علم و علما کے فضائل بے شمار ہیں اور
ان دونوں کے بنا انسان کی زندگی مفلوج ہے۔علم
کی اہمیت پیشِ نظر ہوگی تو علما کی قدر ممکن ہوگی ۔علم نہیں تو علما کی قدر کیوں
کر ہو سکے گی!سب سے پہلے علم کے معنی سمجھیے:علم جہل کی ضد ہے۔علم کا معنی :جاننا۔متکلمین
کے نزدیک علم کی تعریف یہ ہے:یہ صفت جس کے ساتھ قائم ہو،اس کے نزدیک ذکر کردہ چیز
مُنکَشِف (یعنی
ظاہر)ہوجائے۔عقل
سے جو چیز معلوم ہو اسے عِلم کہتے ہیں۔حواس سے جو چیز معلوم ہو اسے شُعُور کہتے
ہیں۔علم حاصل کرنے کے تین اسباب ہیں:1:سچی
خبرسے2: حواس کی سلامتی سے3: اور عقل سے (نعمۃ الباری ،1/298)علم کی فضیلت کے متعلق قرآنِ پاک میں رشادِ
باری ہے:یَرفَعِ
اللہ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَالَّذِینَ اُوتُوا العِلمَ دَرَجاتٍ واللہ بِمَا
تَعمَلُونَ خَبیِرٌ 0(المجادلہ :11)حدیثِ
پاک میں ہے: حضرت امیر ِمعاویہ رضی اللہ
عنہ
نے جانِ جاناں حضور پُرنور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اللہ پاک جس کے ساتھ خیر
(بھلائی)
کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ،فہم )عطا
فرماتا ہے۔(مسلم،حدیث:1037،ابن ماجہ،حدیث:221،معجم
کبیر،حدیث:860،جلد19)شرحِ
حدیث: اس حدیث کو روایت کرنے والے حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
ہیں۔بعض بد باطن و بد طینت لوگ حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
سے بغض رکھتے ہیں ان کی شان میں تنقیص(کمی) کرتے ہیں اس
لیے ان کی فضیلت میں ایک حدیثِ پاک پیشِ خدمت ہے:حضرت عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے اس دروازے سے ایک شخص آئے
گا جو جنتی ہے تو اس دروازے سے حضرت امیرِ معاویہ رضی
اللہ عنہ
داخل ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے اسی طرح فرمایا ۔پھر آپ رضی
اللہ عنہ آئے ۔عرض کی گئی :یارسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! وہ یہ ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ،وہ یہ
ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا :تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ آپ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی
انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: تم جنت کے دروازے پر مجھ سے اس طرح ملو گے۔(تاریخ
دمشق ،13500،62/70)فقہ
کالغوی و اصطلاحی معنی:خیر شر کی ضد ہے۔خیر کا معنی ہے: خالص مشقت اور اللہ پاک کے
ارادہ کا مطلب ہے:دو مقدور چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو واقع کرنا۔اس کے بعد
فرمایا:یفقہ
فی الدین یعنی
اس کو دین میں فقیہ بنا دیتا ہے ۔الفِقہ کا لغوی معنی ہے: دین کی سمجھ اور اس کا
عرفی معنی ہے: تفصیلی دلائل سے شرعی احکام پر استدلال کرنا اور اس حدیث میں لغوی
معنی ہی مناسب ہیں ۔حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں : فقیہ وہ ہے جو دنیا میں زاہد ہو اور آخرت میں راغب ہو،دین پر بصیرت رکھتا ہو
اور دائمی عبادت کرتا ہو۔(عمدۃ القاری،2/74)علما
کی فضیلت قرآنِ پاک کی روشنی میں: فَسئَلُوٓا اَھلَ الذِّکرِ اِن کُنتُمࣿ لاتَعلَمُونَ (
النحل:43)ترجمہ: اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو
علم والوں سےپوچھو۔تفسیر: اس آیت میں علم والوں سے مراد اہل ِکتاب ہیں
اللہ پاک نے اہلِ کتاب سے دریافت کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ کفارِ مکہ اس بات کو
مانتے تھے کہ اہلِ کتاب کے پاس پچھلی کتابوں کا علم ہے اور ان کی طرف اللہ پاک نے
رسول بھیجے تھے جیسے حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰی علیہماالصلوۃ
والسلام
وغیرہ۔(تفسیر
صراط الجنان ،تفسیر خازن ،النحل، تحت الآیۃ:43،3،124)علمائے
کرام رحمۃ
اللہ علیہم اجمعین کی شان میں
پانچ فرامینِ مصطفٰے:1: فرمایا: بروزِ قیامت امتِ محمد کے علمامیں سے ایک عالِم لایا جائے گا تو اللہ پاک فرمائے
گا:اے جبرائیل! اس کا ہاتھ پکڑ اور نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ اس وقت حوض کے
کنارے لوگوں کو برتنوں میں پانی پلاتے ہوں گے۔پس جبرائیل علیہ السلام
اس کا ہاتھ تھام کر حضور پُرنور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائیں گے۔ پس رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اٹھ کر اسے اپنے دست ِمبارک سے چلو سے
پلائیں گے تو لوگ عرض کریں گے:یا رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ نے ہمیں برتنوں سے پلایا اور
عالِم کو اپنے چلو مبارک سے تو حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرمائیں گے:اس لیے کہ لوگ دنیا
میں تجارت کے ساتھ مشغول رہے اور علما علم کے ساتھ مشغول رہے۔(قرۃ
الابصار اردو ترجمہ دقائق الابصار،ص185)دوسری
حدیثِ پاک میں رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :صرف ایسے عالم کے پاس بیٹھو جو تمہیں
پانچ چیزوں کی طرف بلاتا ہو:1:شک
سے یقین کی طرف، ریا سے اخلاص کی طرف ،دنیاکی خواہش سے زہد کی طرف،تکبر سے تواضع( یعنی عاجزی
)
کی طرف اور دشمنی سے خیر خواہی کی طرف۔ ( احیاء العلوم، 1 / 28)تیسرا
فرمانِ رسول ہے: قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے :انبیا علیہم
الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔
راوی فرماتے ہیں:بلند مرتبۂ نبوت و شہادت کے درمیان واسطہ ہے۔ (ابنِ
ماجہ،حدیث:4313)آقائے دوعالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :علما جنت کی کنجیاں
اور انبیا علیہم
الصلوۃ والسلام کے خلفاء ہیں۔راوی فرماتے ہیں:انسان کنجی (یعنی
چابی )نہیں
بنتا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اُس (یعنی عالم)کے پاس علم ہے
جو چابی کا کام دیتا ہے اس پر دلیل یہ ہے کہ جو خواب میں اپنے ہاتھ میں چابی دیکھے
تو اس کی تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اسے علمِ دین کی دولت نصیب ہوگی۔ (فضل
قدیر ترجمہ تفسیر کبیر ،2/422)رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا : عالمِ دین کی فضیلت عابد پر ستر درجے زیادہ ہے جن میں سے ہر درجہ کے
درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔(کنزالعمال،حدیث:28792)دیکھا آپ نے!قرآن و احادیث کس خوبصورت
انداز میں علمائے حق کے فضائل بیان فرمارہے! تو ما وشما کیا چیز کہ علمائے حق کے
بارے میں کسی بھی طرح کی کمزور بات کریں! اللہ پاک سے دعا کہ ہمیں علمائے اہلِ سنت
کا ہر آن ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔