دعوت  اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے تحت گزشتہ دنوں میانوالی زون اطراف حافظ والا کابینہ کی اطراف خانقاہ ڈویژن کے علاقےبانگڑی میں کفن دفن تربیتی اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں کم و بیش 90 اسلامی بہنوں نے تربیت حاصل کی۔

مبلغہ دعوت اسلامی نےاسلامی بہنوں کو کفن کاٹنے اور میت کو غسل دینے کا طریقہ سمجھایا نیز کفن دفن ٹیسٹ دینے کا ذہن دیا۔ مزید مہینہ میں ایک کفن دفن تربیتی اجتماع شروع کروانے کے لئے اسلامی بہنوں سے نیتیں بھی کروائی ۔


بد شگونی کی تعریف:

شگون کا معنیٰ ہے "فال لینا" یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، (اسی وجہ سے برا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں)۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 21)

کسی شخص، جگہ، چیز یا وقت کو منحوس جانے کا اِسلام میں کوئی تصور نہیں، یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں، کسی شخص یا چیز کو منحوس قرار دینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، غیر مسلموں کا پُرانا طریقہ ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیوں کے ساتھ ساتھ ایک برائی بدشگونی لینا رائج ہے۔

اسی مناسبت سے عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں بیان کی جاتی ہیں:

1۔حاملہ عورت کو میّت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا۔(بدشگونی، ص17)

2۔جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں۔(بدشگونی، ص17)

3۔سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چُھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا، اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا یا چِرا ہوا ہوگا۔(بدشگونی، ص18)

4۔نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص فوت ہو جائے، اس عورت کو منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔(بدشگونی، ص17)

5۔مہمان کی رُخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو عورتیں منحوس خیال کرتی ہیں۔(بدشگونی، ص18)

بدشگونی کا حکم:

آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان:"جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔"

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:"اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بد فالی، بد شگونی لینا حرام ہے۔"(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 286)


عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں

شگون کامعنی ہیں ” فال لینا “ یعنی کسی چیز ، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی دو قسمیں ہیں:1۔برا شگون لینا، 2۔اچھا شگون لینا۔

اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیاہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سُن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے، جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے۔(بد شگونی،ص 10)

حضرت امام محمد آفندی رومی بِرکلی رحمۃُ اللہِ علیہالطریقۃ المحمدیہ میں لکھتے ہیں:بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔(الطریقۃ المحمدیہ، 2/17، 24، بدشگونی صفحہ12)

جہاں ہمارے معاشرے میں کئی لوگ بدشگونی لینے کے مرض میں مبتلا ہیں، وہاں دیکھا جائے تو عام طور پر عورتوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے، جو اِس میں مبتلا ہے، ہم یہاں چندایسی بدشگونیوں کا ذکر کئے دیتے ہیں، جو خاص طور پر عورتوں میں پائی جاتی ہیں:

1۔نئی دلہن منحوس یا خوش قسمت:

نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی فرد فوت ہو جائے ، تو کہا جاتا ہے کہ یہ اس کی نحوست ہے اور کوئی خوشی ملے تو اس دلہن کو اچھا جانا جاتا ہے۔

کیا یہ بات حقیقت ہے؟ نہیں!یاد رکھئے زندگی، موت بندے کے اختیار میں نہیں ہوتی، بلکہ اِس کا تو وقت معین ہے، کسی کے آنے سے کسی کا مر جانا نحوست نہیں ہو سکتا، ہو سکتا ہے وہ دلہن اللہ پاک کے مقرب بندوں میں ہو تو اس کے بارے یہ الفاظ بول کر نہ صرف دل آزاری، بلکہ اللہ پاک کی شدید ناراضگی کا سبب ہے اور مقرب نہ ہو، جب بھی یہ الفاظ دل آزاری کا سبب ہیں۔

2۔بیٹیوں کی پیدائش:

بیٹیوں کی پیدائش پر تو گویا اُس ماں پر نحوست کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، توجّہ فرمائیے، بیٹیاں دینا یا بیٹے دینا اللہ پاک کا کام ہے، جو وہ چاہتا ہے، وہی عطا فرماتا ہے، انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ربّ کی عطا پر شکر کرے، یاد رکھئے! ایسے کلمات بعض اوقات کفریہ بھی ہوتے ہیں۔

3۔حاملہ عورت کا میت کے پاس آنا:

کہا جاتا ہے کہ حاملہ عورت میت کے پاس نہ آئے کہ اس سے بچے پر بُرا اثر پڑتا ہے، اللہ اکبر کیوں وہ کہتے ہو، وہ جو شریعتِ مطہرہ نے نہیں کہا، افسوس ہے ایسی سوچ پر۔

4۔جوانی میں بیوہ عورت منحوس ہے:

جو عورت جوانی میں بیوہ ہو جائے، اُسے منحوس سمجھا جاتا ہے، غور کیجئے! کیا کفر سے بڑھ کر کوئی نحوست ہے ؟ہرگز نہیں تو کیا بیوہ ہو جانا نحوست ہے یا کافر ہو جانا نحوست ہے؟ بلاشبہ کفر اور گناہ ہی نحوست ہیں، اِن دل آزار جملوں سے خود کو بچائیے کہ یہ بھی گناہ ہیں۔

5۔رات کے وقت کنگھی کرنا نحوست ہے:

رات کے وقت کنگھی کرنا یا ناخن کاٹنا نحوست جانا جاتا ہے، سُنئے جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے الفاظ اور غور کیجئے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسی عورتوں سے بیزار ہیں، فرمایا:"جس نے بدشگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔"(المعجم الکبیر18/162، حدیث355، بدشگونی:19)

اللہ اکبر!یاد رکھئے جس سے جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بیزاری کا اعلان فرما دیں، اُس کا دعویٔ محبت جھوٹا ہے اور وہ جنتی نہیں ہوسکتا، کیونکہ جنت تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اطاعت کرنے والوں کی ہے۔


بدشگونی کیا ہے:

مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 128 صفحات پر مشتمل کتاب بدشگونی صفحہ 10 پر ہے:شگون کا معنیٰ ہے "فال لینا" یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، (اسی وجہ سے بد فالی لینے کو بدشگونی کہتے ہیں)۔

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚوَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕاَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)

ترجمہ کنز الایمان:تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں ۔(پ 9، اعراف:131)

بدشگونی کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے:

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔(معجم کبیر حدیث عمران بن حصین، ص162، حدیث 355)

عورتوں میں پائی جانے والی چار بد شگونیوں کی مثالیں:

1۔نئی دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور بات بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔

2۔اگر کسی گھر پر اُلّو کی آواز سن لی جائے تو اعلان کر دیا جاتا ہے کہ گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے یا گھر پر مصیبت آنے والی ہے۔

3۔اگر کوئی شیشے کا برتن یا شیشہ ٹوٹ جائے تو اسے منحوس سمجھا جاتا اور بدشگونی کی جاتی ہے۔

4۔یوں ہی عورتوں میں ماہِ صفر المظفر کے بارے میں بھی بدشگونی لی جاتی ہے اور اسے تیرہ تیزی کا مہینہ کہا جاتا ہے اور اس مہینے میں شادی کرنے، الغرض کوئی اچھا کام کرنے کو منحوس جانا جاتا ہے۔

بد شگونی کا حکم:

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بدشگونی لینا حرام جبکہ اچھا شگون لینا مستحب ہے۔"

بدشگونی سے کیسے بچا جائے:

بدشگونی سے بچنے کے لئے سب سے پہلے اللہ پاک پر توکّل اور بھروسہ رکھا جائے اور اس آیت مبارکہ کو ذہن نشین رکھا جائے:حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔


شگون کا معنی فال لینا ہے یعنی کسی چیز ، شخص ، عمل ، آواز یاوقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا جاننا اگر اچھا سمجھا تو نیک فال اور اگر برا سمجھا تو بدفالی یا برا شگون ہے۔

پیارے آقاصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے بد شگونی لی اور جس کیلئے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں ۔ایک اور مقام پہ فرمایا: تین چیزیں جس شخص میں ھوں وہ بلند درجات تک نہیں پہنچ سکتا

(1)جو اپنی اٹکل سے غیب کی خبر دے

(2)فال کے تیروں سے اپنی قسمت معلوم کرے

(3)بدشگونی کے سبب اپنے سفر سے رک جائے

آج کل عورتوں میں بدشگونی بہت عام ہیں جیسے

(1)خالی قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی ھوتی ہے

(2)کسی کا کٹا ہوا ناخن پاؤں کے نیچے آجائے تو آپس میں دشمنی ھوجائے گی

(3)نومولود(بہت چھوٹے بچّے) کے کپڑے دھوکر نچوڑے جائے تو جسم میں درد بیٹھ جاتا ہے

(4) رات کو شیشہ دیکھنے سے چہرے پہ جھرّیاں پڑجاتی ہیں

(5)بچّے کے اوپر سے پھلانگنے سے بچّے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے وغیرہ وغیرہ

اسلام میں بد شگونی کا کوئی تصوّر نہیں

بدشگونی انسان کیلئے دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے بہت زیادہ خطرناک ہے

یہ انسان کو وسوسوں کی دلدل میں اتار دیتی ہے

بدشگونی سے ایمان بھی ضائع ھو جاتا ہے

بدشگونی کا شکار ھونے والے کا اللہ پر توکل ختم ہوجاتا ہے

اللہ پاک کے بارے میں بدگمانی پیدا ھوتی ہے

شیطانی وسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے

تقدیر پر ایمان کمزور ھوجاتا ہے

توہم پرستی ، بزدلی ، ڈر ، خوف اور تنگ دلی پیدا ھوتی ہے

دیکھا آپ نے کے بد شگونی کے کتنے نقصانات ہیں یہاں تک کہ ایمان کے ضائع ہونے تک کا کہا گیا ہے اللہ پاک سے دعا ہےکہ ہم کو بدشگونی جیسی آفت سے محفوظ فرمائے ۔ آمین آمین آمین یارب العلمین


دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے تحت  گزشتہ دنوں حافظ آباد میں سہہ ماہی مدنی مشورہ ہواجس میں زون تا ذیلی سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے نیو شارٹ کورس کے حوالے سے اسلامی بہنوں کو اپڈیٹ معلومات فراہم کی نیز جن کورسز میں ٹیسٹ کی حاجت ہے ان کورسز کے نام لکھوائےاور ذمہ داراور جامعۃ المدینہ کی طالبات کو ٹیسٹ کےلئے اہداف دئیے ۔مزید نیو کورس بنام ’’ تفسیر سورہ ٔملک ‘‘کی تشہیر کرنے اور تجوید قراٰن کورس کروانے کا ذہن دیا ۔اس کےعلاوہ ماہانہ شیڈول اور ماہانہ شارٹ کورس کےکارکردگی فارم دیئے۔

اس کےساتھ ہی مدنی مشورےمیں کفن دفن کی ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے غسل میت دینےا ور کفن پہنانے کے حوالے سے اسلامی بہنوں کی تربیت کی اور انہیں کفن دفن ٹیسٹ دینے کی ترغیب دلاتےہوئے ان کے نام بھی لکھے ۔مزید آخر میں شعبہ تعلیم کی زون ذمہ دار اسلامی بہن نے بھی شعبے میں کئےجانےوالےوالے دینی کاموں کےحوالےسے اپڈیٹ مدنی پھول دیئے۔ 


دعوتِ اسلامی کے شعبہ کفن دفن  للبنات کے تحت گزشتہ دنوں چشمہ ڈویژن کے علاقے عمرخیل میں کفن دفن تربیتی اجتماع کاانعقادہوا جس میں ڈویژن نگران اسلامی بہن نے غسلِ میت دینے اور کفن پہنانےکا پریکٹیکل طریقہ اسلامی بہنوں کو سکھایا۔

کفن دفن اجتماع کے اختتام پر اسلامی بہنوں کو کفن دفن کا ٹیسٹ دینے اور غسلِ میت میں حصہ لینے کاذہن دیا نیز انہیں ذیلی حلقوں میں ہونے والےہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی جس پر بھی اسلامی بہنوں نے اچھی نیت کا اظہار کیا۔


دعوتِ  اسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے زیراہتمام گزشتہ دنوں حافظ آباد میں مدنی مشورےکاانعقادہوا جس میں زون و کابینہ نگران اسلامی بہنوں سمیت شعبہ تعلیم کی زون ذمہ دار اسلامی بہنوں نے بھی شرکت کی ۔

ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے غسل میت و کفن دفن کورس کروانے کےحوالےسےاسلامی بہنوں کی تربیت کی نیز ٹیسٹ دینےکےلئے نام بھی لئے اور اس کےساتھ ہی شعبےکےدینی کاموں میں بہتری لانےکےحوالے سے مدنی پھول دیئےجس پر اسلامی بہنوں نے اچھی نیتوں کااظہارکیا۔


شگون کا معنیٰ ہے "فال لینا" یعنی کسی چیز،  شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔1۔بُرا شگون لینا، 2۔ اچھا شگون لینا۔

اچھا شگون:

اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سُن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے اگر کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے۔

شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سنے تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب سے اپنے کام سے رُکے۔"(المدینہ العلمیہ، بدشگونی، صفحہ 10، 11)

بدشگونی حرام اور نیک فال لینا مستحب ہے:

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ الطریقۃُ المحمَّدیہ میں لکھتے ہیں:"بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یااچھا شگون لینا مستحب ہے۔"(المدینۃالعلمیہ، بدشگونی، صفحہ 12)

بدشگونی کی پانچ مثالیں:

1۔بدشگونی کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص سفر کے ارادے سے گھر سے نکلا، لیکن راستے میں کالی بلّی راستہ کاٹ کر گزر گئی، اب اس شخص نے یہ یقین کرلیا کہ اس کی نحوست کی وجہ سے مجھے سفر میں ضرور کوئی نقصان اٹھانا پڑے گا اور سفر کرنے سے رُک گیا تو سمجھ لیجئے کہ وہ شخص بدشگونی میں مبتلا ہوگیا۔

2۔بدشگونی کی دوسری مثال یہ ہے کہ کبھی اندھے، لنگڑے اور معذور لوگوں سے تو کبھی کسی خاص پرندے یا جانور کو دیکھ کر یا اُس کی آواز کو سُن کر بدشگونی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

3۔اسی طرح اس کی تیسری مثال یہ ہے کہ نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص فوت ہو جائے یا کسی عورت کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں، تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے اور وہ بد شگونی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

4۔اسی طرح خالی قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی یا کسی کا کنگھا ا ستعمال کرنے سے گھر میں جھگڑا ہوتا ہے، یہ بھی بد شگونی کی مثال ہے۔

5۔چھوٹا بچہ کسی کی ٹانگ کے نیچے سے گزر جائے یا بچہ سویا ہوا ہو، اُس کے اوپر سے کوئی پھلانگ کر گزر جائے تو بچے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے، یہ بھی بدشگونی ہے۔اسی طرح ہمارے معاشرے میں بدشگونی کی بہت سی مثالیں آپ کو دیکھنے کو ملیں گی۔اللہ پاک آپ کو اور مجھے بدشگونی اور اس جیسی بیماریوں سے دور رہنے اور بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان کابینہ نگران اسلامی بہن نے پہاڑپور ڈویژن کے علاقے سیدوالی میں مدنی  مشورہ لیا جس میں علاقہ نگران اسلامی بہن اور ذیلی مشاورت کی تقرری کی نیزجن اسلامی بہنوں کو ذمہ داری دی ان کی تربیت کی۔ اس کےعلاوہ ذمہ دار اسلامی بہنوں کو اپنے علاقے میں دینی کام بڑھانے کی بھر پورترغیب دلائی جس پراسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں پیش کیں۔ 


شگون کا معنیٰ ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز،  شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔1۔بُرا شگون لینا، 2۔ اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیرِقرطبی میں فرماتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی اچھا کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے اگر کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سنے تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اپنے کام سے رُکے۔(الجامع لاحکام للقرطبی)

سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی جو شخص بد شگونی کی وجہ سے کسی چیز سے رُک جائے، وہ شرک میں آلودہ ہو گیا۔

ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں میں ایک بدشگونی بھی ہے، جس کو بدفالی کہا جاتا ہے، آج کل بدقسمتی سے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی ان بد شگونیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، مثلاً

1۔صفرالمظفر کی تیرہ تاریخ تک کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہ کی جائے، ورنہ کچھ بُرا ہو سکتا ہے، اسی طرح محرم الحرام میں بھی شادی وغیرہ منعقد کرنا بُرا سمجھا جاتا ہے۔

2۔اگر کسی کے گھر کے دروازے پر بلّی کے رونے کی آواز آئے، تو اسے زبردستی دھمکایا جاتا ہے، کیونکہ ان کی ذہنیت کے مطابق جہاں بلی روئے، وہاں کسی انسان کی میّت ہو جاتی ہے۔

3۔اگر کوئی بچے شرارت سے چارپائی وغیرہ پر بیٹھے ہوں اور اپنے پاؤں نیچے لٹکا کر ان کو ہلانا شروع کردیں تو کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرو، ورنہ تمہاری والدہ کی وفات ہو جائے گی۔

4۔اگر کوئی خالی قینچی چلائے تو کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے گھر میں لڑائی ہو جاتی ہے۔

5۔اگر کوئی طلاق یافتہ یا بیوہ خاتون، نئی نویلی دلہن کے قریب جائے تو اسے بُرا سمجھا جاتا ہے، حتٰی کہ ایسی خاتون کو دلہن کی کسی رسم میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی زندگی کے بُرے اثرات نئی نویلی دلہن پہ نہ پڑ جائیں، حالانکہ یہ سب ہندو معاشرے کے اثرات ہیں، جو برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں میں آج بھی موجود ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں شعُور اُجاگر کیا جائے، تاکہ اس بد شگونی کا معاشرے سے خاتمہ ہوسکے۔


عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں

بد شگونی حرام اور نیک فال لینا مستحب یعنی ثواب کا کام ہے۔ حضرت امام محمد آفندی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ کتاب ” طریقۂ محمدیہ “ میں لکھتے ہیں : بد شگونی حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب ہے۔

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اچھی فال کو پسند فرماتے تھے۔(مسند احمد)

اچھا شگون لینا اور برا شگون لینا اس سے کیا مراد ہے، آئیے مثالوں سے سمجھتے ہیں:

اچھے شگون کی مثال یہ ہے کہ ہم کسی کام کو جا رہے ہوں اور کوئی نیک، پرہیز گار شخص سامنے آ گیا، تو ہم نے خیال کیا کہ ان شاء اللہ میں اپنے کام میں کامیاب ہوجاؤں گا۔ اور بد شگونی کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص سفر کرنے کے لیے گھر سے نکلا، لیکن کالی بلی آگے سے گزری، اب اس شخص نے یقین کرلیا کہ اس کی نحوست کی وجہ سے مجھے ضرور کوئی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ تو یوں وہ شخص بد شگونی میں مبتلا ہوگیا۔

بد شگونی کی تعریف: شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اچھا یا برا سمجھنا۔ اسی وجہ سے بد فال لینے کو بد شگونی کہتے ہیں۔

بنیادی طور پر شگون کی دو قسمیں ہیں: (1) برا شگون (2)اچھا شگون

بد شگونی سے متعلق اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس نے بد شگونی لی اور جس کے لیے بد شگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات صفحہ 285- 286)

بد شگونی ایک عالمی بیماری ہے۔ مختلف ممالک میں رہنے والے لوگوں میں الگ الگ قسم کی بد شگونیاں پائی جاتی ہیں، جنہیں سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اب عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں ذکر کی جا رہی ہیں جو ہمارے علاقے میں بھی عام ہیں:

1. گھر سے اگر کوئی سفر پر جائے تو جب تک وہ اپنی منزل پر نہ پہنچ جائے تب تک یا اس دن گھر میں جھاڑو نہیں دی جاتی اسے منحوس سمجھا جاتا ہے۔

2. رات کے وقت کنگی چوٹی کرنے اور ناخن کاٹنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔

3. ہمارے یہاں ایک بدشگونی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جھاڑوں کو کھڑا نہ رکھا جائے اس سے گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔

4. چاند گرہن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ جب پیدا ہو گا تو اس کا ہاتھ، پاؤں یا جسم کا کوئی عضو کٹا ہوا یا چرا ہوا ہو گا۔

5. ہمارے یہاں عورتوں میں ایک بد شگونی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ جس عورت کا بھائی ہو وہ جمعرات کے دن سر نہ دھوئے۔

شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی مکمل کرے اور جب برا کلام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ کرے اور نہ ہی اس کی وجہ سے اپنے کام کو روکے۔

بدشگونی انسان کے لیے دینی و دنیوی دونوں طرح سے بہت خطرناک ہے، انسان وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بے سکون رہتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں بدشگونی سے نجات عطا فرمائے اور شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین