عفو کے معنی ہیں معافی دینا سزا نہ دینا درگزر کو عربی زبان میں صفح کہتے ہیں اس کے معنی ہیں دیکھی کو ان دیکھی بنا دینا، مجرم کی طرف سے منہ پھیر لینا جیسے دیکھا ہی نہیں۔

عفو و درگزر حقیقت میں یہ ہے کہ بندہ بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (اے ایمان والو، ص81) ہمارا پیارا رب اللہ بڑا غفورو رحیم اور عفو و درگزر فرمانے والا ہے انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی عفو و درگزر کا کمال مظاہرہ کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی کئی جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ نےعفو و درگزر کا ذکر فرمایا اور اس کی ترغیب بھی ارشاد فرمائی اور اس عظیم الشان عمل کو اختیار فرمانے کا حکم خود رب نے قرآن مجید میں آپ ﷺ کو بھی ارشاد فرمایا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیت میں نبی کریم ﷺ کو تین باتوں کی ہدایت فرمائی گئی ہے: جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آ ئے تو اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔ اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے۔ جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان سے الجھئے نہیں بلکہ حلم کامظاہرہ فرمائیں۔

ہمیں بھی چاہیےکہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں بھی عفوو درگزر سے کام لیں گھر والوں رشتہ داروں ہمسائیوں دوستوں اور اپنے ماتحت لوگوں سے بھی انکی غلطیوں یا جو کچھ بھی ان سے سرزد ہو تو ہم اللہ کے حکم اور اس کے پیارے بندوں کے طور طریقوں کو اپناتے ہوئے ان پر صبر کریں اور بدلہ لیے بغیر انہیں معاف کریں اس کے متعلق بھی کئی احادیث کریمہ ملتی ہیں کہ آپ ﷺ عفو و درگزر کا مظاہرہ فرمایا کرتے جیسا کہ آپ اپنے پر ظلم کرنے والوں کو بھی معاف فرما دیا کرتے، آئیے ترغیب کے لیے ذیل میں بیان کردہ عفو و درگزر کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کیجیے۔

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اورآپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی (عرب شریف کے دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادرمبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ سلطان مدینہ ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی، وہ کہنے لگا: اللہ کا جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے، آپ ﷺ حکم دیجیئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائےرحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرادیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149) اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی ہم سے بری طرح پیش آئے تو اس سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔

2۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نہ تو عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفًا نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معافی دیتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر گالی دیتے، برا بھلا کہتے ہیں اور بعض کبھی جب غصہ میں ہی اس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن آپ ﷺ اس سے پاک تھے پس جن کی ایسی عادت ہو تو آئیے نیت کرتے ہیں کہ اس عادت کو بدل کو کر عفوو درگزر سے کام لیا کریں گے ان شاء اللہ الکریم اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح سے دوسروں تک نیکی کی دعوت پہنچانا بھی آسان ہو گا۔

3۔ جنگ احد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ ﷺ کے دندان مبارک کو شہید کر دیا اور عبداللہ بن قمیئہ نے چہرہ انور کو زخمی اور خون آلود کر دیا مگر آپ ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ بھی نہ فرمایا کہ اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ لوگ مجھے جانتے نہیں۔ (شفاء، 1/105)

آئیے ہم بھی نیت کریں کہ کسی کا برا کرنے پر اس کے لیے بددعا کی بجائے ہدایت کی دعا کیا کریں گے، ان شاء اللہ الکریم۔

4۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے عفوو درگزر کو واقعہ ملاحظہ فرمائیے ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ کی لونڈی آپ رضی اللہ عنہ کو وضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے پانی کا برتن آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر گر گیا جس سے آپ رضی اللہ عنہ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا آپ رضی اللہ عنہ نے سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی: اللہ ارشاد فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے غصہ پی لیا اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف فرمائے پھر عرض گزار ہوئی: اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ارشاد فرمایا: جا! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 41/ 387) لوگ عموما اپنے ماتحت لوگوں پر غصہ نکالتے ہیں لیکن ہمارے اکابرین ان سے بھی بے انتہا نرمی کیا کرتے۔

آئیے! معاف کرنے کی فضیلت بھی پڑھ لیتے ہیں، چنانچہ

5۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے، خاتم النبیین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتااور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گااور جو اللہ کے لیے تواضع(عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

ان احادیث مبارکہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم اپنے آقا ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا و خوشنودی کے لیے آپ ﷺ کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے سے برا کرنے والوں سے بدلہ لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود بدلہ لینے کی بجائے معاف کیا کریں۔

برا سلوک کرنے والوں سے اچھے سلوک سے پیش آئیں اور اپنی حق تلفی کرنے والوں کو معاف کر دیں۔

اللہ کریم پیارے آقا ﷺ کے اخلاق کریمہ کے صدقے میں ہمیں اخلاص و استقامت کے ساتھ عفو و درگزر اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کریم ہمارے اخلاق کو بھی سنوار دے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین

عفو کا مفہوم دوسروں کی غلطیوں زیادتیوں پر درگزر کرنا اور مہربان ہو کر معاف کر دینا، یہ ایسی محمود صفت ہے کہ اس کو اپنانے سے آپس کی رنجشیں دور ہوتی اور پیار و محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث ہمیں عفو و درگزر کی تعلیمات دیتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی عفو و درگزر کا درس ملتا ہے، چنانچہ

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

2۔ رسول اکرم ﷺ کی پوری حیات طیبہ عفو درگزر سے عبارت تھی پیارے آقا ﷺ کے بے مثال عفو و درگزر کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تاجدار رسالت ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے نبی اکرم ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ پیارے آقا ﷺ کی گردن مبارک پر خراش آ گئی وہ کہنے لگا: اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے حضور پر نور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔(بخاری، 2/359، حدیث: 3149)

اللہ اللہ! عفو و درگزر کا ایسا عظیم الشان مظاہرہ بے شک یہ رسول کریم ﷺ کی ہی شان ہے، اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن میں عظیم عفو درگزر کی جھلک نمایاں ہے جیسے آپ ﷺ نے ابو سفیان کو معاف کر دیا، اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے غلام وحشی کو معاف کر دیا، حضرت حمزہ کا دانتوں سے کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ کو معاف کر دیا، یونہی صفوان بن معطل، عمیر بن وہب اور عکرمہ بن ابو جہل کو معاف کر دیا، سراقہ بن مالک کو امان لکھ دی اور ان کے علاوہ بہت سے ظالموں اور ستم شعاروں کے ظلم و جفا سے در گزر کر کے معافی کا پروانہ عطا فرما دیا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی پیارے آقا ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

عفو و درگزر کی تعریف: عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے معاف کرنا، بخش دینا، درگزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہوں پر پردہ ڈالنے کے ہیں، جبکہ اصطلاحِ شریعت میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی اور برائی پر انتقام کی قدرت اور طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا بلکہ معاف کر دینا۔

عفو کا ادنی درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کرے خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو اور عفو کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل کی رضا خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو کچھ اس کے ساتھ اچھا بھی کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

اسی طرح اللہ نے قرآن کریم میں عفو و درگزر کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا اللہ کو بہت پسند ہے۔ یاد رہے شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اس سے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں متحد (united) رہیں۔ ایک دوسرے کی خیرخواہی کریں ایک دوسرے کی عزت وناموس کہ محافظ بنے ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کریں اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اگر ایسا ہوگا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے گا اور شیطان کے وار ناکام اور نامراد ہو جائیں گے اس لیے کہ وہ مسلمان کو معاف کرنے اور غصے پر قابو پانے نہیں دیتا لہذا شیطان کے مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام کر دیجئے اور درگزر کرنا احتیار کریں یاد رہے کسی مسلمان سے غلطی ہو جانے پر اسے معاف کرنا اگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے لیکن اگر تم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تو اللہ کی طرف سے انعام و کرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ نے فرمایا: جب میں نے جنت میں اونچے اونچے محلات دیکھے تو جبرائیل سے فرمایا: یہ کن لوگوں کے لیے ہیں ! حضرت جبرائیل نے کہا یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں انہیں معاف کر دیتے ہیں۔(مسند الفردوس، 1/405، حدیث:3011) اپنے غصے کو پی جانا اپنے دشمن سے انتقام نہ لینا اور اس کو دل سے معاف کر دینا بہت ہمت کا کام ہے اس طرح کے اخلاق کو اپنانے والے بندوں کو اللہ بہت سارے انعامات سے نوازتا ہے۔

2۔ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ قیامت کے دن اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی! یا رسول اللہ وہ کون سی باتیں ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

3۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ عزو اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/34، حدیث: 2199)

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی کتابدین و دنیا کی انوکھی باتیں صفحہ نمبر 446 پر ہے: منقول ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی ایک زمین تھی، جس میں آپ کے غلام کام کیا کرتے تھے اور آپ کی زمین سے متصل(یعنی بالکل قریب)حضرت  امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زمین تھی جہاں ان کے غلام کام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ کا ایک غلام، حضرت عبد اللہ بن زبیر کی زمین میں زبردستی گھس آیا تو آپ نے ایک خط حضرت امیر معاویہ کی طرف لکھا، جس میں یہ تحریر کیا: آپ کاغلام میری زمین میں گھس آیا ہے، اسے منع کیجئے۔ حضرت امیر معاویہ نے خط پڑھ کر ایک صفحہ لیا اور خط کا جواب یوں لکھا: اے حواری رسول (یعنی رسول خدا ﷺ کے وفادار ساتھی) کے صاحبزادے! غلام نے جو کیا مجھے اس کا افسوس ہے اور دنیا کی میرے نزدیک کوئی قدر و قیمت نہیں۔ میں اپنی زمین آپ کو دیتا ہوں، لہٰذا آپ اسے اپنی زمین میں شامل کرلیجئے اور اس میں موجود غلام اور اموال بھی آپ کے ہوئے۔ یہ خط جب حضرت عبد اللہ بن زبیر کے پاس پہنچا تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا: میں نے امیر المؤمنین کا خط پڑھا ہے، اللہ پاک ان کی عمر لمبی کرے، ان جیسی شخصیت جب تک قریش میں موجود ہے، قریش کی رائے بے کار نہیں ہوسکتی۔ یہ خط جب حضرت امیر معاویہ کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا: جو معاف کرتاہے، وہ سرداری کرتاہے، جو برد باری کرتا ہے، وہ عظیم ہوتا ہے اور جو درگزر کرتا ہے، لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 446)

نہیں سرکار! ذاتی دشمنی میری کسی سے بھی مری ہے نفس و شیطاں سے لڑائی یارسول اللہ

مختصر وضاحت: یعنی یا رسول اللہ ﷺ! اللہ پاک کا کرم ہے کہ میری کسی بھی مسلمان سے ذاتی دشمنی نہیں بلکہ میری لڑائی توصرف و صرف میرے نفس اور شیطان مردود سے ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! سنا آپ نے! اللہ والے کس قدر عمدہ خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں! جن کی شخصیت میں عاجزی و انکساری، دنیا سے بے رغبتی، سخاوت، ایثار، بردباری اور عفو و درگزر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ یہ حضرات صرف دعووں اور نعروں کی حد تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ اسلام ان کی رگ وپے میں رچ بس چکا ہوتا ہے،یہ حضرات اپنی ذات کے لئے کبھی بھی کسی سے بدلہ نہیں لیا کرتے،بالفرض اگر کوئی ان کے ساتھ سختی سے پیش آتا بھی ہے تو یہ اللہ والے آپے سے باہر ہونے کے بجائے اپنے مد مقابل کے ساتھ بھی شفقت و مہربانی والا سلوک ہی فرماتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں ان کی شان و عظمت کے چرچے ہورہے ہیں،جب ان عظیم ہستیوں کا ذکر خیر ہوتا ہے تو زبانوں پر رضی اللہ عنہ یا رحمۃ اللہ علیہ جاری ہوجاتا ہے۔ اے کاش! ان عظیم ہستیوں کے صدقے میں ربّ کریم ہمیں بھی مسلمانوں کو معاف کرنے اور معاف کرکے اس کا ثواب حاصل کرنے کی سعادت پانے کا جذبہ نصیب عطا فرمائے۔یادرہے!غصے کو پی جانا اور لوگوں سے درگزر کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جو خوش نصیب مسلمان یہ عمل بجالاتا ہے اس کا شمار ربّ کریم کے پسندیدہ بندوں میں ہوتا ہے،چنانچہ پارہ 4 سورۂ اٰل عمران کی آیت نمبر 134 میں خدائے حنّان و منّان کا فرمان باقرینہ ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم کو بہت پسند ہے۔ یاد رہے! شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اسے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں متّحد (United)رہیں،ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں،ایک دوسرے کی عزّت و ناموس کے محافظ بنیں، ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کریں،اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں،اپنے حقوق معاف کردیا کریں،دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں،ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں وغیرہ،کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام و نامراد ہوجائے گا۔اس لئے وہ مسلمانوں کو معاف کرنے اور غصے پر قابو پانے نہیں دیتا،لہٰذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام بنادیجئے اور درگزر کرنا اختیار کیجئے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے غلطی ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے۔

آئیے!اس بارے میں 5احادیث مبارکہ سنئےاورلوگوں کومعاف کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی کوشش کیجئے۔

لوگوں سے درگزر کرنے کی فضیلت:

(1)پیارے آقا ﷺ نےفرمایا:تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم(قیامت کے دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے تعلّق توڑےتم اس سے تعلّق جوڑو اورجو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط،4/18، حدیث: 5064)

(2) قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا اجر اللہ پاک کے ذمّہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کے لیے اجر ہے؟اعلان کرنے والا کہے گا:ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث:1998)

(3) جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔(ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

(4) ہر دور میں میرے بہترین امتیوں کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس ہیں، نہ پانچ سو سے کوئی کم ہوتاہے اور نہ ہی چالیس سے، جب چالیس ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توربّ کریم پانچ سو میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرّر فرما تا اور یوں 40 کی کمی پوری فرمادیتا ہے، عرض کی گئی: ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے۔ فرمایا: ظلم کرنے والے کو معاف کرتے،برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور اللہ پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،1/ 39، حدیث: 15)

(5)ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی:یارسول اللہ ﷺ! ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے پھر وہی سوال دہرایا، آپ پھر خاموش رہے، جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)

حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءً غلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو، شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ المناجیح،5/170)

لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے کہ اس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں آخرت میں بھی ان شاء اللہ اس کی برکت سے جنّت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے،یا ذرا سی بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوڑدیتے، اس کے دشمن بن جاتے اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر ہم رحمت کونین، نانائے حسنین ﷺ کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیا کرتے تھے،چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اکرم ﷺ نہ تو عادۃً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلّفاً، نہ بازاروں میں شورکرنے والے تھے اورنہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ ﷺ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

جس کی شاندار مثال فتح مکّہ کا واقعہ ہے کہ مکّہ فتح ہونے سے پہلے جن کفّار بد اطوار کی طرف سے آپ ﷺ اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان پر زمین تنگ کردی گئی تھی،طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دی گئی تھیں،مکّہ فتح ہونے اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہونے کے بعد دیگر قیدیوں کے ساتھ ساتھ تکلیفیں دینے والے ان خونخوار درندوں کو بھی گرفتار کرکے بارگاہ مصطفٰے میں حاضر کیا گیا تھا، اگر اس موقع پر کوئی اور دنیوی شہنشاہ ہوتا تو شاید ان کے لئے سخت سے سخت سزائیں تجویز کرتا، مگر قربان جائیے!نبیّ پاک ﷺ نے انہیں بھی معافی سے سرفرازفرمایا۔

جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر مکّہ میں عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان کیا

حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا رب کریم کو بہت پسند ہے یادرہے! شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اسے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں متحد رہیں ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کریں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام و نامراد ہوجائے گا اس لیے وہ مسلمانوں کو معاف کرنے اور غصے پر قابو پانے نہیں دیتا لہذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام بنادیجئے اور درگزر کرنا اختیار کیجئے، اگرچہ یہ کام نفس پر دشوار ضرور ہے مگر جب ارادے پختہ ہوں تو مشکل سے مشکل کام بھی انتہائی آسان ہوجاتا ہے البتہ بسا اوقات کچھ ایسی رکاوٹیں کھڑی ہوجاتی ہیں جو انسان کو عفو و درگزر سے روکے رکھتی ہیں، جیسے علم دین سے دوری غرور و تکبر غصہ اور بری صحبت وغیرہ لہذا انسان کو چاہئے کہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی سعی کرے۔

محترم قارئین! عفو و درگزر کا جذبہ پیدا کرنے اور اس کی عادت بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عفو و درگزر کے فضائل کا مطالعہ کیا جائے، آئیے عفو و درگزر کے فضائل و فوائد پر مشتمل چند احادیث کریمہ پڑھیے اور اپنے اندر عفو و درگزر کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کیجئے۔

1۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گاصحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کونسی باتیں ہیں ؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق توڑے تم اسے جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

2۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف فرمائے گا قیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

3۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا کہ جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے پوچھا جائے گا: کس کے لئے اجر ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کیلئے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہونگے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

4۔ جو شرمسار کی لغزش کو معاف کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ (مسند بزار، 15/374، حدیث: 8967)

اللہ کریم اپنے نیک بندوں کے طفیل ہمیں بھی معاف کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ آمین 

عفو و درگزر ایک عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہے معاف کرنا، گریز کرنا یا مٹانا اصطلاح میں اس کے معنی کسی کے غلط رویے یا ظلم کرنے کے پاداش میں طاقت اختیاری کے باوجود بھی اسے معاف کر دینا عفو و درگزر کہلاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر جگہ مومن و اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے عفو و درگزر کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

پیارے نبی ﷺ کا عفو و درگزر سے کام لینا: عفو درگزر ایک ایسی صفت ہے جس سے اسلام کے پھلنے میں روانی آئی تھی، آپ ﷺ پر ہونے والے ظلمات اور آپ کا مقام طائف، صلح حدیبیہ، فتح مکہ و بہت سے جیتے ہوئے غزوات میں لوگوں کو یوں معاف کرنا یقیناً پورے امت مسلمہ کے لئے بہترین نمونے ہے سمجھنے کے لئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: آپ ﷺ نہ تو عادتاً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً، اور نہ بازاروں میں شور کرنے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے، بلکہ آپ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)

عفو و درگزر کی فضیلت:

حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب العزت! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

خاتم الانبیاء ﷺ کا ارشاد پاک ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: یا رسول اللہ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ ارشاد فرمایا: روزانہ ستر بار۔ (ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عربی میں ستر 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لئے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو۔ (مراۃ المناجیح، 5/170)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لئے اجر ہے؟ وہ منادی کہے گا: ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

عفو درگزر کے معنیٰ: عفو درگزر کے معنیٰ معاف کرنے کے ہیں (یعنی لوگوں کی غلطیوں کو معاف کرنا درگزر کرنا وغیرہ) اپنی غلطی کو مان کر دوسروں سے معافی مانگ لینے سے ہماری عزت کم نہیں ہو جاتی بلکہ ہماری عزت اللہ اور لوگوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے لہٰذا ہمیں اپنی غلطی تسلیم کر کے دوسروں سے معافی مانگ لینی چاہیے اور دوسروں کو بھی معاف کر دینا چاہیے۔

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم المرسلین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس(معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

اور معاف کرنے سے روز حشر حساب میں بھی آسانی ہوگی آئیے اس بارے میں ایک حدیث سنتی ہیں، چنانچہ

حساب میں آسانی کے تین اسباب:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ (قیامت کے دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو۔ جو تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو۔ جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کر دو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ معاف کر دینے سے اللہ حساب بہت ہی آسان طریقے سے لے گا اور ہمیں اپنی رحمت و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا۔ اب ہم ایک آیت کریمہ سے عفو درگزر کے فضائل بیان کرتے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اس آیت مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کئے گئے ہیں: (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا (2) غصہ پی جانا (3) لوگوں کو معاف کردینا (4) احسان کرنا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ معاف کر دینا متقین لوگوں کا ایک وصف ہے اور معاف کر دینے سے ہم متقین لوگوں کی فہرست میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

اب ہم عفو درگزر کے فضائل بیان کرتے ہیں:

فضائل عفو و درگزر: احادیث میں عفوو درگزر کے بھی کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے دو فضائل درج ذیل ہیں:

(1) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)

ان فضائل سے ہمیں معلوم ہوا کہ معاف کرنا نہایت ہی اچھا وصف ہے اسی طرح کہا جاتا ہے کہ حقوق اللہ سے حقوق العباد زیادہ سخت ہوتے ہیں اس لیے اگر ہم نے کسی کا دل دکھایا ہو تو ہمیں معافی مانگ لینی چاہیے اور اگر کسی نے ہماری دل آزاری کی ہو تو ہمیں بھی اس کو معاف کر دینا چاہیے۔

معزز کون؟ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

سبحان اللہ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کے نزدیک وہ شخص زیادہ محبوب ہے جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود بھی معاف کر دے معاف کرنا کیسا ہی اچھا عمل ہے اللہ ہمیں بھی دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کی اور اپنی غلطی مان کر معافی مانگے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سبحان اللہ معاف کرنے سے انسان کو جنت بھی نصیب ہو جاتی ہے اللہ ہمیں بھی عفو درگزر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو جس کو ہے مری لاج وہ لجپال بڑا ہے

شرم و حیا ایک ایسی صفت ہےجس کے بغیر ایمان والوں کی زندگی ادھوری ہے۔یہ ایمان کے تقاضوں میں سے ایک اہم ترین تقاضا ہے۔اچھی صفات میں سے ایک اچھی صفت ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی کیا اہمیت بیان ہوئی ہے نیز پیکرِ شرم و حیا،جنابِ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کی شرم و حیا کیسی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی مفید باتیں اس کے بارے میں پڑھیں گی۔سب سے پہلے یہ 2اہم باتیں ذہن نشین فرما لیجئے: ایک بات یہ کہ شرم اور حیا کے ایک ہی معنی ہیں۔دوسری بات یہ کہ شرم و حیا کسے کہتے ہیں؟اور اس سے کیا مراد ہے؟

شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک نا پسندیدہ ہوں۔حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآن میں یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)

آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابیِ رسول حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے فرمایا:آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔(بخاری،حدیث:3562)

حضور پاک ﷺ میں انتہا درجہ کی حیا تھی۔مردوں کی نسبت عورتوں میں اور عورتوں میں کنواری لڑکی اور کنواری لڑکیوں میں سے بھی پردہ کی پابند لڑکی کس قدر باحیا ہوتی ہے حضور پاک ﷺ اس سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔اس لیے ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات وسکنات سے عمر بھر ہمیشہ آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہا اور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی فعل یا عمل سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضور پاک ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بے ہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔( الشفاء،1/69)

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ سے حضور ﷺ کی صفتِ حیا نقل کرتے ہیں کہ آپ جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرما لیتے یا در گزر فرماتے اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے انکھیں گویا بند فرما لیتے اور آپ کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ،اس وقت آپ کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔ آپ کی مجلس علم،حیا،صبر اور امانت کی مجلس ہوا کرتی تھی۔آپ شرم و حیا میں کنواری پردہ نشین لڑکی سے کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔جب آپ کو کوئی بات ناگوار ہوتی تو آپ کے چہرے مبارک سے پہچان لی جاتی یعنی آپ غایتِ شرم کی وجہ سے اظہارِ ناپسندیدگی بھی نہ فرماتے تھے۔(شمائل نبوی) کہتے ہیں کہ یہ قسم حیا کی سب سے اعلیٰ ہے، کیونکہ جو اپنی ذات سے بھی شرماتا ہے وہ دوسروں سے کس قدر شرمائے گا!

سبحان اللہ!ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں آپ کا باحیا کردار کیسا تھا!اللہ کریم! ہمیں شرم و حیا کے پیکر،محبوبِ رب اکبر ﷺ کے صدقے ہم سب کو شرم و حیا جیسی عظیم صفت عطا فرمائے۔امین

حیاایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان برائیوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں قرآن میں اللہ پاک کا یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے کہ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ:بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔(پ22، الاحزاب: 53)مفسرین نے اس آیت کے شانِ نزول سے متعلق مختلف روایات ذکر کی ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ نبیِ کریم ﷺ کے کھانے کے وقت کا انتظار کرتے رہتے تھے،پھر وہ آپ کے حجروں میں داخل ہو جاتے اور کھانا ملتے تک وہیں بیٹھے رہتے،پھر کھانا کھانے کے بعد بھی وہاں سے ہلتے نہ تھے،اس سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت ہوتی تھی،اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔اس آیت کے شانِ نزول سے سرکارِ دو عالم ﷺ کی کمالِ حیا،شانِ کرم اور حسنِ اخلاق کے بارے میں معلوم ہوا کہ ضرورت کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نہ فرمایا کہ اب چلے جائیں!بلکہ آپ نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہ حُسنِ آداب کی اعلیٰ تعلیم دینے والا ہے۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبیِ پاک ﷺ کی کمالِ شرم و حیا کے متعلق فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔(بخاری،1/ 503)

آپ کی ذاتِ اقدس میں نہایت درجے کی حیا تھی،غایتِ حیا کے سبب سے آپ اپنی ایک راحت کی تشریح نہ فرماتے تھے(یعنی ناپسندیدگی کا اظہار نہ فرماتے تھے)

آپ ہر قبیح قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ پاک صاف رہے۔پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل سرزد نہیں ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے، نہ بےہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/69)

حضور ﷺ کے زمانے میں باقاعدہ استنجا خانوں کا رواج نہ تھا،لہٰذا قضائے حاجت کے لیے آپ آبادی سے دور دراز نکل جاتے،چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:آپ ﷺ آبادی سے بہت دور چلے جاتے یہاں تک کہ کوئی آپ کو دیکھ نہیں پاتا تھا۔( ابو داود)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور ﷺ کی شرم و حیا کے متعلق لکھتے ہیں:

نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کے رفعت پہ لاکھوں سلام

جب سرکار ِدو عالم ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور ولیمے کی دعوت دی تو لوگ جماعت کی صورت میں آتے اور کھانے سے فارغ ہو کر چلے جاتے۔آخر میں تین صاحب ایسے تھے جو کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے رہے اور انہوں نے گفتگو کا طویل سلسلہ شروع کر دیا اور بہت دیر تک بیٹھے رہے۔مکان تنگ تھا تو اس سے گھر والوں کو تکلیف ہوئی اور حر ج واقع ہوا کہ وہ ان کی وجہ سے اپنا کام کاج کچھ نہ کر سکے۔ رسولِ کریم ﷺ اٹھے اور اپنی ازواجِ مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے اور جب دورہ فرما کر تشریف لائے تو اس وقت تک یہ لوگ اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے۔حضور ﷺ پھر واپس ہو گئے تو یہ دیکھ کر وہ لوگ روانہ ہوئے،تب حضور ﷺ دولت سرائے میں داخل ہوئے اور دروازے پر پردہ ڈال دیا ۔اس واقعے سے حضور ﷺ کی کمالِ شرم و حیا کا پتہ چلتا ہے کہ ناگوار گزرنے کے باوجود بھی ان سے یہ نہیں فرمایا کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حضور ﷺ کی شرم و حیا کا صدقہ عطا فرمائے۔ امین 


نبیِ کریم ﷺ کی عالی صفات میں سے ایک صفت حیا ہے۔چونکہ نبیِ کریم ﷺ کی ہر صفت کامل و اکمل،اعلیٰ و  ارفع ہے،اس لئے آپ کی صفتِ حیا اور مقامِ حیا بھی سب سے کامل و اکمل ،اعلیٰ و ارفع ہوگی۔

نبیِ کریم ﷺ کی شرم و حیا کا عالم:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ پردہ والی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ با حیا تھے،جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ کے چہرے سے معلوم ہوجاتا۔(بخاری،جلد سوم،حدیث:1055)

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیث کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں:کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھا دیا جاتا ہے،اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے،اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی ہوتی ہے،گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے،کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی،حضور ﷺ کی شرم اس سے بھی زیادہ تھی،حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی(مضبوط ہوگا) اتنا حیا(بھی) زیادہ ہوگی۔(مراۃ المناجیح،8/73)

حیا ایمان کا جزو ہے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے اور وہ حیا کے متعلق عتاب کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کو تو اس قدر حیا کرتا ہے!تجھے نقصان پہنچے گا۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اس کو چھوڑ دو(ایسا نہ کہو)اس لئے کہ حیا ایمان کا جزو ہے۔

(بخاری،جلد سوم،حدیث:1071)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطا کردی۔(دارمی،1/48،رقم:71)(تاریخ ابن عساکر،4/33)

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانہ رسالت سے دور ہوتی جارہی ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔اس منحوس تہذیب کے جراثیم مسلم معاشرے میں بھی اپنے پنجے گاڑنے لگے ہیں۔افسوس!وہ شرم و حیا جسے اسلام مرد و عورت کا جھومر قرار دیتا ہے آج اس جھومر کو کلنک کا ٹیکا(بدنامی کا دھبہ)بتایا جارہا ہے۔محرم و نا محرم کا تصور اور شعور دے کر اسلام نے مرد و عورت کے اختلاط پر جو بند باندھا تھا آج اس میں چھید(سوراخ) نمایاں ہیں۔حیا انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے،افعال میں ہو،اخلاق میں ہو یا اقوال میں،جس میں حیا کا جذبہ نہ ہو اس کے لئے ہر آن گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم و حیا کس قدر اہمیت رکھتی ہے! لہٰذا ہمیں بھی شرم و حیا اپنانی چاہئے۔

حضور ﷺ کی حیا کے بارے میں قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے۔چنانچہ اللہ پاک کا فرمان ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

آپ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار ہیں ۔(سیرتِ مصطفیٰ ،ص613) آقا ﷺ کی شرم و حیا پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ جب کسی چیز کی طرف دیکھتے تو اپنی نگاہِ مبارک نیچی فرمالیا کرتے تھے،بلا ضرورت اِدھر اُدھر نہ دیکھا کرتے تھے،ہمیشہ اللہ پاک کی طرف متوجہ رہتے،اسی کی یاد میں مشغول اور آخرت کے معاملات میں غور و فکر کرتے رہتے،نیز آپ کی نظرِ مبارک آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی۔(مواھب لدنیۃ، 5/272)

حدیثِ مبارک میں جو الفاظ آئے ہیں کہ ”آسمان کی نسبت زمین کی طرف توجہ زیادہ رہتی تھی“ یہی حد درجہ شرم و حیا پر دلیل ہے۔(پردے کے بارے میں سوال جواب،ص313)

اس لئے ہر قبیح قول و فعل و قابلِ مذمت حرکات سے ہمیشہ آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف رہا اور پوری حیاتِ مبارکہ میں وقار و مروت کے خلاف آپ سے کوئی عمل نہیں ہوا ۔

حدیثِ مبارک میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ حضور ﷺ نہ فحش کلام، نہ بےہودہ گو، نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔آپ رضی اللہ عنہا یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کے سبب میں نے کبھی بھی آپﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔( سیرتِ مصطفیٰ،ص614)

شرم و حیا انسان کا وہ وصفِ جمیل ہے جس کی آغوش میں اخلاق و کردار کی خوبیاں پرورش پاتی ہیں۔ جو انسان اس وصف سے کامل طور پر متصف ہو جاتا ہے وہ اخلاقِ حسنہ کا پیکر بن جاتا ہے اور جو انسان اس سے موصوف نہ ہو تو وہ بے حیائی و بے شرمی کا مجسمہ ہو کر جو چاہے کرتا ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے:اذا لم تستحی فاصنع ماشئت کہ جب تو نے شرم و حیا نہیں کی تو جو چاہے کر۔(بخاری، 1/490)

حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے اندر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہواس میں حضور ﷺ سب سے زیادہ حیا فرمانے والے اور سب سے بڑھ کر غضِ بصر یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے ۔ ( الشفاء، ص112)

آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ آپ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے اور جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو ہم چہرۂ انور میں اسے پہچان لیتے تھے۔(بخاری ،حديث:3562)

وضاحت :کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی تو اسے گھر کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جاتا ہے اسے اردو میں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے ۔اس جگہ یعنی گھر کے گوشہ کو مائیں اور عربی میں خدر کہتے ہیں۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت شرمیلی ہوتی ہے، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ، کسی سے کھل کر بات نہیں کرتی ۔حضور ﷺکی شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے جتنا ایمان قوی اتنی حیا زیادہ ۔

وضاحت :یعنی دنیاوی باتوں میں سے کوئی بات یا کوئی چیز حضور انور ﷺ کو ناپسند ہوتی تو زبان مبارک سے یہ نہ فرماتے مگر چہرۂ انور پر ناپسندیدگی کے آثار نمودار ہوجاتے تھے اورخدام بارگاہ پہچان لیتے تھے۔

ایک مرتبہ دعوتِ ولیمہ پر دو تین آدمی حضور ﷺ کے گھر شریف میں کھانے کے بعد باتیں کر رہے تھے۔ حضور ﷺ کو ان کے بیٹھنے سے تکلیف ہوئی مگر ان سے نہ فرمایا کہ چلے جاؤ! اس پر اللہ پاک کا فرمان نازل ہوا: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ :بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ حضور ﷺ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا کرتے تھے بلکہ معاف فرما دیا کرتے تھے۔

وضاحت: یعنی حضور ﷺ کی عادتِ کریمہ فحش باتیں کرنے کی اور کسی پر لعنت پھٹکار کرنے کی نہ تھی، ساری عمر شریف میں ایک بار بھی کسی کو گالی نہ دی،کسی خادم یابیوی کو لعنت کے لفظ سے یاد نہ فرمایا۔آپ یہ بھی فرمایا کرتی تھیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضورﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔(الشفاء،1/ 119ملتقطاً)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو جب کسی کی طرف سے کوئی ناگوار اطلاع ملتی تو آپ یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے!بلکہ آپ یہ فرماتے :فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے تھے۔(ابو داود،5/ 143)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور سید عالم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطراراً کنایتاًبیان فرما دیتے تھے ۔

( ابن ماجہ،ص 68)

اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےکہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔

(ابن ماجہ،1/217 )( شمائل محمدیہ، ص283)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں بھی باحیا و با پردہ و اخلاِق احسنہ کی پیکر بنائے۔آمین