وہ امور جو اللہ اور اسکی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو بےحیائی کہلاتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے لڑکیاں لڑکے اکٹھے پڑھتے اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ عورتیں بے پردہ سڑکوں، بازاروں وغیرہ میں جاتی ہیں پارکوں وغیرہ میں تو جیسے بے حیائی کا پہاڑ امڈ آیا ہو۔ عورتیں بغیر دوپٹہ ٹائٹس اور جینز پہن کر پارکوں میں گھومتی پھرتی ہیں۔ مرد حضرات بھی اس بے حیائی میں پیچھے نہیں رہتے۔ سڑکوں اور چونکوں وغیرہ میں بیٹھ کر بے حیائی کے بے شمار پہاڑ ا کٹھے کرتے ہیں۔ عورتوں کو جاتے دیکھ کر ہنسا، قہقہہ لگانا۔ آوازیں کسنا و غیره  شرم ناک امور کا بے جا تذکرہ کرنا وغیرہ اسی ضمن میں ایک آیت مبارکہ ملاحظہ کرتی ہیں۔

چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا۔ بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیائے کرام علیہ السلام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حدیث پاک میں ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا (یعنی حیائی کی بات کرنا) اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

نوشیرواں کا قول ہے: چار قسم کی برائیاں چار قسم کے افراد کے میں بہت بری ہوتی ہیں:1۔ بخل بادشاہوں میں 2۔ جھوٹ قاضیوں میں3۔ حسد علماء میں 4۔ بے حیائی عورتوں میں۔

منقول ہے: جب تمہیں کسی کام سے خوف آئے تو اسے کر گزرو کیونکہ اس سے بچنے کی برائی اس برائی سے بڑی ہے جس سے تم خوف کرتے ہو۔

ہمارا معاشرہ بے حیائی کے پہاڑ کے نیچے دیتا چلا جا رہا ہے۔ ہر طرف بے حیائی عام ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ علم دین سے دوری کی وجہ سے ہے اور آج کل انٹرنیٹ کا بے جا استعمال بھی بے حیائی کی بڑھنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ انٹرنیٹ پر بے حیائی سے لبریز فلمیں، ڈرا ہے، گانے، کلپ وغیرہ دیکھنے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بے حیائی بڑھتی جا رہی۔ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ علم دین سیکھیں ہر مسلمان پر اپنی ضرورت کے مطابق علم دین حاصل کرنا فرض عین ہے۔ انٹرنیٹ کا ضرورت کے مطابق استعمال کرنا چاہیئے۔ موبائل وغیرہ پر کسی سنی علماء کے بیانات نعتیں وغیرہ سننی چاہئیے اور انٹر نیٹ کم سے کم استعمال کریں اللہ پاک ہم سب کو باحیا اور شرم وحیا کا پیکر بنائے۔ آمین

آج کل لوگوں میں بے حیائی جیسا گناہ پایا جا رہا ہے، بےحیائی کی تعریف کسی برے قول و فعل کو کرنے یا کہنے میں شرم محسوس نہ کرنا جو لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ ہو بے حیائی کہلاتا ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے  وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مفہوم جہنمیوں کی دو جماعتیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھی ایک جماعت ان لوگوں کی ہوگی جن کے پاس بیل کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ لوگوں کو ناحق ماریں گے دوسری جماعت ایسی عورتوں کی ہوگی جو لباس پہننے ہوئے ہوں گے مگر اس کے باوجود بھی باریک یا تنگ لباس ہونے کی وجہ سے برہنہ ہوں گی مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود ان کی طرف مائل ہونے والی ہوں گی ان کے سر بڑے بڑے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے ایسی عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنا جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگ گی پائیں گھی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگی جا سکے گی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مفہوم ترجمہ جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو (یعنی جب حیا ہی نہیں رہی تو سب برائیاں برابر ہیں)۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

بے حیائی کی چند مثالیں عورتوں کا بے پردہ ہو کر گھر سے باہر جانا اور بازاروں میں بے پردہ گھومنا، نا محرم مرد جن سے پردہ کرنا فرض ہے ان سے بے تکلف ہونا تنگ اور باریک لباس پہننا عورتوں کا شادی بیاہ یا فنکشن میں ناچنا گانا مرد اور عورتوں کا فحش گوئی کرنا لوگوں کے سامنے بے حیائی سے بچنے کے لیے بے حیائی کرنے کے عذابات اور قبر کی ہولناکیوں سے خود کو ڈرائیے عورتیں کھلا اور ڈھیلا ڈالا لباس پہنے گھر سے نکلتے وقت مکمل پردہ کریں جس سے کسی قسم کی بے حیائی نہ بری باتیں لوگوں میں کرنے اور برے کام لوگوں میں کرنے سے بچے۔

کسی لغو یا بری بات بیان کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرنا بے حیائی ہے۔ آجکل معاشرے میں بے حیائی بہت عام ہو چکی ہے اور معاذ اللہ ہمارے معاشرے میں بے حیائی کو گناہ ہی نہیں سمجھا جانا۔ نوشیرواں کا قول ہے کہ چار برائیاں چار قسم کے افراد میں بہت زیادہ بری ہوتی ہیں: بخل بادشاہوں میں، جھوٹ قاضیوں میں، حسد علماء میں اور بے حیائی عورتوں میں اور جو بہادر ہوتا ہے اس کے کام آسان ہوتے ہیں اور جو ڈر جاتا ہے وہ ناکام رہتا ہے۔ جب تمہیں کسی کام سے خوف آئے تو اسے کر گزرو کیونکہ اس سے بچنے کی برائی اس برائی سے بڑی ہے جس سے تم خوف کرتے ہو۔

بے حیائی ایک بری صفت ہے اور الله پاک نے بے حیائی کی مذمت فرمائی ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

بے حیا آدمی کو معاشرے میں حقیر جانا جاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے میں جدید فیشن کا شوق اور مغربی تہذیب کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ جس میں لڑکیاں اور لڑکے اس فیشن کو زیادہ اپنا رہے ہیں اور جو لباس لڑکے پہنتے ہیں وہی لباس لڑکیاں پہن رہی ہیں جسطرح کا فیشن لڑکے کرتے ہیں لڑکیاں بھی اسی طرح کا فیشن اپنا رہی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے اور عورتیں بے پردہ گلیوں بازاروں اور shopping سنٹر ز میں جانے سے حیا محسوس نہیں کرتیں ملازموں، چوکیداروں، ڈرائیوروں سے بےتکلفی اور بے پردگی کرنے سے حیا نہیں کرتی۔

نبی کریم کا فرمان ہے: لوگوں نے گزشتہ انبیاء اکرام علیہم السلام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں یہ بھی ہے۔ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حدیث: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ باحیا اور پردہ کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔ (ابو داود، 4/56، حدیث: 4012)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا (یعنی بے حیائی کی بات کرنا) اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

آجکل بڑھتی ہوئی بے حیائی کا سبب علم دین سے دوری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ علم دین حاصل کریں اور بےحیائی کے نقصانات کو جانے اور اللہ کی ناراضگی سے بچے ہر مسلمان کو اس کی ضرورت کے مطابق علم دین حاصل کرنا فرض عین ہے۔ اللہ پاک ہمیں بے حیائی جیسے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

شرمناک امور گندے اور بوڑھے معاملات کا ذکر کرنا دوسروں پر گندی نظریں جمانا۔

بے حیائی کا حکم: بےحیائی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے وہ لوگ جو مخلوط محفلوں جہاں مرد و عورت میں بے پردگی ہوتی ہو مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ ان میں نور ایمان کتنا کم ہو گیا ہے ؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے اسی لیے میرے آقا کریم ﷺ نے فرمایا حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم، ص 40، حدیث: 37)

معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم وحیا بھی ہے شرم و حیا کیا ہے ؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم و حیا کہتے ہیں (باحیا نوجوان، ص 7، ماخوذا)

صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیادار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شور کے رنگ بھر کر ان سے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مصطفے جان رحمت ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

اسی لیے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پروار کرتے نظر آتے ہیں ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڑ) میں چھید(سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے بے شرمی اور بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں لہذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام احلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ بے شک ہر دین کا ایک خلق ہےاور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

شرم و حیا اور اسلام: اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بے شک حیا اور ایمان اپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/176، حدیث: 66)

ایک سنگین اخلاقی مسئلہ ہے جو معاشرے کی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ اسلام میں بے حیائی سے سختی سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ فرد اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بے حیائی کا مطلب ہے اخلاقی حدود کو توڑنا، شرم و حیا کا دامن چھوڑنا، اور ایسے کام کرنا جو دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہوں۔

قرآن و سنت میں کئی مقامات پر بے حیائی سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

بے حیائی کے اثرات:

1۔ اخلاقی بگاڑ: بے حیائی انسان کے کردار کو خراب کرتی ہے اور اخلاقی بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

2۔ معاشرتی نقصان: بے حیائی سے معاشرتی اقدار زوال پذیر ہو جاتی ہیں اور معاشرت میں انتشار پھیلتا ہے۔

3۔ خاندانی نظام کی تباہی: بے حیائی خاندانوں کو توڑ پھوڑ کا شکار کر دیتی ہے اور مضبوط خاندانی تعلقات کو کمزور کرتی ہے۔

بے حیائی سے بچنے کے طریقے:

1۔ حیا کا فروغ: اپنی اور دوسروں کی عزت و احترام کا خیال رکھنا اور حیا کو اپنا زیور بنانا۔

2۔ صحیح ماحول: ایسے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا جو نیک اور شریف ہوں، تاکہ آپ پر مثبت اثرات ہوں۔

3۔ دین کی تعلیمات پر عمل: قرآن اور سنت کی روشنی میں زندگی گزارنا اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنا۔

بے حیائی سے بچنے اور معاشرتی بگاڑ کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں حیا اور اخلاقیات کو ترجیح دیں۔


آج کل ہمارے معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے۔ آج کل بے حیائی والی بات کرتے وقت حیا ذرا محسوس نہیں کرتے۔ جو جی چاہتا ہے۔ بولتے جاتے ہیں۔ اس وجہ سے آج کل دنیا کے اتنے گھر بے حیائی کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔ آج کل لڑکے لڑکیاں اکھٹے گھومنے پھرنے میں کیا محسوس نہیں کرتے فیشن پرستی عام ہوتی جارہی ہے۔ موبائل وغیرہ پر باتیں کرتے ہیں لڑکے لڑکیاں والے جوتے اور لڑکیاں لڑکوں والے جوتے پہنتی ہیں۔ حیا ذرا سی بھی محسوس نہیں کرتے۔ لباس بھی لڑکے جیسے پہنتی ہیں جیسے پینٹ وغیرہ۔

آیت مبارکہ: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

حدیث مبارکہ: سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک کیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 / 176، حدیث: 66)نیز فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

حدیث مبارکہ: مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے، چنانچہ فرمان مصطفیٰ ﷺ: بےشک ہر دین کا ایک خلق ہے، اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

حدیث مبارکہ: حضور کے صحابہ ہوں یا صحابیات حالت جنگ ہو یا امن کسی بھی حال میں حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ چنانچہ حضرت ام خلاد کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی باپردہ ہیں۔ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

یا الہی دے ہمیں بھی دوست شرم حیا حضرت عثمان غنی با حیا کے واسطے

ہمیں اپنے معاشرے گھروں کو بچانا چاہیے بے حیائی سے اس کا سب سے بہتر ذریعہ گھر درس بھی ہے اور مدنی چینل بھی الله پاک ہمارے معاشرے کو بے حیائی سے محفوظ فرمائے اور آقا ﷺ کی سیرت پر چلنے کی توفیق دے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین


ہمارے معاشرے میں بھی بے حیائی عام ہوتی جا رہی ہے۔ بے حیائی کی وجہ سے معاشرے میں طرح طرح کے بگاڑ پیدا ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا بگاڑ ایک نامحرم مرد اور نامحرم عورت کے تعلقات ہیں۔ جنکی وجہ سے زنا بھی عام ہو رہا ہے۔ ہر آدمی خصوصا عورتوں کے حق میں حیاء کی عادت وہ انمول زیور ہے۔ جو عورت کی عفو و پاک دامنی کا دار و مدار اور نسوانیت کے حسن و جمال کی جان ہے۔

مرد ہو یا عورت اسلام نے دونوں کو حیاء اپنانے کی تلقین کی ہے۔اور حیاء کو تمام اخلاقیات کا سر چشمہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کی مذمت ملاحظہ فرمائیے:

01) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: فحاشی جس چیز میں ہو گی اسے بدنما کر دے گی اور حیاء جس چیز میں بھی ہوگی اسے آراستہ کر دےگی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

02) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ حیاء اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے لہذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے یعنی جو شخض ایما ن سے محروم رہتا ہے وہ حیاء سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور جس میں حیاء نہیں ہوتی اس میں ایمان بھی نہیں ہوتا۔

03) نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پاک سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔(بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

04) نبی ﷺ نے فرمایا کہ جب تجھ میں حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)

05) حضرت ام خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوءیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا اس وقت بھی باپردہ ہیں کہنے لگیں میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے حیاء نہیں کھوئی۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

شرم و حیاء کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہو ان سے بچانے والے وصف کوشرم وحیاء کہتے ہیں۔ (با حیاء نوجوان، ص 7)

اللہ پاک ہم سب کو بے حیائی اور برے کاموں سے بچائے اور ہم سب سے اپنی رضا والے کام لے لے۔

عدل، اقوال اور افعال میں انصاف و مساوات کا نام ہے۔ اس کے مقابل فحشا یعنی بے حیائی ہے۔ اس سے مراد قبیح اقوال اور افعال ہیں۔ شیطان کے بے حیائی اور بری بات کا حکم شیطان دیتا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں رحمان کا حکم کیا ہے؟

فرمایا: وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔

اس آیت میں اللہ تعالی نے ہر شرمناک اور مذموم قول و فعل سے نیز شرک، کفر، گناہ اور تمام ممنوعات شرعیہ سے منع فرمایا ہے۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فحشاء، منکر اور بغی یہ ہے کہ ظاہر اچھا ہو اور باطن ایسا نہ ہو اسی طرح بے حیائی کے متعلق پیارے اقا ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی اور حیا جس چیز میں بھی ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے پہلی نبوت کی جن باتوں کو جانا ہے ان میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب تم میں حیا ہی نہ رہے تو تم جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی کے ارتکاب سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ بار بار کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے تو سختی سے منع کیا ہی ہے اس کے ساتھ صغیرہ گناہوں کے بار بار ارتکاب سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بے حیائی کے معاملات میں شیطان کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملتا ہے کہ جب انسان سے شرم و حیا ختم ہو جائے تو شیطان کے چکر میں انا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اسی لیے دنیا بھر میں اب کفار اور لبرلز نے اسی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے کہ مسلمانوں کو شیطان کی پیروی پر لگانا ہے تو ان میں بے حیائی عام کر دو چنانچہ اب ٹی وی، ڈرامے، فلمیں، ٹی وی پروگرام، موسیقی، فیشن شوز، اخبارات، تعلیمی اداروں، نوکریوں، دفتروں، پارکوں، تفریح گاہوں، ہوائی جہازوں، ہوٹلوں اور دیگر جگہوں کو بے حیائی سے بھرا جا رہا ہے۔ البتہ وہ تمام طریقے شیطان کے ہیں جن پر بے حیائی اور بری بات ہونے کا اطلاق ہوتا ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنوں یہ دنیا زہر قاتل ہے مگر لوگ اس کی ہلاکتوں سے بے خبر ہیں کتنی نگاہیں ایسی ہیں ہوتی ہیں جو ابتدا میں بڑی پیاری لگتی ہیں مگر بعد میں ان کا تیکھا پن سہا نہیں جاتا اے ابن آدم! تیرا دل بہت کمزور ہے اور تیری رائے حقیقت میں ناقص ہے تیری آنکھ آزاد ہے اور تیری زبان گناہوں سے آلودہ ہے تیرا جسم گناہ کر کر کے تھک جاتا ہے کتنی نگاہیں ایسی ہیں جنہیں معمولی سمجھا جاتا ہے مگر ان سے قدم پھسل جاتا ہے اے وہ شخص جسے محرومی نے بٹھا رکھا ہے یہ توبہ کرنے والوں کا قافلہ ہے تو بھی ان کے ساتھ شریک سفر ہو جا تیرے پاس نہ تو انسوؤں کا کوئی خزانہ ہے اور نہ ہی افسوس کرنے والا دل ہے میں تجھے بے یار و مددگار دیکھ رہا ہوں اے پیارے اسلام بھائیو اور اسلام بہنوں بے حیائی سے خود کو بچانے کی کوشش کیجئے اللہ پاک ہمیں بھی بے حیائی اور بد نگاہی جیسے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بے حیائی ایک ایسا گناہ ہے جو مسلمانوں میں بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بےحیائی کو عام طور پر آزادی کا نام دیا جا رہا ہے معاشرے میں پھیلتی ہوئی یہ بے حیائیاں نسلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ اس بے حیائی جس کو آزادی کا نام دیا جارہا ہے اس کی بنا پر آج نا محرم اور نا محرمہ کے تعلقات بڑھ رہے ہیں، تو کہیں بیٹی باپ کے سامنے ناچ رہی ہے۔ (والعیاذ باللہ)کہیں فلموں ڈراموں کو دیکھ کر بھی اپنی آنکھوں کو آلودہ کیا جا رہا ہے یہ ایسے درد ناک حالات ہیں مسلمانوں میں جس کو ہر مسلمان اپنے طور پر ختم کرنے کی کوشش کرے۔ بے حیائی کہیں ہمارے ایمان کو تباہ نہ کر دے۔ کہیں یہ ہماری بے حیائیاں ہم سے ایسا گناہ نہ کر ر وادے جس سے اللہ کی سخت پکڑ ہو جائے۔ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

حدیث طیبہ میں بھی بے حیائی کی بہت مذمت آئی ہے اور اس سے بچنے کی ترکیب دی گئی ہےچونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور جب ایمان کا یہ حصہ ہی مومن میں نہ ہوگا تو اس ایمان کے باقی حصہ خود بخود ہی ختم ہو تے جائیں گے۔ احادیث طیبہ سے بھی بے حیائی کی مذمت کے بارے میں جانتی ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ یہ کس قدر قبیح فعل ہے

1:سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66)

2:حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

3: حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: قیامت کی علامت میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی کے کام ہوں گے، رشتے داریاں توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور خائن کو امین قرار دیا جائے گا۔

4: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

احادیث میں صراحتاً بتا دیا گیا کہ حیا ایمان کا حصہ ہے اب جو بے حیائی کرے گا وہ بے حیائی اس کے دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ہم کمزور بدن والے کیا جہنم کا عذاب برداشت کر سکیں گی۔بے حیائی کرنا یہ ایک مومن کی شان کے لائق نہیں مومن تو حیا دار ہوتا ہےمندرجہ بالا احادیث سے بے حیائی جیسے جرم کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آخر یہ کس قدر قبیح ومذموم فعل ہےائیے اب سچی توبہ کرلیتی ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ بے حیائی سے بچتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے مطابق زندگی گزاریں شرم وحیا کے پیکر حضور ﷺ کی سیرت کو اپنائیں گے۔ اللہ پاک سے دعا بھی کرتے رہئیے کی دعا مومن کا ہتھیار بھی اللہ پاک سے دعا ہے کے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کامل حیا کے صدقہ ہمیں بےحیائیوں اور برے کاموں سے بچائے۔ آمین


شرمناک امور گندے اور برئے معاملات کا ذکر کرنا دوسروں پر گندی نظریں جمانا۔ منہ سے پیپ اور خون بہہ رہا ہوگا۔ منقول ہے: چار طرح کے جہنمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے درمیان بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص کہ جس کے منہ سے خون، پیپ بہہ رہا ہوگا، جہنمی کہیں گے: اس بد بخت کو کیا ہوا کے ہماری تکلیف میں اضافہ کئے جاتا ہے: کہا جائے گا یہ کو بد بخت بری اور خبیث یعنی گندی بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للربیدی،  9/187)

بےحیائی کا حکم: بے حیائی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ آج کل بے حیائی عام دیکھی جاتی ہے اس بے حیائی سے تو آج کل کے لوگ کم ہی بچ پاتے ہیں۔ آج کل سب سے بڑا ذریعہ بے حیائی کا انٹرنیٹ، کالج، اسکولز، کلبز وغیرہ ہیں۔ جہاں پر لڑکیاں لڑکے کہ جن کو ایک ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور وہ بے حیائی اور شہوت کی تسکین میں پڑ جاتے ہیں۔ جس کے سبب اکثر نوجوان نسل زنا، بدکار، بے حیائی جیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ اس بے حیائی میں سب سے بڑا اور برا گناہ زنا ہے زنا کبیرہ گناہ ہے اور زانی دنیا اور آخرت میں بد بخت ہے۔ اللہ پاک نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر اس کی ممانعت فرمائی ہے چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

کامل مومنین کی بہت سی خصوصیات ہیں۔ جن میں ایک بے حیائی اور برے کاموں سے اجتناب کرنا ہے۔ عربی اشعارکا ترجمہ ہے: اے وہ شخص کے اندھیرے میں چھپ کر اللہ کی نا فرمانیاں کرتا ہےقلم قدرت سے نامہ اعمال میں برا عمل لکھا جا رہا ہے۔ خلوتیں نہ فرمانیوں میں گزار رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات دیکھ رہی ہے تو گناہ کرتے وقت اس سے نہیں چھپ سکتا۔

بے حیائی سے بچنے کا اہم جز: نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنی نگاہوں کی حفاظت کرے گا اللہ پاک اسے عبادت کی توفیق عطا فرمائے گا۔ جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور شریعت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو شرم و حیا کا پیکر بنائے اور آقا کریم ﷺ کا میٹھا میٹھا مدینہ منورہ دکھائے۔ آمین

حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھیننا اس سے مراد وہ وصف وہ عادت ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک نہ پسندیدہ ہو لیکن حیا کے لیے اچھا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مخلوق سے شرمانے میں خالق کی نافرمانی نہ ہوتی ہو اور نہ کسی کے حقوق کی ادائیگی میں وہ حیا رکاوٹ بن رہی ہو۔ روایت ہے کہ اللہ پاک جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے جب اس سے حیا چھین لی جاتی ہے تو اسے اعنات پرست ہی پائے گا پھر جب تو اسے اعنات پرست پائے گا تو جان لے کہ اس سے امانت چھین لی گئی ہے تو جب اس سے امانت چھین لی گئی تو تو اسے بددیانت و بداعتماد پائے گا پھر جب تو اسے بد و دیانت اور بداعتماد پائے تو اس سے رحمت کھینچ لی جاتی ہے جب رحمت بھی کھینچ لی گئی تو تم اسے مردود و ملعون پائے گا اور پھر جب اسے مردود ملعون پائے تو اس سے سلام کا قلاواں بھی اتار لیا گیا۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

احادیث مبارکہ:

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو (یعنی جب حیا ہی نہیں تو سب برائیاں برابر ہیں)۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی اور بد کلامی سنگدلی ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

اللہ پاک ہمیں بھی بے حیائی جیسے بڑے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

آج کل ہمارا معاشرہ طرح طرح کی بے حیائیوں میں گرا پڑا ہے مغربی رسم و رواج نے ہماری نسلوں کو گمراہ کر رکھا ہے۔ ہماری نوجوان نسل مغربی رسم و رواج یعنی بےپردگی بے حیائیوں کو فیشن کا نام دے کر اپنی ترقی سمجھ رہی ہے ماڈلنگ شوز کے نام طرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں بےحیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے بےحیائی کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور مغربی رسم و رواج کے قریب ہونا ہے بے حیائی کے فروغ کی وجہ سوشل میڈیا اور دوسرے ایپس ہے سوشل میڈیا پر ڈراموں میں رشتوں کی بےحرمتی، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے گانے،ڈانس پروگرام،ناںٹ کلب،بے پردگی اور حرام کام کیے جارہے ہیں افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے مسلمان بہن، بھائی بھی اس میں شامل ہیں افسوس در افسوس کچھ تو سمجھتے بھی نہیں کہ یہ گناہ،حرام اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے حیائی کے کام کرنا،پھیلانا ہمارا پیشہ، روزی کمانے کا ذریعہ ہے صرف یہ ہی نہیں بلکہ بعض بد نصیب والدین بھی انہیں سمجھانے کے بجائے فخر کرتے ہیں انہیں اور گمراہ کرتے ہیں یہ کھ کر کے انہیں عزت مل رہی ہیں وہ کامیابی کی طرف جارہے ہیں مگر درحقیقت یہ عزت نہیں ذلت ہے کامیابی نہیں ناکامی اور تباہی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار بنا دے گی اور حیا جس چیز میں ہو اسے خوبصورت بنادے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

افسوس ہمارا معاشرہ بے حیائی اور بہت سی برائیوں کی وجہ سے عیب دار بنا ہوا ہے اپنے معاشرے کو عیب دار ہونے سے بچانے کے لئے بے حیائی سے بچانا ضروری ہے بے حیائی سے بچانے کا طریقہ اللہ کی حدوں کو جاننا ہے اچھے،برے،حلال،حرام کی پہچان ہے اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 21، العنکبوت: 45) ترجمہ کنز الایمان: بےشک نماز منع کرتی ہے بے حیائی اور بری بات سے۔ جیسا کہ معلوم ہوا کہ بے حیائی سے بچنے کا ذریعہ نماز بھی ہے قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حضور ﷺ کی سیرت اپنا کر، سنتیں اپنا کر بے حیائیوں سے بچ سکتے ہیں بے حیائی کو مسلمانوں میں پھیلانے کا عذاب دنیا اور آخرت میں بہت دردناک اور سخت ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اللہ پاک ہمیں دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچائے اور ہمیں با حیا بنائے۔