فقال اللّٰہ تعالیٰ فی القرآن المجید:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شانِ ختمِ نبوت:وجودِ مصطفے میں جملہ مُحاسن و کمالاتِ نبوت لیتا اس نقطہ ٔ کمال تک پہنچے کہ اب قصرِ نبوت کا اور کوئی گوشہ تشنۂ تکمیل نہ رہا اور نبوت کی رفیع الشان عمارت ہر لحاظ سے مکمل ہوگئی تو سلسلۂ نبوت و رسالت کو ختم کر کے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سرِ انور پر ختمِ نبوت کا تاج سجا دیا گیا، جیسا کہ اوپر آیت مذکور ہوئی۔حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے خاتم النبیین ہونے کی خصو صیت کا خود اعلان فرمایا،چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”سلسلۂ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا، نہ کوئی نبی۔“یہ امر واضح ہے کہ حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا جس طرح قرآنی آیات میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، اسی طرح احادیثِ نبوی میں تواتر کے ساتھ بیان ہوا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بار بار تاکید کے ساتھ اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے:میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں، رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے ہیں،میرے لئے ساری زمین پاک کردی گئی اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ،میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیائے کرام علیہم السلام کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ حضرت علی المکی سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ مرضِ وصال میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی لختِ جگر سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے فرمایا:ہم اہل ِبیت کو اللہ پاک نے سات ایسے امتیازات عطا فرمائے ہیں، جو ہم میں سے پہلے کسی کو عطا نہیں فرمائے گئےا ورنہ ہمارے بعد کسی کو عطا کئے جائیں گے۔ میں انبیائے کرام علیہم السلام کا سلسلہ ختم فرمانے والا ہوں،انبیائے کرام علیہم السلام میں سے سب سے زیادہ معزز ہوں اور تمام مخلوقات میں سے اللہ پاک کو سب سے زیادہ محبوب ہوں۔اسمائے مصطفے سے آخری نبی کے معنی پر دلالت:حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :میں محمد ہوں، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں میرے ذریعے کفر کو مٹا دیا جائے گا، میں حاشر ہوں میرے بعد ہی قیامت آ جائے گی اور حشر برپا ہوگا(نیز کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) ،میں عاقب ہوں اور عاقب اس شخص کو کہا جاتا ہے، جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔تخلیقِ آدم سے قبل خاتم النبیین کا خطاب:حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں اللہ پاک کا بندہ اس وقت خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا جب کہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی خمیر سے پہلے اپنی مٹی میں تھے۔یہ احادیثِ مبارکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت کا عقیدہ کوئی نیا نہیں، بلکہ یہ اس وقت سے ہے، جب کہ ابھی تاریخِ انسانی کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا اور اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا لکھ دیا تھا، لہٰذا اگر کوئی اس کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو آخری نبی نہ مانے اور خاتم کے معنی میں تحریف کے ذریعے نئے نبی کی آمد کو جائز قرار دےتو وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور گروہِ کفار میں شامل ہے ۔جھوٹے مدعیانِ نبوت کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیشین گوئی:حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کادعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے، سن لو! میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔حضرت عمرو بن ابی قرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے مجھے تمام جہانوں کے لئے سَراسَر رحمت بنا کر بھیجا ہے، لہٰذا حدیثِ نبوی سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں جہاں تک آپ کی رحمت ہے، وہاں وہاں تک آپ سے آپ کی نبوت و رسالت ہے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت تک آنے والی مخلوقِ خدا کے لئے رحمت ہیں، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت و رسالت بھی قیامت تک جاری ہے۔مذکورہ بالا تمام احادیث حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت پر صراحت کے ساتھ دلالت کر رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جامع کمالاتِ انبیا ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا افضل الانبیاء و الرسل ہونا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ نبوت کا ذریں سلسلہ جس کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا، بعثتِ محمدی کے ساتھ اپنے منتہائے کمال کو پہنچ کر ختم ہوچکا، اب قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کی نبوت و رسالت جاری و ساری رہے گی۔ ختمِ نبوت کا کام کرتے کرتے مرنا ہے۔ انشاءاللہ

فتحِ باب نبوت پہ بے حد دُرود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


یہ ایک ناقابلِ انکار صداقت ہے کہ انسانیت کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلۂ رُشد و ہدایت شروع ہوا تھا۔ وہ

نبی آخر زماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر آکر مکمل ہوا۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلٰمَ دِیۡنًا ؕ (پ6،البقرۃ:3)ترجمۂ کنزالایمان:آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیااور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر دین کا کامل مکمل ہونا اس بات کو ملتزم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی اور نبی کا آنا اسی وقت ممکن ہوتا جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دین اور شریعت میں کوئی کمی ہوتی جس کمی کو بعد میں آنے والا نبی پورا کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطا کردہ شریعت رُشدُ و ہدایت کا ابدی سر چشمہ ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دین کامل اور تمام ہے اور اس کا نا مکمل ہونا ممکن نہی ہے تو آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی نبی کا آنا بھی ممکن نہی ہے یعنی آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکےبعد کوئی نبی مبعوث نہی ہوگا۔رُشد و ہدایت کا یہ سلسلہ اور ایمان سے وابستگی درحقیقت عقیدۂ ختمِ نبوت پر ایمان سے وابستہ ہے۔اس پر ایمان وبندگی کا لازمی اور ناگزیر تقاضہ ہے جس کے بغیر دین اور ایمان کا تصور بھی محال ہے۔آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نبوت اور رسالت کی آخری اینٹ اور آخری کڑی بن کر جلوہ آرا ہوئے کہ آپ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں اوریہ عقیدہ چمکتے سورج کی طرح روشن ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے لے کر پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی مثل اس شخص کی طرح ہےجس نے گھر بنا کر مکمل کیا اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،پس میں آیا اور میں نے اس اینٹ کو رکھ کر اس گھر کومکمل کر دیا۔(مسند احمد، 3 / 9) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی، پس میرے بعد کوئی نبی ہوگا نہ رسول۔(مستدرک، 4 /391)ختمِ نبوت کا معنیٰ مہر ہے اور خاتم النبین کا مطلب یہ ہے کہ پہلے انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی آمد کا سلسلہ جاری تھا،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے یہ سلسلہ بند ہوگیا۔اب اس پر مُہر لگا دی گئی تا کہ کوئی کذاب دعویِ نبوت نہ کر سکے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں :نبی محترم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے فرما یا: اے ابوذر! پہلے رسول آدم علیہ السلام ہیں اور آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) ہیں۔(کنز العمال،حدیث: 32269) حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہر ِنبوت تھی اور آپ خاتم النبیّن تھے۔( ترمذی،حدیث: ٣٦٣٧) عقیدۂ ختمِ نبوت پر ایمان رکھنا ضروریاتِ دین سے ہے اگر کوئی بندہ تمام ضروریاتِ دین کو مانتا ہو مگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتمُ الانبیا نہ مانتا ہوتو وہ مسلمان نہ ہوگا بلکہ کافر ہی رہے گا۔ بروایتِ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں پیدائش میں سب سے پہلے ہوں اور بعثت میں سب سے آخر۔(کنز العمال ، حدیث:31916)خاتم النبی سے مراد مطلق آخری نبی ہیں ،اس معنیٰ میں تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہی۔ معلوم ہوا!ختمیت ازل سے آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دی گئی ہے۔


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں۔“ختم ِنبوت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت کو ختم فرما دیا، حضور علیہ السلام آخری نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ سب سے بڑا جھوٹا ہے، کافر و لعنتی و جہنمی ہے، یہ حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپ علیہ السلام آخری نبی ہیں،یہاں چند احادیث ِمبارکہ کا ذکر کیا جائے گا، جو حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت کا اعلان کر رہی ہیں۔1۔میں عاقب ہوں: امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے راوی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک میرے متعدد(کئی)نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں، کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم کتاب الفضائل باب فی اسمائہ2/261، فتاویٰ رضویہ، جلد 15، صفحہ647)2۔ہم سب سے پچھلے ہیں:صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:ہم زمانے میں قیامت میں سب سے پچھلے اور قیامت میں سب سے آگے ہیں۔(بخاری، کتاب الجمعہ، باب فرض الجمعہ1/120، مسلم، کتاب الجمعہ، باب فضیلۃ یوم الجمعہ1/282، فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 660)3۔لا نبی بعدی:بخاری شریف میں مروی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:انبیا بنی اسرائیل کی سیاست فرماتے، جب ایک نبی تشریف لے جاتا، دوسرا اس کے بعد آتا، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( بخاری، کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل1/491، فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 669) 4۔رسالت و نبوت ختم ہوگئی:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول، نہ نبی۔( ترمذی، ابواب الرویا ذھبت النبوۃ2/51، فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 669، 670)5۔خاتم النبیین: بطریق ا بی الزبیر حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے راوی، فرمایا:حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں شانوں کے وسط (درمیان) میں قلمِ قدرت سے لکھا ہوا ہے، محمد رسول اللہ خاتم النبیین۔(مختصرتاریخِ دمشق لابن عساکر، باب ذکر ماخصّ بہ وشرف بہ، الخ2/137، فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 634)حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں، یعنی اللہ پاک نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا(وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی)جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانہ میں یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔(بہار شریعت، جلد 1 ،صفحہ 63، عقیدہ 36)


فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو بندہ مجھ پر ایک مرتبہ درودِ پاک پڑھتا ہے، اللہ پاک اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ہے، اب بندے کی مرضی ہے وہ کم پڑھے یا زیادہ۔عقیدۂ ختم نبوت کیا ہے:عقیدہ ٔختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے مکمل ہوچکی ہے،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہو چکی ہے، اب قیامت تک کسی بھی انسان کو نبوت یا رسالت نہیں ملے گی یعنی تاقیامت نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔اللہ پاک کا بے انتہا شکر ہے جس کی توفیق سے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت کے عقیدے کے تحفظ میں ادنیٰ سی کوشش کی توفیق ملی۔اسلام میں عقیدے کو اوّلیت حاصل ہے، پہلے خدا اور اس کے بعد بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر درست عقیدہ رکھنا ضروری ہوتا ہے، پھر اس کے بعد ہی اعمال کی ابتدا ہوتی ہے، درست عقیدے کے بغیر عبادت کرنا ایسا ہی ہے، جیسے بغیر بنیاد کی عمارت کھڑی کر دی جائے۔جس طرح مسلمان کے لئے ذاتِ الٰہی کا جاننا فرض ہے، عین اسی طرح ختمِ نبوت پر ایمان لانا بھی فرض ہے، جو اس کا انکار کرے وہ کافر و مرتد ہے، بلاشبہ نبوت بہت بلند، بڑا عظیم اور بڑا درجہ ہے، اس لئے اس میں ذرا سی بھی گمراہی قابلِ قبول نہیں۔قرآن عظیم میں ختمِ نبوت پر دلیل:قرآنِ عظیم میں بیشتر ایسی آیات موجود ہیں جن میں ختمِ نبوت کا عقیدہ واضح طور پر سمجھ آتا ہے، لیکن طوالت کے خوف سے یہاں پر صرف ایک آیت پیش کی جاتی ہے، اللہ پاک کا ارشادِ مبارک ہے:ترجمۂ کنزالعرفان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔(پ22،الاحزاب:40)

ان کے مولیٰ کے ان پر کروڑوں درود ان کے اصحاب و عترت پہ لاکھوں سلام

بار ہائے صحف غنچائے قدس اہلِ بیتِ نبوت پہ لاکھوں سلام

اہلِ اسلام کی مادرانِ شفیق بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام

ختمِ نبوت کے متعلق چار فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک ا ینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے:اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں (قصرِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کو نہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین، صفحہ 1255، حدیث 22(2286) 2۔حضرت ثو بان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے میرے لئے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا(اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا:)عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد،کتاب الفتن ولملامم، باب ذکر الفتن ودولائلہا، 4/132، حدیث 4252)3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے6 وجوہ سے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: 1۔مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں،2۔رعب سے میری مدد کی گئی ہے، 3۔میرے لئے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے۔ 4۔تمام روئے زمین کو میرے لئے طہارت اور نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے، 5۔مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے، 6۔اور مجھ پر نبیوں(کے سلسلے کو ختم کیا گیا ہے)۔(مسلم، کتاب المساجد وموا ضع الصلاۃ، صفحہ 266، حدیث5(523) 5۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں تمام پیغمبروں کا خاتم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا۔(معجم اوسط، باب الالف، من اسمہ:احمد1/63، حدیث: 170)ایک بہن نے بڑا اچھا جملہ کہا :ہر نبی کا عمل خوبصورت ہوتا ہے، یہ خوبصورتی ترقی کرتی رہی، حتّٰی کہ آخر میں اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو ہر عمل کی خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچ گئی، جب ہر عمل کی خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اس پر ختمِ نبوت کی مہر لگا دی گئی کہ اس جیسا پیارا عمل نہ پہلے آیا اور نہ قیامت کی صبح تک آئے گا۔

پاک اللہ ذاتِ مصطفی کا حسنِ لاثانی کہ یکجا جمع ہیں جس میں تمام اوصافِ امکانی

دعائے یونسی، خلقِ خلیلی، صبرِ ایّوبی جلالِ موسوی، زیدِ مسیحی، حسنِ کنعانی

پیاری پیاری اسلامی بہنوں!اسلام کے خلاف سازشوں میں باطل فرقوں نے اُمّت کو نقصان پہنچانے کی ہر دور میں جو کوشش کی وہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں اور اللہ پاک نے ایسے اسلام دشمن کی سرکُوبی کے لئے علمائے حق کا انتخاب فرمایا، جس کی ابتدا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہوئی اور خاص طور سے منکرِ ختمِ نبوت کا سر توڑ اور مُنہ توڑ جواب دیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اور ان کے بعد ہر دور میں جھوٹے دعویدار نبوت کے ہوتے رہے اور خاص طور سے بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری میں کئی دجّالوں نے جھوٹے دعوے کی طرف پیش قدمی کی، ،انہوں نے شانِ رسول میں انتہائی گستاخانہ عبارتیں لکھیں جنہیں دیکھ کر مؤمن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، جو کہ سراسر کفر ہے۔

اس پر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ایسے منہ توڑ جوابات دیئے جن کے جوابات وہ آج تک نہ دے سکے نہ قیامت تک دے سکیں گے۔ان شاءاللہ ۔ مضمون کے اختتام کی طرف جاتے ہوئے مرزائی قادیانیوں کو یہ کہنا چاہوں گی کہ تم کیوں کر اپنی آخرت برباد کر رہے ہو، جب کہ حقیقت بالکل واضح ہے، ایسی پیاری اُمّت کو چھوڑ کر تم جہنم کا ایندھن بن رہے ہو! ارے ظالمو!اس اُمّت میں ہونے کی دعا تو انبیائے کرام علیہم السلام بھی کرتے تھے، اب بھی وقت ہے، توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اس پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت پر ایمان لے آؤ، جو آخری نبی ہیں، جن کی کتاب آخری کتاب ہے، جن کی اُمّت آخری امت ہے، جن کا دین آخری ہے، دولت کے نشے میں مست ہونے والوں مرزائیو! تیسرے پارے کی آخری آیت پڑھ لو کہ ساری دنیا کے برابر سونے بھی لے آؤ تو جہنم سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے اور اگر میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت پر سچے دل سے توبہ کرکے ایمان لے آؤ تو تم تو کیا، تمہارا سایہ بھی جہنم میں نہ جائے گا۔ان شاءاللہ ۔پھر سوچ لو! غور کرلو! مرنے کے بعد تو تم بھی مان لوگے، مگر اُس وقت کا مان لینا کام نہیں آئے گا، آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔خدا کرے دل میں اُتر جائے میری بات!


اللہ پاک اور بندوں کے تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام تشریف لائے۔ اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کو ایک خاص قوم اور ایک خاص شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ان تمام کی تعلیمات جزوی تھیں لہٰذا اللہ پاک کے اس نظامِ شریعت اور سلسلۂ نبوت جو ارتقائی مراحل پر گامزن تھی کو ایک جامع اور کامل نبی کی ضرورت تھی، ایسے نبی کی جس کی شریعت جزوی نہ ہو بلکہ مکمل ہو جس میں زندگی کے ہر پہلو کے راہ نما اصول موجود ہوں اور جو کسی خاص قوم یا کسی خاص خطے کے ساتھ مخصوص نہ ہو بلکہ عالمین کے لیے ہدایت ہو۔

چنا نچہ اللہ پاک نے سلسلۂ نبوت و رسالت کی تکمیل کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ختم النبوة فی ضوء القراٰن والسنۃ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا ۔چنانچہ ارشاد باری ہے :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ سلسلۂ نبوت آپ پر ختم ہوگیا اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوسکتا۔خاتم النبیین ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اعزاز و اختصاص ہے اور تمام مسلمانوں کے ایمان کی اساس ہے۔چنانچہ بخاری شریف میں کتاب المناقب باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں درج ہے : وانا خاتم النبیین۔ (2)میں آخری نبی ہوں۔ترمذی کتاب الفتن ، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ .. الخ ، میں یہ حدیث شریف مذکور ہے: وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی (3)میں آخری رسول ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ (4)ترجمۂ کنز الایمان:تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ(5)ترجمۂ کنز الایمان:”اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے ۔“ یعنی پیغامِ ہدایت تمام انسانوں کے لیے ہے اور جس کے بعد کسی ہادی و راہ نما کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔پہلی آیت میں انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اس لیے یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ فرمایا گیا ورنہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہدایت تمام عالمین کے جن و انس کے لیے ہے ،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رسول الثقلین ہیں۔(6)اسی حوالے سے حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے : وارسلت الی الخلق کافة میں تمام مخلوقات کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ (7) صاحب ِمرقاة رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت تمام اجزائے عالم اور جمیع اقسامِ موجودات کے لیے ہے خواہ وہ جمادات و نباتات ہوں یا حیوانات۔ (8) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (9)ترجمۂ کنز الایمان:”اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے ۔“اس آیت ِمبارکہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی افاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے کہ آپ تمام عالمین کے لیے رحمت ہیں ۔ آپ کے سایۂ رحمت میں ہر ایک کو پناہ ملتی ہے۔اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ (10)ترجمۂ کنز الایمان:”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی“جب دین کی کاملیت کا اعلان واضح طور پر اس آیت ِکریمہ میں کر دیا گیا تو اب کسی نئے نبی اور کسی نئی شریعت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔لہٰذا اب کوئی بھی فرقہ یا شخص آپ کے بعد کسی کی نبوت کو جائز سمجھتا ہو یا وہ نبوت کا دعوی کرے تو وہ آیاتِ قرانی کا منکر قرار پائے گا اور قرآنِ کریم کا منکر صریح کافر ہے ۔1۔[پ22،الاحزاب:40]2-(2/485،حدیث:3535)3-(4/93،حدیث:2226)4-[پ9،الاعراف:158]5-[پ22،سبا:28]6-(تکمیل الایمان، ص 127 تا 128)7-(مسلم ، کتاب المساجد .. الخ ، ص 266،حديث :533)8-(مرقاة، کتاب الفضائل ، باب فضائل سید المرسلین ، الفصل الاول ، 10 / 14،تحت الحدیث : 5748)۔ 9-[پ17، الانبياء:107] 10-[پ6، المائدة:3]


عقیدۂ ختمِ نبوت دینِ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے اور ایک اہم ترین عقیدہ ہے، ختمِ نبوت کے بارے میں عقیدہ گویا ایمان کا بھی ایک پہلو ہے،  آئیے! ملاحظہ فرمائیے کہ عقیدۂ ختم نبوت سے کیا مراد ہے:عقیدۂ ختم نبوت: نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری رسول و نبی ماننا اور اس بات پر ایمان لانا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آ سکتا، اسے عقیدۂ ختم نبوت کہتے ہیں۔یہاں ایک بات ذہن نشین رکھئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قُربِ قیامت میں جو آنا ہوگا، وہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب کے طور پر ہوگا اور وہ اپنے دین(شریعت) کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ فرمائیں گے۔

فتحِ بابِ نبوت پہ بےحد دُرود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت:جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت کا مستحق سمجھے یا اسے جائز کہے، تو وہ کافر ہے۔ (بہارِشریعت)ختمِ نبوت کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ:٭حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا: عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب (جھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ نبوت ختم ہو چکی، میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد، 4/132، حدیث 4252)٭ارشاد فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت مجھ پر ختم ہوگئی، اب میرے بعد کوئی رسول ہے،نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121،حدیث:2279)٭اِرشاد فرمایا:بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔ (صدرالافاضل اور عقیدۂ ختم نبوت)مندرجہ بالا احادیثِ مبارکہ سے عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت واضح ہے۔

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق تعالی نے انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں(قبالہ بخشش)


مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)ختمِ نبوت کا مفہوم:ختم کے لغوی معنیٰ ہے:مہر لگانا، بند کرنا، کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہونا وغیرہ۔ختمِ نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے اپنے خاص بندوں کو منصبِ نبوت و رسالت پر سرفراز کرنے کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام تک جاری و ساری تھا، وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ اقدس پر آ کر ختم ہو گیا۔ پہلے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آتا تھا، مگر اب آپ کے بعد کسی اور نبی کی بعثت نہیں ہوگی، آپ اللہ پاک کے سب سے آخری نبی اور رسول ہیں، آپ خاتم الانبیاء ہیں اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآنِ کریم خاتم الکتب ہے۔یہ اسلام اور اس امت کا متفقہ اور مسلمہ عقیدہ ہے کہ جو شخص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکو آخری نبی نہ مانے یا آپ کے بعد سلسلۂ نبوت کے جاری رہنے کا عقیدہ رکھتا ہو یا آپ کے بعد کسی اور شخص کونیا نبی یا رسول مانتا ہووہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت کتاب و سنت اور اجماعِ امت تینوں سے ثابت ہے۔ ختمِ نبوت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ اس بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اِنِّی عَبْدُاللہِ وَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَاِنَّ آدَمَ لَمُنْجِدِل فِیْ طِیْنَتِہٖ ترجمہ :میں اللہ پاک کا بندہ اور نبیوں (کے سلسلۂ نبوت) کو ختم کرنے والا ہوں اور یہ فیصلہ اس وقت سے صادر شدہ ہے، جب آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں تھے۔(مسند امام احمد)رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ ترجمہ:سلسلۂ رسالت و نبوت منقطع ہو چکا ، میرے بعد کوئی رسول ہے نہ نبی۔(مسند احمد، ترمذی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَاءِ کَرَجُلٍ بَنٰی فَاکْمَلَھَا وَاَحْسَنَھَا اِلَّا مَوْضِعُ لَبِنَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْ خُلُوْنَھَاوَیَتَعَجَّلُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا مَوْضِعَ الَّلبِنَۃِ ترجمہ:میری اور دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے مکان بنایا،اسے بالکل مکمل کر دیا اور بڑا خوبصورت بنایا، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی، لوگ اس میں داخل ہوتے اور تعجب سے کہتے: کاش!اس جگہ بھی ایک اینٹ لگا دی جاتی۔(بخاری، ص352)خاتم النبیین کا حقیقی مفہوم یہی ہےجو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا کہ آپ قصرِنبوت کی آخری اینٹ ہیں، یہ ختمِ نبوت کی بہترین مثال ہے، جو آپ نے سمجھانے کے لئے خود بیان فرما دی اور ذہن نشین کروا دیا کہ آپ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی لڑی میں سب سے آخری نبی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا اِلَّا حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ وَأَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِوَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ وَهُوَ خَارِجٌ فِيكُمْ لَا مَحَالَةَ ترجمہ:بے شک اللہ پاک نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے اپنی اُمّت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ بے شک میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمّت ہو،وہ یقیناً تم میں ہی آئے گا۔ (ابن ماجہ)ر سول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: وَاِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ترجمہ:میری امت میں تیس کذاب ہوں گےجن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی۔(ابوداؤد، کتاب الفتن)جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت جملہ اقوامِ عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے، جب آپ پر نازل شدہ کتاب بغیر کسی معمولی تحریف کے جُوں تُوں ہمارے پاس موجود ہے، جب شریعتِ اسلامیہ روزِ اوّل کی طرح آج بھی انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری راہ نمائی کر رہی ہے، جب قرآنِ کریم کی یہ آیت آج بھی اعلان کر رہی ہے(ترجمۂ کنزالایمان: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام بطورِ دین پسند کیا۔)(پ6، المائدہ:3 ) تو پھر کسی اور نبی کی بعثت کا کیا فائدہ؟ نبی کی آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا کہ نبی آیا، جس نے چاہا مان لیا اور جس نے چاہا انکار کر دیا، کوئی کتنا ہی نیک، پاکباز، پارسا اور عالمِ باعمل ہو، اگر وہ کسی سچے نبی کی نبوت کو تسلیم نہ کرے تو اس کا نام مسلمانوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا اور کفار و منکرین کے زمرے میں اس کا نام درج کر دیا جائے گا۔


عقیدۂ ختمِ نبوت کا مطلب یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آنے سے پوری ہوچکی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ ویسے تو عقیدۂ ختم نبوت تقریبا 210 سے زائد احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔لیکن اس مضمون میں عقیدۂ ختم نبوت پر 10 احادیثِ مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گی۔ حدیث نمبر1:عَنْ أَبِی ہُرَیرَۃَ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قَالَ:مَثَلِی وَمَثَلُ الْأَنْبِیاءِ مِنْ قَبْلِی کمَثَلِ رَجُلٍ بَنىٰ بُنْیانًا فَأَحْسَنَہ وَأَجْمَلَہ، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃ مِنْ زَاوِیۃ مِنْ زَوَایاہ، فَجَعَلَ النَّاسُ یطُوفُونَ بِہ وَیعْجَبُونَ لَہ وَیقُولُونَ:ہلَّا وُضِعَتْ ہذِہ اللَّبِنَۃ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَۃ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیینَ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیا ئےکرام علیہم الصلوۃ و السلام کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔لوگ اس کے گرد گھومنے اور تعجب کرنے لگےاور یہ کہنے لگے: یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگادی گئی؟آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں وہی اینٹ ہوں اور نبیوں(کے سلسلے)کو ختم کرنے والا ہوں۔(مسلم، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین،حدیث : 5961) حدیث نمبر 2:عَنْ أَبِی ہُرَیرَۃَ ؓ،أَنَّ رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قَالَ:فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِیاءِ بِسِتٍّ:أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِی الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِی الْأَرْضُ طَہورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ کافَّۃ، وَخُتِمَ بِی النَّبِیونَ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے 6 چیزوں میں انبیا ئےکرام علیہم الصلوۃ و السلام پر فضیلت دی گئی۔ 1)مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے۔ 2)رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی۔ 3)مال غنیمت میرے لئےحلال کردیا گیا۔ 4)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیاگیا۔ 5)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا۔ 6)مجھ پر تمام نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔(مسلم،کتاب المساجد و مواضع الصلوۃ ،حدیث: 1167) حدیث نمبر 3:عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ ؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لِعَلِی: أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہارُونَ مِنْ مُوسٰى، إِلَّا أَنَّہ لَا نَبِی بَعْدِی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب،حدیث: 6217) حدیث نمبر 4:عَنْ أَبِی ہُرَیرَۃَعَنِ النَّبِیصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم،قَالَ:‏‏‏‏کانَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ تَسُوسُہمُ الْأَنْبِیاءُ کلَّمَا ہلَک نَبِی خَلَفَہ نَبِی، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّہ لَا نَبِی بَعْدِی وَسَیکونُ خُلَفَاءُ فَیکثُرُونَحضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیا ئےکرام علیہم الصلوۃ و السلام کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا تھا۔لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہونگے۔(بخاری، باب ذکر عن بنی اسرائیل،حدیث: 3455) حدیث نمبر 5:عَنْ ثَوْبَانَ ؓ،‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:‏‏‏‏وَإِنَّہ سَیکونُ فِی أُمَّتِی ثَلَاثُونَ کذَّابُونَ کلُّہمْ یزْعُمُ أَنَّہ نَبِی، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیینَ لَا نَبِی بَعْدِیحضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میری امت میں 30 جھوٹے پیدا ہوں گے ،ان میں سے ہر ایک کہے گا :میں نبی ہوں۔حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، حدیث: 2219) حدیث نمبر 6:عَنْ أَنَس بْن مَالِک ؓ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:‏‏‏‏إِنَّ الرِّسَالَۃ وَالنُّبُوَّۃ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِی حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ر سالت و نبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔(ترمذی،باب ذہبت النبوۃ وبقیت المبشرات،حدیث: 2272) حدیث نمبر 7:عَنْ أَبِی ہرَیرَۃ،قَالَ رَسُولُ اللَّہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم صَلَّى اللَّہ عَلَیہ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ یوْمَ الْقِیامَۃ أُوتُوا الْکتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِینَاہ مِنْ بَعْدِہمْحضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے۔صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔(بخاری،باب ھل علی من لا یشھد الجمعۃ غسل من النساء والصبیان،حدیث: 896) حدیث نمبر 8:عَنْ عُقْبَۃ بْنِ عَامِرٍ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:‏‏‏‏ لَوْ کانَ بَعْدِی نَبِی لَکانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔(ترمذی، مناقب ابی حفص عمر ؓ بن الخطاب ، حدیث: 3686) حدیث نمبر 9:عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یقول ان لی اسماء،وانا محمد،وانا احمد،وانا الماحی الذی یمحواللہ بی الکفر، وانا الحاشر الذی یحشرالناس علی قدمی، وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے چند نام ہیں۔میں محمد ہوں۔میں احمد ہوں۔میں ماحی یعنی مٹانے والا ہوں کہ میرے ذریعے اللہ پاک کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر یعنی جمع کرنے والا ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے۔ میں عاقب ہوں یعنی سب کے بعد آنے والا ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مشکوٰۃ،باب اسماء النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم وصفاتہ،حدیث: 5776) حدیث نمبر 10: عَنْ سَہلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:‏‏‏‏ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃ ہکذَاحضرت سھل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ (یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور ایسا انسان نہیں آئے گا جس کو نبوت دی جائے گی)(بخاری،باب قول النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بعثت انا والساعۃ کھاتین،حدیث:6503)ان دس احادیثِ مبارکہ سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ نبیوں کی تعداد حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے پوری ہوگئی ہے اور حضورصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک نبی کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔


خاتم المرسلین، رحمۃ اللعالمین، شفیع المذنبین، انیس الغریبین، سراج السالکین، محبوبِ رب العالمین، جنابِ صادق و امین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:جب جمعرات کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کو بھیجتا ہے، جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کون یومِ جمعرات اور شبِ جمعہ مجھ پر کثرت سے درود پاک پڑھتا ہے۔(کنز العمال، جلد 1، صفحہ 280)

عقیدۂ ختمِ نبوت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترین عقیدہ ہے۔ ختمِ نبوت کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کا انکار صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک زمانے سے لے کر آج تک کے ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔ (پارہ 22، الاحزاب:40)خاتم النبیین کا معنی تفاسیر کی روشنی میں:ختمِ نبوت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ خاتم النبیین کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاویلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو قرآن، احادیث، اجماعِ صحابہ اور مفسرین، محدثین، محققین، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمدیہ کے خلاف ہیں، تفاسیر اور اقوالِ مفسرین کی روشنی میں خاتم النبیین کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے۔صاحب زادُ المیسر ابو الفرج عبد الرحمٰن بن علی جوزی(وفات 597ھ) لکھتے ہیں: خاتم النبیین کے معنی آخرالنبیین ہیں۔ حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ذریعے سلسلۂ نبوت ختم نہ فرماتا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بیٹا حیات رہتا، جو ان کے بعد نبی ہوتا۔(زاد المیسر، تحت الآیۃ: 40 ،6/393)احادیثِ مبارکہ:1۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:فَاِ نِّی آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وِاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدبے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے(جیسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)(مسلم، ص 553، حدیث 3376)2۔ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا، نہ کوئی نبی۔(تر مذی، 4/1216، حدیث:2279)3۔اَنَا آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمْ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔(ابن ماجہ، 6/616، حدیث:4077)4۔اَنَا خَاتَمُ النَّبِیّینَ وَلَا فَخْرَ یعنی میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط، 1/63، حدیث 170-تاریخ کبیر للبخاری،4/236،حدیث: 5731) قرآن وسنت کے قطعی نصوص سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں، آپ کے بعد کسی شخص کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔


دورِ حاضر میں جہاں دینِ اسلام کو بہت سے فتنوں نےگھیر رکھا ہے اس پُر فتن دور میں بھی اپنے ایمان کی حفاظت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کے لئے عقیدے کی پختگی بہت اہم ہے ۔عقیدۂ ختم ِنبوت ایمان کی بنیادی ضرورت میں سے ہے اور اس بات پہ ایمان لانا شرط بھی ہے کہ ہمارے آقا، نُورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئےگا ۔ اگر کوئی کسی نئے نبی کے لیے نبوت ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو کر کافر ہو جائےگا ،اسے کافرو مر تد کہا جائے گا اور اس کو مرتدو کافر نہ ماننے والا بھی کافرو مرتد ہو جائے گا۔اول:اسلام  ناگزیرطور پر ایک مذہبی کمیونٹی ہے جس کی حدود متعین ہیں:(1)توحیدِ الٰہی پر ایمان،(2)جملہ رسولوں پر ایمان اور(3) محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت پر ایمان۔ایمان کا آخر حصہ یعنی عقیدہ ٔختمِ نبوت در اصل وہ عنصر ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حدِّ فاصل کا تعین کرتا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کی استعداد بخشتا ہے کہ کوئی شخص  اسلام کا حصہ ہےیا نہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ بھی ہے اللہ پاک نے نبوت کا سلسلہ ہمارے خَاتَمُ النّبِیّین،نُورِ مجسم، بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا کے نُورِ پُر نُور حضرت محمدصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا۔ اس عقیدے سے انکار کرنا یا ذرہ بھر شک کرنا بھی ایمان کو غارت کر سکتا ہے۔یہ اتنا عظیم عقیدہ ہے جو قرآنِ پاک کی بہت سی آیاتِ مبارکَہ ،احادیث مبارکَہ اور پوری امت کے اجماع سے ثابت ہے۔قرآنِ پاک کی لا تعدادایسی آیاتِ مبارکَہ ہیں جن میں ختمِ نبوت پہ مہر ثابت ہے،ان میں سے مرکزی آیتِ کریمہ جو قرآنِ پاک میں ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع ترجمۂ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

خدا خود نعت لکھتا ہے تری قرآن کی صورت عجب ہے شانِ محبوبی، وجاہت ختم ہے تجھ پر

مر زائی فرقہ سادہ مسلمانوں میں گمراہی پھیلا نے کے لئےخاتم النبیین کا یہ معنی کرتا ہے کہ آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مرتبہ تمام انبیائے کرام علیہ السلام میں اتنا عظیم ہے کہ تمام انبیا ئے کرام علیہ السلام کے مراتب وہاں ختم ہو جاتے ہیں،گویا آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مرتبے میں آخری نبی ہیں اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ زمانے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں جیسے کہا جاتا ہے:فلاں محدث خَاتَمُ المُحدّ ثِین ہے یعنی تمام مُحدّثین کا علم اس پہ ختم ہو جاتا ہے ،اس کا یہ معنی نہیں کہ اس کے بعد کوئی محدث دنیا میں نہیں آئے گا! یہی معنی خَاتَمُ النَّبِیّین کا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مرزائی لوگ کہتے ہیں:ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکو خا تم النبیین مانتے ہیں لیکن مرتبے کے اعتبار سے نہ کہ زمانے کے اعتبار سے۔مگر مرزائیوں نے یہ معنی کر کے قرآنِ کریم میں تحریف کی جبکہ خود سرکار دو عالم، نُورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے بہت سی احادیث میں لفظ خَاتَمُ النبیین کی تفسیر فرما دی جس کا معنی آخری نبی ہے، آپ اللہ پاک کے آخری رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمبعد نہ کوئی آیا نہ آسکے گا،نیز نبوت کا با ب آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمپہ ختم ہے۔

نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر تِرا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر

میری دانست میں قادیانیوں کے سامنے صرف دو راستے کھلے ہیں: (1)یا صاف طریقے سے بہائیوں کی تقلید کریں یا (2)اسلام میں نظریۂ خاتمیت (ختم نبوت)کے بارے میں اپنی تعبیرات کو ترک کر دیں اور اس نظرئیے کو اس کے جملہ مضمرات سمیت قبول کر لیں۔ان کی عیارانہ تعبیریات محض ان کی  اسلام کے زمرے میں رہنے کی خواہش کا نتیجہ ہے تاکہ وہ بدیہی طور پر اس کے فوائد سے بہرہ مند ہوتے رہیں ۔ اس بات کا اعلان خود آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی حیات ظاہری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِر مِذی شریف کی حدیث میں ہے ۔(1)اَ نا خَا تَمُ النبیین لَا نَبِیَّ بَعدِی یعنی میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تِرمِذی،4/93،حدیث:2226) آپصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئےپہلے ہی ارشاد فرمایاتھا:عنقریب میری اُمت میں 30کذّاب یعنی نبوت کی جھوٹھے دعو یدار ہو گئے اور ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَا تَمُ النبیین ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (ابو داؤد،4/132حدیث:4254)(2)فرمانِ مصطفےٰصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے لوگوں!بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں، تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔(معجم کبیر،8/115،حدیث:7535)(3) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ،ص512)

تو آکر بعد میں بھی سب پہ بازی لے گیا پیارے یہ ہمت ختم ہے تجھ پر، یہ سبقت ختم ہے پیارے

(4)اِنَّ الرِّسَالَۃ وَالنُّبُوَّۃ قَد انْقَطعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِی وَلَا نَبِی۔ (ترمذی، کتاب الروی، باب: ذہبت النبوۃ ا، 4/ 163 ، رقم: 2272)ترجمہ: اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے ،لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔آخر میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمدہ اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکّر لگا کر کہنے لگے:ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ(کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے)تو میں(اس عمارت کی)وہ(آخری)اینٹ ہوں۔ (مسلم،ص965،حدیث:5959)

شریعت کے محل کا آخری پتھر ہے تو پیارے ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر

ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایسا عقیدہ ہے جس کے بارے میں امت میں کوئی تضاد نہیں، کوئی تفریق نہیں، کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں۔ امتِ مسلمہ جسے دنیا میں ہزاروں افتراق انتشار کے مسائل میں الجھایا گیا ہے عقیدہ ٔختم نبوت کے بارے میں اب بھی پوری یکسوئی اور عظم کے ساتھ کھڑی ہے،اس پر کوئی سمجھوتہ ہی نہیں ،کوئی تفریق ہی نہیں بلکہ اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے اس عقیدے کوہلکا سا بھی چھیڑو تو دل تڑپ اٹھے گا کیونکہ یہ پوری امتِ مسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے ۔امت ِمحمدیہ کے لئے اللہ پاک کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے‘ اس کی پاسداری اور شکر پوری امتِ محمدیہ پر واجب ہے۔

رسولِ ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفلِ ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را

یعنی ’’خدا نے ہم پر شریعت ختم کردی ہے جیسے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمپر رسالت ختم کردی ہے۔محفل ِایام (دنیا) کی رونق ہمارے وجہ سے ہے،حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمآخری رسول ہیں اور ہم آخری امت۔‘‘


حضور اَقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمّت سے ثابت ہے اور احادیث تو اتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اُمّت کا اجماعِ قطعی بھی ہے، عقیدۂ ختمِ نبوت ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ختمِ نبوت کا قرآن سے ثبوت:قرآنِ کریم میں ارشاد باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پارہ 22، الاحزاب:40)یہ آیتِ مبارکہ بالکل واضح طور پر مصطفے کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کو واضح کرتی ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:اب مزید اس عقیدے کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں سُننے سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے : اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا:میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، ص1255، حدیث2286)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔(ترمذی، کتاب الرؤیا، 4/121، حدیث2279)حضرت علیُّ المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دو کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(ترمذی، کتاب المناقب5/364، حدیث3658)ختمِ نبوت اور امام اہلِ سنت، اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقیناً قطعاً محال و باطل جاننا فرضِ اَجل و جزوِ ایقان ہے، وَلٰکِنَّ رَّسُولُ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیینَ نصِ قطعی قرآن ہے، اس کا منکر، نہ منکر بلکہ شک کرنے والا، نہ شک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال سے توہم خلاف رکھنے والا قطعاً اجماعاً کافر ملعون مخلد فی النیران ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو، بلکہ جو اس کے اس عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے، وہ بھی کافر ہونے میں شک و تردّد کو راہ دے، وہ بھی کافر ہے، ای کافر جلی الکفران(یعنی واضح کافر اور اس کا کُفر روشن ہے)۔امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے کلام میں کیا خوب فرماتے ہیں:

بعد آپ کے ہرگز نہ آئے گا نبی نیا واللہ ایمان ہے میرا، اے آخری نبی


رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رسالت و نبوت کو تسلیم کرنا ایمان کے لئے اساس کی حیثیت رکھتا ہے، ایمان تب مکمل ہوتا ہے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو محض نبی یا رسول ہی نہ مانا جائے، بلکہ آپ کو خاتم النبیین بھی تسلیم کیا جائے۔قرآنِ مجید اسلامی تعلیمات کا پہلا اور مضبوط ترین ماخذ ہےاور جو امر قرآنِ مجید میں بیان ہوا، وہ مسلمانوں کے لئے حرفِ آخر شمار ہوتا ہے، ختمِ نبوت کے حوالے سے قرآنِ مجید میں واضح راہ نمائی موجود ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پارہ 22، الاحزاب:40)اس آیتِ مبارکہ کو عقیدۂ ختمِ نبوت کے حوالے سے انتہائی اعلیٰ مقام اور بنیادی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ اس آیت کا حصّہ خاتم النبیین اس عقیدے کی براہِ راست خبر دیتا ہے، عقیدۂ ختمِ نبوت نہ صرف مسلمانوں کے ایمان بالرسالت کی تکمیل کرتا ہے، بلکہ یہی عقیدہ دنیا میں مدعیانِ نبوت کی تکذیب بھی کرتا ہے، چنانچہ اس عقیدے کی رُو سے نبوتِ محمدی اَبدی اور دائمی ہے۔(کتاب عقیدہ ختم نبوت، صفحہ 25)

حدیثِ مبارکہ میں آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی ختمِ نبوت کا اعلان اس طرح فرمایا کہ میں لوحِ محفوظ پر اللہ پاک کے پاس بھی خاتم النبیین ہوں، اُم الکتاب کے اندر میں خاتم النبیین ہوں اور میری ختمِ نبوت اَزل سے طے شدہ ہیں اور اللہ پاک کے نزدیک میری نبوت ثابت ہے۔(کنز العمال،/3212)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :سارے رسولوں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور تمام رسولوں سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔(جامع الاحادیث،3/315) سیّد عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:جو بالخصوص معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مسجد اقصی میں انبیاعلیہم السلام کے سامنے تقریر کی تھی، اس میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ تمام تعریفیں اس رب کریم کی ہیں، جس نے مجھے فاتح بھی بنایا اور خاتم بھی بنایا ہے، یعنی جنت کے دروازہ کو کھولنے والا نبوت کے دروازے کو بند کرنے والا بنایا ہے۔(ابن کثیر، 4013(جزوِ خاص)ختمِ نبوت کے حوالے سے سب سے اَہم اور سب سے ضروری ذمّہ داری یہ ہے کہ ہر مسلمان پر انفرادی طور پر اور پوری اُمّتِ مسلمہ اجتماعی طور پر اپنا یہ عقیدہ مضبوط رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(کتاب عقیدۂ ختم نبوت اور ہماری ذمہ داریاں، ص31)عقیدۂ ختمِ نبوت نہ صرف قرآنِ مجید امر احادیثِ نبوت سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے، بلکہ عہدِ رسالت سے لے کر آج تک اس امر پر اُمّتِ مسلمہ کا اِجماع ہے کہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ختمِ نبوت پر پُختہ عقیدہ اور کامل یقین رکھے اور جس طرح وہ دیگر عقائد کا اظہار کرتا ہے، ویسے ہی وہ ختمِ نبوت کا بھی اظہار کرے۔اللہ کریم ہمیں اپنے عقائد کی حفاظت کرنے اور بُرے عقیدے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین