قرآنِ مجید میں اس دنیا کو بنانے کا مقصد واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ الله پاک نے ارشاد فرمایا ہے:و ما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (پ27،الذریت:56) ترجمۂ کنزالعرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔چنانچہ تمام عالم کو رب العلمین کی معرفت حاصل کرنے اور اس کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہے اور اس بات کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ کسی بھی چیز کی معرفت حاصل کرنی ہو تو اس چیز کے ماہرین سے معلومات حاصل کی جاتی ہے ۔ اور اس چیز کے بارے میں اسی کے ماہرین درست ہدایت فراہم کر سکتے ہیں۔لہٰذا مخلوق کو خالق کی پہچان وہی ماہر شخص کروا سکتا ہے جو اس ذات پاک کی صحیح طور پر معرفت رکھتا ہو اور اس ذات پاک کے بارے میں دلائل کے ساتھ علم رکھنے والا ہو ۔ اور جس شخص میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اسے دین اسلام میں عالم کا لقب دیا گیا ہے۔علمائے کرام ہی وہ ہستیاں ہیں جو رب العلمین کی پہچان حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ علمائے کرام الله پاک کی کتاب قرآنِ پاک اور رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاکیزه فرمان کو سیکھ کر، سمجھ کر آگے ہم تک پہنچاتے ہیں، چاہے وہ بیان کی صورت میں ہو یا کتاب کے ذریعے ہو ، وعظ ہو یا نصيحت الغرض ہم عام لوگوں کو، نا جاننے والوں کو، علم نا رکھنے والوں کو الله پاک اور اس کے دین کی صحیح اور سچی معرفت یہی علمائے کرام دلاتے ہیں۔اسی لیے علمائے کرام کو رب کریم نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے کہ بغیر علمائے کرام کے مقصد حیات باقی نہیں رکھ سکتا کہ بغیر ان کے الله پاک کی صحیح اور درست پہچان حاصل ہونا اور حاصل کرنا یہ سب ناممکن ہو جائے۔علمائے کرام کے فضائل پر کئی آیات کریمہ اور احادیثِ مبارکہ موجود ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علمائے کرام کا مقام الله پاک کے ہاں بہت فضیلت والا ہے ۔ چنانچہ علمائے کرام کی فضیلت پر مبنی 5 احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجیے: رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں (1) نزدیک تر لوگوں کے لوگوں میں سے درجۂ نبوت سے علماء و مجاہدین ہیں۔ احياء علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلمالخ 20/1 ، دار صادر بیروتتحقيق الله پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور یہاں تک کہ مچھلی یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سیکھانے والے پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے۔( ترمذی، کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة، 313/4 ، حدیث 2694، دار الفکر بیروت 1414 )رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: قیامت کے دن علما کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولاجائے گا روشنائی ان کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آئے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ،باب تفضيل العلما على الشهداء، ص 48، حديث 139، دار الكتب العلمیہ 1428)رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم، آپ نے فرمایا: بزرگی علم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضيلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، ما جاء في فضل الفقہ على العبادة،313/4، حدیث 2694، دار الفکر بیروت 1414)خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا: بہشت میں جاؤ۔ وہ عرض کریں گے: الٰہی انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس علما پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت میں جاویں گے۔ احياء علوم الدين، كتاب العلم، الباب الأول في فضل العلم الخ، 26/1، دار صادر بیروتجب ہمارے رب کے ہاں علمائے کرام کا مرتبہ اتنا اعلى و افضل ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ہر لمحے اپنے علمائے کرام کا ادب و احترام کریں، تاکہ ہم ان سے فیض حاصل کر کے اپنے خالق و مالک سے اپنا تعلق مضبوط کر سکیں کہ يقيناً علمائے کرام الله پاک کے مقرب اور محبوب ترین بندوں میں سے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ارشاد ہوا: اے ابراہیم!میں علیم ہوں، ہر علیم کو دوست رکھتا ہوں یعنی علم میری صفت ہے اور جو میری اس صفت پر ہے وہ میرا محبوب ہے۔(فيضان علم و علما، ص 20، مكتبة المدينه)