اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر
بھی لازم فرماۓاسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے ہیں جن
کاادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں
کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔اسی طرح رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح،2/240، حدیث: 3264)
1۔ ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ
اپنی بیوی کے کھانے پہننے اور رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے
مطابق اور اپنی طاقت بھرا نتظام کرے اور ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اللہ کی
بندی میرے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور یہ اپنے ماں باپ بھائی بہن اور
تمام عزیز واقارب سے جدا ہوکر صرف میری ہوکر رہ گئی ہے اور میری زندگی کے دکھ سکھ
میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لیے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا
میرا فرض ہے۔
یاد رکھو! جو مرد اپنی لاپروائی سے اپنی بیویوں کے
نان ونفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار حقوق العباد
میں گرفتار اور قہر قہارو عذاب نار کے سزاوار ہیں۔
2۔ شوہر کو چاہیے کہ عورت کے اخراجات کے بارے میں
بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کرے۔ اپنی آمدنی کو
دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔ نہ اپنی طاقت سے بہت کم نہ اپنی طاقت سے بہت
زیادہ۔
3۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو گھر کی چار
دیواری کے اندر قید کرکے نہ رکھے بلکہ کبھی کبھی والدین اور رشتہ داروں کے یہاں
آنے جانے کی اجازت دیتا رہے اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داری والی عورتوں اور
پڑوسنوں سے بھی ملنے جلنے پر پابندی نہ لگائے۔ بشرطیکہ ان عورتوں کے میل جول سے کسی
فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو اور اگر ان عورتوں کے میل ملاپ سے بیوی کے بدچلن یا بد
اخلاق ہوجانے کا خطرہ ہو تو ان عورتوں سے میل جول پر پابندی لگادینا ضروری ہے اور
یہ شوہر کا حق ہے۔
4۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زیادہ ہوں تو
اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک اور برتاؤ کرے
کھانے، پینے، مکان، سامان، روشنی، بناؤ سنگھار کی چیزوں غرض تمام معاملات میں
برابری برتے۔ اسی طرح ہر بیوی کے پاس رات گزارنے کی باری مقرر کرنے میں برابری کا
خیال ملحوظ رکھے۔ یاد رکھو !کہ اگر کسی نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور
برابر سلوک نہیں کیا تو وہ حق العباد میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حق دار ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کے پاس دو بیویاں ہوں
اور اس نے ان کے درمیان عدل اور برابری کا برتاؤ نہیں کیا تو وہ قیامت کے دن میدان
محشر میں اس حالت میں اٹھا یا جاۓ گا کہ اس کا آدھا بدن مفلوج (فالج لگا ہوا)
ہوگا۔ (ترمذی، 2/375، حدیث: 1144)
سیدبلال حسن (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان میلاد کامرہ
اٹک، پاکستان)
حضرت اسحاق
علیہ اسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔بنی
اسرائیل میں آنے والے تمام انبیاء آپ ہی کی نسل پاک سے ہیں۔(سیرت الانبیاء:ص 365) آپ
کی ولادت سے پہلے ہی اللہ پاک نے آپ کی ولادت، نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی
بشارت دی جس کا قرآن کریم میں اللہ پاک نے یوں ذکر فرمایا ہے:
وَ
بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(112)ترجمہ
کنزالعرفان:اور ہم نے اسے (حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو)اسحاق کی خوشخبری دی جو
اللہ کے خاص قرب کے لائق بندوں میں سے ایک نبی ہے۔ (پ:23، سورۃالصافات،ایت: 112)
آپ علیہ السلام
لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے تھے اور دنیا کی محبت نے
ان کے دل میں ذرہ بھر بھی جگہ نہیں پائی۔اللہ پاک نے اس کا ذکر سورہ ص میں یوں فرمایا
ہے:
اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِۚ(46)ترجمہ کنز العرفان:
بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے)گھر کی یاد ہے۔(پ:23،ص،46)
اللہ پاک نے آپ
علیہ السلام پر خصوصی برکت نازل فرمائی،جس کا ذکر یوں فرمایا:وَ
بٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَؕ -ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے
اس (حضرت ابراہیم علیہ السلام) پر اور اسحاق پر برکت اتاری۔ (پ:23، صافات، 113)
آپ علیہ السلام
کے لیے اللہ پاک کی رحمت اور شہرت کا تذکرہ قرآن پاک میں یوں فرمایا: وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ
رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۠(50)ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہم نے انہیں اپنی رحمت عطا کی اور ان کے لیے سچی بلند شہرت رکھی۔ (پ:
16،سورہ مریم،50)
ان کی سچی
بلند شہرت کے متعلق تفسیر صراط الجنان میں ہے: ان کیلیے سچی بلند شہرت سے مراد یہ
ہے کہ ہر دین والے چاہے وہ مسلمان ہوں چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی سب ان کی ثناء
کرتے ہیں اور مسلمانوں میں ان پر ان کی آل پر درود پڑھا جاتا ہے۔ (صراط الجنان،جلد
6،صفحہ 117)
آپ علیہ السلام
کی عملی و علمی قوتوں کا تذکرہ اللہ پاک قرآن کریم میں کچھ یوں بیان فرماتا ہے:ترجمہ
کنزالعرفان: اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو قوت والے
اور سمجھ رکھنے والے تھے۔
آپ علیہ
السلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے سیرت الانبیاء صفحہ 365 تا 372 کا
مطالعہ فرمائیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت اسحاق علیہ السلام کے صدقے
ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ذوالفقار یوسف (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق
اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے اپنے بندوں کی اصلاح کے لیے دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔
ان میں کچھ نبیوں کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا جن میں حضرت اسحق علیہ السلام بھی
ہیں۔ ان کا تذکرہ قرآن پاک میں سنتے ہیں۔
اللہ تعالٰی
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ
یَعْقُوْبَؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(49)ترجمہ کنز
العرفان: اور ہم نے اسے اسحق اور اس کے بعد یعقوب عطا کئے۔ اور ان سب کو ہم نے نبی
بنایا۔
تفسیر : حضرت
اسماعیل علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام سے بڑے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت اسحاق
علیہ السلام بہت سے انبیاء علیہم السلام کے والد ہیں۔ اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کا
ذکر فرمایا گیا۔(سورۃ مریم آیت نمبر 49 صراط الجنان جلد 6)
(2)
خاص قرب عطا فرمایا: اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:وَ
وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَةًؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا
صٰلِحِیْنَ(72)ترجمہ
کنز العرفان: اور ہم نے اسے ابراھیم کو اسحاق عطا فرمایا اور مزید یعقوب اور ہم نے
ان سب کو اپنے خاص قرب والے بنایا۔
تفسیر: حضرت ابراہیم
علیہ السلام پر کی گئی مزید نعمتوں کا بیان فرمایا گیا۔ ہم نے انہیں حضرت اسحاق
علیہ السلام بیٹا اور حضرت یعقوب علیہ السلام پوتا عطا فرمائے۔ حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اللہ عزوجل سے بیٹے کے لیے دعا کی تھی۔ مگر اللہ عزوجل نے انہیں بیٹے کے
ساتھ ساتھ پوتے کی بھی بشارت دی۔(سورۃ مریم آیت نمبر 72 صراط الجنان جلد 6)
(3)ہم
نے ہدایت دی:اللہ
پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ
وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے انہیں
اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ھدایت دی۔ (سورہ انعام آیت نمبر 84 صراط
الجنان جلد 3)
(4)ایک
معبود کی عبادت کرنا: الله پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: قَالُوْا
نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ
اِلٰهًا وَّاحِدًا
ترجمہ کنز العرفان: انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم
اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے ۔ (سورۂ بقرہ
آیت نمبر 133 صراط الجنان جِلد 1)
(5)قُربِ
خاص کا ملنا: وَ
وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ
النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَیْنٰهُ اَجْرَهٗ فِی الدُّنْیَاۚ-وَ اِنَّهٗ فِی
الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(27) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے اُسے اسحٰق
اور یعقوب عطا فرمائے اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی اور ہم نے دنیا
میں اس کا ثواب اسے عطا فرمایا اور بےشک آخرت میں وہ ہمارے قرب ِخاص کے سزاواروں میں
ہے۔ (سورۃ العنکبوت آیت 27 )
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19)
ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
اللہ نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ
زندگی گزارنے کا حکم فرمایا لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرے، شوہر پر بحیثیت شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے کھانے، کپڑے اور رہائش کی ذمہ
داری ہے۔
ایذا پر صبر کا ثواب: رسول
مقبول ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی بیوی کی بد خصلتی پر صبر کرے اس کو اتنا ہی ثواب
ملے گا جتنا حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی مصیبت پر ملا۔ (کیمیائے
سعادت، ص 262)
عورتوں پر مردوں کے حقوق: اے
اسلام کی مقدس شہزادیو! اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم بنایا ہے اور بہت
بڑی بزرگی دی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:انہیں وہ کھلاؤ جو تم
کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو نہ انہیں مارو اور نہ انہیں برا بھلا
کہو۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)
بیوی کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
مہر کی ادائیگی: مہر
کی ادائیگی ہر مرد پر لازم ہے بیوی کی جانب سے مقرر کردہ حق مہر ادا کرے کوئی بھی
مرد بلا اجازت بیوی کی حق مہر کی رقم نہیں استعمال کر سکتا اس پر صرف اور صرف بیوی
کا حق ہے وہ اس کو جدھر چاہے جیسے چاہے استعمال کرے۔
حسن معاشرت: یعنی اچھا
رہن سہن، حسن سلوک، نیک باتوں کی تعلیم دینا اسے پردے کا حکم دینا اس کے ساتھ پیار
محبت سے پیش آئے
جو اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے بھی پسند کرے اس کے نان و نفقہ کا خیال رکھے
اس کے رہائش کا انتظام کرے اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔
بیوی سے بغض نہ رکھنا: بیوی کے ساتھ
بغض نہ رکھے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے کہ حدیث
مبارکہ میں ہے: مسلمان مرد (اپنی) عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے (یعنی اس سے نفرت و
بغض نہ رکھے) اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے،دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم، ص
595، حدیث: 1469)
حیا و حجاب کی تعلیم و تاکید: شوہر
اپنی بیوی کو حیا و حجاب کی تاکید کرے اسے پیار و محبت سے نرمی کے ساتھ سمجھائے
کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تیرے لئے کبھی سیدھی
نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا
چاہے گا تو توڑدے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1468)
گھر امن کا گہوارہ: میاں
بیوی کو چاہئے کہ آپس میں رواداری و محبت سے رہیں دونوں ایک دوسرے کے حقوق پر نظر
رکھیں جیسے حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح
پیش آئیں۔ (ابن ماجہ، 2/278، حدیث: 1978)
میاں بیوی کا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئے کہ
اس رشتے کو لوگ اپنی مرضی سے چلائیں، یہ رشتہ میاں بیوی ہی کی رضامندی سے چلنا
چاہیے۔
حقوق حق کی جمع ہے اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کو دوسرے
بندے کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے محسن انسانیت حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل دنیا
میں ہر شخص اپنے حقوق اور فرائض سے غافل تھا
مرد عورتوں سے تو اپنے سارے حقوق ادا کرواتے تھے مگر عورتوں کو ایک لونڈی کی حیثیت
سے رکھتے تھے، نہ ان کے حقوق کی ادائیگی کرتے تھے
اور نہ ہی انہیں کوئی عزت دیتے
تھے۔ مرد پر نکاح کے بعد عورت کے حقوق کی ادائیگی
لازم ہو جاتی ہے اگر وہ اس میں کوتاہی کرے تو عذاب خداوندی کا سزا وار ہوگا۔ مرد
پر عورت کے حقوق درج ذیل ہیں:
حسن سلوک: اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19)
ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
اللہ پاک نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی
کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم فرمایا لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ
حسن سلوک کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو
اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی،
5/475، حدیث: 3921)
نان و نفقہ: نکاح کے بعد
مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے سارے خرچ پورے کرے اس کے کھانے پینے اور پہننے
اوڑھنے کا خیال رکھے۔ مرد کی کمائی کا بہترین
ذریعہ اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا ہے۔
بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک: جس
طرح شوہر چاہتا ہے کہ بیوی اس کے گھروالوں رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرے انکی خدمت کرے اس طرح شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے والدین اور رشتہ داروں
کےساتھ حسن سلوک کرے۔
حدیث شریف میں ہے: اگر تم قیامت میں مجھ سے قرب
چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو راضی رکھو بلکہ اسکی خوشنودی کیلئے
اس کے میکے والوں بلکہ اس کی سہیلیوں سے بھی حسن سلوک کرو۔
مارنے کی ممانعت:اسلام میں عورتوں کو مارنے کی ممانعت
کی گئی
ہے:بیوی کے حقوق کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: انہیں وہ کھلاؤ
جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے
ہو نہ انہیں مارو اور نہ انہیں برا بھلا کہو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)
رہنے کے مقام: شوہر کے حقوق
میں شامل ہے کہ وہ بیوی کے رہنے کیلئے مکان کا
بندوبست کرے تاکہ بیوی وہاں عزت و حفاظت سے رہے۔
نکاح نہایت ہی نازک رشتہ ہے۔ اس کو نبھانے میں میاں
بیوی دونوں کا بہت اہم کردار ہے کہ بیوی شوہر کے اور شوہر بیوی کے حقوق بجا لائے۔
جس طرح اسلام نے بیوی پر اس کے شوہر کے حقوق لازم کیے ہیں اسی طرح شوہر پر بیوی کے
حقوق لازم کیے ہیں جن میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیے:
شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں: حضرت
معاویہ بن حیدۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول
اللہ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو
انہیں بھی کھلاؤ، پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور
اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142) علامہ محمد بن علّان
شافعی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جب
مرد خود بقدر کفایت کھاتا ہو تو عورت کو بھی بقدر کفایت کھلانا فرض ہے اور اگر مرد
اچھا کھانے، اچھا پہننے والا ہو تو ضرورت سے زیادہ جو کھلائے یا پہنائےگا تو وہ
عورت پر احسان اور نفل ہوگا۔
بیوی کے حقوق ادا کرنے والا بہترین شخص:
رسول
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامل مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو اور تم میں سے
بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) علامہ
ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث پاک میں صلہ رحمی کرنے اور اس پر
ابھارنے کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی سے خوش
اخلاقی سے پیش آئے اور اس کو ایذا نہ دے اور اس پر احسان کرے اور اس کی طرف سے
ملنے والی تکالیف پر صبر کرے۔
عورت پسلی کی مانند ہے: بخاری
و مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے: عورت پسلی کی مانند ہے، اگر اسے سیدھا کرو گے تو
توڑ دو گے اور اگر تم اس سے نفع اٹھانا چاہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی نفع
اٹھاؤ۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1468)
مزید حقوق یہ ہیں: عورتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا،
ان پر احسان کرنا، ان کی بد اخلاقی ا ور عقل کی کمزوری پر صبر کرنا یہ سوچ کر کہ
عورت ناقص العقل ہے اور بلا سبب ان کو طلاق دینے کو نا پسند کرنا اور اس بات کی
خواہش نہ رکھنا کہ یہ بالکل سیدھی ہو جائے گی کہ عورت کو پسلی سے پیدا فرمایا گیا
ہے۔
میاں بیوی کا تعلق ایک باہمی معاہدہ یعنی نکاح سے
قائم ہوتا ہے نکاح کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے
نام پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے
کا عہد کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی دونوں کے کچھ فرائض اور حقوق مقرر
فرمائے ہیں اور دونوں کو ان کے ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ عورت کی خوشگوار
اور پرسکون زندگی کا دارومدار اکثر و بیشتر شوہر کے طرز عمل پر ہوتا ہے اس لیے
اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا: وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
آقا جان ﷺ نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک
کی تاکید فرمائی، آئیے اس حوالے سے چار فرامین مصطفی ﷺ ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ ارشاد فرمایا: کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ
بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا(مسلم،
ص 595، حدیث: 1469)
2۔ عورت پسلی سےپیدا کی گئی وہ روش میں سیدھی ہر گز
نہ ہوگی تو اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس سے نفع حاصل کرو حالانکہ اس
میں ٹیڑھ ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اس کا توڑنا اس کا طلاق
ہے۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1468)
3۔ تم میں سےبہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ
اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں اور جب تمہارا ساتھی مر جائے تو اسے
چھوڑ دو۔ اس کا مطلب کہ جب کوئی مر جائے تو دوسرا اسے اچھائی سے یاد کرے برائیاں
بیان نہ کرے۔
4۔ بیوی کے متعلق نیکی کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی
سے پیدا کی گئی ہیں اور یقینا پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہے تو اگر اسے
سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گا لہذا عورتوں کے
متعلق وصیت قبول کرو۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)
معلوم ہوا کہ گھر کو خوشگوار ماحول کے لیے ضروری ہے
کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں خوش خلقی کا معاملہ کریں نرمی اور شیریں
زبان اختیار کریں اور اگر کوئی ناگوار بات پیش ائے تو اس کو برداشت کرلیں خصوصا مرد کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے
عورت فطرتاً کمزور اور جذباتی ہوتی ہے اس کی کمزوری کی رعایت کرے آقا جان ﷺ نے
خطبہ حجتہ الوداع میں عورتوں کے بارے میں خصوصی تاکید اور وصیت فرمائی اس کا لحاظ رکھے،
اگر شوہر کے مالی حالات ناگفتہ ہو تو بیوی کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ تعاون کرے اور
سادہ زندگی پر اکتفا کرے۔
بیوی کے پانچ حقوق از ہمشیرہ محمد مدنی،جامعۃ
المدینہ رحمت کالونی رحیم یار خان
اﷲ پاک نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط
دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات استوار رہے
اور دونوں قرآن و احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور نبی کریم ﷺ کی مبارک سنتوں کے
مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کا اہتمام کریں تو ایک نیک و صالح کنبہ وجود میں آئے
گا، یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اﷲ پاک کی عبادت
ہے اور عبادت صحیح معنوں میں تب ہی ہو پائے گی جب آدمی پرسکون زندگی گزار رہا ہو
اور پرسکون زندگی کیلئے باہمی تعلق و محبت ضروری ہے، چنانچہ اﷲ پاک قرآن پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ
4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
اور سکون جب ہوگا جب نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب
زندگی کو اپنایا جائے لہٰذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے
جو شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کیے ہیں:
پہلا حق: دینداری کی
بنیاد پر نکاح ہو۔ مرد کو سکون جب ملے گا جب اس کی بیوی نیک اور پاکیزہ ہو جب وہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو بجا لائے گی تو ان کے احکامات میں سے ایک حکم
یہ بھی ہے کہ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اللہ پاک کی رضا مندی شوہر کی
رضامندی میں ہے اور ظاہر ہے جب اللہ پاک کی فرمانبردار نہ ہو تو شوہر کی
فرمانبردار کیسے بن سکتی ہے؟
اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت سے چار وجوہات
کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے (2) اس کے خاندان کی وجہ سے
(3) اس کی خوبصورتی کی وجہ سے (4) اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دینداری کو اختیار کرو
کامیابی ہوگے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے عزت دیکھ کر شادی کی
اللہ اسکی ذلت کو بڑھائے گا اور جس نے مال دیکھ کر شادی کی اس کے فقر کو بڑھائے گا
اور جو آدمی شادی میں خاندان کو بنیاد بنائے گا اللہ اس کی کمینگی کو بڑھائے گا
اور جس کی نیت آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت ہو یا صلہ رحمی کرنے کے لئے کی اللہ شادی
میں برکت پیدا کرے گا۔
دوسرا حق: مہر کی ادائیگی: مہر
عورت کا حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ نکاح کے
دوران اگرچہ اس کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے بہر صورت شوہر پر واجب ہوتا ہے
معاف اسی صورت ہوسکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کردے۔ اگر
نہیں ادا کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور
تھوڑا مہر متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ
دھوکہ کیا اور ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کردیا جائے گا۔
تیسرا حق: بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی
کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا بھی بیوی کا حق ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم
میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہو اور تم میں سب سے بہتر
وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
چوتھا حق:حیاء اور پردے کی تعلیم: مرد
کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دے، بے حیائی
اور فیشن سے بھر پور کپڑے پہننے سے منع کرے جن سے ان کے جسم کی ہیئت اور رنگ واضح
ہو۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے ان میں ایک دیوث ہے۔
(مسند امام احمد، 2/351، حدیث: 5372)
جو مرد باوجود قدرت اپنی بیوی اور گھر کی عورتوں کو
بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے مرد اپنی عورت کو نیکی کی دعوت دیتا رہے اس کو
ضروری مسائل زندگی سکھاتا رہے۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت راجہ واجد حسین، ھدی
للناس اکیڈمی گوجر خان راولپنڈی
جس طرح اللہ نے مردوں میں خاوند کو ایک منفرد مقام
عطا فرمایا ہے اسی طرح عورتوں میں بیوی کو بھی مقام عطا فرمایا ہے۔ جس طرح خاوند
کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا خاوند کی ذمہ
داری ہے۔
1۔ بیوی کے حقوق میں یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے
ساتھ خوش اخلاقی نرمی اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرے اور اسکے علاوہ بیوی کے رشتہ
داروں میں جو معاملات ہیں اور گھریلو تمام معاملات کو اچھے طریقے سے حل کرنا خاوند
کی عظیم ذمہ داری ہے اور یہ بات اللہ پاک کو بھی محبوب ہے اسکے پیارے محبوبﷺ کو
بھی محبوب ہے۔
2۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا: اے میری امت! تم میں سے
بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں بیوی بچوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں محمد ﷺ تم سب سے
اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہوں۔(ترمذی،5/475، حدیث: 3921) بیوی کی عزت کرنے والا
کریم شخص ہے اور بیوی کو ذلیل کرنے والا کمینہ ہے۔
3۔ حضور مکی مدنیﷺ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی
مسلمان اپنی ایماندار بیوی کے ساتھ بغض نہ رکھے کیونکہ اسکی ایک خصلت تمہارے لیے
ناپسند ہے تو دوسری خصلت اسکی پسندیدہ ہو گی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)
4۔ خاوند بیوی آپس میں ہنسیں کھیلیں کیونکہ میں
پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی ہو۔
5۔ مومنوں مسلمانوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کا
اخلاق اچھا ہو اور اے میری امت! تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر
زندگی بسر کرے اور بیوی کے ساتھ لطف مہربانی کرے اور اے میری امت! میں تم سب سے
اپنے گھر میں بہتر زندگی بسر کرتا ہوں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)
اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر
لازم کیے ہیں اس طرح عورتوں کے کچھ حقوق مردوں پر لازم کیے ہیں جن کا ادا کرنا
مردوں پر لازم ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وَ
لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ
اچھی طرح پیش آئیں اور حضور کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں تم لوگوں کو عورتوں کے بارے
میں وصیت کرتا ہوں لہذا تم لوگ میری وصیت قبول کرو۔
اب یہاں عورتوں کے کچھ حقوق بیان کرتے ہیں:
1۔ عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی حق
ہے کہ غم خواری اور تیمارداری میں ہر گز ہر گز کو تاہی نہ کریں بلکہ اپنی دلداری اور
دل جوئی اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دیں کہ میرے شوہر کو مجھ سے بے حد
محبت ہےاس کا نتیجہ یہ گا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے گی اور شوہر کی
خدمت میں اپنی جان لڑا دے گی۔
2۔ شوہر کو چاہیے کہ عورت کہ اخراجات کے بارے میں
بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کریں نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کریں بلکہ اپنی آمدنی
دیکھ کر اخراجات مقرر کرے نہ اپنی طاقت سے بہت کم نہ بہت زیادہ۔
3۔ عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس
کو بناؤ سنگھار و نفاست وغیرہ کا سامان (تیل، کنگھی، مہندی، سرمہ،خوشبو) وغیرہ
فراہم کرتا رہے تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھ سکے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ
رہے۔
4۔ شوہر کو چاہیے کہ سفر میں جاتے وقت اپنی بیوی سے
انتہائی محبت کے ساتھ ہنسی خوشی ملاقات کر کے گھر سے نکلے اور سفر سے واپسی پر
بیوی کے لے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آئیں کچھ نہ ہو تو کچھ کھٹا میٹھا ہی کے آئیں
اور بیوی سے کہیں یہ خاص تمہارے لیے ہیں۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت محبوب عالم، فیضان خدیجۃ
الکبریٰ وادی سون اوچھالی خوشاب
قرآن نے گھریلو زندگی اور معاشرتی برائیوں کی اصلاح
پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گناہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں
خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن
میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب
سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔
قران مجید میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر
عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔ شوہروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ
عورتوں کے مالک نہیں ان کی بیویاں ان کی کنیزیں نہیں۔ بلحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر
ہیں ہاں جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔
1۔ مہر کی ادائیگی: ایک اسلامی اصطلاح ہے ایک مال جو شادی کے وقت مرد
کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے
اور عورت کی بینادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت
سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہےکہ حضور ﷺ نے
فرمایا: جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر میں سے کچھ نہ دے گا، توجس
روز مرے گا زانی مرے گا اور جو کسی سے کوئی شے خریدے اور یہ نیت ہو کہ قیمت میں سے
اسے کچھ نہ دے گا تو جس دن مرے گا، خائن مرے گا اور خائن نار میں ہے۔ (معجم کبیر، 8/35، حدیث: 7302)
2۔ نان ونفقہ کا حق: یعنی
بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر
واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد
کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے،لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے
مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں اگرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔ فرمان مصطفی ﷺ
ہے: خبردار بیویوں کا تم پر حق ہے کہ اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے کے معاملات ان
کے ساتھ بھلائی
سے پیش آؤ۔ (ترمذی،
2/386، حدیث: 1166)
3۔ عدل وانصاف: شوہر
پر اپنی ایک سے زائد بیویوں کے
درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔کسی ایک کی طرف زیادہ
مائل
ہونے سے گریز کرے۔ رسول کریم رؤف رحیم ﷺ نے
فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی طرف اس کا میلان زیادہ ہو
تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا
ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ (ترمذی،2/375، حدیث:1144) خود ہمارے نبی اکرم ﷺ تعلیم امت کے
لیے اپنی ازواج مطہرات میں عدل و انصاف فرماتے تھے۔
4۔ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ
حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر
پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔
سورۂ نساء میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔
اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے
روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ
فرمایا، اس میں فرمایا: عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ
وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمہیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے
اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر
دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کرتی ہیں
تو تمہیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (ترمذی،2/387، حدیث:1166)
5۔ ایذا رسانی سے بچنا: یہ
تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو
بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنی
عورت کو نہ مارے جیسے غلام مارتا ہے پھر دوسرے وقت مجامعت کرے گا۔ (بخاری،3/465،
حدیث: 5204)
جس طرح مردوں کا حق عورتوں پرہےاسی طرح عورتوں کا
بھی حق مردوں پر ہے۔ گویا دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس مردوں
کے حقوق عورتوں پر اور شوہروں کے حقوق بیویوں پر ہوتے ہیں نہیں بلکہ اسی طرح
عورتوں کے بھی حقوق مردوں پر اور بیویوں کے حقوق بھی شوہروں پر ہوتے ہیں۔ مرد عورت
دونوں کو حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے مخلص اور وفادار رہیں بلکہ یک جاں و
دوقالب ہوں، ایک دوسرے کے پردہ پوش ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تکمیل کا
ذریعہ ہوں اور ایک دوسرے کی معاشی اور معاشرتی کمی میں کمال کا وسیلہ بن کر رہیں۔
اکثر عورتوں میں ضد اور ہٹ ہوتی ہے مرد کو چاہیئے
کہ اس کی ضد کے مقابلے میں سختی اور درشتی سے کام نہ لے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا:
1۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی
پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اگر تو اسے
برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور
توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)
2۔ مسلمان مرد اپنی مسلمان بیوی سے بغض نہ رکھے اگر
اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469) یعنی
عورت کی ساری ہی عادتیں خراب نہیں ہوں گی جبکہ اچھی بری عادتیں اور ہر قسم کی
باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت
سے چشم پوشی کرے اور اسی کی اچھی عادتوں پر نظر رکھے۔
3۔ تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح
پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) انسان
کے بہتر، خوش اخلاق اور صالح ہونے کی یہ ایک ایسی پہچان بتادی گئی ہے کہ اس آئینہ
میں ہر شخص اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے جو اپنوں کے ساتھ احسان اور انصاف نہیں کر سکتا
اس سے کیا توقع کہ وہ دوسروں سے اچھا سلوک کرے گا۔ حسن معاملہ اور نیکی گھر سے
شروع ہونی چاہیے۔
4۔ مردوں پر فرض ہے کہ عورتوں کو اچھی رہائش اچھا
اور حلال کھانا اچھا پہننے کے لئے دینا چاہیے اور ان کی تمام ضروریات کا خیال
رکھنا چاہیے۔ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں نیکی اور
بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔بے شک عورتوں کا
تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)
5۔ ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو
کر دریافت کیا کہ بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے؟ فرمایا: جب خود کھائے تو اس کو کھلائے
اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے نہ اس کے منہ
پر تھپڑ مارے نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اسکی سزا کے لیے اس کو
علیحدہ کر دے۔(ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)
الغرض اسلامی خاندان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا
بہی خواہ ایک دوسرے کا ہمدرد اور ایک دوسرے کا پردہ پوش رہنا چاہیے۔ باہمی رواداری
سے کام لینا چاہیے۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ اس کے لیے اوڑھنا بچھونا
ہے یہ اس کے لیے اوڑھنا بچھونا ہے جس طرح لباسی جسم کے عیبوں کو چھپاتا ہے اور اس
کے حسن و خوبی کو ابھارتا ہے، اسی طرح شوہر اور بیوی کا اخلاقی کمال یہ ہے کہ ایک
دوسرے کی کمزوری کو چھپائیں اس پر صبر کریں اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو نگاہ میں
رکھیں اور بہتر سے بہتر صورت میں اپنے باہمی تعلقات کو ظاہر کریں۔