حیا وہ صفت ہے جس کے ذریعے انسان بے شمار گناہوں کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجہ کی شرم و حیا تھی۔حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے!صرف اتنا بتا دینا ہی کافی ہے کہ آپ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ تھے نہیں چھوا۔  پیارے آقا ﷺ نہایت ہی شرم و حیا کے پیکر تھے یہاں تک کہ آپ کی مجلس بھی شرم و حیا کی مجلس ہوا کرتی تھی۔حضور ﷺ کی شرم و حیا کے متعلق چند روایات ملاحظہ کیجیے:(1)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس سے بھی زیادہ شرم و حیا والے تھے جیسے کنواری لڑکی اپنے مایوں میں ہوتی ہے جب آپ کسی کام کو ناپسند فرماتے تو ہم اس کے آثار چہرۂ انور ﷺ میں پا لیتے۔(مشکاۃ المصابیح،2/563)

(2)حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔ آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطافرما دی ۔( بخاری،2/ 2247،رقم :5699)

(3)حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نہ تو فحش گو تھے نہ ہی لعنت کرنے والے تھے اور نہ ہی گالی دینے والے تھے ۔( دارمی ،8/ 48،رقم: 71)

ذکر کی گئی احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ پیارے آقا ﷺ حد درجے کے شرم و حیا والے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان مضبوط ہوگا اتنی حیا زیادہ ہوگی۔ ہمیں بھی اپنے اوپر غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اندر کتنی شرم و حیا ہے! بدقسمتی کے ساتھ آج کل تو معاشرے سے حیا جیسے ختم ہی ہوتی چلی جارہی ہے !ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے شرم و حیا جیسی عظیم صفت کو اپنانا چاہئے۔اللہ پاک ہمیں گناہوں کے معاملہ میں بھی شرم و حیا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پیارے آقا ﷺکی شرم و حیا سے ایک قطرہ ہمیں بھی عطا فرمائے۔آمین

حیا کے معنی :حیا کے معنی ہیں کہ عیب لگائے جانے کے خوف سے جھینپنا ۔اس سے مراد ہے کہ وہ خوبی جو ان کاموں سے روک دے جو اللہ پاک اور لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔

اس میں ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں سے شرمانے میں اللہ پاک کی نا فرمانی نہ ہو۔اللہ پاک سے حیا اس طرح ہونی چاہئے کہ اللہ پاک کا ڈر اور خوف اپنے دل میں بٹھایا جائے اور پھر اس کام سے بچنا چاہیے جسے کرنے سے اللہ پاک کی نا راضی کا خطرہ ہو۔ اسی طرح حضرت اسرافیل کی حیا جیسا کہ وارد ہے کہ وہ اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے اپنے پروں سے خود کو چُھپائے ہوئے ہیں ۔

حیاکی اقسام :حیا کی دو اقسام ہیں :(1) لوگوں کے معاملے میں حیا اور(2) اللہ پاک سے حیا ۔

لوگوں کے بارے میں حیا کا مطلب یہ ہے کہ حرام کاموں سے اپنی نگاہوں کو بچایا جائے۔اگر کوئی حرام کاموں سے نہ بچے تو یہ اللہ پاک کی نا راضی کا سبب بھی ہے ۔اسی لیے ہر ایک کو چاہئے کہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے بچے۔ اللہ پاک ہمیں حرام مال کمانے اور اس کو کھانے سے بچائے ۔رزق حلال کمانا عبادت اور رزق حلال کھانا عبادت ہے۔

حرام کسے کہتے ہیں ؟حرام وہ ہے جس کا ثبوت یقینی شرعی دلیل سے ہو۔ اس کا چھوڑنا ضروری اور باعثِ ثواب ہے اور اسے ایک مرتبہ بھی جان بوجھ کر کرنے والا مسلمان فاسق و جہنمی اور گناہ ِکبیرہ کا مرتکب ہے۔ دوسری قسم کا مطلب ہے کہ انسان اللہ پاک کی نعمتوں کو پہچانے اور اللہ پاک کی نا فرمانی والے کام کرنے سے بچے یعنی نافرمانی والے کام کرنے سے حیا کرے۔

حدیث شریف :حدیث شریف میں ہے کہ حیا ایمان سے ہے ۔اب حیا ایمان سے کس طرح ہے؟اس کی مثال یوں سمجھیے کہ جس طرح ایمان مومن کو کفر کرنے سے روکتا ہے ،اسی ایمان ہی کی بدولت ہم کفریات سے بچتی ہیں کہ کہیں ہم کفریات بول کر کافرہ نہ ہو جائیں۔اسی طرح با حیا کو حیا نا فرمانیوں سے بچاتی ہے۔اس کی مزید وضاحت حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے ۔

اسلام میں حیا کی اہمیت :اسلام میں حیا کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔حدیث شریف میں ہے:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خاص خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیا ہے۔اس لیے کہ حیا ایک ایسا خلق ہے جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہیں۔

ایمان کی علامات :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ نے فرمایا:ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث میں وارد ہے کہ ایمان کی سترسے زائد علامات ہیں اور ایمان کی علامت حیا ہے ۔

حدیثِ مبارک:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقاﷺ پردے میں بیٹھنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔جب کوئی نا پسند چیز دیکھتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے ۔

معلوم ہوا کہ حیا جتنی بھی زیادہ ہو اتنی ہی زیادہ اچھی ہے۔ وہ حیا جو خوفِ خدا کی وجہ سے ہو یقیناً اس میں بھلائی ہی بھلائی ہے ۔چنانچہ آقاﷺ کا فرمان ہے: حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔

آقا ﷺ کا فرمانِ با صفا ہے: جب تجھے حیا نہیں تو جو چاہے کر۔(ا بنِ حبَّان،2/3،حدیث:606) کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب گناہ کرتے ہوئے تجھے آسمان و زمین میں سے کسی سے شرم و حیا نہ آئے تو اپنے آپ کو چوپایوں میں شمار کر۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:حیا کی غایت (یعنی انتہا) یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی حیا کرے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں خود سے بھی حیا کرنی چاہیے۔اللہ کرے کہ ان کے صدقے ہم بھی با حیا بن جائیں۔ آمین بجاہِ النبیِ الامین

سب سے بڑا با حیا امتی:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی حیا بھی اس قسم کی ہےکہ آپ کا فرمان ہے: میں بند کمرے میں غسل کرتا ہوں تو اللہ پاک سے حیا کی وجہ سے سمٹ جاتا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا:حیا ایمان سے ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ میری امت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں ۔ اللہ پاک عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے صدقے میں ہم سب کو بھی شرم و حیا کی پیکر بنادے ۔ آمین بجاہِ النبی الامین

یاالٰہی دے ہمیں بھی دولتِ شرم و حیا حضرت عثمانِ غنی با حیا کے واسطے

حیا کی تعریف: حیا کے لغوی معنیٰ وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔ اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی برائی کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ حیا وہ خُلق ہے جس کے ذریعے انسان شریعت کی نظر میں جو کام ناپسندیدہ اور برے ہوں ان سے بچتا ہے ۔کائنات میں سب سے زیادہ حیا فرمانے والی شخصیت حضورﷺ کی حیا سے متعلق اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔

حضورﷺ کی عفت و پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورﷺ پردہ والی دوشیزہ سے بڑھ کرحیادار تھے۔ جب آپ کسی کام کو نہ پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرہ مبارکہ میں پہچان جاتے یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کا اظہار نہ فرماتے تھے بلکہ ہم اس کے آثار چہرہ مبارکہ میں پاتے۔ ( سیرتِ رسولِ عربی، ص 371 تا 372)

اس لیے ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمربھر ہمیشہ آپ کا دامن پاک و صاف رہااور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہ ہوا۔

حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضورﷺ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ میں نے آپ کو کمال ِحیا کی وجہ سے کبھی برہنہ نہیں دیکھا۔( سیرتِ مصطفےٰ، ص 614)

آپ کو کسی آدمی کے کسی عیب کی خبر پہنچتی تو حیا کی وجہ سے اس کا نام لے کر یوں نہ فرماتے کہ فلاں کو کیا ہوگیا بلکہ یوں فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یوں اور یوں کہتے ہیں۔

چارچیزیں انبیا علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہیں:حیا کرنا، عطرلگانا ، مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔

آقاکریم ﷺ میں یہ صفت کمال درجے کی پائی جاتی تھی،یہاں تک کہ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کبھی آپ کا ستر نہ دیکھا ۔اسی طرح حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بچپن میں اگر کبھی آپ کا ستر کھل جاتا ہے تو آپ بہت روتے تھے۔


حیا انسان کا وہ وصف ہے جو اس کو برے اور گھٹیاکاموں سے روکتا ہے۔شرعی اعتبار سے حیا ایمان کا  وصف ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا :حیا ایمان کی نشانی ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ آئیے!حضور ﷺ کی شرم و حیا کا ذکر خیر سنتی ہیں۔

نبیِ کریم ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑی دلیل ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ (پ22،الاحزاب:53) ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور اللہ حق فرمانے میں شرماتا نہیں۔

ایک مرتبہ ایک دعوتِ ولیمہ پر کھانا کھانے کے بعد سب لوگ چلے گئے مگر دو تین آدمی نبیِ کریم ﷺ کے گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ حضور کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے حیا کی وجہ سے یہ نہ فرمایا کہ چلے جاؤ ۔

شفا شریف میں ہے کہ حضور ﷺکو جب کسی کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ کام کی خبر پہنچتی تو یوں نافرماتے کہ فلاں شخص یوں کہتا ہے بلکہ فرماتے کہ قوم کا کیا حال ہے کہ ایسا کرتے ہیں! اس کام سے منع کرتے تھے اور کرنے والے کا نام نہ لیتے ۔(الشفاء)اس سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ ہم دوسروں کو سمجھانے کے نام پر لوگوں کے سامنے رسوا کر دیتی ہیں۔

حدیثِ پاک میں ہے : حضور ﷺ پردے میں رہنے والی کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔

اس حدیث میں آپ کا مقامِ حیا بیان کیا گیا ہے کہ ایک پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ کنواری لڑکی میں شرم و حیا تبعاً موجود ہوتی ہے۔مگر جو لڑکی کنواری بھی ہو اور پردہ نشین بھی تو ظاہر ہے اس میں حیا بدرجہ اتم موجود ہوگی اور نبیِ کریم ﷺ اس سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ آپ کی حیا کا یہ عالم تھا کہ کسی کے چہرے پر نظریں جما کر گفتگو نہ فرماتے تھے۔اگر اپنی مرضی اور خوشی کے خلاف کوئی بات کہنا چاہتے تو اشاروں میں کہتے۔نگاہیں جھکا کر چلتے۔

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پر لاکھوں سلام

قضائے حاجت کی ضرورت پیش آتی تو لوگوں سے دور کسی میدان وغیرہ میں چلے جاتے اور اس وقت تک کپڑا نہ اٹھاتے جب تک زمین پر نہ بیٹھ جاتے ۔آپ کی مجلس علم،حیا اور امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ (شمائلِ نبوی،49/ 612 )

حضور انور ﷺ کبھی کسی مجلس میں کسی کی طرف پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے،نہ اولاد کی طرف،نہ ازواج ِ پاک کی طرف،نہ غلاموں اورخادموں کی طرف کہ اس عمل سے شاید ان کو تکلیف ہو کہ اس میں سامنے والے کی تحقیر ہوتی ہے ۔نیز یہ طریقہ متکبرین اور غرور والوں کا ہے۔دوسروں کی طرف پاؤں پھیلا کر بیٹھنا اپنی عزت اور اس کی حقارت ظاہر کرنا ہوتا ہے ۔(مرآۃ المناجیح، 8/582)

ہر طرح کے برےقول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سےعمر بھر آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف رہا۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔(سیرتِ مصطفےٰ،ص614)

میرے آقا ﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے ۔لیکن آپ کی یہ حیا نیکی کے حکم اور برائی سے روکنے میں کبھی آڑے نہیں آئی ،جب اللہ کی حدوں کو پامال کیا جاتا تو رسولِ مقبول ﷺ غضبناک ہوجاتے اور بدلہ لیتے تھے۔

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانَۂ رسالت سے دور ہوتی جا رہی ہیں،شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔ اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔اگر ہم آقا ﷺ کی سیرت کو اپنالیں تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائے ۔اللہ پاک ہمیں پیکرِ حیا بنائے ۔آمین

فتح جنگ میں قائم مستقل عمرہ تربیت گاہ میں سیکھنے سکھانے  کے حلقے اہتمام کیا گیا جس میں اسلام آباد مجلس حج و عمرہ کے ذمہ دار حاجی عبدالوحید عطاری نے ”عمرے کے احکام و حاضری مدینہ“ کے موضوع پر بیان کیا۔

آخر میں نے زائرین عمرہ کو شیخ طریقت امیر اہلِ سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی مایہ ناز تصنیف رفیق المعتمرین پیش کی اور حج و عمرہ ایپ ڈاؤن لوڈ کروائی ۔۔ (رپورٹ: مجلس حج و عمرہ راولپنڈی ڈویژن ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


17مارچ 2024ء  بروز اتوار فیصل آباد کی تحصیل تاندلیانوالہ میں قائم مدنی مرکز فیضان مدینہ میں ذمہ داران کا میٹ اپ ہوا جس میں نگران ڈویژن مشاورت حاجی محمد سلیم عطاری نے ذمہ داران کو رمضان عطیات جمع کرنے کا ذہن دیا ۔

علاوہ ازیں آخری عشرے کا اعتکاف کرنے اور کروانے کا ذہن دیا۔ اس کے ساتھ ہی ذمہ داران کو 12 دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے بالخصوص تاندلیانوالہ تحصیل میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماعات کی تعداد کو بڑھانے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے بھلے جذبات کا اظہار کیا۔ ( محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


16مارچ 2024ء  بروز ہفتہ جامع مسجد فیضان عطار و مدرسۃالمدینہ بوائز سدھار فیصل آباد میں تقسیم اسناد اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں نگران ڈویژن مشاورت فیصل آباد حاجی محمد سلیم عطاری نے بیان کیا۔

حاجی محمد سلیم عطاری نے آنے والے مہمانوں کو علم دین حاصل کرنے اور اپنے بچوں کو مدرسۃالمدینہ و جامعۃ المدینہ میں داخل کروانے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔

بعد بیان ناظرہ قرآن پاک ختم کرنے والے بچوں کو اسناد بھی پیش کی گئیں۔ ( محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دنیا بھر میں  دینی کام کرنے والی سنتوں بھری تحریک دعوت اسلامی کے زیرِ اہتمام 16 مارچ 2024ء بروز ہفتہ فیصل آباد صدر کے علاقے سدھار میں مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں یوسی نگران و ذمہ داران سمیت مختلف شعبہ جات کے اسلامی بھائی شریک ہوئے۔

نگران ڈویژن مشاورت فیصل آباد حاجی محمد سلیم عطاری اور نگران ڈسٹرکٹ مشاورت محمد نعیم عطاری نے مدنی مشورہ لیا جس میں 12 دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے اور رمضان ڈونیشن جمع کرنے کا ذہن دیا نیز اچھی کارکردگی والوں کو تحائف بھی دیئے۔

اس کے علاوہ رمضان المبارک میں بالخصوص ہفتہ وار اجتماع کی تعداد کو بڑھانے اور آخری عشرے کا اعتکاف کر وانے کےحوالے سے اہداف بھی دیئے۔( محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیرِ اہتمام 16مارچ 2024ء بروز ہفتہ ڈسٹرکٹ فیصل آباد کی تحصیل جھمرہ میں میٹ اپ ہوا۔

نگران فیصل آباد ڈویژن مشاورت حاجی محمد سلیم عطاری نے جھمرہ تحصیل مشاورت اور مدرسۃ المدینہ کے قاری صاحبان سمیت ناظمین کا مدنی مشورہ لیا۔

مدنی مشورے میں نگران ڈویژن مشاورت نے ذمہ داران کو دعوت اسلامی کے 12 دینی کاموں میں عملی طور پر شرکت کرنے اور رمضان المبارک میں اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں رہ کر عبادات میں گزارنے کا ذہن دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈونیشن جمع کرنے کی ترغیب بھی دلائی جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔آخر میں اچھی کارکردگی پر ذمہ داران کو تحائف بھی پیش کئے ۔

اس موقع پر نگران ڈسٹرکٹ مشاورت فیصل آباد محمد نعیم عطاری اور نگران تحصیل مشاورت جھمرہ غلام مرتضیٰ عطاری بھی ساتھ تھے۔( محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پچھلے دنوں   مدنی مرکز فیضان مدینہ خانیوال میں افطار اجتماع ہوا جس میں مقامی ذمہ داران اور مختلف شخصیات سمیت دیگر عاشقان رسول نے شرکت کی۔

رکن شوریٰ حاجی اسد عطاری مدنی نے ” شان خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہکے موضوع پر بیان کیا اور شرکا کو سلسلہ عالیہ قادریہ عطاریہ میں بیعت کیا نیز دنیا بھر میں جاری دعوت اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کا تعارف کروایا اور اجتماع کے آخر میں دعا بھی کروائی ۔(رپورٹ: انس عطاری مدنی ،معاون رکن شوریٰ حاجی اسد عطاری مدنی، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


15 مارچ2024ء بروز جمعہ   فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں دینی کاموں میں مزید بہتری لانے کے سلسلے میں مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں ذمہ داران دعوت اسلامی شریک ہوئے۔

نگران ڈویژن مشاورت فیصل آبادحاجی محمد سلیم عطاری نے مدنی مشورے میں رمضان عطیات جمع کرنے اور نیو ڈونیشن سیل لگانےنیز جمعہ والے دن عصر تا مغرب رمضان المبارک میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع کو کامیاب بنانے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے ۔

مزید رمضان المبارک میں ذمہ داران کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں گزارنے کا ذہن بھی دیا۔ اس موقع پر نگران ڈسٹرکٹ مشاورت فیصل آباد محمد نعیم عطاری اور نگران تحصیل مشاورت سمندری بھی موجود تھے۔( محمد عبدالرزاق عطاری شعبہ ہفتہ وار اجتماع و مدنی مذاکرہ فیصل آباد ڈویژن، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


مدرسۃ  المدینہ بوائز گاؤں تونگیری پیراں ضلع حویلی جموں کشمیر میں 15 مارچ 2024ء کو تقسیم اسناد اجتماع کا سلسلہ ہوا جس میں مدرسے کے بچے ،قاری صاحبان سمیت اہل علاقہ سے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

مدرس مدرسہ قاری رضوان عطاری نے ” شانِ قرآن“ کے موضوع پر بیان کیا اورشرکا کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہیں تلاوت قرآن پاک کرنے کی ترغیب دلائی اور اپنے ڈونیشن دعوت اسلامی کو دیکر دینی کاموں میں اپنا حصہ شامل کرنے کا ذہن دیا ۔آخر میں حفظ و ناظرہ مکمل کرنے والے 15 اسٹوڈنٹس میں اسناد تقسیم کی گئیں۔(رپورٹ: سید وقار عطاری شعبہ گھریلو صدقہ بکس، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)