حیاکی تعریف :حیا وہ ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی ایسے عمل کو دیکھتا ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ (الشفا،ص92)

حیا کا ایک حصہ اغضاءیعنی چشم پوشی بھی ہے۔حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے! صرف اتنا بتادینا کافی ہے کہ آپ نےکبھی بھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہیں ہوں نہیں چھوا۔ (سیرتِ رسولِ عربی،ص371)

حضور ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجے کی حیا تھی۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ حیا والے تھے۔جب حضور ﷺ کسی چیز سے کراہت فرماتے تو ہم آپ کے چہرۂ انور سے پہچان جاتے۔ آپ کا چہرۂ انور لطیف تھا،ظاہری جلد باریک تھی۔ آپ حیا کی وجہ سے جس بات کو مکروہ سمجھتے اس سے بالمشافہ کلام نہ فرماتے یہ آپ ﷺ کی شریف النفسی تھی۔( بخاری،4/151)( مسلم، 4/1809)یعنی غایتِ حیا کے سبب آپ اپنی کراہت کی تصریح نہ فرماتے تھے، بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور میں پاتے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ پس جب وہ چلا گیا تو آپ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اس کو دھو ڈالو اور ایک روایت میں یہ ہے کہ تم اس کو کہہ دیتے کہ اس کو اتار دے۔(تو وہ اتار دیتا)(ا بوداود،5/143)(شمائل محمدیہ،ص273)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہ دیکھا۔(ابن ماجہ،5/217 )

شرم و حیا کا وصف مبارک بھی دوسرے اوصاف حمیدہ کی طرح حضورﷺکی ذاتِ اقدس میں اکمل طور پر تھا۔چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ کثرتِ حیا کی وجہ سے کسی شخص کے چہرے پر نظر نہیں جماتے تھے۔( ذکر جمیل،ص100)

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

حیا کی تعریف:اصطلاح میں حیا یک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ عمل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہو۔ اسلام حیا کی تعلیم دیتا ہے۔حضور ﷺکی سیرتِ طیبہ سے حیا کی تعلیم ملتی ہے۔چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا: چار چیزیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں:( 1) عطر لگانا( 2) نکاح کرنا( 3) مسواک کرنا( 4) حیا کرنا۔

نصِّ قرآنی : حضور ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک کا قرآنِ پاک میں یہ فرمان سب سے بڑا گواہ ہے :

اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

احادیثِ مبارکہ:آپ ﷺ کی شانِ حیا کی تصویر کھینچتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیا دار تھے۔( سیرتِ مصطفیٰ ،ص613

حضرت عبداللہ بن سلام اور حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر جما کر باتیں نہ فرماتے تھے اور آپ کسی کی مکروہ بات کو اضطرارًا ، کنایتًا بیان فرما دیتے تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کبھی حضور ﷺ کا ستر نہیں دیکھا۔

حضور ﷺ نے فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدر ک،1/ 176، حدیث: 66 )

اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ اسی لیے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان میں چھید کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بے حیائی تباہی لاتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق اور عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے ۔جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔(مسلم،ص 40، حدیث: 37 )

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ،4 /460، حدیث: 4181)

حضورﷺ نے فرمایا : ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں ۔حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: جس میں حیا نہیں وہ جو چاہے کرے ۔

حیا کی اقسام: حیاکبھی فرض وواجِب ہوتی ہےجیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حیا کرنا۔کبھی مستحب جیسے مکروہِ تنزیہی سے بچنے میں حیاکرنا اورکبھی مُباح جیسےکسی مُباحِ شرعی کےکرنےسےحیا۔

حیا ایک ایسی چیز ہے جو مسلم و غیر مسلم ہر ایک میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے۔کیونکہ غیر مسلم بھی کپڑوں کے بغیر باہر نہیں نکلتے۔ البتہ عورتوں میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔لیکن سب سے بڑھ کہ شرم و حیا کے پیکر ہمارے رسول کریم ﷺ ہیں ۔

حیا کے معنی ہیں عیب لگائے جانے کے خوف سے چھینپنا۔اس سے مراد وہ وصف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جو اللہ پاک اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔ (مرقاة المفاتيح )

حضور اقدس ﷺ کی حیا کے بارے میں اللہ پاک قرآنِ کریم میں یوں ارشاد فرماتا ہے:اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-ترجمہ : بیشک یہ بات نبی کو ایذادیتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ 22، الاحزاب:53)

آپ کی شانِ حیا کو بتاتے ہوئے ایک معزز صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور ﷺ کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے ۔

آپ ﷺ ہر برے قول و فعل اور قابلِ مذمت حرکات و سکنات سے عمر بھر ہمیشہ دور رہے ہیں اور آپ کا دامنِ عصمت پاک و صاف ہی رہانیز پوری حیاتِ مبارکہ میں آپ ﷺ سے وقار کے خلاف کوئی عمل ظاہر نہ ہوا۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا حضور اکرم ﷺ کی حیا کے متعلق فرماتی ہیں کہ آپ نہ فحش کلام تھے،نہ بے ہودہ گو،نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے۔آپ یہ بھی فرماتی ہیں کہ کمالِ حیا کی وجہ سے میں نے کبھی بھی حضور اکرم ﷺ کو برہنہ نہیں دیکھا۔ (سیرتِ مصطفیٰ)

حضور اکرم ﷺ نے بہت سی احادیثِ مبارکہ میں حیا کے متعلق فرمایا جن میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

حضور ا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔(ابن ماجہ)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ایمان کے 70 سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(مسلم)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک حیا اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک کو اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ( مستدرک)

اس حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں فرمایا گیا کہ حیا اور ایمان ملے ہوئے ہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں حیا کی کتنی اہمیت ہے!حیا اسلام کا ایک حسن ہے۔جس کے دل میں حیا نہ ہو،جس کی آنکھ میں حیا نہ ہو، جو بے حیا ہوگا اس کا کردار ختم ہو جاتا ہے ۔ باحیا انسان باکردار ہوتا ہے۔ حیا کی اسلام میں اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حیا کے بارے میں یہاں تک فرمایا کہ جب حیا ختم ہوجائے توجو چاہے کرو۔ جیسا کہ انصاری صحابی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کےآخری نبی ،محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم میں حیا نہ ہو تو جو چا ہو کر و۔ (بخاری)

آج ہم لوگ اپنا حال دیکھیں کہ کیا جن کی ہم امتی ہیں ہم ان کے طریقے کے مطابق عمل کرتی ہیں؟ وہ اتنے باحیا تھے اور ہمارےمعاشرے میں اجنبی عورت اور مرد میں پردہ ختم کرنے اور ان کے درمیان قربتیں بڑھانے کے مختلف طریقے اور انداز اختیار کئے جا رہے ہیں نیز دنیوی معاملات کے ہر میدان میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور قوم بقدم چلتے نظر آرہے ہیں جبکہ پردے کے حق میں بولنے والیوں کو پرانی سوچ والی اور بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق نہ چلنے والی کہہ کر صرفِ نظر کیا جارہا ہے۔الغرض حیا کے اعتبار سے معاشرےمیں بہت بگار پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں با حیا بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

حیا کی تعریف: حیا وہ خلق ہے جس کے ذریعے انسان قبائحِ شرعیہ کے ارتکاب سے بچتا ہے۔حضور ﷺ کی ذاتِ اقدس میں غایت درجہ کی حیا تھی۔ حیا ایک ایسی رقت ہے جو انسان کے چہرے پر اس وقت نمودار ہوتی ہے جب وہ کسی مکروہ فعل کو دیکھے جس کا نہ کرنا بہتر ہے۔اغضاء وہ صفت ہے کہ جب انسان کسی ایسی چیز کو دیکھے جس کو اپنی طبیعت سے برا جانتا ہو،پھر اس سے منہ پھیرے۔حضور ﷺ تمام اعلیٰ صفات کی طرح اس میں بھی سب سے بڑھ کر غضِ بصر یعنی چشم پوشی کرنے والے تھے۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے آپ کی حیا کے متعلق فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ- (پ22،الاحزاب: 53)ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو!نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اجازت نہ ہو جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے۔ یوں نہیں کہ خودہی اس کے پکنے کاانتظار کرتے رہو۔

تفسیر :یہ آیت حضور ﷺ کی نعتِ پاک ہے۔اس آیت میں مسلمانوں کو اس دولت خانہ کا ادب و احترام سکھایا گیا ہے جس میں وہ آفتابِ نبوت جلوہ گر تھے۔اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ حضور ﷺ نے حضرتِ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا اور دعوتِ ولیمہ کے لوگ جماعت جماعت سے آتے تھے اور کھاتے جاتے تھے۔لوگ کھا کر گئے مگر تین شخص کھانا کھا کر باتوں میں مشغول ہو گئے اور باتوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہو گیا کہ ان کا بیٹھنا حضور ﷺ پر بھاری ہوا۔حضور ﷺ اس جگہ سے اس لیے اٹھے کہ یہ لوگ بھی ہمیں قیام فرما دیکھ کر اٹھ جائیں ، مگر وہ حضرات نہ سمجھے۔مکان تنگ تھا اور گھر والوں کو بھی ان کی وجہ سے تکلیف ہوئی۔حضور ﷺ وہاں سے اٹھ کر حجروں میں تشریف لے گئے۔دورہ فرما کر جو تشریف لائے تو ملاحظہ فرمایا کہ وہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔حضور ﷺ یہ دیکھ کر پھر واپس ہو گئے۔ تب ان لوگوں کو یہ خیال ہوا اور وہ اٹھ گئے۔اس پر یہ آیتِ کریمہ اتری۔اس آیت سے حضور ﷺ کا خلق،کمالِ حیا اور شان معلوم ہوئی کہ آپ کو اگر کسی سے تکلیف پہنچتی تو خود نہیں فرماتے بلکہ رب کریم ارشادفرماتا ۔

احادیثِ مبارکہ:

1۔ حضور ﷺ کی پاک دامنی کا ذکر کس زبان سے کیا جائے!صرف اتنا ہی بتادینا کافی ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی کسی عورت کو جس کے آپ مالک نہ ہوں نہیں چھوا۔چنانچہ ایک جلیلُ القدر صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پردہ والی دوشیزہ سے بڑھ کر حیا دار تھے۔ جب آپ کسی معاملے کو نا پسند فرماتے تو ہم اسے آپ کے چہرے سے پہچان لیا کرتے یعنی غایتِ حیا کے سبب سے آپ اپنی کراہیت کی تصریح نہ فرماتے تھے بلکہ ہم اس کے آثار چہرۂ انور پر پاتے۔(شمائل محمدیہ،ص 203،حدیث:341)

2۔حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ بہت زیادہ حیا فرمانے والے تھے۔ آپ سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا تو آپ نے وہ عطا کردی ۔( دارمی،1/ 48،رقم:1)

3۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ یہ نہ فرماتے کہ فلاں کا کیا حال ہے؟وہ ایسا کہتا ہے! بلکہ آپ یہ فرماتے کہ فلاں قوم کیا کرتی ہے؟ یا فلاں قوم کیا کہتی ہے؟ اس سے ان کو باز رہنے کی تلقین فرماتے اور ایسا کرنے والے کا نام نہ لیتے۔( ابو داود،5/143)

4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص آپ ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح حاضر ہوا کہ آپ نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور آپ کسی کی موجودگی میں ناگوار بات کی نسبت کلام نہ فرماتے تھے۔ جب وہ چلا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:تم اس سے کہہ دیتے کہ اسے دھو ڈالے۔(ابوداود،5/143)(شمائل محمدیہ، ص273)

5۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور ﷺ حیا کی وجہ سے کسی کے چہرے پر نظر نہ فرماتے تھے اور کسی کی مکروہ بات کو اضطرارً کنایتاً فرما دیتے تھے۔ (ابن ماجہ، ص68)

6۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور ﷺ کی حیا اور تستر کی وجہ سے مجھے کبھی آپ کامحلِّ شرم دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ (ابن ماجہ ،ص 662،1922)

وضاحت:ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور جانِ عالم ﷺ کی شرم و حیا کی وجہ سے آپ کے ستر کی طرف نظر نہیں کرتی تو خود حضور ﷺ تو کیا دیکھتے! اصولی بات تو یہ ہے کہ شرمیلے انسان کے سامنے دوسرے کو مجبوراً شرم کرنی پڑتی ہے اور ایک دوسری روایت میں بالتصریح اس کی نفی ہے ۔چنانچہ

7۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:حضور جانِ عالم ﷺ نے نہ کبھی میرے ستر کو دیکھا نہ میں نے کبھی حضور ﷺکا ستر دیکھا۔ (شمائل محمدیہ، ص418)

8۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:جب حضور ﷺ صحبت فرماتے تو آنکھیں بند کر لیتے اور سر جھکا لیتے۔(شمائل محمدیہ، ص418)

9۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضور ﷺ حجروں کے پیچھے جا کر غسل کرتے۔کبھی کسی نے آپ کے ستر کو نہیں دیکھا۔اللہ کریم ہمیں حضور ﷺ کی حیا میں سے کچھ حصہ عطا فرمائےاور ہمیں با حیا و با پردہ بنائے۔آمین

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یقیناً ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے یعنی ہر امت کی کوئی نہ کوئی خصلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالب ہوتی ہے۔اسلام کی وہ خصلت حیا ہے،اس لئے کہ حیا ایک ایسا خلق ہےکہ جو اخلاقی اچھائیوں کی تکمیل،ایمان کی مضبوطی کا باعث اور اس کی علامات میں سے ہے۔چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا:ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے کہ حیا ایمان سے ہے۔جس طرح ایمان مومن کو کفر کے ارتکاب سے روکتا ہے، اسی طرح حیا با حیا کو نافرمانیوں سے بچاتی ہیں ۔

حیا کے معنی:حیا اگر بغیر مد کے ہو تو اس کے معنی بارش کے ہیں۔اگر حیا مد کے ساتھ ہو تو اس معنی ہے کہ شرمندگی کے ڈر سے کسی چیز کو چھوڑ دینا یعنی وہ صفت ہے جو برے افعال سے بچنے کا باعث ہو اور ایسا وصف جو کسی حق دار کے حق میں کوتاہی کرنے سے بچائے ۔

حیا کی دو قسمیں ہیں:فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حیا کی دو قسمیں ہیں:(1) لوگوں کے معاملے میں حیا۔(1)اللہ پاک کے معاملے میں حیا۔لوگوں کے معاملے میں حیا یہ ہے کہ تو اپنی نظروں کو جو اشیا حرام ہیں اس سے بچے اور اللہ پاک کے معاملے میں حیا یہ ہے کہ تو اس کی نعمتوں کو پہچان اور اللہ پاک کی نافرمانی کرنے سے حیا کر ۔

آئیے! نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیا کے بارے میں پڑھتی ہیں:

حضور ﷺ کی حیا کا ذکر خیر ہے۔علامہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:حضور ﷺکی حیا کا یہ عالم تھا کہ کسی چہرے پر نظریں گاڑ کر گفتگو نہیں فرماتے تھے۔اگر اپنی منشا کے خلاف کوئی بات کہنا چاہتے تو اشاروں کنایوں میں کہتے۔اگر قضائے حاجت کی اگر ضرورت پیش آتی تو لوگوں سے دور کسی میدان وغیرہ میں چلے جاتے اور اس وقت تک کپڑا اوپر نہ اٹھاتے جب تک زمین پر بیٹھ نہ جاتے ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ اس کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا فرمانے والے تھے جو پردے میں ہو اور آپ کو جب کوئی چیز نا پسند ہوتی تو اس (نا پسندیدگی کے اثر ) کو ہم آپ ﷺ کے چہرے سے پہچان لیتے۔یعنی آپ کی شرم و حیا اس قدر زیادہ تھی کہ ناپسندیدگی کو بیان نہ فرماتے بلکہ صحابہ کرام آپ کے چہرۂ مبارکہ سے اس کو پہچان لیتے تھے۔جبکہ ایک ہم ہے جو منہ میں آیا کہہ دیا ۔اللہ کریم اپنے پیارے حبیب ﷺ کی شرم و حیا کے صدقے کم بولنے والی شرم و حیا کی پیکر بنائے۔آمین

1- ابن ماجہ، 4 / 460 ،حدیث: 4181

2- مسلم،ص 39، حدیث: 35

3- مسند ابی یعلی ، 4 / 291 ،حدیث: 7463

4-مسلم، 2330

ان شاء اللہ الکریم اس مضمون میں ہم حضور ﷺ کی شرم و حیا کے بارے میں جانیں گی مگر اس سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شرم و حیا کا مطلب کیا ہے۔

شرم و حیا کا مطلب:حیا کے لغوی معنی وقار، سنجیدگی اور متانت کے ہیں۔ یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔

اصطلاح معنی:حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے۔شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے کہ یہ صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے اور یہی وہ فرق ہے جو انسانوں اور جانوروں میں ہے۔ کیونکہ غصہ،محبت وغیرہ تو انسانوں اور جانوروں دونوں میں ہی ہوتے ہیں، لیکن حیا کی صفت صرف انسانوں میں ہی پائی جاتی ہے۔اگر حیا نہ ہو تو پھر انسان بہت سارے نقصانات اٹھائے گا۔کیونکہ حدیثِ مبارک میں حیا کے بارے میں رسو ِل خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔(بخاری،2/470 ،حدیث3484)

حیا کی اہمیت کا اندازہ ان فرامینِ مصطفےٰ ﷺ سے لگائیے۔

الحیا ء شعبۃ من الایمان ۔( مشکوٰة)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہےتو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176 ،حدیث:66 )

اس عظیم ہستی کی شرم و حیا کے بارے میں صحابی رسول حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (معجم کبیر،/18/206،حدیث:508)

کیا کمالِ شرم و حیا کے پیکر تھے میرے مصطفےٰ ﷺ! آخری حدیثِ مبارک کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:کنواری لڑکی کی جب شادی ہونے والی ہوتی ہے تو اسے گھر کے ایک گوشے میں بٹھادیا جاتا ہے اسے اُردومیں مایوں بٹھانا کہا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں لڑکی بہت ہی شرمیلی ہوتی ہے ، گھر والوں سے بھی شرم کرتی ہے ،کسی سے کھل کی بات نہیں کرتی۔حضور ﷺ کی شرم اس سے بھی زیادہ تھی۔حیا انسان کا خاص جوہر ہے۔جتنا ایمان قوی مضبوط ہوگا اتنی حیابھی زیادہ ہوگی۔ (مراة المناجیح،8 /73)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ حضور کی شرم و حیا کے بارے میں لکھتے ہیں:

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود اونچی بینی کی ِرفعت پہ لاکھوں سلام

آقا ﷺ کی شرم و حیا کا اندازہ بخاری شریف کی اس حدیثِ مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک عورت اسماء رضی اللہ عنہانے نبیﷺ سے حیض کے غسل کے بارے

میں پوچھا تو آپﷺنے اس کو بتایا کہ وہ کس طرح غسل کرے۔پھر( آپ نے )غسل کا طریقہ بتانے کے بعدفرمایا: کستوری لگا ہوا ایک کپڑا لے اور اس سے طہارت کرلے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس نے کہا میں اس سےکیسے پاکیزگی حاصل کروں ؟آپﷺنے فرمایا: اس سے پاکیزگی حاصل کرلے، وہ کہنے لگی کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟آپ نے تعجب سے فر مایا:سبحان اللہ!پاکیزگی حاصل کر۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو سمجھا دیا کہ خون کے مقام یعنی شر مگاہ پر اس کو لگا دیں۔

یہ تھی پیارے رسول کی شرم و حیا! اب اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو افسوس!آج کل ہمارا معاشرے میں شرم و حیا کا گویا تصور ہی مٹتا جا رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ حیا صرف نام کی باقی رہی رہ گئی ہے ۔میڈیا کے پروگرامز نے حیا سوزی میں اپنا بھیانک کردار ادا کیا ہی ہے،لیکن ساتھ ساتھ اب ہاتھوں میں موبائل نے رہی کسر بھی پوری کر دی۔افسوس! بے حیائی اتنی عام ہو چکی ہے کہ کسی شاعر نے سچ ہی کہا ہے کہ

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا

پوچھا جواُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟ کہنے لگیں: وہ عقل پہ مَردوں کی پڑ گیا

عورتین بجائے پردے کے ایسے لباس پہنتی ہیں کہ جس سے بے حیائی کو فروغ ملتا ہے اور حیرت ہے کہ مردوں کی عقلوں کو کیا ہو گیا؟ کہاں گئی ان کی غیرت؟اپنی خواتین کو بے حیائی سے کیوں نہیں روکتے؟ایسا مرد جو باوجودِ قدرت اپنی عورت کو بے حیائی سے نہ روکے ،بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے۔یہ دیوث کا ٹائٹل میں نے نہیں دیا ،بلکہ حدیثِ مبارک رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں:ثلثۃ لاید خلون الجنّۃ العاق لوالدیہ والدیوث ورجلۃ النسآء۔(مستدرک،بیہقی)تین لوگ جنت میں نہ جائیں گے : ماں باپ کا نافرمان،دیّوث اور مردوں کی صورت بنانے والی عورت۔

دُرِّمختار میں ہے :دیوث من لا یغار علی امرأتہ او محرمہجو اپنی عورت یا اپنی کسی محرم پر غیرت نہ رکھے ، وہ دیّوث ہے۔(فتاویٰ رضویہ،6/487 )نیت کیجئے کہ ان شاءاللہ الکریم شرم وحیا کو اپنائیں گی اور ہر ایسے قول فعل سے خود کو بچائیں گی جو بے حیائی کے زمرے میں داخل ہوں۔اللہ کریم ہمیں پیارے حبیب ﷺکی حیا کے صدقے باحیا بنا دے اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی شرم و حیا کا صدقہ نصیب فرما دے۔امین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ

” حیا “ حیات سے ماخوذ ہے،کیونکہ حیات کے سبب سے علم حاصل ہوتا ہے۔جب انسان کو عیب لگنے  کے کاموں کا علم ہو تو وہ ان سےا جتناب کرتا ہے یہی حیا ہے۔

”حیا“ حیات،حس کی قوت اور لطف سے حاصل ہوتی ہے :حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ جب انسان اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی تقصیر کو دیکھتا ہے تو اس سے جو حالت پیدا ہوتی ہے وہ حیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :الحیا شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِحیا ایمان کے شعبوں میں سے ایک شعبہ ہے۔(ریاض الصالحین،ص245،حدیث:683)

قاضی عیاض اور دیگر حضرات رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں: حیا انسان کی ایک فطری صفت ہے جو اس کے اختیار میں نہیں۔اس کے باوجود اس کو ایمان کا جز کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات انسان دیگر نیک کاموں کی طرح حیا کا بھی اکتساب کرتا ہے اور اس کو اپنے قصدو اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔

حیا کے شعبوں میں سے حیا کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔تو انسان سوچے کہ حیا کی ایک شاخ کو حاصل کرنا اور اس پر مستقیم رہنا کس قدر مشکل ہے!تو اس کی تمام شاخوں پر عمل کرنا کس قدر مشکل ترین مرحلہ ہوگا!مگر حیا کو اگر حاصل کر لیا جائے تو وہ تمام شاخوں کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

حیا انسان کا وہ وصف ہے جو اس کو نیک کاموں پر ابھارتا ہے۔اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ملاحظہ ہو۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔(ریاض الصالحین،حدیث: 682) اورمسلم کی روایت میں ہےکہ حیا تمام کی تمام بھلائی ہے۔

حضور ﷺ کو اللہ کریم نے تمام اوصافِ کاملہ عطا فرمائے ہیں، کوئی بھی حضور ﷺ کے اوصاف کو شمار نہیں کرسکتا۔

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آئیے!حضور ﷺ کے اوصافِ کاملہ میں سے شرم وحیا کے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کرتیں ہیں۔ چنانچہ حضرت ام سلیم سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ ان کے پاس تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس قیلولہ کرتے تھے۔وہ حضور ﷺ کے لئے چمڑے کا بستر بچھا دیتی تھیں،حضور ﷺ اس پر آرام فرمایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کو بہت پسینا آتا تھا تو وہ حضور ﷺ کا پسینا جمع فرما لیتی تھی۔ (مراۃ المناجیح،8/61 ،حدیث: 5534)

اس حدیث کی شرح میں ہے کہ حضور ﷺبہت حیا فرمانے والے تھے۔ جس کو شرم وحیا بہت ہو اسے پسینا بہت آتا ہے۔

ایک اور حدیثِ مبارک ملاحظہ ہو:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے، اس لئے کہ جب کوئی ایسی چیز آپ دیکھتے جو ناپسند ہوتی تو ہم اس کے آثار آپ کے چہرۂ انور سے پہچان لیتے۔

معلوم ہوا کہ حضور ﷺ بہت شرم وحیا فرمانے والے تھے۔بے شک!اللہ کریم نے حضور ﷺ کو تمام اوصاف میں کامل و اتم فرمایا ہے ۔جبھی تو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہاتیری خِلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تیرے خالقِ حسن و ادا کی قسم

(حدائق بخشش،ص80)

حیا سے مراد شرمندہ ہونا ہے۔ حیا در اصل اس کیفیت کا نام ہے جو  کسی انسان میں عیب،برائی یا خوف کے وقت طاری ہو۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ بہترین حیا وہی ہے جو انسان کو اس چیز میں مبتلا ہونے سے روکے جس کو شریعت نے برا قرار دیا ہے۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔حضور اکرم ﷺ نے حیا کے بارے میں ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ ۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا واحد سبب شرم و حیا ہے۔ جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گا۔ جب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتا ہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے۔حضور ﷺ پردے والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔چنانچہ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضور ﷺ پردہ والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔جب کوئی بات ایسی دیکھتے جو آپ کو ناگوار ہوتی تو ہم لوگوں کو آپ کے چہرے سے معلوم ہو جاتی۔(بخاری،جلد 3،حدیث: 1055)

حضور ﷺ نے فرمایا :ایمان کے 70 یا 60 سے کچھ زائد شعبے ہیں۔افضل ترین شعبہ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم ترین درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔حیابھی ایمان کا ایک شعبہ ہے۔(بخاری اور مسلم نے اسے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں)

حیا ان صفات میں سے ہے جن کی وجہ سے نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔ بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں لے جانے کا سبب ہے۔

حیا کی وجہ سے انسان کےقول و فعل میں حسن و جمال پیدا ہوتا ہے۔لہٰذا باحیا انسان مخلوق کی نظر میں بھی پرکشش بن جاتا ہے اور پروردگارِ عالم کے ہاں بھی مقبول ہو جاتا ہے،نیزقرآنِ مجید میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ آقا کریم ﷺ نے فرمایا: حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔ (مسلم،ص 40، حدیث: 37)

شرم و حیا اور ہمارا معاشرہ:اس میں شک نہیں کہ جیسے جیسے ہم زمانہ رسالت سے دور ہوتی جا رہی ہیں شرم و حیا کی روشنیاں ماڈرن،اندھی اور تاریک تہذیب کی وجہ سے بجھتی جا رہی ہیں۔محرم نامحرم کا تصور اور شعور دے کر اسلام نے مرد وزن کے اختلاط پر جو بند باندھا تھاآج اس میں چھید(سوراخ )نمایاں ہیں۔

حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں:رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے:حیا اور ایمان دونوں ایسے ساتھی ہیں کہ جب ان میں سے ایک اٹھ جاتا ہے دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔صحابیِ رسول عمران بن حصین نے بتایا کہ ایک موقع پر نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے۔

نوجوان” جوانی دیوانی ہوتی ہے“کے مصداق بن کر اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتے ہیں اور زندگی کے ان قیمتی لمحات کو رضائے الٰہی والے کاموں میں گزارنے کے بجائے بے حیائی کے کاموں میں برباد کر دیتے ہیں۔ نوجوان نسل کو بے حیائی سے بچانے کے لیے بزرگانِ دین کی مثالی زندگی ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائے،اپنے احکام اور حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہِ النبی الامینﷺ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔جب آپ کوئی ناپسندیدہ بات دیکھتے تو ہم آپ ﷺ کی ناپسندیدگی کا اندازہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور (کے تاثرات) سے لگا لیا کرتے تھے۔ ( متفق علیہ )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبیِ کریم ﷺنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:اللہ پاک سے حیا کرو،جیساکہ حیا کا حق ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے نبیﷺ!الحمدللہ!ہم اللہ پاک سے حیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: حیا سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو، بلکہ جو شخص اللہ پاک سے حیا کا حق ادا کرنا چاہے تو اسے چاہئے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے، اس کی حفاظت کرے،پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے،اس کی حفاظت کرے۔اسے چاہئے کہ موت اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے۔جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ دنیا کی زینت و آرائش کو چھوڑ دیتاہے۔ پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ پاک سے حیا کی جس طرح حیا کا حق ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح)

اس حدیث نے انتہائی جامعیت کے ساتھ اللہ پاک کے رسول ﷺ نے ہم سب کو بتا دیا ہے کہ اللہ پاک کے سامنے حیا کا مطلب تمام جسمانی اعضاء کو ظاہری و باطنی تمام گناہوں اور برائیوں سے بچانا ہے۔ بنیادی طور پر تین باتوں کے بارے میں نبیِ اکرمﷺ نے نشاندہی فرمائی ہے۔سب سے پہلے یہ بات ارشاد فرمائی کہ مسلمان کو چاہیے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے ،اس کی حفاظت کرے۔ سر کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپناسر اللہ پاک کے علاوہ کسی کے سامنے نہ جھکائے ،نہ عبادت کے طورپر اور نہ تعظیم کے طور پر۔ سر سے متعلق جتنے بھی گناہ ہیں،ان سے پرہیز کرے،اسی طرح سر کے ساتھ جو اعضاء منسلک ہیں مثلاً آنکھ، کان،زبان کی حفاظت کرے۔آنکھ کی حیا یہ ہے کہ اس سے بد نظری نہ کی جائے اور نگاہ ایسی جگہ نہ پڑے جہاں پر نگاہ ڈالنے سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔اسی طرح زبان کی حیا یہ ہے کہ زبان کے جتنے بھی گناہ ہیں ان سے بچا جائے مثلاً زبان کو غیبت سے محفوظ رکھے،چغل خوری سے محفوظ رکھے،جھوٹ سے محفوظ رکھے، بدگوئی سے محفوظ رکھے اورفحش گوئی سے محفوظ رکھے۔رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:حقیقی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔(متفق علیہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:بے شک کبھی آدمی بغیر غور و فکر کئے کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جس کے سبب جہنم کی آگ میں اتنی گہرائی میں جاگرتا ہے جتنا کہ مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔

(متفق علیہ)

اسی طرح کان کی حیا یہ ہے کہ اپنے کانوں کو بُرائی کی باتیں اور گانے سننے سے محفوظ رکھے۔حدیث میں ہے: گانا دل میں اس طرح نفاق کو اُگاتا ہے جس طرح پانی سے کھیتی پروان چڑھتی ہے۔(شعب الایمان)دوسری بات سرکارِ دو عالم ﷺنے یہ ارشاد فرمائی کہ پیٹ اورجو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے،اس کی حفاظت کرے۔ مطلب یہ ہے کہ پیٹ کو حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچائے اور حلال رزق استعمال کرے،نیزحرام سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک ہے اور وہ پاک چیز کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتا۔اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)(پ18،المؤمنون:51)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ اور فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ۔ (پ2، البقرۃ:172)

حیا کی تعریف:علما ئے کرام فرماتے ہیں:حیا وہ وصف ہے جو قبیح(بری)چیزوں سے روکتا ہے۔ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں ، حیا بھی ان میں سے ایک شاخ ہے۔حیا کا اسلام میں ایک اہم مقام ہے ۔حیا اور اسلام کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔چنانچہ حضور اکرمﷺنے فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک،1/ 116،حدیث : 166)

خیال رہے کہ جہاد ایک مسلمان کو نرمی اور حکمت کے ساتھ امر بالمعروف سے باز نہیں رکھتی۔ میرے آقاﷺ حلیم طبیعت کے مالک تھے اور کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار تھے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبیِ کریمﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ نے ان میں سے آسان ہی کو پسند کیا بشر طیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو! اگر اس میں گناہ کا کوئی پہلوہوتا تو آپ اس سے اور دور ہو جاتے۔نبیِ اکرمﷺنے ارشاد فرمایا :سابقہ انبیا کے کلام میں سے جو چیز لوگوں نے پائی ہے ان میں ایک یہ بات ہے کہ جب تمہیں حیا نہ آئے تو جو چاہو کرو۔( بخاری،3296)

اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہو کہ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں انسان بُرائی اور غلطی کے ارتکاب سے باز رہتا ہے،اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان کو جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔عام طور پر کسی جرم کے بارے میں انسان کی حیا اس وقت ختم ہوتی ہے جب وہ باربارکسی جرم کاارتکاب کرتا ہے۔

رسول اللهﷺنے فرمایا : حیا جس چیز میں ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔اللہ پاک حضرت فاطمۃ الزہرارضی الله عنہا کے صدقے ہمیں بھی شرم و حیا عطا فرمائے۔اٰمین

شرم و حیا اس وصف کو کہتے ہیں جو بندے کو ہر اس چیز سے روک دے جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو۔وہ صفت جو انسان کو اس کام یا چیز سے بچائے جس سے اللہ پاک اور اس کی مخلوق ناپسند کرتی ہو ا سے شرم و حیا کہتے ہیں۔

شرم و حیا کی اہمیت پر احادیثِ مبارکہ

(1)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں،تو جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔(مستدرک، 1/176،حدیث:66)

(2)آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔(ابن ماجہ ، 4/461، حدیث: 4185)

پیکر شرم و حیا :ہمارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ کی شرم و حیا کا حال یہ تھا کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رسول اللہ ﷺ کنواری پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ با حیا تھے۔(معجم کبیر، 18/206، حدیث: 508)

غور کیجیے! اسلام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے!آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سےحیا کی چادر کھینچ لی جائے کہ جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا یعنی جس میں جتنا ایمان زیادہ ہوگا اتنی ہی وہ شرم و حیا والی ہوگی جبکہ جس کا ایمان جتنا کمزور ہوگا شرم و حیا بھی اس میں اتنی ہی کمزور ہوگی۔

عثمانِ با حیا کی شرم و حیا :حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ امیر المومنین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی شرم و حیا کی شدت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر آپ رضی اللہ عنہ کسی کمرے میں ہوتے اور اس کا دروازہ بھی بند ہوتا تب بھی نہانے کے لیے کپڑے نہ اتارتے اور حیا کی وجہ سے کمر سیدھی نہ کرتے تھے۔(مسند امام احمد، 1/160، حدیث: 543)

اپنے زمانے کے مشہور ولی حضرت یونس بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ جوان تھے اور اکثر وقت مسجد میں ہی گزارتے تھے۔ایک مرتبہ مسجد سے گھر آتے ہوئے اچانک ایک عورت پر نظر پڑی اور دل اس طرف مائل ہوا، لیکن پھر فوراً ہی شرمندہ ہو کر تائب ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں یوں دعا کی:اے میرے پاک پروردگار! آنکھیں اگرچہ بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اب مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے کہ کہیں یہ میری ہلاکت کا باعث نہ بن جائیں اور میں ان کی وجہ سے عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میرے مالک!تو میری بینائی سلب کر لے۔ چنانچہ ان کی دعاقبول ہوئی اور وہ نابینا ہو گئے۔(عیون الحکایات، 165ملخصاً)

گناہوں سے بھرپور نامہ ہے میرا مجھے بخش دے کر کرم یا الٰہی

(وسائلِ بخشش( مرمم) ،ص110)

ہمیں چاہیے کہ شرم و حیا کو بڑھانے کے لیے شرم و حیا سے ہم اہنگ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ شرم و حیا ایسی صفت ہے جو صرف انسانوں میں پائی جاتی ہے یہ جانوروں میں نہیں ہوتی اور انسان و جانور کا فرق شرم و حیا کے ذریعے ہوتا ہے۔لہٰذا اگر کسی سے شرم و حیا جاتی رہے تو اب اس میں اور جانور میں کچھ خاص فرق نہیں رہ جاتا۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے دین نے شرم و حیا اپنانے کی بہت ترغیب دلائی ہے۔

حیا کے لغوی معنی:وقار ، سنجیدگی کے ہیں۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پردے میں بیٹھنے والی لڑکی سے زیادہ شرمیلے(حیادار)تھے۔جب کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرے سے پہچان لیتے تھے۔

نبیﷺ نے فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں۔جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک ،1/176،حدیث 66)

شرم و حیا بڑھائیے۔نورِ ایمان جتنا زیادہ ہو گا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی ۔اسی لیے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔(مسند ابی یعلی ، 6/291،حدیث: 7463)

نبیﷺ نےفرمایا :ایمان کے 70 اور کچھ زیادہ شعبے ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔( مسلم،ص 35 )

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا: جس چیز میں فحش ہو وہ اس چیز کو عیب دار کر دیتا ہے اور جس چیز میں حیا ہو وہ اسے سنوار دیتی ہے۔( الترغیب)

حیا ایسی خصلت ہے جسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:تمہارے اندر دو عادتیں ایسی ہیں جسے اللہ پاک پسند فرماتا ہے، میں نے کہا:وہ کیا ہیں ؟ارشادفرمایا :برد باری اور حیا۔( الادب المفرد)

حیا جنت کی جانب رہنمائی کرتا ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے۔بد کلامی سنگ دلی ہے اور سنگ دلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔( ترمذی: 2009 ۔ابن ماجہ: 3392)

اللہ پاک سے شرم نہ کرنے والوں کی تنہائی !جب لوگ اللہ پاک سے شرم و حیا کو بھول جاتے ہیں تو پھر وہ اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں کو عام طور پر کرنے لگ جاتے ہیں۔حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ پاک ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اڑ جاتا ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ! ان لوگوں کا حال ہم سے کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے ہیں وہ رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو لیکن وہ لوگ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔(ابن ماجہ:3442)اللہ پاک مجھ گنہگار سمیت سب مسلمانوں کو حیا اور پاک دامنی کا خیال رکھنے اور بے پردگی سے بچنے کی سعادت نصیب فرماتے ہوئے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔