عقیدۂ ختم نبوت:اِسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ اللہ پاک نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام انبیاو مرسلین علیہم السلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آیا ہے اور نہ آسکتا ہے۔نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اپنی زبانِ مبارک سے متعدد بار اپنے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا ہے، چنانچہ اس ضمن میں چند فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ ہوں:1۔بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا، نہ کوئی نبی۔(تر مذی، 4/121، حدیث2279)حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قُربِ قیامت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبری2/329)2۔میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔(ابن ماجہ، 4/414، حدیث 4077)3۔بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(کنز العمال جزء6:11/188، حدیث31957)4۔غزوۂ تبوک کے لئے روانہ ہوتے ہوئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے علی!تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث6217)5۔بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔(مسلم، ص553، حدیث3376)6۔میری اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی۔ مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس عمارت کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے: اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث 5961) حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے فرمایا تھا:7۔عنقریب میری اُمّت میں 30 کذّاب(یعنی بہت بڑے جھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد4/132، حدیث 4252) عقیدۂ ختم نبوت کا منکر یا اس میں شک و تردّد کرنے والا کافر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 15، صفحہ 578)اسی لئے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مسیلمہ کذاب اور اسود جیسے منکرینِ ختمِ نبوت کے خلاف جہاد کیا اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا۔ سیّدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن میں جا باقی چٹکتا پھر کہاں غنچہ، کوئی باغِ رسالت کا

اللہ پاک ہمیں ناموسِ رسالت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


ختمِ نبوت ضروریاتِ دین سے ہے،  ضروریاتِ دین سے مراد اِسلام کے وہ قطعی، اجماعی اور بنیادی اُمُور ہیں کہ ان میں سے کسی کا کوئی مسلمان انکار درکنار، اس میں کوئی شک بھی کرے تو شرعاً کافر شمار ہوگا اور کوئی کافر مسلمان چاہے تو اس کے مانے بغیر اِسلام میں داخل نہ سمجھا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا نبی ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے اور آپ کو خاتم النبیین(باعتبارِ زمانہ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے، جس طرح مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور دین کے بنیادی اُمُور سے ہے، اِسی طرح آپ کو بااعتبارِ زمانہ سب نبیوں سے آخری نبی ماننا بھی ضروری اور اسلام کے بنیادی امور سے ہے، آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے، اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جس کو ملنی تھی مل چکی، اس لئے آپ کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا، وہ قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی بحیثیت آپ کے ایک اُمّتی کے آئیں گے، خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا، اگر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بڑے واضح اور شگاف الفاظ میں آخری نبی ہونے کا اعلان نہ فرماتے تو ممکن تھا کہ کوئی جھوٹا قرآنِ کریم کے خود ساختہ معانی بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منصب معلمِ کتاب و حکمت ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ خاتم النبین کی واضح اور دو ٹوک وضاحت نہ فرمائیں، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے متعدد مواقع پر اس چیز کا اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں: بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،حدیث نمبر 662 پر ہے:ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل کا سیاسی نظام ان کے انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کا جانشین ہو جاتا اور یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے، یہ حدیثِ مبارکہ کتنی وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے کو بیان کر رہی ہے، اور لا نبی بعدی کے اعلان کے بعد کسی کو کسی بھی قسم کا نبی ماننا کفر ہے۔ایک اور حدیث: مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین،حدیث نمبر5844 ہے، ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے ایک مکان بنایا اور کیا ہی حسین و جمیل مکان بنایا، مگر اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خا لی تھی، لوگ اس کے گرد گھوم کر خوش ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟آپ نے فرمایا:میں (قصرِ نبوت کی آخری)وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔امام مسلم ایک دوسری روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی روایت کرتے ہیں:میں اینٹ کی جگہ ہوں اور انبیا علیہم السلام (کی آمد) کا سلسلہ ختم کر دیا۔نفس مصدر، حدیث نمبر5846:اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیا علیہم السلام کی آخری مسجد ہے۔(کنزالعمال، با حوالہ ختم نبوت، ص256)

احادیث کے وسیع ذخیرہ میں سے صرف چند احادیث مبارکہ پیش کی گئی ہیں، کیا ان احادیثِ مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن سے بڑھ کر عیاں نہیں ہو جاتی کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اتنے واضح ارشادات کے بعد بھی آپ کے بعد کسی کو نبی ماننا سوائے گمراہی اور کُفر کے اور کچھ نہیں ہے۔


عقیدۂ ختم نبوت کی تعریف:اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی ہدایت و راہ نمائی کے لئے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تو ہمارے آقا ،محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا، جو شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی نئے شخص کو نبی مانے یا نبی پیدا ہونے کا عقیدہ رکھے، وہ پوری اُمّتِ مسلمہ کے اجماع کے مطابق کافر و مرتد ہے۔(تحفظِ ختمِ نبوت، ص2)ختمِ نبوت قرآنِ کریم سے:عقیدۂ ختم نبوت قرآن و احادیث سے ثابت ہے، چنانچہ قرآنِ پاک پارہ22 سورۂ احزاب، آیت نمبر 40 میں اللہ کریم ارشادفرماتاہے، ترجمہ کنزالایمان:” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“تاریخِ انبیاشاہد ہے کہ جب کوئی نیا دین آیا، اسے کوئی نیا نبی لے کر آیا، اب تکمیلِ دین کی وجہ سے کوئی نیا دین نہیں آتا تو نیا نبی نہیں آئے گا، اس لئے تکمیلِ نبوت کے ساتھ تکمیلِ دین بھی ہوگئی، لہٰذا نبوت و رسالت آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم، دین حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل، شریعت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل، سلسلہ وحی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم، آسمانی کتاب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔

لکھتا ہوں خونِ دل سے یہ الفاظِ احمریں بعد اَز رسولِ ہاشمی کوئی نبی نہیں

ختمِ نبوت کے متعلق احادیثِ مبارکہ:

1۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی تو میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا نہ نبی۔(جامع صغیر، ج اول،ص67)

2۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:سرورِ کونین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ کہ میری اُمّت میں سے 30 جھوٹے پیدا ہوں گے، جن میں سے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا،حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، حدیث4252)3۔سرورِکائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے بہت سے نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، ماحی ہو یعنی مجھ سے خداپاک کفر کو مٹاتا ہے، میں حاشرہوں، یعنی قیامت کے دن لوگ میرے قدموں میں جمع کئے جائیں گے، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری و مسلم شریف)4۔بنی اسرائیل کا سیاسی نظام ان کے انبیا علیہم السلام چلاتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کا جانشین ہو جاتا اور یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔(بخاری شریف)5۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کسی اَلوداع ہونے والے شخص کی طرح ہمارے پاس تشریف لائے، آپ نے تین مرتبہ فرمایا:میں نبی اُمّی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔(مسند احمد، جلد 2، صفحہ 212) لہٰذا اس عقیدےپر قرآن و حدیث کی نصوصِ قطعیہ شاہد ہیں، جن سے ثابت ہوگیا کہ اب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا اور عقل و نقل کے ناقابلِ تردید دلائل اس کی پُشت پر موجود ہیں۔

نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اوّل، وہی آخر وہی قرآن وہی فرقان، وہی یٰسین وہی طہٰ

وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا، فروغِ وادی سینا


مہر ِچراغِ نبوت پہ روشن دُرود

گلِ باغِ رسالت پہ لاکھوں سلام

ختمِ نبوت یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، نبوت کا باب حضور سیّد المرسلین پر بند ہوا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خاتم النبیین ہونا، یعنی بعثت میں آخر جمیع انبیاء ومرسل بلا تاویل، بلا تخصیص ہو نا ضرورتِ دین سے ہے، جو اس کا منکر ہو یا اس میں ادنیٰ شک و شبہ کو بھی راہ دے، کافر، مرتد و ملعون ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔احادیث:حدیث شریف (متواتر)میں ہے: لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری،ص461، حدیث:3455)ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:میرے بعد کوئی نبی اگر ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے، لیکن نبوت کا باب(دروازہ) بند ہو چکا ہے۔صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سننِ نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہی مثال بیان کرکے ارشاد فرمایا: وانا خاتم النبین میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، صفحہ 966، حدیث: 5961)نبی اکرم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے:حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قرآن حدیث و اجماعِ اُمّت سے ثابت ہے، قرآنِ پاک کی صر یح آیت بھی موجود ہے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا حدیث سے ثابت ہے:حدیث:انی اشھد عدد تراب الدنیا ان مسلمہ کذاب میں گواہی دیتا ہوں، دنیا کے اندر مٹی کے زرّوں کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جتنے آسمان اور زمین کے اندر فرشتے ہیں، ان کی تعداد کے برابر گواہی دیتا ہوں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، جو حضور پُر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔حدیث:حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، حا شر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔حدیث: مسلم شریف و مسند امام احمد و ابو داؤد و ترمذی وابن ِماجہ وغیرہا میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:بےشک میری اُمّت میں یا میری اُمّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔حدیث: امام احمد مسند اور طبرانی اور ضیائے مقدسی، صحیح مختارہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری امتِ دعوت میں 27 دجال کذاب ہوں گے اور ان میں چار عورتیں ہوں گی، حالانکہ بے شک میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

فتحِ باب نبوت پہ بے حد دُرود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آ سکتا، یہ عقیدہ، عقیدۂ ختمِ نبوت کہلاتا ہے ۔نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی نہ ماننے والا قرآنِ کریم کا انکار کرنے والا ہے اور قرآنِ کریم کامنکرکافرہے، خود اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ختمِ نبوت کو قرآن ِپاک میں بیان فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)

آتے رہے انبیاء کَمَا قِیْلَ لَھُمْ وَالْخَاتَمَہٗ حَقَّکُمْ کہ خاتم ہوئے تم

یعنی جو ہوا دفتر تنزیل تمام آخر میں ہوئی مہر کہ اَکْمَلْتُ لَکُمْ

تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود اپنی مبارک زبانِ حق ترجمان سے اپنا آخری نبی ہونا بیان فرمایا ہے۔ آپ کے چند مبارک فرامین ملاحظہ کیجئے:1۔رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَلَا فَخَرَ میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (تاریخ کبیر للبخاری،4/236، حدیث: 5731)فَاِ نِّی آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وِاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدبے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے( جیسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)(مسلم، ص553، حدیث: 3376)اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّبے شک رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے،پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا،نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279) اَنَا آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ وَ اَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَم میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمَّت ہو۔(ابن ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)اَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ اَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِیُّ الْاُمِّیُّ ثَلَاثاًوَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میں محمد ہوں، اُمّی نبی ہوں، تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/655، حدیث: 7000)سَیَکُوْنُ فی اُمَّتِی ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ نَبِیّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ عنقریب میری اُمّت میں تیس جھوٹے دجّال پیدا ہوں گے، ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابو داؤد، حدیث: 4251)(اے علی!)تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم شریف، حدیث:6217)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق پاک نے انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں


نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اِسلام کا بنیادی عقیدہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائصِ کبریٰ، 2/329)یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد اور ملعون ہے۔خود تاجدارِ مدینہ، خاتم النبین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کا بیان کیا ہے۔ختمِ نبوت کے سات حروف کی نسبت 7 فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:1۔نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)2۔بے شک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔(کنزالعمال، جزء:6،11/188، حدیث :31957)3۔بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے،نہ کوئی نبی۔ (ترمذی،4/121، حدیث:2279)4۔میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کُفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں،میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی،4/382، حدیث:2849)5۔میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی۔ مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی،لوگ اس(عمارت)کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث: 5961)6۔اے علی!تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے،جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، صفحہ 1006، حدیث:6217)7۔میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بات بطورَ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط، 1/63، حدیث: 170-تاریخ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث5731)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں(قبالہ بخشش، ص115)


دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوت و رسالت کا سلسلہ خاتم النبیین، جنابِ احمد مجتبیٰ، محمد مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آ سکتا ہے اور نہ آئے گا، اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرّہ برابر بھی شک رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پہلے ہی غیب کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرما دیا ہے :عنقریب میری اُمّت میں تیس کذّاب ہوں گے اور ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(ابو داؤد، 4/132، حدیث:4252)سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا صریح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، آئیے! اس حوالے سے احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے:1۔بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث: 2279)2۔اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، ج8، ص115، حدیث:7535)3۔میری اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے :اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، صفحہ 965، حدیث: 5961)4۔بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے(جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے۔)(مسلم، صفحہ 553، حدیث: 3376)5۔بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا، نہ کوئی نبی۔(ترمذی،4/121، حدیث:2279)6۔بے شک میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابن ماجہ، 4/416، حدیث:4077)7۔میں خاتم النبیین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔(معجم اوسط، 1/63، حدیث: 170، تاریخ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث:5731)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی وہ ہیں شاہِ رُسل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مہر ِنبوت حق تعالی نے انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں(قبالہ بخشش)


دعوتِ اسلامی کے تحت  گزشتہ دنوں پہاڑ پور کابینہ کی ڈویژن رنگپور کے علاقے جھوک موزم میں محفلِ نعت کاانعقادہوا جس میں زون نگران اسلامی بہن نے’’واقعہ کربلا میں کیا سبق ہے ‘‘اس موضوع پر بیان کیا۔اختتام پر اسلامی بہنوں کو اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرےاجتماع میں شرکت کرنے کا ذہن دیا ۔


دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں  کراچی ساؤتھ زون 2 بلدیہ ٹاؤن کابینہ کی ڈویژن مہاجر کیمپ میں ماہانہ مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں ڈویژن نگران سمیت تقریباً 17 ڈویژن مشاورت کی ذمہ دار و علاقائی نگران اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ڈویژن نگران اسلامی بہن نے دینی کاموں کی تقسیم کاری کے متعلق بیان کیا اورانہیں دینی کاموں کو بڑھانےکاذہن دیا نیز ہرماہ میں ہونے والے مدنی مشورے میں دینی کاموں کا جائزہ لینےکاہدف دیا۔مزید ماہانہ کارکردگی مقررہ وقت پر جمع کروانےکی ترغیب دلائی اور 8دینی کام کورس میں تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں کو شرکت کروانے کا ہدف دیا ۔اس کےعلاوہ اسلامی بہنوں کے مدرسۃ المدینہ کی ترقی کے متعلق بھی کلام کیا۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ تعلیم للبنات کے تحت پچھلے دنوں کراچی ساؤتھ زون 1 لیاری کابینہ میں دنیاوی شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین کے درمیان ماہانہ شخصیات اجتماع ہوا جس میں 8 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

کابینہ مشاورت ذمہ داراسلامی بہن نے ان کے درمیان ’’نیکیوں میں حرص کیجیے ‘‘ کے موضوع پر بیان کیا اور انہیں دعوت اسلامی کےشعبہ جات کا تعارف پیش کرتےہوئےدعوت اسلامی کے شعبہ FGRF کی دینی خدمات کو بیان کیا۔مزیدبیان میں نیک اعمال کے رسالے پر عمل کرنے کی بھی ترغیب دلائی ۔آخر میں ان اسلامی بہنوں کےدرمیان نیک اعمال کے رسالے بھی تقسیم کئے گئے۔


اسلامی بہنوں کے شعبہ کفن دفن  للبنات کے تحت گزشتہ دنوں سرگودھا اور بھلوال زون میں ذمہ داراسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہواجن میں زون تا ڈویژن سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

رکن ریجن ذمہ دار اسلامی بہنوں نے ماہانہ کارکردگی کا فالو اپ کیا اور دینی کام کرنےکے حوالےسےاسلامی بہنوں کی تربیت کی نیز کارکردگی شیڈول پر عمل کرنے اور اسے وقت پر جمع کروانے کا ذہن دیا۔مزیدہر ہر ڈویژن میں کفن دفن کے تربیتی اجتماع کروانے کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔


درود شریف کی فضیلت:حضور نبیِ رحمت، شفیعِ اُمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:" قیامت کے روز اللہ کریم کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، تین شخص اللہ کریم کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ایک وہ شخص جو میرے اُمتی کی پریشانی دور کرے، دوسرا میری سنت کو زندہ کرنے والا، تیسرا مجھ پر کثرت سے درود پاک پڑھنے والا۔"

بد شگونی کی تعریف:

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے "مکتبۃ المدینہ" کی مطبوعہ 128 افراد پر مشتمل کتاب"بدشگونی" صفحہ 10 پر ہے: شگون کا معنی ہے "فال لینا" یعنی کسی چیز، شخص، عمل یا آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اسی وجہ سے برا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔

شگون کی قسمیں:

بنیادی طور پر شگون کی دو قسمیں ہیں:1۔برا شگون لینا، 2۔اچھا شگون لینا

علامہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے، انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سنے، تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، پارہ 26، الاحقاف تحت الآیۃ4، ج8، جزء16، ص132)

آیت مبارکہ:

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَاِذَا جَآءَتْہمُ الْحَسَنَۃ قَالُوْا لَنَا ہٰذِہٖ ۚ-وَ اِنْ تُصِبْہمْ سَیِّئَۃ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَہؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُہمْ عِنْدَ اللّٰہ وَ لٰکنَّ اَکثَرَہمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان:"تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسٰی اور اس کے ساتھ والوں سے بد شگونی لیتے، سن لو اس کے نصیبہ کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے، لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔"

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:"جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت آتی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بدشگونی لیتے تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہر ہوئے ہیں، تب سے ہم پر مصیبتیں بلائیں آنے لگیں۔"

حدیث مبارکہ:

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:ترجمہ "جس نے بد شگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔"(المعجم الکبیر18/162، حدیث355)

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یااچھا شگون لینا مستحب ہے۔"مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:"اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی بدشگونی لینا حرام ہے۔"

عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں:

مکتبۃ المدینہ کی کتاب بدشگونی کے صفحہ 16 پر لکھا ہے:

1۔نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر خاندان کا کوئی شخص فوت ہو جائے یا کسی عورت کی صرف بیٹیاں ہی پیدا ہوں، تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔

2۔حاملہ عورت کو میت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا۔

3۔جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں۔

4۔سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چھُری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا ہو گا۔

5۔خالی قینچی چلانے سے گھر میں لڑائی ہوتی ہے اور جب بادلوں میں بجلی کڑک رہی ہو اور سب سے بڑا بچہ باہر نکلے تو بجلی اس پر گر جائے گی۔