ختمِ نبوت ضروریاتِ دین سے ہے،  ضروریاتِ دین سے مراد اِسلام کے وہ قطعی، اجماعی اور بنیادی اُمُور ہیں کہ ان میں سے کسی کا کوئی مسلمان انکار درکنار، اس میں کوئی شک بھی کرے تو شرعاً کافر شمار ہوگا اور کوئی کافر مسلمان چاہے تو اس کے مانے بغیر اِسلام میں داخل نہ سمجھا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک کا نبی ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے اور آپ کو خاتم النبیین(باعتبارِ زمانہ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم)ماننا بھی ضروریاتِ دین سے ہے، جس طرح مسلمان ہونے اور مسلمان رہنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور دین کے بنیادی اُمُور سے ہے، اِسی طرح آپ کو بااعتبارِ زمانہ سب نبیوں سے آخری نبی ماننا بھی ضروری اور اسلام کے بنیادی امور سے ہے، آپ کی تشریف آوری سے نبیوں کے سلسلے پر مہر لگ گئی ہے، اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جس کو ملنی تھی مل چکی، اس لئے آپ کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا، وہ قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی بحیثیت آپ کے ایک اُمّتی کے آئیں گے، خود ان کی نبوت و رسالت کا عمل اس وقت جاری نہ ہوگا، اگر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بڑے واضح اور شگاف الفاظ میں آخری نبی ہونے کا اعلان نہ فرماتے تو ممکن تھا کہ کوئی جھوٹا قرآنِ کریم کے خود ساختہ معانی بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتا رہتا، لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا منصب معلمِ کتاب و حکمت ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ خاتم النبین کی واضح اور دو ٹوک وضاحت نہ فرمائیں، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے متعدد مواقع پر اس چیز کا اعلان فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں: بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،حدیث نمبر 662 پر ہے:ارشاد فرمایا:بنی اسرائیل کا سیاسی نظام ان کے انبیاء علیہم السلام چلاتے تھے، جب ایک نبی کا وصال ہو جاتا تو دوسرا نبی ان کا جانشین ہو جاتا اور یقیناً میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے، یہ حدیثِ مبارکہ کتنی وضاحت سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے کو بیان کر رہی ہے، اور لا نبی بعدی کے اعلان کے بعد کسی کو کسی بھی قسم کا نبی ماننا کفر ہے۔ایک اور حدیث: مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین،حدیث نمبر5844 ہے، ارشاد فرمایا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : میری اور مجھ سے پہلے انبیا علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جس نے ایک مکان بنایا اور کیا ہی حسین و جمیل مکان بنایا، مگر اس کے کونوں میں سے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خا لی تھی، لوگ اس کے گرد گھوم کر خوش ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے: یہ ایک اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟آپ نے فرمایا:میں (قصرِ نبوت کی آخری)وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔امام مسلم ایک دوسری روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی روایت کرتے ہیں:میں اینٹ کی جگہ ہوں اور انبیا علیہم السلام (کی آمد) کا سلسلہ ختم کر دیا۔نفس مصدر، حدیث نمبر5846:اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیا علیہم السلام کی آخری مسجد ہے۔(کنزالعمال، با حوالہ ختم نبوت، ص256)

احادیث کے وسیع ذخیرہ میں سے صرف چند احادیث مبارکہ پیش کی گئی ہیں، کیا ان احادیثِ مبارکہ کو پڑھنے کے بعد یہ حقیقت روزِ روشن سے بڑھ کر عیاں نہیں ہو جاتی کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اتنے واضح ارشادات کے بعد بھی آپ کے بعد کسی کو نبی ماننا سوائے گمراہی اور کُفر کے اور کچھ نہیں ہے۔