رابطہ برائے حکیم  ڈیپارٹمنٹ دعوت اسلامی کے تحت لاڑکانہ ڈویژن میں افطار اجتماع ہوا جس میں مختلف مقامات سے حکیم صاحبان نے شرکت کی ۔

مبلغ دعوت اسلامی نے بیان کیا جس میں حکما حضرات کو روزہ ،تراویح اور تلاوت قرآن پاک کرکے ماہ ِ رمضان المبارک کو بابرکت بنانے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

اس موقع پر صوبائی ذمہ دار مولانا محسن عطاری مدنی اور ڈویژ ن ذمہ دار لاڑکانہ عبدالحفیظ عطاری بھی موجودتھے۔(کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


شعبہ تعلیم دعوت  اسلامی کے زیرِ اہتمام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں افطار اجتماع منعقد ہوا جس میں یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس نے شرکت کی ۔

اس موقع پر محفل نعت کا سلسلہ بھی ہوا اور مبلغ دعوت اسلامی نے ”ماہ رمضان المبارک “ کی مناسبت سے بیان کیا جس میں شرکا کو نیک اعمال کرنے اور دعوت اسلامی کے دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے بھلے جذبات کا اظہار کیا۔

دورانِ بیان ذمہ دار اسلامی بھائی نے فیضان آن لائن اکیڈمی کے تحت ہونے والے مختلف کورسز کے حوالے سے معلومات دیتے ہوئے ان میں داخلہ لینے کی ترغیب دلائی جس پر 60سے زائد اسٹوڈنٹس نے مختلف کورسز میں داخلہ لینے کی نیتیں کیں۔(رپورٹ:شعبہ تعلیم ملتان ڈویژن ڈسٹرکٹ وہاڑی، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوت اسلامی   کے زیرِ اہتمام زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کی سینٹرل لان قاسم ہاسٹل میں سالانہ افطار اجتماع ارینچ کیا گیا جس میں 800سے زائد اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔

اجتماع کا آغاز تلاوتِ قرآن ِ پا ک و نعت شریف سے ہوا پھر مبلغ دعوت اسلامی نے ”رمضان المبار ک کے فضائل و برکات“ کے موضوع پر بیان کیا اور ماہ ِ مبارک کی خوب قدر و منزلت کرنے کی ترغیب دی جبکہ آخر میں مناجات و دعا کا سلسلہ بھی ہوا۔(رپورٹ:شعبہ تعلیم ملتان ڈویژن ڈسٹرکٹ وہاڑی، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


مدنی  مرکز فیضانِ مدینہ وہاڑی میں دعوت اسلامی کے شعبہ تعلیم کی جانب سے افطار اجتماع منعقد ہوا جس میں PHD ڈاکٹرز ،ٹیچرز ،پرنسپلز اور اسٹوڈنٹس نے شرکت کی ۔

افطار اجتماع میں مبلغ دعوت اسلامی نے ” فضائل رمضان“ کے موضوع پر بیان کیا جس میں رمضان المبارک کوخوب نیکیوں میں گزارنے کی ترغیب دلائی اور دعوت اسلامی کا تعارف پیش کرتے ہوئے شرکا کو فرض علوم پر مشتمل مختلف کورسز کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے کورسز کرنے کی اچھی اچھی نیتیں بھی کیں۔(رپورٹ:شعبہ تعلیم ملتان ڈویژن ڈسٹرکٹ وہاڑی، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پچھلے دنوں  فرنیچر مارکیٹ منظورکالونی میں مارکیٹ ذمہ دار عابد عطاری کے گھر مدنی حلقے کا انعقاد ہوا جس میں ڈسٹرکٹ نگران واصف عطاری، ٹاؤن نگران عرفان ایوبی اور یوسی نگران عامر عطاری نے شرکت کی۔

نگران ڈویژن مشاورت مولانا حاجی محمد رضا عطاری مدنی نے 12 دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کی اور اہداف دیئے جس پر اسلامی بھائیوں نے اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔

بعدازاں مولانا حاجی محمد رضا عطاری مدنی نے اسلامی بھائیوں کے ہمراہ مشتاق عطاری کے کارخانے کا وزٹ کیا اور وہاں اسلامی بھائی کو دینی کاموں کی ذمہ داری دی نیز شورم ذمہ دار نثار عطاری سے دینی کاموں پر مشاورت کی جس میں انہیں مارکیٹ میں مدنی حلقہ لگانےاور مدرسۃ المدینہ بالغان کے ساتھ رمضان ڈونیشن کا ہدف دیا۔ ساتھ ساتھ یوسی نگران حمزہ علی عطاری کو ان کی معاونت کرنے کی ترغیب دلائی۔(کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


عفو کا مفہوم دوسروں کی غلطیوں زیادتیوں پر درگزر کرنااوران پر مہربان ہوکر معاف کردینا ہے عفو ایسی محمود پسند ی صفت ہے کہ اس کے سبب سے دل میں کدورت نہیں رہتی اور صفائی پیدا ہوتی ہے اور انسانوں سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہنی زندگی میں ہمدردی و محبت پیدا ہو جاتی ہے ہمارے لیے انسانیت کے سب سے بڑے محسن و ہادی اعظم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ آپ ﷺ نے کسی سے اپنے ذاتی معاملے میں اختیار کے باوجود انتقام نہیں لیا سوائے اس صورت کہ جب کسی نے احکام الٰہی کی ہنسی اڑائی اس کی شدید مخالفت کی۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حضرت سید نا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موتے اور کھردرے تھے ایک دم ایک بدوی نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑکر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ رسو ل اللہ ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنار سے خراش اگی وہ کہنے لگا اللہ کا جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے آپ حکم دئجے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے حضور ﷺ اسکی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)

2۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ جنت میں اسکے لیے محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند ہوں اسے چاہیے کہ جب کوئی اس پر ظلم کرے تو وہ اسکو معاف کرے جو اسے محروم کرے وہ اسے عطا کرے اور جو قطع تعلقی کرے یہ اسے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)

3۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ نے عرض کی: اے رب تیرے نزدیک کونسا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ اللہ نے فرمایا جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کرے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

4۔ سرکار ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

5۔ حضور ﷺ پر لبید بن اعصم نے جادو کیا تو رحمت عالم ﷺ نے اس کا بدلہ نہیں لیا نیز اس یہودیہ کو بھی معاف فرما دیا جس نے آپ ﷺ کو زہر دیا تھا۔ (مواہب لدنیہ، 6/91)

6۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کہ روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا کون جائے گا جس کے لیے اجر ہے وہ منافی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزرواں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

حدیث مبارکہ سے ہمیں پیار ے آقا ﷺ کے عفو در گزر کے بارے میں پتہ چلا کہ ہمارے آقا ﷺ سب سے بڑھ کر سخی اور معاف فرما دینے والے تھے کفار آپ ﷺ کو طرح طرح ستا یا کرتے تھے لیکن آقا ﷺ اس کے باوجود کبھی کسی سے اپنی ذات کے لیے بدلہ نہیں لیتے تھے معاف فرما دیا کرتے تھے اللہ پاک ہمیں بھی اپنے ہر معاملہ کو احسن انداز میں کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور دوسروں سے بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

عفو درگزر کے معنی معاف کر دینے کے ہیں یعنی کسی کی غلطی کرنے پر اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کر دینا ہے۔

مدنی آقاﷺ کا عفو و درگزر:

حضرت انس رضی اﷲ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، ایک دم ایک بدوی (یعنی دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کراتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ سلطان زمن، محبوب رب ذوالمنن ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آ گئی، وہ کہنے لگا: اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے، آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/ 359، حدیث: 3149)

ہر خطا پر مری چشم پوشی، ہر طلب پر عطاؤں کی بارش

مجھ گنہگار پرکس قدر ہیں، مہرباں تاجدار مدینہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر واور جو تم سے قطع تعلّق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہوکہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اوراسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے چاہیے کہ جو اس پرظلم کرے یہ اسے معاف کرے اورجو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اورجو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3/12، حدیث: 3215)

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم المرسلینﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کاقصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

معزز کون؟

حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام نے عرض کی: اے ربّ اعلیٰ !تیرے نزدیک کون سابندہ زیادہ عزّت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان 6/319، حدیث: 8327)

معاف کرو معافی پاؤ: سرکار دو جہاں ﷺ کافرمان عالیشان ہے: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنااختیار کرو اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)

عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا، بخش دینا، درگزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں، الله پاک ارشاد فرماتا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

معلوم ہوا کہ لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا رب کریم کو بہت پسند ہے یادرہے! شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اسے ہرگز یہ گوارہ نہیں کہ مسلمان آپس میں متحد رہیں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرے ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کرے اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرے اپنے حقوق معاف کر دیا کرے دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرے وغیرہ کیونکہ اگر ایسا ہو گا تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا اور شیطان ناکام و نامراد ہو جائے گا اس لئے وہ مسلمانوں کو معاف کرنے اور غصے پر قابو نہیں پانے دیتا لہذا شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے وار کو ناکام بنا دیجئے اور درگزر کرنا اختیار کریں۔

یاد رہے کسی مسلمان سے غلطی ہو جانے پراسے معاف کرنا اگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تو الله پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی قرار پائیں گے ان شاءالله اس کے بارے میں 5 احادیث مبارکہ سنئے اور لوگوں کو معاف کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ تین باتیں جس شخص میں ہوگی الله کریم قیامت کے دن اسکا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اسکو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی: یارسول الله ﷺ وہ کونسی تین باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے اسکو عطا کرو اورجو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو جو تم پر ظلم کرے تم اسکو معاف کر دو۔ (معجم اوسط،1/542، حدیث:5064)

2۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجراللہ پاک کے ذمے کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث:1998)

3۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن الله پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

4۔ ہر دور میں میرے امتیوں کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس ہیں نہ پانچ سو سے کوئی کم ہوتا ہے اور نہ ہی چالیس سے جب چالیس ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو رب کریم پانچ سو میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرر فرماتا اور یوں 40 کی کمی پوری فرماتا ہے عرض کی گئی ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے فرمایا ظلم کرنے والے کو معاف کرتے برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور الله پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء، 1/39، حدیث: 15)

5۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول الله ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپﷺ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں 70 کا لفظ یعنی بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کے غلام سے خطا غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی قصور نہ ہو کر یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراة المناجیح، 5/170)

آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاءالله اس کی برکت سے جنت کے خوشخبری سے نوازہ جائے گا کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کر کے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں مگر افسوس آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچا دے یا ذرا سی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ دیتے ہیں اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم رحمت کونین نانائے حسنین کی پاکیزہ سیرت کا مطالعہ کریں تو ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گا کہ آقا ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرما دیتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت عفو بھی ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ خطاکار اور عذاب کے مستحق کو معاف فرمانے والا اور بندوں کی نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں سے درگزرکرنے والا، غلطی اور نافرمانی ہونے پر بھی رحم فرمانے والا اور نرمی و محبت سے پیش آنے والا۔

مے عصیاں سے کبھی ہم نے کنارہ نہ کیا مگر دل آزردہ تم نے ہمارا نہ کیا

ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر مگر تیری رحمت نے گوارہ نہ کیا

تمام انبيا بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کی صفت عفو کے مکمل نمونہ اور آئینہ دار ہیں۔ آپ کی عملی زندگی و سیرت کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ سب سے بڑھ کر درگزر فرمانے والے اور رحم فرمانےہیں درگزر فرمانے کی روشن اور واضح دلیل و اضح ہے۔

قرآن پاک میں ہے: وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ غصے کو پی جانا اور لوگوں سے درگزر کرنا ایسا بہترین عمل ہے کہ جو خوش نصیب مسلمان یہ عمل بجا لاتا ہے اس کا شمار اللہ پاک کے نیک بندوں میں ہوتا ہے۔

حضور سید عالم ﷺ نے فتح مکہ کےدن عام معافی کا اعلان فرمایا مکہ والوں کو معاف کر دیا، طائف والوں کو معاف فرما دیا آپ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے آقا ومو لا ﷺ کی احادیث مبارکہ سے ہمیں جو ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں ان میں کچھ یہ ہیں:

عفو درگزر کے فضائل:

1۔ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہونگی اللہ پاک اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرماے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ ! وہ کونسی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کر ےتم اسے عطا کرو۔ جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

2۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں: آپ ﷺ نے کبھی کسی غلام، لونڈی، عورت، بچہ یا خادم کو نہیں مارا، سوائے جہاد فی سبیل اللہ کے اور کبھی آپ نے اپنی ذات کیلئے کسی سے انتقام نہیں لیا لیکن اگر کوئی حدود اللہ کی بے حرمتی کرتا تو نبی کریم اسے برداشت نہیں کرتے اور اللہ کے لیے اس کاانتقام لیتے۔

3۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کی: تیرے بندوں میں سے تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو بدلے کی طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)

4۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)

ایک دوسرے کو معاف کردینے کا عمل ہی حقیقت میں تمام افراد معاشرہ کو در پیش انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے۔ معافی کی صفت اپنانے سے انسان خود بھی پرسکون، چین و اطمینان میں رہتا ہے اور معاشرے میں بھی ایک دوسرے کو معاف کر دینے کارجحان پروان چڑھتا ہے۔ جو طاقت رکھنے کےباوجود لوگوں کی تلخیوں، زیادتیوں اور مظالم کو معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہےجیسےکریم آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ پاک عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

5۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل جاے پوچھاجائےگا: کس کے لیے اجر ہے ؟ اعلان کرنے والا کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گےاور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)

حضور نبی اکرم ﷺ کی پوری زندگی جہاں قیامت تک ہمارے لیے مشعل راہ اور کامل نمونۂ حیات ہے وہاں آپ ﷺ کی پوری حیات مقدس عفو و درگزر اور رواداری سے بھرپور ہے اور اسوہ حسنہ کا اعلی نمونہ بھی ہے۔لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاءاللہ اس کی برکت سےجنت کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔

اللہ ہم سب مسلمانوں کو عفو درگزر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین 

عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا، بخش دینا، درگزر کرنا، بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

عفو و درگزر پر مشتمل فرامین مصطفیٰ:

1۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے دن الله پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

2۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا اور معاف کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حديث: 7062)

3۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول الله ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں آپ ﷺ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپﷺ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

4۔ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو الله تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو الله پاک کے لئے عاجزی اختیار کرے الله اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

5۔ تین باتیں جس شخص میں ہوگی الله کریم قیامت کے دن اس کا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم رضوان نے عرض کی: یا رسول الله ﷺ وہ کونسی تین باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تمہیں محروم کرے اس کو عطا کرو اورجو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو جو تم پر ظلم کرے تم اسکو معاف کر دو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)

ہم نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاءالله اس کی برکت سے جنت کے خوشخبری سے نوازہ جائے گا کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کر کے ثواب کا خزانہ پاتے ہیں مگر افسوس آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچا دے یا ذرا سی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ دیتے ہیں اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے بلکہ معاف کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے

اللہ پاک سے دعا ہے کہ آقا ﷺ کے طفیل ہم سب مسلمان پر کرم فرمائے اور سب کو معاف کرنے کی توفیق سے نوازے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

کاش!ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظالم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے۔

چنانچہ حیات اعلی حضرت میں ہے، میرے آقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلظات (یعنی گندی گالیوں) سے بھر پور تھے۔ معتقدین برہم (غصے) ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کر یں گے۔ اعلی حضرت نے فرمایا، جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیریں تقسیم کر دو پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کر دو، مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں۔ (حیات اعلی حضرت، 1/143)

عفو در گزر کے معنی: کسی دوسرے کی خطا کو معاف کر دینا۔

عفو درگزر کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:

1۔ سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: رحم کرو تم پر رحم کیاجائے اور معاف کرنا اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)

ہم نے خطا میں نہ کی تم نے عطا میں نہ کی

کوئی کمی سرورا تم پہ کروڑوں درود

2۔ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لیے اجر ہے ؟منادی یعنی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542،حدیث: 1998)

3۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟آپ ﷺ خاموش رہے۔اس نے پھر سوال دہرایا، آپ ﷺ پھر خاموش رہے جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا روزانہ ستر بار۔ (ترمذی، 3/381،حدیث: 1956)

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہردن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاء غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا زاتی ہو، شریعت کایا قومی وملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراۃ المناجیح، 5/170)

4۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے رب اعلیٰ!تیرے نزدیک کون سابندہ زیادہ عزت والا ہے؟فرمایا وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث: 8327)

5۔ آقا ﷺ کا فرمان ہے: بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس(معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)

میٹھےمدینے والے مصطفی ﷺ کے دیوانو! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے،عفو درگزر سے کال لیجیئے اور اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش کیجیے۔

اللہ پاک ہمیں عفو درگزر جیسی نعمت سے نوازے۔ آمین

وَ  الْكٰظِمِیْنَ  الْغَیْظَ  وَ  الْعَافِیْنَ  عَنِ  النَّاسِؕ- وَ  اللّٰهُ  یُحِبُّ  الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ صراط الجنان میں ہے: آیت مبارکہ میں متقین کے چار اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ (1) خوشحالی اور تنگدستی دونوں حال میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا، (2) غصہ پی جانا، (3) لوگوں کو معاف کردینا، (4) احسان کرنا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے (جنت میں) محل بنایا جائے اور ا س کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کر ے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 3 / 12، حدیث: 3215)

2۔ جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پھر دوسری بار اعلان کرے گا کہ جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں (کی خطاؤں) کو معاف کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا:جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔(معجم اوسط،1 / 542، حدیث: 1998)

3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا:اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نورﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے،پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2 / 359، حدیث: 3149)

4۔ جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

5۔ ہر دور میں میرے بہترین امّتیوں کی تعداد پانچ سو ہے اور ابدال چالیس ہیں، نہ پانچ سو سے کوئی کم ہوتاہے اور نہ ہی چالیس سے، جب چالیس ابدال میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے توربّ کریم پانچ سو میں سے ایک کو اس فوت ہونے والے ابدال کی جگہ پر مقرّر فرما تااور یوں40کی کمی پوری فرمادیتا ہے،عرض کی گئی:ہمیں ان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمائیے۔فرمایا: ظلم کرنے والے کو معاف کرتے،برائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی سے پیش آتے اور اللہ پاک نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے اس سے لوگوں کی غم خواری کرتے ہیں۔(حلیۃ الاولیاء،1/ 39، حدیث: 15)

6۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی:یارسول اللہ ﷺ !ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ ﷺ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال دہرایا،آپ ﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی، 3/381،حدیث:1956)

امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے۔ امام نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ارشاد فرمایا: جا ! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 41/ 387)

اللہ پاک سب کو عفو و درگزر کرنے والا بنائے آمین۔