شگون کا معنیٰ ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز،  شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔1۔بُرا شگون لینا، 2۔ اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیرِقرطبی میں فرماتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی اچھا کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے اگر کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پایہ تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سنے تو اس کی طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اپنے کام سے رُکے۔(الجامع لاحکام للقرطبی)

سرکار عالی وقار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یعنی جو شخص بد شگونی کی وجہ سے کسی چیز سے رُک جائے، وہ شرک میں آلودہ ہو گیا۔

ہمارے معاشرے میں جہالت کی وجہ سے رواج پانے والی خرابیوں میں ایک بدشگونی بھی ہے، جس کو بدفالی کہا جاتا ہے، آج کل بدقسمتی سے بعض پڑھے لکھے لوگ بھی ان بد شگونیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، مثلاً

1۔صفرالمظفر کی تیرہ تاریخ تک کوئی خوشی کی تقریب منعقد نہ کی جائے، ورنہ کچھ بُرا ہو سکتا ہے، اسی طرح محرم الحرام میں بھی شادی وغیرہ منعقد کرنا بُرا سمجھا جاتا ہے۔

2۔اگر کسی کے گھر کے دروازے پر بلّی کے رونے کی آواز آئے، تو اسے زبردستی دھمکایا جاتا ہے، کیونکہ ان کی ذہنیت کے مطابق جہاں بلی روئے، وہاں کسی انسان کی میّت ہو جاتی ہے۔

3۔اگر کوئی بچے شرارت سے چارپائی وغیرہ پر بیٹھے ہوں اور اپنے پاؤں نیچے لٹکا کر ان کو ہلانا شروع کردیں تو کہتے ہیں کہ ایسا نہ کرو، ورنہ تمہاری والدہ کی وفات ہو جائے گی۔

4۔اگر کوئی خالی قینچی چلائے تو کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے گھر میں لڑائی ہو جاتی ہے۔

5۔اگر کوئی طلاق یافتہ یا بیوہ خاتون، نئی نویلی دلہن کے قریب جائے تو اسے بُرا سمجھا جاتا ہے، حتٰی کہ ایسی خاتون کو دلہن کی کسی رسم میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی زندگی کے بُرے اثرات نئی نویلی دلہن پہ نہ پڑ جائیں، حالانکہ یہ سب ہندو معاشرے کے اثرات ہیں، جو برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں میں آج بھی موجود ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں شعُور اُجاگر کیا جائے، تاکہ اس بد شگونی کا معاشرے سے خاتمہ ہوسکے۔