
بے حیائی کا مطلب ہے بے شرم اور حیا کی کمی۔ یہ ایک
ایسی کیفیت ہے جس میں انسان کے اندر شرم و حیا کی صفت نہیں رہتی۔حیا ایک ایسی صفت ہے
جس کے نتیجے میں انسان برائی اور غلطی سے باز رہتا ہے اور اگر یہ ختم ہو جائے تو انسان
کو اپنے جرم کے ارتکاب پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی ہے۔ شرم و حیا رخصت ہو جائے تو
باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی
کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا
ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین
کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا:
جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی
بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔
شرم وحیا کیا ہے؟ وہ
کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم
وحیا کہتے ہیں۔ اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو
دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی لئے اسلام کے دشمن
مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز
وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے
پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے
لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام
اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور
اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا
ہے۔رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار
بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں
اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔میڈیا
جس تواتر سے بچّوں اور بڑوں کو بےحیائی کا درس دے رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
قابل غور ہے کہ جو نسل نو (نئی نسل) والدین کے پہلو میں بیٹھ کر فلموں ڈراموں کے گندے
اور حیا سوز مناظر دیکھ کر پروان چڑھے گی اس میں شرم و حیا کا جوہر کیسے پیدا ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ نسل نو کی ایک تعداد شرم و حیا کے تصوّر سے بھی کوسوں دور دکھائی دیتی
ہے۔ شرم و حیا کی چادر کو تار تار کرنے میں رہی سہی کسر انٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔
اس کے فوائد اپنی جگہ مگر بےحیائی اور بے شرمی کے فروغ میں بھی انٹرنیٹ نے یہ ثابت
کر دکھایا ہے کہ وہ واقعی تیزترین ہے۔
یاد رکھئے! اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل
پیرا ہو گا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم
و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔
آج ضرورت اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا
ئے اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام
امت محمدیہ کو باحیا زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت
و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام
بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ
میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث:3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے
کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور
اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا
نوجوان، ص 7ماخوذاً)
حیاء کے احکام حیاء کبھی فرض و واجب ہوتی ہے جیسے کسی
حرام و ناجائز کام سے حیاء کرنا کبھی مستحب جیسے مکروہ تنزیہی سے بچنے میں حیائی، اور
کبھی مباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مباح شرعی کے کرنے سے حیاء۔
یہ حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور
جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو
یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ
قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ
دیتا ہے۔
رسول خدا ﷺ نے ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل
کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم
و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا
خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن
ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
حیا نہیں کھوئی: اسی
حیا پرور ماحول کا نتیجہ تھا کہ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید
ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں
حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے
بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً) شرم و حیا
بڑھائیے نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان چڑھے گی۔ اسی لئے آقا
کریم ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان سے ہے۔ (مسند ابی یعلیٰ، 6/291، حدیث: 7463) وہ لوگ جو
مخلوط محفلوں (جہاں مردوعورت میں بے پردگی ہوتی ہو)،مکمل بدن نہ ڈھانپنے والے لباس،
روشن خیالی اور مادر پدر آزادی کو جدّت و ترقی کا زینہ سمجھ کر انہیں فروغ دیتے ہیں
انہیں سوچنا چاہئے کہ ان میں نور ایمان کتنا کم ہوگیا ہے؟ حیا تو ایسا وصف ہے کہ جتنا
زیادہ ہو خیر ہی بڑھاتا ہے۔ اسی لئے آقا کریم ﷺ نے فرمایا:حیا صرف خیر ہی لاتی ہے۔
(مسلم، ص40، حدیث: 37)
حیاء کرنے کا حق: حضرت
عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم، نور مجسّم، شاہ بنی آدم، رسول
محتشم ﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے کا حق ہے۔ عبداﷲ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے
ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے
کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ
کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے
سڑنے کو یاد کرے اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے
ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2 /33، حدیث:
3671)
اللہ کریم ہم سب کو باحیا بنائے۔ آمین

الله تعالیٰ فرماتاہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
بے حیائی (فحش) کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا،
تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی
باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اشاعت فحش کے موڈرن طور طریقے
ایجاد ہوگئے ہیں
مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں،
جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے
والے اشتہارات، حسن کے مقابلے، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے، ہیجان انگیز
ناولیں اور افسانے، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور
ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔
ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو
شخص ہدایت (نیکی) کی طرف بلائے اسے ہدایت پر چلنے والوں کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے
والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ اور جو شخص گمراہی( برائی) کی طرف
بلائے اس کو گمراہی پر چلنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور ان چلنے والوں کے گناہ میں
بھی کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔
قارئین کرام! اس حدیث مبارکہ کو سمجھنے کے لئے انٹرنیٹ
ایک بہترین مثال ہے! یعنی جو لوگ اپنی اور لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لئے اسلامک پیجز،
ویب سائٹس وغیرہ بنا کر دین کی تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ہیں اور
جو لوگ اسلامک پیجز، ویب سائٹس وغیرہ سے منسلک ہیں اور دینی پوسٹ شئیر کرکے اللہ کا
پیغام آگے پھیلاتے ہیں تو ثواب کے حقدار وہ بھی ہیں۔
اسی طرح جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں میں فحاشی پھیلا
رہے ہیں تو ان پر گمراہ ہونے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا گناہ ہوگا اور جو لوگ بھی
ایسے پیجز سے منسلک ہیں وہ بھی برابر کے گناہ گار ہو رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے اور ہر گناہ سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین والحمد للہ رب العالمین

ان لوگوں کی کتنی بڑی بد نصیبی و محرومی ہے کہ نفلی
عبادتیں و ریاضتیں کریں، فرائض کے علاوہ نفلی نمازیں پڑھیں، نفلی روزے رکھیں مگر گانوں
باجوں، فلموں ڈراموں، غیر عورتوں کو تاکنے جھانکنے اور امردوں (یعنی بے ریش خوبصورت
لڑکوں) پر بری نظر ڈالنے جیسے بے حیائی کے کاموں سے باز نہ آئیں۔ یا د رکھئے! ہزاروں
سال کی نفلی نمازوں، نفلی روزوں، کروڑوں، اربوں روپیوں کی نفلی خیراتوں، بہت سارے نفلی
حج اور عمرے کی سعادتوں کے بجائے صرف ایک گناہ صغیرہ سے اپنے آپ کو بچا لینا افضل ہے۔
کیونکہ کروڑوں نفلی کاموں کے ترک پربھی قیامت میں عذاب کی کوئی وعید نہیں جبکہ گناہ
صغیرہ سے بچنا واجب اور اس کے ارتکاب پر بروز قیامت مؤاخذہ اور سزا کا استحقاق ہے۔
بری صحبت اور گندے ماحول کے دلدادہ بعض نادان لوگ معاذ
اللہ گھر کی پوشیدہ باتیں نیز ازدواجی خفیہ معاملات بھی اپنے بے حیا دوستوں کے سامنے
بیان کر ڈالتے ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، پیکر شرم و حیا، مکی مدنی
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ کے نزدیک
بروز قیامت مرتبے کے اعتبارسے سب سے برا شخص وہ ہے جواپنی بیوی کے پاس آئے اور بیوی
اس کے پاس آئے پھر وہ اپنی بیوی کے راز کو (لوگوں میں) ظاہر کردے۔ (مسلم، ص 753، حدیث: 1437)
حیا کرنے کا حق: حضرت
عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم
سے فرمایا: اللہ سے حیاء کرو جیسا حیاء کرنے
کا حق ہے۔ عبداﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا: ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں اور سب خوبیاں اللہ کیلئے
ہیں۔ ارشاد فرمایا: یہ نہیں، بلکہ اللہ سے
کما حقّہ حیاء کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ سر اور سر میں جتنے اعضاء ہیں انکی اور پیٹ
کی اور پیٹ جن جن اعضاء کو گھیرے ہے ان کی حفاظت کرے اور موت اور مرنے کے بعد گلنے
سڑنے کو یاد کرے۔ اور آخرت کو چاہنے والا دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دیتا ہے تو جس نے
ایسا کیا اس نے اللہ سے شرمانے کا حق ادا کر دیا۔ (مسند امام احمد، 2/33، حدیث:
3671)
ہمیں اپنے جسم کے تمام اعضاء کو حیا کا عادی بنانا اور
گناہوں سے بچانا چاہئے۔
سر کی حیاء: سر کو برائیوں
سے بچانا یہ ہے کہ برے خیالات، گندی سوچ اور کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی وغیرہ
سے احتراز (پرہیز) کیا جائے اور سر کے اعضاء جیسے ہونٹ، زبان، کان اور آنکھوں وغیرہ
کے ذریعے بھی گناہ نہ کئے جائیں۔
زبان کی حیاء زبان کو برائیوں سے بچاتے ہوئے بدزبانی
اور بے حیائی کی باتوں سے ہر وقت پرہیز کرنی چاہئے، اپنے بھائی کو گالی دینا گناہ ہے
اور بے حیائی کی باتیں کرنے والے بد نصیب پر جنّت حرام ہے۔
جنّت حرام ہے: حضور تاجدار مدینہ
ﷺ کا فرمان باقرینہ ہے: اس شخص پر جنّت حرام ہے جو فحش گوئی (یعنی بے حیائی کی بات)
سے کام لیتا ہے۔ (ا لجامع الصّغیر للسّیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
جہنّمی بھی بیزار: منقول
ہے: چار طرح کے جہنّمی کہ جو کھولتے پانی اور آگ کے مابین(یعنی درمیان) بھاگتے پھرتے
ویل وثبور (ھلاکت) مانگتے ہونگے۔ ان میں سے ایک وہ شخص کہ اس کے منہ سے پیپ اور خون
بہتے ہونگے۔ جہنّمی کہیں گے: اس بد بخت کو
کیا ہوا ہماری تکلیف میں اضافہ کئے دیتا ہے ؟ کہا جائے گا: یہ بدبخت خبیث اور بری بات کرتا تھا۔
شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی، فرماتے ہیں:
جو بے حیائی کی باتوں سے لذّت اٹھائے بروز
قیامت اس کے منہ سے پیپ اور خون جاری ہونگے۔ (ایضاً ص188)
کتّے کی شکل میں شہوت کی تسکین کی خاطر تیری شادی، میری
شادی کہتے ہوئے بے شرمی کی باتیں کرنے والے ڈراموں کے شائقین، وی سی آر پر فحش فلمیں
دیکھنے والے، سینما گھروں میں جانے والے، فلمی گانے گنگنانے والے بیان کردہ حدیث پاک
سے درس عبرت حاصل کریں۔
حضرت ابراہیم بن میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: فحش کلامی (یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت
کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔ (اتحاف السّادۃ للزّبیدی 9 /190)
مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ
رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں: خیال رہے کہ تمام انسان قبروں سے بشکل انسانی اٹھیں گے پھر
محشر میں پہونچ کر بعض کی صورتیں مسخ ہو جائیں گی۔ (مراۃ المناجیح، 6/660)
انسان اکثر اوقات معزّزین کے سامنے بے حیائی کی باتیں
کرتے ہوئے شرماتا ہے، لیکن افسوس الٹی سیدھی باتیں کرتے وقت یہ احساس نہیں رہتا کہ
معزّز ترین ربّ العٰلمین جلّ جلالہٗ سب کچھ سن رہا ہے۔
اللہ تمام باتیں سنتا ہے حضرت بشر حافی علیہ رحمۃ اللہ
الکافی نہایت کم گفتگو کرتے اور اپنے دوستوں کو فرماتے: تم غور تو کرو کہ اپنے اعمال
ناموں میں کیا لکھوا رہے ہو! یہ تمہارے رب کے سامنے پڑھا جائے گا، تو جو شخص قبیح (یعنی
شرمناک) گفتگو کرتا ہے اس پر حیف (یعنی افسوس) ہے، اگر اپنے دوست کو کچھ لکھواتے ہوئے
کبھی اس میں برے الفاظ لکھواؤ تو یہ تمہاری حیا کی کمی کی وجہ سے ہے۔ تو اپنے رب کے
ساتھ ایسا معاملہ کتنا برا ہوگا (یعنی جب نامہ اعمال میں بے حیائی کی باتیں ہوں۔ (تنبیہ
المغترین، ص 228)
ایمان کے دو شعبے: سرکار
مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: حیاء اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے
ہیں اور فحش بکنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔ (ترمذی، 3/414، حدیث:
2034)
مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ
رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے اس حصے زیادہ بولنا کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی ہر بات
بے دھڑک منہ سے نکال دینا منافق کی پہچان ہے۔ زیادہ بولنے والا گناہ بھی زیادہ کرتا
ہے یعنی اسی فیصدی گناہ زبان سے ہوتے ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/435)
سر کے اعضاء میں آنکھیں بھی شامل ہیں، انکو بھی بد نگاہی
اور جن چیزوں کی طرف نظر کرنا شرعًا ناجائز ہے، ان سے بچانا اشدّ ضروری و تقاضائے حیاء
ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مروں پھر زندہ ہوں، پھر مروں پھر زندہ ہوں، پھر
مروں پھر زندہ ہوں تب بھی میرے نزدیک یہ اس سے بہتر ہے کہ میں کسی کے ستر (یعنی شرمگاہ)
کو دیکھوں یا کوئی میرے ستر کو دیکھے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)
فاسق کون؟ کسی دانا سے پوچھا گیا کہ فاسق کون ہے ؟ فرمایا:
فاسق وہ ہے جو اپنی نظر لوگوں کے دروازوں اور
انکے ستروں (پردے کی جگہوں) سے نہ بچائے۔ (تنبیہ الغافلین، ص 258)
ملعون ہے حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے روایت
ہے کہ: رسول اکرم ﷺ کا ارشاد عبرت بنیاد ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ کی لعنت ہو دیکھنے
والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھاجائے۔ (شعب الایمان، 6/162، حدیث: 7788) مفسّر شہیر حکیم الامّت حضر ت مفتی احمد
یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو مرد اجنبی
عورت کوقصداً بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی
مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت غرضیکہ اس میں تین قیدیں لگانی پڑیں گی اجنبی
عورت کو دیکھنا، بلاضرورت دیکھنا، قصداً دیکھنا۔ (مراۃ المناجیح، 5/24) سرکارمدینۂ
منوّرہ، سردارمکّۂ مکرّمہ ﷺ کاارشاد عبرت بنیاد ہے: اپنی ران مت کھولواورکسی کی ران
نہ دیکھو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ۔ (ابو داود، 3/263، حدیث: 3140)

دین و اسلام کو ترقی و عروج دینے کا ایک ذریعہ حیا بھی
ہے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہوتو اس سے دین اسلام کو بہت نقصان ہوتا کیونکہ حیا
ایمان سے ہے جب انسان میں حیا نہ ہوگی تو انسان بہت سی وعیدوں کا مستحق ہوگا اور صرف
بے حیائی کرنے والا ان وعیدوں کا مستحق نہ ہوگا بلکہ اس کی دعوت دینے والا بھی گناہوں
کا مستحق ہوگا۔ اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور
چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک
عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان
اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر
توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز
اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)
آئیے اس بارے میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:
(1)حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا، اس کے لئے اسے رائج کرنے اور اپنے
بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے، اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے بھی کچھ
کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا، اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور
اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے اور ان عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہ
ہوگی۔ (مسلم، ص 508، حدیث: 1017)
(2)سید المرسلین ﷺ نے روم کے شہنشاہ ہرقل کو جو مکتوب
بھجوایا ا س میں تحریر تھا کہ (اے ہرقل!) میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں، تم
اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر عطا فرمائے گا اور
اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا۔ (بخاری،
1 / 10، حدیث: 7)
(3)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاجو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں حضرت
آدم علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے
پہلے ظلماً قتل کرناایجاد کیا۔ (بخاری، 2 / 413، حدیث:
3335)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! سنا آپ نے کہ بے حیائی اور
بے حیائی کو فروغ دینے والوں کے لیے وعیدیں ہیں، عورت گھر میں ٹھہرنے کی چیز فی زمانہ
معاذ اللہ بے حیائی کی اتنی ترویج الامان و الحفیظ نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی اس برے
فعل سے دور نہیں ہیں حالانکہ عورت کو قرآن کریم میں گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے
لیکن فی زمانہ مرد بے حیائی سے دور نہ عورت۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا
تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال
نہ رکھے گا تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ آج ضرورت اس
امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جا ئے اور اپنےتشخّص
اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔
بے شرمی و بے حیائی تباہی لاتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے
کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری
پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو
حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث
شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460،
حدیث: 4181) صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو حقیقی حیا کو فروغ دیتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے
ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں جن پر عمل کرنا پورے معاشرے کو حیا دار بنا سکتا ہے۔ اسلامی
تعلیمات فطرت انسانی میں موجود شرم و حیا کی صفت کو ابھارتی ہیں اور پھر اس میں فکر
و شعور کے رنگ بھر کر اسے انسان کا خوشنما لباس بنا دیتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ کی شرم و
حیا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مصطفےٰ جان رحمت ﷺ کنواری، پردہ نشین
لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ظلماً قتل کیا جاتا ہے تو اس کے ناحق خون میں حضرت
آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کا حصہ ضرور ہوتا ہے کیونکہ اسی نے پہلے ظلماً قتل کرنا ایجاد
کیا۔ (بخاری، 2 / 413، حدیث: 3335)
حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔
یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر
ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا
ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)
نور ایمان جتنا زیادہ ہوگا شرم و حیا بھی اسی قدر پروان
چڑھے گی۔

قرآن و سنت میں بے حیائی کے کاموں سے بچنے اور حیاکی
تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنَّمَا
حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
حدیث مبارکہ میں آپﷺ کا فرمان ہے: لوگوں تک گزشتہ نبیوں
کا جو کلام پہنچا، اس میں یہ بھی مذکور تھا: جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہے کرو۔
(بخاری، 4/131، حدیث: 6125)
صفت حیاء فطرت سلیمہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی ہے تو جب
انسان قرآن وحدیث پر بھی عمل نئی کرےگاتو پھر ان فحش و بے حیائی کے کاموں میں خود تو
ملوث ہوگا ہی ساتھ اسکی اشاعت کرکے دوسروں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
الله پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا: اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ
سے مراد وہ تمام اقوال اور افعال ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے البتہ یہ یاد رہے کہ
اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں
ان میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2) کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔
(3) علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش
واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(4) حرام کاموں کی
ترغیب دینا۔
(5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا
جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(6)ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ
وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔
(7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں
دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔
(8) ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور
بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا
لیا گیا ہو۔
(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ اپنے طرز عمل پر غور وفکر فرمائیں
بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات
سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ لہذا
ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند یدہ ہوں ان
سے بچائیں کہ یہ وصف شرم وحیا کہلاتا ہے۔
اور اس کا برعکس بے حیائی و بے شرمی ہے قرآن و سنت ہمارا
پیارا دین اسلام ہمیں بے حیائی فحش سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اسلام اور حیا کا آپس
میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔
سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان
آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک
للحاکم، 1/176، حدیث:66)
یاد رکھئے! اگر ہم خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا
ہونگے تبھی ہماری اولاد، گھر والےاور دوسرے بھی ان صفات و خصائل کی حامل ہوں گے اور
اگر خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھیں گے تو دوسروں کو کیسے اس مرض سے بچائیں گے اب ضرورت
اس امر (بات) کی ہے کہ حیا کو متأثّر کرنے والے تمام عوامل سے خو بھی دور رہا جا ئے
اور اپنےتشخّص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔ اہر دوسروں کو بھی بچایا جائے۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (حیاء ایمان کا حصہ ہے)
حیاء جنت میں جانے کا سبب ہے بے حیائی دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث:
2016)
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب
کسی بندہ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے شرم حیاء کو کھینچ لیتا ہے تو اس شخص کو صرف
ایسا ہی پاؤ گے کہ وہ بغض سے بھرا ہوا اور لوگوں کے نزدیک نہایت ہی مبغوض پاؤ گے خود
بھی سب سے بغض رکھے گا اور سب لوگ بھی اس سے بغض رکھے گئے جب وہ شخص اس درجہ مبغوض
ہو جاتا ہے تو اس سے ایمان سلب کر لیا جاتا ہے اب اس شخص کو جہاں بھی موقع ملے گا وہ
خیانت ہی کرے گا اور لوگوں کے نزدیک بھی خیانت میں مشہور ہو جائے گا تو جی اس کا یہ
وصف ہو جائے گا تو اس سے رحمت کھینچ لی جائے گی نہ اس کے دل میں نرمی ہو گی اور نہ
ہی وہ مخلوق پر مہربان ہو گا تو جب اس کی یہ حالت ہو جائے گی تو اس کو جہاں بھی پاؤ
گے ملعون ہی پاؤ گےاس پر لعنت ہی برستی ہو گی اس کی گردن سے اسلام کا حلقہ نکال لیا
جائے گا پھر وہ بے باک ہو کر اسلام کی حدود کو توڑنے لگے گا۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک تین شخصوں پر
جنت حرام فرما دی ہے:1 شراب پینے والا۔ 2 والدین کا نافرمان۔ 3 تیسرا وہ جو بے حیائی
کو برقرار رکھتا ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ سے ایسی شرم کرو جیسا اس سے کرنے کا حق ہے لوگوں
نے کہا ہم تو اللہ سے حیاء کرتے ہے خدا کے رسول اللہ تعالیٰ کے لیے حمد سزاوار ہے
آپ نے فرمایا کہ اتنی سی بات نہیں لیکن جسا اللہ سے شرم کرنے کا حق ہے وہ یہ ہے کہ
سر کی حفاظت کرے اور ان سب کی حفاظت کرے جو سر میں جمع ہے اور پیٹ کی حفاظت کرے اور
ان سب کی جن کو پیٹ نے گھیر رکھا ہے اور موت کو یاد رکھے کہ ایک دن مرنا ہے اور جسم
کا بوسیدہ ہو جانا ہے دنیا کی زینت کو چھوڑ دے آخرت کو پہلی زندگی پر ترجیح دے جس نے
ان تمام چیزوں پر عمل کر لیا تو اس نے اللہ سے شرم کرنے کا حق ادا کر لیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب جب بھی کسی غیر محرم
عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(ترمذی، 4/67،
حدیث: 2172)
اللہ پاک ہمیں حیاء جیسی عظیم دولت سے مالامال فرمائے۔
آمین یارب العالمین

حدیث شریف میں ہے: شرم غیرت اور ایمان سارے ساتھی ہیں
تو جب ان میں سے ایک اٹھالیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھالیا جاتا ہے۔ (مستدرک، 1 /
176، حدیث: 66)
بے حیائی کے نقصانات: مسلمانوں
میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب
سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ
عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے
تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا
ہے اور تم نہیں جانتے۔
واقعہ ملاحظہ فرمائیں: سید المرسلین ﷺ نے روم کے شہنشاہ
ہرقل کو جو مکتوب بھجوایا ا س میں تحریر تھا کہ اے ہرقل! میں تمہیں اسلام کی طرف دعوت
دیتا ہوں، تم اسلام قبول کر لو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں دگنا اجر عطا
فرمائے گا اور اگر تم (اسلام قبول کرنے سے) پیٹھ پھیرو گے تو رعایا کا گناہ بھی تم
پر ہوگا۔ (بخاری، 1 / 10، حدیث: 7)
جب تیرے دل میں الله رسول کی اپنے بزرگوں کی شرم و حیاء
نہ ہوگی تو برے سے برے کام کر گزرے گا کیونکہ برائیوں سے روکنے والی چیز تو غیرت ہے
جب وہ نہ رہی تو برائی سے کون روکے،بہت لوگ اپنی بدنامی کے خوف سے برائیاں نہیں کرتے
مگر جنہیں نیک نامی بدنامی کی پرواہ نہ ہو وہ ہر گناہ کر گزرتے ہیں۔
بے حیائی میں داخل ہونے والی چند چیزیں:
(1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔
(2)علمائے اہلسنّت
سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔
(3) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن
میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔
(4)فحش تصاویر
اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔
(5) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان
کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔
(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں
کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔
(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شرم و حیا ایک ایسا مضبوط قلعہ
ہے، جو ذلّت و رسوائی سے بچاتا ہے اور جب کوئی شرم و حیا کےا س دائرے سے تجاوز کر لے
تو وہ بے شرمی اور بے حیائی کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔
یوں تو انسان
میں کئی اور عادتیں اور اوصاف بھی ہوتے ہیں لیکن شرم و حیا ایک ایسا وصف ہےکہ اگر لب
و لہجے، عادات و اطوار اور حرکات و سکنات سے یہ پاکیزہ وصف نکل جائے تو دیگر کئی اچھے
اوصاف اور عمدہ عادات (Good Habits) پر پانی پھر جاتا ہے۔ دیگر کئی نیک اوصاف شرم
و حیا کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کی نظروں
سے گر جاتا ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ
تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی
الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ارادہ کرتے اور چاہتے
ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب
ہے دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے۔
فرمان مصطفٰی ﷺ ہے: بے حیائی جس چیز میں ہو اسے عیب
دار کر دیتی ہے اور حیا جس چیز میں ہو اسے زینت بخشتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4 / 461،
حدیث: 4185)
حضور جان عالم ﷺ نے فرمایا: اس شخص پر جنت حرام ہے جو
فحش گوئی (بے حیائی کی بات) سے کام لیتا ہے۔ (الجامع الصغیر للسیوطی، ص 221، حدیث:
3648)
منقول ہے چار طرح کے جہنمی جو کھولتے پانی اور آگ کے
مابین بھاگتے پھرتے ویل و ثبور (ہلاکت) مانگتے ہو گے ان میں سے ایک شخص وہ کے جس کے
منہ سے خون اور پیپ بہتے ہوں گے جہنمی کہیں گے اس بد بخت کو کیا ھوا ہماری تکلیف میں
اضافہ کیے دیتا ہے ؟کہا جائے گا یہ بد بخت خبیث اور بری بات کی طرف متوجہ ہو کر اس
سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ (اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/147)
شعیب بن ابی سعید رضی اللہ عنہ سے مروی فرماتے ہیں جو
بے حیائی کی باتوں سے لذت اٹھائے بروز قیامت اس کے منہ سے خون اور پیپ جاری ہوں گے۔
(اتحاف السادۃ للزبيدی، 9/188)
حضرت ابراہیم بن میسرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: فحش
کلامی یعنی بے حیائی کی بات کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا۔
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو
چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)
حقیقت ہے کہ مردوں کے اخلاق و عادات بگڑنے سے معاشرہ
بگڑنے لگتا ہے اور جب عورتوں میں یہ بیماری پھیل جائے تو نسلیں تباہ و برباد ہوجاتی
ہیں۔ لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو
تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق
ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث: 4181)
یا الہٰی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثمان غنی با حیا
کے واسطے

حیا ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو دیگر برائیوں سے روکتی
ہے۔اگر انسان میں حیا ہی نہ رہے تو اسکا دل جلد ہی گناہوں کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ فرمان
مصطفٰے ﷺ ہے: ایمان کے ستّرسے زائد شعبے (یعنی خصلتیں) ہیں اور حیا ایمان کا ایک شعبہ
ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)
مفسرشہیرحکیم الامّت حضر ت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ
الحنّان لکھتے ہیں: صرف ظاہری نیکیاں کرلینا اور زبان سے حیا کا اقرار کرنا پوری حیا
نہیں بلکہ ظاہری اور باطنی اعضاء کو گناہوں سے بچانا حیاہے۔ چنانچہ سرکو غیرخدا کے
سجدے سے بچائے، اندرون دماغ کو ریا اورتکبرسے بچائے، زبان، آنکھ اور کان کو ناجائز
بولنے، دیکھنے، سننے سے بچائے، یہ سر کی حفاظت ہوئی، پیٹ کو حرام کھانوں سے، شرمگاہ
کو زنا سے، دل کو بری خواہشوں سے محفوظ رکھے یہ پیٹ کی حفاظت ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ نعمتیں
رب کی عطاء اور جناب مصطفیٰ ﷺ کی سخا سے نصیب ہوسکتی ہیں۔ (مراٰۃ المناجیح، 2 / 440)
اللہ فرماتا ہے: قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ
فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ
18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی
رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی
ظاہر ہے۔
احادیث مبارکہ میں ہے: حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے مرسلاً
مروی ہے، کہتے ہیں مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھنے والے پر اور
اس پر جس کی طرف نظر کی گئی اللہ لعنت فرماتا ہے (یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر قصداً
دیکھے اور دوسرا اپنے کو بلا عذر قصد ادکھائے)۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/ 574، حدیث: 3125)
سنن ابو داؤد میں ہے: اور ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان
کا زنا (حرام کو) پکڑنا ہے اور پاؤں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (حرام کی طرف) چلنا
ہے اور منہ (بھی) زنا کرتا ہے اور اس کا زنا بوسہ دینا ہے۔ (ابو داود، 2 / 359، حدیث: 2153)
صحیح مسلم میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے، فرماتے ہیں کہ رسولاللہ ﷺ نے فرمایا: دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہونگی جن میں
نے (اپنے اس عہد مبارک میں) نہیں دیکھا (یعنی آئندہ پیدا ہونے والی ہیں، ان میں) ایک
وہ قوم جن کے ساتھ گائے کی دم کی طرح کوڑے ہونگے جن سے لوگوں کو ماریں گے اور (دوسری
قسم) ان عورتوں کی ہے جو پہن کر ننگی ہوں گی دوسروں کو (اپنی طرف) مائل کرنے والی اور
مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی ایک طرف جھکی ہوئی کوہانوں کی طرح
ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ا س کی خوشبو پائیں گی حالانکہ اس کی خوشبو
اتنی اتنی دور سے پائی جائے گی۔ (مسلم، ص 1177، حدیث:
2128)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کے سر میں
لوہے کی سوئی گھونپ دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی عورت کو چھوئے
جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (معجم کبیر، 20 / 211، حدیث:
486)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی
اختیار کرنے سے بچو! اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کوئی شخص کسی
عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہیں کرتا مگر ان کے درمیان شیطان داخل ہوجاتا ہے اور مٹی
یا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لتھڑا ہوا خنزیر کسی شخص سے ٹکرا جائے تو یہ اس کے لئے اس
سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت سے ٹکرائیں جو اس کے لئے حلال نہیں۔ (الزواجر
عن اقتراف الکبائر، 2 / 6)

بے حیائی اور بد اخلاقی سے بچنے کے بارے میں قرآن اور
حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید نے بے حیائی اس کے کاموں سے روکا اور اچھے
اخلاق کی تعلیم دی ہے، اور نبی اکرم ﷺ نے اپنی احادیث میں بھی اس بارے میں واضح احکامات
اور نصیحتیں فرمائی ہیں۔
قرآن مجید میں بے حیائی کے متعلق آیات:
1۔ سورۃ الاعراف (7:33):
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ (پ
8، الاعراف: 33) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میرے رب نے تو بے حیائیاں حرام
فرمائی ہیں (ف۴۹) جو ان میں کھلی ہیں اور جو چھپی۔
2۔ *سورۃ النور (24:19): اِنَّ
الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ
18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا
پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں
جانتے۔
3۔ *سورۃ بنی اسرائیل (17:32): وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ
15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔
4۔ *سورۃ النور (30، 31): قُلْ
لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا
فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا
یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ
18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ
اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ
پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ
مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ
اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ 18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان
عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں
اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔
5۔ *سورۃ الاعراف (7:26): یٰبَنِیْۤ
اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ
رِیْشًاؕ-وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ- (پ 8،
الاعراف: 26) ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپے
اور زینت کا باعث ہو۔ اور تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔
احادیث میں بے حیائی کے بارے میں تعلیمات:
1۔ بے حیائی جب بھی کسی چیز میں ہوتی ہے تو وہ اسے عیب
دار بنادیتی ہے، اور جب بھی حیا کسی چیز میں ہوتی ہے تو اسے خوبصورت بنادیتی ہے۔(ابن
ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)
2۔ ایمان اور حیا دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اگر
ان میں سے ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)
3۔ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131،
حدیث: 6125)
4۔ اللہ حیا
کرنے والا اور پردہ پوشی فرمانے والا ہے، وہ فحش باتیں اور بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔
(ابو داود، 4/56، حدیث: 4012)