5 جون کو عازمینِ حج کے لئے فیضانِ مدینہ
کراچی میں حج تربیتی اجتماع کا انعقاد کیا جائیگا

کرونا وبا کے بعد پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح
پر حج کا اعلان کردیا گیا ہے۔ رواں سال 2022ء میں دنیا بھر سے 10 لاکھ مسلمان حج کرسکیں
گے جبکہ حکومت کی جانب سے ملک پاکستان کو 81 ہزار 132 عازمین کا کوٹہ دیا گیاہے۔
اس سال حج پر جانے والے خوش نصیب عاشقان رسول
کے لئے دعوت اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضان کراچی (سندھ) میں 5 جون 2022ء بروز
اتوار دوپہر 2بجے ”حج
تربیتی اجتماع“ کا انعقاد کیا جائیگا جس میں اسلامی بھائیوں
کو احرام باندھنے کا طریقہ اور حج کے متعلق دیگر احکام سکھائے جائیں گے۔
اسی روز رات 9:45 پر محفل مدینہ کا بھی اہتمام
ہوگا جس میں شیخ طریقت امیر اہل سنّت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ عازمینِ حج کی تربیت فرمائیں گے جبکہ نعت خواں
حضرات یادِ مدینہ اور حج کے کلام پیش کرکے عشق رسول میں اضافہ کریں گے۔
تمام عاشقان رسول سے اس اجتماع پاک میں شرکت
کرنے کی درخواست ہے۔
19 جون کو عالمی مدنی مرکز فیضان ِمدینہ کراچی میں پروفیشنلز اجتماع منعقد ہونے جارہا ہے

پروفیشنلز
حضرات کے لئے خوشخبری
دعوت
اسلامی کے شعبہ پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام 19 جون 2022ء بروز اتوارعالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں پروفیشنلز اجتماع منعقد ہونے جارہا ہے۔
اس
پروگرام میں مختلف شعبے سے وابستہ پروفیشنلز حضرات شرکت کرسکیں گے۔ پروفیشنلز
اجتماع میں ہیڈآف پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ و موٹیویشنل اسپیکرمحمد ثوبان عطاری شرکا کے
درمیان ” Building bridges “
کے موضوع پر بیان فرمائیں گے۔اس کے علاوہ اجتماع
میں کارپوریٹ سیکٹر میں دینی کام کرنے اور اس کے طریقہ کار کے متعلق بھی ایک سیشن
بھی منعقد کی جائے گی۔
تمام
پروفیشنلز حضرات سے اس اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔

زندگی
میں کامیابی حاصل کرنے، اچھا ماحول بنانے، سکون پانے اور کردار اچھا کرنے کے لئے
بہت سے اصول بنائے جاتے ہیں تاکہ ان اصولوں پر عمل کرکے زندگی میں سکون ملے، کردار
اچھا ہو اور ملک میں امن قائم ہو، اس
حوالے سے ہر شعبے میں قانون سازی بھی کی جاتی ہے اور کچھ اداروں میں اس موضوع پر
ٹریننگ سیشن بھی منعقد ہوتے رہتا ہے۔
لیکن
مسلمانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر ادا ، ہر ہر عمل ہماری رہنمائی کے لئے
کافی ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیدائش سے لے کر ظاہری زندگی کو الوادع کہنے تک
زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے مشعل راہ اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے بہترین نمونہ
ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر
عمل کرکے ہمارے اسلاف نے بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔
بانی
دعوت اسلامی، امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ بھی وقتاً
فوقتاً مسلمانوں کی رہنمائی کرتے اور سنت رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے رہتے ہیں۔
عاشقان
رسول کو مزید ترغیب دلانے کے لئے امیر
اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے
اس ہفتے رسالہ ”126 سنتیں اور آداب“ پڑھنے/ سننے کی
ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے / سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا بھی ہے۔
دعوت
اسلامی کی مجلس تراجم کی جانب سے اس رسالے کا سات زبانوں(اردو، انگلش، بنگلہ، ہندی،
رومن اردو، سندھی، پشتو) میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے، دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر ان
زبانوں میں رسائل موجود ہیں، مذکورہ زبانوں کے جاننے والے درج ذیل لنک پر کلک کرکے
رسائل کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
دعائے
عطار
یارب
المصطفٰے! جوکوئی 17 صفحات کا رسالہ ” 126 سنتیں اور
آداب “ پڑھ یا سن لے اُس کو بار بار حج کی
سعادت دےاور بار بار میٹھا مدینہ دکھا۔ آمین
یہ
رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے
رسالہ
آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

علمائے
اسلام اور مسلمانانِ عالَم کا قدیم زمانے سے یہ قابلِ
تحسین اور لائقِ تقلید طریقہ چلا آرہا ہے کہ جب بھی سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر دُرود شریف پڑھتے ہیں تو اِس
کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی مبارَک آل اور پیارے اَصحاب رضوانُ اللہ علیھم اَجمعین
پر بھی دُرود و سلام بھیجتے ہیں۔یقیناً یہ
خوبصورت انداز عقیدے کی درستی اور پختگی
کی علامت ہے ؛کہ اِس طرز پر درود و سلام پڑھنے والے کو سرورِ
دوعالَم، حُسنِ مجسَّم ،شفیعِ معظَّم صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کے تمام صحابہ اور جمیع اہلِ بیت سے عقیدت و
محبت ہے،جو کہ ایمان کےلئے انتہائی ضروری ہے۔
علمائے
اسلام نے تعظیمِ رسول کی
علامات میں اِس بات کو بھی ذکر فرمایا ہے
کہ آپ صلی
اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے صحابہ اور اہلِ بیت سے محبت و عقیدت رکھی جائے اور ان حضرات کا ادب و احترام کیا جائے۔چنانچہ امام قاضی عیاض
مالکی رحمۃ
اللہ علیہ اپنی تصنیفِ
لطیف "شفاء شریف " میں اہلِ بیت اَطہار کے بارے میں ارشاد فرماتے
ہیں:
" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ
صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِرِّہِ بِرُّ آلِہِ ذُرِّیَّتِہِ
وَاُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَزْوَاجِہِ۔"یعنی،سرکارِ
اعظم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی
آل، اَولاد اور اَزواج ( یعنی اُمہاتُ المؤمنین) کی تعظیم و توقیر کی جائے۔([1])
اور اِسی "شفاء شریف" میں آپ رحمۃ اللہ علیہ صحابۂ
کرام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ وَبِرِّہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوْقِیْرِ اَصْحَابِہِ وَبِرُّھُمْ وَ مَعْرِفَۃُ حَقِّھِمْ
وَ الْاِقْتِدَاءُ بِھِمْ وَحُسْنُ الثَّنَاءِ عَلَیْھِمْ۔" یعنی،سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی تعظیم و
توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابۂ کرام کی تعظیم و توقیر کی جائے،ان کے حق کو
پہچانا جائے، ان کی اقتدا اور پیروی
کی جائے اور ان کی مدح و ثنا کی جائے۔([2])
ان کے مَولیٰ کی اُن پر کروڑوں درود اُن کے اَصحاب وعِترَت پہ لاکھوں سلام([3])
محبتِ صحابہ و اہلِ بیت کا دُرست معنی:
یہاں
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبیِ کریم ،رسولِ
عظیم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے مقدَّس صحابہ اور پیارے اہلِ بیت کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان حضرات
میں سے ہر ایک سے محبت رکھی جائے ۔معاذاللہ! صحابہ یا اہلِ بیت میں سے کسی ایک فرد
سے بھی بغض ونفرت رکھنا انتہائی ہلاکت خیز
اور دُنیاو آخرت میں نقصان و خُسران کا باعث ہے اور یہ اِس بات کی بھی دلیل
ہے کہ ایسے شخص کو دیگرصحابہ واہلِ بیت سے بھی سچی اور ایمانی محبت نہیں ہے؛کیونکہ
اِن تمام تر نفوسِ قُدسیہ سے محبت اِ ن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے ،بلکہ ذاتِ مصطفٰے
صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے۔
لفظِ
"صحابہ" صحابی کی جمع ہے،جس کا لفظی معنیٰ ہی "صحبت میں
رہنے والا " اور " رفیق وساتھی "ہےاورمسلمانوں کا ہر
سمجھدار بچہ بھی جانتاہے ہے کہ جماعتِ صحابہ پر لفظِ"صحابہ" کا اطلاق صحبتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی وجہ
سے ہی کیا جاتاہے۔بالفاظِ دیگر صحابی کو صحابی ،صحبت و نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔اِسی طرح "اہلِ
بیت" کا لفظی معنیٰ ہی "گھر
والے" ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اہلِ بیت کو رسولِ کریم ،نبیِ عظیم صلی اللہ علیہ و اٰلہ
و صحبہ وسلم کےمقدّس گھرانے اور خاندان سے ہونے کی وجہ سے ہی "اہلِ بیت" کہا جاتاہے۔ "اہلِ بیت"
یعنی گھر والے، کس کے گھر والے ؟ جانِ کائنات ، مفخرِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ
و اٰلہ و صحبہ وسلم کے گھر والے۔
چونکہ ذاتِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و
صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت ہر صحابی اور اہلِ بیت کے ہر
فرد ہی کو حاصل ہے، لہذا ان میں
سے ہر ایک سے عقیدت و محبت رکھنا اور ہر ہر موقع پر اس محبت کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔
چنانچہ
اعلیٰ حضرت، مجدِّدِ اعظم امام اَحمد رضا
خان رحمۃ
اللہ علیہ اِسی
حقیقت کا بیا ن یوں فرماتے ہیں:وَلَیْسَ حُبُّ الصَّحَابَۃِ
لِذَوَاتِھِمْ، وَلَا حُبُّ اَھْلِ الْبَیْتِ لِاَنْفُسِھِمْ، بَلْ حُبُّھُمْ
جَمِیْعاً لِوُصْلَتِھِمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَمَنْ اَحَبَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ
ﷺ وَجَبَ اَنْ یُحِبَّھُمْ جَمِیْعاً ، وَمَنْ اَبْغَضَ بَعْضَھُمْ ثَبَتَ اَنَّہُ
لَایُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ۔ یعنی، صحابۂ کرام سے محبت اُن
کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے، اور اہلِ بیت کی محبت اُن کی اپنی جانوں کی وجہ سے نہیں
ہے ، بلکہ ا ن تمام افراد سے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و
صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے ۔لہذا جو
شخص نبی پاک
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے محبت کرتاہے تو اُس پر واجب ہے کہ اِ ن تمام
حضرات (سارے
ہی صحابہ و اہلِ بیت)سے
محبت رکھے۔اور جو شخص اِن حضرات(صحابہ
و اہل ِبیت )
میں کسی سے ایک سے بھی بُغض رکھے تو ثابت ہوجائے گا کہ ایسا شخص رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
و اٰلہ و صحبہ وسلم سے بھی
محبت نہیں رکھتا۔ ([4])
اہلِ سُنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِتْرت رسول اللہ کی([5])
ربِّ
کریم عزوجل
اپنے رسولِ ذیشانصلی
اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام ہی صحابہ و اہلِ بیت کی سچی ،شرعی اور ایمانی محبت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہر ہر موقع پر اپنے قول و فعل سے اِس محبت کا اظہار کرتے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بِجاہ ِطٰہٰ
ویٰس
ازقلم: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی
.png)
علم و علما کے فضائل بے شمار ہیں اور
ان دونوں کے بنا انسان کی زندگی مفلوج ہے۔علم
کی اہمیت پیشِ نظر ہوگی تو علما کی قدر ممکن ہوگی ۔علم نہیں تو علما کی قدر کیوں
کر ہو سکے گی!سب سے پہلے علم کے معنی سمجھیے:علم جہل کی ضد ہے۔علم کا معنی :جاننا۔متکلمین
کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے:یہ صفت جس کے ساتھ قائم ہو،اس کے نزدیک ذکر کردہ چیز
مُنکَشِف (یعنی
ظاہر)ہوجائے۔عقل
سے جو چیز معلوم ہو اسے عِلم کہتے ہیں۔حواس سے جو چیز معلوم ہو اسے شُعُور کہتے
ہیں۔علم حاصل کرنے کے تین اسباب ہیں:1:سچی
خبرسے2: حواس کی سلامتی سے3: اور عقل سے (نعمۃ الباری ،1/298)علم کی فضیلت کے متعلق قرآنِ پاک میں رشادِ
باری ہے:یَرفَعِ
اللہ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَالَّذِینَ اُوتُوا العِلمَ دَرَجاتٍ واللہ بِمَا
تَعمَلُونَ خَبیِرٌ 0(المجادلہ :11)حدیثِ
پاک میں ہے: حضرت امیر ِمعاویہ رضی اللہ
عنہ
نے جانِ جاناں حضور پُرنور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ پاک جس کے ساتھ خیر
(بھلائی)
کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ،فہم )عطا
فرماتا ہے۔(مسلم،حدیث:1037،ابن ماجہ،حدیث:221،معجم
کبیر،حدیث:860،جلد19)شرحِ
حدیث: اس حدیث کو روایت کرنے والے حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
ہیں۔بعض بد باطن و بد طینت لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
سے بغض رکھتے ہیں ان کی شان میں تنقیص(کمی) کرتے ہیں اس
لیے ان کی فضیلت میں ایک حدیثِ پاک پیشِ خدمت ہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے اس دروازے سے ایک شخص آئے
گا جو جنتی ہے تو اس دروازے سے حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
داخل ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے اسی طرح فرمایا ۔پھر آپ رضی
اللہ عنہ آئے ۔عرض کی گئی :یارسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! وہ یہ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ،وہ یہ
ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا :تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی
انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: تم جنت کے دروازے پر مجھ سے اس طرح ملو گے۔(تاریخ
دمشق ،13500،62/70)فقہ
کالغوی و اصطلاحی معنی:خیر شر کی ضد ہے۔خیر کا معنی ہے: خالص مشقت اور اللہ پاک کے
ارادہ کا مطلب ہے:دو مقدور چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو واقع کرنا۔اس کے بعد
فرمایا:یفقہ
فی الدین یعنی
اس کو دین میں فقیہ بنا دیتا ہے ۔الفِقہ کا لغوی معنی ہے: دین کی سمجھ اور اس کا
عرفی معنی ہے: تفصیلی دلائل سے شرعی احکام پر استدلال کرنا اور اس حدیث میں لغوی
معنی ہی مناسب ہیں ۔حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں : فقیہ وہ ہے جو دنیا میں زاہد ہو اور آخرت میں راغب ہو،دین پر بصیرت رکھتا ہو
اور دائمی عبادت کرتا ہو۔(عمدۃ القاری،2/74)علما
کی فضیلت قرآنِ پاک کی روشنی میں: فَسئَلُوٓا اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُمࣿ لاتَعلَمُونَ (
النحل:43)ترجمہ: اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو
علم والوں سےپوچھو۔تفسیر: اس آیت میں علم والوں سے مراد اہل ِکتاب ہیں
اللہ پاک نے اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو
مانتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس پچھلی کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللہ پاک نے
رسول بھیجے تھے جیسے حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیہماالصلوۃ
والسلام
وغیرہ۔(تفسیر
صراط الجنان ،تفسیر خازن ،النحل، تحت الآیۃ:43،3،124)علمائے
کرام رحمۃ
اللہ علیہم اجمعین کی شان میں
پانچ فرامینِ مصطفٰے:1: فرمایا: بروزِ قیامت امتِ محمد کے علمامیں سے ایک عالِم لایا جائے گا تو اللہ پاک فرمائے
گا:اے جبرائیل! اس کا ہاتھ پکڑ اور نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ اس وقت حوض کے
کنارے لوگوں کو برتنوں میں پانی پلاتے ہوں گے۔پس جبرائیل علیہ السلام
اس کا ہاتھ تھام کر حضور پُرنور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائیں گے۔ پس رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اٹھ کر اسے اپنے دست ِمبارک سے چلو سے
پلائیں گے تو لوگ عرض کریں گے:یا رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ نے ہمیں برتنوں سے پلایا اور
عالِم کو اپنے چلو مبارک سے تو حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمائیں گے:اس لیے کہ لوگ دنیا
میں تجارت کے ساتھ مشغول رہے اور علما علم کے ساتھ مشغول رہے۔(قرۃ
الابصار اردو ترجمہ دقائق الابصار،ص185)دوسری
حدیثِ پاک میں رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :صرف ایسے عالم کے پاس بیٹھو جو تمہیں
پانچ چیزوں کی طرف بلاتا ہو:1:شک
سے یقین کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف ،دنیاکی خواہش سے زہد کی طرف،تکبر سے تواضع( یعنی عاجزی
)
کی طرف اور دشمنی سے خیر خواہی کی طرف۔ ( احیاء العلوم، 1 / 28)تیسرا
فرمانِ رسول ہے: قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے :انبیا علیہم
الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔
راوی فرماتے ہیں:بلند مرتبۂ نبوت و شہادت کے درمیان واسطہ ہے۔ (ابنِ
ماجہ،حدیث:4313)آقائے دوعالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :علما جنت کی کنجیاں
اور انبیا علیہم
الصلوۃ والسلام کے خلفاء ہیں۔راوی فرماتے ہیں:انسان کنجی (یعنی
چابی )نہیں
بنتا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اُس (یعنی عالم)کے پاس علم ہے
جو چابی کا کام دیتا ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ جو خواب میں اپنے ہاتھ میں چابی دیکھے
تو اس کی تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اسے علمِ دین کی دولت نصیب ہوگی۔ (فضل
قدیر ترجمہ تفسیر کبیر ،2/422)رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا : عالمِ دین کی فضیلت عابد پر ستر درجے زیادہ ہے جن میں سے ہر درجہ کے
درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔(کنزالعمال،حدیث:28792)دیکھا آپ نے!قرآن و احادیث کس خوبصورت
انداز میں علمائے حق کے فضائل بیان فرمارہے! تو ما وشما کیا چیز کہ علمائے حق کے
بارے میں کسی بھی طرح کی کمزور بات کریں! اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں علمائے اہلِ سنت
کا ہر آن ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
.png)
قرآنِ مجید
میں اس دنیا کو بنانے کا مقصد واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ الله پاک نے ارشاد
فرمایا ہے:و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (پ27،الذریت:56) ترجمۂ کنزالعرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے
کہ میری عبادت کریں۔چنانچہ
تمام عالم کو رب العلمین کی معرفت حاصل کرنے اور اس کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے
اور اس بات کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی چیز کی معرفت حاصل کرنی ہو
تو اس چیز کے ماہرین سے معلومات حاصل کی جاتی ہے ۔ اور اس چیز کے بارے میں اسی کے
ماہرین درست ہدایت فراہم کر سکتے ہیں۔لہٰذا مخلوق کو خالق کی پہچان وہی ماہر شخص
کروا سکتا ہے جو اس ذات پاک کی صحیح طور پر معرفت رکھتا ہو اور اس ذات پاک کے بارے
میں دلائل کے ساتھ علم رکھنے والا ہو ۔ اور جس شخص میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اسے
دین اسلام میں عالم کا لقب دیا گیا ہے۔علمائے کرام ہی وہ ہستیاں ہیں جو رب العلمین
کی پہچان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ علمائے کرام الله پاک کی کتاب قرآنِ پاک اور رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاکیزه فرمان کو سیکھ کر، سمجھ کر آگے ہم تک پہنچاتے ہیں،
چاہے وہ بیان کی صورت میں ہو یا کتاب کے ذریعے ہو ، وعظ ہو یا نصيحت الغرض ہم عام
لوگوں کو، نا جاننے والوں کو، علم نا رکھنے والوں کو الله پاک اور اس کے دین کی صحیح
اور سچی معرفت یہی علمائے کرام دلاتے ہیں۔اسی لیے علمائے کرام کو رب کریم نے بہت
فضیلت عطا فرمائی ہے کہ بغیر علمائے کرام کے مقصد حیات باقی نہیں رکھ سکتا کہ بغیر
ان کے الله پاک کی صحیح اور درست پہچان حاصل ہونا اور حاصل کرنا یہ سب ناممکن ہو
جائے۔علمائے کرام کے فضائل پر کئی آیات کریمہ اور احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جس سے
بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام الله پاک کے ہاں بہت فضیلت
والا ہے ۔ چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر مبنی 5 احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجیے:
رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں (1) نزدیک تر لوگوں کے لوگوں میں سے درجۂ نبوت
سے علماء و مجاہدین ہیں۔ احياء
علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلمالخ 20/1 ، دار صادر بیروتتحقيق الله پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب
آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سیکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی
سکھاتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة، 313/4
، حدیث 2694، دار الفکر بیروت 1414 )رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں
کا خون تولاجائے گا روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ،باب تفضيل العلما على الشهداء، ص
48، حديث 139، دار الكتب العلمیہ 1428)رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے
دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ نے فرمایا: بزرگی علم کی عابد پر ایسی
ہے جیسے میری فضيلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی،
کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة،313/4، حدیث 2694، دار الفکر بیروت
1414)خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا:
بہشت میں جاؤ۔ وہ عرض کریں گے: الٰہی انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد
کیا حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت
قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جاویں گے۔ احياء علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلم
الخ، 26/1، دار صادر بیروتجب ہمارے
رب کے ہاں علمائے کرام کا مرتبہ اتنا اعلى و افضل ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم
ہر لمحے اپنے علمائے کرام کا ادب و احترام کریں، تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر کے
اپنے خالق و مالک سے اپنا تعلق مضبوط کر سکیں کہ يقيناً علمائے کرام الله پاک کے
مقرب اور محبوب ترین بندوں میں سے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد
ہوا: اے ابراہیم!میں علیم ہوں، ہر علیم کو دوست رکھتا ہوں یعنی علم میری صفت ہے
اور جو میری اس صفت پر ہے وہ میرا محبوب ہے۔(فيضان علم و علما، ص 20، مكتبة المدينه)
.png)
چند فضائل علمِ دین کے ترغیب (مسلمانوں کے شوق کے لیے) کے لیے لکھے جاتے ہیں:امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے
ہیں :علم مدار کار اور قطب دین ہے( یعنی علمِ دین و دنیا میں کامیابی کی بنیاد ہے )حقیقت
میں کوئی کمال دنیا اور آخرت میں بغیر اس صفت (یعنی علم) کے اور ایمان بغیر اس کے
کامل نہیں ہوتا ۔مصرعہ ہے:بے علم نتواں
خدارا شناخت یعنی بغیر علم کے خدا کو
پہچان نہیں سکتے ۔یہ ہے علم کی فضیلت اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ علمِ دین سیکھنے
کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلماسی طرح کئی
احادیثِ مبارکہ میں علما کی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے پانچ درج ذیل ہے:علما
کی فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفٰے :(1)احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک
قیامت کے دن عابدوں مجاہدوں کو حکم دیگا: بہشت (جنت)میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے:
الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا: تم میرے نزدیک
بعض فرشتوں کی مانند ہو،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس (علما پہلے)شفاعت
کریں گے پھر بہشت (جنت)میں جائیں گے۔ (2)بخاری اور ترمذی نے بسند صحیح روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا:مَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْراً يُّفَقِّههُ فِي
الدِّينِ یعنی اللہ
پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں دانشمند (دین کی سمجھ
عطا)کرتا ہے۔اشباہ والنظائرمیں لکھا ہے کہ کوئی اپنے انجام سے واقف نہیں سوا ئےفقیہ
کے کیونکہ وہ باخبار مخبر صادق (سچی خبریں دینے والے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کے بتانے
سے)جانتا ہے
(کہ)اس کے ساتھ خدا پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔(3)ابوداؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت
کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص طلب علم میں
کسی ایک راہ چلے خدا اسے بہشت (جنت)کی راہوں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے
اپنے بازو طالب علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتےہیں اور بے شک عالم کے لیے استغفار
کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک
فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی (فضیلت)سب ستاروں
پر اور بے شک علما وارث انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے
درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کرے اس نے
بڑا حصہ حاصل کیا۔(3)صحیح مسلم کی روایت میں وارد ہوا کہ جو طلب علم میں کوئی
راہ چلے خدا (پاک)اس کے لیے بہشت (جنت)کی راہ آسان کرے گا اور جب کچھ لوگ خدا پاک
کے گھروں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ پڑھتے ہیں اور آپس میں درس کرتے ہیں
(پڑھتے پڑھاتے)ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور
فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور خدا پاک اپنے پاس والوں کے سامنے ان کا
ذکر کرتا ہے یعنی فرشتوں پر ان کی خوبی اور اپنی رضامندی ان سے ظاہر فرماتا ہے ۔(4) حدیث میں
ہے: عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار
رکعت نماز ،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسی
نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم اور قراءت
قرآن سے بھی ؟یعنی کیا علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سے بھی افضل ہے
؟فرمایا: آیا (کیا)قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟یعنی فائدہ قرآن کا بے علم کے
حاصل نہیں ہوتا۔(5)حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے
(لوگوں میں سے)درجۂ نبوت سے علما و مجاہدین ہیں۔یعنی ان (علما و مجاہدین )کا
مرتبہ پیغمبروں کے مرتبہ سے بہ نسبت تمام خلق (مخلوق) کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس
چیز پر جو پیغمبر لائے دلالت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس چیز پر کہ پیغمبر لائے
تلواروں سے لڑتے ہیں۔یہ ہیں علم وعلما کے فضائل اللہ کریم ہمیں قیامت تک علما کی
کا خوب خوب فیضان نصیب فرمائے اور ہمیں حقیقی عالمہ بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
علمائے دین عوام الناس کے لیے علمِ دین
کا سر چشمہ ہوتے ہیں جن سے علوم دین کے پیاسے اپنی علم کی پیاس بجھاتے ہیں اور یہ ان
کے لیے راہ ہدایت کے ستارے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر وہ اپنی زندگی کے اسفارطے کرتے ہیں۔علمائے
کرام کے فضائل بے شمار ہے چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر
اﷲ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں
اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔(پ3،
اٰل عمران:18)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے اس بات کی
گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں
اور اہلِ علم کی گواہی کو ملایا ہے ۔یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیت عظمیہ کا بیان ہے۔ اس
کے علاوہ بھی قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر
علما کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور
یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے( پ20، العنکبوت: 43) اس آیت سے تین فضیلتیں علما کی ثابت ہوئیں :1: خدائے رحمان نے
علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ ہے کہ نہایت (انتہاء)نہیں
رکھتا۔2:اُن
(علما) کو فرشتوں کی طرح اپنی واحدنیت (ایک ہونے) کا گواہ اور ان کی گواہی کو وجہ ثبوت
اُلوہِیّت( اپنے معبود ہونے کی دلیل) قرار
دیا۔3: ان
علما کی گواہی مانند گواہی ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح) معتبر ٹھہرائی
اسی طرح سرکار مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بکثرت احادیثِ مبارکہ میں بھی علما
کی شان بیان کی گئی ہے۔ آئیے! اس ضمن میں 5 فرمان مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھئے۔1:حضر ت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی با رگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں
سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت
گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرما یا: اللہ پاک ، اس کے فر شتے ، آسمانو ں اور زمین کی
مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا
نے والے پر درود بھجتے ہیں۔ (تر مذی ، کتاب الجنا ئز ،11۔باب ، 2/296،
حدیث : 395 ، صراط الجنا ن
جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 440) یہ
ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علما کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یومِ خیبر میں حضرت علی رضی
اللہ عنہ
کو جھنڈا دیتے ہو ئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت
دو ۔اگر ایک کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹو ں سے بھی زیا دہ قیمتی متا ع
ہو گی۔علما میں سے اہلِ تقو یٰ علمائے باطن اور دل والوں کی فضیلت کے معترف تھے۔ چنانچہ
حضرت امام شا فعی رحمۃُ اللہِ علیہ شیبا ن راعی کے
سا منے اس طر ح بیٹھے جس طر ح طالب علم مکتب میں بیٹھتا ہے اور پو چھتے کہ اس معاملے کا حکم کیا ہے ؟ کسی نے آپ سے عرض کی
: حضور ! آپ جیسا عظیم شخص اس بدوی سے پو
چھتا ہے؟ فر ما یا : بے شک اسے اس چیز کی تو
فیق ملی ہے جس سے ہم غا فل ہیں۔2:اور وارد ہوا ( یعنی حدیث شریف میں
آیا ہے) کہ جب پروردگار قیامت کے دن اپنی کرسی
پر واسطے بندوں کے (یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرما نے) قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس
کی شان کے لائق ہیں تو ) علما سے فرمائے گا : جس کا خلاصہ و معنی یہ ہے کہ میں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش
دو اور مجھے کچھ پروا نہیں۔ ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل
الفقہ علی العبادۃ، 313/4، حدیث:2694۔3: نبیِ اکرم ،نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک بڑا جَواد (سب سے
زیادہ نوازنے والا)ہے اورمیں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہےجس نے کوئی علم سیکھا پھر اس
کو پھیلا دیا۔ (شعب
الایمان، باب فی نشرالعلم، 281/2، حدیث:
1747، باختصار۔4:
امام ذہبی نے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور
شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی (سیاہی)
ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ جامع بیان العم
وفضلہ، باب تفضیل العاماءعلی الشھداء، ص 48، حدیث:139۔5:احیاء
العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو
حکم دے گا: بِہِشت (جنت) میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے:الٰہی! انہوں نے ہماری بتانے سے
عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا :تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو
کہ تمہاری شفاعت قبول ہوگی پس( علما پہلے) شفاعت کریں گے پھربِہِشت(جنت) میں جاؤ گے۔ احیاء
علوم الدین کتاب العلوم الباب الاول فی فضل العلم الخ، 24/1
.png)
علمائے کرام کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل
ہے۔ان کے فضائل پر کتبِ حدیث بھری پڑی ہیں۔یاد
رکھیے!علمائے کرام کی تعظیم کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ علمائے کرام کے علم کی وجہ
سے توہین کرنا کفر ہے۔علمائے کرام کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے پڑھیے:(1)رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:علما انبیا کے وارث ہیں ۔انبیا نے دینار و درہم کی میراث نہیں
چھوڑی بلکہ ان کی میراث علم ہے۔ پس جس نے ان کا علم حاصل کیا اس سے انبیا کی میراث
کا بڑا حصہ پا لیا۔(ابوداود،3641)(2)حضرت ابوہریرہ
رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص علمِ دین کی تلاش میں
کوئی راستہ چلے اللہ پاک اس کے لیے جنت کے راستے آسان کر دے گا۔(ترمذ
ی:2646-مسلم:2699-ابن ماجہ: 223 ،225)(3)حضرت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے
میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے۔اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور آسمان اور
زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی اس شخص کے لئے جو
نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و بھلائی کی دعائیں کرتی ہیں۔(ترمذی:2685-صحیح
الجامع:4213-صحیح الترغیب:81)(4) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: فضیلتِ عالم کی عابد پر ستر 70 درجے
میں اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین میں ہے۔( مسند ابی
یعلی،حدیث: 856)(5)حضرت ابو داود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن علما کی
قلم کی سیاہی اور شہید کے خون کو تولا جائے گا تو علما کے قلم کی سیاہی شہید کے
خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔
.png)
علم حاصل کرنا دنیا و آخرت میں نجات کا
ذریعہ ہے۔علم مال سے بہتر ہے۔علم پھیلانے سے بڑھتا ہے۔علم کی بدولت عالم اپنی
زندگی میں اللہ پاک کی اطاعت کرتا ہے۔عالم
کے مرنے بعد بھی اس کا ذکرِ خیر باقی رہتا ہے۔عالم لوگوں کو دین کے مسائل
سکھاتا ہے ۔عالم سے لوگ محبت کرتے ہیں۔علما کی میراث علم ہے۔علم کی فضیلت میں احادیثِ
مبارکہ:1:اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے تلاشِ علم کی تو یہ تلاش اس کے
گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہو گی۔(مشکاۃ المصابیح، ص35 ،حدیث: 209 ) 2:رات
میں ایک گھری علم کا درس تمام رات بیداری
سے بہتر ہے۔ (مشکاۃ
المصابیح،ص37،حدیث:230)3:نبیِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر اس حال میں صبح کرو کہ
تم عالم ہو یا متعلم یا عالم کی باتیں سننےوالا اور عالم کا محب اور پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا۔(ملفوظاتِ
اعلیٰ حضرت،حصہ دوم،ص284)حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:علمِ دین
حاصل کرنے والے کے لئے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، سمندروں میں مچھلیاں ان کے
لئے استغفار کرتی ہیں۔علما کی فضیلت پر احادیثِ کریمہ:1:اچھوں سے اچھے بہترین علما
ہیں۔(مشکوۃ
المصابیح،ص 30،حدیث: 240 )2:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی
میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر۔پھر فرمایا: اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور تمام آسمان
و زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلیاں سب اس کی
بھلائی چاہتے والے ہیں جو کہ وہ عالم جو لوگوں کو اچھی باتیں کی تعلیم دیتا ہے۔3:عالموں
کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہو جائے گی۔4:علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے
جس سے حشکی اور سمندر میں راستے کا پتا چلتا ہے۔ اگر ستارے مٹ جائیں تو راستے پر
چلنے والے بھٹک جائیں گے۔5:ایک عالم ایک ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت ہے۔(جنتی
زیور،ص 45 تا 47)جو علم کی تلاش میں نکلتا ہے وہ واپس تک اللہ پاک کی راہ میں ہوتا ہے۔علم کی جستجو میںسفر
کرنا ثواب ہے۔ علم سے عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ عمل کے اضافے سے بندہ نیکیوں پر فائز
ہو جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے اور اپنے علم پر عمل کرنے کی سعادت
عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
.png)
حدیثِ
مبارکہ میں یوں تو لا تعداد علما کے فضائل بیان کیے گئے ہیں لیکن یہاں حضورِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لبہائے مبارکہ سے ادائیگی ادا کیے
گئے چند علما کے فضائل درج ذیل ہیں:(1)حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں: نبیِ پاک، رسولِ اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک زمین پر علما کی مثال ان ستاروں
کی طرح ہے جن سے بحر و برکی تاریکیوں میں راہ نمائی حاصل کی جاتی ہے تو جب ستارے
ماند پڑ جائیں تو قریب ہے کہ ہدایت یافتہ لوگ گمراہ ہو جائیں۔(جنت
میں لے جانے والے اعمال،ص35-مسند احمد،4/314،حدیث:12600)(2)حضرت ابو
موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:اللہ پاک قیامت کے دن بندوں کو اٹھائے گا تو علما کو ان سے علیحدہ فرما
دے گا اور فرمائے گا :اے علم کے گروہ!میں
نے تمہیں عذاب دینے کے لیے علم عطا نہیں فرمایا،جاؤ!میں نے تمہیں معاف فرما دیا۔(معجم
اوسط،3/184،حدیث:4364)(3)حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے ،رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عالم کو عابد پر ستر درجہ فضیلت حاصل ہے
اور ان میں سے دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا تیز رفتار گھوڑے کی ستر سال
دوڑ کا سفر ہے۔(الترغیب
والترھیب،1/57)(4)پیکر
ِحسن و جمال،دافعِ رنج و ملال، صاحبِ جود و نوال صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:ایک فقیہ عالم شیطان پر
ایک ہزار عبادت گزاروں سے زیادہ سخت ہے۔(ترمذی،4/ 311)(5)
حضرت سمرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسولِ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن علما کی سیاہی اور
شہدا کے خون کو تولا جائے گا اور ایک روایت میں ہے:علما کی سیاہی شہدا کے خون پر
غالب آ جائے گی۔(تاریخِ بغداد،2/190)حضرت ابو
امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولِ
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن عالم اور عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے
کہا جائے گا:جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا:جب تک لوگوں کی شفاعت
نہ کر لو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترھیب،1/57،حدیث:34)حضرت
امام غزالی رحمۃُ
اللہِ علیہ
احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: نزدیک تر لوگوں کے یعنی
لوگوں میں سے درجۂ نبوت علما و مجاہدین ہیں۔(فیضانِ علم و
علما،ص20-19)
.png)
علمِ دین کے فوائد
و فضائل احادیث و روایات میں بے شمار ہیں۔علم کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ اللہ
پاک اور رسولِ اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت ہے۔دونوں جہاں کی بھلائی علم سے حاصل ہوتی ہے۔دونوں
جہاں کی بھلائی علم کے سبب ہاتھ آتی ہے۔پس انسان کو چاہیے کہ اس دولتِ عظمیٰ کی تحصیل
میں کوشش کرتا رہے اور اس کے ممانع یعنی روکنے والے امور کو دور کرے۔ علم سے بہتر کوئی
چیز نہیں ہے۔علم کی باتیں ا بھی عبادت ہے۔جو علم کی مجلس میں شریک ہوتا ہے اس پر رحمت
نازل ہوتی ہے اور عالم کی زیارت کرنے کا بھی بہت ثواب ہے۔اللہ پاک کے بندوں میں سے
علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔عالم اور جاہل دونوں برابر نہیں۔قرآنِ پاک میں ہے:ترجمہ:یعنی
اللہ بلند کرے گا ان لوگوں کے درجے جو ایمان
لائے تم میں سے اور ان کے جن کو علم دیا گیا۔(پ28،المجادلۃ:11)اس آیت سے ثابت ہے کہ علم ایمان
کی طرح بلندیِ مراتب کا سبب ہے۔علما کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفٰے:1:سب سے بڑے سخی:بیہقی
روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:اللہ
پاک بڑا جوادیعنی سب سے زیادہ ہے اور میں آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اورمیرے بعد ان میں
بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا۔(شعب الایمان،حدیث:1769)فرمانِ مصطفٰے
نمبر2: علما شفاعت کریں گے۔خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: بہشت میں جاؤ!علما عرض
کریں گے:الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔حکم ہوگا:تم میرے نزدیک
بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس علما پہلے شفاعت کریں
گے پھر بہشت یعنی جنت میں جائیں گے۔(احیاء
العلوم،1/26)فرمانِ مصطفٰے نمبر3: 70صدیقین کا ثواب:حدیث شریف میں آیا
ہے:جو شخص ایک باب علم کا اوروں کے سیکھانے کے لیے سیکھے اس کو ستر صدیقوں کا اجر دیا
جائے گا۔(الترغیب والترھیب،حدیث:119)فرمانِ مصطفٰے نمبر4:علم والوں سے بھلائی کا ارادہ: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خدائے پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا
کرتا ہے۔ (بخاری،1/41) فرمانِ مصطفٰے
نمبر5:مرنے کے بعد علم کا فائدہ:جب آدمی مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر
علاوہ تین چیزوں کے1)کوئی صدقۂ جاریہ چھوڑ گیا۔2)یا ایسا علم جس سے لوگوں کو نفع ہو۔3)یا
لڑکا صالح یعنی نیک اولاد کے اس یعنی مرنے
والے کے واسطے دعا کرے۔یعنی تین چیزوں کا فائدہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔اللہ
پاک ہمیں علما کے فضائل میں سے حصہ پانے کی سعادت بخشے اور علمِ دین پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔