چند فضائل علمِ دین کے ترغیب (مسلمانوں کے شوق کے لیے) کے لیے لکھے جاتے ہیں:امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :علم مدار کار اور قطب دین ہے( یعنی علمِ دین و دنیا میں کامیابی کی بنیاد ہے )حقیقت میں کوئی کمال دنیا اور آخرت میں بغیر اس صفت (یعنی علم) کے اور ایمان بغیر اس کے کامل نہیں ہوتا ۔مصرعہ ہے:بے علم نتواں خدارا شناخت یعنی بغیر علم کے خدا کو پہچان نہیں سکتے ۔یہ ہے علم کی فضیلت اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ علمِ دین سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماسی طرح کئی احادیثِ مبارکہ میں علما کی فضیلتیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے پانچ درج ذیل ہے:علما کی فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفٰے :(1)احیاء العلوم میں مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ خدائے پاک قیامت کے دن عابدوں مجاہدوں کو حکم دیگا: بہشت (جنت)میں جاؤ ۔علما عرض کریں گے: الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا ۔حکم ہوگا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو،شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔پس (علما پہلے)شفاعت کریں گے پھر بہشت (جنت)میں جائیں گے۔ (2)بخاری اور ترمذی نے بسند صحیح روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْراً يُّفَقِّههُ فِي الدِّينِ یعنی اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں دانشمند (دین کی سمجھ عطا)کرتا ہے۔اشباہ والنظائرمیں لکھا ہے کہ کوئی اپنے انجام سے واقف نہیں سوا ئےفقیہ کے کیونکہ وہ باخبار مخبر صادق (سچی خبریں دینے والے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بتانے سے)جانتا ہے (کہ)اس کے ساتھ خدا پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔(3)ابوداؤد نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص طلب علم میں کسی ایک راہ چلے خدا اسے بہشت (جنت)کی راہوں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالب علم کی رضامندی کے واسطے بچھاتےہیں اور بے شک عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی (فضیلت)سب ستاروں پر اور بے شک علما وارث انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کرے اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔(3)صحیح مسلم کی روایت میں وارد ہوا کہ جو طلب علم میں کوئی راہ چلے خدا (پاک)اس کے لیے بہشت (جنت)کی راہ آسان کرے گا اور جب کچھ لوگ خدا پاک کے گھروں سے کسی گھر میں جمع ہو کر کتاب اللہ پڑھتے ہیں اور آپس میں درس کرتے ہیں (پڑھتے پڑھاتے)ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں اور خدا پاک اپنے پاس والوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے یعنی فرشتوں پر ان کی خوبی اور اپنی رضامندی ان سے ظاہر فرماتا ہے ۔(4) حدیث میں ہے: عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز ،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے۔ کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور قراءت قرآن سے بھی ؟یعنی کیا علم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سے بھی افضل ہے ؟فرمایا: آیا (کیا)قرآن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے؟یعنی فائدہ قرآن کا بے علم کے حاصل نہیں ہوتا۔(5)حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ احیاء العلوم میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: نزدیک تر لوگوں کے (لوگوں میں سے)درجۂ نبوت سے علما و مجاہدین ہیں۔یعنی ان (علما و مجاہدین )کا مرتبہ پیغمبروں کے مرتبہ سے بہ نسبت تمام خلق (مخلوق) کے قریب ہے کہ اہلِ علم اس چیز پر جو پیغمبر لائے دلالت کرتے ہیں اور اہلِ جہاد اس چیز پر کہ پیغمبر لائے تلواروں سے لڑتے ہیں۔یہ ہیں علم وعلما کے فضائل اللہ کریم ہمیں قیامت تک علما کی کا خوب خوب فیضان نصیب فرمائے اور ہمیں حقیقی عالمہ بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم