اسلام ہی وہ دین ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو بیان فرمایا اور ہر ایک کے حقوق کو بیان کیا جن کے پورا کرنے سے نظام زندگی پرسکون گزرے انہی حقوق میں سے کچھ حقوق شوہر کے بیوی پر ہیں اور کچھ بیوی کے شوہر پر جو کہ ادا کیے جائیں تو گھر جنت کا نظارہ دے۔اور چیزوں کو ادا کرنے سے پہلے جاننا ضروری ہے آئیے بیوی کے شوہر پر حقوق کو عمل کرنے کی نیت سے قران و سنت کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

اللہ قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں عورتوں کے حقوق بیان فرمائے جن کو شیخ الحدیث و التفسیر مفتی قاسم اپنی تفسیر میں خلاصۃ بیان فرماتے ہیں: مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تحت آئیے انہیں کچھ تفصیل سے دیکھتے ہیں:

1۔ مردوں پر عورتوں کا حق یہ ہے کہ وہ انہیں خرچہ دیں کہ ان کے ذمہ اولاد کی پرورش اور دیگر گھریلو کام کاج ہیں تو وہ ضعیف جاں خرچ کہاں سے لائیں جس کو وہ اپنی ذات اولاد اور دیگر معاملات پر صرف کریں اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

2۔انہیں رہائش دینا بھی شوہر پر حق ہے کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر آ چکیں اب شوہر کو چاہیے اپنی بساط کے مطابق انہیں رہائش دے۔

3۔نیک باتوں کا حکم حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا امر بالمعروف و نہی عن المنکر تو ہر مکلف پر بقدر بساط لازم ہے شوہر بیوی پر حاکم ہے اس کے لیے اس پر لازم نیکیوں کا حکم دے اور پردے اور حیا کو اللہ پاک نے سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں بیان فرمایا: ترجمہ کنز الایمان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خور ہی ظاہر ہے اور دوپٹہ اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔

4۔چوتھا حق یہ ہے کہ مذکورہ تین نمبر کی خلاف ورزی سے سختی سے منع کریں قرآن میں ہے کہ اے ایمان والو خود کو اور اپنے اہل و عیال کو اس اگ سے بچاؤ جس کا اندھن آدمی اور پتھر ہے جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرے کیونکہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا اللہ پاک کی مغفرت سے جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور خوشی وہی ہے جو دائرہ اسلام کے اندر ہو۔

اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرنا اگرچہ عورت کا حق نہیں ہر چیز آپ کو آپ کے مزاج کے مطابق ملے ایسا ممکن نہیں لہذا کچھ باتیں جو آپ کے مزاج کے مطابق نہ ہو درگزر کرنا اور compromise کرنا سیکھیں۔

چھوٹی چھوٹی غلطیاں اور خامیوں کو نظر انداز کر دو شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں: تم کسی کی ایک خوبی دیکھو تو اس کی دس خامیوں کو نظر انداز کر دیا کرو کسی کی ایک خامی پر اس قدر انگلیاں مت اٹھاؤ کہ اس کی خوبیوں اور فضیلتوں کے انبار کوئی اہمیت نہ دے انسان سو خوبیوں پر کان نہیں دھرتے مگر ایک خامی پر شور مچاتے ہیں۔ گھر کو خوشگوار بنانے کے لیے اس حدیث مبارکہ کو بار بار پڑھیں اللہ کے رسول رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی بیوی کی بد اخلاقی پر صبر کیا تو اللہ پاک اسے مصائب پر حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے برابر اجر دے گا اور جس عورت نے خاوند کی بد اخلاقی پر صبر کیا اللہ پاک اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کی مثل ثواب دے گا۔ (احیاء العلوم، 2/24)کسی نے کیا خوب کہا زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے صبر کا پٹرول اور حوصلہ مندی کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔

میرے آقا ﷺ وہ رحمۃ للعالمین کمال میں، وہ خیر خواہ امت ہر حال میں، ایام قرب وصال میں صحابہ کے پنڈال میں تین باتیں ارشاد فرمائیں ان میں سے ایک یہ تھی: عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو وہ تمہارے ہاتھوں میں قید ہیں یعنی وہ ایسی قید ہیں جنہیں تم نے اللہ پاک کی امانت کے طور پر کر لیا اور اللہ کے کلام سے ان کی شرم گاہیں تمہیں حلال کر دی گئیں۔ (مسند امام احمد، 10/209، حدیث: 26719)

عورتیں مردوں سے کمزور ہوا کرتی ہیں اور کمزور حسن سلوک کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں مردوں کو اللہ پاک نے حاکم بنایا اور سردار و حاکم بڑے حوصلہ مند صبر کرنے والے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے والے ہوا کرتے ہیں آپ دوسروں کے حقوق ادا کریں آپ کو آپ کے حقوق دیئے جائیں گے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اسلام اور صاحب اسلام کے صدقے اہل اسلام کو عامل اسلام بنائے۔ آمین

میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں ایک دوسرے کی عزت ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہے، اسلام نے عورت کو بیوی کی حیثیت میں بہت سے حقوق سے نوازا ہے۔ مثلاً حسن معاشرت، تفریح اور دل بستگی کے مواقع فراہم کرنا، معاشی تحفظ، ازدواجی معاملات میں عدل اور توازن وغیرہ۔

1۔ نکاح میاں اور بیوی کے درمیان عہد ہوتا ہے کہ وہ احکام الہی کے تحت خوش گوار ازدواجی تعلقات قائم رکھیں گے، اسی کو حسن معاشرت کہا جاتا ہے۔ سورۃ النساء میں اس معاہدے کی یاد دہانی ان الفاظ میں کرائی گئی: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔سورۃ البقرہ میں خاوند اور بیوی کے تعلق کو انتہائی بلیغ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: وہ (عورتیں) تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو۔ مطلب یہ ہے کہ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے لیے ستر پوش بھی ہیں اور زینت کا سبب بھی۔

2۔ نکاح کے بعد مرد پر پہلا فرض یہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرے اور اسے خوش دلی سے ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- (پ4،نساء:4) ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔

ہاں! عورت خود اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ معاف کر دے، تو جائز ہے۔

3۔ نبی کریم ﷺ کو ازواج مطہرات کا اتنا خیال تھا کہ ایک مرتبہ سفر میں اونٹ چلانے والے اونٹ کو تیز ہانکنے لگے۔ اونٹ پر ازواج مطہرات سوار تھیں۔ آپ نے اپنے غلام انجشہ کو مخاطب کر کے فرمایا: افسوس انجشہ! شیشوں (نازک اندام عورتوں) کو آہستگی سے لے کر چل۔

ازدواجی تعلق کی سب سے مضبوط بنیاد محبت کا جذبہ ہے۔ یہ جذبہ موجود ہو تو زندگی کے میدان میں اکٹھے سفر جاری رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اعلیٰ مقصد یعنی اولاد کی تربیت پر اچھے اثرات بھی مرتب کر سکتے ہیں۔ محبت کا جذ بہ نہ ہو تو یہ تعلق ایسے ہوگا، جیسے دو اجنبی کسی سفر کے دوران میں مل بیٹھے ہوں۔

4۔ بیوی کا حق یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے شریک محبت رکھے، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک دینار وہ ہے جو تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جس کے ذریعہ تم نے کوئی غلام آزاد کیا، ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی مسکین کو صدقہ کے طور پر دے دیا، اور ایک دینار وہ ہے جو تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا، ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار پر ملے گا جو تم نے اپنی بیوی پر خرچ کیا۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دنیا فائدہ اٹھانے کی چیز ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ فائدہ دینے والی چیز نیک بیوی ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1467)

5۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمايا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے بنی ہے اور پسلی میں سب سے نچلی پسلی ٹیڑھی ھوتی ہے تو اگر اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر یونہی چھوڑ دیا تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔(بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)اور حسن سلوک میں یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اندر محبت و سرور پیدا کرے کیونکہ اس سے خاندان میں مودت اور رحمت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہنسی مذاق کرتے تھے اور دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے۔


دنیا میں سب سے پہلے حضور ﷺ نے عورتوں کے حقوق مقرر فرمائے اور عورت کی شخصیت کو ابھارااور قرآن کریم کے الفاظ میں اعلان فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

اسلام سے پہلے عورتوں کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ عصمت وعفت ہی کی قدر نہ تھی حق مہر ایک بےمعنی چیز تھی۔ عورت کی ملکیت کا سارا سامان وغیرہ شوہر کی ملکیت قرار دیا جاتا تھا۔ آیت مبارکہ میں بھی بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح مردوں پر عورتوں کے حقوق ہوتے ہیں ایسا ہی شوہروں کے حقوق بیویوں پر بھی ہوتے ہیں شوہروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ وہ عورتوں کے مالک نہیں یا بیویاں ان کی کنیزیں نہیں۔ بلکہ اسلام نے دونوں پرایک دوسرے کے کچھ حقوق کو نافذ کیا ہے اور جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے لحاظ سے مرد کو ہی فضیلت حاصل ہے۔

1۔ شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے نیکی کا برتاؤ کرے مرد کو چاہیے کہ اسکی ضد کے مقابلے میں سختی سے کام نہ لے۔ کہ حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا: عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہ ہوگی برتنا چاہو تو اسی طرح برت سکتے ہو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

2۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ مرد کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے اگر اسکی ایک عادت بری معلوم ہو تو امید ہے دوسری پسند بھی ہو گی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

3۔اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان میں انصاف کرے اور ہر ایک کے ساتھ مساوات و برابری کا سلوک کرےاور انکی حاجات کو پورا کرے۔

4۔جو کچھ مرد خود کھائے بیوی کو بھی وہی کچھ کھلائے اور پہنائے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ بے شک عورت کا تمہارے اوپرحق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)

5۔ مرد و عورت دونوں کے لیے حکم ہے کہ ایک دوسرے سے مخلص وفادار رہیں اور ایک دوسرے کے لیے پردہ پوش اورایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہوں۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوا: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- (پ 2، البقرۃ:187) ترجمہ: وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔

اسلام سے پہلے عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی، چاہے وہ ماں ہو یا بیٹی ہو یا بیوی، بیٹی ہو یا بہن، عورت کی عزت اور احترام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بیٹی ہوتی تو معاذاللہ پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتی، بیوی ہوتی تو گویا پاؤں کی جوتی سمجھی جاتی۔ اللہ پاک کے فضل اور احسان پہ قربان کہ اس نے ہمیں اپنے پسندیدہ دین مذہب مہذب اسلام میں پیدا فرمایا جو تمام دینی اور دنیاوی اخلاق اور آداب سے آراستہ ہے۔ اسلام وہ پیارا دین ہے جس نے انسان تو انسان، جانوروں تک کے حقوق بیان فرمائے ہیں اور عورت کو حقیقی معنوں میں عزت اسلام ہی نے بخشی ہے، قرآن پاک نے عورت کے حقوق واضح ترین انداز میں بیان فرما کر دنیا بھر کی عورتوں کی عزت اور عصمت کی حفاظت فرمائی ہے۔ اسلام میں ماں ہونے کی حیثیت سے عورت کی جو تعظیم اور تکریم ہے وہ اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ ایسے ہی اسلام بیوی، بہن اور بیٹی کو جو تحفظ عطا فرماتا ہے وہ دوسرے کسی دین میں نہیں۔

مذہب مہذب اسلام نے بیوی کے حقوق بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔خاوند کو چاہیے کہ دین کی حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پورا کرے اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کئے ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے کیونکہ اللہ پاک نے جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا عورتوں کے ذمے لگایا ہے اسی طرح عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جن کا پورا کرنا مردوں پر فرض فرمایا ہے۔

اچھا برتاؤ: قرآن مجید میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں انکے ساتھ انصاف کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔ اچھے برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو، ان کے لیے بھی وہی پسند کرو۔

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَّ اٰتَیْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا(پ4، النساء:20 ) ترجمہ: اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو۔ یہاں مزید بیوی کے حقوق بیان فرمائے گئے چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جو مال تم اسے دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔

قرآنی احکامات کے مطابق بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی روشن مثال اللہ تعالیٰ کے پیارے اور آخری نبی ﷺ کی مبارک سیرت ہے چنانچہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث:3921) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ الله علیہ اس حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بڑا خليق (اچھے اخلاق والا) وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خلیق ہو کہ ان سے ہر وقت کام رہتا ہے، اجنبی لوگوں سے خلیق ہونا کمال نہیں کہ ان سے ملاقات کبھی کبھی ہوتی ہے۔ (مرآة المناجیح، 5/ 96)

بہترین کون؟ اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل تر مومن اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہو۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)

اچھے اخلاق وہ عادت ہے جس سے اللہ رسول بھی راضی رہے اور مخلوق بھی، یہ ہے بہت مشکل مگر جسے یہ نصیب ہو جائے اس کے دونوں جہاں سنبھل جاتے ہیں کیونکہ بیوی صرف خاوند کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ دیتی ہے اگر خاوند بھی اس پر ظلم کرے تو وہ کس کی ہو کر رہے۔ کمزور پر مہربانی سنت الہیہ بھی ہے سنت رسول بھی۔ (مرآة المناجیح، 5/ 101)

اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی احسن طریقے سے ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


اسلام ایک واحد ایسا مذہب ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کے حقوق کا تعین اور تحفظ موجود ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی حیثیت انتہائی کم تھی۔ اسلام نے عورت کو وراثت میں حصہ دار بنایا۔ عورتوں کو مردوں کے مساوی حقوق فراہم کیے ہیں۔ جس طرح مردوں کے حقوق پورے کرنا عورتوں کے ذمہ لگایا ہے اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا مردوں کا فرض ہے۔ خاوند کو چاہیے کہ حدود میں رہ کر اپنی بیوی کے حقوق کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے اور شریعت نے عورت کو جو جائز حقوق عطا کیے ہیں ان کی حق تلفی نہ کرے۔ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم قرآن مجید میں بھی ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں بیوی کے حقوق:

1۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔ (ترمذی، 5/ 475،حدیث3921)

دین اسلام بھی اس شخص کو بہترین قرار نہیں دے سکتا جو لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے اورعزت پانے کے لیے سب کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئے مگر جب گھر میں داخل ہو تو اس کی بیوی ڈر جائے، بچے بھاگ جائیں،نوکر سہم جائیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو اس کی بیوی سکون میں رہے (جیسے اس پر سے مصیبت ٹل گئی)اور اس کے بچے اور نوکر خوش ہو جائیں۔ ہر شخص کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں وہ اس بات کا مصداق تو نہیں بن رہا۔

2۔کامل ایمان والا: تاجدار انبیاء ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: بے شک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ بیوی کے ساتھ ہمیشہ تحمل اور بردباری سے پیش آیا جائے۔ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ نرمی اور خوش خلقی سے پیش آئے اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب اس کا خود کا اخلاق اچھا ہو گا جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث شریف میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

3۔حلال کھلانا: نیز بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے حلال کھلائیں حرام وناجائز نہ کھلائیں کیونکہ حرام کھانے والا دوزخ کا حقدار ہے اور جب بھی بیوی لذیذ کھانا وغیرہ بنائے تو شوہر کا فرض ہے کہ اس کی تعریف کرے اس سے اسے وہ خوشی ملے گی جو آپ دولت سے نہیں دے سکتے۔ اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو اجر وثواب ملے گا۔(مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)

4۔ بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا سنت ہے: بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے خاص کر جب بیوی عمر میں ذرا کم سن ہو اور اس کی عادات چھوٹی بچیوں جیسی ہوں تو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری سہیلیاں بھی تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتیں آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتیں۔

اس حدیث مبارکہ میں بتایا گیا ہے کہ بیوی کے جذبات کی دلداری کا لحاظ رکھنا چاہیے اس کا ایسا شوق جو خلاف شرع نہ ہو اسے برداشت کر لینا چاہیے غرض یہ کہ بیوی سے ہنسی خوشی رہنا چاہیے۔ اس طرح میاں بیوی کی زندگی میں اطمینان اور سکون کی دولت میسر رہے گی دونوں کا نبھا اچھی طرح ہو جائے گا۔

5۔ پردے کی تلقین: بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ خاوند اسے بن ٹھن کر باہر جانے سے روکے جیسے فی زمانہ خواتین بیاہ شادیوں پر یا رشتہ داروں کے ہاں میک اپ کر کے اچھا لباس پہن کر خوشبو لگا کر جاتی ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں اس کی سخت ممانعت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس کی بیوی زیورات پہن کر اور خوشبو لگا کر باہر نکلتی ہے اگر شوہر اس پر رضامند ہے تو اس عورت کے ایک ایک قدم کے بدلے میں اس شوہر کے لئے سزا ہے۔ (تحفہ شادی، ص 149)

خاوند کو چاہیے کہ دین کے معاملے میں عورت کو آزاد مت چھوڑے اور اسے پردہ کرنے کی تلقین کرے۔

اللہ پاک نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر لازم فرمائے اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں پر بھی لازم فرمائے ہیں جس کا ادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ عورتوں کے مردوں پر اسی طرح کچھ حقوق ہیں جس طرح مردوں کے عورتوں پر اچھے برتاؤ کے ساتھ۔

اسی طرح آقا ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اچھے وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: میں تم لوگوں کو عورتوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں لہذا تم میری وصیت قبول کرو۔ بہرحال اللہ پاک نے عورتوں کے کچھ حقوق مردوں پر لازم فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔

1۔ ہر شوہر پر اس کی بیوی کا حق یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے پینے رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اپنی طاقت بھر انتظام کریں۔ جو مرد لاپرواہی سے اپنی بیوی کے نان و نفقہ اور اخرجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت گنہگار حقوق العباد میں گرفتار اور عذاب نار کے سزا وار ہیں۔

2۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اس سے خوش طبعی کرے۔ ہمارے نبی ﷺ جس طرح اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے اور مسکراتے تھے۔ ایسے گھر والوں کے ساتھ پیش آتے۔ آپ ﷺ کے مزاح میں حق بات کے سوا کچھ نہ ہوتا۔

حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر اپنی ازواج کے ساتھ خوش طبع تھے۔ (ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2023، ص 64)

3۔ عورت اگر بیمار ہو جائےتو شوہر کا ہو سکتا ہے اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غمخواری اور تیمارداری میں ہرگز ہرگز ہرگز کوتاہی نہ کرے۔ بلکہ دلداری دلجوئی بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش لگادے۔

4۔ مرد کو چاہیے کہ عورت کی غلطیوں پر اصلاح کے لیے روک ٹوک کرتا رہے۔ کبھی سختی اور غصے کے انداز میں اور کبھی محبت اور پیار اور کبھی ہنسی خوشی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اکثر عورتوں میں ضد ہوتی ہے مرد کو چاہیے کہ اس کی ضد کے مقابلے میں سختی سے کام نہ لے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: تم میں سے اچھے وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

5۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں ہوں یا اس سے زیادہ ہوں تو فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک کرے۔ تمام معاملات میں برابری برتے ورنہ حقوق العباد میں گرفتار اور عذاب نار کا سزا وار ہوگا۔

آقا ﷺ نے فرمایا: جس کے پاس دو بیویاں ہوں اس نے ان کے درمیان عدل و برابری کا برتاؤ نہیں کیا تو وہ قیامت کے روز میدان محشر میں اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ اس کا آدھا بدن مفلوج ہوگا۔ (ترمذی، 2/375، حدیث:1144)

حضوراقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور سازوسامان نہ ہو۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت میں مفلس وہ ہےجو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوة (وغیرہ اعمال)لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے(دنیا میں) کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی،کسی کا مال کھایا تھا، کسی کا خون بہایا تھااور کسی کو مارا تھا تو ان میں سے ہر ایک کو اسکی نیکیاں دے دی جائیں گی اور ان کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اگر اس کی نیکیاں (اسکے پاس سے)ختم ہو گئیں تو ان کے گناہ اس پر ڈال ديئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صراط الجنان، 1/154) لہذا ہمیں صرف نیکی کرنی ہی نہیں بلکہ اسے بچانا بھی ہےاور کوشش کرنی ہے کہ دنیا سے بندوں کے حق کا بوجھ اپنے اوپر نہ لے کر جائیں۔ خدا کے تو ہم گناہگار ہیں مگر مخلو ق کے گناہگار نہ بنیں۔

بیوی کے حقوق: بیوی کے حقوق ازروئے قرآن و حدیث پیش خدمت ہیں۔

1۔حسن سلوک: شوہر اگرچہ گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اسکو یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بیوی پر سختی نہ کرے بلکہ حسن سلوک سے پیش آئے۔کیونکہ سسرال جیل خانہ اور بیوی باندی نہیں۔ ارشاد ربانی ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

یہ حکم کسی خاص حالت کا نہیں، جوانی میں بھی اور بڑھاپے میں بھی، وہ حسین و جمیل ہو تو بھی اور ظاہری حسن و جمال سے محروم ہو تب بھی، ڈھیروں مال لے کر آئےجب بھی اور خالی ہاتھ آئے جب بھی۔

2۔نان و نفقہ اور حق مہر کی ادائیگی: نفقہ سے مرادکھانا، کپڑے اور رہنے کا مکان ہے۔حق مہر اصلا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی تمام معاشی ذمہ داریاں اٹھائے گا۔یہ اپنی حیثیت کے مطابق مقرر کرنا چاہیئے۔ قرآن کے مطابق یہ ڈھیروں مال بھی ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نکاح کی شرطوں میں سے جس شرط کا پورا کرناتمہارے لیے سب سے زیادہ اہم ہے وہ وہی شرط ہے جس کے ذریعے تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ یہاں شرط سے مراد مہر ہے یا بیوی کا نان و نفقہ۔ مگر حق یہ ہے کہ اس سے مراد وہ تمام شرائط ہیں جو نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد لگائی جاتی ہیں۔ (فیضان چہل احادیث، ص28)

3۔حق خلع: شوہر اور بیوی کا رشتہ آقا اور باندی کا نہیں بلکہ محبت و الفت کا ہے ازدواجی زندگی میں اگر بگاڑ پیدا ہو،شوہر اور بیوی میں نہ بن پائے تو جہاں ایک طرف مرد کو طلاق کا حق حاصل ہے تو دوسری طرف بیوی کو بھی اختیار ہے کہ وہ خلع لے لے۔ (سیرت رسول عربی، ص 231)

4۔بیوی کے والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ اپنی انتہائی مفید تحریرمیں فرماتے ہیں کہ بیوی سب کچھ سن سکتی ہے مگر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کی برائی نہیں سن سکتی لہذا اسکے والدین کو کچھ مت کہا کرو۔ ابو جہل کے فرزند حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: عکرمہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی بھی ان کے باپ کی برائی نہ کرے۔ (اسلامی زندگی، ص 52)

5۔نرم رویہ: بیوی جو کہ شوہر کی خاطر اپنے میکے والوں کو چھوڑ آتی ہے بلکہ بعض دفعہ تو دیس چھوڑ کر پردیسی بھی بن جاتی ہے۔اگر شوہر اسے آنکھیں دکھائے گاتو وہ کہاں کی رہے گی۔

سیرت رسول عربی صفحہ 230 پر ایک حدیث مبارکہ نقل ہے جس میں آقا علیہ السلام نے عورت کو شیشی سے تشبیہ دی ہے۔یعنی عورت اس قدر نازک ہوتی ہے کہ ہلکی سی ٹھوکر سے شیشے کی طرح چور چور ہو کر بکھر سکتی ہے۔لہذا اسکے ساتھ نرمی سے پیش آنے کی بھرپور تاکید کی گئی ہے۔

آج ہمارا معاشرہ ہزاروں برائیوں کا مرتکب ہے۔ فتنہ و فساد کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اکثر فتنہ و فساد کی جڑ دو چیزیں ہیں: ایک غصہ اور اپنی بڑائی اور دوسراشرعی حقوق سے غفلت۔ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ مجھے بہت اونچا سمجھا جائےاور سب میرے حقوق ادا کریں مگر میں کسی کا حق ادا نہ کروں یوں ایسی آگ لگتی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی۔ لہذا حقوق العباد کی ادائیگی میں رتی برابر بھی غفلت نہیں بھرتنی چاہیئے۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

رب قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔اسی طرح یہ بھی ارشاد فرمایا جس کا صاف مطلب ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھی معاشرت کرو ارشاد ربانی مفہومن عرض ہے جس طرح مردوں کا عورتوں پر حق ہے اسی طرح عورتوں کا بھی مردوں پر حق ہے گویا یہ نہ سمجھا جائے کہ بس مردوں کے حقوق عورتوں پر اور شوہروں کے حقوق بیویوں پر ہوتے ہیں نہیں بلکہ اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق مردوں پر اور بیویوں کے حقوق بھی شوہروں پر ہوتے ہیں عورت جانور یا جائیداد نہیں کہ مال موروثہ کی طرح مردوں کو ان پر تصرف کا حق حاصل ہو بالحاظ حقوق مرد عورت ایک سطح پر ہے ہاں جسمانی سخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے لہذا معزز قارئین کرام بیوی کے بھی پانچ حقوق ہیں جن میں سے پانچ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ ہوں۔

1۔ شوہر اپنی عورت سے بغض نہ رکھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان مرد اپنی مسلمان بیوی سے بغض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے دوسری پسند ہوگی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1469) مرد کو چاہیے کہ خراب عادت ہی کو نہ دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کریں۔

2۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

3۔ شوہر اپنی عورت کو نہ مارے۔ حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا۔ (بخاری،3/465، حدیث: 5204)یعنی زوجیت کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک کو دوسرے کی حاجت اور وہم ایسے مراسم کے ان کو چھوڑنا دشوار ہے لہذا جو ان باتوں کا خیال کرے گا مارنے کا ہرگز قصد نہ کرے گا۔

4۔ شوہر پر بیوی کا حق ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ بیوی کا شوہر پر کیا حق ہے؟فرمایا جب خود کھائے تو اس کو کھلائے جب اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کے لیے اس کو علیحدہ کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)

5۔ عورتوں سے حسن سلوک۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)الغرض شوہر اور بیوی کا اخلاقی کمال یہ ہے کہ ایک دوسرے کی کمزوری کو چھپائیں اس پر صبر کرے اور ایک دوسرے کی ہوپیو کو نگاہ میں رکھے اور بہتر سے بہتر صورت میں اپنے باہمی تعلقات کو ظاہر کرے۔ 


جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی شوہر پر حقوق ہیں ان میں کچھ مالی حقوق ہیں اور کچھ غیر مالی حقوق ہیں:

1 مہر: یہ خاص طور پہ بیوی کا حق ہے اس کی قلت و کثرت کی کوئی حد نہیں لیکن مہر میں مبالغہ کرنا ناپسندیدہ فعل ہے جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو۔

2 نان نفقہ: (یعنی کھانا پینا رہنا سہنا لباسہ مکان وغیرہ) مہیا کرنا اگرچہ بیوی مالدار ہو۔

3 حسن سلوک: خاوند کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اسے عزت دے ایسا کام کرے جو اس کے دل میں محبت پیدا کرے۔

4 حسن معاشرت: (یعنی اچھی طرح رہنا ،سہنا، حسن سلوک اور نیک باتوں کی تعلیم دینا) اور دینی تعلیم دینا اور گناہوں سے بچانا۔

5 ہر جائز کام میں اس کی دل جوئی کرنا: اگر اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے بتانا اور اگر معلوم نہ ہو تو کسی عالم سے پوچھ کر اسے مسئلہ سکھانا۔

اسلام سے پہلے بیوی کی عزت و ناموس کی ایسی دھجیاں اڑآئی جاتی تھی گویا اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے بیوی کے حقوق کو تفصیلا بیان فرمایا اس کی ناموس کی حفاظت فرمائی اسلام نے بیویوں کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جس میں ایک بیوی بھی معاشرے میں باوقار و باعزت زندگی گزار سکتی ہے نیز قران و حدیث میں شوروں کو سختی سے اس بات کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ اللہ پاک اپنے کلام قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ علامہ علاؤ الدین علی بن محمد خازن علیہ الرحمہ مذکورہ ایت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اچھا برتاؤ یہ ہے کہ کھلانے پہنانے حق زوجیت ادا کرنے اور بات چیت کرنے میں ان سے اخلاقی خوش اخلاقی کے ساتھ پیش ائے اچھا برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو ان کے لیے بھی وہی پسند کرو۔ (تفسیر خازن، 1/360)

علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بیویوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرنا اور تمام امور میں ان کے ساتھ انصاف کرنا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ ہے۔ (تفسیر خازن، 2/163)

حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ اپنی ازواج میں باری معین فرماتے اور ان میں عدل کرتے پھر یوں دعا فرماتے اے اللہ یہ میری تقسیم ہے جس کا میں مالک ہوں مجھے اس چیز میں ملامت نہ کرنا اس کا مالک تو ہے میں نہیں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو جائے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں ائے گا کہ اس کی ایک جانب گری ہوگی۔ (ترمذی، 2/375، حدیث:1144)

حضرت سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ پہنو تو انہیں بھی پہناؤ چہرے پر نہ مارو اسے برا نہ کہو اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

بیوی کو کھلانے پہنانے کے معنی:علامہ محمد بن علان شافعی فقیر رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جب مرد خود بقدر کفایت کھاتا ہو تو عورت کو بھی بقدر کفایت کھلانا فرض ہے اور اگر مرد اچھا کھانے اچھا پہننے والا ہو تو ضرورت سے زیادہ جو کھلائے یا پہنائے گا تو وہ عورت پر احسان اور نفل ہوگا۔ (دلیل الفالحین، 2/105، تحت الحدیث: 278)

چہرے پر مارنے کی ممانعت: علامہ علامہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ چہرے پر مارنے کی ممانعت کے بارے میں فرماتے ہیں: چہرہ تمام اعضا میں سے عظمت والا ہے اور یہ تمام اعضا کا مظہر اور یہ نازک اعضا پر مشتمل ہے چہرے کے علاوہ باقی اعضاء پر اس وقت میں مارنے کی اجازت ہے جبکہ بیوی کوئی بے حیائی کا کام کرے یا کوئی فریضہ چھوڑے حضور نبی کریم ﷺ نے چہرے پر مارنے سے مطلقا منع فرمایا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 6/403، تحت الحدیث: 3259)

بیوی کو برا نہ کہو: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اسے گالی نہ دو کہ اس سے تمہاری زبان گندی ہوگی عورت کی عادت بگڑے گی کیوں کہ گالیاں سننے والا گالیاں بکنے بھی لگتا ہے دوسرے یہ کہ اسے برے کاموں کا عیب نہ لگاؤ بے عیب کو عیب لگانے سے وہ عیب دار ہو جاتا ہے بلکہ برائی دیکھ کر اکثر چشم پوشی کر لیا کرو۔ (مرآۃ المناجیح، 5/99)

بیوی کو گھر سے باہر مت چھوڑو: یعنی تم اس کی اصلاح کے لیے اس سے کلام و سلام بند کرو تو گھر سے باہر نہ نکال دو کہ اس سے وہ اور بھی ازاد ہو جائے گی بلکہ گھر ہی میں رکھو کھانا پینا جاری رکھو صرف بول چال چھوڑ دو یہ بائیکاٹ ان شاءاللہ اس کے لیے پوری اصلاح کا ذریعہ ہوگا۔ (مرآۃ المناجیح، 5/99)

حسن اخلاق سے پیش آۓ: سرکار نامدار مدینے کے تاجدار ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامل مومن وہ ہیں اس کا اخلاق سب سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ (ترمذی،2/387، حدیث: 1165)

اور تم سے بہترین وہ ہے جو عورتوں کے حق میں اچھے ہیں: علامہ ابن اسیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث پاک میں صلہ رحمی کرنے اس پر بھرنے کی طرف اشارہ ہے بعض نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی سے خوش اخلاقی سے پیش آئے اور اس کو ایزا نہ دے اور اس پر احسان کرے اور اس کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرے چنانچہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے اپنے اہل کے لیے سب سے زیادہ اچھے اور ان کے خلاف احوال پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے۔ (دلیل الفالحین، 2/105، حدیث: 279)

بیوی سے درگزر: حضور نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مومن کسی مومنہ سے بغض نہ رکھے اگر اسے اس کی کوئی بات کوئی ایک بات نہ پسند ہو تو دوسری پسند ہوگی یا یہ فرمایا کوئی بات نہ پسند ہو تو اس کے علاوہ کوئی بات پسند بھی ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: سبحان اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے یہاں مرقاۃ نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی تلاش میں رہے گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا ہم خود ہزار برائیوں کا سرچشمہ ہے ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو اچھائیوں پر نظر رکھو ہاں اصلاح کی کوشش کرو بے عیب تو رسول اللہ ﷺ ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 5/87)

حق عربی زبان کا مفرد لفظ ہے، اس کے معنی فرد یا جماعت کا واجب حصہ ہوتا ہے، اس کی جمع حقوق آتی ہے، الله پاک نے قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جب یہ سوال ہوا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی (یعنی کھانا، لباس و مکان) ، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء و حجاب کی تعلیم و تاکید اور اس کے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی (عورت کے حقوق میں سے ہے)۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں پر بیوی کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1) اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آئے اور اس کی عقل کی کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مہربانی کا سلوک کرے اور اس کے درد دکھ کو دور کرے حضور ﷺ نے ان کے حقوق کی عظمت میں ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنی بیوی کی بد خلقی پرصبر کیا اللہ تعالیٰ اسے مصائب پر حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کے اجر کے برابر اجر دے گا اور جس عورت نے خاوند کی بد خلقی پر صبر کیا اللہ تعالیٰ اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کے مثل ثواب عطا فرمائے گا۔(احیاء العلوم، 2/24)

بیوی سے حسن سلوک یہ نہیں کہ اس کی تکالیف کو دور کیا جائے بلکہ ہر ایسی چیز کو اس سے دور کرنا بھی شامل ہے جس سے تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہو اور اس کے غصہ اور ناراضگی کے وقت حلم کا مظاہرہ کرنا اور اس معاملہ میں حضور ﷺ کے اسوہ حسنہ کو مد نظر رکھنا شامل ہے۔

2)اس کو نان نفقہ وغیرہ مہیا کرنا: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مسلمان اپنے گھر والوں پر ثواب کی طلب میں خرچ کرتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔ گھر والوں سے مراد بیوی بچےوغیرہ ہیں۔

یہاں تک کہ اسلام میں شوہر کے لیے بیوی کو پانی پلانے کابھی ثواب بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک آدمی جب اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔ صحابیٔ رسول فرماتے ہیں کہ پھر میں اپنی زوجہ کے پاس آیا، اسے پانی پلایا اور یہ حدیث پاک سنائی۔ (معجم کبیر، 18/258، حدیث: 646)اسی طرح ایک اورحدیث پاک میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہواس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔ (بخاری، 1/438، حدیث:

3) شوہرکا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے چاہئے کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے، خود بھی برائیوں سے بچے اور حتی المقدور اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے دور رکھے، نبی اکرم، نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھاجائے گا۔

4)شوہر کا چوتھا حق یہ ہے کہ وہ اپنی زوجہ کا مہر اچھی طرح سے ادا کرے۔ مہر کے متعلق رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ظالمانہ روش اختیار کر کے عورت کا مہر ادا نہ کیا وہ خدا کے سامنے زنا کار ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے مخاطب کر کے فرمائے گا۔ اے میرے بندے میں نے اپنی کنیز کو ایک معاہدے کے مطابق تیرے عقد میں دیا تھا لیکن تو نے مجھ سے باندھے ہوئے عہد کو پورا نہیں کیا۔ اور اس پر ظلم روا رکھا۔ اس کے بعد عورت کے حق کی مقدار کے مطابق نیکیاں اور اچھے اعمال اس کے شوہر سے لے کر اس کی بیوی کو دے دیئے جائیں گے۔ اور چونکہ کوئی نیک کام اس کے حساب میں باقی نہیں بچے گا۔ عہد شکنی کے جرم میں اسے دوزخ میں لے جایا جائیگا۔ (بحار الانوار، 10/349)

5)اگر کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اس دنیا میں ہر انسان میں بے شمار خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں آدمی کو ہمیشہ سامنے والے کی خوبیوں پر نگاہ ہونی چاہیے کسی کی برائیاں تلاش کر کے اس کو ذلیل نہ کیا جائے، اس طرح بیوی میں بے شمار خوبیاں میں انہی کو بنیاد بنا کر زندگی گزاری جائے اگر کوئی معمولی برائی ہے تو نظر انداز کر دی جائے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس میں ایک برائی ہے تو دوسری اچھائی بھی تو ہے اسے دیکھ لیا کرو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)


اللہ پاک نے میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت بھرا بڑا پیارا ر شتہ پیدا فرمایا ہے اللہ پاک نے نسل انسانی کی بقا اور بڑھوتری کے لئے مر دوعورت کو جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ جس قدر اہم ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ باہمی تعاون، خلوص، چاہت اور در گزر ازدواجی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس عدم برداشت اور در گزر نہ کرنے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی برائیوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟

اللہ رب العالمین جل جلالہ نے بیویوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبى رحمۃ الله علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں۔

حضرت معاویہ بن حيدة فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: يارسول الله ﷺ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟‘ ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جب یہ سوال ہوا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی (یعنی کھانا، لباس و مکان)، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء و حجاب کی تعلیم و تاکید اور اس کے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی (عورت کے حقوق میں سے ہے) اور مردان خدا کی سنت پہ عمل کی تو فیق ہو تو ماورائے مناہی شرعیہ میں اس کی ایذا کا تحمل کمال خیر ہے اگر چہ یہ حق زن نہیں (یعنی جن باتوں کو شریعت نے منع کیا ہے ان میں کوئی رعایت نہ دے، ان کے علاوہ جو معاملات ہیں ان میں اگر بیوی کی طرف سے کسی خلاف مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچے تو صبر کرنا بہت بڑی بھلائی ہے۔ البتہ یہ عورت کے حقوق میں سے نہیں ہے)۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 472 صفحات پر مشتمل کتاب بیانات عطاریہ حصہ دوم کے صفحہ 164 پر ہے: ایک آدمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا۔ اسے غصہ تو بہت آیا مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غصے کو پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رہتا ہوں اگر آج میں نے بیوی کی خطا پر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسانہ ہو کہ کل بروز قیامت اللہ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں اپنی زوجہ کی خطا معاف کر دی۔ انتقال کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ اس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والا تھا کہ الله نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اس کی خطا معاف کر دی تھی، جاؤ میں بھی اس کے صلے میں تم کو آج معاف کرتا ہوں۔

سبحن اللہ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک کی رحمت کس قدر وسیع ہے کہ ایک ایسا شخص جو کثرت عصیاں کے سبب گر فتار عذاب ہونے ہی والا تھا اس کے تمام قصور صرف اس لئے معاف کر دیئے گئے کہ اس نے اپنی زوجہ کا ایک چھوٹا سا قصور معاف کر دیا تھا اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی زوجہ کی غلطیوں اور بد اخلاقیوں پر صبر کرنے لگے تو نہ صرف گھر میں چاہت و امن اور باہمی اتفاق کی فضا قائم ہو جائے ساتھ ہی ساتھ اعمال نامے میں نیکیوں کا انبار بھی لگ جائے۔

مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لئے ایسا درخت ثابت ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ بیوی کے شرعی حقوقی احسن طریقے سے ادا کرے۔

شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی زوجہ کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو کماحقہ ادا کرے، حقوق العباد کی تلفی ناجائز و حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

اگر بالفرض بیوی شوہر کے حقوق ادانہ بھی کرے تو شوہر کو اس پر صبر سے کام لینا افضل ہے۔

اللہ پاک تمام کو رشتہ ازدواج کے خوبصورت رشتے کے حقوق و فرائض نبھاتے ہوئے خوشحال و پر سکون زندگی گزارنا نصیب فرمائے۔ آمین