دین سے دوری کی وجوہات پر مضمون لکھنے کے لیے، ہم مختلف پہلوؤں پر غور کریں گے جو نوجوان لڑکیوں کو دین سے دور کر سکتے ہیں۔ یہ مضمون ان وجوہات کو اجاگر کرے گا اور ان کے ممکنہ حل بھی پیش کرے گا۔

دین سے دوری کی وجوہات:

تعلیمی نظام: موجودہ تعلیمی نظام میں دینی تعلیم کی کمی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نوجوان لڑکیاں دین کی بنیادی تعلیمات سے ناواقف رہتی ہیں۔

خاندانی تربیت: والدین کی طرف سے دینی تربیت کا فقدان بھی ایک اہم وجہ ہے۔ بعض والدین خود دین سے دور ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی دینی تعلیمات سے دور رکھتے ہیں۔

سماجی دباؤ: معاشرتی دباؤ اور جدیدیت کی طرف رجحان بھی دین سے دوری کا سبب بنتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اپنے دوستوں اور معاشرتی حلقوں میں قبولیت حاصل کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔

میڈیا کا اثر: میڈیا اور سوشل میڈیا پر مغربی ثقافت اور طرز زندگی کی تشہیر بھی دین سے دوری کا باعث بنتی ہے۔ نوجوان لڑکیاں انٹرنیٹ اور ٹی وی پر دکھائے جانے والے مواد سے متاثر ہو کر دین سے دور ہو جاتی ہیں۔

ذاتی دلچسپی کی کمی: بعض اوقات نوجوان لڑکیوں میں خود دین کی طرف دلچسپی کی کمی ہوتی ہے۔ یہ کمی ان کے اردگرد کے ماحول اور دوستوں کے اثرات کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔

ممکنہ حل:

دینی تعلیم کا فروغ: اسکولوں اور کالجوں میں دینی تعلیم کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ نوجوان لڑکیاں دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو سکیں۔

خاندانی تربیت: والدین کو چاہیے کہ وہ خود بھی دینی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے بچوں کو بھی دین کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

مثبت سماجی ماحول: نوجوان لڑکیوں کے لیے ایسے سماجی حلقے بنائے جائیں جہاں دینی تعلیمات کی پیروی کی جاتی ہو اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔

میڈیا کا مثبت استعمال: میڈیا اور سوشل میڈیا پر دینی مواد کی تشہیر کی جائے تاکہ نوجوان لڑکیاں دین کی طرف راغب ہو سکیں۔

ذاتی دلچسپی کی حوصلہ افزائی: نوجوان لڑکیوں کی دینی تعلیمات میں دلچسپی بڑھانے کے لیے مختلف سرگرمیاں اور پروگرام منعقد کیے جائیں۔

دین سے دوری کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے لیے ہمیں تعلیمی، خاندانی، سماجی اور میڈیا کے میدان میں مثبت اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس طرح ہم ایک مضبوط اور دینی بنیادوں پر قائم معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مضمون آپ کے لیے مفید ثابت ہوگا۔


دین سے دوری کی بے شمار وجوہات ہیں دین جو کہ اسلام مسلمانوں کا دین ہے اور وہ ایک ایسا مکمل دین ہے جس کے بعد کسی اور دین کی گنجائش نہیں اور اسلام میں کسی بھی قسم کی زبردستی نہیں کیونکہ یہ بات قرآن سے ثابت ہے مگر اس کے لیے جو خود کو مسلمان نہ ہی کہتا ہو اور نہ ہی کہلواتا ہو لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو اسلام میں داخل ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور خود کو مسلمان کہتے ہیں تو ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرنا ہم پر فرض و واجب ہیں۔

دین یعنی اسلام سے دوری کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین کو ہلکا لے لیا ہے معاذ اللہ اور دین دنیا اور اس کی لذتوں کو اپنا محور بنا لیا ہے دین کو چھوڑ دیا ہے۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موت کو یاد کرنا چھوڑ دیا ہے یعنی اگر کوئی مسلمان موت کو کثرت سے یاد کرے گا تو اسے دنیا کی زندگی سے محبت نہ رہے گی اور وہ دین کی طرف راغب ہوتا جائے گا۔ حدیث شریف میں ہے: لذتوں کو کاٹنے والی موت کو سب سے زیادہ یاد کرو۔ (ترمذی، 4/138، حدیث: 2314)

تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ نفس کی پیروی کرنے سے دین سے دور ہو گئے ہیں اور دین سے دوری کی یہ وجہ ہی اصل تباہی و بربادی پیدا کرتی ہے اور ہم خود ہی اپنےنقصان کر بیٹھتے ہیں۔

دین سے دوری کی ایک اور وجہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن پاک سے دوری ہے اور اس کتاب کی تعلیم و ہدایت سے غفلت ہی ہمیں دین سے دور کرتی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں اور اس پر عمل کرے تاکہ ہمیں اس سے وابستگی حاصل ہو اور ہم غفلت میں نہ پڑیں۔

دین سے دوری کی ایک اور سب سے اہم وجہ صحبت کا اثر ہے یعنی ہم مسلمان اگر کسی ایسے شخص کی صحبت میں پڑھیں گے کہ جس کا تعلق دنیا داری سے ہے اور وہ صرف دنیا داری کو ہی اہمیت دیتا ہے تو اس کی صحبت بھی ہمیں دنیا کے مال مال کو جمع کروائے گی اور اس سے محبت میں مبتلا کر دے گی البتہ اگر ہم اپنے کسی دیندار دوست کے ساتھ مل کر بیٹھیں اور اس کی صحبت اختیار کریں گے تو ہمیں دین اور اس سے محبت حاصل ہوگی اور صحیح اور غلط میں فرق کی سمجھ آئے گی۔ رسول ﷺ نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے۔

ہماری دین سے دوری کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اگر بھی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی خاطر اپنا سارا کا سارا وقت صرف اسی مقصد میں سرف کر دیتے ہیں تاکہ ہم بڑے بڑے عہدے حاصل کر سکیں اور خوب پیسے کمائیں ان مقاصد نے ہمیں اور حقیقتاً ہماری نوجوان نسل کی توجہ کو منتشر کر دیا ہے اور ہم دین سے دن بدن دور ہوتے چلے جا رہے ہیں حضرت علی نے فرمایا کہ ہماری دین کی دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب ہم اپنے ارد گرد علماء اور دیندار لوگوں کو کردار میں ضعیف پاتے ہیں تو ہم دین سے دور ہو جاتے ہیں اور ہمارے ساتھ ساتھ ہماری اولادیں بھی دین سے دور ہو جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو دین پر استقامت نصیب فرمائے اور ہمیں دین و اسلام اور قرآن و سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

دین سے دور کرنے والے امور بے شمار ہیں دور حاضر کی سب سے بڑی خرابی موبائل کا غیرضروری استعمال اور موبائل کے غیر ضروری استعمال اور اس میں حد سے زیادہ مشغولیت کی وجہ سے انسان دین سے دور ہو چکا ہے اور بعض اوقات تو انسان موبائل فون میں اتنا مشغول ہوتا ہے کہ وہ نماز بھی قضاء کردیتا ہے اس کے علاؤہ مال کمانے کی حرص اس کی وجہ سے انسان علم دین سے دور ہے اور صرف دنیاوی لالچ کی وجہ سے مال کمانے کی حرص اس میں پائی جاتی ہے۔

نماز قضاء کرنا: یعنی نماز کو اس کے وقت میں ادا نہ کرنا۔ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) (پ 16، مریم: 59) ترجمہ: تو ان کے بعد انکی جگہ وہ نا خلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں (ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔

فرض علم نہ سیکھنا: ہر آدمی پر اس کی موجودہ حالت کے مطابق مسئلے سیکھنا فرض ہے اگر اس کو علم نہ ہوگا تو وہ دین سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹) (پ 23، الزمر: ) ترجمہ کنز الایمان: کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں۔

موبائل فون: موبائل فون انٹرنیٹ سوشل میڈیا دین سے دور کرنے میں ان چیزوں کا بھی کردار ہے کہ لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری استعمال اور حد سے زیادہ استعمال میں بڑھ کر اپنا قیمتی وقت فضولیات کی نظر کر رہے ہیں۔

بدمذہب کی صحبت: بد مذہب اور دین سے بیزار لوگوں کی صحبت سے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے غلط نظریات ثابت کرنے کے لیے آیات واحادیث میں اپنی طرف سے الفاظ کا خلط ملط کر کہ ان میں تبدیلیاں کر دیتے ہیں جن کو پڑھ کر انسان دین سے دور ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: آخری زمانے میں کچھ لوگ برے دھوکے اور جھوٹ بولنے والے ہوں گے وہ تمہارے پاس ایسی حدیثیں لائیں گے جو تم نے سنی نہ ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے تو تم اپنے آپ کو ان سے دور رکھو اور انہیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں۔ (مسلم، ص 13، حدیث: 7)

بے پردگی: ناجائز فیشن یہ بھی دین سے دوری کا ایک سبب ہے آج کل مرد و عورت دونوں ہی ایسے فیشن کرتے ہیں جو دین میں ناجائز و حرام ہوں اور عورتیں بے پردہ گھر سے باہر نکلتی ہیں جو دین سے دوری کا سبب ہے حتیٰ کہ عورتوں کر گھر میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بےپردگی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فضول کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حدیث مبارکہ میں ہے: دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ آج کے دور میں دین سے دور کردینے والے امور بے شمار ہیں دور حاضر کی سب سے بڑی خرابی موبائل فون کا غیر ضروری استعمال ہے اور دین سے دور کرنے والے امور میں اس کا سب سے بڑا کردار ہے اور اس طرح کے اور بھی بہت سے امور ہیں جو دین سے دور کرتے ہیں ان میں سے چند امور درج ذیل ہیں:

موبائل فون کا استعمال: موبائل فون،انٹرنیٹ،سوشل میڈیا کا دین سے دور کرنے میں بڑا کردار ہے لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری اور حد سے زیادہ استعمال میں بڑ کر اپنا قیمتی وقت فضولیات میں ضائع کر دیتے ہیں۔بعض اوقات تو اسکی وجہ سے نمازیں بھی قضا ہو جاتی ہیں اور موبائل فون میں مصروف ہونے کی وجہ سے انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ قرآن پاک میں ہے: فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹) (پ 16، مریم: 59) ترجمہ: تو ان کے بعد انکی جگہ وہ نا خلف آئے جنہوں نے نمازیں گنوائیں (ضائع کیں) اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غی کا جنگل پائیں گے۔

غی جہنم میں ایک وادی ہے جس کی گرمی سے جہنم کی وادیاں بھی پناہ مانگتی ہیں۔

بد نگاہی: جس کو دیکھنا جائز نہیں قصدا (یعنی جان بوجھ کر) اسے دیکھنا بدنگاہی ہے جیسے بےپردہ اجنبی عورتوں کو دیکھنا یا پردہ دار عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھنا۔ امرد (خوبصورت) لڑکے کو شہوت سے دیکھنا حرام ہے اور واضح ہے کہ جس کو دیکھنا حرام ہے اس پر قصداًیعنی جان بوجھ کر ڈالی جانے والی پہلی نظر بھی حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والے کام ہے۔

فرمان مصطفیٰﷺ ہے: تم یا تو اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے چہروں کو سیدھے رکھو گے یا تمہاری شکلیں بگاڑ دی جائیں گی۔ اگر آنکھ بہک جائے اور بد نگاہی کر بیٹھے تو فوراً نظر وہاں سے ہٹا لیجیے ممکن ہو تو خود وہاں سے ہٹ جائے اور سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ بھی کیجیے۔

اگر مرد کے ساتھ ایسا ہو تو اول و آخر درود شریف کے ساتھ یہ دعا پڑھے: اللّٰہُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النِّسَاءِ وَ عَذَابِ الْقَبْرَ۔

والدین کی نافرمانی: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں: جو بلا وجہ شرعی والدین کو ایذا دے ان کی نافرمانی کرے شریعت میں اسے عاق کہتے ہیں۔ والدین کی نافرمانی حرام ہے۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھول جاتے ہیں اور والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھولتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ والدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے جہنم کے دروازے کھل جاتے ہیں اور والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کی:اگرچہ والدین اس پر ظلم کریں فرمایا:اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں۔

ان یعنی والدین کی نافرمانی اور ناراض کرنا دونوں حرام ہیں اور یہ ناراض اور راضی کرنا ان کے واضح حکم کے ساتھ خاص ہیں یعنی اگر والدین نے حکم نہ بھی دیا ہو لیکن معلوم ہو کہ فلاں کام کرنے سے وہ ناراض ہوں گے تب بھی اس کام سے بچنا ضروری ہوگا۔ والدین اگر کسی ناجائز بات کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت جائز نہیں۔


ہم دیکھ رہے ہیں کہ دن بدن دین سے دوری ہے اور دنیا کے لیے ایک  عام بندے کی بھاگ دور بڑھتی چلی جا رہی ہے روزانہ اس کے لیے کوشش کل سے زیادہ ہورہی ہیں سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگ دین سے دور بھاگ رہے ہیں۔

امیر اہلسنت بیان فرماتے ہیں کہ میں نوٹ کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں جب ملاقات ہوتی ہے یا کال پر ایک دوسرے سے بات چیت کی جاتی ہے تو اس طرح کا رواج ہو گیا ہے کہ بھئی کیا حال ہے بچے ٹھیک ہیں بکری مرغا ٹھیک ہیں اس کے بارے میں تو پوچھتے ہیں لیکن سلام نہیں کرتے سلام کرو یہ سنت ہے۔

حدیث پاک میں بھی آپس میں سلام کو عام کرنے کی ترغیب آئی ہے۔

بزرگوں نے بھی درد اپنے بیان کیے ہیں ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو دیکھا اور بڑا ہی عجیب معاملہ پایا وہ گھروں کے اجڑنے یعنی برباد ہونے پر روتے ہیں۔ پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں معاشی تنگدستی پر افسوس بھی کرتے ہیں اور زمانے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں حالانکہ حدیث پاک میں زمانے کو برا بھلا کہنے سے منع مگر اسلام کی عمارت گر رہی ہے دین ٹکڑوں میں ہو چکا ہے سنتیں مٹ رہی ہیں اور گناہوں کی کثرت ہو رہی ہے لیکن اب ان میں سے دین کے لیے رونے والا کوئی نہیں اپنی عمر برباد کرنے پر کسی کو افسوس نہیں اپنے وقت کو ضائع کرنے میں کوئی غم نہیں کرتا اور مزید فرمایا کہ میں ان سب کا ایک سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان سب کی نظروں میں ہلکا ہو گیا ہے معاذ اللہ دنیا ان کی نظروں کا محور بن چکی ہے۔

آج کی صدی اور آج کے لوگوں کے حالات بہت عجیب و غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگ دین سے دور ہو رہے ہیں۔مذہبی کلپ لوگوں تک پہنچ بھی جائے تو اسے اوپر کر دیتے ہیں اور اس کو شئیر بھی نہیں کرتے۔ دین سے دوری کا سب سے بڑا سبب آج کل کے سکول کالجز جہاں دین کی نہیں بلکہ دنیا کی تعلیمات دی جا رہی ہیں ہم سب کو دین سے دوری کے افعال سے بچنا چاہیے دنیا کی محبت بھی انسان کو دین سے دور کرتی ہے کیونکہ دنیوی محبت مال و دولت کی طرف لے کر جاتی ہے اور مال و دولت کی محبت دین سے دور کر دیتی ہے اور بری صحبت بھی دین سے دور کرتی ہے۔

فرمان امیر اہلسنت: الله پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں جو اچھا ہے حقیقت میں وہی اچھا ہے تو ہمیں چاہیے اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں اچھا بننے کے لیے اچھے اعمال کریں یعنی دین سے دوری اختیار نہ کریں اگر دین سے دوری اختیار نہ کریں گے تو ان شاء اللہ الکریم جنت ٹھکانہ ہوگی، اگر دین سے دوری اختیار کی تو معاذ اللہ ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنی زندگی کو غنیمت جانیں اور اچھے اعمال کریں اور اپنے دین کے فرمانبردار رہیں۔

یا اللہ ہمیں اپنے دین کا فرمانبردار رکھنا اور اپنی اور حضور اکرم ﷺ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

دین اسلام ایک کامل دین ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اس کامل دین کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں پیارے آقا ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-(پ 6، المائدۃ: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

اب جو لوگ اس کامل دین سے دوری اختیار کرتے ہیں ان کے اس دوری اختیار کرنے کی چند وجوہات ہو سکتی ہیں جن کو ذیل میں ذکر کیا گیا ہے اور انکا حل بھی بیان کیا گیا ہے:

1- علم دین کی کمی: علم دین کی کمی کی وجہ سے لوگ دین سے دور ہوتے جاتے ہیں بعض لوگ دینی معاملات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ترک کر دیتے ہیں اور یوں وہ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔

اسکا حل :ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالت کے مطابق ضروری علم دین حاصل کریں اور مطالعہ کتب دینیہ کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیں۔

2-سستی اور کاہلی: بعض لوگ بہت سست اور کاہلی پسند ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ دین پر عمل نہیں کرتے اور یوں وہ دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اسکا حل: ایسے لوگوں کو چاہیے کہ بے جا سستی و کاہلی کو دور کریں دین کے معاملے میں کسی قسم کی سستی کو آڑھ نہ بننے دیں۔

3- بری صحبتیں: دین سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ بری صحبت ہے انسان بسا اوقات بری صحبت کے اثر کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتا ہے اور اس میں گم ہو کر اپنی عاقبت خراب کر لیتا ہے۔

اسکا حل: اس لئے چاہیے کہ انسان خود کو بری صحبت سے بچائے جہاں تک ہو سکے اہل دین، علمائے کرام اور اچھے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے۔

4- خوف خدا کی کمی: فی زمانہ لوگوں میں الله پاک کے خوف کا بہت فقدان ہو گیا ہے جس وجہ سے لوگ دین پر عمل کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

اسکا حل: اسکا حل یہ ہے کہ انسان اپنے اندر اللہ پاک کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کرے اور خوف خدا پیدا کرنے کے لئے ہمارے بزرگان دین کے طریقوں کا مطالعہ کرے۔

5- بد مذہبوں سے دوستی: بعض اوقات بد مذہبوں کی دوستی دین پر عمل کرنے میں آڑھ بن جاتی ہے اور انسان اپنے حقیقی دین اسلام سے دور ہو جاتا ہے۔

اسکا حل: اسکا حل یہ ہے کہ انسان غیر مسلوں سے تعلقات نہ بنائے ان سے دوستیاں نہ بنائے اور دینی احکامات پر عمل کرتا رہے۔

6- دنیا کی محبت: کچھ لوگ دنیا کی محبت میں اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ آخرت کو بھول جاتے ہیں اور اپنی دنیا ہی کو درست کرنے کی کوشش میں وہ دین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں

اسکا حل: ایسے لوگوں کو چاہیے کہ دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکالنے کی کوشش کریں اور اس پر اللہ پاک سے مدد طلب کریں اور اپنے دل میں آخرت کا خوف پیدا کریں۔

بے جا رسومات: بعض اوقات معاشرے کی بے جا رسومات دین سے دوری کا سبب بن سکتی ہیں انسان معاشرتی رسومات میں گم ہو کر دین کو بھول جاتا ہے اور کبھی معاشرے کی خوف سے دین پر عمل کرنے میں عار محسوس کرتا ہے اور معاشرے کی شرمندگی سے خود کو بچانے کے لئے دین کو ترک کر دیتا ہے۔

اسکا حل: ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھے اور کسی بھی دینی بات پر عمل کرنے کو کبھی عار کا باعث نہ سمجھے۔

اگر انسان دین سے دوری کی وجوہات کو جان کر کے انکا حل تلاش کر کے انہیں ختم کرنے کی کوشش کرے گا تو سارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے گا اور دین کی راہ میں آنے والی رکاوٹ دور ہو جائے گی اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے گا۔

اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلتے ہوئے دین اسلام پر ثابت قدمی نصیب فرمائے اور دین سے دوری کے اسباب سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

دین سے دوری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، اور یہ مختلف افراد کے لیے مختلف ہوتی ہیں۔ چند عام وجوہات درج ذیل ہیں:

1۔ صحبت: صحبت انسان پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے اگر انسان دین دار یعنی علماء کرام کی صحبت میں رہے تو دین دار بنے گے اور اگر بری صحبت میں رہے تو دین سے دور ہو جائے گا۔

2۔ ثقافتی اثرات: مغربی ثقافت اور میڈیا کا اثر بہت سے معاشروں پر ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ اپنے مذہبی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں اور مغربی طرز زندگی کو اپنانے لگتے ہیں۔ اس پر اقبال فرماتے ہیں کہ

یورپ کی غلامی پر رضا مند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

3۔ معاشرتی دباؤ: بعض اوقات سماج میں کچھ خاص گروہوں کی جانب سے دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ دین سے دوری اختیار کرتے ہیں۔

4۔ ذاتی تجربات: بعض افراد اپنی زندگی میں دینی شخصیات یا مذہبی اداروں کے ساتھ منفی تجربات کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔

5۔ مذہبی تعلیم کی کمی: دین کی صحیح اور مکمل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور دین سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

6۔ مادی ترقی اور لذت پسندی: موجودہ دور میں مادی ترقی اور اپنی ذاتی لذتوں میں مگن ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہوکر دین اور آخرت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

7۔ سوالات اور شکوک: بعض افراد کے ذہن میں مذہب سے متعلق مختلف سوالات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں، اور اگر انہیں تسلی بخش جوابات نہ ملیں تو وہ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔

8: اصل مقصد کا بھولنا:علامہ اقبال کے مطابق مسلمان نے دین کی روح اور اصل مقصد کو بھلا کر رسم و رواج اور روایات کو زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دین سے دور اور دنیا کے قریب ہوتے جارہے ہیں اس تناظر میں اقبال کا مشہور شعر ہے:

حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھو گئی

یہ شعر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے دین کے ظاہری اعمال اور رسم و رواج کو اپنا لیا ہے، لیکن دین کی اصل روح اور اس کا مقصد فراموش کر دیا ہے۔

یہ وجوہات مختلف افراد کی سوچ، معاشرتی حالات اور ذاتی تجربات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔ دین سے قربت یا دوری کا تعلق اکثر افراد کے ذاتی اور سماجی عوامل سے ہوتا ہے۔

دین سے دوری کا حل انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہاں چند اقدامات ہیں جو دین سے دوبارہ تعلق قائم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں:

1۔ نماز کی پابندی: نماز دین کا ستون ہے اور اللہ سے قربت کا بہترین ذریعہ ہے۔ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے سے انسان کا دل نرم ہوتا ہے اور اللہ کی یاد تازہ رہتی ہے۔

2۔ قرآن پاک کی تلاوت اور سمجھنا: قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور اس کے احکامات پر غور کرنا دل کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے اور دین سے وابستگی کو مضبوط کرتا ہے۔

3۔ نیک صحبت اختیار کرنا: اچھے دوست اور ساتھی جو دین کے راستے پر چلنے والے ہوں، انسان کی سوچ اور اعمال پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔

4۔ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا: زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی احکامات اور سنت نبوی ﷺ کو اپنانا دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

5۔ ذکر و اذکار: دن بھر میں اللہ کا ذکر، دعائیں اور توبہ انسان کو روحانی طور پر قریب لاتی ہے۔

6۔ علم دین حاصل کرنا: دینی کتب پڑھنا، علماء سے رہنمائی لینا، اور دین کی گہری سمجھ حاصل کرنا ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔

7۔ توبہ اور استغفار: گناہوں سے بچنے اور اللہ سے معافی مانگنے کی عادت ڈالنا دین کی طرف پلٹنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

یہ اقدامات انسان کو دین کی طرف راغب کرتے ہیں اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا راستہ دکھاتے ہیں۔

میری تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین علم کے گہرے سمندر کی طرح ہے کہ اس پر مسلسل تیرنے کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے اگر کوئی رہنما نہ ہو گا تو سمندر کی تیز لہریں آپ کو بہا دے گی اور اگر آپ اس میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے ڈوبنا چاہیے تو بھی رہنمائی کے بغیر مکمل ڈوب نہیں سکتے کہ راستے میں سمندری جانوروں سے بھی واسطہ پڑے گا اور ان سے بچنے کے لیے بھی رہنما کی ضرورت ہو گی اس لیے ایک اچھی صحبت اور کامل پیر کا ہونا ضروری ہے جو آپ کو سمندر کی تہہ میں موجود ہیرے تک پہنچنے کے لیے مدد فراہم کرے۔

ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اسکی وجہ دین سے دوری ہے۔اگر ہم دین کے احکامات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو ایک بہترین معاشرے تشکیل پائے گا مگر افسوس ایک تعداد کو اس بات کا احساس تک ہی نہیں ہوتا کہ وہ دین سے دور ہیں دین دشمن دین کو مشکل کہتے ہیں حالانکہ دین بہت آسان ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّۚ- (پ 3، البقرۃ: 256) ترجمہ کنز العرفان: دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت کی راہ گمراہی سے خوب جدا ہوگئی ہے۔

دین سے دوری کے اسباب میں سے چند اسباب:

شیطان کی پیروی: شیطان کے وسوسوں میں آجانا نیکی کی راہ سے رک جانا، شیطانی وساوس پر عمل کرنا دین سے دوری کا بہت بڑا سبب ہے مثلاً کوئی عالم دین بننے کیلیے جامعہ میں داخل ہوگیا شیطان کا اسکو وسوسے ڈالنا کہ یہ بنو گے تو تنخواہ بہت کم ہوگی وغیرہ لہذا کچھ اور بنو اور اس بندے کا شیطان کے مکر میں آجانا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸) (پ 2، البقرۃ: 208) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

دین بیزار لوگوں کی بیٹھک: ایسے لوگ جو دین سے خود بھی بہت دور ہوتے ہیں اور دوسروں کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں انکی پیروی کرنا بھی انسان کو تباہی کے گھڑے میں دھکیل دیتا ہے۔

نفس کی مکاریوں سے بے خبری: نفس نے جو کہااس پر عمل کرنا اسکو مثال سے سمجھیئے کسی کی نیت بنے کہ میں نے اجتماع میں شرکت کرنی ہے اور نفس کا اسکو یہ کہنا کہ آرام کرلو اتنی دیر بیٹھو گے نہ جاؤ اور وہ انسان نفس کی بات مان کر آرام کرنے لگ جائے اور اجتماع میں نہ جائے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-(پ 23، ص:26) ترجمہ: نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی۔

جہالت: صرف اپنی دنیا سنوارنے میں ہی لگے رہنا علم دین حاصل نا کرنا انسان کی تباہی کا باعث بنتا ہے اور وہ دین سے اس قدر دور ہوجاتا ہے کہ اسکو عقائد تک کا علم نہیں ہوتا کہ مجھے اللہ پاک کے بارے یا آقا ﷺ کے بارے کیا عقیدہ رکھنا ہے ہمارا دین ہمیں کس بات کا حکم دیتا کس سے منع کرتاہے۔

غیر ضروری کاموں میں بے جا مصروفیات: ایسے کاموں میں مصروف رہنا کہ جو بے فائدہ ہو انسان کے نقصان کا باعث بنتے ہو اور وہ دین سے دور ہوتا چلا جاتا ہے مثلاً سوشل میڈیا کا ایسا استعمال جس کا دینی فایدہ نہ ہو بلکہ دین کا نقصان ہو۔

بے دینوں کی کتابیں پڑھنا: انہوں نے اس میں جو بھی لکھا ہے اس کو درست سمجھنا اسی پر عمل کرنا۔

صرف دنیا کمانے کی ہی دھن: جیسے کسی کا کاروبار ہو اور وہ بس اسی سوچ میں مصروف رہے کہ میں مزید سے مزید ترقی کرجاؤں اپنا تقریبا سارا دن اسی پر صرف کردے کہ میں فلاں سے آگے بڑھ جاؤں اسکو نیچے کردوں دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لے تو بھی دین سے دور ہوجاتا ہے۔

صرف دنیوی علوم ہی حاصل کرنا: جو انسان صرف دنیا کی تعلیم حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے اس کے لیے تو دن رات ایک کر دیتا ہے اور جب دین کی بات آتی ہے تو وقت نہ ہونے کا بہانا بناتا ہے تو وہ صرف دنیا کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے۔

دین کے قریب کیسے ہوا جائے؟ اسکا بہت ہی آسان ذریعہ دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجانا بھی ہے۔ دعوت اسلامی کے مشکبار دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے ان شاءاللہ الکریم دین سے ایسی محبت نصیب ہوگی کہ آپ نہ صرف خود دینی ماحول والے ہو جائیں گے بلکہ دیگر کو بھی دین کی طرف لانے والے بن جائیں گے۔

اسلامی بہنو! ابھی وقت ہے آجائیے دین کی طرف اس سے پہلے کہ اس دنیا فانی سے کوچ کا وقت آ جائے اس وقت یہ سوچنا کہ کاش دین کی طرف آجاتی یہ سوچ اس وقت فائدہ نہ دے گی ہمیں ابھی سے کوشش کرنی ہے خود کو شریعت مطہرہ کی پابند بنانا ہے۔

اللہ پاک ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

آج عالم اسلام کی یہ حالت ہے کہ  چاروں طرف سے کفار کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے،تمام اہل اسلام پر بے حسی کی ایک گھٹا چھائی ہوئی ہے۔کفارنے مسلمانوں کو ان کے مذہب و عقیدے سے بیزار کرنے کے لیے جتنے حربے استعمال کیے مسلمان بے خبر فاختہ کی طرح ان حربوں میں جکڑتے چلے گئے۔دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ آج ہم ابتدائی دینی تعلیمات سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔

آج ایک مسلمان اپنی ناواقفیت کےسبب اپنے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے کان میں اذان دینے سے بھی عاجز ہے،کیونکہ اس بیچارے نے کبھی مؤذن کی صدا پر کان دھرنے کو مناسب ہی نہیں سمجھا۔آج ہمارے نوجوانوں کو فلمی اداکاروں کے نام اور ان کا بایو ڈیٹا تو ازبر ہے مگراپنے پیارے نبی ﷺکے سب سے پہلے جانشین کا نام تک معلوم نہیں!کیونکہ پیدائش کے وقت ان کے والدین نے انہیں اسلام کا اعزاز دینے کے لیے رسمی طور پران کے کانوںمیں اذان کے چند کلمات تو کہلوادیے تھے،لیکن اس کے بعد بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک ان کے کانوں نے ٹی وی و موبائل کی آواز کے علاوہ کوئی آواز سنی ہی نہیں۔ پھر جوانی سے فکر معاش میں سرگرداں اس نوجوان کو دین کا علم حاصل کرنے کے کے لیے فرصت ہی کہاں! بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے بعد اگر فضل الٰہی سے اس مسلمان کو دین کی رغبت ہو بھی گئی تو اب زبان اپنے قابو میں نہ رہی کہ کلمہ طیبہ کے الفاظ تک صحیح طور پر زبان سے ادا نہیں ہو پاتے! حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں تو خوب اللہ پاک کا کروڑ ہا احسان مند رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دین اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔دین اسلام جو تمام ادیان میں اعلیٰ وارفع اور اصل دین ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-(پ 6، المائدۃ: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

دین اسلام ہی اصل کامیابی ہے آخرت کی ابدی نعمتوں اور کامیابی دین اسلام سے مشروط ہے۔ دین اسلام سے دوری کے اسباب کو جانناہی اپنی کوتاہیوں غفلتوں کا اعتراف ہے۔

دین سے دوری کے چند اسباب کا جائزہ لیتے ہیں کہ

سب سے پہلا سبب ہم سب کی غفلت جہالت اور دنیا پرستی ہے ہمیں دنیا کی ہوس،رغبت لالچ،دنیا کی اندھی محبت اور غیروں کی تقلید نے دین سے دور بہت دور پھینک دیا شیطان تو ازل سے ہی اسی طاق میں تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے اللہ کے دین سے باغی کرے اس کے لیے جو اہم اور نازک ترین دشمن کا ہدف بنا وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں نصاب تعلیم معیار تعلیم کو نشانہ بنایا گیا نظام تعلیم تو اس وقت ہی تباہی کی طرف چلا گیا جب دینی اور دنیاوی تعلیم کو تقسیم کردیا گیا مومن اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا سینہ نور قرآن سے منور نہ ہو جائے۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال جدید دور میں انسان کو دین سے دور کرنے والادوسرا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ معاشرے میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ایک ستون کی طرح رہا ہے مگر افسوس اب معاملہ برعکس ہے۔ میڈیا معاشرے کی تعمیر نہیں کر رہا۔اسلامی تشخص کی تصویر بگاڑنے میں ہر دم لگا ہے۔

دشمنوں کی چالوں سے بے خبر ہونا تیسرا بڑا سبب دشمن کی چالوں سے اور طاغوت کے مکرو فریب سے بے خبر ہوناہے شیطان کی ہمیشہ سے چال رہی ہےکہ وہ برائی کو برائی کہہ کر نہیں متعارف کرواتا بلکہ برائی کوخوبصورت بناکرپیش کرتارہاہے۔ان سب چالوں کاشکار،ہم اس لےہو گئےکہ ہمیں قرآن سےدور رکھا گیا۔ہمارا معیار ہماری سوچ دنیا اور بس دنیا ہی رہی لہو ولعب نے میرے ضمیراورشعورکو بیدارہی نہ ہونےدیا۔

مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانا مغرب کے کلچر و تہذیب نے ہم پرایساجا دو کیا کہ ہم سب زندگی کےاصل مقصد کو بھول گئے۔اپنے اتنےاہم کامل دین اسلام کو بھول گئے اس کی حوبصورت تعلیمات کو بھول گئے، نبی پاک ﷺ کی عظیم ہستی کو بھول گئے حد تو یہ کہ ہم اپنے کرم کرنے والے رب کو بھول گئے وہ رب جو فرماتا ہےکہ زمین وآسمان جتنے گناہ لیکرآؤ بس ایک بارسچے دل سے توبہ کرلو میں بخششوں کی بارش کردوں مغفرت کے دریا بہا دوں گا۔ ان سب کو بھول کر مغربی کلچر کو اپنانے کی وجہ سے آج ہم دین سے دور ہیں۔

اسوہ حسنہ کا ترک کرنا ہم محبت رسول ﷺ کے دعوے دار تو ہیں مگر اتباع رسول ﷺ میں زندگی کی رمق باقی نہیں بچی۔ اتباع رسول اللہ ﷺ میں ہی زندگی ہے اور آسانی ہے لیکن آج ہم نے قدم بہ قدم پر رہنمائی کرنے والی ذات کے اسوہ حسنہ کر ترک کر دیا ہے جسکی وجہ سے امت محمدیہ دین سے دور تر دور ہوتی جا رہی ہے۔

مسلمان بہت سی وجوہات کی بنا پر دین سے دور ہے لیکن آئیے! ہم انہی چند ایک وجوہات کو جان کر ان وجوہات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہیں۔

سب سے پہلےتوبہ نصوح کر کے رو رو کے دعائیں کریں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں کہ آج ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر قرآن مجید سے ٹوٹا ہوارشتہ جوڑنا ہو گا، قرآن ہی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن ہی کو اپنا راہنما امام بنانا ہو گا قرآن ہی تمام مسائل کا حل ہے-

روٹھے ہوئےرب کو کثرت سجدہ سے منانا ہوگا۔ ارکان اسلام کو خوشی دلی سے اپنانے کا عزم کرنا ہوگا میڈیا سے خود کو اور آنے والی نسلوں کودور ہی رکھنا ہوگا۔ذمہ داران میڈیا کو انٹرویو یر مہذب پروگرام اشاعت کرنے سے باز رکھنا ہوگا اسکی جگہ میڈیا پرایسے پروگرام پیش کروائے جائیں جو نسل نو کی سیرت و کردار کو نکھار دیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پاکستانی شہری میں اسلامی تشخص کو ازسر نو زندہ کرےجو نورایمان سے تعمیر سیرت کرے کہ نسل نو اسوہ حسنہ کی عملی تفسیر ہوں، تخلیقی اورپیشہ ورانہ تعلیم و تربیت پربھرپور توجہ دی جائے، والدین خاص طور پر خصوصی توجہ دیں اپنی اولاد پر، بےحیائی کی پرزور مذمت ہو، روزگار کے مواقع زیادہ فراہم کیےجائیں، دشمن کی ہر چال پرکڑی نگاہ ہو، جدید ٹیکنالوجی پر عبور، جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنےکی ضرورت ہے۔اخلاقی اور مذہبی تربیت کامنظم اہتمام کیاجائےاورسب سے بڑھ کراللہ اور رسول ﷺ کی صحیح اطاعت کی جائے۔اگرآج بھی اس تباہی کو نظراندازکیا گیا۔آج کی خاموشی مجرمانہ خاموشی ہوگی۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہےکہ یہی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اصل اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہےتو عقلمندی کا تقاضا ہے،ایمان کا تقاضا ہےکہ اپنی ابدی زندگی کی فکرابدی کامیابی کی فکرتمام فکروں پر غالب ہو۔ہم حریص ہوں، ہم متلاشی ہوں صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضامندی کے اور یہی محبت کا تقاضا ہے۔

آئیں اللہ سے توبہ کرتے ہوئےامت مسلمہ کی حفاظت اتحاد اور استقامت کی دعا کریں، اللہ ہم سب کو دین اسلام کی نعمت کی قدر کرنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دین سے دوری کے مختلف اسباب ہیں، جنہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں پر وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جو لوگوں کو دین سے دور لے جاتی ہیں:

اللہ کی یاد سے غفلت: قرآن میں اللہ کی یاد سے غافل رہنے والوں کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا (پ 16، طہٰ: 124) ترجمہ: اور جو لوگ میرے ذکر سے روگردانی کریں گے، ان کے لیے تنگ زندگی ہوگی۔

مال و دولت کا غرور: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قارون کی مثال بیان کی جو اپنے مال کے غرور میں مبتلا تھا اور دین سے دور ہوگیا۔

شیطان کی پیروی: شیطان انسان کو دین سے دور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ- (پ 22، فاطر: 6) ترجمہ کنز الایمان: بےشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اُسے دشمن سمجھو۔

علم دین کی کمی: دین سے دوری کا ایک بڑا سبب علم دین کی کمی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اس کے علاوہ درج ذیل وجوہات بھی دین سے دوری کا سبب بنتی ہیں:

غلط صحبت، نماز میں سستی، ناشکری، گناہوں میں مبتلا ہونا، ظاہری نمود و نمائش، موت کی یاد سے غفلت، تقدیر پر ایمان کی کمزوری، اللہ کی رضا پر راضی نہ ہونا، خودپسندی یعنی اپنی تعریف اور تکبر میں مبتلا ہونا، اللہ کی رحمت سے مایوسی، دین کو بوجھ سمجھنا اور اس پر عمل نہ کرنا، غلط عقائد کا اپنانا، وقت کی ناقدری، احساس ذمہ داری کی کمی، خوف و مایوسی یعنی دین کے احکام کو مشکل سمجھ کر خوف اور مایوسی میں مبتلا ہو جانا، شہوت پرستی اور نفسانی خواہشات کا پیچھا کرنا، علماء سے دوری اور دنیاوی مصروفیات میں مشغول ہو کر دین کو پس پشت ڈال دینا وغیرہ یہ وجوہات قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان کو دین سے دور کر سکتی ہیں، اس لیے ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے اور اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔


علم دین سے دوری ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے نت نئے فیشن اور سوشل میڈیا نے واقعی بنی نوع انسان کو دین کے علم سے بہت دور کر دیا ہے بلکہ ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا کہ  انسان میں علم دین اب دور دور تک نظر نہیں آتا جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو جہالت ہی جہالت ہے زمانہ جہالت میں جیسے لوگ ایک دوسرے کے حق کو دبا لیتے تھے قتل و غارت عام تھی چوری ڈاکہ زنا بے حیائی نا فرمانی سر عام لڑائی جھگڑے آج بھی قرب قیامت یہ سب عام ہی عام ہوتا چلا جا رہا ہے ان تمام کاموں کی ایک ہی وجہ ہے علم دین سے دوری۔ علم دین سے دوری کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں آئیے ان پر مختصر سا کلام کرتے ہیں:

بری صحبت: بری صحبت ایک سنگین مسئلہ ہے انسان جس جگہ اور جن کے ساتھ اور جہاں بیٹھتا ہے وہاں کا ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے ایک شخص اگر طالب علم ہے تو اسکا بیٹھنا اٹھنا جن لوگوں کے ساتھ ہے آیا کہ وہ لوگ ایمان والے ہیں بھی یا نہیں کہیں معاذ اللہ بدمذہب کافر وغیرہ تو نہیں۔ بدمذہب کی دوستی سے تو ہر ایک کو ہی بچنا ہے کہ ایسے لوگ جو ایمان کے لٹیرے ہوں انکے تو سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی کام کاج والا شخص کام کاج سے تھکا ہارا دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہے بعض اوقات تو کئی کئی گھنٹے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزر جاتے ہیں تو وہاں جو بیٹھ کر باتیں کی گئیں کیا وہ کسی کام کی تھی ان باتوں سے دین کو کیا فائدہ پہنچا یا دین کی بات کیا سیکھی گئی؟ اور اگر دوست اچھے ذہن والے نہیں برے ہیں اچھی صحبت نہیں پھر تو دین کو بہت نقصان پہنچا اور دنیا بھی برباد ہوئی اور اگر صحبت اچھی ہو تو انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے مثلا اگر اچھی صحبت اچھے دوست دینی ذہن رکھنے والے تو فالتو باتیں کم ہوں گی اور کام کی باتیں زیادہ ہوں گی اچھے اخلاق سیکھائے گے ماں باپ کی اطاعت کا ذہن بنائے گئے نماز کی طرف رغبت نیک کاموں کی باتیں نیک مشورے تو اس طرح علم دین سیکھنے کا ذہن بنائے گئے مگر افسوس کہ اچھی صحبت بہت کم میسر آتی ہے بری صحبت سے علم دین سے انسان بہت دور ہو جاتا ہے وقت کو ضائع کرتا ہے باتیں کرنے کے لئے گھومنے کے لئے تو بہت وقت ہوتا ہے مگر مسجد جانے کا وقت نہیں درس سننے کا بیان سننے کا وقت نہیں ہوتا تو اس طرح بری صحبت بھی علم دین سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

سوشل میڈیا: علم دین سے دور کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی بھر پور ہاتھ ہے بنا دیکھے سمجھے ہم ہر ایک انسان کو سننا شروع کر دیتے ہیں نہ اسکا بیگ گراؤنڈ دیکھا جاتا ہے نہ کچھ کہ یہ جو بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اسلام اور دین کی باتیں کر رہا ہے کس مدرسے یا کس ادارے سے پڑھا ہوا ہے آیا کہ پڑھا لکھا دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہے بھی یا نہیں مگر ہم یہ پہچان تب ہی کر پائیں گے جب ہم خود کچھ نہ کچھ دین کے بارے میں جانتے ہوں گے تو ہمارا ہر ایک کو سننا ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے بنا کسی حوالے کے ہم اسکی بات پر یقین کر بیٹھتے اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں سوشل میڈیا پر 90 فی صد جھوٹی باتیں بیان کی جاتی ہیں اور بے جا کہانیاں سنا کر بس لوگوں کو متاثر کیا جاتا ہے جتنا وقت لوگ سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر اتنا وقت علم دین سیکھا جائے تو بھر پور علم دین کا خزانہ ہاتھ آئے اور ساری جہالت دور ہو جاتی ہے۔

انسان بے شک خسارے میں ہے، بہت جلد اپنے نفس کے چکروں میں آکر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں بہت سارا وقت مال ضائع کرتا ہے یہ نفس تو اسے کشاں کشاں برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدی کے لیے انسان کے دل میں زبردست داعیہ اور کشش کا سامان پید اکردیتا ہے۔ نفس کی اس حالت پر بڑی محنت و ریاضت مجاہدے اور مشقت کے بعد قابو پایا جاسکتا ہے۔

نفس کے لیے مجاہدہ و مشقت انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ خارجی سازگار ماحول اسے بدی کی طرف کھینچتا ہے تو باطنی شعور اسے صراط مستقیم سے بھٹکا کر دین سے دور لے جاتا ہے۔سماجی ڈھانچہ بھی اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوجوان کو دین سے کیونکر قریب کیا جائے۔

نسل نو کی دین سے بےرغبتی کا سبب: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محبوب حقیقی سے لو لگانے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور نئی نسل کے دین سے تنافر اور بے رغبتی کے کیا اسباب ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری دکان میں وہ مال ہی نہیں جس کی طلب کے لیے خریدار دور دور سے کشاں کشاں آیا کرتے تھے۔

اللہ ہمیں علم دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے اللہ ہمیں بھی اپنے سینوں کو علم دین سے آراستہ کرنے کی روشن کرنے کی توفیق بخشے ہمیں اپنے علم پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے دینی سوچ دینی ماحول اپنانے کی توفیق ملے اور ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین


دین کے لغوی معنی مذہب،عقیدہ ہیں اور اصطلاح میں دین وہ پیغام،ہدایت نامہ اور حکم نامہ ہے جس سے اللہ پاک نے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کے مابین صحیح رشتے کی نشاندہی کرنے خدا،آخرت اور رسالت وغیرہ جیسی بنیادی اصولی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے نازل کیا۔ امام ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو برا ہی عجیب معاملہ پایا۔ لوگ گھروں کے اجڑنے پر روتے ہیں۔ پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں۔ معاشی تنگدستی پر حسرتیں کرتے ہیں اور زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے۔ دین فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ سنتیں مٹ رہی ہیں اور بدعات کا غلبہ ہے۔ گناہوں کی کثرت ہے لیکن ان لوگوں میں سے کوئی بھی اپنے دین کے لیے رونے والا نہیں ہے۔ اپنی عمر برباد کرنے پر کسی کو افسوس نہیں ہے۔ اپنے وقت کو ضائع کرنے پرکسی کو کوئی غم نہیں میں اس سب کا ایک ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہو چکا ہے دنیا ان کی فکروں کا محور بن چکی ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے دنیا میں مسلمان تو بہت ہیں جو اپنے دین کو جاننے کی بجائے اس سے بہت دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دین سے دوری کی چند وجوہات پرھیے:

نسیانِ خالق (خدا کو بھول جانا): اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کوترک کر دینا اور حقوق اللہ کو یکسر فراموش کر دینا نسیان حالق کہلاتا ہے۔ (تفسیر طبری، 12/50) اپنے حالق ہی کو بھول جانا، اس کے ذکر سے غافل ہو جانا، اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کر دینا اور حقوق اللہ کو بالکل فراموش کر دینا بہت بڑی بدبختی اور دین سے دوری کا سبب ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹) (پ،28الحشر: 19 ترجمہ کنز الایمان: اور ان جیسے نہ ہو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے انہیں بلا میں ڈاالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں۔

نسیانِ موت (موت کو بھول جانا): دنیاوی مال و دولت کی محبت و گناہوں میں غرق ہو کر موت کو بالکل بھول جانا نسیانِ موت کہلاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(۱۹) (پ 26، ق: 19) ترجمہ کنز الایمان: اور ائی موت کی سختی حق کے ساتھ یہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: سب سے زیادہ عقل مند و دانا وہ مومن ہے جو موت کثرت سے یاد کرے اور اس کے لیے احسن طریقے پر تیاری کرے یہی (حقیقی) دانا لوگ ہیں۔

محبتِ دنیا: محبت دنیا یہ ہے کہ انسان ہر ذریعے سے دنیا حاصل کرتا رہے ضرورت پڑے تو دین دنیا پر قربان کر دے۔ (مراة المناجیح، 7/ 43) تفسیر صراط الجنان میں ہے: جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بری ہے اور کفار کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لیے وسیلہ بنایا جائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ (احیاء العلوم، 3/273) فرمان مصطفی ﷺ ہیں: دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ (شعب الایمان،7/383، حدیث: 10501)

اتباعِ شیطان (شیطان کی پیروی): شیطان کے وساوس و شبہات کے مطابق چلنا اتباع شیطان کہلاتا ہے۔ (تفسیر خزاین العرفان، ص 69 ماخوذاً) شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کا مقصد دنیا و آخرت دونوں کو تباہ و برباد کرنا ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا گناہ کرنا شیطان ہی کی اتباع ہے اور شیطان کی اتباع جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا۔

بندگیِ نفس (نفس کا ہر حکم مان لینا): جائز و ناجائز کی پروا کیے بغیر نفس کا ہر حکم مان لینا بندگی نفس کہلاتا ہے بندگی نفس یعنی جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر نفس کی ہر ہر بات کو مان لینا یا اس پر عمل کر لینا نہایت ہی مہلک یعنی ہلاکت میں ڈالنے والا کام ہے۔ اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) (پ 30، النازعات: 40، 41) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی ٹھکانا ہے۔

اللہ پاک ہمیں ہمیشہ دین سے وابستہ رکھے اور ایمان پہ زندگی اور ایمان پہ موت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبیین ﷺ