اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں جیسے والدین کا اولاد پر توجہ نہ دینا والدین کا اولاد کی activties پر دھیان نہ دینا۔سوشل میڈیا کا بے جا استعمال۔بچوں کو بری صحبت سے نہ بچانا بچوں کے ماحول کا خیال نہ رکھنا اور اولاد پر بس اپنی مرضی کو ہی مسلط کرنا جس کی وجہ سے اولاد بدتمیزی کرنے لگتے ہیں۔ اور اگے سے جواب دینے لگتی ہے۔

اولاد کے بھی بگڑنے کا ذمہ دار کون؟ عموما دیکھا گیا ہے یہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے اللہ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! ہم اپنے اہل و عیال کو آگ سے کیسے بچائیں؟ فرمایا: ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔

اور حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا بادشاہ نگران ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ادمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(بخاری،2/159، حدیث: 2554)

تربیت اولاد کی اہمیت: اگر ہم اسلامی اقدار کے حامل ماحول کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی مدنی تربیت بھی کرنی ہوگی کیونکہ اگر ہم تربیت اولاد کی اہم ذمہ داروں کو بوجھ تصور کر کے اس سے غفلت بڑھتے اور بچوں کو ان خطرناک حالات میں آزاد چھوڑ دیں تو نفس و شیطان انہیں اپنا آلہ کار بنا لے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نفسانی خواہشات کی آندھیاں انہیں صحرائے عصیاں میں سرگرداں رکھیں گی۔اور وہ عمر عزیز کے چار دن آخرت بنانے کی بجائے دنیا جمع کرنے میں صرف کر دیں گے اور یوں گناہوں کا انبار لیے وادی نبوت کے کنارے پہنچ جائیں گے رحمت الٰہی شامل ہوئی تو مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے گی ورنہ دنیا سے کف افسوس ملتے ہوئے نکلیں گے اور قبر کے گڑھے میں جا سوئیں گے۔سوچیے تو سہی کہ جب بچوں کی مدنی تربیت نہیں ہوگی تو وہ معاشرے کا بگاڑ دور کرنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکیں گے جو خود ڈوب رہا ہو وہ دوسروں کو کیا بچائے گا جو خود خواب غفلت میں ہو وہ دوسروں کو کیا بیدار کرے گا جو خود پستیوں کی طرف محو سفر ہو وہ کسی کو بلندی کا راستہ کیوں کر دکھائے گا۔

سونا جنگل رات اندھیری،چھائی بدلی کالی ہے

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟ والدین کی ایک تعداد ہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے تھوڑا بڑا ہو جائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہیں جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے اسے جس سانچے میں ڈالنا چاہیں ڈالا جا سکتا ہے بچے کی یادداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساڑھے عمر کے لیے محفوظ ہو جائے گا بچے کا ذہن خالی کھیت کی مثل ہے اس میں جیسا بیج بوئیں گے اس معیار کی فصل حاصل ہوگی یہی وجہ ہے کہ اگر اسے بچپن ہی سے اسلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بیزار رہتا ہے اگر اسے سنت کے مطابق کھانے پینے بیٹھنے جوتا پہننے لباس پہننے سر پر عمامہ باندھنے اور بالوں میں کنگھی وغیرہ کرنے کا عادی بنایا جائے تو وہ نہ صرف خود ان پاکیزہ عادات کو اپنائے رکھتا ہے بلکہ اس کے یہ مدنی اوصاف اس کی صحت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ماں باپ کو چاہیے کہ ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں انہیں کوئی چیز دینے اور پیار محبت اور شفقت میں برابری کا اصول اپنائیں بلا وجہ شرعی کسی بچے بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے دوسرے کو اس پر ترجیح نہ دیں اس سے بچوں کے نازک قلب میں بغض و حسد کی تہہ جم سکتی ہے۔جو ان کی شخصی تعمیر کے لیے نہایت نقصان دہ ہے میں نے کبھی کسی لڑکی سے آپ ﷺ نے ہمیں اولاد میں سے ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اپنا کچھ مال دیا تو میری والدہ عمرو بنت رواحہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گی جب تک کہ آپ اس پر حضور ﷺکو گواہ نہ کر لے چنانچہ میرے والد مجھے آپ ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے تاکہ حضور ﷺ کو مجھے دیئے گئے صدقے پر گواہ کر لیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے؟ میرے والد محترم نے عرض کی: نہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو یہ سن کر وہ واپس بہت آئے اور وہ صدقہ واپس لے لیا۔ (مسلم، ص 878، حدیث: 1623)

اولاد اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور آخرت میں بھی اسکی نجات کا ذریعہ۔

اولاد کے نیک بننے میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو اللہ ان کو اسکا صلہ ضرور عطا کرتا ہے اولاد کی تربیت دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرنا والدین کی ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اسکا فقدان ہے اکثر والدین اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ انکی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے،صفائی ستھرائی کا لحاظ نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔

اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟اسکے بہترین راہنما اصول قرآن پاک نے بیان کیے ہیں اور ماڈرن سائیکالوجی سے بھی ان اصولوں کی تائید ہوتی ہے مثلاً ایمان والوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی عالی شان نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور گناہ گاروں کو ان کے برے اعمال پر سزاؤں کی وعید سنائی ہے اس اسلوب کو ہم ترغیب وترھیب کا نام دیتے ہیں تربیت کے میدان میں آج ماڈرن سائیکالوجی بھی اسی اسلوب کو اپنائے ہوئے ہے اچھا کام کرنے پر حاصلہ افزائی اور برا کام کرنے پر سزا۔تربیت کے حوالے سے سائیکالوجی کی یہ تھیوری ہے جسکو آپرینٹ کنڈیشننگ کا نام دیا گیا ہے اس تھیوری کے مطابق اچھا کام کرنے والے کی اگر حوصلہ افزائی کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی یہ اچھائی والی عادت پختہ ہو جائے گی اور ناپسندیدہ کام کرنے والے کی اگر سرزنش کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی یہ بری عادت چھوٹ جاتی ہے۔

اگر تربیت کا یہ اسلوب والدین اپنی اولاد کے لیے صحیح معنوں میں اپنا لیں ان شاءاللہ عزوجل انکی اولاد ہر لحاظ سے بہتر ہوسکتی ہے۔ترغیب و ترتیب کے اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرسکتے ہیں؟اس ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنے سے ان شاءاللہ اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔

گھر یا خاندان کے تمام افراد کو چاہیے کہ سب بچوں کو ایک جیسا پیار دیں اگر گھر کا ایک فرد بےجالاڈ کرے گا اور بچے کی غلط باتوں پر اسکی سرزنش نہیں کرے گا تو اس سے بچے کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بروں کے بھی آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دین اسلام کی باتیں سکھائے اور انکے دل میں صحابہ کرام اور آقا جان ﷺ کی محبت پیدا کریں اور انہیں زیادہ سے زیادہ اچھی باتیں سکھائے اور انکے سامنے بھی اچھی باتیں کریں۔

جب بھی بچہ مطلوبہ اصول پر عمل کرے تو اس عمل کرنے پر اس کو حوصلہ افزائی ضرور دیں انسانی نفسیات ہے کہ چھوٹی عمر میں چند بار حوصلہ افزائی ملنے پر کام کرنے کی پختہ عادت بن جاتی ہے لہذا جتنی چھوٹی عمر میں بچے کی تربیت شروع ہو اتنا آسان ہو جاتا ہے اسی طرح اگر بچہ مطلوبہ اصول پر عمل نہیں کرتا تو اس پر اسکو سرزنش ضرور ملنی چاہیے اور ہر بار ملنی چاہیے ایسا کرنے سے بچہ جلد سیکھ جائے گا وگرنہ کبھی سرزنش کرنا اور کبھی نہ کرنا بچے کی تربیت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جوں جو۔ بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے پانچ یا چھ سال سے بڑے بچوں کی تربیت کا اندازہ مختلف ہونا چاہیے انکے ساتھ ہر نیا اصول ڈائیلاگ کے ذریعے طے ہونا چاہیے جس میں بچے کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھا جائے اچھا کام کرنے پر تحفہ ہوگا اور برا کام کرنے پر سرزنش ہوگی اس پر بھی بچوں سے رائے ضرور لیں پھر جو طے پائے اس کو لکھ کر نمایاں جگہ پر لگا دیا جائے۔تحریر نمایا جگہ لگانے کے دو فوائد ہیں ایک یہ کہ روزانہ کی بنیادوں پر بچے کو اصول دکھا کر ان کی یاددہانی کرتے رہیں کیونکہ بچے بعض دفعہ بھول بھی جاتے ہیں اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ غلط کرنے پر جب بھی سرزنش کریں تو تحریر پر لکھی ہوئی طے شدہ سرزنش بچے کو ضرور دیکھائیں اور بچے کو بتائیں کہ اس سرزنش پر بچے نے معاہدہ کیا تھا اس طرح جب بچے کو سزا ملے گی تو وہ والدین پر غصہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کوسے گا اور آئندہ ایسا کام کرنے سے اجتناب کرے گا۔

بچوں کو موبائل سے ہمیں محفوظ رکھنا چاہیے کہ یہ بچوں کی خرابی کا سب سے بڑا سبب ہے۔

اولاد کی نافرمانی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا آج کل اکثر والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ بچے اپنے والدین کی باتوں کو کبھی کبھار نظر انداز کرتے ہیں، مگر جب یہ رویہ حد سے بڑھ جائے تو یہ والدین کے لیے تشویش کا باعث بن جاتا ہے۔ نافرمانی کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں جیسے بچوں پر زیادہ پابندیاں لگانا، انہیں وقت نہ دینا، یا ان کی ضروریات کو نظر انداز کرنا۔

نافرمانی کے اسباب: آج کے دور میں میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بچے والدین کی بجائے دوسروں کی باتوں اور خیالات کو زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔ بچوں میں خود مختاری کا جذبہ فطری ہوتا ہے، لیکن جب والدین ان پر بہت زیادہ سختی کرتے ہیں یا انہیں اپنی محبت اور توجہ سے محروم رکھتے ہیں تو وہ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔

نافرمانی کے نقصانات: اولاد کی نافرمانی نہ صرف والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ خود بچوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ ایسے بچے زندگی میں خود کو اکیلا محسوس کرنے لگتے ہیں اور اکثر غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں۔ والدین سے دوری انہیں مثبت تربیت سے بھی دور کر دیتی ہے۔

حل اور تجویزات:

1۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی بات سنیں اور ان کی ضروریات کو سمجھیں۔

2۔ بچوں کو وقت دیں اور ان کے ساتھ تعلق مضبوط بنائیں تاکہ وہ آپ پر اعتماد کر سکیں۔

3۔ سختی سے گریز کریں اور پیار و محبت سے ان کی تربیت کریں۔

4۔ بچوں کو اسلام کے اصولوں کے مطابق ادب و احترام کا درس دیں اور نافرمانی کے برے نتائج سے آگاہ کریں۔

اولاد کی نافرمانی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور اولاد کے درمیان مضبوط تعلق ہو۔ باہمی اعتماد اور محبت کے ذریعے ہی والدین اپنے بچوں کو صحیح راستے پر چلا سکتے ہیں۔

اولاد اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہے اور ہر والدین یہ چاہتے ہیں کہ اللہ پاک ان کو اولاد دے جو انکی ادب و احترام کرے تاکہ ان کی زندگی اچھی گزر جائے اولاد کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کا ادب کرے اس کا حکم اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل:23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی والدین کا مقام و مرتبہ بیان کیا گیا آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب کی خوشی والد کی خوشی میں ہے اور رب کا غصہ والد کے غصے میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907) مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اولاد اپنے حقوق ادا نہیں کر پاتی اور بگاڑ کا شکار ہو جاتی ہیں اسکی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سے چند وجوہات اور انکاحل درج ذیل ہے:

اولاد کی تربیت نہ کرنا: یہ اولاد بگڑنے کا ایک اہم سبب ہو سکتا ہے والدین اولاد کی اچھی تربیت نہیں کرتے جس کے نتیجے میں اولاد بگڑ جاتی ہے حدیث مبارک میں آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کے لیے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اسکی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

اس کا حل یہ ہے ہر والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی طرف شروع سے ہی بھرپور توجہ دیں بچپن سے ہی اسے اچھی چیزوں کی طرف راغب کریں۔

ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا: بعض اوقات والدین کسی ایک بچے کو دوسرے پر بہت ترجیح دیتے ہیں جس وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ اس کے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔

اس کا حل یہ ہے کہ والدین اپنی سب اولاد کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے کسی کو کسی پر فوقیت نہ دے۔

اولاد کو وقت نہ دینا: بسااوقات والدین اپنے کاروباری یا گھریلو معاملات میں اتنا مصروف ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو باقاعدہ وقت نہیں دے پاتے جسکی وجہ سے اولاد میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے

اس کا حل یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے والدین اپنی مصروفیت میں سے وقت نکالیں انکی باتیں سنیں انکو باتیں بتائیں۔یوں بچے کے دل میں انکی محبت بڑھے گی اور وہ ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا: فی زمانہ سوشل میڈیا اولاد کی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ ہوسکتا ہے بچے سوشل میڈیا یوز کرکے اسکو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں وہ بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ اولاد کو حتی الامکان سوشل میڈیا سے دور رکھا جائے اور ضرورت کی صورت میں انکو اچھا استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے۔ اگر ہوسکے تو بچوں کے موبائلز لیپ ٹاپ وغیرہ پر نظر رکھی جائے۔

بچوں کا دین سے دور ہونا: دین سے دور ہونا بھی بچوں کے بگڑنے کا بڑا سبب ہے۔اولاد کو والدین کے حقوق کا علم نہیں ہوتا اور قرآن واحادیث میں جو احکام انکے بارے میں نازل ہوئے ان کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی بے ادبیاں کرتے ہیں۔

اس کا حل یہ ہے کہ شروع سے ہی اولاد کو علم دین کے ساتھ منسلک کیا جائے انکو قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کا علم دیا جائے۔

اگر کسی کی اولاد بگاڑ کا شکار ہے تو اسے مزید ٹارچر کرنے سے مزید بگاڑ کا شکار ہوگی تو والدین کو چاہیئے کہ اپنی بگڑی اولاد کو احسن طریقے سے سمجھائیں اولاد پر ہر بات پر بے جا غصہ کریں نہ ہی بے جا لاڈ پیار بلکہ درمیانی صورت حال کو اختیار کریں اولاد پر بے جا پابندیاں بھی نہ لگائیں اور بلکل ڈھیل بھی نہ دیں ہر اچھے کام پر اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کریں اور برے کام پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے اسے محبت و شفقت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کریں اگر ان اصولوں کو اپنا لیا جائے گا تو اولاد بگڑنے سے بچ جائے گی اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک سب کی اولاد کو والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسے بگڑنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

آج کل کے معاشرے میں اولاد کی نافرمانی ایک نہایت اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ والدین کا کہنا نہ ماننا، ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا اور حد سے زیادہ آزاد روی اختیار کرنا کچھ عام رویے بن چکے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف والدین کے لیے مایوسی کا سبب بنتی ہے بلکہ بچوں کے اخلاقی اور سماجی نشونما کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

نافرمانی کی وجوہات:

اولاد کی نافرمانی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ جدید دور میں میڈیا اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے بچے اکثر دوسروں سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنے والدین کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ مزید یہ کہ والدین کے ساتھ کم وقت گزارنا اور ان کی تربیت سے دور رہنا بھی اس رویے کا باعث بنتا ہے۔ بعض اوقات والدین کی جانب سے بے جا سختی یا اولاد کی رائے کو نظرانداز کرنا بھی بچوں کو بغاوت پر اکساتی ہے۔

نفسیاتی اور سماجی اثرات: اولاد کی نافرمانی والدین اور بچوں کے رشتے میں دراڑ ڈالتی ہے۔ نافرمانی کرنے والے بچے اکثر جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے خود اعتمادی کی کمی اور دوسروں سے بداعتمادی۔ اس کے علاوہ، نافرمان بچے سماج میں بھی اپنے لیے مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں، کیوں کہ ان کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہو پاتی۔

نافرمانی کے سدباب کے لیے تجاویز:

1۔ دوستی اور شفقت: والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ اور محبت بھرے رویے کا مظاہرہ کریں تاکہ بچے ان پر اعتماد کر سکیں۔

2۔ وقت کی اہمیت: بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں تاکہ وہ آپ سے قریب محسوس کریں اور آپ کی باتوں کو اہمیت دیں۔

3۔ مثبت مثالیں: بچوں کو عملی زندگی سے مثالیں دیں اور انہیں بتائیں کہ نافرمانی کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔

4۔ عقل مندی سے تربیت: صرف سختی سے پرہیز کریں اور نرمی سے بچوں کو سمجھائیں کہ والدین کی اطاعت نہ صرف دین کا حصہ ہے بلکہ ان کی اپنی زندگی کو بھی سنوارنے میں مدد دیتی ہے۔

اولاد کی نافرمانی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، لیکن والدین کی طرف سے درست رویہ اور حکمت عملی کے ساتھ اس کا حل ممکن ہے۔ والدین کی محبت، شفقت، اور دوستانہ تعلقات بچوں کے دلوں میں والدین کے احترام کو بڑھا سکتے ہیں اور انہیں ایک کامیاب زندگی کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔

اولاد اللہ کی ایک نعمت ہے ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمیں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنی چاہیے۔ اولاد بگڑنے کا سب سے بڑا سبب موبائل فون ہے۔ اور یہ کہ والدین کا خود موبائل میں مصروف رہنا اور اولاد کی اچھی تربیت نہ کرنا۔

دنیادی تعلیم کے سکولوں، کالج وغیرہ میں بھیجنا اور دینی تعلیم کی طرف توجہ نہ دینا۔ والدین کو چا ہے کہ وہ گھر میں دینی ماحول بنائیں۔ کیونکہ بچے وہی کچھ کرتے ہیں جو اپنے والدین کو کرتے دیکھتے ہیں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ہر وقت ڈانٹے نہ اس سے بھی بچوں پر برا اثر پڑتا ہے اور کسی کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں بھی نہ کرے کہ اس سے بچے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ والدین دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے بچوں کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی بچے بہت حد تک بگڑجاتے ہیں۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کہاں کہاں جاتے ہیں اور وہ کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں کہ کہیں وہ برے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے اور وہ برے کاموں میں تو نہیں پڑتے یعنی نشہ و غیره اور اگر اولاد اللہ کی نعمت ہے تو اس کا شکر بھی ادا کریں ان کی اچھی تربیت کریں کہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں سوال ہوگا تو ہم کیا جواب دیں گے کہ ہم نے اپنی اولاد کی کیسی تربیت کی ہے۔

ہمیں چاہے کہ اپنی اولاد کو فون سے دور رکھیں کہ اس میں ہی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے اور خود بھی فون سے گریز کریں کہ اس سے ابھی اولاد پر اچھا اثر پڑے گا اور بچے بھی فون سے دور رہیں گے۔ والدین اپنی جان چھوڑنے کے لیے بچوں کو موبائل دے دیتے ہیں اس سے بھی بچے کافی حد تک بگڑ جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں تاکہ وہ بڑھاپے میں ان کا سہارا بنے اور ان کا اچھا خیال رکھے۔ بچے tv پر فلمیں ڈرامے دیکھتے ہیں اور جو کچھ انہیں کرتے دیکھتے ہیں اس سے بھی بچے بہت زیادہ بگڑ جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو tv پر اچھے channel لگا کر دیں انہیں مدنی چینل لگا کر دیں تاکہ وہ اچھے مدنی پھول سیکھے! اور اچھی تربیت حاصل کرے۔

آج کے معاشرے میں اولاد کی نافرمانی ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جس کا سامنا اکثر والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ والدین کے لیے اولاد کی نافرمانی ایک چیلنج بن چکی ہے، کیونکہ یہ نہ صرف گھریلو سکون کو متاثر کرتی ہے بلکہ بچوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کی خوشی اور ترقی کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، مگر جب انہیں نافرمانی کا سامنا ہوتا ہے، تو ان کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو ناکام محسوس کرنے لگتے ہیں۔

نافرمانی کی وجوہات:

1۔ ماحول اور جدید ٹیکنالوجی: آج کل بچوں کو جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا تک آسانی سے رسائی حاصل ہے۔ یہ چیزیں بچوں کے خیالات اور رویوں پر اثرانداز ہوتی ہیں اور وہ بیرونی دنیا کی جانب زیادہ مائل ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہیں اور اپنا راستہ خود چننے کی کوشش کرتے ہیں۔

2۔ دوستوں کا اثر: بچوں کا معاشرتی حلقہ ان کے رویے پر بڑا اثر ڈالتا ہے۔ اگر ان کے دوست نافرمانی کرنے والے یا بغاوت کرنے والے ہوں، تو بچے بھی اسی رویے کو اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ والدین کی بات کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے دوستوں کی باتوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

3۔ والدین کی سختی: والدین کی طرف سے بے جا سختی یا ہر معاملے میں پابندیاں عائد کرنا بچوں میں بغاوت کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔ بچے آزادی چاہتے ہیں اور جب انہیں ہر قدم پر روکا جاتا ہے تو وہ والدین کے خلاف رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں۔

4۔ والدین کا بے توجہی برتنا: بعض اوقات والدین بچوں کے ساتھ مناسب وقت نہیں گزارتے یا ان کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ چیز بچوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ نافرمانی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

نافرمانی کے اثرات:

1۔ والدین اور بچوں کے تعلقات میں دراڑ: نافرمانی سے والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات میں دوری پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین مایوس اور غمزدہ ہو جاتے ہیں، اور بچے اپنے والدین سے دور ہو جاتے ہیں۔

2۔ اخلاقی اور دینی تربیت میں کمی: نافرمان بچے اپنی اخلاقی اور دینی تربیت سے دور ہو جاتے ہیں۔ انہیں صحیح اور غلط کا شعور نہیں رہتا، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں۔

3۔ تعلیمی کارکردگی پر اثر: نافرمانی اور والدین سے دوری بچوں کی تعلیمی کارکردگی پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ ان کا دل تعلیم سے ہٹ جاتا ہے اور وہ زندگی کے اہم مقاصد سے دور ہو جاتے ہیں۔

4۔ نفسیاتی مسائل: والدین کی محبت اور رہنمائی سے محروم بچے اکثر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں احساس کمتری، غصہ، اور عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے، جو ان کی زندگی میں مشکلات کا سبب بنتا ہے۔

نافرمانی کا سدباب اور اصلاح کے طریقے:

1۔ محبت اور شفقت کا رویہ: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آئیں۔ ان کی بات کو سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ بچوں کے دل میں محبت کا جذبہ پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، کیونکہ محبت سے ہی بچے اطاعت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

2۔ بچوں کو وقت دینا: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی مصروفیات کے باوجود بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ والدین ہمیشہ ان کے ساتھ ہیں اور ان کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں۔

3۔ تعلیم اور تربیت: بچوں کو اسلامی تعلیمات اور والدین کے حقوق کے بارے میں آگاہی دیں۔ انہیں بتائیں کہ والدین کی اطاعت کس قدر اہم ہے اور اللہ تعالیٰ والدین کی رضا مندی کو کتنی قدر سے دیکھتا ہے۔

4۔ بچوں کی آزادی کا احترام: والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو آزادی بھی دیں اور ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی رائے کا احترام کریں اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کریں تاکہ بچے والدین کے ساتھ بات چیت میں آزاد محسوس کریں۔

5۔ دعا: والدین کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ ان کے بچوں کی تربیت اچھی ہو اور وہ نافرمانی کے راستے سے دور رہیں۔ دعا ایک اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے والدین اپنی اولاد کو برکت اور حفاظت میں رکھ سکتے ہیں۔

اولاد کی نافرمانی ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کا حل والدین کے رویے اور تربیت میں ہے۔ محبت، شفقت، اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو صحیح راہ پر لا سکتے ہیں۔ بچوں کی اطاعت اور احترام سے والدین اور بچوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور ایک پرسکون گھریلو ماحول قائم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والدین اور اولاد کے حقوق مقرر کیے ہیں، اور ان کی پیروی کرنے سے دنیا اور آخرت میں کامیابی ممکن ہے۔

یہ ایک نہایت اہم ترین موضوع ہے جس کے بارے میں جاننا ہر والدین کے لئے اہم ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اصل جو تربیت ہے وہ والدین ہی کرتے ہیں۔کسی مفکر کا قول ہے: ابتدائی زندگی کے نقوش خواہ مسرت کے ہوں یا ملال کے ہمیشہ گہرے ہوتے ہیں، یہی ابتدائی نقوش مسلسل ترقی کرتے رہتے ہیں۔ ہر والدین یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے فرماں بردار ہوں۔ لیکن غور کیا جائے تو ایسی بہت سی وجوہات ملیں گی جس کی بنا پر والدین ہی اپنے بچوں کو بگاڑنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں۔ان کی تربیت کا انداز ہی بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کا بچہ باغی ہو جاتا ہے۔وہ بچہ ضد کرنے پر اتر آتا ہے۔بعض اوقات سمجھانے کا انداز ہی ایسا اختیار کر لیا جاتا ہے جو بچے کو بجائے اس کے کہ بچہ اپنے والدین کی فرمانبرداری کرے وہ الٹا ان کی نافرمانی کرتا ہے۔کچھ ایسے رویہ ذیل میں لکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بھی اولاد بگڑنے لگ جاتی ہے۔

1۔ ایک بچہ اگر کسی معاملے میں کمزوری دکھاتا ہے مثلاً پڑھائی میں یا کام میں تو اسکا موازنہ دوسروں سے کردیا جاتا ہے بعض اوقات والدین اپنے ہی ایک بچے کا اپنے ہی دوسرے بچے سے موازنہ کر دیتے ہیں یا پھر کبھی اس کے دوستوں کے ساتھ کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور بچہ بدتمیزی پر اتر آتا ہے اور بچہ اپنے والدین کے بارے میں منفی سوچ پیدا کر لیتا ہے۔ بعض اوقات یہی رویہ بچے کو اپنے والدین سے نفرت کرنے پر ابھارتا ہے۔

2۔ اسی طرح والدین کا بات بات پر ڈانٹنا بھی بچے کو بگاڑ سکتا ہے۔چونکہ غلطی ہو جانے پر پیار و محبت سے سمجھایا جائے۔اس انداز سے سمجھایا جائے کہ ڈانٹنے کی نوبت ہی نہ آئے۔اگر آپ ہر وقت ہی ان پر چلائیں گے۔ ہر وقت ہی ان پر سختی کریں گے تو وہ بچہ آپکے اس رویہ سے اس قدر پریشان ہو جائے گا کہ کہیں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے۔ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اولاد اپنے والدین سے تنگ آکر گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

3۔ اسی طرح اگر والدین ہر وقت سمجھانے میں لگے رہیں گے تو بچہ والدین سے اکتاہٹ محسوس کرے گا۔بچہ والدین کے پاس بیٹھنے اور ان سے بات کرنے سے کتراتے گا۔اور اس طرح وہ اپنے والدین سے بھی کترائے گا۔

4۔ اور اگر بچے سے غلطی ہو جاتے ہے تو بعض والدین اپنے بچے کو سب کے سامنے ہی ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔جس کی بنا پر بچے ضدی ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے بچہ بگڑ سکتا ہے۔ 5۔ بچوں کے بگڑنے کا ایک سبب آجکل موبائل فونز ہیں۔ آجکل والدین بچپن ہی میں اپنے بچے کو موبائل پکڑا دیتے ہیں جو نہایت غلط عمل ہے۔ جب وہ بچپن ہی میں موبائل دیکھیں گے تو یہ موبائل ان کے اندر رس بس جائے گا۔جس سے وہ اپنے والدین کی بات بھی توجہ سے نہ سنے گا۔دیکھا گیا ہے کہ ابھی بچہ دودھ پینے کی عمر میں ہی ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں موبائل تھما دیا جاتا ہے اور اسکو موبائل پر بھی ریلز لگا کر دی جاتی ہیں یا کوئی دوسرے کارٹونز۔

بچوں کو اس عمر میں موبائل دے دینا بلکل بھی درست نہیں ہے اس سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔والدین اس طرح کر رہے ہوتے ہیں کہ اگر بچہ کو کھانا کھلانا ہو تو اس کو موبائل دے کر کھانا کھلاتے ہیں۔اگر کام کرنا ہو تو بچوں کو موبائل دے کر خود کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ایسا کرنے سے وہ اپنے بچوں کو ایک غلط طریقے پر چلنے کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ماحول بھی بہت اثر رکھتا ہے۔جب گھر میں بے پردگی،لڑائیاں،فلمیں ڈراموں،ناچ گانے،اور طرےحطرح کی برائیاں ہونگی تو بچہ خود بخود ہی بگڑے گا۔تمام والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کریں۔اپنے بچوں کی تربیت کے لئے بچوں کی تربیت پر مشتمل رسائل پڑھئے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی نیک بنائے۔

آج کل ہمیں ایسے بہت سے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں بیٹے/بیٹی نے والدین سے اونچی آواز میں بات کی،بد تمیزی کی،بیوی کے کہنے پر ماں باپ کو کھانا نہیں دیا،ماں باپ کو old age house چھوڑ دیا اور طرح طرح کی نافرمانیاں کرتے ہیں یہ جاہلوں کی بات نہیں کر رہے یہ اج کل کے تعلیم یافتہ ڈگری والوں کی بات کر رہے ہیں جو معاشرے کے لئے تو ایک بہت اچھے انسان،اچھے شہری ہوتے ہیں مگر اچھے نہیں ہوتے تو اپنے والدین کے لئے اپنے گھر والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں مگر ان کی ان نافرمانیوں کا تعلق کہیں نہ کہیں والدین سے ہی ملتا ہے والدین اپنی عمر گزار دیتے ہیں اولاد کی خوشیاں پوری کرنے میں،اولاد کی خواہشات پوری کرنے میں،اولاد کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں مگر نہیں رکھتے تو ان کی اچھی تربیت کااولاد کا والدین پر سب سے بڑا حق ان کی اچھی تربیت ہے حدیث پاک میں ہے: کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کے لئے بہترین عطیہ اچھی تربیت ہے جس سے آج کل کے والدین غافل ہیں۔

تربیت کے لیے والدین اولاد کو سکولوں میں بھیج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حق ادا کر دیا مگر ایسا نہیں ہے بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ اولاد کا پہلا استاد اس کے والدین ہیں یعنی جو والدین کرتے ہیں وہی اولاد کرتی ہیں جو والدین کا لہجہ وہی اولاد کا لہجہ،جو والدین کا رویہ وہی اولاد کا رویہ،جو والدین کی سوچ وہی اولاد کی سوچ بن جاتی ہیں جدید تحقیق کے مطابق ابتدائی پیدائش سے 7سال کی عمر تک بچہ جو بھی کرتاہے بڑوں کی طرف دیکھ کر والدین کی طرف دیکھ کر کرتاہے جب والدین جھوٹ بولیں گے تو بچہ بھی جھوٹ بولنا شروع کر دے گا جب والدین بڑوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں گے تو کل کو بچے بھی ان کا احترام نہیں کریں گے الحاصل بچہ جو بھی کرتا ہے والدین سے سیکھ کر کرتا ہے جیسے محبت، نرمی، احترام، خوش اخلاقی اور اس کے برعکس جھوٹ، بد تمیزی، لڑائی، جھگڑا، فریب سب والدین سے ہی سیکھتا ہے۔

ایک وجہ اولاد پر بے جا سختی بھی ہے اکثر والدین اور زیادہ تر والد صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے سختی کرنا ضروری ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے اچھی تربیت کے لیے سختی کرنا ضروری نہیں بلکہ نرمی کرنا ضروری ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت میں تو ایسے بہت سے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اولاد کے ساتھ نرمی اختیار کر نی چاہیے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں دس سال حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں رہا مگر ان دس برس میں کبھی حضور اکرم ﷺ نے مجھے نہیں ڈانٹااس کے علاوہ حضرت انس واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے مجھے کسی کام سے بھیجا، میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں لگ گیا اس کے باوجود بھی حضور اکرم ﷺ نے مجھے نہیں ڈانٹا۔

جو والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی،روک ٹوک کر تے ہیں انہیں اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر پڑتا، کبھی ادھر حضور اکرم ﷺ نے اس انداز سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پہ ٹوکا جا رہا ہے کہ آداب سکھائے جا رہے ہیں، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اے بچے! جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو، اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376)

والدین کو چاہیے کہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں قرآن وسنت کی روشنی میں اولاد کی تربیت کریں اگر والدین سختی کرے گے ہر چیز پر ٹوکیں گے تو اولاد بدظن ہو جائے گی یہ صرف چند سبب ہیں والدین سے متعلق اور بھی بہت سی وجوہات،اسباب ہو سکتے ہیں جیسے انٹرنیٹ کا بے جا استعمال،بری صحبت،دین سے دوری اور مغربی ماحول سے وابستگی بھی اولاد کی نافرمانی کی وجہ ہو سکتی ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار اور سچا عاشق رسول بنائے۔


اولاد بگڑنے کے اسباب پر غور کریں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہترین کردار اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے، مگر بسا اوقات حالات اس کے برعکس ہوجاتے ہیں۔ اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، جن پر قابو پانا اور ان کا حل تلاش کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ یہاں چند اہم اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1۔ والدین کی عدم توجہ: والدین کی مصروفیات اکثر بچوں کی زندگی میں کمی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ جب والدین بچوں کو وقت نہیں دیتے اور ان کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں، تو بچے خود کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ باہر کے لوگوں، خاص کر دوستوں، سے تعلقات بڑھانے لگتے ہیں اور انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، جس سے ان کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

2۔ بری صحبت کا اثر: دوست اور اردگرد کا ماحول بچوں کے کردار پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اگر بچے غلط دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے لگیں، تو وہ ان کی عادات، گفتگو اور انداز کو اپنا لیتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے بچے اکثر والدین اور اساتذہ کی بات نہیں مانتے اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی صحبت پر نظر رکھیں اور انہیں اچھے دوستوں کی صحبت میں رکھیں۔

3۔ والدین کا سخت یا نرم رویہ: والدین کا رویہ بچوں کے کردار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر والدین بہت زیادہ سختی کریں تو بچے ردعمل کے طور پر بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب، اگر والدین بچوں کو حد سے زیادہ نرمی سے پالیں اور انہیں ہر قسم کی آزادی دے دیں تو بچے لاپرواہ اور ضدی بن جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سختی اور نرمی میں توازن برقرار رکھیں تاکہ بچے بہتر تربیت حاصل کرسکیں۔

4۔ دوہرے معیار: کچھ والدین خود جن اصولوں پر عمل نہیں کرتے، وہ بچوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بچے یہ تضاد دیکھتے ہیں تو ان میں بغاوت کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ان سے انکار کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود ایک نمونہ بنیں اور وہی اصول بچوں پر لاگو کریں جن پر وہ خود عمل کرتے ہیں۔

5۔ تعلیمی دباؤ اور ناکامی کا خوف: اکثر والدین بچوں پر تعلیمی کامیابی کے لیے بے حد دباؤ ڈالتے ہیں۔ یہ دباؤ بعض اوقات بچوں کو مایوس کر دیتا ہے اور وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ناکامی کے خوف کی وجہ سے بچے اکثر غیر اخلاقی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر بگڑنے لگتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو حوصلہ دیں اور ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق پروان چڑھائیں۔

6۔ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا: آج کے دور میں ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان بھی بچوں کے بگڑنے کا سبب ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود غیر ضروری معلومات اور غلط مشورے بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔ بہت سے بچے اپنے والدین کی باتوں کو نظرانداز کرکے آن لائن لوگوں کی باتوں پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سکھائیں اور ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔

7۔ اخلاقی تربیت کی کمی: اکثر والدین بچوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں مگر اخلاقی تربیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ عدم توازن بچوں میں اخلاقی کمزوری اور بگڑنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اخلاقی قدروں کی بھی تربیت دیں تاکہ وہ سمجھدار اور بااخلاق انسان بن سکیں۔

8۔ والدین کے آپس کے جھگڑے: گھر کے ماحول کا بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر والدین کے درمیان جھگڑے اور اختلافات ہوں تو بچے ذہنی اور جذباتی طور پر پریشان ہوجاتے ہیں اور ان میں بغاوت کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے مسائل کو بچوں کے سامنے نہ لائیں اور گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں۔

اولاد بگڑنے کے ان اسباب کو سمجھ کر والدین اپنی تربیت کے انداز میں بہتری لا سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ والدین بچوں کو محبت اور توجہ دیں، ان کی جذباتی ضروریات کو سمجھیں، ان پر مناسب نظر رکھیں اور ان کی اخلاقی و تعلیمی تربیت میں توازن پیدا کریں۔ والدین کا کردار بچوں کے لیے ایک نمونے کی طرح ہونا چاہیے تاکہ بچے ان کی تقلید کریں اور معاشرے کے بہترین افراد بنیں۔

اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں چند درج ذیل ہے:

اولاد کی تربیت: والدین اپنی اولاد سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اپنے کردار اور اپنے انداز سے ان سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ والدین نے کبھی ان کی فکری، نظریاتی اور نفسیاتی حوالہ سے اچھے انداز میں تربیت کی کوشش کی؟ تو جواب ہمیں مایوس کن ملے گا۔ آج کل جو بے چینی اور اضطراب اور غیر مطمئن حالات دیکھنے میں آرہے ہیں ان سب کا بڑا سبب اسی معاشرتی پہلو سے غفلت شعاری ہے معاشرے کی بڑی بڑی خرابیاں اور ناقابل علان برائیاں والدین کے تربیت اولاد میں تساہل کا نتیجہ ہے والدین کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی آگے چل کر پوری قوم کے لئے متعدد مسائل کا سبب بن جاتی ہے اگر وہ ابتداء سے ہی اولاد کی صحیح تربیت کرتے اور اور اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے تو غلط نتائج ہرگز نہ نکلتے۔

بری صحبت اختیار کرنا: اولاد بگڑنے کا ایک بڑا سبب بری صحبت بھی ہے صحبت انسان کا اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے اسی طرح بری صحبت اس کو اپنے رنگ میں رنگ کر اسے برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر اولاد بری صحبت اختیار کرے گی تو وہ خود برے کام ہی کرے گی نافرمانیاں ہی کرے گی لیکن اگر وہ اچھی صحبت اختیار کر لے تو وہ اچھی ہی ہوگی۔

علم سے دوری: علم اندھے دلوں کی زندگی اور تاریک آنکھوں کا نور ہے بندہ اس کے سبب دنیا و آخرت میں نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا علم سے دور لوگ بڑے ہی غافل ہیں۔ علم سے اگر اولاد دور ہوگی وہ اچھے برے کاموں میں تمیز نہیں کر پائے گی یہی وجہ ہے کہ اولاد فرمانبردار نہیں ہوتی۔ علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ بد بختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو علم سکھائیں۔

اچھا ماحول نہ ملنا: بعض دفعہ بچوں کو ماحول اچھا نہیں مل رہا ہوتا اور وہ گناہوں بھرے ماحول میں بگڑ جاتے ہیں۔اس لئے انہیں سنتوں بھرا ماحول دینے کی کوشش کرنی چاہیے نیکیوں کی عادت اور گناہوں سے چھٹکارے کے لیے ماحول کی تبدیلی ضروری ہے اگر آپ نیکیوں بھرے ماحول میں رہیں گے تو نیکیاں آپ کی عادت بن جائیں گی اسی طرح گناہ بھرے ماحول میں رہنے سے گناہ بھی عادت کا حصہ بن جائیں گے۔

نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴) (پ 3، آل عمران: 14) ترجمہ: لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت بے کار ہے۔ آج کل بہت سے بچے اسی بیماری میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے گناہوں کے گھڑے میں گرتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ یہ چیزیں ایسی مرغوب ہوئیں کہ کافر تو بالکل ہی آخرت سے غافل ہو گئے اور کفر میں جاپڑے جبکہ دوسرے لوگ بھی انہیں چیزوں کی محبتوں کے اسیر ہوگئے حالانکہ یہ تو دنیاوی زندگی گزارنے کا سامان ہے۔ (اے ایمان والو، ص 548)


اولاد اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔بلاشبہ بچے ملک وملت کا اصل سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کے بناؤ اوربگاڑ میں ان کا اہم رول ہوتا ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،نافرمان ہیں گالیاں دیتے ہیں، نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتےہیں۔ وغیرہ وغیرہ ماں باپ کی دن رات تربیت کے سلسلے میں کی جانے والی تگ و دو کے باوجود ایسا نتیجہ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ آج کے بہت سے ماں باپ رسماً اپنی ذمہ داریاں تو خوب نبھا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ تربیت نہیں کر پا رہے ہوتےبلکہ اولاد بگڑنے میں بہت ہاتھ ماں باپ کاہو جاتا ہے

آئیےجائزہ لیتے ہیں کہ اولاد کے بگاڑ کی کیا کیا وجوہات ہیں:

اسلامی تعلیمات سے دوری: اولاد کے بگاڑ میں سب سے بڑی وجہ پہلی تو ماں باپ اس کے بعد اولاد کی دین کی تعلیمات سے دوری ہے اسلامی تعلیم وتربیت کے بغیر اولاد دنیا وآخرت میں نہ سرخروئی حاصل کرسکتی ہے نہ والدین کے لیے آخرت کا سامان ہی بن سکتی ہے۔

برےماحول کا اثر: سائنسی تحقیقات سے ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب میں جو کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟

بچپن کا ماحول: بچوں کو اگر بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، جھوٹ بولنا فلمیں بھی دیکھنا اور بچوں کو بھی دکھانا فیشن وبے پردگی ہو،جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،ایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔

ناجائز و حرام کمائی: ناجائز و حرام زریعہ معاش سے بھی اولاد نافرمان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قدم بقدم مسائل کا سامنا ہوتا ہے حتیٰ کہ زمانۂ حمل وزمانۂ رضاعت میں بھی حرام غذاؤں کی وجہ سے بچوں کا کردار غیراخلاقی ہو جاتا ہے۔

محبت و شفقت کی کمی: محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہےبچوں سے نفرت وبیزاری،ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار، مار پیٹ، لعن طعن، ان کی جائز مطالبوں کو بھی پورا نہ کرنا، ان کے جذبات و عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ان کا دل توڑدیتا ہے۔ ان پر مایوسی طاری کردیتا ہے اور پھر وہ والدین اور گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر بچے خودسر و باغی ہوجاتے ہیں۔

بےجا لاڈ پیار: بچوں کا بجا و بے جا لاڈ ان کی ہر ضد پوری کرنا اورکبھی کسی غلطی پر بھی ٹوکنے کا نام نہ لینا اور پھربڑا ہونے پرجانوروں کی طرح مار پیٹ کرنا انہیں درست نہیں کرپاتا بلکہ مزید باغی بنا دیتی ہے۔

بے جا ڈرانا: بچوں کو بچپن میں ہی بات بات پر ڈرایا جاتا ہے ایسا نا کرنا ورنہ یہ ہو جائے گا اور مار پڑے گی یہی بچپن کا ڈر تا عمر ان کے ذہن و دماغ میں بس جاتا ہے اور ان میں بزدلی و پست ہمتی پیداہوجاتی ہے۔

بے جا آزادی: بچوں کو شروع ہی سے باربار نصیحتیں کر نے سے پرہیز کی جاتی ہے اور ہر غلط کام کو اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ابھی بچہ ہے۔ بےجا آزادی سے بچوں میں غیر اخلاقی عادات پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ کسی کی بھی پڑی ہوئی چیز اٹھا کر چھپا لینا بات بات پر ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔

حرام و حلال کی تمیز نہ سکھانا: حلال وحرام کی تمیز نہ سکھانے کی وجہ سے بھی چوری اورمفت خوری جیسی بری لت لگ جاتی ہے۔

کاہلی اور سستی: کاہلی، سستی اورنکما پن جیسی بری خصلتوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی بچے بگڑ جاتے ہیں۔محنت و مشقت کرنے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے بڑوں کی خدمت کرنے وغیرہ جیسے کام کرنے کی عادت نہیں رہتی۔

دوستوں کی صحبت: بچےدوستوں کی اچھی و دینداری والی صحبت اور محبت نہ ملنے سے بھی محرومی محسوس کرنے لگتے ہیں یا برے دوستوں کی صحبت اور انکی نشان دہی نہ کرنے کی وجہ سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔

خاندانی باہمی مسائل: جوبچے پچپن میں ماں باپ، دادا، دادی، پھوپھی وغیرہ کے مظالم اور براسلوک دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی غم وغصہ اور نفرت اورانتقام کے جذبات انکے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں جو ان کی تربیت کے ضمن میں سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

احساس کمتری: احساس کمتری خواہ جسمانی ہو یاذہنی یاکسی اور کمزوری یا برائی کی وجہ سے ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔ اور یہ اس وقت زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے جب اپنوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کامذاق اڑاتے ہیں یا انہیں حقیر وکمتر سمجھتے ہیں۔ان کی دوسری خوبیوں کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں کرتے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کاتذکرہ کرتے کسی کے بھی سامنے انہیں ڈانٹتے جھڑکتے اور شرمندہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بہت زیادہ بگڑ جاتے ہیں اور بہت مسائل پیدا کرتے ہیں۔

طنز کرنا: بچوں کے سامنے اس طرح کی طنز آمیز باتیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ناکارہ و نالائق ہیں، ان کے ذہن و قلب پرمنفی اثر ڈالتی ہیں اور وہ اپشنے آپ کو ناکارہ وذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس لائق ہی نہیں کہ کوئی کام کرسکیں یا کچھ سیکھیں یا اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرسکیں۔ پھر وہ تا عمر کچھ کر بھی نہیں پاتے نہ ہی اس کا عزم و حوصلہ بلند ہوتا ہے اگرچہ یہ باتیں بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس طرح کی باتیں انہیں سدھارنے کی بجائے مزیدناکارہ بنادیتی ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بناء پر اولاد بہت بگڑ رہی ہے ان وجوہات پر قابو پا کر ہم اپنی اولادوں کی بہتر تربیت کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے اولاد کو ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے دنیا و آخرت میں۔ بخشش کا ذریعہ بنائے تعلیم و تربیت میں مدد فرمائے۔ آمین