،ج 4 ،ص 311)علامہ نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس کی وجہ ظاہر ہےکہ عابد (عبادت کرنے والا) اپنے نفس (یعنی اپنے آپ) کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم ایک عالم (بہت سے لوگوں کو) ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(فیضان علم و علما، ص 18-19)اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ اور ہدایت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔(احیاء العلوم جلد اول بحوالہ صحیح مسلم، کتاب الزکوة، باب النہی عن المسئلة، حدیث 1٠37، ص 516)5:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا پھر علما کو الگ کرکے ان سے فرمائے گا: اے علما کی جماعت! میں تمہیں جانتا ہوں اسی لئے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لئے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا۔ جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔(جامع بیان العلم و فضلہ، حدیث 211، ص 69)اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں علما کے فیضان سے حصہ عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اللہ  پاک فرماتا ہے :پہلی آیت :شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ(پ3، اٰل عمرٰن : 18)گواہى دى اللہ نے کہ کوئى بندگى کے لائق نہىں سوا اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔ وہ(اللہ)باانصاف(انصاف والا) ہے۔اس آىت سے تىن فضیلتیں علم کى ثابت ہوئىں : اَوَّل : خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ نہاىت(انتہا) نہىں رکھتا۔دُوُم : اُن(علما) کو فرشتوں کى طرح اپنى وحدانىت(ایک ہونے)کا گواہ اور اُن کى گواہى کووَجہِ ثبوت اُلوہِىّت(اپنے معبود ہونے کی دلیل)قراردىا۔سِوُم:اُن(علما) کى گواہی مانندِ ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح)معتبر ٹھہرائى۔ دوسری آیت :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ(پ22، فاطر : 28) اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(ترجمہ کنزالایمان) اوروجہ اِس حصرکی(یعنی ڈرکو علماکے ساتھ خاص کرنے کی وجہ) ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر(غضب) اور بےپروائى(بےنیازی) اور احوالِ دوزخ اور اَحوالِ قىامت(قیامت کی ہولناکیوں) کو بتفصىل(تفصیل کے ساتھ)نہىں جانتا(اس وقت تک) حقىقت خوف وخشىت کى اُس کو حاصل نہىں ہوتی اور تفصىل ان چىزوں کى علما کے سوا کسى کو معلوم نہىں۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں فضائل علما :پہلی حدیث :امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلما علی الشھداء، ص48، حدیث : 139دوسری حدیث:اورحدىث مىں آىا ہے: جو شخص اىک باب علم کا اوروں(دوسروں) کے سىکھانے کے لئے سىکھے اُس کو ستر(70) صدىقوں کا اجر دىا جاوے۔الترغیب والترھیب، کتاب العلم، الترغیب فی العلم…الخ، 1/ 68، حدیث : 119تیسری حدیث: ابوداؤد نے (حضرت )ابودرداء رضی اللہ عنہ سے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں(کسی)اىک راہ چلے خدا اُسے بِہِشْت(جنت)کى راہوں سے اىک راہ چلادے اور بےشک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کى رضامندى کے واسطےبچھاتے ہىں اور بےشک عالم کے لئے استغفار کرتے ہىں سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں اور بےشک فضل عالم کا عابد پر اىسا ہے جىسے چودھوىں رات کے چاند کى بزرگی (فضیلت) سب ستاروں پر اور بےشک علما وارث انبىاء علیہم الصلوۃ و السلام کے ہىں اور بےشک پىغمبروں نے درہم ودىنار میراث نہ چھوڑى(بلکہ) علم کو مىراث چھوڑا ہےپس جو علم حاصل کرے اُس نے بڑا حصہ حاصل کىا۔چوتھی حدیث :اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں : خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا :بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت(جنت) مىں جاوىں گے۔احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 26پانچویں حدیث:حدیث شریف میں آیا ہے: جب پروردگارقىامت کے دن اپنى کرسى پرواسطے فىصلہ بندوں کے(یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے)قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو)علما سے فرمائے گا :خلاصَۂ معنى ىہ ہے کہ مىں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسى ارادے سے عناىت کىا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پرواہ نہىں۔المعجم الکبیر، 2/ 84، حدیث : 1381امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں :اَلْعِلْمُ بَابُ اللّٰہ الْاَقْرَبُ،وَالْجَھْلُ اَعْظَمُ حِجَابٍ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اللّٰہعلما اللہ کاقرىب تَردروازہ ہے اورجہل(بے علمی)تمہارے اورخدا( پاک) کے درمىان سب سے بڑا حجاب(بڑی رکاوٹ) ہے۔علم موجِب حىات(زندگی کا باعث)بلکہ عَینِ حىات اور جہل(بے علمی) مورثِ موت (موت کا سبب)بلکہ خود موت ہے۔جاہل کے جسم پر(موجود) کسی زیور سے حیرت میں نہ پڑو کہ وہ تو مردہ ہے اور اس کا جامہ(لباس) کفن(ہے۔) (تفسیر النسفی، پ9، سورة الانفال، تحت الآية : 24، ص409، بتغیر لفظ) اگر خدا ( پاک)کے نزدىک کوئی شی(شے) علم سے بہتر ہوتى آدم علیہ السلام کو مقابلہ ملائکہ(فرشتوں کے مقابل) مىں دى جاتى۔ تسبىح وتقدیس(پاکی بیان کرنا) فرشتوں کى، علم اسماء کے برابر نہ ٹھہرى(تو پھر) علم حقائق و دیگر عُلومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہوگی؟

قِىاس کُن زِ گُلِستانِ مَن بَہارِ مَرا میرے باغ سے ہی میری بہار کا اندازہ کرلے


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام بیلجیئم اور آسٹریا سے عاشقانِ رسول نے بوسنیا کی کیپٹل سٹی سراجیو ومیں تین دن پر مشتمل  مدنی قافلے میں سفر کیا جس میں یورپی یونین ریجن فنانس ڈیپارٹمنٹ کے نگران حاجی علی قریشی عطاری اور آسٹریلیا کے نگران سیّد عثمان محمود عطاری سمیت دیگر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

دورانِ مدنی قافلہ ذمہ داران نے ایمبیسی آف پاکستان سراجیو کے مرکزی کونسلر ضیاء اور یوسف سے ایک میٹنگ ہوئی جس میں حاجی علی قریشی عطاری نے انہیں دعوت اسلامی کی دنیا بھر میں ہونے والی دینی و فلاحی خدمت کے حوالے سے بریفنگ دی ۔اسی طرح مختلف مساجد کے امام صاحبان اور بزنس مین سمیت دیگر عاشقاں رسول سے ملاقات کا سلسلہ رہا۔

اس کے علاوہ خلافتِ عثمانیہ کے زامنے کی شہنشاہِ مسجد سراجیو کے امام و خطیب صدر الدین صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ اور دعوتِ اسلامی کے بارے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ: سیّد عثمان محمود عطاری نگرانِ آسٹریلیا، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


قرآنِ پاک میں پارہ 28  سورۃ المجادلۃ کی آیت نمبر11 میں اہلِ علم کی شان و عظمت اس طرح بیان کی گئی ہے: ترجمۂ کنز العرفان:اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے درجات بلند فرماتا ہے جنہیں علم دیا گیا۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علمائے کرام عام مومنین کے درمیان 700 سال کا فاصلہ ہے۔ہر دو درجوں کے درمیان 500 سال کا فاصلہ ہے۔قرآنِ پاک کے علاوہ کثیر احادیثِ کریمہ میں علمائے کرام کے ڈھیروں فضائل بیان ہوئے ہیں۔ان میں سے پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھئے اور اپنے دل میں علمائے حقہ کی شان وعظمت و اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔(1)ترمذی نے روایت کیا کہ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم۔آپ نے فرمایا:ترجمہ:بزرگی یعنی فضیلت عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(2)امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا کہ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی یعنی Inkاور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو روشنائی یعنی Ink شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(3)امام محی السنہ بغوی رحمۃ اللہ علیہ معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالم ایک عالَم کو ہدایت فرماتا اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔(4)آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اللہ پاک کے فرائض کے متعلق ایک یا دو تین یا چار پانچ کلمات سیکھے اور اسے اچھی طرح یادکرلے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(5)ہمارے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا،پھر علما کو الگ کر کے ان سے فرمائے گا:اے علما کی جماعت!میں تمہیں جانتا ہوں اسی لیے تمہیں اپنی طرف سے علم عطا کیا تھا اور تمہیں اس لیے علم نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب میں مبتلا کروں گا، جاؤ! میں نے تمہیں بخش دیا۔سبحان اللہ!کیا شان ہے علمائے کرام کی!الحمد للہ ہمارے مرشد مولانا الیاس قادری دامت برکاتہمُ العالیہ بھی علمائے اہلِ سنت سے بہت محبت فرماتے اور ان کی دل سے عقیدت کرتے ہیں ۔میرے مرشد کا فرمان ہے: میں چاہتا ہوں کہ میری تحریک دعوتِ اسلامی کا ہر ذمہ دار عالم ہو اور گھر گھر میں ایک بچہ عالم یا عالمہ ہو۔ الحمداللہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ قائم ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی اولاد کی تربیت کا خیال رکھیں،انہیں دنیاوی علوم و فنون کے ساتھ علمِ دین کے زیور سے بھی آراستہ کریں تاکہ ان کی دنیا بھی اچھی ہو اور آخرت بھی نیز یہ والدین کے لیے صدقہ جاریہ بھی بنیں ۔ انہیں نماز روزے کا پابند بنائیں اور فرائض و واجبات،حلال و حرام اور بندوں کے حقوق وغیرہ کے شرعی احکامات سے بھی آگاہ کرنے کا انتظام کریں۔ اس کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے بچوں کو درس نظامی یعنی عالم کورس کروایا جائے تاکہ ہمارے بچے علمِ دین سیکھ کر دوسروں کو سکھائیں کہ جتنے عالم دنیا میں بنیں گے اتنا ہی علمِ دین پھیلے گا۔علمِ دین کی روشنی جتنی پھیلے گی جہالت کا اندھیرا ختم ہوگا۔علمِ دین حاصل کرنے سے گناہ کی پہچان بھی نصیب ہوتی ہے۔دعوتِ اسلامی کا بھرپور ساتھ دیجئے اپنا مال دے کر اپنا وقت دے کر تاکہ زیادہ جامعۃ المدینہ قائم ہوں، زیادہ سے زیادہ عالم بنیں۔اللہ پاک ہماری دعوتِ اسلامی کو قائم و دائم رکھے۔اسےمزید برکتیں عطا فرمائے۔ آمین


علم کے معنی ہیں جاننا اور آگاہ ہونا۔اللہ پاک کے اپنے بندوں پر بے حد احسانات ہیں جن میں سے ایک احسان علم ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کیا۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس میں ارشاد ہے:اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھیے جس نے پیدا کیا،جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔پڑھیے اور آپ کاپروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔(العلق:5-1)علم سے بہتر کوئی چیز نہیں۔جو شخص علم کی قدر و منزلت جانتا ہے ساری دنیا کی بادشاہت اس کے نزدیک کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔دونوں جہاں کی بھلائی علم ہی سے حاصل ہوتی ہے۔علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ وہاں دو مجلسیں ہو رہی تھی :ایک حلقہ ذکر کا تھا دوسرا حلقہ علم کا،آپ نے دونوں کی تعریف کی پھر علم کی مجلس میں شریک ہوئے اور فرمایا:یہ پہلی مجلس سے بہتر ہے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب تم جنت کی پھلواریوں میں سے گزروتو ان سے جی بھر کر فائدہ اٹھاؤ ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پوچھا:جنت کی پھلواریاں کیا ہیں؟ فرمایا:علم کی مجلسیں۔ علم کی طلب عبادت ہے۔علم دلوں کی زندگی ہے۔اندھوں کے لیے بینائی ہے۔علم سے انسان معرفتِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔علما کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے: 1:امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو ان کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔(جامع بیان العلم وفضلہ،ص48،حدیث:139)2:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزاررکعت نماز،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔کسی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! اور قرات قرآن یعنی علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءتِ قرآن سے بھی افضل ہے؟فرمایا:کیا قرآن بے علم کے نفع بخشتا ہے؟یعنی قرآن کا فائدہ بے علم کے حاصل نہیں ہوتا۔(قوت القلوب)3:حدیث:عالم کا گناہ ایک گناہ ہے اور جاہل کے دو گناہ۔عالم پر وبال صرف گناہ کرنے کا اور جاہل پر ایک عذاب گناہ کا اور دوسرا نہ سیکھنے کا۔(جامع صغیر،ص2640،حدیث:4335)4:مرفوعاً روایت ہے:خدا پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: جنت میں جاؤ! علما عرض کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلائے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو۔شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس علما پہلے شفاعت کریں گے،پھر جنت میں جائیں گے۔(احیاء العلوم،3/26)5:حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ نے روایت کیا:عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز روزہ سے بہتر ہے۔(منہاج العابدین،ص11)علم سکھاؤ تو صدقہ ہے۔علم تنہائی کا ساتھی،تنگ دستی میں راہ نما،غمخوار دوست اور بہترین ہم نشین ہے۔ علم جنت کا راستہ بتاتا ہے۔ اللہ پاک علم ہی کے ذریعے قوموں کو سربلندی عطا فرماتا ہے۔لوگ علما کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ دنیا کی ہر چیز ان کے دعائے مغفرت کرتی ہے۔علم ہی کی بدولت انسان اللہ پاک اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ جو علم حاصل ہوا ہے اسے آگے پھیلایا جائے۔دئیے سے دئیے کو جلایا جائے۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر عمل کر کے دوسروں تک پہنچا کر نیکی کی دعوت عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین