علمائے دین عوام الناس کے لیے علمِ دین
کا سر چشمہ ہوتے ہیں جن سے علوم دین کے پیاسے اپنی علم کی پیاس بجھاتے ہیں اور یہ ان
کے لیے راہ ہدایت کے ستارے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر وہ اپنی زندگی کے اسفارطے کرتے ہیں۔علمائے
کرام کے فضائل بے شمار ہے چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر
اﷲ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں
اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔(پ3،
اٰل عمران:18)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے اس بات کی
گواہی دینے کے بعد کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اپنی اس گواہی کے ساتھ ساتھ فرشتوں
اور اہلِ علم کی گواہی کو ملایا ہے ۔یقیناً اس میں اہلِ علم کی خصوصیت عظمیہ کا بیان ہے۔ اس
کے علاوہ بھی قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر
علما کے فضائل بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور
یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان فرماتے ہیں اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے( پ20، العنکبوت: 43) اس آیت سے تین فضیلتیں علما کی ثابت ہوئیں :1: خدائے رحمان نے
علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کیا اور یہ ایسا مرتبہ ہے کہ نہایت (انتہاء)نہیں
رکھتا۔2:اُن
(علما) کو فرشتوں کی طرح اپنی واحدنیت (ایک ہونے) کا گواہ اور ان کی گواہی کو وجہ ثبوت
اُلوہِیّت( اپنے معبود ہونے کی دلیل) قرار
دیا۔3: ان
علما کی گواہی مانند گواہی ملائکہ کے(فرشتوں کی گواہی کی طرح) معتبر ٹھہرائی
اسی طرح سرکار مدینہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بکثرت احادیثِ مبارکہ میں بھی علما
کی شان بیان کی گئی ہے۔ آئیے! اس ضمن میں 5 فرمان مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھئے۔1:حضر ت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
فر ما تے ہیں ، حضو ر پُر نو ر صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کی با رگاہ میں دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں
سے ایک عالم تھا اور دوسرا عبادت گزار ، تو حضو ر اقدس صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت
گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر ہے پھر سر کا ر دوعالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرما یا: اللہ پاک ، اس کے فر شتے ، آسمانو ں اور زمین کی
مخلوق حتی کہ چیو نٹیا ں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیا ں، لوگوں کو دین کا علم سکھا
نے والے پر درود بھجتے ہیں۔ (تر مذی ، کتاب الجنا ئز ،11۔باب ، 2/296،
حدیث : 395 ، صراط الجنا ن
جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 440) یہ
ساری فضیلتیں اس وجہ سے ہیں کہ علما کی وجہ سے لوگ ہدایت پاتے ہیں۔ حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یومِ خیبر میں حضرت علی رضی
اللہ عنہ
کو جھنڈا دیتے ہو ئے وصیت کی تھی کہ جنگ کرنے سے پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت
دو ۔اگر ایک کو بھی راہ ہدایت مل گئی تو یہ سرخ اونٹو ں سے بھی زیا دہ قیمتی متا ع
ہو گی۔علما میں سے اہلِ تقو یٰ علمائے باطن اور دل والوں کی فضیلت کے معترف تھے۔ چنانچہ
حضرت امام شا فعی رحمۃُ اللہِ علیہ شیبا ن راعی کے
سا منے اس طر ح بیٹھے جس طر ح طالب علم مکتب میں بیٹھتا ہے اور پو چھتے کہ اس معاملے کا حکم کیا ہے ؟ کسی نے آپ سے عرض کی
: حضور ! آپ جیسا عظیم شخص اس بدوی سے پو
چھتا ہے؟ فر ما یا : بے شک اسے اس چیز کی تو
فیق ملی ہے جس سے ہم غا فل ہیں۔2:اور وارد ہوا ( یعنی حدیث شریف میں
آیا ہے) کہ جب پروردگار قیامت کے دن اپنی کرسی
پر واسطے بندوں کے (یعنی بندوں کے درمیان فیصلہ فرما نے) قعود فرمائے گا (جیسا کہ اس
کی شان کے لائق ہیں تو ) علما سے فرمائے گا : جس کا خلاصہ و معنی یہ ہے کہ میں نے اپنا علم وحلم (نرمی) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش
دو اور مجھے کچھ پروا نہیں۔ ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل
الفقہ علی العبادۃ، 313/4، حدیث:2694۔3: نبیِ اکرم ،نور مجسم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک بڑا جَواد (سب سے
زیادہ نوازنے والا)ہے اورمیں سب آدمیوں میں بڑا سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہےجس نے کوئی علم سیکھا پھر اس
کو پھیلا دیا۔ (شعب
الایمان، باب فی نشرالعلم، 281/2، حدیث:
1747، باختصار۔4:
امام ذہبی نے روایت کیا رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دوا توں کی سیاہی اور
شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی (سیاہی)
ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔ جامع بیان العم
وفضلہ، باب تفضیل العاماءعلی الشھداء، ص 48، حدیث:139۔5:احیاء
العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو
حکم دے گا: بِہِشت (جنت) میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے:الٰہی! انہوں نے ہماری بتانے سے
عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا :تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو
کہ تمہاری شفاعت قبول ہوگی پس( علما پہلے) شفاعت کریں گے پھربِہِشت(جنت) میں جاؤ گے۔ احیاء
علوم الدین کتاب العلوم الباب الاول فی فضل العلم الخ، 24/1