عفو و درگزر سے
مراد معاف کرناسزا کو چھوڑ دینا ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
حضرت انس
رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا
اور آپ ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے ایک دم
ایک بدوی یعنی عربی عرب شریف کے دیہاتی نے آپ ﷺ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے
زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ اللہ پاک کے اخری نبی ﷺ کی مبارک گردن پر چادر کے کنارے
سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ پاک کا جو مال آپ ﷺ کے پاس ہے آپ ﷺ حکم دیجیے کہ اس
میں سے مجھے کچھ مل جائے رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے پھر اسے
کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث:3149)
ایک شخص
بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ ہم خادم کو کتنی بار معاف
کریں آپ ﷺ خاموش رہے اس نے پھر وہی سوال دہرایا آپ پھر خاموش رہے جب تیسری بار
سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:
1956) حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ
اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:اس میں 70 کا لفظ بیان زیادتی کے لیے
ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو یہ اس صورت میں ہو کہ غلام سے ختم غلطی
ہو جائے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا قومی و ملکی
قصور نہ ہو کہ یہ قصور معاف نہیں کیے جاتے۔(مراۃ المناجیح، 5/170)
جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو
معاف نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71،
حدیث:1926)
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب کریم تیرے
نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود
معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/319،
حدیث: 8327)
رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا
اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)
قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ پاک
کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور وہ جنت میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا کس کے لیے
اجر ہے وہ منادی یعنی اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے
ہیں تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم
اوسط، 1/542، حدیث: 1998)
عفو و درگزر کی راہ میں آنے والی
رکاوٹیں:
سب سے پہلی رکاوٹ تکبر ہے تکبر کرنے والا شخص کسی
کو معاف کرنے پر جلدی آمادہ نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ معاف کرنے سے میری عزت میں
کمی ہوگی حالانکہ معاف کرنے سے عزت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے، نبی کریم ﷺ کا
فرمان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ
پاک اس معاف کرنے والے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع یعنی
عاجزی کرے اللہ پاک اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)
عفو و درگزر از بنت سید محمود شاہ، جامعۃ المدینہ
فیض مدینہ نارتھ کراچی
عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں معاف کرنا
درگزر کرنا انتقام لینا عفو و درگزر کا اصطلاحی معنی کسی کے ظلم اور زیادتی کا
بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود معاف کر دینا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا (پ 1، البقرۃ: 109) ترجمہ: پس
تم معاف کردو اور درگزر سے کام لو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اے رب تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے
فرمایا: وہ جو بدلہ لینےکی قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث:
8327)
عفو و درگزر کے بارے میں احادیث:
رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا
اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)
ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا
رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ حضور خاموش رہے اس نے پھر سوال دہرایا
آپ خاموش رہے پھر تیسری بار سوال دہرایا حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: روزانہ 70 بار۔ (ترمذی،
3/ 381، حدیث: 1956)
پیارے نبیﷺ کا عفو و درگزر:
ایک یہودی عورت نے آپ ﷺ کو زہر دیا مگر آپ نے اس سے
کوئی انتقام نہیں لیا۔ لبید بن عصم نے آپ پر جادو کیا۔ کفار مکہ نے وہ کون سا ایسا
ظالمانہ برتاؤ تھا جو آپ کے ساتھ نہ کیا مگر ہمارے نبی ﷺنے ایذاؤں کو برداشت کیا
اور مجرموں کو قدرت کے باوجود معاف کیا
عفو و درگزر از بنت محمد یوسف عطاری، جامعۃ المدینہ
فیض مدینہ نارتھ کراچی
وَ الْكٰظِمِیْنَ
الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ہے: اس آیت میں متقین کے 3 اوصاف بیان ہوئے ہیں:
غصہ پینے والے، معاف کرنے والے اور احسان کرنا۔
احادیث مبارکہ:
جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا
جائے اور اسکے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیں کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف
کرے اور جو اسے محروم کرے اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلقی کرے اس سے ناطہ جوڑے۔
(مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک
منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کہ ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوئے
پھر دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت
میں داخل ہو جائے پوچھا جائے گا وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ پر ہے
منادی کہے گا ان کا جو لوگوں کی خطائیں معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی
اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کریم کے ذمے پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے
تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط،
1/ 542، حدیث: 1998)
واقعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے فرماتے ہیں
کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور حضور ﷺ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے
جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے یک دم ایک بدوی (دیہاتی) نے آپ ﷺ کی چادر مبارک
کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ محبوب رب ذوالجلال ﷺ کی مبارک گردن پر
چادر کی کنارے سے خراش آگئی وہ کہنے لگا اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرما دیجئے کہ اس میں سے کچھ مجھے مل جائے
رحمت عالم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے اور کچھ مال عطا فرمانے کا حکم
دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)
دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے بدوی سے کیسا حسن سلوک
فرمایا میٹھی مصطفی ﷺ کے دیوانوں خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے دکھائے آپ عفو در
گزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھرا سلوک کرنے کی کوشش فرمائیں۔
ایک شخص بارگاہ مصطفوی ﷺ میں حاضر ہوا اور عرض کی:
یا رسول اللہ ﷺ ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں ؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر وہ سوال
دہرایا حضور نے خاموشی اختیار فرمائی جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا:
روزانہ 70 بار۔(ترمذی، 3/ 381، حدیث: 1956)
مفتی احمد یار خان نعیمی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں
کہ عربی میں 70 کا لفظ زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن میں اسے بہت دفعہ معافی
دو یہ صورت میں ہو کہ غلام سے خطا غلطی ہو جاتی ہے خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور
بھی مالک کا ذاتی ہو شریعت کا یا ملکی قصور نہ ہو کہ یہ معاف نہیں کیے جاتے۔ (مراۃ
المناجیح، 5/170)
اقوال بزرگان دین:
1۔ ابن عمر فرماتے ہیں: مروت والوں کو سزا نہ دو جب
کہ وہ صالح ہو۔
2۔ اسی بات
پر دنیا قائم ہے کہ کوئی اپنے سے بد سلوکی کرنے والے کو معاف کر دے۔
3۔ غلطی کرنے والے کی لغزش کو معاف کرو جب تک وہ
کسی حد شرعی کا سزاوار نہ ہو۔
4۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
5۔ جس پر ظلم کیا جائے اور وہ صبر کرے اللہ کریم اس
کی عزت بلند فرما دیتا ہے۔
6۔ حضور ﷺ فرمایا کرتے جس کا خلاصہ ہے کہ معاف کیا
کرو اللہ کریم معاف کرنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے۔
کاش ہمارے اندر بھی یہ جذبہ بیدار ہو جائے کہ ہم
اپنی ذات اور نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں جیسے کہ ہمارا بزرگوں کا جذبہ ہوتا
تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظلم پر بھی شفقت فرماتے، حیات اعلی
حضرت میں ہے کہ میرے آقا حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلطات سے بھرپور
تھے معتقدین برہم (غصہ) ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کروائیں گے اعلی
حضرت نے فرمایا جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جاگیر تقسیم کر دو پھر
گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کرواؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے والوں کو تو
انعام نہیں دیتے پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں! سبحان اللہ کتنا پیارا اور
کریمانہ انداز ہے اللہ کریم فیضان اعلی حضرت سے ہمیں بھی مالا مال فرمائے۔
فضائل و فوائد:
عفو درگزر سے کام کرنے والے کو اللہ کریم پسند
فرماتا ہے۔
عفو در گزر
کر نا سنت مصطفی ﷺ ہے۔
معاف کرنے
والا اللہ کریم کے اجر کا حقدار ہے۔
معاف کرنے والے کو جنت نصیب ہوگی۔
جو خدا کی رضا کے لیے معاف کرتا ہے رب کائنات اسے
خود بلندی عطا فرما دیتا ہے۔
عفو درگزر
اختیار کرنا متقین کا اوصاف میں سے ہے۔
بزرگان دین
معاف کرنے کی خصلت سے مشرف تھے۔
حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن تمام کفار کو معاف فرما
دیا تھا۔
خطا پر مؤاخذہ نہ کرنے کو عفو کہتے ہیں۔
وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا
تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز
الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ
تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
پیاری اسلامی بہنو! معلوم ہوا! لوگوں کی غلطیوں سے
درگزر کرنا رب کریم کو بہت محبوب ہے۔
عفو و درگزر سے متعلق احادیث مبارکہ:
1۔ تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم(قیامت کے
دن)اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل
فرمائے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول الله ﷺ! وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا:
(1) جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، (2) جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق
جوڑو اور (3) جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
2۔ قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کااجر اللہ
پاک کے ذمہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا: کس کے
لیے اجر ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا: ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو
ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)
3۔جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گا قیامت کے
دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)
4۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یار
سول الله ﷺ! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں؟ آپ خاموش رہے۔ اس نے پھر وہی سوال
دہرایا، پھر خاموش رہے، جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔ (ترمذی،
3/ 381، حدیث: 1956)
5۔ رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا معاف کرنا
اختیار کرو اللہ پاک تمہیں معاف فرما دے گا۔(مسند امام احمد، 2/682، حدیث: 7062)
عفو و درگزر از بنت محمد اعجاز جمالی، جامعۃ
المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
عفو کا معنی یہ ہے کہ آدمی اپنا حق چھوڑ دے اور
بالکل بری الذمہ ہو جائے مثلا قصاص یا تاوان وغیرہ نہ لے عفو کا معنی معاف کرنے
بردباری اور غصہ پی جانے کے علاوہ ایک الگ خوبی ہے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)
(پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور
بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔
احادیث مبارکہ:
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم
ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لئے جنت میں محل بنایا جائے اور اس کے
درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو
اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرک،
3/12، حدیث: 3215)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا جب لوگ حساب کے لئے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرنے
گا جس کا اجر الله کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پھر دوبارہ
اعلان کرے گا کہ جس کی اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو
جائے پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے منادی کہے
گا ان کا جو لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گئے جس کا
اجر اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی
کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)
عفوو درگزر کے عظیم واقعات:
حضرت انس
رضی اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر
اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر
پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آگئی وہ کہنے
لگا اللہ تعالیٰ کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیں کہ اس میں سے کچھ مجھے مل
جائے حضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور
مسکرائے دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے ہے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)
جنگ احد کے موقع پر عتبہ بن ابی وقاص نے آپ ﷺ کے
مبارک دندان اقدس کو شہید کر دیا اور عبد الله بن قمیہ نے چہرہ اقدس کو زحمی اور
خون سے آلودہ کر دیا مگر پیار ے ﷺ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا کہ
اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ یہ
لوگ مجھے نہیں جانتے ہیں۔ (شفاء، 1/105)
رسول اکرم کی پوری زندگی عفو و درگزر سے عبادت تھی
آپ کے بے مثال عفو و درگزر کا واقعہ ملاحظہ ہو چنانچہ تاجدار رسالت ﷺ کی شہزادی
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر ابو العاص نے غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ
کے لئے روانہ کیا جب قریش مکہ کو ان کی روانگی کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت زینب
رضی اللہ عنہا کا پیچھا کیا حتی کہ مقام ذی طوی میں انہیں پالیا۔ھبار بن الاسود نے
زینب کو نیزہ مارا جس کی وجہ سے آپ اونٹ سے گر گئیں اور آپ کا حمل ساقط ہو گیا
لیکن پیارے
آقا ﷺ کے عفو و درگزر پر قربان جائیے میرے آقا نے اتنی بڑی اذیت پر پھر بھی ہبار بن
الاسود کو معاف کرتے ہوئے دولت ایمان سے نوازا۔
ام المؤمنین حضرت صفیہ کا عفو و درگزر: ام
المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی عفوو درگزر کی صفت بہت نمایاں تھی دوسروں کی
خطاؤں پر چشم پوشی کرنا اور معاف کرنا آپ کے اخلاق کا ایک درخشاں پہلو تھا چنانچہ
ایک دفعہ آپ کی باندی نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر
حضرت صفیہ کے بارے میں کوئی جھوٹی بات کہی بعد میں انہیں اس کا علم ہوا تو اس
باندی سے پوچھا تمہیں ایسا کرنے پر کس نے ابھارا؟ کہنے لگی شیطان نے اس پر آپ نے
عفو و در گزر کی قابل تقلید مثال قائم کی اور فرمایا جاؤ تم آزاد ہو۔ (الاصابۃ، 8/233)
عفو کا لغوی معنی معاف کرنا چھوڑ دینا درگزر کے لغوی
معنی چشم پوشی کرنا بھلانا۔ (فرہنگ آصفیہ، 2/242) عفو کا مفہوم دوسروں کی غلطیوں، زیادتیوں
پر درگزر کرنا اور ان کو مہربان ہو کر معاف کر دینا ہے۔ عفو و درگزر کا اصطلاحی
معنی کسی کی ظلم اور زیادتی کو بدلہ لینے کی طاقت کے باوجود معاف کر دینا، عفو
ایسی محمود پسندی صفت اور فضائل اخلاق میں شمار ہوتی ہے کہ اس کے سبب انسانی
تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہمی زندگی میں ہمدردی ومحبت پیدا ہو جاتی ہے ہمارے
سامنے انسانیت کے سب سے بڑے محسن، ہادی اعظم ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے کہ بقول ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ نے کسی سے اپنے ذاتی معاملہ میں
اختیار کے باوجود انتقام نہیں لیا سوائے اس صورت کے کہ جب کسی نے احکام الہی کی
ہنسی اڑائی یا اس کی شدید مخالفت کی۔
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ
تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹)(پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز
العرفان: اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی سے درگزر تو بے
شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والاہے۔
وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز
الایمان: اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ
تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
احادیث مبارکہ: قرآن
کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ ﷺ کے اپنے عفو و درگزر کے سینکڑوں بلکہ
ہزاروں واقعات ملتے ہیں، وہاں پر آپ ﷺ نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتا ہے۔ (مسلم، ص
1071، حدیث: 2588)
2۔ تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا
اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682،حدیث: 7062)
3۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات
تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کردیئے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے
جواب میں عفو و درگزر سے کام لے، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے
والے سے صلہ رحمی کا سلوک کرے۔
4۔ جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو
اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔
5۔ تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ
قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اور اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل
فرمائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ
کون سی تین عادات ہیں؟ آپ نے جواب دیا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو، جو تم
سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو و درگزر سے کام لو۔ جب
تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
عفو درگزر سے متعلق واقعہ: حضرت
انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک
نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے
آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر
خراش آگئی۔ وہ کہنے لگا اللہ تعالی کا جو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس
میں سے کچھ مجھے مل جائے۔ حضور پر نور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے، پھر
اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حديث: 3149)
عفو و درگزر کے فوائد: معاف
کرنے سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی اور گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے، اللہ کی رحمت نازل
ہوتی ہے، آپسی دشمنی اور نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے، انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے،
فرمان رب العالمین کی تعمیل ہوتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے کو بدلے، زیادتی اور انتقامی جذبات
کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے، ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی
ہے، ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، غلطی اور جرم
سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے، افسوس کہ آج
ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یک سر خالی
ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا
ہے، باہمی نفرت و عداوت، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و
جلال، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کرلیا اور آپس کے انتشار کی وجہ سے
ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے۔
دین اسلام میں مسلمانوں کو اخلاقیات کی انتہائی
اعلیٰ،جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی
طرف سے تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرو، کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تواس
پر حلم و بردباری کا مظاہرہ کرواوراپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عفو و درگزر سے کام
لو۔
امیر معاویہ کا حلم: حضرت
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بردباری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور اس حوالے سے آپ کے
واقعات بہت مشہور ہیں۔ آپ خود فرماتے ہیں: میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ زمین پر کوئی
جہالت سے کام لےاور میرا حلم اس پر حاوی نہ ہو اور کوئی جرم کرے اور میرا عفو و
درگزر اس پر غالب نہ ہو اور کسی کو کوئی حاجت ہو اور میری سخاوت اسے پورا نہ
کرسکے۔
ایک شخص نے
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کوئی نازیبا بات کہی تو آپ نے بردباری سے کام
لیتے ہوئے فرمایا: یہ بات میرے والد حضرت سفیان رضی اللہ عنہ سنتے تو بڑا تعجب
کرتے۔
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ
وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹)
(پ 9، الاعراف: 199) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور
بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔اس آیت میں نبی کریم ﷺ کو تین باتوں
کی ہدایت فرمائی گئی ہے:
(1) جو مجرم معذرت طلب کرتا ہوا آپ کے پاس آئے تو
اس پر شفقت و مہربانی کرتے ہوئے اسے معاف کر دیجئے۔
(2) اچھے اور مفید کام کرنے کا لوگوں کو حکم دیجئے۔
(3) جاہل اور ناسمجھ لوگ آپ کو برا بھلا کہیں تو ان
سے الجھئے نہیں بلکہ حلم کا مظاہرہ فرمائیں۔
بیوی بچوں کے قصور معاف کردینا اللہ تعالیٰ کو
محبوب ہے، جو مخلوق پر رحم کرے گا خالق اس پر رحم فرمائے گا۔
اللہ پاک غنی و بے پرواہ ہو کر بھی حلیم ہے کہ
بندوں کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور ہم تو ثواب کے محتاج ہو لہٰذا ہم بھی
فقراء و مساکین اور اپنے ماتحتوں کی خطاؤں سے در گزر کریں۔ حلم سنت الٰہیّہ بھی
ہے اور سنت مصطفویّہ بھی۔سبحان اللہ کیسے
پاکیزہ اخلاق کی کیسی نفیس تعلیم دین اسلام میں دی گئی ہے۔
حلم و عفو و درگزر کا واقعہ: حضرت
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک
نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے
آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر
خراش آ گئی۔ وہ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ کاجو مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس
میں سے کچھ مجھے مل جائے۔حضور پر نور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دئیے، پھر
اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔پھر ارشاد فرمایا کہ اے اعرابی: کیا تم سے اس
کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا؟ اس نے عرض کی: نہیں۔ ارشاد فرمایا:
کیوں نہیں؟ اعرابی نے عرض کی: کیونکہ آپ کی یہ عادت کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا
بدلہ برائی سے لیں۔ اس کی یہ بات سن کر سرکار دو عالم ﷺ مسکرا دئیے اور ارشاد
فرمایا: اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجور سے بھر دو۔ (بخاری، 2/359، حدیث:
3149)
اذیتیں پہنچانے والوں کے ساتھ سلوک: علامہ
عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس (خطاب) کے بعد (جو آپ نے فتح
مکہ کے موقع پر مسلمانوں اور کفار کے مجمع سے فرمایا تھا) شہنشاہ کونین ﷺ نے اس
ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے
ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ
بھی تھے جنہوں نے آپ کے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر
پتھروں کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ پر قاتلانہ
حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور
آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی
بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و
درندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے
تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت
زینب رضی اللہ عنہا کو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا
تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی
چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔
ان مجرموں سے
آپ نے پوچھا کہ’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا
ہوں؟ اس دہشت انگیز سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اٹھے لیکن جبین رحمت کے
پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر امید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر
بولے کہ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں۔ ‘‘ سب کی للچائی ہوئی
نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب
سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا
کہ آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک یہ فرمان
رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی
گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے
اور کفار کی زبانوں پر لاالٰـہ الّا اللہ محمّدٌ رّسول اللہ کے
نعروں سے حرم کعبہ کے در و دیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔
عفو و درگزر از بنت محمد طیب رسول مدنیہ، بہار
مدینہ آفیسر کالونی فیصل آباد
عفو کے معنی معاف کرنا اور صبر سے کام لینا ہے اللہ معاف کرنے کے عمل کو بہت پسند فرماتا ہے، قرآن
مجید میں آتا ہے: تم لوگوں کو جو بھی مصیبت آتی ہے مشکل آتی ہے اس کی وجہ وہی ہے
جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ہے یعنی آپ کے اپنے اعمال ہے اور اللہ بہت سے گناہ تو
ویسے ہی معاف کر دیتا ہے۔
حضور پاک ﷺ کی مشہور دعاؤں میں سے ایک دعا یہ ہے: اللھم
انک عفوتحب العفو فاعف عنا یاغفور یاکریم ترجمہ: اے
اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند فرماتا ہے، ہمیں معاف فرما! اے بخشنے
والے، اے کرم کرنے والے۔
حضور پاک ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ کو معافی
دی اور یہ ایک ایسا موقع تھا کہ اگر آپ چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے اہل مکہ نے مکہ
میں حضور اکرم ﷺ کو تکلیفیں پہنچائیں، صحابہ کرام کو تکلیفیں پہنچائیں، ایذا رسانی
کی، کئی صحابہ کرام شہید ہوئے ان میں عمار بن یاسر کے والدین حضرت سمیہ اور حضرت یاسر ہیں اسی طرح بہت سے
ایسے صحابہ کرام ہے جنہیں تکلیف دی گئی جیسے حضرت بلال رضی اللہ عنہ، جب حضور اکرم
ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو کفار قریش نے پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑا،
انسانی تاریخ ایسی مثال سے عاجز ہے جو نہ رسول اکرم ﷺ سے پہلے ملتی ہے اور نہ آپ کے
بعد جس سے ہمیں عفو و درگزر کا سبق مل سکے۔
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم اہل زمین پر رحم کرو
آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ (ابو داود، 4/372، حدیث: 4941)
عملی زندگی میں عفو و درگزر اپنانے سے مندرجہ ذیل
فوائد حاصل ہوتے ہیں:
عفوکا مفہوم دوسروں کی غلطیوں، زیادتیوں پر در گزر کرنا
اور ان کو مہربان ہو کر معاف کر دینا ہے۔
عفو ایسی محمود پسندی صفت اور فضائل اخلاق میں شمار
ہوتی ہے کہ اس کے سبب سے دل میں کدورت (رنجش) نہیں رہتی اور صفائی پیدا ہوتی ہے
اور انسانوں سے تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور باہمی زندگی میں ہمدردی محبت پیدا ہو
جاتی ہے۔
قرآن حکیم اس کا شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی
موقعوں پر مسلمانوں کو اس کی جانب اس طرح متوجہ فرمایا: ارشاد ربانی ہے: اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ
فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا(۱۴۹)(پ
6، النساء: 149) ترجمہ کنز العرفان: اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا چھپ کر یا
کسی کی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والاہے۔
احادیث کی روشنی میں:
1۔ جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا
جائے اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے
معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے
ناطہ جوڑے ۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
2۔ بے شک اللہ تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور
درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 5/546، حدیث: 8216)
3۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے عرض کی: اے میرے رب!
تیرے بندوں میں سے کون تیری بارگاہ میں زیادہ عزت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا وہ بندہ جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/
319، حدیث: 8327)
4۔ حضرت
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا میں نے ابتداً
رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: یارسول الله مجھے فضیلت والے اعمال
بتائیے۔ آپ نے فرمایا: اے عقبہ! جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو
محروم کرے، اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔
5۔ جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک
منادی یہ اعلان کرے گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت
میں داخل ہو جائے۔ پھر دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم
پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر
اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے۔ منادی کہے گا: ان کا جو لوگوں(کی خطاؤں) کو معاف
کرنے والے ہیں۔ پھر تیسری بار منادی اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے لے ذمہ
کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا
حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542،
حدیث: 1998)اللہ کریم ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور
ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عفو و درگزر کے معنی خطا و قصور کو معاف کرنا۔ عفو و درگزر کا مفہوم یہ
ہے کہ مجرم خطا کار اور سزا کے مستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں،
خطاؤں اور گناہوں سے درگزر کرنے والا، جرم، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ
کے بجائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا اور جرم کا بدلہ لینے کی بجائے معاف کرنا
عفو و درگزر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ الٰہی ہے:
وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ
عَنِ النَّاسِؕ- وَ
اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔
عفو و درگزر کے فضائل حدیث کی رو سے: احادیث
میں عفو و درگزر کے کثیر فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے دو فضائل درج ذیل ہیں۔
1۔ حضرت ابی بن کعب حضرت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
نبی کریم ﷺ نے ار شاد فرمایا: جسے پسند ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے
اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے
اور جو ا سے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ
جوڑے۔ (مستدرک للحاکم، 12/30، حدیث:
33150)
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جب لوگ حساب کے لیے ٹھہرے ہوں گے تو اس وقت ایک منادی یہ اعلان کرے
گا: جس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے پھر
دوسری بار اعلان کرے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل
ہو جائے پوچھا جائے گا کہ وہ کون ہے جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے منادی کہے گا
ان کا جو لوگوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والے ہیں پھر تیسری بار منادی اعلان کے رے
گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے تو ہزاروں
آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو ں جائیں گے۔ (معجم الاوسط، 1/ 542، حدیث: 1998)
حلم و عضو کے دو عظیم واقعات:
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم
ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے
اور کھردرے تھے، اچانک ایک دیہاتی نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ کر اتنے زبردست
جھٹکے سے کھینچا کہ آپ کی مبارک گردن پر خراش آگئی۔ وہ کہنے لگا اللہ تعالیٰ کا جو
مال آپ کے پاس ہے آپ حکم فرمائیے کہ اس میں سے کچھ مجھے بھی مل جائے حضور ﷺ اس کی
طرف متوجہ ہوئے اور مسکرا دیئے پھر اسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ (بخاری، 2/359، حدیث: 3149)
2۔ امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما
کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رضی
اللہ عنہ کے چہرے پر گر گیا جس سے چہرہ زخمی ہو گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف
سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اور غصہ پینے والے۔
امام نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: اور لوگوں سے درگزر
کرنے والے۔ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: اور اللہ
احسان کر نے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ارشاد فرمایا: جا! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے
لیے آزاد ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 4/387)
عفو و درگزر از بنت عبد الستار مدنیہ، فیضان عائشہ
صدیقہ نندپور سیالکوٹ
عفو عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معانی معاف کرنا
بخش دینا درگزر کرنا بدلہ نہ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت
میں عفو سے مراد کسی کی زیادتی و برائی پر انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام
نہ لینا اور معاف کر دینا ہے۔ قدرت و طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اگر انسان انتقام نہ
لے سکتا ہو تو یہ عفو معاف کرنا نہیں ہو
گا بلکہ اسے بے بسی کا نام دیا جائے گا، عفو صرف قادر ہونے کی صورت میں ہے۔
عفو کا ادنی درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کر دے خواہ
طبیعت اس پر آمادہ نہ ہو۔عفوو درگزر ایک ایسا وصف ہے کہ جس کی وجہ سے دشمنی دوستی
میں بدل جاتی ہے۔ باہمی تعلقات کی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ لچک، نرمی اور درگزر سے
پروان چڑھتے ہیں۔ غلطیاں یقینا انسانوں ہی سے ہوتی ہیں لیکن اپنی غلطی کو تسلیم کر
کے اس پر معافی مانگ لینا اور متاثرہ شخص کا اسے معاف کر دینا یہی بڑا پن ہے اور
خدا کو بہت پسند بھی ہے۔ معاف کرنا خدائی صفت دوسروں کے قصور اور ان کی غلطیاں
معاف کر دینا یہ خدا کی صفت ہے۔ یہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا
ہے وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ
لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(۱۲۶) (پ 14، النحل:
126) ترجمہ كنز العرفان: اور اگر تم کسی کو
سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دو جیسی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہو اور اگر تم صبر
کرو تو بیشک صبر والوں کیلئے صبر سب سے بہتر ہے۔
اسی طرح سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 43 میں اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ
غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۠(۴۳)ترجمہ کنز العرفان:اور بیشک جس نے صبر
کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے۔
عفو در گزر کے بارے میں چند احادیث:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی
ہیں: رسول الله ﷺ عادتاً بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً نہ بازاروں میں شور کرنے
والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ آپ اپنے مجرموں کو معاف
کرتے اور درگزر فرمایا کرتے تھے۔(ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)
ظالموں نے طرح طرح کے ظلم کئے لیکن آپ نے بدلہ لینے
کی طاقت رکھنے کے باوجود انہیں معاف فرمایا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا مانگی۔
جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر
مکہ میں
عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان
کیا
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السّلام نے عرض کی: اے
ربّ اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی
قدرت کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الايمان، 2/ 319، حدیث: 8327)
پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس
پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف نہیں کرتا اس کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند
امام احمد، 7/71،
حدیث:1926)
فرمانِ مصطفیٰ: رحم کیا کرو تم پر رحم کیا جائے گا
اور معاف کرنا اختیار کرو الله تمہیں معاف فرما دے گا۔ (مسند امام احمد، 2/682، حدیث:
7062)
حساب میں آسانی کے تین اسباب: رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو
اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی یارسول
الله عز وجل ﷺ وہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: (1) جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر
داور (2) جو
تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور (3) جو
تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو۔(معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
جنت کا محل: جسے یہ پسند
ہو کہ اس کے لیے (جنت میں) محل بنایا جائے اور اسکے درجات بلند کیے جائیں، اسے
چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے اور جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے
اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے ناطہ جوڑے۔ (مستدرك للحاكم، 3/ 12،
حدیث: 3215)
عفو در گزر کے چند فائدے: معاف
کرنے سے اللہ کی محبت ملتی ہے۔ اللہ کی رحمت ملتی ہے۔ گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ دشمنی
کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ عزت میں اضافہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
عفو و درگزر از بنت خالد محمود مدنیہ، فیضان عائشہ
صدیقہ نندپور سیالکوٹ
عفو درگزر ایک ایسا وصف ہے جس کی وجہ سے دشمنی
دوستی میں بدل جاتی ہے باہمی تعلقات کی خوبی یہ ہے کہ بات کو لچک نرمی اور درگزر
سے سنا جاتا ہے اور پروان چڑھتے ہیں دوسروں کی غلطیاں اور ان کے قصور معاف کر دینا۔
یہ خدا کی صفت ہے یہ ہی صفت خدا اپنے بندوں میں بھی دیکھنا چاہتا ہے قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اہل ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے یوں ذکر کیا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور: 22) ترجمہ کنز الایمان:
اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری
بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
آیت مبارکہ میں اللہ نے دوسروں کے قصور معاف کر
دینے پر ابھارا ہے اور اس کے لیے یہ بات ارشاد فرمائی کہ معاف کر دینے والے کو
اللہ بھی معاف فرماتا ہے۔ اللہ تعالی کے اسماء الحسنی میں سے ایک نام العفو ہے اس
کا مطلب ہے درگزر کرنے والا اور صفت خدا کی مخلوق میں سے جس میں بھی ہوگی اللہ
تعالیٰ اسے پسند کرتے ہیں قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا: وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ
الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ
4، آل عمران: 134) ترجمہ: اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب
ہیں۔
احادیث مبارکہ میں بھی عفو درگزر کرنے والوں کی بہت
فضیلت بیان کی گئی ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ خود لوگوں کو معاف فرمانے والے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے
مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ پاک اس معاف کرنے والے کی
عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کریم کے لیے تواضع یعنی عاجزی کرے الله پاک اسے
بلندی عطا فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 2588)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ
اگر کوئی جھک جائے یعنی معافی مانگ لے اپنی غلطی تسلیم کر لےتو اس کی عزت ہر گز کم
نہیں ہوگی بلکہ بارگاہ الہی میں بڑھے گی۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث روایت کرتے ہیں جس
میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے رب سے پوچھا: آپ کے
بندوں میں سے تیرے نزدیک سب سے معزز کون ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو بدلے کی
طاقت رکھنے کے باوجود معاف کر دے۔ (شعب الایمان، 6/ 319، حدیث: 8327)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی
ہیں: رسول الله ﷺ نہ تو عادتا بری باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفا نہ بازاروں میں شور
کرتے والے تھے اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دہتے تھے بلکہ آپ معاف کرتے اور
درگزر فرمایا کرتے تھے۔ (ترمذی، 3/ 409، حدیث: 2023)
ہمارے
پیارے نبی کریم ﷺ پر ظالموں نے طرح طرح کے ظلم کئے لیکن آپ نے بدلہ لینے کی طاقت
رکھنے کے باوجود انہیں معاف فرمایا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا مانگی۔
جان کے دشمن خون کے پیاسوں کو بھی شہر
مکہ میں
عام معافی تم نے عطا کی کتنا بڑا احسان
کیا
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم (قیامت کے
دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل
فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول الله وہ کونسی باتیں ہیں؟
فرمایا: جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم سے تعلق توڑےتم اس سے تعلق جوڑو
اور جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 4/18، حدیث: 5064)
نہیں سرکار ذاتی دشمنی میری کسی سے بھی
مری ہے نفس و شیطان سے لڑائی یا رسول
اللہ
قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا: جس کا اجر الله
پاک کے ذمہ کرم پر ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا کس لئے اجر
ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا ان لوگوں کے لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں
آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط، 1/542، حدیث: 1998)
سبحان اللہ دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے کے تو کیا
کہنے اللہ رب العزت ہم سب کو دوسروں کی غلطیاں اور قصور جرم اپنی رضا کے لیے معاف
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
ہمیشہ ہاتھ بھلائی کے واسطے اٹھیں