اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت کی فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔ اسلام کے بنیادی اصولوں میں ایک اہم پہلو انسان کے اخلاق و کردار کی درستگی ہے۔ ان اخلاقی تعلیمات میں حیا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، جس کے بغیر کوئی معاشرہ پرامن اور متوازن نہیں رہ سکتا۔ لیکن آج کل کے معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے ان اسلامی اقدار کو متاثر کیا ہے، جس کا نتیجہ بے راہ روی، انتشار اور اخلاقی پستی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

بے حیائی، اخلاقی بدعنوانی اور فحاشی کو ظاہر کرتی ہے، جو نہ صرف فرد کی ذات بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو شرم و حیا کے خلاف ہوں، مثلاً عریانی، فحش لباس، غیر مناسب تعلقات اور نازیبا گفتگو وغیرہ۔ ایسے اعمال انسان کی اخلاقی قدروں کو پامال کرتے ہیں اور معاشرتی انتشار کا باعث بنتے ہیں۔

اسلام میں حیا کی اہمیت:اسلام میں حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا حصہ ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ حیا ایمان کا ایک لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ حیا انسان کو نیک اعمال کرنے اور برے کاموں سے باز رکھنے کا سبب بنتی ہے۔

قرآن مجید میں حیا کا ذکر: قرآن مجید میں بھی حیا اور عفت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے: قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْؕ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰) (پ 18، النور: 30) ترجمہ: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔

اسی طرح مومن عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زینت کو چھپائیں: وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (پ 18، النور: 31) ترجمہ: اور مسلمان عورتوں کوحکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے۔ یہ آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ اسلامی معاشرتی نظام میں شرم و حیا کی کتنی اہمیت ہے اور اسے کس طرح اپنانا چاہیے۔

حضور ﷺ کی احادیث میں حیا کی تلقین: حضرت محمد ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں بارہا حیا کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں فرمایا: پہلے نبیوں کے کلام میں سے جو بات لوگوں کو ملی وہ یہ ہے: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ جب انسان سے حیا ختم ہو جاتی ہے تو وہ کسی بھی برے عمل کو انجام دے سکتا ہے۔ لہٰذا حیا انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے اور اس کے ایمان کی حفاظت کرتی ہے۔

بے حیائی کے معاشرتی اثرات:آج کے معاشرے میں بے حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور فیشن کی دنیا میں فحاشی اور عریانی کو عام کیا جا رہا ہے، جس سے نوجوان نسل خاص طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو چکی ہیں اور خاندانوں کا نظام کمزور ہو رہا ہے۔بے حیائی کی وجہ سے طلاق کی شرح میں اضافہ، غیر اخلاقی تعلقات اور جنسی جرائم جیسے مسائل نے سر اٹھا لیا ہے۔ نوجوان نسل گمراہی کی راہ پر گامزن ہے اور اس کی وجہ سے معاشرتی امن و سکون تباہ ہو رہا ہے۔

اسلام میں بے حیائی کے خلاف سزائیں: اسلام نے بے حیائی اور فحاشی کو روکنے کے لیے سخت احکامات دیئے ہیں۔ قرآن میں واضح کیا گیا ہے کہ زنا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا مقرر ہے: اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪- (پ 18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔

یہ اسلامی سزائیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام میں بے حیائی اور فحاشی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔

معاشرتی اصلاح کی ضرورت: بے حیائی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسلامی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا اور اپنے کردار میں حیا کو شامل کرنا آج کے دور کی اہم ضرورت ہے۔

اسلام میں حیا کی بڑی اہمیت ہے اور بے حیائی کو ایک سنگین گناہ تصور کیا گیا ہے۔ آج کے معاشرتی مسائل کی جڑ اخلاقی قدروں کا زوال اور بے حیائی کا فروغ ہے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک پاکیزہ اور پرامن معاشرے کی تشکیل کر سکیں۔ بے حیائی کے خلاف جدوجہد، اپنے ایمان کی حفاظت اور حیا کو اپنانے سے ممکن ہے۔

شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ دعوت اسلامی کے تحت 21 فروری2025ء کو لاہور  میں اوراق مقدسہ کا ٹاون سطح کا مشورہ ہو ا جس میں شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ لاہور سٹی کے ذمہ دار محمد رضا عطاری اور نگران ٹاون عزیز بھٹی ٹاؤن محمد ندیم عطاری نے ٹاون کے اوراق مقدسہ کے ذمہ دران کی تربیت فرمائی ۔ اس موقع پر ٹاون میں اوراق مقدسہ کے لیے قرآن محل بنانے پر مشاورت ہوئی۔(رپورٹ: ڈویژن ذمہ دار محمد رضا عطاری،کانٹینٹ:شعیب احمد)


فحش بات کی تعریف: شرمناک امور مثلاً گندے اور برے معاملات کا کھلے الفاظ میں تذکرہ کرنا تو وہ نوجوان جو شہوت کی تسکین کی خاطر خواہ مخواہ شادیوں کی خلوتوں اور پردے میں رکھنے کی باتوں کے قصے چھیڑتے ہیں نیز فحش یعنی بے حیائی کی باتیں کرنے والے بلکہ صرف سن کر دل بہلانے والے گندی گالیاں زبان پر لانے والے بے شرمانہ اشارے کرنے والے ان گندے اشارے سے لطف اندوز ہونے والے اور گندی لذتوں کے حصول کی خاطر فلمیں ڈرامے دیکھنے والے ایک دل ہلا دینے والی روایت بار بار پڑھیں اور خوف خداوندی سے لرزیں، چنانچہ منقول ہے: چار طرح کے جہنمی لوگ جو کہ کھولتے پانی اور آگ کے مابین ہلاکت مانگتے ہونگے ان میں سے ایک وہ شخص ہے کہ اس کے منہ سے خون پیپ بہ رہا ہوگا جہنمی کہیں گے کہ اس بد بخت کو کیا ہوا ہے کہ ہماری تکلیف میں اضافہ کیے دیتا ہے کہا جائے گا: یہ بد بخت بری اور خبیث بات کی طرف متوجہ ہوکر اس سے لذت اٹھاتا تھا جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ غیر عورتوں یا امردوں کے بارے میں آنے والے گندے وسوسوں پر توجہ جمانے، جان بوجھ کر برے خیالات میں خود کو گمانے اور معاذاللہ گندی حرکت کے تصور کے ذریعے لذت اٹھانے والوں کو بیان کردہ روایت سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے۔

لوگوں کے ساتھ بات کرنے میں جن امور کو برا سمجھا جاتا ہے ان کو صاف اور واضح لفظوں میں بیان کردینا فحش گوئی ہے فحش گوئی گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

فحش گوئی کے گناہ میں مبتلاء ہونے کے بعض اسباب: علم دین سے دوری، مذاق مسخری کی عادت، فضول گوئی، غصہ، لڑائی جھگڑے، بری صحبت، فلمیں ڈرامے دیکھنا، گانے باجی سننا وغیرہ۔

فحش گوئی سے بچے رہنے کے لیے: علم دین حاصل کیجیے، بالخصوص گفتگو کی سنتیں اور آداب سیکھ لیجیئے، جہنم کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور اپنے نازک بدن پر غور کیجیے۔

وظیفہ: جس کی گندی باتوں کی عادت نہ جاتی ہو وہ یاحمید 90 بات اول و آخر درود شریف پڑھ کر کسی خاص پیالے میں دم کر دیں حسب ضرورت اس میں سے پانی پیتے رہیں ان شاءاللہ الکریم فحش گوئی کی عادت نکل جائے گی۔

بے حیا ئی ایک بہت ہی خطر ناک مہلک بیماری ہے اگر کوئی مرد اس میں مبتلاء ہو جائے تو معاشرے کا نظام خراب ہو جاتا ہے اگر کوئی عورت بے حیائی کے مرض میں مبتلاء ہو تو اس سے نسلیں در نسلیں بر باد ہو جاتیں۔ ہیں ہمارا اسلام ہمیں بے حیائی کے کاموں سے روکنے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو اپنانے کا حکم دیتا ہے۔

حدیث مبارک میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 460، حدیث: 4181)

بے حیائی کے معنی بے شرمی ہے جب کسی انسان میں حیاء کو وصف ختم ہو جاتا ہے تو وہ بے حیائی کے کاموں میں مبتلاء ہو جاتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ دنیا کے عذاب سے مراد حد قائم کرنا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن ابی، حضرت حسّان اور حضرت مسطح رضی اللہ عنہما کو حدلگائی گئی اور آخرت کے عذاب سے مراد یہ ہے کہ اگر توبہ کئے بغیر مر گئے تو آخرت میں دوزخ ہے۔ مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (مدارک، ص 774)

اشاعت فاحشہ میں ملوث افراد کو نصیحت: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال اور افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، 6 / 130 ملخصاً) البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے چنانچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: (1)کسی پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت کرنا۔(2)کسی کے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا۔(3)علمائے اہلسنّت سے بتقدیر الٰہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو ا س کی اشاعت کرنا۔(4)حرام کاموں کی ترغیب دینا۔ (5) ایسی کتابیں لکھنا، شائع کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہوں۔ (6)ایسی کتابیں، اخبارات، ناول، رسائل اورڈائجسٹ وغیرہ لکھنا اور شائع کرنا جن سے شہوانی جذبات متحرک ہوں۔ (7)فحش تصاویر اور وڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔(8)ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، لگوانا جن میں جاذبیت اور کشش پیدا کرنے کے لئے جنسی عریانیّت کا سہارا لیا گیا ہو۔(9) حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا،ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔(10) فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔(11)زنا کاری کے اڈّے چلانا وغیرہ۔

ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہئے کہ خدارا! اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غورکرناچاہئے جو فحاشی وعریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے اور ہمیں بے حیائی کے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فر مائے۔


جہنمیوں کی دو جماعتیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں ایک جماعت ان لوگوں کی ہوگی جنکے پاس بیل کی دم کی طرح کوڑے ہوگے اور وہ لوگوں کو ناحق مارے گے دوسری جماعت ایسی عورتوں کی ہوگی جو لباس پہنے ہوئے ہوں گی (مردوں کو اپنی طرف) مائل کرنے والی خود انکی طرف مائل ہونے والی ہوں گی ان کے سر بڑے بڑے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے ایسی عورتیں جنت میں داخل ہونا تو درکنار جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے سونگھی جا سکے گی۔

بے حیائی پھیلانے کا انجام: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

بے حیائی ہمارے چہرے کا نور کھا گئی زنا اتنا عام کیا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کے بغیر خود کو ادھورا تصور کرنے لگتی ہیں کبھی اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی توفیق نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اب گناہ گناہ ہی نہیں لگتا ہم اردگرد کا ماحول دیکھتے ہیں کہ سب یہی کر رہے ہیں تو ہم بھی اسی دلدل میں چھلانگ لگا دیتے ہیں آج کل کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سوچتے ہیں کہ ہماری تنہائی میں ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا حالانکہ اللہ اور اس کے فرشتے دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ہم اپنے والدین کی عزت کو اپنے قدموں تلے روند رہے ہیں اسلام میں جسمانی ضروتیں پوری کرنے سے نہیں روکتی اگرچہ اسے حلال طریقے سے پورا کیا جاتا ہے کبھی سوچا ہے کہ ہماری زندگی میں کتنا باقی ہے اک لمحے کا بھی اعتبار نہیں اگر ہویہی مر گئے تو ہم اپنا کردار چہرہ کیسے دکھائیں گے اللہ کو چلو مان لیا تم اور کئی سال جی لوگے لیکن تمہاری جوانی تو چند سالوں تک ہیں جب یہ مانند پڑھ جائے گی تو کچھ کرنے کی ہمت نہیں رہے گی تب اللہ کے اگے جھکنے سے کیا حاصل ہوگا اللہ نوجوان کی توبہ پہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ جس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تو کیوں نہ ہم ابھی لوٹ چلیں اس اللہ کے پاس جو ہمیں ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور قیامت کے دن ہم اس ہستی کو اپنا منہ کیسے دکھائیں گے جو ہمارے لیے چودہ سو سال پہلے ہاتھ اٹھا کر روئے تھے۔

عورت کا مقام گھر ہے اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرؤ۔ سر پر دوپٹہ رکھنے سے عورت اللہ کی رحمت کے سائے میں رہتی ہے۔ حیا بڑی دولت ہے اور جو عورت اس دولت کو سنبھال نہیں سکتی اسے آخرت میں کبھی معافی نہیں اور جو عورت اس دولت کو سنبھال کر چلتی ہے کبھی کنگال نہیں ہوتی۔

شیطان کا پہلا شکار حیا ہوتی ہے ایک بار بندہ بے حیا ہوجائے تو پھر اسے کوئی برائی برائی نہیں لگتی بے حیائی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ بے حیائی کی مذمت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125) یعنی جب حیا ہی نہیں تو سب برائیاں برابر ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

دکھ خوشی اور غصے کےاظہار کا طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا اس وجہ صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامات ہے اگر لب و لہجے حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں جب تک انسان شرم و حیا کے حصار یعنی دائرے میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس کا ایک اور ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا اور بدترین کام بھی بھری ڈھٹائی کے ساتھ کرتا ہے رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

حدیث پاک میں ہے: جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا اس کے لیے اسے رائج کرنے اور اپنے بعد اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب ہے اور ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کچھ کم نہ ہوگا اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا اس پر اس طریقے کو رائج کرنے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ ہے۔

یاد رکھیں اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوگا تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات و خصائص کے حامل ہوگی اور اگر وہ خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے گا تو اس کی اولاد بھی شرم و حیا سے خالی ہوگی، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حیا کو متاثر کرنے والے تمام عوامل سے دور رہا جائے اور اپنے تشخص اور روح ایمان کی حفاظت کی جائے۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار کوئی شخص کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں ہوتا مگر ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172)

یاد رہے کہ اشاعت فاحشہ کے اصل معنی میں بہت وسعت ہے چناچہ اشاعت فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں: (1) کسی پر لگائے گئے بہتان کے اشاعت کرنا (2) اسے خفیہ عیب پر مطلع ہونے کے بعد اسے پھیلانا (3) علمائے اہل سنت سے بدقریر الہی کوئی لغزش فاحش واقع ہو تو اس کی اشاعت کرنا (4) حرام کاموں کی ترغیب دینا (5) ایسی کتابیں لکھنا ہے شاعر کرنا اور تقسیم کرنا جن میں موجود کلام سے لوگ کفر اور گمراہی میں مبتلا ہو (6) زنا کاریگر چلانا وغیرہ میں مبتلا حضرات کو چاہیے کہ خدارا اپنے طرز عمل پر غور فرمائیں بلکہ بطور خاص ان حضرات کو زیادہ غور کرنا چاہیے جو فحاشی اور عریانی اور اسلامی روایات سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں اور بے حیائی اور عریانی کے خلاف اسلام نہیں نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے اس سے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالی انہیں ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔

وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو بے حیائی ہے۔ آج کل اتنی بے حیائی ہو گئی ہے کہ بچیاں اور عورتیں آواروں کی طرح گھومتی ہیں۔ بدن پر پورے کپڑے نہیں سر پر دوپٹہ نہیں بے حیائی بہت بڑا عیب ہے۔ یہاں ہم جب ماؤں بہنوں کو کہیں پردہ کرو تو وہ کہتی ہیں پردہ تو دل میں ہونا چاہیے نہیں اگر پردہ دل میں رکھنا ہوتا تو سورۃ نور میں رب تعالیٰ یہ نہ فرماتا: اپنی خواتین کو چادروں میں ڈالو۔

ہمارے معاشرے میں آج کل بے حیائی بہت عام ہو چکی ہے۔ لڑکیاں لڑکوں والے لباس پہن رہی ہیں۔ لڑکے لڑکیوں والے عورتیں گلیوں بازاروں میں بے پردہ گھوم رہی ہیں۔ ملازموں چوکیداروں ڈرائیوروں سے بے تکلفی بات چیت کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتی اور ایسا باریک نا مکمل یا تنگ لباس پہنتی ہیں جو ستر عورت کو ظاہر کرتا ہے۔

بے حیائی کی بات کرنا نفاق کی علامت ہے جس پر اللہ سب سے زیادہ ناراض ہوتا ہے۔ اتنا کفر پر ناراض نہیں ہوتا جتنا اللہ بے حیائی پر ناراض ہوتا ہے۔

یا الہی دے ہمیں بھی دولت شرم و حیا حضرت عثمان غنی باحیا کے واسطے

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا۔ بے حیائی فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں نے گزشتہ انبیاء کرام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش بولنا یعنی بے حیائی کی بات کرنا اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔(ترمذی، 3/414، حدیث: 2034)

اللہ پاک ہمیں بھی بے حیائی جیسے بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہو اس کام کو کرنا بے حیائی ہے بے حیائی نفاق کی علامت ہے نامحرم عورتوں کو دیکھنا بے حیائی ہے اور عورت کا تنگ اور باریک لباس پہننا جس سے جسم کی ہیئت اور جسم دکھائی دے یہ بھی بے حیائی ہے مردوں کا گھٹنوں سے اوپر پجامہ پہننا بے حیائی ہے اور عورتوں کا مردوں کو دیکھنا بھی بے حیائی ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ برائی بہت عام ہو چکی ہے گندی باتیں کرنا یا بے حیائی کی تصویریں بنانا پھر اسے شیئر کرنا اور بے حیائی کی باتیں سن کر اس سے لطف اٹھانا اور آنکھوں سے بے حیائی کے مناظر دیکھنا اور اپنی ماؤں بہنوں کو بازاروں شاپنگ سینٹروں اور تفریح گاہوں وغیرہ میں بےپردہ جانے سے منع نہ کرنا اور لڑکوں اور لڑکیوں کو اکٹھی تعلیم دلوانا اور اپنی عورتوں کو پردہ نہ کروانا اور عورتوں کا نامحرم کو ملنا اور اس سے بے تکلف ہو کر باتیں کرنا یہ سب بے حیائی ہے اور ہماری شریعت ہمیں حیا کا حکم دیتی ہے اور بے حیائی جیسے بڑے گناہ سے بچنے کی تلقین کرتی ہے اور اللہ پاک نے بے حیائی کے پھیلانے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے اور جو بے حیائی کرتے ہیں ان کے لیے اخرت میں عذاب ہے اللہ کا ارشاد ہے: وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸) اِنَّمَا یَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْٓءِ وَ الْفَحْشَآءِ وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۶۹) (پ 2، البقرۃ: 168، 169) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو، بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ارشاد فرمایا لوگوں نے گزشتہ انبیاء کرام کے کلام سے جو کچھ پایا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

شرم و حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان والا جنت میں جائے گا اور بے حیائی و فحش گوئی برائی کا حصہ ہے اور برائی والا دوزخ میں جائے گا۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

ایمان اور حیا دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں تو جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

اللہ پاک ہمیں بے حیائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور شیطان کے ہر وار سے بچائے کیونکہ شیطان بری بات اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے اللہ پاک ہمیں حیا دار بنائے۔ آمین

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں بے حیائی کی مذمت:

1۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ فحش (بے حیائی) جس چیز میں بھی ہوگا اس میں بد صورتی پیدا کر دے گا اور حیا جس چیز میں ہوگی اس میں خوبصورتی پیدا کر دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

2۔ ایک حدیث میں آقا ﷺ نے بے حیائی کی نحوست کے بارے میں فرمایا: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

3۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ چار چیزیں سب انبیاء کرام کی سنت ہے شرم اور عطر لگانا اور مسواک کرنا اور نکاح کرنا۔

4۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حیا ایمان کا حصہ ہے ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے اور بے حیائی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

5۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ہرگز کسی ایسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ کرے جس کے ساتھ اس کا محرم نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں ان کے ساتھ اس شیطان ہوتا ہے۔

آج اسلام کے دشمنوں کی یہی سازش ہے کہ مسلمانوں سے کسی طرح چادر حیا کھینچ لی جائے جب حیا ہی نہ رہے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہو جائے گا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں کیسی کیسی بے حیائیاں ہو رہی ہیں آئیے کچھ سنتے ہیں: بے حیائی والی گفتگو کرنا، گالیاں دینا، بدن سے چپکا ہوا لباس پہننا، گانے باجے سننا، فلمیں دیکھنا، بڑوں کی تعظیم نہ کرنا وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بہت سی مثالیں ہیں۔ یاد رکھیے حیا ایمان کا حصہ ہے

آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس میں حیا نہ رہے وہ جو چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484)

اللہ سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں بے حیائی جیسی بڑی آفت سے محفوظ رکھے اور ہمیں شرعی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ شرم و حیا ایسا وصف ہے جو صرف انسان میں پایا جاتا ہے اور یہ جانور اور انسان کے درمیان وجہ امتیاز اور ان دونوں میں فرق کی بنیادی علامت ہے۔ اگر لب و لہجے،حرکات و سکنات اور عادات و اطوار سے شرم و حیا رخصت ہو جائے تو باقی تمام اچھائیوں پر خود بخود پانی پھر جاتا ہے اور دیگر تمام نیک اوصاف کی موجودگی کے باوجود اپنی وقعت کھو دیتے ہیں۔ جب تک انسان شرم وحیا کے حصار (دائرے) میں رہتا ہے ذلت و رسوائی سے بچا رہتا ہے اور جب اس قلعے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر گھٹیا و بدترین کام بھی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔رسول خدا ﷺ نے اسی لئے ارشاد فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کر۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3484) معلوم ہوا کہ کسی بھی برے کام سے رکنے کا ایک سبب شرم و حیا بھی ہے۔ شرم وحیا کیا ہے؟ وہ کام جو اللہ پاک اور اس کی مخلوق کے نزدیک ناپسند ہوں ان سے بچانے والے وصف کو شرم وحیا کہتے ہیں۔ (باحیا نوجوان، ص 7ماخوذاً)

اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:66) اسی لئے اسلام کے دشمن مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے سائبان (شیڈ) میں چھید (سوراخ) کرنا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

1۔ حضرت امّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا۔ یہ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں تو اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اس وقت بھی باپردہ ہیں! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے،حیا نہیں کھوئی۔ (ابو داؤد، 3/9، حدیث:2488 ملتقطاً)

2۔ حیا ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان جنت میں ہوں گے، بے حیائی ظلم ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

3۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: جب کسی قوم میں اعلانیہ طور پر بے حیائی فروغ پا جائے تو ان پر طاعون کو مسلط کر دیا جاتا ہے اور ایسی بیماریوں میں انہیں مبتلا کر دیا جاتا ہے جن کا پچھلی قوموں نے نام تک نہیں سنا ہوتا۔ (ابن ماجہ، 4/367، حدیث: 4019)

4۔ اللہ سبحانہ و تعالی سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے، اسی وجہ سے اللہ نے ظاہری اور باطنی ہر قسم کی بے حیائی کو حرام کیا ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

5۔ آپ ﷺ نے فرمایا بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنا دے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

اللہ پاک ہمیں بے حیائی والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بے حیائی اللہ کے نزدیک بہت برا فعل ہے۔ اس سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔بے حیائی کے بارے میں آیت مبارکہ: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

بے حیائی کے بارے میں احادیث مبارکہ:

اس شخص پر جنت حرام ہے جو بے حیائی کی بات سے کام لیتا ہے۔ (جامع صغیر للسیوطی، ص 221، حدیث: 3648)

جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ (مسلم، ص 39، حدیث: 35)

بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے عیب دار بنا دے گی اور حیا جس چیز میں ہو اسے خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

حیا اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث:22)

حیا ایمان کا حصہ ہے ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی بدکلامی سنگدلی اور سنگدلی جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

نبی کریم ﷺ پردہ میں رہنے والی کنوری لڑکی سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

حیا ایمان کا ایک جزء ہے اور ایمان والے جنت میں جائیں گے اور بے حیائی کا تعلق ظلم سے ہے اور ظالم جہنم میں جائیں گے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

اللہ پاک ہمیں بے حیائی سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائےہم پر سدا نظر رحمت فرمائےاور ہمیں ایمان پہ موت عطا فرمائے۔


بے حیائی بہت برا فعل ہے۔ معاشرے میں بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے برا کام بے حیائی ہے۔ اس سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور: 19) ترجمہ کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَۚ- (پ 8، الانعام: 151) ترجمہ: اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، چاہے وہ کھلی ہو یا چھپی ہوئی۔

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اللہ سبحانہ و سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں اسی وجہ سے الله نے ظاہری اور باطنی ہر قسم کی بےحیائی کو حرام کیا ہے۔ (بخاری، 3/225، حدیث: 4637)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں پہنچاتا ہے جبکہ بے حیائی و بدکلامی، جہنم میں پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، 3/406، حدیث: 2016)

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہے حیائی جس چیز میں بھی ہو اس کو عیب دار بنادے گی، اور حیاء جس چیز میں ہو اس کو خوبصورت بنا دے گی۔ (ابن ماجہ، 4 / 461، حدیث: 4185)

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ ہو، تو پھر جو دل چاہے وہ کر۔ (بخاری، 4/131، حدیث: 6125)

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے حیائی سے بچو بلا شبہ اللہ فحش گو اور فحش گوئی دونوں کو پسند نہیں فرماتا۔

پیارے آقا ﷺ پر دے میں رہنے والی کنوری لڑکی سے بھی زیادہ حیا والے تھے۔ (ابن ماجہ، 4/460، حدیث:4180)

الله پاک ہمیں بےحیائی سے دور رکھے اور ہمیں حیا والے کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ بے حیائی سے ہمیشہ دور رکھے۔