بدشگونی کیا
ہے:
مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ 128 صفحات پر مشتمل
کتاب بدشگونی صفحہ 10 پر ہے:شگون کا معنیٰ ہے "فال لینا" یعنی کسی
چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا
سمجھنا، (اسی وجہ سے بد فالی لینے کو بدشگونی کہتے ہیں)۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: فَاِذَا
جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚوَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا
بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕاَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ
اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)
ترجمہ کنز
الایمان:تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی
لیتے سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر)
کی شامت تو اللہ کے
یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں ۔(پ 9، اعراف:131)
بدشگونی
کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے:
حضور نبی
کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔(معجم کبیر حدیث عمران بن حصین، ص162، حدیث 355)
عورتوں میں
پائی جانے والی چار بد شگونیوں کی مثالیں:
1۔نئی
دلہن کے ہاتھوں اگر کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور بات
بات پر اس کی دل آزاری کی جاتی ہے۔
2۔اگر کسی
گھر پر اُلّو کی آواز سن لی جائے تو اعلان کر دیا جاتا ہے کہ گھر کا کوئی فرد مرنے
والا ہے یا گھر پر مصیبت آنے والی ہے۔
3۔اگر کوئی
شیشے کا برتن یا شیشہ ٹوٹ جائے تو اسے منحوس سمجھا جاتا اور بدشگونی کی جاتی ہے۔
4۔یوں ہی
عورتوں میں ماہِ صفر المظفر کے بارے میں بھی بدشگونی لی جاتی ہے اور اسے تیرہ تیزی
کا مہینہ کہا جاتا ہے اور اس مہینے میں شادی کرنے، الغرض کوئی اچھا کام کرنے کو منحوس جانا جاتا ہے۔
بد شگونی
کا حکم:
حضرت امام
محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بدشگونی لینا حرام جبکہ اچھا شگون لینا مستحب
ہے۔"
بدشگونی
سے کیسے بچا جائے:
بدشگونی
سے بچنے کے لئے سب سے پہلے اللہ پاک پر توکّل اور بھروسہ رکھا جائے اور اس آیت مبارکہ کو ذہن نشین رکھا
جائے:حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔