اس دنیا میں علانیہ گناہ (بے پردگی،فحاشی و عریانی،حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں،ڈرامے دیکھنا،ان کی تشہیر کرنا اور دوسروں کو بھی دیکھنے کی ترغیب دینا وغیرہ) کرنے والوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل اجازت ہے۔

لیکن اللہ کے احکام کی بجاآوری کرتے ہوئے اللہ و رسولﷺ کے اطاعت گزار کو قطعاً اجازت نہیں کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے اس کی مرضی کی زندگی کیا ہے؟ فقط اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت۔

جو قوم جہاد کو چھوڑ دے گی اللہ اس کو ذلیل فرما دے گا۔ جس قوم میں بے حیائی، فحاشی، عریانی، بے راہ روی پھیل جائے گی اللہ تعالی اس کو ایسی بلاؤں، مصیبتوں، بیماریوں میں مبتلا کر دے گا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔

لمحہ فکریہ ہے کہ معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو چکا ہے اس کی زد میں زیادہ تر نوجوان ہیں جو کہ کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ اگر کسی قوم کو بغیر کسی جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو۔

ہمارا معاشرہ مغربی تہذیب کا دلدادہ ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل اپنے مقصد تخلیق سے ہٹ کر فحاشی اور عریانیت کے راستے پر اپنے لیے مقصد حیات تلاش کر رہے ہیں۔ مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ وسوسہ پیدا کیا جاتا ہے کہ بے پردگی اور فحاشی میں ہی ترقی ہے۔ ہماری نوجوان نسل جو مستقبل میں معمار پاکستان ہے وہ مغربی تہذیب اور معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں کی زد میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اگر آج کے دور جدید میں دیکھا جائے تو مختلف ایپس نے پوری دنیا میں فحاشی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن کی مقبولیت ایسے شیطانی ذرائع ہیں جن کی وجہ سے بے حیائی مسلمانوں کے گھروں تک پہنچ رہی ہے۔ جس کی زد میں آ کر مسلمان اپنی اسلامی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلمان عورتوں میں پردہ اور مردوں میں حیا کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے کسی بھی معاشرے کو زوال کا شکار ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں کو دین اسلام سے دور اور ان میں بے حیائی و فحاشی کو پھیلاتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ ہو، تو پھر جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اللہ پاک ہم سب کو بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہدایت کا راستہ دکھائے۔


بے حیائی بہت برا فعل ہے معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے برا کام بےحیائی ہے۔ اس سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔

حدیث مبارکہ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ ہو، تو پھر جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص774)

اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130، ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔

(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔

(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔

(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔

(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔

(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔

(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا گیا ہو۔

(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔

(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔

وہ امور جو اللہ اور اسکی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں بے حیائی کہلاتے ہیں۔

بے حیائی کی مذمت پر آیت مبارکہ ہے ترجمہ کنز الایمان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بُری ہی بات بتائے گا۔

بے حیائی کے متعلق احادیث مبارکہ ہیں:

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بےحیائی وبد کلامی، سنگدل ہے اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1/ 176، حدیث: 66)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اسلام کا خلق شرم و حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہےاور حیاء جس چیز میں ہو اسے زینت بخشی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضرت خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے نے حیرت سے کہا اس وقت بھی باپردہ ہیں کہنے لگی میں نے بیٹا کھویا ہے حیا نہیں۔ (ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

اس واقعے سے معلوم ہوا اسلام میں حیا کی کتنی زیادہ اہمیت ہیں۔ اسلام کے دشمنوں کی ہی سازش ہے کہ مسلمانوں سے کسی طرح حیاء کی چادر کھینچ لی جائے جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ایسی بے حیائی بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہیں اللہ پاک ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کے جو کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کے دو شعبے میں اور فحش بولنا یعنی بے حیائی کی بات کرتا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)


بےشرمی و بےحیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔

وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

بے حیائی کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)

مومن نہ تو طعنے دینے والا نہ لعنت و ملامت کرنے والا، نہ فاحش یعنی نہ بے شرم وبے حیاوبدکار اورنہ زبان دراز ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: قیامت کی علامت میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی کے کام ہوں گے، رشتے داریاں توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور خائن کو امین قرار دیا جائے گا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بیشک فحش و بے حیائی کی باتیں کی، اور فحش اور بے حیائی کے کام کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بے حیائی والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین آمین آمین

بے حیائی معاشرے میں اخلاقی زوال اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے وقار اور عزت کو کھو دیتا ہے۔ اسلام میں بے حیائی کی شدید مذمت کی گئی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے۔

بے حیائی کی شکلیں بے حیائی کئی شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے، جیسے:

1۔ لباس اور ظاہری انداز میں بے پردگی: لباس میں بے حجابی اور ایسا طرز زندگی اختیار کرنا جو شرم و حیا کے منافی ہو۔

2۔ غلط بات چیت اور تعلقات: غیر اخلاقی گفتگو اور ایسے تعلقات قائم کرنا جو دینی اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہوں۔

3۔ غلط مواد اور ذرائع ابلاغ: انٹرنیٹ، ٹی وی، اور سوشل میڈیا کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی پھیلانا۔

بے حیائی کے اثرات

1۔ روحانی نقصان: بے حیائی انسان کے دل میں خوف خدا کو کم کر دیتی ہے اور روحانی ترقی کو روکتی ہے۔

2۔ معاشرتی مسائل: بے حیائی کی وجہ سے معاشرے میں انتشار، جرائم، اور بے اعتمادی بڑھتی ہے۔

3۔ نسلوں کی بگاڑ: نئی نسلوں کی تربیت میں کمی آتی ہے اور ان کی اخلاقی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات اسلام نے ہمیں حیا کو اپنانے اور بے حیائی سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

بے حیائی سے بچنے کی تدابیر

1۔ دینی تعلیمات کی پیروی: قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو پاکیزہ رکھنا۔

2۔ اچھے دوستوں کا انتخاب: ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا جو آپ کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے مضبوط کریں۔

3۔ وقت کا صحیح استعمال: فضول کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے بچتے ہوئے اپنے وقت کو مثبت سرگرمیوں میں لگانا۔

بے حیائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگی میں حیا، وقار، اور دینی اصولوں کو مضبوطی سے اپنائیں تاکہ ہم خود کو اور اپنے معاشرے کو اس برائی سے بچا سکیں۔


بےشرمی و بےحیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔

وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

بے حیائی کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔(ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484)

مومن نہ تو طعنے دینے والا نہ لعنت و ملامت کرنے والا، نہ فاحش یعنی نہ بے شرم وبے حیاوبدکار اورنہ زبان دراز ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت مند اور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بے حیائی جس شے میں ہو تی ہے اسے بدنما کر دیتی ہے۔ اور حیاء جس شے میں ہوتی ہے اسے مزیّن کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: قیامت کی علامت میں سے ہے کہ فحش و بے حیائی کی باتیں، اور فحش اور بے حیائی کے کام ہوں گے، رشتے داریاں توڑی جائیں گی، امانت دار کو خائن قرار دیا جائے گا، اور خائن کو امین قرار دیا جائے گا۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: بیشک فحش و بے حیائی کی باتیں کی، اور فحش اور بے حیائی کے کام کی اسلام میں کچھ حیثیت نہیں اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بے حیائی والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین آمین آمین

اسلام اور حیا کا وہی گہرا تعلق ہے جو جسم اور روح کا ہے اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حیا کو حقیقی فروغ دیتا ہے ایک حقیقت ہے کہ مرد کی عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے جبکہ عورت میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں دین اسلام مرد و عورت دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے حیات کے بارے میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: ہر دین کا خلق ہوتا ہے اور دین اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

ہمارے پیارے نبی ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکیوں سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

ایک اور جگہ پر پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں حیا نہ ہو پھر جو چاہے کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

ایک اور موقع پر پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: حیا اور ایمان باہم پیوست ہیں جب ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی جاتا رہتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: ایمان کی 60 سے اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی شاخ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)

قرآن پاک کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ 8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔

حدیث پاک میں ہے: حیا سراسر خیر ہی خیر ہے۔

قرآن پاک میں اللہ پاک ایک اور جگہ پر ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آ یت میں اللہ تعالی نے بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت و ترویج کو بھی بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا اور اخرت میں دردناک عذاب کا باعث قرار دیا ہے پس جب بے حیائی کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت اللہ تعالی کے نزدیک اس قدر بڑا جرم ہے تو آج کل ذرائے ابلاغ کے ذریعے شب و روز مسلم معاشرے میں جو بے حیائی پھیلی جا رہی ہے اللہ تعالی کے نزدیک یہ کس قدر جرم اور گناہ ہوگا ابھی اس میں بھی بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی سے حیا کرو جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں اور اس پر اللہ پاک کا شکر ادا بھی کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا حیا کا حق یہ نہیں جو تم نے بلکہ حیا کا حق یہ ہے کہ تم اپنا سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو جسے اخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کر دے بس جس نے اسے پورا کیا تو حقیقت میں اسی سے اللہ تعالی نے حیا کی جیسا اس سے حیا کرنے کا حق ہے۔ (ترمذی، 4/207، حدیث: 2466)

حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں جائیں گے جب کہ بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)


شریعت کی نظر میں حیا وہ صفت ہے، جس کے ذریعہ انسان بے ہودہ، قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے رک جاتا ہے۔ دین اسلام میں حیا اور پاک دامنی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ انسان اسے اپناکر معاشرہ کو پرامن بنانے میں اہم کردار ادا کرے۔ اور بے حیائی اور فواحش کے قریب جانے سے روکا گیا ہے، تاکہ معاشرہ فساد سے بچ جائے۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کاسبب ہے اور بے حیائی جفاء(زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

قرآن کریم میں جابجا بےحیائی اور برے کاموں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-(پ 14، النحل: 90)ترجمہ کنز الایمان: اور منع فرماتا ہے بے حیائی اور بری بات اور سرکشی سے۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی بے حیائی سے روکا گیا ہے اور شرم و حیا کو اپنانے کا فرمایا گیا ہے جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے۔ کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اورکوئی عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی ران سے کپڑا مت اٹھاؤ، کسی زندہ کی ران دیکھو، نہ مردہ کی۔ (سنن ابی داؤد، جلد سوئم، کتاب الحمام:4015)

حضرت ابومسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے کلام میں سے جو حاصل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہو کرو۔(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی مرد جب جب بھی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے: 1ہمیشہ شراب پینے والا، 2والدین کا نافرمان، 3وہ بے غیرت جو اپنے گھر میں بے حیائی کو (دیکھنے کے باوجود اسے) برقرار رکھتا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بری بات جہاں کہیں بھی ہو قابل ملامت ہے، اور شرم وحیاء جہاں کہیں بھی ہو باعث فخر ہے۔

اللہ کریم ہمیں بھی حیا جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور بےحیائی سے محفوظ فرمائے۔ آمین

شرم و حیا کی اہمیت سے متعلق چند احادیث طیبہ

ارشاد فرمایا: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)

ارشاد فرمایا: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دارکر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

پیاری پیاری اسلامى بہنو! غور کیجئے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے، ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ایمان و حیاآپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک بھی ختم ہوتاہے تو دوسرا خودبخود(Automatic) ختم ہوجاتا ہے۔ آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےکسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے، جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔

آج ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہورہی ہیں، آئیے کچھ سنتے ہیں * فحش یعنی بے حیائی والی گفتگو کرنا٭ گالیاں دینا۔ ٭ چست یعنی بدن سے چپکا ہوا لباس پہننا اس طرح کہ اس سے بدن کے اعضا جھلکیں۔ ٭ بڑوں کی تعظیم نہ کرنا۔ ٭ گانے باجے سننا۔ ٭ فلمیں ڈرامے د یکھنا۔ ٭ گناہوں کا ارتکاب کرنا۔ ٭ حیاسوز ناول پڑھنا۔ ٭ نامحرم مردوں اورعورتوں کا شادیوں / فنکشن (Function)کے نام پر ایک دوسرے میں آنا جانا، بلاتکلف باتیں کرنا۔ ٭ شرعی پردے کا لحاظ نہ کرنا۔ اس کے علاوہ اوربھی کئی مثالیں ہیں۔ یاد رکھئے: حدیث پاک میں ہے: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنا ہی وہ شرم و حیا والا ہوگا جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا، شرم وحیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔

بے حیائی اور زمانۂ جاہلیت پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہم تاریخ(History) کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ زمانۂ جاہلیت یعنی سرکار دوعالم، نور مجسم ﷺ کی دنیا میں جلوہ گری سے پہلے کے زمانے(زمانۂ جاہلیّت) میں عربوں میں بے حیائی اور بے شرمی عام تھی۔ مردوعورت کا میل جول، عورتوں کے ناچ گانے سے لطف اٹھانا، یہ سب اس وقت بھی عام تھا۔ عرب کے بڑے بڑے شعراء عورتوں کی نازیبا حرکتوں اور اداؤں کا ذکر اپنی شاعری میں فخریہ کرتے تھے۔ اسی طرح بعض لوگ باپ کے مرنے پر معاذاللہ باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے۔ ان کے علاوہ بھی طرح طرح کی بے شرمی و بے حیائی کی رسمیں ان میں عام تھیں۔ الغرض! جاہلیت کے معاشرے کا شرم و حیا سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔

حضرت امّ خلّادرضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نکلیں، لیکن اس وقت بھی چہرے پر نقاب ڈالنا نہیں بھولیں، چہرے پر نقاب ڈال کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: آپ اس وقت بھی باپردہ ہیں؟ تو اس پر بی بی امّ خلّادرضی اللہ عنہاکہنے لگیں: میں نے اپنا بیٹا ضرور کھویا ہے، مگر اپنی حیا نہیں کھوئی، وہ اب بھی باقی ہے۔(ابو داود، 3/9، حدیث: 2488)

توچونکہ آقا کریم، رسول رحیم ﷺ خود شرم و حیا کے پیکر تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اپنی مقدس تعلیمات سے پورے معاشرے کو حیادار اور باوقار بنا دیا اور وہاں رہنے والا ہر ایک شرم و حیا کا پیکر بننے لگا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

نیچی نظروں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہےکہ اگر ہم اپنے گھر میں شرم و حیا کا ماحول بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں خود اپنے اندر شرم وحیا پیدا کرنا ہوگی۔ اگر ہماری خواہش ہے کہ ہمارے گھر والے بے پردگی سے بچیں تو پہلے ہمیں خود حیا کا پیکر بننا ہوگا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کی ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

بے حیائی ایک ایسا مذموم وصف ہے جو انسان کو فضول و لایعنی کاموں میں مشغول کرتا اور اصلاح و پاکیزگی سے بہت دور لے جاتا ہے نیز بے حیائی انسان کے اخلاقی وجود کو رذالت (کمینے پن) میں ڈھال دیتی ہے اور اسے احسن تقویم (بہترین تخلیق) سے اسفل سافلین (سب سے نچلے درجے) میں جاگراتی ہے۔

بے حیائی، بدکاری و بدافعالی سے منع کرتے ہوئے اللہ رب العزت قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ 18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

تفسیر: یہ سورۂ نور کی آیت مبارکہ ہے اور سورۂ نور بطور خاص اسلامی معاشرے میں پردہ، حجاب اور شرم و حیا کی ضرورت و اہمیت اور اس کی خلاف ورزی کی مختلف صورتوں اور ان کے سنگین نتائج اور سزاؤں کے بیان پرمشتمل ہے۔موجودہ زمانے میں بےپردگی، بےحیائی، ترک حجاب، نمائش لباس و بدن اور ناجائز زیب و زینت سے بھرپور ماحول میں اس سورت مبارکہ کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لئے حدیث پاک میں حکم دیا گیا کہ اپنی عورتوں کو سورۃ نور سکھاؤ۔

شرم و حیا اور اسلام اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66)

رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

بے حیائی کے نقصانات:

1بے حیاء انسان کی غیرت ایمانی ختم ہو جاتی ہے اور وہ گناہوں پر بے باک ہوجاتا ہے۔

2بے حیاء انسان کا رعب و دبدبہ جاتا رہتا ہے۔

3بے حیاء انسان کی سوچ گندی، ذہنیت غلیظ اور اعمال و افعال گھٹیا پن کے عادی ہوجاتے ہیں۔

4بے حیائی رسوائی کا سبب بنتی ہے۔

5بے حیائی کی وجہ سے انسان بدنگاہی، بدکاری و دیگر مذموم و حرام کاموں میں ملوث ہوجاتا ہے۔

بے حیائی سے بچنے کے طریقے:

1بے حیائی کی مذمت پر آیات قرآنیہ کی تفسیر اور احادیث مقدسہ کا مطالعہ کریں۔

2اسلاف کے حیاء پر مشتمل واقعات کا مطالعہ فرمائیں اور انکی سیرت پر خوب خوب عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔

3سوشل میڈیا سے اجتناب کریں کیونکہ سوشل میڈیا بے حیائی کے فروغ کا اڈا بن چکا ہے ۔

4خود کو بدنگاہی سے حتیٰ الامکان محفوظ رکھیئے کیونکہ اگر نگاہ پاکیزہ نا ہوگی تو حیاء کا تصور کرنا بھی مشکل ہو جائے گا۔

5نماز کو اس طرح ادا کیجئے جیسے ادا کرنے کا حق ہے کیونکہ نماز بے حیائی اور گناہوں سے روکنے والی ہے۔ اللہ رب العزت قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: ارشاد فرمایاکہ اے حبیب! ﷺ، آپ نماز قائم کرتے رہیں، بیشک نماز بے حیائی اور ان چیزوں سے روکتی ہے جو شرعی طور پر ممنوع ہیں۔ یاد رہے کہ یہاں نماز قائم کرتے رہنے کا حکم واضح طور پر تاجدار رسالت ﷺ کو دیا گیا ہے اور ضمنی طور پر یہی حکم آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی ہے۔(روح البیان، العنکبوت، تحت الآیۃ: 45، 6 / 474)

حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: فلاں آدمی رات میں نماز پڑھتا ہے اور جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا: عنقریب نماز اسے اس چیز سے روک دے گی جو تو کہہ رہا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ، 3 / 457، الحدیث: 9785)

6 اپنے نفس کا تزکیہ کیجئے، دل کو پاکیزہ کرنے کے طریقے اپنائیے انشاء اللہ الکریم بے حیائی سے حفاظت رہے گی

موجودہ معاشرہ اور بے حیائی موجودہ معاشرے میں بے حیائی عروج پر ہے ہر گھر میں ٹی وی چینل پر میوزک بھرے فحش پروگرام دیکھے جاتے ہیں، کاروبار کی تشہیر کے لیے عورتوں کی تصویریں بطور نمائش بڑے بڑے بینرز کی صورت میں دکانوں کے اوپر آویزاں کی جاتی ہیں۔ عورتوں کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑے کرنے کے تصور نے معاشرے میں ایسا غلیظ بگاڑ پیدا کیا کہ عورتیں خود کو مردوں جیسا بلکہ ان سے بھی زیادہ قابل منوانے کے لیے بے حیائی و بے پردگی کی ہر حد پار کردیتی ہیں اور گھر کے مرد اسے جنریشنل چینج (Generational Change) کا نام دے کر خوب دیوثیت کاط اعلیٰ ثبوت دیتے ہیں۔

اللہ کریم ہمارے معاشرے کو بے حیائی سے پاک فرمائے سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ عابدہ زاہدہ رضی اللہ عنھا کی چادر تطھیر کے صدقے مسلمان عورتوں کو حیاء و پاکیزگی عطا فرمائے۔

حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں سب سے پہلے کے بے حیائی کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ رب العزت کیا فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)

ارشاد فرمایا کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہربان، رحم فرمانے والا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اس حرکت کا مزہ چکھاتا اور اس کا عذاب تمہیں مہلت نہ دیتا۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کے وہ تمام امت محمدی ﷺ کو بے حیائی سے بچا کر شرم و حیا کا پیکر بنائے۔ آمین

فحش، فاحشۃ، فواحش و فحشاء کے الفاظ عام طور پر بدکاری اور عمل قوم لوط کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

بے حیائی پھیلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ خود فحش پھیلے اور دوسری یہ کہ فحش کا الزام اور بہتان عام ہو جائے۔ دونوں چیزوں سے مسلم معاشرے پر برے اثرات مترتب ہوتے ہیں اور ساتھ بہتان عائد کرنا مقام انسان کے خلاف ہے اور کسی مؤمن کے وقار کو مجروح کرنا خود بڑا جرم ہے۔

بےحیائی کے متعلق اللہ کریم نے ارشاد فرمایا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130، ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔

(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔

(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔

(4) حرام کاموں کی ترغیب دینا۔

(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔

(6) ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔

(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا گیا ہو۔

(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔

(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

احادیث میں بھی اس بارے میں ممانعت بیان فرمائی گئی ہیں۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:

فرمان مصطفٰی ﷺ ہے بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو فحش گوئی (بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور مانگتے (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے جس کے منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)

اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بے حیائی سے بچتے ہوئے اپنی زندگی اسلام کے بتائے ہوئے خوبصورت انداز کے مطابق گزرانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین