اللہ  پاک فرماتا ہے :پہلی آیت :شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۙ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِ ؕ(پ3، اٰل عمرٰن : 18)گواہى دى اللہ نے کہ کوئى بندگى کے لائق نہىں سوا اس کے اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔ وہ(اللہ)باانصاف(انصاف والا) ہے۔اس آىت سے تىن فضیلتیں علم کى ثابت ہوئىں : اَوَّل : خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ نہاىت(انتہا) نہىں رکھتا۔دُوُم : اُن(علما) کو فرشتوں کى طرح اپنى وحدانىت(ایک ہونے)کا گواہ اور اُن کى گواہى کووَجہِ ثبوت اُلوہِىّت(اپنے معبود ہونے کی دلیل)قراردىا۔سِوُم:اُن(علما) کى گواہی مانندِ ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح)معتبر ٹھہرائى۔ دوسری آیت :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ(پ22، فاطر : 28) اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(ترجمہ کنزالایمان) اوروجہ اِس حصرکی(یعنی ڈرکو علماکے ساتھ خاص کرنے کی وجہ) ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر(غضب) اور بےپروائى(بےنیازی) اور احوالِ دوزخ اور اَحوالِ قىامت(قیامت کی ہولناکیوں) کو بتفصىل(تفصیل کے ساتھ)نہىں جانتا(اس وقت تک) حقىقت خوف وخشىت کى اُس کو حاصل نہىں ہوتی اور تفصىل ان چىزوں کى علما کے سوا کسى کو معلوم نہىں۔احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں فضائل علما :پہلی حدیث :امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلما علی الشھداء، ص48، حدیث : 139دوسری حدیث:اورحدىث مىں آىا ہے: جو شخص اىک باب علم کا اوروں(دوسروں) کے سىکھانے کے لئے سىکھے اُس کو ستر(70) صدىقوں کا اجر دىا جاوے۔الترغیب والترھیب، کتاب العلم، الترغیب فی العلم…الخ، 1/ 68، حدیث : 119تیسری حدیث: ابوداؤد نے (حضرت )ابودرداء رضی اللہ عنہ سے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں(کسی)اىک راہ چلے خدا اُسے بِہِشْت(جنت)کى راہوں سے اىک راہ چلادے اور بےشک فرشتے اپنے بازو طالبِ علم کى رضامندى کے واسطےبچھاتے ہىں اور بےشک عالم کے لئے استغفار کرتے ہىں سب زمىن والے اور سب آسمان والے ىہاں تک کہ مچھلىاں پانى مىں اور بےشک فضل عالم کا عابد پر اىسا ہے جىسے چودھوىں رات کے چاند کى بزرگی (فضیلت) سب ستاروں پر اور بےشک علما وارث انبىاء علیہم الصلوۃ و السلام کے ہىں اور بےشک پىغمبروں نے درہم ودىنار میراث نہ چھوڑى(بلکہ) علم کو مىراث چھوڑا ہےپس جو علم حاصل کرے اُس نے بڑا حصہ حاصل کىا۔چوتھی حدیث :اِحىاء العلوم مىں مرفوعًا رواىت کرتے ہىں : خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا :بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت(جنت) مىں جاوىں گے۔احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 26پانچویں حدیث:حدیث شریف میں آیا ہے: جب پروردگارقىامت کے دن اپنى کرسى پرواسطے فىصلہ بندوں کے(یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے)قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے تو)علما سے فرمائے گا :خلاصَۂ معنى ىہ ہے کہ مىں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسى ارادے سے عناىت کىا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کچھ پرواہ نہىں۔المعجم الکبیر، 2/ 84، حدیث : 1381امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں :اَلْعِلْمُ بَابُ اللّٰہ الْاَقْرَبُ،وَالْجَھْلُ اَعْظَمُ حِجَابٍ بَیْنَکَ وَبَیْنَ اللّٰہعلما اللہ کاقرىب تَردروازہ ہے اورجہل(بے علمی)تمہارے اورخدا( پاک) کے درمىان سب سے بڑا حجاب(بڑی رکاوٹ) ہے۔علم موجِب حىات(زندگی کا باعث)بلکہ عَینِ حىات اور جہل(بے علمی) مورثِ موت (موت کا سبب)بلکہ خود موت ہے۔جاہل کے جسم پر(موجود) کسی زیور سے حیرت میں نہ پڑو کہ وہ تو مردہ ہے اور اس کا جامہ(لباس) کفن(ہے۔) (تفسیر النسفی، پ9، سورة الانفال، تحت الآية : 24، ص409، بتغیر لفظ) اگر خدا ( پاک)کے نزدىک کوئی شی(شے) علم سے بہتر ہوتى آدم علیہ السلام کو مقابلہ ملائکہ(فرشتوں کے مقابل) مىں دى جاتى۔ تسبىح وتقدیس(پاکی بیان کرنا) فرشتوں کى، علم اسماء کے برابر نہ ٹھہرى(تو پھر) علم حقائق و دیگر عُلومِ دینیہ کی بزرگی کس مرتبہ میں ہوگی؟

قِىاس کُن زِ گُلِستانِ مَن بَہارِ مَرا میرے باغ سے ہی میری بہار کا اندازہ کرلے