بدشگونی لینا عالمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ، مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بد شگونیاں لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے، مگر بدشگونی کہتے کسے ہیں؟آئیے جانتے ہیں:

شگون کامعنی ہے” فال لینا “ یعنی کسی چیز ، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اسی وجہ سے بُرا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔(بدشگونی، ص 10)

حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بدفالی لینے والوں سے بیزاری کا اظہار ان الفاظ سے فرمایا: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ وَلَا تُطُیِّرَ لَہٗ۔یعنی جس نے بدشگونی لی یا جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں(یعنی وہ ہمارے طریقے پر نہیں)۔(بدشگونی، ص 19)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اسلام میں نیک فال لیناجائز ہے اور بد فالی اور بدشگونی لینا حرام ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 286)

بدشگونی کی مختلف صورتیں ہیں، مگر یہاں عورتوں میں پائی جانے والی 5بدشگونیاں ذکر کی جاتی ہیں:

1۔بعض عورتیں رات کے وقت کنگھی چوٹی کرنے یا ناخن کاٹنے سے بدشگونی لیتی ہیں کہ اس سے نحوست آتی ہے۔

2۔بعض عورتوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر بچہ سویا ہوا ہو، اس کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گزر جائے یا چھوٹا بچہ کسی کی ٹانگ کے نیچے سے گزر جائے تو اس کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔(بدشگونی، صفحہ17)

3۔جبکہ بعض عورتوں میں یہ بدشگونی بھی پائی جاتی ہے کہ نومولود(یعنی بہت چھوٹے بچے) کے کپڑے دھو کرنچوڑنے نہیں چاہئیں کہ اس سے بچے کے جسم میں درد ہوگا۔

4۔سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا یا چرا ہوا ہوگا، اسی طرح گرہن کے وقت حاملہ خواتین کو سلائی کڑھائی سے بھی منع کیا جاتا ہے کیونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کے جسم پر غلط اثر پڑ سکتا ہے۔

5۔عورتوں میں ایک بدشگونی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جب بادلوں میں بجلی کڑک رہی ہو اور سب سے بڑا بچہ(پلوٹا/پہلوٹا) باہر نکلے تو بجلی اس پر گر جائے گی۔

اے عاشقان ِرسول!مذکورہ بالا بدشگو نیوں اور اس طرح کی تمام بدشگونیوں کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حقیقت نہیں، بلکہ شریعت میں تو بدشگونی لینے کو حرام قرار دیا گیا ہے، بدشگونی لینا گناہِ کبیرہ ہے، شریعت میں اس کی بالکل اجازت نہیں، بدشگونی کے ذریعے انسان اپنے آپ کو مشکل میں مبتلا کرتا ہے، اپنے سکون کو برباد کرتا ہے، بدشگونی انسان کو وسوسوں کے دلدل میں اُتار دیتی ہے۔امام حسن علی بن محمد الماوردی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: جان لو! بدشگونی سے زیادہ فکر کو نقصان پہنچانے والی اور تدبیر کو بگاڑنے والی کوئی شے نہیں۔ (بدشگونی، ص19)

بدشگونی کے حوالے سے مزید معلومات کے لئے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 128 صفحات پر مشتمل کتاب ” بدشگونی “ کا مطالعہ کیجئے۔

کریں نہ تنگ خیالاتِ بد کبھی، کر دے شعور و فکر کو پاکیزگی عطا یا ربّ

( وسائل بخشش، ص 93)


بد شگونی ہے کیا؟

شگون کامعنی ہے” فال لینا “ یعنی کسی چیز ، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1۔برا شگون لینا۔

2۔اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں:کہ اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بد شگونی ہے۔

شریعت میں اس بات کا حکم ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پائے تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔ (الجامع للحکام القرآن للقرطبی پ 26، الاحقاف تحت الآیۃ:4 ج 8، جزء 16، ص132)

عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں:

1۔حاملہ عورت کو میّت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا۔

2۔جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں، نیز یہ سمجھتے ہیں کہ حاملہ عورت سورج گرہن کے وقت چُھری سے کوئی چیز کاٹے گی تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹایا چِرا ہوا ہو گا۔

3۔مغرب کے وقت راستے میں نہیں بیٹھنا چاہئے کیونکہ بلائیں گزر رہی ہوتی ہیں۔

4۔مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔

5۔نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر کوئی شخص فوت ہو جائے یا کسی عورت کے یہاں اگر بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔( بد شگونی کے ص 15، 16،17 ماخوذا)

اہم نکات:

٭بدشگونی انسان کے لئے دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے بے حد خطرناک ہے، بدشگونی سے ایمان بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

٭دورَ حاضر میں بھی غلط سلط اعتقادات، توھمات اور ناجائز رسومات زور پکڑتی چلی جارہی ہیں، جن کا تعلق بدشگونی سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ماہِ صفر کو منحوس جاننا، چھینک کو منحوس جاننا، ستاروں کے اثرات کا یقین کر لینا، مسلسل بیٹیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا، گھر میں پپیتا کے درخت لگانے کو منحوس سمجھنا، شوال یا مخصوص تاریخوں میں شادی کو منحوس سمجھنا، عورت گھر اور گھوڑے کو منحوس سمجھنا وغیرہ۔

٭اسلامی عقائد کی معلومات حاصل کرکے اللہ پاک پر سچا توکل کرکے، بدشگونی کے تقاضے پر عمل نہ کرکے اور مختلف وظائف کے ذریعے بدشگونی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔اللہ پاک ہمیں بدشگونی جیسی آفت سے محفوظ فرمائے۔آمین


عورتوں میں پائی جانے والی 5  بد شگونیاں

عورتوں میں بہت ساری بدشگونیاں پائی جاتی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

1. اگر کوئی شخص سفر کے ارادے سے گھر سے نکلا اور راستے میں کالی بلی راستہ کاٹ کر گزر گئی اب اس شخص نے یہ یقین کر لیا کہ اس کی نحوست کی وجہ سے مجھے سفر میں کوئی نقصان اٹھانا پڑے گا تو وہ سفر کرنے سے رک جاتا ہے ۔

2. ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں میں سے ایک بد شگونی یہ بھی عورتوں میں پائی جاتی ہے کہ کبھی ایمبولینس(Ambulance)کی آواز سے تو کبھی فائر بریگیڈ (fire brigade)کی آواز سے بدشگونی لیتی ہیں ۔

3. جوتے اتارتے وقت جوتے پر جوتا آنے سے بد شگونی لیتی ہیں کہ یہ جوتا کہیں دور لے جائے گا ۔

4. کبھی بلی کے رونے اور کتے کے رونے کو منحوس جانتی ہیں ۔بدشگونی لیتی ہیں کہ بلی جس گھر کے پاس یا چھت پر روئے اس گھر میں فوتگی ہو جاتی ہے ۔( استغفرُاللہ)

نئی نویلی دلہن کے آنے پر اگر خاندان میں کوئی فوت ہو جائے تو دلہن کو منحوس قرار دیتے ہیں کہ اس کے آنے کی وجہ سے ہمارے گھر فوتگی ہو گئی حالانکہ اس میں بدشگونی کے علاوہ دلہن کی دل آزاری بھی ہے اور بدشگونی بھی حرام اور کسی مسلمان کا دل دکھانا بھی گناہ ہے۔(ماخوذ از رسالہ بد شگونی ، 15، 16، 17)


عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں

ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں  میں ایک بَدشگونی بھی ہےجس کو بد فالی بھی کہا جاتا ہے ۔

شیخُ الاسلام شہابُ الدّین امام احمد بن حجر مکی ہیتمی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب” اَلزَّوَاجِرُ عَن اقْتِرَافِ الْکَبَائِر “ میں  بَدشگونی کے بارے میں دو حدیثیں  نَقْل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پہلی اور دوسری حدیثِ پاک کے ظاہِری معنی کی وجہ سے بَدفالی کو گناہِ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے اور مناسب بھی یہی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں  ہو جو بَدفالی کی تاثیر کا اِعتقاد رکھتا ہو جبکہ ایسے لوگوں  کے اسلام(یعنی مسلمان ہونے نہ ہونے)میں  کلام ہے۔(الزواجر عن اقتراف الکبار  ، باب السفر ، 1 / 326)

اس کی بنیادی طور پردو قسمیں  ہیں  : (1) بُرا شگون (2) اچھا شگون

فی زمانہ آج کی ماڈرن سوسائٹی کی خواتین میں بھی یہ عمل پایا جاتا ہے جو کہ نری جہالت ہے یا یوں کہا جائے کہ بَدشگونی لینا عالَمی بیماری ہے ، مختلف ممالک میں  رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں  سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں  لیتے ہیں  کہ انسان سُن کر حیران رہ جاتا ہے صد افسوس اس میں سر فہرست خواتین ہوتی ہیں جو انتہا کی حد تک ان سب پر یقین رکھتی ہیں ۔

1. قینچی چلانے سے گھر میں  لڑائی ہوتی ہے۔

2. دودھ ابل پڑا مصیبت آجائےگی کانچ ٹوٹ جانا ۔

3. جوتا اُتارتے وَقْت جوتے پر جوتا آنے سے بَدشگونی لیتے ہیں ۔

4. کبھی کسی وَقْت یا دن یا مہینے سے بَدفالی لیتے ہیں ۔

5. مُرغادن کے وَقْت اذان دے تو بَدفالی میں مبتلا ہوجاتے۔

6. جوانی میں  بیوہ ہوجانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں۔

7. بیوہ کا سایہ نئی بیاہی دلہن کے لئے منحوس جاننا ،یہ بڑی جہالت بہت سے مواقع پر بیوہ خواتین کی دل آزاری کا سبب بنتی ہے ۔

ابھی یہ ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ ایمان کمزور ہونے کی اس حد تک جاتے ہیں کہ قرآن مجید کا کوئی بھی صفحہ کھول کر سب سے پہلی آیت کے ترجمہ سے اپنے کام کے بارے میں  خودساختہ مفہوم اَخذکرکے فال نکالتے ہیں اس طرح کی فال نکالنا بھی ناجائز ہے۔ حدیقہ ندیہ میں ہے : قرآنی فال ، فالِ دانیال اور اس طرح کی دیگر فال جو فی زمانہ نکالی جاتی ہیں  نیک فالی میں نہیں آتیں  بلکہ ناجائز ہیں (حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ  ،  2 / 26ملخصًا) قرآن پاک سے بَدشگونی لینا مکروہِ تحریمی ہے۔

حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے۔

بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے۔(الطریقۃ المحمدیۃ  ، 2 / 17 ، 24)

   چنانچہ اگر کسی نے بَدشگونی کا دل میں خیال آتے ہی اسے جھٹک دیا تو اس پر کچھ برا نہیں  لیکن اگر اس نے بَدشگونی کے خوف سےاس کا اِعتقاد رکھا اور اِسی اعتقاد کی بنا پر اس کام سے رُک گیا تو اب گناہ گار ہوگا اور کسی چیز کو منحوس سمجھ کر سفر یا کاروبار کرنے سے یہ سوچ کر رُک گیا کہ اب مجھے نقصان ہی ہوگاتو اب گنہگار ہوگا۔

ایسے ہی کچھ لوگ مہینوں کو منحوس جانتے ہیں اس میں بھی خواتین کی من گھڑت کہانیاں کہ اس مہینے پیدا ہونے والا بچہ منحوس ہو گا شادی نہیں کرنی چاہئے وغیرہ وغیرہ جبکہ تمام دن اور وقت اللہ پاک کے بنائے ہوئے ہیں اور ان میں بندوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں۔ جس وَقْت میں  بندۂ مومن اللہ پاک کی اطاعت وبندگی میں مصروف ہو وہ وَقْت مبارک ہے اور جس وَقْت میں اللہ پاک کی نافرمانی کے کام کرےوہ وَقْت اس کے لئے منحوس ہے۔ درحقیقت اصل نُحوست کسی دن یا وقت میں نہیں بلکہ گناہوں  میں  ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بد اعمالیاں اور فسق و فجور ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے: مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَؕ (پ 5، النساء: 79)

ترجمہ کنز الایمان: اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔

کچھ لوگ چھینک آنے کو بھی برا جانتے ہیں ، علامہ عبدالمصطَفٰے اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : اب غور کرو کہ جب چھینک کورسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ’’ شاہد عدل(یعنی عادل گواہ) ‘‘ کا لقب دیا تو پھر بھلا چھینک منحوس اور بَدشگونی کا سامان کیسے بن سکتی ہے؟ اس لئے لوگوں کو اس عقیدہ سے توبہ کرنی چاہئے کہ چھینک منحوس اور بَدفالی کی چیز ہے۔ (جنتی زیور ،ص 431) خداوندِ کریم مسلمانوں کو اتباعِ سنت اور پابندی شریعت کی توفیق بخشے آمین۔


عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں

بد شگونی لینا عالمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں سے ایسی ایسی بد شگونیاں لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ” لَیسَ مِنَّا مَن تَطَیَّرَ وَلَا تُطُیِّرَ لَہ “ یعنی جس نے بد شگونی لی اور جس کیلیے بد شگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ۔

شگون:شگون کا معنی ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز، وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔

شگون کی اقسام :اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہی: (1)برا شگون لینا۔(2)اچھا شگون لینا۔

علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی تفسیر قرطبی میں نقل کرتے ہیں اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے۔( بدشگونی، ص 10)

حکم :امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ الطریقۃُ المحمدیۃ میں لکھتے ہیں : بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہلکھتے ہیں : اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے اور بدفالی لینا حرام ہے۔( بد شگونی ،ص 12)

عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں

1. ماہِ صفر کو منحوس جاننا:نحوست کے وہمی تصورات کے شکار لوگ ماہِ صفر کو مصیبتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصاً اسکی ابتدائی 13 تاریخیں جن کو ” تیرہ تیزی “ کہا جاتا ہے کو بہت منحوس تصور کیا جاتا ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: لَا صَفَرَیعنی صفر کچھ نہیں۔( بدشگونی، ص55)

2. شوال میں شادی نہ کرنا:شریعت نے کسی موسم یا مہینے میں نکاح کرنے سے منع نہیں کیا لیکن کچھ نادان لوگ مخصوص دنوں اور مہینوں میں شادی کرنےکو منحوس سمجھتے ہیں، ان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ ان دنوں جو شادیاں ہوتی ہیں ان سے میاں بیوی کے تعلقات اچھے نہیں ہوتے اور ان میں وہ الفت اور محبت نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے ،کچھ علاقوں میں شوال کو بھی انہی مہینوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔

اس بات کے رد پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے نکاح بھی شوال میں کیا اور زفاف بھی، تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کون سی بیوی مجھ سے زیادہ محبوب تھی۔مراۃُ المناجیح میں ہے:مقصد یہ ہے کہ میرا نکاح بھی شوال میں ہوا اور رخصتی بھی اور میں تمام ازواج میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ محبوب تھی، اگر یہ نکاح اور رخصتی مبارک نہ ہوتی تو میں اتنی محبوب کیوں ہوتی۔ علمائے کرام فرماتے ہیں:کہ شوال میں شادی مستحب ہے۔( بد شگونی، ص 61،62)

3. لڑکیوں کی پیدائش:بیٹاہو یا بیٹی، انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے بیٹا اللہ کی نعمت اور بیٹی اللہ کی رحمت ہے مگر بعض نادان لوگ تلے اوپر بیٹیاں ہونے کی صورت میں ان کی امی کو طرح طرح کے طعنے، طلاق کی دھمکی دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات اس دھمکی کوعملی تعبیر بھی دے دی جاتی ہے اور اس پر یہ بھی ظلم کہ بیٹیوں کو ہی منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ سے سوال ہوا:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کےتیسری لڑکی ہوئی، اس سے نہایت پریشان ہے، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تیسری لڑکی اچھی نہیں ہوتی تیسرا لڑکا اچھا اور نصیب والا ہوتا ہے زید نے ایک صاحب سے دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ سب باتیں عورتوں کی بنائی ہوئی ہیں اگر تم کو وہم ہو تو صدقات کردو، اور 1 گائےیا 7 بکریاں قربانی کردواور توشہ شہنشاہ بغداد کردو اللہ بتصدق سرکار غوثیت ہر بلا سے محفوظ رکھے گا۔

اعلیٰ حضرت نے جواب دیا:یہ محض باطل اور زنانےاوہام اورخیالات شیطانیہ ہیں ان کی پیروی حرام ہے۔تصدق اور توشہ سرکار ابد قرار بہت اچھی بات ہے مگراس نیت سے کہ اس کی نحوست دفع ہو جائے جا ئز نہیں کہ اس میں اس کی نحوست مان لینا ہوا اور یہ شیطان کا ڈالا ہوا وہم تسلیم کر لینا ہوا۔( بد شگونی،ص72)

حدیثِ پاک میں ہے :بیٹیوں کو برا مت کہو، میں بھی بیٹیوں والا ہوں، بےشک بیٹیاں تو محبت کرنے والی، غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔ (بد شگونی، ص74)

4. کالی بلی اور بلی کا رونا:لوگوں کا رات کے وقت بلی کے رونے یا کتے کے رونے کواور کالی بلی کے راستے کو کاٹ جانے کو منحوس سمجھنا۔(بدشگونی، ص 16)

5. گرہن سے جڑےتوہمات:گرہن کے وقت حاملہ عورت کو کمرے کے اندر رہنےاور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کرنا کہ بچہ کسی پیدائشی نقص کے بغیر پیدا ہو۔یونہی گرہن کے وقت حاملہ عورت کو سلا ئی سے منع کرنا کہ اس سے بچے کے جسم پر غلط اثر پڑتا ہے۔

مغربی ملک میں رہنے والی دنیاوی تعلیم یافتہ خاتون سورج گرہن سے چند زور پہلے سخت پریشان تھی کیونکہ ان کے ہاں پہلے بچہ کی ولادت ہونے والی تھی اور اس سے محض چند روز قبل بچے پر سورج گرہن کے ممکنہ اثرات کا خوف اس تشویش میں مبتلا کئے ہوئے تھا کہ اس نے اپنے ڈاکٹر کو محض یہ پوچھنے کے لیے فون کیا کہ آیا بچے کو سورج گرہن کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا اس کی ولادت سے پہلے ممکن ہے؟ ڈاکٹر نے اسے دلاسا دیتے ہوئے سمجھایا کہ اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور گرہن کے اثرات کی حقیقت توہمات سے زیادہ نہیں ہے۔(بد شگونی ص، 79)


عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں

اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی عقائد کی اصلاح کے ساتھ ساتھ انسانوں کو صرف اللہ پاک کے خیر و شر اور نفع و نقصان کے مالک ہونے کی بھی آگاہی دی۔ دور جہالت میں لوگ شرک و کفر کے ساتھ توہمات میں بھی پھنسے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایسے وقت میں انسانوں کو اسلام کی پیاری تعلیمات سے نوازا، عقیدہ توحید کی عظمت دل و دماغ میں راسخ کی اور تمام بدعقیدگیوں سے ہٹا کر صرف اللہ پاک کی مبارک ذات کے ساتھ جوڑا۔ اسلام سے پہلے لوگ طرح طرح کی خرافات میں مبتلا تھے جن میں بدشگونی لینا اور فال نکالنا بھی شامل تھا۔ اسلام نے ان تمام بدعقیدگیوں کا خاتمہ کیا اور اپنی خوبصورت تعلیمات سے نوازا جن میں کسی بھی قسم کی بدشگونی اور وہم کی گنجائش نہیں ہے۔

شگون کے لغوی معنی فال لینا ہے یعنی کسی بھی جاندار اور بے جان چیز کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا۔ اس کی دو اقسام ہیں ایک بد شگون لینا اور دوسری اچھا شگون لینا۔ علامہ محمد بن احمد انصاری قُرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیر قُرطبی میں فرماتے ہیں کہ اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ ہو اُس کے بارے میں کوئی بات سُن کر دلیل پکڑنا جبکہ بات اچھی ہو۔ شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام مکمل کرے اور اگر کوئی بُری بات سُنے تو اس طرف توجہ نہ دے۔

بدشگونی لینا شرعاً منع ہے جبکہ اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ بدشگونی اور نیک فال میں یہی بنیادی فرق ہے۔ نیک فال لینا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت ہے اور اس سے دل کو سکون اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ مراۃُ المناجیح میں ہے کہ نیک فال لینے میں اللہ پاک سے امید ہے اور بدشگونی لینا منع ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک سے نااُمیدی ہے۔ اُمید اچھی ہے اور نااُمیدی بری، ہمیشہ اپنے رَب سے اُمید رکھو۔ (مراۃُ المناجیح، 6/255)

زمانۂ جاہلیت کی بدعقیدگیاں آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جس کی وجہ قرآن و سنت کی صحیح تعلیمات سے دوری اور ناواقفیت ہے۔ خصوصاً عورتوں میں آج بھی عجیب قسم کی توہُّم پرستیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بے دینی کا شکار ہیں۔ بعض عورتیں بہت سی اچھی چیزوں کو بھی برا سمجھتی ہیں۔ عورتوں میں پائی جانے والی چند بد شگونیاں حسبِ ذیل ہیں:

1. اکثر عورتیں بدھ کے دن کو برا سمجھتی ہیں۔

2. بعض عورتیں کہتی ہیں کہ جس دن گھر میں کوا بولے اُس دن مہمان لازمی آتے ہیں۔

3. بعض عورتیں مانتی ہیں کہ کسی کو سیدھا جھاڑو مارا تو اُس کا جسم سوکھ جائے گا۔

4. صبح سویرے جھگڑا ہوا یا کوئی زخم پہنچا تو شام تک ایسے ہی نقصان پہنچتا رہے گا۔

5. سیدھی آنکھ پھڑکنا کسی مصیبت کے آنے کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔

یہ اور اس طرح کی دیگر بد عقیدگیوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے ورنہ ایمان کی جڑیں کھوکھلی ہو جائیں گی۔ 


مضمون:عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں

کسی شخص،جگہ،چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔چنانچہ حدیث پاک ہے۔

رسول اکرم،نور مجسم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا یا برا شگون لینے کے لیے پرندہ اڑانا،بدشگونی لینا اور طرق(یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (ابوداود،کتاب الطب،باب فی الخط وزجرالطیرع 4\22 حدیث،3907)

مفسر شہیر حکیم امت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی،بدشگونی لینا حرام ہے۔ (تفسیر نعیمی،9\119)

شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز،شخص،عمل ،آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔اگر اچھا سمجھا تو اچھا شگون یا نیک فال ہے اور اگر برا سمجھا تو بدشگونی ہے۔

نیک فال لینا مستحب ہے جبکہ بدفالی یا بدشگونی لینا شیطانی کام ہے۔

زندگی کے بہت سے معاملات میں عورتیں بہت سے کاموں میں بدشگونی کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے 5 بدشگونیاں درج ذیل ہیں جو عورتوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

1:- دلہن کا چھت پر جانا:-

شادی کے قریب وقت میں دلہن کو چھت پر بلکل نہیں جانے دیا جاتا یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھت پر جانے سے دلہن کو آفات اور بلاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

2:- خالی قینچی چلانا:-

اکثر عورتیں یہ سمجھتی کہ اگر کسی نے خالی قینچی چلائی تو گھر میں جھگڑا ہو گا یا جس نے خالی قینچی چلائی وہ ضرور کسی سے لڑائی کریں گی۔

3:- سورج گرہن کو منحوس سمجھنا:-

سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہو گا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا یا چرا ہوا ہو گا۔

4:-خالی جھولا نہ جھلاؤ:-

اس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نومولود بچے کو نقصان ہو گا یا بچے کی پیدائش نہیں ہو گی۔

5:- چمچہ یا ہنڈیا چاٹنا:-

یہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اگر لڑکی چمچہ یا ہنڈیا چاٹ لے تو اس کی شادی پر ضرور بارش ہو گی یا اولے پڑیں گے۔

ایسی ھی اور بھی بہت سی بدشگونیاں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں جیسے:- بچوں کو جھاڑو سے نہ مارو کہ پتلا ھو جائے گا، مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس سمجھنا،آنکھ پھڑکنا کہ کوئی مصیبت آئے گی،دودھ گر گیا تو کوئی پریشانی آئے گی،کسی اور کا کنگھا استعمال کرنے سے دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے، رات کو آئینہ دیکھنے سے چہرے پر جھریاں پڑتی ہیں، مغرب کی اذان کے وقت تمام لائیٹیں روشن کر دینی چاہئیں ورنہ بلائیں اترتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب صرف وہمی خیالات ہوتے ہیں شریعت میں ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں۔کسی چیز کو منحوس قرار دینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں یہ تو غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ اچھا شگون لینے سے اللہ پاک کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی امید ہوتی ہے جبکہ بدشگونی سے ناامیدی پیدا ہوتی ہے۔


دعوتِ اسلامی کے  شعبہ اصلاح اعمال للبنات کے تحت گزشتہ دنوں شکارپور، سکھر کابینہ کے ڈویژن ریجنٹ اورسعودآباد میں اصلاح اعمال اجتماعات کا انعقاد ہوا جس میں کابینہ تاعلاقائی سطح کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوتِ اسلامی نےاصلاح اعمال اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کے درمیان سنتوں بھرا بیان کیا اور انہیں دعوت اسلامی کی دینی خدمات کےحوالےسےبتاتےہوئے دینی کاموں میں شرکت کرنے کاذہن دیانیزرسالہ نیک اعمال کےذریعےاپنےاعمال کاجائزہ کرنے کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی بہنوں نےرسالہ نیک اعمال کےذریعےاپنےاعمال کا جائزہ کرنےکی نیتوں کااظہارکیا۔


معزز قارئین! دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسی زندگی گذارنے کا درس دیتا ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی پاسداری ہو. نیز ایک مسلمان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے بھی رہنمائی کرتا ہے. اسلام کی روشن تعلیمات اور چمکتے اصولوں کا ایک بہترین پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام میں کسی شخص،چیز، جگہ یا وقت کو منحوس جاننے کا کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔

میرے آقا اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:شرعِ مطہّر میں اس(بدشگونی) کی کچھ اصل نہیں،لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے. شریعت میں حکم ہے: جب کوئی شگونِ بد گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ (بدشگونی،ص 8)

شگون کے معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، وقت وغیرہ کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا. اچھا سمجھا جائے تو اسے اچھا شگون لینا کہتے ہیں اور اگر برا سمجھا جائے تو اسے بدشگونی لینا کہتے ہیں.حدیثِ مبارکہ میں ہے: جس نے بدشگونی لی اور جس کیلیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔ (المعجم الکبیر، 162/18، حدیث:355)دینِ اسلام میں بدشگونی لینا حرام ہے جبکہ نیک فال لینا جائز و مستحب ہے۔

بدشگونی لینے جیسی فضولیات میں اگر چہ مرد بھی پیچھے نہیں رہتے لیکن عموماً اس طرح کے معاملات میں عورتیں آگے آگے ہوتی ہیں. عورتوں میں پائی جانے والی چند بدشگونیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان کی کوئی اصل نہیں:

1. اگر شادی شدہ عورت الٹی چادر اوڑھ لے تو اس کی ساس مر جائے گی۔

2. سر کے نیچے لگائے جانے والے تکیہ پر اگر کوئی پاؤں رکھ دے تو وہ تکیہ لگانے والے کے سر میں درد ہوجائے گا۔

3. ایک گلاس میں پانی تھا اور اس پر غلطی سے کسی کا پاؤں لگ گیا تو اس پانی کو ” ٹھوکر لگا پانی “ کا نام دیا جائے گا اور اب اس پانی پینے والے کا گلا خراب ہوجائے گا۔

4. اگر کسی گھر میں بلی روئے تو اس گھر میں کسی کی وفات ہوجائے گی۔

5. مریض کی چارپائی پر کوئی شخص کُہنی (elbow) ٹکا کر نہ بیٹھے ورنہ مریض کی طبیعت مزید بگڑ جائے گی۔

اللہ پاک ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان فضولیات سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربَّ العالمین


بد شگونی کی تعریف:

شگون کا معنیٰ ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اسی وجہ سے برا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔

شگون کی قسمیں:

بنیادی طور پر شگون کی دو قسمیں ہیں۔1۔برا شگون لینا، 2۔ اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد الانصاری رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پائے تکمیل تک پہنچائے اور جب برا کام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ دے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚوَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕاَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)

ترجمہ کنز الایمان:تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں ۔(پ 9، اعراف:131)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:"جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت(قحط سالی وغیرہ) آتی تھی تو حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بدشگونی لیتے تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہر ہوئے ہیں، تب سے ہم پر مصیبتیں بلائیں آنے لگیں۔"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے بدشگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔

بد شگونی کا حکم:

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یااچھا شگون لینا مستحب ہے۔

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں برے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے، اس لئے کسی شخص کے دل میں بدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گناہگار قرار نہیں دیا جائے گا، کیونکہ محض دل میں برا خیال آ جانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرا نے کا مطلب کسی انسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے۔

بد شگونی کے 5 اسباب و علاج :

1۔بدشگونی کا پہلا سبب اسلامی عقائد سے لاعلمی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ انسان تقدیر پر ان معنوں میں اعتقاد رکھے کہ ہر بھلائی اور برائی اللہ نے اپنے علمِ ازلی کے موافق مقدر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا، جو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ دیا۔

2۔بد شگونی کا سبب عورتوں میں توکل کی کمی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی بدشگونی دل میں آئے تو ربّ پر توکل کریں، اِنْ شَاء َاللہ بدشگونی کا خیال دل سے جاتا رہے گا۔

3۔بدشگونی کا تیسرا سبب بد فالی کی وجہ سے کام سے رُک جانا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ جب کسی کام میں بدفالی نکلے تو اسے کرگزریں اور اپنے دل میں اس خیال کو جگہ نہ دیجئے۔

4۔بد شگونی کا چوتھا سبب اس کی ہلاکت خیزیوں اور نقصانات سے بے خبری ہے کہ بندہ جب کسی چیز کے نقصان سے ہی باخبر نہیں ہے تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان بدشگونی کی ہلاکتوں کو پڑھے، ان پر غور کرے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔

عورتوں میں بدشگونی سے چند نقصانات:

بدشگونی دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے خطرناک ہے، یہ عورت کو وسوسوں کی دلدل میں اتار دیتی ہے، چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتی ہے، وہ اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھاتی ہے، اس وہم میں مبتلا ہوتی ہے کہ دنیا کی ساری بدبختی و بدنصیبی اسی کے گرد جمع ہو چکی ہے اور دوسرے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں، ایسی عورتیں اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہوں سے دیکھتی ہیں، جس سے دل میں کُدورت(یعنی دشمنی) پیدا ہوتی ہے۔

٭بد شگونی کی شکار عورتوں کا اللہ پاک پر اعتماد اور توکل کمزور ہوجاتا ہے۔

٭اللہ پاک کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔

٭تقدیر پر ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔

٭بدشگونی کی شکار عورتوں کے لئے شیطانی وسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے۔

٭بد شگونی کی وجہ سے اگر رشتے توڑ دیئے جائیں تو آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔

٭جو عورتیں اپنے اوپر بدفالی کا دروازہ کھول لیتی ہیں، انہیں ہر چیز منحوس نظر آنے لگتی ہے۔

٭کسی کے گھر پر کوئی اُلّو کی آواز سن لی تو اعلان کر دیتی ہے کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے۔

٭نئی دلہن کے ہاتھ سے اگر کوئی چیزگر کر ٹوٹ جائے تو اسے منحوس قرار دیتی ہیں، اور بات بات پر اس کی دل آزاری کرتی ہیں۔

5۔بدشگونی کا پانچواں سبب روز مرہ کے معمولات میں وظائف شامل نہ ہونا ہے، اس کا علاج اعلی حضرت، امام اہلسنت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں:"بدشگونی کے خطرے، وسوسے جب کبھی پیدا ہوں، ان کے واسطے قرآن کریم و حدیث شریف سے چند مختصر نافع(فائدہ دینے والی) دعائیں لکھتا ہوں، انہیں ایک ایک بار آپ اور آپ کے گھر والے پڑہیں، اگر دل پختہ ہوجائے اور وہ وہم جاتا رہے تو بہتر، ورنہ جب وہ وسوسے پیدا ہوں، تو ایک بار پڑھ لیں اور یقین کیجئے کہ اللہ اور رسول کے وعدے سچے اور شیطان ملعون کا ڈرانا جھوٹا، اللہ کی مدد سے وہ وہم ختم ہو جائے گا اور اصلاً کبھی کسی طرح نقصان نہ پہنچے گا اور وہ دعایہ ہے:لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚهُوَ مَوْلٰىنَا ۚوَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)

ترجمہ کنز الایمان: ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔(پ 10، التوبہ:51)


دعوتِ اسلامی کے  شعبہ رابطہ برائے شخصیات للبنات کے تحت گزشتہ دنوں حیدرآباد کابینہ کے ڈویژن پریٹ آبادمیں ایک خاتون شخصیت کے گھر ایصال ثواب اجتماع منعقد کیا گیا جس میں علاقے کی شخصیات اور دیگر اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ڈویژن مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے صبر کے فضائل، مقصد حیات اور وقت کی اہمیت و دعوت اسلامی کی دینی خدمات پر بیان کیا اور ایصال ثواب اجتماع میں شریک اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنےاور مدنی چینل دیکھنے کا ذہن دیا۔آخر میں شخصیات کو رسائل بھی تحفے میں پیش کئے گئے ۔


دعوتِ اسلامی کے  فنانس ڈیپارٹمنٹ للبنات کے تحت گزشتہ دنوں حیدرآباد ریجن تھر زون ذمہ دار اسلامی بہن نے عمر کوٹ کابینہ میں مدنی مشورہ کیاجس میں اِی- رسید استعمال کرنے کےحوالےسےاسلامی بہنوں کی تربیت کی نیز انہیں شعبےکےتحت ہونےوالے ٹیسٹ دینے کاذہن دیا اور شعبہ ذمہ داراسلامی بہنوں کی تربیت کی جس پر اسلامی بہنوں نے ٹیسٹ دینے کی نیتیں پیش کیں ۔