عفو کے لغوی معنیٰ: معاف کرنا، درگزر کرنا، بدلہ نہ
لینا کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عفو سے مراد دوسروں کی برائی اور زیادتی کے بدلے
میں طاقت ہونے کے باوجود بدلہ نہ لینا اور درگزر کرنا ہے۔
الله خود اپنے بندے کی خطائیں معاف کرتا ہے اور
قصوروار سے درگزر فرماتا ہے۔ اس لئے وہ اپنے بندوں کو بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ
وہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دیا کریں۔ ارشاد ربانی ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں
تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
2۔ جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے۔ تو اس وقت ایک
منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل
ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے؟ جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے
گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف
کرنے والے ہیں۔ (معجم الاوسط، 1/542،
حدیث: 1998)
3۔ معاف کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،
حديث: 7062)
ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ
کی
کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود
4۔ قیامت کے دن عرش کے درمیانی حصے سے ایک منادی
اعلان کرے گا: اے لوگو! سنو، جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے اسے چاہئے کہ وہ کھڑ
اہو جائے،تو اس شخص کے علاوہ اور کوئی کھڑا نہ ہو گا جس نے دنیا میں اپنے بھائی کا
جرم معاف کیا تھا۔ (معجم الاوسط، 1/542،
حدیث: 1998)
5۔ میں نے معراج کی رات اونچے محلات دیکھے۔ تو
پوچھا: اے جبرائیل! یہ کس کے لیے ہیں؟ عرض کی ان کے لیے جو لوگوں سے درگزر کرتے ہیں۔
(مسند الفردوس، 1/405، حدیث:3011)
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ جس
کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا
اور اس کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزرکرنے والا جرم، غلطی اور نافرمانی
کےبا وجود سخت برتاؤ کے بجائے نرمی ومحبت سے پیش آنے والا۔تمام انبيا بالخصوص خاتم
الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفت عفو
کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار تھے۔ آپ ﷺ کی عملی زندگی اس دعوے کی سب سب سے
بڑی روشن اور واضح دلیل و برہان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم میں سے ایک پیغمبر
آیا جس پر تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی اور اچھائی کا خواہاں
ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔
بدلہ لینے کا حکم:
اگر کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور زیادتی کا
بدلہ لینا چاہے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن وہ بدلہ بھی اتنا ہی ہونا
چاہے جتنا ظلم کیا گیا ہو۔ البتہ اس بدلے کو بھی قرآن نے ایک طرح سے برائی ہی کہا
ہے۔ اس کے برعکس جو معاف کر دینے کو ترسیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے
والا قرار دیا ہے اور اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ
اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ- (پ 25، الشوری: 44) ترجمہ: برائی
کا اسی مقدار میں برائی سے بدلہ دیا جائے لیکن جو معاف کر دے اور اصلاح کرلے تو اس
کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
پیارے آقا ﷺ نے مکہ والوں کو معاف کر دیا، طائف
والوں کو معاف کر دیا، حضرت عائشہ صدیقہ پر جھوٹا الزام لگانے والوں کو معاف کر
دیا۔ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
عفو درگزر کے فضائل:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں: آپ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی
سبیل اللہ کے اور کبھی آپ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی
حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس
کاانتقام لیتے۔
اللہ کے نزدیک ترین شخص: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے بارگاہ
خداوندی میں عرض کی: آپ کے بندوں میں سے آپ کےنزدیک سب سے معزز کون ہیں تو اللہ
تعالیٰ نے جواب دیا جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/
319، حدیث: 8327)
معاف کرنا عزت میں اضافے کا باعث: اگر
کوئی کسی کو معاف کر دیتا ہے تو یقینا اس سے ضائع شدہ حقوق واپس نہیں آتے لیکن
دلوں سے نفرت، کینہ، بغض اور دشمنی کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ انتقام لینے کا جذبہ
ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، باہمی تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔
ایک دوسرے کو معاف کردینے کا عمل ہی دراصل تمام
افراد معاشرہ کو در پیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ معافی کی
صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں
بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کارجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کےباوجود
لوگوں کی زیادتیوں و مظالم کو معاف کر دے تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتے
ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم،
ص 1071، حدیث: 2588)
نبی اکرم ﷺ کی عملی رواداری اور عفو و درگزر کی
امثال حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے لیے مشعل راہ اور کامل
نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری زیست مقدس عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے
اور اسوہ حسنہ کا جزو لاینفک بھی ہے۔
پارہ 18 سورۂ نور کی آیت نمبر22 میں ارشاد ہوتا
ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)
ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں
رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم کو بہت
پسند ہے۔یاد رہے!شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے،اسے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ مسلمان
آپس میں متّحد (United)رہیں،ایک
دوسرے کی خیر خواہی کریں،ایک دوسرے کی عزّت و ناموس کے محافظ بنیں، ایک دوسرے کی
غلطیوں کو نظر انداز کریں،اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں،اپنے حقوق معاف
کردیا کریں،دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں،ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں
وغیرہ،کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام
و نامراد ہوجائے گا۔اس لئے وہ مسلمانوں کو معاف کرنے اور غصّے پر قابو پانے نہیں
دیتا،لہٰذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام بنادیجئے اور درگزر کرنا
اختیار کیجئے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے غلطی ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر
نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک
کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے۔
عفودر گزر کی فضیلت:
1۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا اجر اللہ پاک
کے ذمّہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کے لیے اجر
ہے؟اعلان کرنے والا کہے گا:ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔تو ہزاروں آدمی
کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث:1998)
2۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے
دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔(ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
3۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ !ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ ﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر وہی
سوال دہرایا،آپ ﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا:روزانہ
ستّر(70) بار۔(ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956) حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) کا لفظ بیان
زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ
غلام سے خطاءًغلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی
ہو،شریعت کا یاقومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصورمعاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ
المناجیح،5/170)
عفو درگزر کرنے والے بلا حساب داخل جنّت ہوں گے۔ لوگوں
کی غلطیوں کو درگزر اور عفودر گزر اپنانے والوں کی خطائیں بروز قیامت معاف کی
جائیں گی۔ اللہ والے نفس کی خاطر غصّہ نہیں کرتے۔ اللہ والے تکلیف دینے والوں کو
بھی دعاؤں سے نوازتے ہیں۔ اللہ والے اپنے حقوق معاف کردیا کرتے ہیں۔ بندوں کے
حقوق ضائع کرنے والے بروز قیامت اپنی نیکیوں سے محروم کردئیے جائیں گے۔ تکبّر
اورغصّہ معاف کرنے میں بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حصول علم اور اچھے ماحول کی برکت سے
معاف کرنے کا ذہن نصیب ہوتا ہے۔
عفو کا معنی و مفہوم:
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاف کرنا، بخش دینا، درگزرکرنا، بدلہ
نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔
اصطلاح شریعت میں عفو سے مراد: کسی
کی زیادتی و برائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کر
دینا ہے۔ قدرت و طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اگر انسان انتقام نہ لے سکتا ہو تو یہ عفو
(معاف کرنا) نہیں ہو گا بلکہ اسے بے بسی کا نام دیا جائے گا، عفو صرف قادر ہونے کی
صورت میں ہے۔
عفو کا ادنیٰ درجہ:
عفو کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کر دے خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو۔
عفو کا اعلیٰ درجہ:
عفو کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل کی رضا و خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو اس
کے ساتھ کچھ احسان بھی کرے
قرآن پاک میں عفو و درگزر کا حکم: ترجمہ
کنز العرفان: اے حبیب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے
منہ پھیرلو۔
تفسیر:اس
آیت میں نبی کریم ﷺ کو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے: جو مجرم معذرت طلب کرتا
ہوا آپ کے پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔ اچھے
اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے۔ جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا
کہیں تو ان سے الجھئے نہیں بلکہ حلم کامظاہرہ فرمائیں۔
عفو و درگزر کی فضیلت حدیث پاک کی روشنی
میں:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ
تعالیٰ عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ
کی
کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود
2۔ تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ
قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اوراپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل
فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ
کون سی تین عادات ہیں ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو
تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑواور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو ودرگزر سے کام لو۔ جب
تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
3۔ رسول اکرم ﷺ پر لبید بن اعصم نے جادو کیا تو آپ رحمت
عالم ﷺ نے اس کا بدلہ نہیں لیا نیز اس یہودیہ کو بھی معاف فرما دیا جس نے آپ ﷺ کو
زہر دیا تھا۔
کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو
جس کو ہے میری لاج وہ لجپال بڑا ہے
کاش ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی
ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا چھوڑ ہی دیں جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا جذبہ ہوتا
تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظلم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے،
چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت میں ہے کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ
امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض
خطوط مغلظات (یعنی گندی گالیوں) سے بھرپور تھے معتقدین برہم (یعنی غصے) ہوئے کہ ہم
ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیریں
تقسیم کر دو پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کر دو۔
مطلب یہ کہ
جب تعریف کرنے والوں کو انعام نہیں دے سکتے تو برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں!
الله کریم ہمیں بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آئیے نیت کريں کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو پسند ہو، معاشرے کو خوشگوار، محبت افزاء اور پرامن بنانے
کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلیٰ اوصاف کی طرح عفو و
درگزر کی صفت بھی پیدا کریں گے۔ آئندہ اس امید بلکہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی
غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ کل قیامت اللہ کریمعفو ودرگزر کا معاملہ کرتے
ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا۔
اپنی روزمرہ کی دعاؤں میں درج ذیل دعا کو بطور خاص
شامل فرما لیں:
اللھم انک عفوتحب العفو فاعف عنا یاغفور یاکریم ترجمہ:
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند فرماتا ہے، ہمیں معاف فرما! اے بخشنے
والے، اے کرم کرنے والے۔
لوگوں سے درگزر کرنے کی فضیلت:
(1) پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں
ہوں اللہ کریم (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی
رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول
اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا:(1)جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو،(2)جو
تم سے تعلّق توڑےتم اس سے تعلّق جوڑو اور(3)جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔
(معجم اوسط،4/18،حدیث: 5064)
(2)فرمایا:قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا
اجر اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے
گا:کس کے لیے اجر ہے؟اعلان کرنے والا کہے گا:ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے
ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم
اوسط، 1/542،حدیث:1998)
(3)فرمایا:جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے
گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
(4) فرمایا:ہر دور میں میرے بہترین امّتیوں کی
تعداد پانچ سو(500)ہے اور ابدال چالیس(40) ہیں، نہ پانچ سو(500) سے کوئی کم ہوتاہے
اور نہ ہی چالیس(40) سے، جب چالیس(40) ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توربّ
کریم پانچ سو(500) میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرّر فرماتا
اور یوں40کی کمی پوری فرمادیتا ہے،عرض کی گئی:ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد
فرمائیے۔فرمایا: ظلم کرنے والے کو معاف کرتے،برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے
پیش آتے اور اللہ پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے
ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،1/ 39،
حدیث: 15)
(5)ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ !ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا، پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی،
3/381، حدیث:1956)
حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) کا لفظ بیان زیادتی کے لیے
ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً
غلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی
و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ المناجیح،5/170)
لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی
دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شآء اللہ اس کی برکت سے جنّت
کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے
باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے
ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے،
یا ذرا سی بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوڑدیتے، اس
کے دشمن بن جاتے اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ
اگر ہم رحمت کونین، نانائے حسنین ﷺ کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم پر روز
روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ
معاف فرمادیا کرتے تھے، چنانچہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا
فرماتی ہیں: رسول اکرم ﷺ نہ تو عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلّفاً،نہ
بازاروں میں شورکرنے والے تھے اورنہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ ﷺ
معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)
معاف کرنے میں بڑی رکاوٹوں میں سے سب سے بڑی رکاوٹ
غرور و تکبّر بھی ہے۔ تکبّرکی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل
سمجھے۔ (المفردات للرّاغب، ص697) تکبّر
میں مبتلا انسان لوگوں کو معاف کرنے کو اپنی بے عزّتی تصوّر کرتا ہے،وہ سمجھتا ہے
کہ معاف کرنا میرے وقار کے خلاف ہے،اس طرح تو میری شان گھٹ جائے گی،لوگ کیا کہیں
گے وغیرہ۔یاد رکھئے! معاف کرنے سے ہرگز عزّت میں کمی نہیں آتی بلکہ پہلے سے کئی
گنا بڑھ جاتی ہے،چنانچہ نبیّ کریم ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے:صدقہ دینے سے مال کم
نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقصور معاف کرے تو اللہ پاک اس(معاف کرنے والے کی عزّت ہی
بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع(یعنی عاجزی)کرے،اللہ پاک اسے بلندی عطا
فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ چند
مہمانوں کے ساتھ کھانا کھارہے تھے، غلام گرما گرم شوربے کا پیالہ لا رہا تھا کہ اس
کے ہاتھ سے پیالہ گرا جس کی وجہ سے شوربے کی چھینٹیں آپ پر بھی آئیں۔یہ دیکھ کر
غلام گھبرایا اور شرمندگی بھرے لہجے میں اس نے سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر134 کی تلاوت
کی جس کی ترجمہ یہ ہے: اور غصّہ پینے والے او ر لوگو ں سے درگزرکرنے والے۔ آپ نے
فرمایا: میں نے معاف کیا۔ غلام نے پھر اسی آیت کا آخری حصّہ پڑھا: اور نیک لوگ
اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں نے تجھے اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ (تفسیر
روح البیان، 2/ 95 ملخصاً)
سبحٰن اللہ! اللہ کریم کے نیک بندوں میں معاف کرنے
کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم بھی نفس
کی خاطر غصّہ کرنے کے بجائے لوگوں کو معاف کرکے خوب خوب ثواب کمائیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا
غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ
اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- (پ 4، اٰل
عمران: 159) ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بد
زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور
ان کے لئے استغفار کریں اور کام کا مشوره ان سے کیا کریں۔
عفو ودرگزر کی اہمیت کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا
تمام مسلمانوں پر لازم ہے، اسلام رواداری، اخلاقیات اور دوسروں کو معافی کا درس
دیتا ہے۔ اس لیے معاف کرنے والا بہترین مسلمان ہوتا ہے۔
1۔ کھلے دل سے معاف کریں: اور ہم نے آسمانوں اور
زمین اور ان کی درمیانی چیزوں کو بغیر حکمت کے پیدا نہیں کیا، اور قیامت ضرور آنے
والی ہے پر تو ان سے خوش خلقی کے ساتھ کنارہ کر۔
2۔ مفاہمت کا انعام: قرآن کریم میں ارشاد باری
تعٰالٰی ہےاور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے، پس جس نے معاف کر دیا اور صلح کرلی
تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، بے شک وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
3۔ صبر اور معافی لائق تحسین ہیں: اور البتہ جس نے
صبر کیا اور معاف کر دیا بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔
4 معاف کرنا اللہ پر ایمان لانا ہے: پھر اللہ کی
رحمت کے سبب سے تو ان کے لیے نرم ہو گیا، اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو
البتہ تیرے گرد سے بھاگ جاتے، پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور
کام میں ان سے مشورہ لیا کر، پھر جب تو اس کام کا ارادہ کر چکا تو اللہ پر بھروسہ
کر، بے شک اللہ توکل کرنے والے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
عفودر گزر احادیث کی روشنی میں:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آزمائش جتنی سخت
ہوتی ہے اس کا بدلہ بھی اتناہی بڑا ملتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب کسی قوم سے
محبت فرماتا ہے تو اس کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے، پھر جو اس آزمائش پر راضی رہا
(یعنی صبر سے کام لیا) تو اللہ سبحانہ
وتعالیٰ بھی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور جو اس پر ناراض ہوا (یعنی بےصبری کا مظاہرہ
کیا) تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/374، حدیث: 4031)
2۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے
کسی بھائی پر اس کی عزت و آبرو یا کسی اور حوالے سے ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اس ظلم
کو معاف کروالے، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ دینار کام آئے اور نہ در ہم۔ اگر
اس شخص کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی ہوئی تو ظلم کے بقدر وہ نیکی چھین لی جائے گی (اور
مظلوم کو دے دی جائی گی) ، اور اگر اس کے نامہ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہو تو پھر
مظلوم کی برائیاں اس (ظالم) کے نامہ اعمال میں ڈال دی جائیں گی۔ (بخاری، 2/128، حدیث:
2449)
3۔ جو شخص غصے کو پی جائے، جبکہ وہ بدلہ لینے پر
قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے
کہے گا کہ وہ جس حور عین کو چاہے، اپنے لیے پسند کرلے۔
عفو و درگزر کے معنی دوسروں کو معاف کرنا اسلامی
تعلیمات میں عفو و درگزر سے مراد ہے کہ اگر کوئی دوسرا آپ کے ساتھ زیادتی کرے یا
آپ کو برا بھلا کہے تو آپ اسے معاف کر دیں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اپنےماتحت
کام کرنے والوں کی غلطیوں کی اصلاح کرنا اور انہیں سخت سزا دینے سے اپنے آپ کو
روکنابھی عفو و درگزر میں شامل ہے اللہ پاک نہ صرف خود غفار اور غفور ہے بلکہ وہ
ہمیں بھی دوسروں کے ساتھ درگزر کرنے کا حکم دیتا ہے، چنانچہ
قران مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)
(پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم
اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ذات مبارک عفو و درگزر کا بے مثال
پیکر تھی وہ کفار جنہوں نے مختلف طریقوں سے آپ کو اذیتیں پہنچائیں اور مکہ چھوڑنے
پر مجبور کیا انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بد زبانی کی اور آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے
بچھائے لیکن آپ نے ان کے لیے بددعا نہ فرمائی اور فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ان سب
کو معاف کر دیا عفو و درگزر کی تعلیم دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رحم
کرو زمین میں رہنے والوں پر تاکہ آسمان والےکی طرف سے تم پر رحم کیا جائے۔ (ابو داود،
4/372، حدیث: 4941)
نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ رحم دلی اور عفو و درگزر سے
کام لیا آپ ﷺ نے کبھی کسی کو نہیں ڈانٹا اور نہ ہی اپنی ذات کی خاطر کسی سے انتقام
لیا جن لوگوں نے آپ ﷺ پر طائف میں پتھراؤ کیا آپ ﷺ نے ان کے لیے بد دعا کرنے کی
بجائے بخشش اور رحمت کی دعا کی۔ قران مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ
17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
احادیث میں عفو و درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کیے
گئے ہیں ان میں سے دو فضائل درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور
اس کے درجات بلند کیے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یا یہ اسے معاف کر
دے اور جو اسے محروم کر ے یہ اسے عطا کرے جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ
جوڑے۔ (مستدرك، 3/12، حديث: 3215)
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدار رسالت
ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان
کرے گا: جس کا اجر اللہ کی ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پھر
دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت
میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائےگا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر
ہے۔ منادی کہے گا ان کا جو لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے پھر تیسری بار منا
دی اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالی کی ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل
ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم
اوسط، 1/542، حديث: 1998)
عفو و درگزر کے فوائد: اسلامی
معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت میں
اضافہ ہوتا ہے۔ عفو و درگزر کرنا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سنت ہے۔ عفو و درگزر کرنے
سے بھائی چارہ قائم ہوتا ہے۔ عفو و درگزر کرنے سے نفرتیں اور عداوتیں ختم ہو تی
ہے۔
عفو و درگزر از
بنت حاجی محمد یوسف، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
عفو کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور
بالکل بری الذّمہ ہو جائے مثلاً قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے، عفو یعنی معاف کرنا
بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے جس کی اہمیت قرآن و حدیث میں
ہونے کے ساتھ ساتھ صحابہ و تابعین اور اولیائے کرام کے کردار میں نمایاں نظر آتی
ہے، چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ
الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ
النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے محبوب ﷺ
کو قرآن پاک میں حکم دیا: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ
بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز
الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ
پھیر لو۔
ایک جگہ فرمایا: وَ
لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ
لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)
(پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم
اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
معاف کرنا ایک ایسا اعلیٰ ترین وصف ہے کہ قرآن کریم
میں جس کو ہمت والے کام قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایسا ہے کہ نفس
کے خلاف کوئی کام واقع ہو جائے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور صبر کرنا اسکے لئے
مشکل ہو جاتا ہے تو ایسی حالت میں دوسروں کو معاف کرنا نفس پر گراں گزرتا ہے اسی
لئے تو جس کام میں زحمت زیادہ ہو وہ افضل عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ معاف کرنا مشکل کام
ہے مگر جب بندہ اس سے حاصل ہونے والی فضیلتوں کے بارے میں سنتا ہے تو صبر و
استقامت کا دامن تھامتے ہوئے درگزر کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اسی لئے علم دین میں
اضافے کی نیت سے عفو و درگزر کی فضیلت کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں،
1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا
جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے،
وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا: کس کے لئے اجر ہے ؟ وہ منادی
(یعنی اعلان کرنے والا) کہے گا: ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں
آدمی کھڑے ہوں گے اور بلاحساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث: 1998)
2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف
کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)
ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ
کی کوئی کمی سرورا تم پہ
کروڑوں درود
اب سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر معاف کتنی دفعہ
کریں؟ تو اسکے متعلق بھی حدیث مبارکہ سے جانئے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر
ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے
پھر وہ سوال دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا:
روزانہ ستر(70) بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956)
معلوم ہوا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً معاف کرتے رہنا
چاہیے اور قرآن پاک کی آیات پر عمل کی نیت سے اور سنت مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی نیت سے عفو
و درگزر کی عادت اپنا لیجئے اور اللہ پاک کے نیک اور محبوب بندوں میں داخل ہو
جائیے۔
اللہ سے
دعا ہے کہ
عفو و درگزر از
بنت حاجی محمد یوسف، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
عفو کا معنیٰ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور
بالکل بری الذّمہ ہو جائے مثلاً قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے، عفو یعنی معاف کرنا
بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے جس کی اہمیت قرآن و حدیث میں
ہونے کے ساتھ ساتھ صحابہ و تابعین اور اولیائے کرام کے کردار میں نمایاں نظر آتی
ہے، چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ
الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ
النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے محبوب ﷺ
کو قرآن پاک میں حکم دیا: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ
بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز
الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ
پھیر لو۔
ایک جگہ فرمایا: وَ
لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ
لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)
(پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم
اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
معاف کرنا ایک ایسا اعلیٰ ترین وصف ہے کہ قرآن کریم
میں جس کو ہمت والے کام قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایسا ہے کہ نفس
کے خلاف کوئی کام واقع ہو جائے تو آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور صبر کرنا اسکے لئے
مشکل ہو جاتا ہے تو ایسی حالت میں دوسروں کو معاف کرنا نفس پر گراں گزرتا ہے اسی
لئے تو جس کام میں زحمت زیادہ ہو وہ افضل عمل ہوتا ہے۔ اگرچہ معاف کرنا مشکل کام
ہے مگر جب بندہ اس سے حاصل ہونے والی فضیلتوں کے بارے میں سنتا ہے تو صبر و
استقامت کا دامن تھامتے ہوئے درگزر کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ اسی لئے علم دین میں
اضافے کی نیت سے عفو و درگزر کی فضیلت کے بارے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں،
1۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا
جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے،
وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا: کس کے لئے اجر ہے ؟ وہ منادی
(یعنی اعلان کرنے والا) کہے گا: ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں
آدمی کھڑے ہوں گے اور بلاحساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث: 1998)
2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف
کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)
ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ
کی کوئی کمی سرورا تم پہ
کروڑوں درود
اب سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر معاف کتنی دفعہ
کریں؟ تو اسکے متعلق بھی حدیث مبارکہ سے جانئے کہ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر
ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔اس نے
پھر وہ سوال دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا:
روزانہ ستر(70) بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث: 1956)
معلوم ہوا کہ ہمیں وقتاً فوقتاً معاف کرتے رہنا
چاہیے اور قرآن پاک کی آیات پر عمل کی نیت سے اور سنت مصطفیٰ ﷺ پر عمل کی نیت سے عفو
و درگزر کی عادت اپنا لیجئے اور اللہ پاک کے نیک اور محبوب بندوں میں داخل ہو
جائیے۔
اللہ سے
دعا ہے کہ
ارشاد ہوتا ہے: وَ
لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ
لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)
(پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم
اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
معلوم ہوا! لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم
کو بہت پسند ہے۔یاد رہے!شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے،اسے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ
مسلمان آپس میں متّحد (United)رہیں،ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں،ایک دوسرے
کی عزّت و ناموس کے محافظ بنیں، ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کریں،اپنے اندر
برداشت کا مادہ پیدا کریں،اپنے حقوق معاف کردیا کریں،دوسرے کے حقوق کا لحاظ
رکھیں،ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں وغیرہ،کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو معاشرہ امن کا
گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام و نامراد ہوجائے گا۔اس لئے وہ مسلمانوں کو معاف
کرنے اور غصّے پر قابو پانے نہیں دیتا،لہٰذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار
کو ناکام بنادیجئے اور درگزر کرنا اختیار کیجئے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے غلطی
ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے
فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار
پائیں گے۔ان شاء اللہ
آئیے!اس بارے میں 5احادیث مبارکہ سنئےاورلوگوں
کومعاف کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی کوشش کیجئے۔
(1)پیارے آقا ﷺ نےفرمایا:تین باتیں جس شخص میں ہوں
گیاللہ کریم(قیامت کے دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت
سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ وہ
کون سی باتیں ہیں؟فرمایا:(1)جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو،(2)جو تم سے تعلّق
توڑےتم اس سے تعلّق جوڑو اور(3)جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط،4/18،حدیث: 5064)
(2) قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا اجر اللہ
پاک کے ذمّہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کے لیے
اجر ہے؟اعلان کرنے والا کہے گا:ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔تو ہزاروں
آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث:1998)
(3) جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے
دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔(ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
(4) ہر دور میں میرے بہترین امّتیوں کی تعداد پانچ
سو ہے اور ابدال چالیس ہیں، نہ پانچ سو سے کوئی کم ہوتاہے اور نہ ہی چالیس سے، جب
چالیس ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توربّ کریم پانچ سو میں سے ایک کو اس
فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرّر فرما تااور یوں40کی کمی پوری فرمادیتا ہے،عرض
کی گئی:ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے۔فرمایا: ظلم کرنے والے کو معاف
کرتے،برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور اللہ پاک نے جو کچھ انہیں عطا
فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،1/ 39،
حدیث: 15)
(5)ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ !ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال دہرایا،
پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/381،حدیث:1956)
حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے
یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی
ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی و
ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصورمعاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ المناجیح،5/170)
آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل
ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شآء اللہ اس کی
برکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و
قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ
معاف کرکے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی
پہنچادے،یا ذرا سی بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے
چھوڑدیتے، اس کے دشمن بن جاتے اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے
ہیں،حالانکہ اگر ہم رحمت کونین، نانائے حسنین ﷺ کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو
ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے
تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے۔
عفودرگزر سے کیا مراد ہے؟ عفودرگزر
سے مراد ہے کہ مجرم خطاکار اور سزا و عذاب کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اسکی
نافرمانیوں خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا، جرم غلطی اور نافرمانی کے باوجود
سخت برتاؤ کے بجا ئے نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔ عفو درگزر کے متعلق قرآن کریم
میں ارشادِ باری تعالیٰ
سورہ النساء میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ
فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا(۱۴۹)(پ 6، النساء:
149) ترجمہ کنز العرفان: اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی
سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والاہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اگر تم کوئی نیک کام
اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی برائی سے درگزر کرو تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالی
ہر طرح سے سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود اپنے بندے کے گناہوں سے درگزر فرماتا
ہے لہذا تم بھی اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کو معاف کر دو اور لوگوں کی غلطیوں
سے درگزر کرو۔
اسی طرح سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 23 میں اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ
غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳)ترجمہ کنز
العرفان:اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے
ہے۔
عفودرگزر کے متعلق حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: بے شک اللہ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔
(مستدرک للحاکم، 5/546، حدیث: 8216)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمٰن رحم فرماتا ہے تم زمین والوں پر
رحم کرو آسمان کی بادشاہت کا مالک تم پر رحم فرمائے گا۔ (ترمذی، 3/371، حدیث: 1931)
اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ ظلم وزیادتی کر بیٹھے یا
ایذا پہنچانے یا کسی سے خطایا قصور ہوجا ۓ یا تمہیں کسی طرح کا نقصان پہنچائے تو
بدلہ وانتقام لینے کی بجائے اس کو معاف کردینا۔ یہ بہت ہی بہتر ین خصلت اور نہایت
ہی نفیس عادت ہے۔ لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردینا یہ قرآن مجید کا مقدس حکم اور
رسولوں کا مبارک طریقہ ہے۔ خداوند قدوس نے قرآن مجید میں فرمایا: فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس
تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔ ہمارے رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے ان مجرموں اور
خطاکاروں جو جنہوں نے برسوں تک آپ پر طرح طرح کے ظلم کیے تھے۔ فتح مکہ کے دن جب یہ
سب مجرمین آپ کے سامنے لرزتے اور کانپتے ہوئے آ ۓ تو آپ نے ان سب مجرموں کی خطاؤں
کو معاف فرما دیا اور کسی سے بھی کوئی انتقام اور بدلہ نہ لیا۔ جس کا یہ اثر ہوا
کہ تمام کفار مکہ نے اس اخلاق محمدی ﷺ سے متأ ثر ہوکر کلمہ پڑھ لیا۔