نبئ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کسی طرح کا کوئی نیا نبی نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت ورسالت سے متّصف ہونے کے باوجود ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب وامّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمّد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تبلیغ کریں گے۔

اس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا گیا ہے۔

مَا کانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکمْ وَ لٰکنْ رَّسُوْلَ اللّٰہ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ کانَ اللّٰہ بِکلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(40)

ترجمہ کنزالایمان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

(سورۃ الاحزاب، آیت: 40)خَاتَمُ النَّبِیِّن کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری نبی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد ہمیشہ کے لیئے نبوّت کا دروازہ بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوّت نہیں دی جائے گی۔

خود تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا ہے۔۔

انّہ سیکون فی امّتی کذّابون ثلٰثون کلّھم یزعم انّہ نبیّ وانا خاتم النّبیّن لا نبیّ بعدی۔

بیشک میری امّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے، کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا، اور میں خاتم النّبیّن ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(ابوداؤد، حدیث: 4252)

مثلی و مثل النّبیّن من قبلی کمثل رجل بنی دارا فاتھما الالبنۃ واحدۃ فجئت انا فاممت تلک اللبنۃ۔۔

میری اور سابقہ انبیاء کی مثال اس شخص کی مانند ہے جس نے سارا مکان پورا بنایا ہو سوا ایک اینٹ کے،تو میں تشریف فرما ہوں اور وہ اینٹ میں نے پوری کی۔(مسند امام احمد،ح: 11067)

انا آخر الانبیاء وانتم آخر الامم۔

میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری امت ہو۔

(ابن ماجہ، ح: 4077)

انا خاتم النّبیّن ولا فخر۔

یعنی میں خاتم النّبیّن ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔

(معجم اوسط، ح: 63)

فانّی آخر الانبیاء وانّ مسجدی آخر المساجد۔

بے شک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں، اور میری مسجد اخری مسجد ہے۔

(مسلم، ص: 553، ح:3376)

اعلی حضرت رحمت اللہ علیہ اپنے نعتیہ دیوان میں فرماتے ہیں۔

نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جَا باقی

چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا


نبئ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللّٰہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی کسی طرح کا نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نائب وامتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دینِ محمدی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ جلد 2، ص329)

صاحبِ بہارِ شریعت فرماتے ہیں:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں، یعنی اللّٰہ پاک نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا، کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا، جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔ (بہارِ شریعت،ج 1،ص:63)

ختمِ نبوت سے متعلق احادیث:

1: بےشک رسالت اور نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نہ ہی کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی۔ (ترمذی 121/4 حدیث:2279)

2:اے لوگو! بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں ہے۔ (معجم کبیر،115/8 حدیث:7535)

3:میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس(عمارت) کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔ (مسلم،ص 965،حدیث:5961)

نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی چٹکتا پھر کہا غنچہ کوئی باغِ رسالت کا

(حدائق بخشش،ص 37)

4:بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت ان کے انبیاء کرام علیہم السلام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،615/8 حدیث:152)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی،

وہ ہیں شاہِ رسل ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پشت پر مہرِ نبوت حق تعالیٰ نے،

انہیں آخر میں بھیجا خاتمیت اس کو کہتے ہیں۔

(قبالۂ بخشش، ص115)


پیغامِ محمدی دنیا میں اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے،  جو کالے گورے، عرب و عجم، ترک و تاتار، ہندی و چینی، زنگ و فرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے، تمام دنیا کا پروردگار ہے۔(رب العالمین)اسی طرح اللہ پاک کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول ہیں، تمام دنیا کے لئے رحمت اللعالمین ہے اور اس کا پیغام تمام دنیا کے لئے ہے۔نبوت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک اور اہم خصوصیت:قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ اس اللہ پاک کا رسول خاتم النبیین ہیں، ارشادِ باری ہے:ترجمہ کنزالایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والاہے۔(پ22، الاحزاب:40)یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے کے بعد سے نبیوں و رسولوں کا سلسلہ بند کردیا گیا، اب کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی، یعنی جن کو ملنی تھی مل چکی، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کا دور سب نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا۔حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت کے نزدیک آپ کے ایک اُمتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ انبیائے سابقین کا عہد:حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت مسیح علیہ السلام تک، ہر نبی مرسل نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت اور بعثت آخر میں ہوئی، کسی نے کیا خوب کہا:

انبیاآگئے مرسلین آگئے مقتدی آچکے تو امام آگیا

انبیائے سابقین اپنے اپنے عہد میں خاتم الانبیاء علیہ السلام کی روحانیتِ عظمیٰ ہی سے مستفید ہوتے تھے، مثال:جیسے رات کو چاند اور ستارے سورج کے نور سے مستفید ہوتے ہیں، حالانکہ سورج اس وقت دکھائی نہیں دیتا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ر تبے اور زمانے، ہر لحاظ سے خاتم النبیین ہیں اور جن کو بھی نبوت ملی ہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کی مُہر سے ملی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبوت مکمل ہو گئی اور کوئی جگہ باقی نہیں رہی، جسے پُر کرنے کے لئے کسی نبی کے آنے کی ضرورت ہو، نبوت و رسالت کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم ہو گیا، آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھے، وہ جھوٹا اور مکار ہے اور اس عقیدے کا منکر قطعاً کافر اور ملتِ اسلام سے خارج ہے۔

وہ دانہ رُسل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا، فروغ وادی سینا

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر وہی قرآن وہی فرقاں، وہی یٰسین وہی طہٰ

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:1۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔(جامع ترمذی)2۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تمھیں مجھ سے وہ نسبت ہے، جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔( بخاری، مسلم)3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پہلی اُمّتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اگر میری اُمّت میں کوئی محدث ہے تو عمر رضی اللہ عنہہیں۔(جامع ترمذی)4۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:رسالت و نبوت تو ختم ہوچکی ہے، میرے بعد اور کوئی رسول ہے اور نہ نبی، یہ بات صحابہ کرام علیہم الرضوان پر شاق گزری، تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مبشرات باقی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:مسلمان کا خواب اور وہ نبوت کے حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے۔(جامع ترمذی)5۔نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں محمد ہوں،میں احمد ہوں،میں ماحی ہوں،کہ میرے ذریعے کفر مٹایا جائے گا،میں حاشر ہوں کہ میرے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری و مسلم)6۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔(ترمذی)ان اِرشادات سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور راہ نمائی کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ نبیِ خاتم حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر مکمل ہوا، آپ کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا، آپ پر دین کی تکمیل کر دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطا کردہ شریعت رُشد و ہدایت کا سرچشمہ ہے، رُشد و ہدایت کا سلسلہ اور ایمان سے وابستگی اور حقیقت عقیدۂ ختم نبوت پر ایمان سے وابستہ ہے، اس پر ایمان بندگی کا لازمی تقاضا ہے، جس کے بغیر دین و ایمان کا تصوّر بھی محال ہے۔


قرآنِ پاک کے بعد عقائدِ اسلامیہ کا بنیادی ماخذ چونکہ حدیثِ رسول ہے،  ایک حدیث مبارکہ میں ہے:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے اچھے اوصاف کے ساتھ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی، مجھے جوامع الکلم عطا فرمائے گئے ، رعب و دبدبے سے میری مدد کی گئی، میرے لئے عظمتیں حلا ل کردی گئیں، میرے لئے ساری زمین پاک کردی گئی اور مسجد بنا دی گئی ، مجھے ساری مخلوق کی طرف چُن کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کیا گیا۔(مسلم، کتاب المساجد، ص164)سیاست ِانبیائے کرام علیہم السلام اور ختمِ نبوت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل کا مال دنیا سے انتظام انبیائےکرام علیہم السلام کرتے تھے، جب کبھی ایک نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کے قائم مقام ہوجاتا اور بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری، صفحہ 582)آپ کے بعد کوئی نبی نہیں:حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں یعنی اللہ پاک میرے سبب سے کُفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(بخاری، صفحہ 869)تیس دجال نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے میرے لئے زمین سمیٹ دی، میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھا، عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور بخاری کے الفاظ ہیں، تقریباً تیس دجّال کذّاب ہوں۔(ابو داؤد، صفحہ نمبر 666) لو کان بعدی نبیا لکان عمر بن الخطاب:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔(ترمذی، ابواب صفحہ840)


تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہےجو لازم و ملزوم ہے کہ اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں آسکتا اور جو اس عقیدہ کے خلاف ہے، وہ یقیناً کافر و مرتد ہے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی پیشوائے مرسلین(تمام رسولوں کے پیشوا) ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی خاتم النبیین(تمام نبیوں میں آخری) ہیں کہ آپ کی ذاتِ مبارکہ پر نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔(سنی بہشتی زیور، ص 32)حضوراقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بذاتِ خود اپنے آخری نبی ہونے کےبارے میں ارشادات فرمائے ہیں۔ اس ضمن میں چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں:1۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی نبی۔2۔حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضور پُرنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بےشک میں اللہ پاک کے حضور لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین(لکھا ہوا) تھا، جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔3۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا، میں تمام پیغمبروں کا خاتم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا۔4۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کُفر کو مٹاتا ہے، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔5۔حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے لوگو!بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں لہٰذا تم اپنے ربّ کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو، اپنے مہینے کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی خوشد لی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو، اپنے حُکام کی اطاعت کرو(اور) اپنے ربّ کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔( صراط الجنان،پ22،الاحزاب، تحت الآیۃ:40 ماخوذ اً)


ختم کے لُغوی معنی مہر لگانا، اِصطلاح میں ختم کے معنی ختم کرنا یا بند کرنا، جبکہ ختم کے عُرفی معنی آخری یا پچھلا ہیں، خاتم النبیین کا مطلب سب نبیوں میں آخری ہے، چونکہ  حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں یعنی اللہ پاک نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کر دیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا، جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔

ختمِ نبوت کے بارے میں کثیر آیاتِ کریمہ اللہ پاک نے نازل فرمائیں، جن میں سے ایک یہ ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)ختمِ نبوت کے بارے میں کثیر احادیثِ مبارکہ وارد ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود فرمایا:انا خاتم النبیین لا نبی بعدییعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔( بخاری، ایضاً)اس کے علاوہ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

1۔اللہ پاک نے شبِ معراج اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اِرشاد فرمایا:جَعَلْتُکَ فَاتِحاً وَ خَاتِماًیعنی میں نے آپ کو فاتح اور خاتم بنایا۔ حضرت علامہ احمد بن محمد خفانی مصری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:یعنی سب سے پہلا اور سب سے آخری نبی بنایا۔(مجمع الزوائد، 1/235، صفحہ241)

نہ رکھی گل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی چٹکتا پھر کہاں غنچہ، کوئی باغِ رسالت کا (حدائقِ بخشش)


مرادی معنی: ختمِ نبوت(خاتم النبیین) کے معنی ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔لغوی معنی:لفظ خاتم، ختم سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا۔اِصطلاحی معنی:اصطلاح میں اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا، بند کرنا، کیونکہ مہر یاتو مضمون کے آخر پر لگتی ہے، جس سے مضمون بند ہو جاتا ہے یا پارسل بند ہونے پر لگتی ہے، جب نہ کوئی شے اِس میں داخل ہو سکے، نہ اس سے خارج، اس لئے تمام ہونے کو ختم کہا جاتا ہے۔( علم القرآن، ص125)اللہ پاک نے انبیائے کرام علیھم السلام کو علوم و کمالات سے نوازا، اللہ پاک نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت کی تکمیل فرمائی اور دیگر کمالاتِ حدیدہ سے نوازا ہے۔(علمِ رسالت اور ختمِ نبوت، ص 10، جامعہ محمدیہ غوثیہ، فیض القرآن، کامرہ کینٹ اٹک)

فتح بابِ نبوت پہ بےحد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

عقیدہ:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں، یعنی اللہ پاک نے سلسلہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم کردیا کہ حضور علیہ السلام کے زمانے میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ا ور جو حضور علیہ السلام کے زمانے میں یا بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔(بہارِشریعت 1/63)

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے اگر ہو اس میں کچھ خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

عقیدہ ختمِ نبوت اتنا عظیم عقیدہ ہے کہ قرآن کی آیات، احادیثِ مبارکہ اور پوری اُمّت کے اتفاق سے یہ عقیدہ ثابت ہے، جسے اِجماعِ اُمّت کہا جاتا ہے۔(مفتی قاسم)قرآن سے دلائل:ربّ کریم فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)اِرشاد باری ہے:خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ(پ1،البقرہ:7)احادیثِ مبارکہ سے دلائل:1۔ مسلم شریف و مسند امام احمد و ابوداؤد وترمذی وغیرہا میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:بےشک میری اُمّتِ دعوت میں یا میری اُمّت کے زمانے میں 30 کذّاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(کتاب المبین ختم النبیین، ص30)2۔ بخاری و مسلم و ترمذی و تفسیرابنِ ابی خاتم میں جابر رضی اللہ عنہ سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری اور نبیوں کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا، مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، تو جو اس گھر میں جا کر دیکھتا، کہتا:یہ مکان کس قدر خوب ہے، مگر ایک اینٹ کی جگہ کہ وہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوں، مجھ سے انبیائے کرام علیہم السلام ختم کر دئیے گئے۔(کتاب المبین ختم النبیین، ص31-مسلم کتاب الفضائل، صفحہ 966)3۔روایت ہے:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں :نبی علیہ السلام ہم کو اپنے نام پاک بتاتے، فرماتے: میں محمد ہوں، احمد ہوں، مقضی ہوں، میں حاشر ہوں، میں توبہ کا نبی ہوں، میں رحمت کا نبی ہوں۔(مسلم)4۔حضرت جبیر ابنِ مطعم رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں:میں نے نبی علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا : میرے بہت نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، محو کرنے والا ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر کو محو فرمائے گا، میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پرجمع کئے جائیں گے، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(مسلم، بخاری، مرآۃ، جلد ہشتم، صفحہ 60، 61)

آتے رہے انبیاء کما قیل لہم والخاتمہ حقکمہ کےخاتم ہوئے تم 


اللہ پاک  کے محبوب، حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:بےشک بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہوگا، جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرود بھیجے۔

لُغوی معنی:لفظ خاتم، ختم سے بنا ہے، جس کے لُغوی معنی ہیں مہر لگانا۔اِصطلاحی معنی:اس کے معنی ہیں تمام کرنا، ختم کرنا۔کیونکہ مہریا تو مضمون کے آخر پر لگتی ہے، جس سے مضمون بند ہو جاتا ہے یا پار سل بند ہونے پر لگتی ہے، جب نہ کوئی شے اس میں داخل ہو سکے، نہ اس سے خارج، اسی لئے تمام ہونے کو ختم کیا جاتا ہے۔وضاحت:ارشادِ باری ہے:خَتَمَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوبِھِمْ وَعَلیٰ سَمْعِھِمْ ترجمۂ کنزالایمان:اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی۔(پ1،البقرہ:7)اس آیت مبارکہ میں ختم بمعنی مہر استعمال ہوا ہے کہ جب کفار کے دلوں اورکان پر مہر لگ گئی تو نہ باہر سے ایمان داخل ہو گا اور نہ ہی اندر سے کفر باہر نکلے گا۔اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ ترجمۂ کنزالعرفان:آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی۔(پ6،المائدہ:3)اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دین مکمل ہے اور دین کے مکمل ہوچکنے کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں اور اور نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام نبیوں کی تصدیق کرتے ہیں، کسی نبی کی بشارت یا خوشخبری نہیں دیتے، اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو آپ اس کے بشیر ہوتے اور آپ سارے پیغمبروں اور ان کی اُمّتوں پر گواہ ہیں، لیکن کوئی نبی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا گواہ یا آپ کی اُمّت کا گواہ نہیں ہے، جس سے معلوم ہوا ! آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہ کہ سارے نبی آپ سے پہلے گزر چکے ہیں، کوئی باقی نہ رہا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُمّتی بن کر رُونما ہوں گے۔(علم القرآن)عقیدہ:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں یعنی اللہ پاک نے سلسلۂ نبوت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختم فرما دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا بعد میں کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا، جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں یا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے کافر ہے۔احادیث:1۔وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیّینَ لَانَبیَّ بَعْدِی۔2۔ قَالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین ماننا، ان کے زمانہ میں، خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کویقیناً قطعاً محال وباطل جاننا فرضِ اجل و جزءِ ایقان ہے۔ جو اس عقیدہ کا انکار کرے، وہ کافر ہے، بلکہ جو اس عقیدۂ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے، وہ بھی اور جو کافر ہونے میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔(بہارِشریعت)اللہ پاک ہمیں عقیدہ ختمِ نبوت پر استقامت عطا فرمائے اور اپنا اور اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری بندی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمّت تینوں  سے ثابت ہے، قرآنِ مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا(۴۰)ع (پ22، الاحزاب: 40)ترجمۂ کنزالایمان:”محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں ہیں اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“ عربی زبان میں ختم کے معنی مہر لگانا، تمام مفسرین نے اس آیتِ کریمہ میں خاتم کے معنی آخری نبی کے بیان کئے ہیں۔حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بنی اسرائیل کی راہ نمائی انبیائے کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:”میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی، مگر ایک کنارے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی اور وہ اینٹ میں ہوں۔“تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع تھا کہ حضور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، یہی وجہ تھی کہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کے خلاف جہاد کیا۔مذکورہ آیت و حدیث کے مطابق عقیدۂ ختمِ نبوت ہمارے بنیادی عقائد میں سے ہے اور یہ بہت حساس معاملہ ہے، اگر جانے انجانے میں ہم سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو ہم اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی، ہمیں چاہئے کہ ہم دینِ اسلام کو سمجھ کر اس پر عمل کریں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں۔

غلامانِ محمدِ عربی کو سدا بیدار رہنا ہے فقط ختمِ نبوت سے مسلمانی سلامت ہے

وگرنہ اے مسلمانو! قیامت ہی قیامت ہے ہمیں عشقِ رسالت میں سدا سرشار رہنا ہے

پیغامِ محمدی اللہ پاک کا پہلا اور آخری پیغام ہے، جو کالے گورے، عرب و عجم، ترک و تاتار، ہندی و چینی، زنگ و صرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس کا خدا تمام دنیا کا خدا ہے، تمام دنیا کا پروردگار ہے۔(رحمت اللعالمین)اسی طرح اس اللہ پاک کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام دنیا کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تشریف لانے سے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ اب کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی، بس جن کو ملنی تھی مل چکی، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کا دور نبیوں کے بعد رکھا گیا، جو قیامت تک چلتا رہے گا، حضرت مسیح علیہ السلام بھی قیامت کے قریب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک اُمّتی کی حیثیت سے آئیں گے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر نبی مرسل نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کی خوشخبری سنائی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت ورسالت اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ختمِ نبوت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔وَاَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدَیْ ترجمہ:اور یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آ سکے گا۔سَیَکُوْنُ خُلَفَاءِترجمہ:ہاں! میرے پیچھے خلفاء ہوں گے۔حدیث: لَا نَبِیَّ بَعْدِی نبی نہیں بعد میرے کوئی۔نبی اول نبی آخر صلوٰۃ و تسلیم بر محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔اللہ پاک کے فیصلے اور اس کی رضا کے علم کا دوسرا بڑا ذریعہ ہمارے پاس حدیث ہے، جس میں صراحت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سلسلۂ نبوت و رسالت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ترمذی میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے: حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ر سالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا، میرے بعد اب کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی، یہ اور اس طرح کی بکثرت احادیث ِصحاح صاف اور صریح الفاظ میں آئی ہیں۔ قرآن و سنت کے بعد تیسرا درجہ اجماعِ صحابہ کا ہے، تاریخ شاہد ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان لوگوں کی نبوت کو تسلیم کیا، ان سب کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق جنگ کی، اجماعِ صحابہ کے ساتھ ساتھ علمائے مجتہدین بھی اسی فیصلے پر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں۔پار9سورۂ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔


ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثتِ انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:1)فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:میں تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: پس میں آخری نبی ہوں اور بے شک میری مسجد (انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی) مسجدوں میں سے آخری ہے۔3)حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے کندھے مبارک میں مہر ِنبوت دیکھی جیسے کبوتر کا انڈہ، اور وہ بدن سے مشابہہ تھا اور اس کا رنگ بھی دیگر اعضاء کے رنگ سے ملتا تھا۔4)فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:میری اور مجھ سے پہلے جو انبیائےکرام علیہم الصلوۃ و السلام گزرے ہیں ان کی مثال یوں ہے جیسے کسی نے ایک بڑی خوبصورت اور عمدہ عمارت بنائی اور اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کے گرد گھوم کر تعجب کرتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی؟ پس وہ اینٹ میں ہی ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔5)فرمانِ رسولصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:بے شک میرے کئی اسماء ہیں۔میں محمد ہوں۔میں احمد ہوں۔میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے ذریعے کفر کو مٹاتا ہے۔ میں حاشر ہوں کہ میرے قدموں پر(یعنی میرے بعد) لوگوں کا حشر ہوگا اور میں عاقب ہوں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔6)نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسی (علیہما لسلام) سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔7)حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمّت ہو۔‘‘عقیدہ مومن:لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں اور بےشک محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔


ارشادِ خداوندی ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)اللہ پاک کے آخری نبی، حبیب لبیب، نبیِ کریم، رؤوف رحیم، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد اس دنیا میں کوئی اور نبی نہیں آئے گا۔اللہ پاک نے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ہی نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا اور اب قیامت تک یہی ہمارے پیارے آقا، مکے مدینے کے تاجدار، ہمارے راہ نما، ہمارے دلبر، ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی رہیں گے۔اوپر جو آیتِ مبارکہ ذکر کی گئی ہے، اس میں بیان کیا گیا کہ اللہ پاک نے رسولِ اکرم کو وہ اعزاز عطا فرمایا ہے، جو آپ کے علاوہ کسی نبی اور رسول کو عطا نہیں کیا گیا اور یہ اعزاز ختمِ نبوت ہے، رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہر کمال کو اس وصفِ ختمِ نبوت کے پسِ منظر میں دیکھا جائے تو ہر وصف اپنے کمال پر نظر آئے گا ۔ ختمِ نبوت ایسا وصف اور کمال ہے جو کسی نبی اور رسول کو حاصل نہیں ہوا، اللہ پاک نے آپ کی بعثت کے ساتھ ہی نبوت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔دو قراءتیں:قرآن لفظ اور معنی کے مجموعہ کا نام ہے اور چونکہ عربی زبان میں ایک لفظ کئی طرح سے پڑھا جاسکتا ہے، اس لئے قراتِ قرآن کے الفاظ پڑھنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اس لفظ کو کس انداز سے ادا ہوتا ہوا سُنا گیا ہے، اسی فن کا نام قراءت ہے، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہم تک پہنچا ہے، زیرِبحث لفظ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دو طرح ادا فرمایا۔1۔خَاتَمْ:یعنی تاء کےزبر کے ساتھ ہے۔2۔خَاتِمْ:یعنی تاء کےزیر کے ساتھ ہے۔خَاتَمْ تاء کے زبر کے ساتھ صرف دو قاریوں کی روایت ہے ، ان کے علاوہ تمام قاریوں نے خَاتِمْ تاء کے زیر کے ساتھ پڑھا اور اسی کو اختیار کیا ہے۔لوحِ محفوظ میں ذکرِ ختمِ نبوت احادیث کی روشنی میں:حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اِنِّیْ عِنْدَ اللہِ فِیْ اُمَّ الْکِتَابِ اَلْخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَاَنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌّ فِی طِیْنَتِہٖترجمہ:بے شک میں اللہ پاک کے نزدیک لوحِ محفوظ میں خاتم النبیین تھا اور بے شک (اس وقت) حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کے مراحل میں تھے۔ختمِ نبوت اور رسالت:ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول ہو گا۔دنیا میں آخر، عقبیٰ میں سابق:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم(دنیا کے اندر آئے ہیں)آخر ہیں اور قیامت کے دن (جنت کے اندر داخلے وغیرہ میں پہل کرنے والے) سابق ہیں۔


قَالَ اللّٰہُ تَبارَکَ وَتَعالیٰ:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-ترجمۂ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ 22، الاحزاب:40)وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ:یعنی محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم آخری نبی ہیں، اب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ،نبوت آپ پر ختم ہوگئی اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ یاد رہے!حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیت قرآن و حدیث و اجماعِ اُمت سے ثابت ہے۔ قرآنِ مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے ،احادیث تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اُمت کا اجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، جو حضور پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اللہ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لا الہ الا اللہ ماننا، اللہٗ سبحانہٗ وتعالیٰ کو اَحَد، صَمد، لَاشَرِیکَ لَہٗ یعنی بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا، جاننا فرضِ اوّل ومناطِ ایمان ہے، یونہی محمد رَّسُول اللہ (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )کو خاتم النبیین مانناان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی جدید کی بعثت کو یقیناً محال و باطل جاننا فرضِ اَجل و جزوِ ایقان ہے۔(فتاویٰ رضویہ، رسالہ جزاء اللہ عدوہ، باب ختم النبوۃ، 15/630) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آخری نبی ہونے سے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:1۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:بے شک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں کہ اللہ پاک میرے سبب کُفر کو مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاءفی اسماء النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، 4/ 382، حدیث2849)2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا، مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے لگے اور تعجب سے یہ کہنے لگے: اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا:میں(قصرِ نبوت کی)وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔(مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ خاتم النبیین، ص 1255، حدیث22(2286)