شوہر
کی نافرمانی از بنت خواجہ معین الدین، جامعۃ المدینہ حیدرآباد انڈیا

دین
اسلام میں مسلمانوں کو جن کی اطاعت کا حکم دیا گیا اور جن کی نافرمانی پر وعیدیں
بیان ہوئیں، ان میں سے ایک اہم شخص شوہر ہے اللہ تعالی نے شوہر کو اپنی
بیوی پر حاکم بنایا ہے لیکن آج کل اسے نا انصافی کا نام دے کر اس قول کی تردید کی
جاتی ہے حتی کہ عورتیں اپنے آپ کو مرد کے برابر مانتی ہیں اور کچھ نادان تو شوہر
کو اپنی مٹھی میں کرکر اپنا غلام بنانے میں لگی ہوتی ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک پارہ 5سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں
ارشاد فرماتا ہے اور اللہ کا کلام سچ اور حق ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى
النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا
مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز
العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت
دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
عورت
کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر
تسلّط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ، اس لئے عورت پر مرد کی اطاعت
لازم ہےاس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد
کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ نا انصافی یا ظلم نہیں بلکہ
عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔
مرد
کو عورت پر جو حکمرانی عطا ہوئی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ نے مرد کو عورت
پر فضیلت بخشی ہے۔ لیکن اکثر بیوی شوہر کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے حتی کہ ماں
بھی اپنی بیٹی کو شوہر کے حقوق سمجھانے اور ان حقوق کی پابندی کا درس دینے کی
بجائے یہ سکھلاتی ہیں کہ شوہر کو اپنی مٹھی میں کیسے کیا جائے، اس بری تربیت کے
نتیجے میں اکثر کچھ سالوں بلکہ مہینوں میں بیٹیاں شوہر سے لڑائی، جھگڑا کرکے ماں
کے گھر آکر بیٹھ جاتی ہیں اور کچھ دنوں میں طلاق کا پیغام آجاتا ہے اور ساری زندگی
ماں کے پاس افسوس کے بجائے کچھ ہاتھ نہیں رہتا۔ حالانکہ اسلام میں شوہر کا عورت پر
سب سے زیادہ حق ہے اور اسکی نافرمانی پر کئی وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
شوہر
کی نافرمانی کے متعلق کچھ احادیث مبارکہ پڑھیے: چنانچہ
1) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پر
سب آدمیوں سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر اس کی ماں کا۔ (مستدرک للحاکم،
5/244، حدیث:7418)
2)حضورﷺ نے فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کو
دنیامیں ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے یہ
تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/392،
حدیث: 1177)
3)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت ایمان کا
مزہ نہ پائے گی جب تک حق شوہر ادا نہ کرے۔ (معجم کبیر،20 /52، حدیث:90)
حضور ﷺ کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ
شہزاد احمد،دھوراجی کالونی کراچی

پیارے آقا ﷺ کے لڑکپن اور جوانی کے زمانے کی طرح آپ کا بچپن
شریف کا زمانہ بھی نہایت ہی خوبصورت اور آپ کی لاجواب اداؤں سے مزین تھا۔آپ جس طرح
اپنے اہل بیت کرام سے محبت فرمایا کرتے تھے اسی طرح آپ اپنی رضاعی ماؤں سے بھی بہت
زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔آپ کو جن مشہور خوش نصیب خواتین نے دودھ پلایا ان کے
مبارک نام یہ ہیں: آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا، حضرت حلیمہ سعدیہ
رضی اللہ عنہا، حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا۔جن جن عورتوں کو پیارے آقا ﷺ کو دودھ
پلانے کا شرف نصیب ہوا ان تمام عورتوں کو دولت ایمان نصیب ہوئی۔(آخری نبی کی پیاری
سیرت، 17)
پیارے آقا ﷺ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو
سپرد کرنےکی وجہ:مکہ کے معزز لوگوں کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماں کی
گود میں پلتا دیکھنے کے بجائے صحرا میں رہنے والےقبیلوں کے پاس بچپن گزارنے کے لیے
بھیجتے، اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہات کی خالص غذائیں کھا کر بچوں کے اعضا اور جسم
مضبوط ہوں اور ان کی خالص عربی سیکھ کر وہ بھی اس کی فصاحت و بلاغت سے کلام کرنے
والے بن جائیں اسی وجہ سے آخری نبی ﷺ کو حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کردیا گیا۔
نبی کریم ﷺ کی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا
سے محبت:جب حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں
تو آپ ﷺ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔ایک مرتبہ غزوۂ حنین کے
موقع پر حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا محبوب خدا ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لیے
چادر بچھائی۔( الاستیعاب، 4 / 374)
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا ﷺ کے
پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو نبی ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے
حضرت حلیمہ کو ایک اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔
( الحدائق لابن
الجوزی، 1 / 169)
ایک مرتبہ پیارے آقا ﷺ ایک کپڑا بچھائےہوئے تشریف فرماتھے
کہ آپ کے رضاعی باپ حاضر ہوئے آپ نے ان کے لیے کپڑے کا کچھ حصہ چھوڑدیا، اس کے بعد
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کے لیے چادر کا دوسرا کنارہ
چھوڑدیا اور آپ اس پر بیٹھ گئیں، اس کے بعد آپ کے رضاعی بھائی پہنچے تو آپ کھڑے
ہوگئے اور آپ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے۔(سیرت حلبیہ، 1/130)
حضور ﷺ کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ
شبیر احمد،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

آقا ﷺ کی اپنی حقیقی
والدہ بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا سے جہاں محبت کی مثالیں ملتی ہیں وہیں آپ کی رضاعی
ماؤں ( جنہوں نے مدت رضاعت کے اندر اپنا دودھ پلایا) سے محبت کی مثالیں ملتی ہیں ۔
حضور ﷺ نے فرمایا:میں حسنِ اخلاق کے( قدروں) کی تکمیل کے لیے
بھیجا گیا ہوں۔(مؤطاامام مالک، ،2/404، حدیث:1723)
پیارے نبی ﷺ کی زندگی رہتی دنیا کے لیے بہترین نمونہ ہے۔جب
آخری نبی ﷺ کی ولادت ہوئی تو سب سے پہلے آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے
آپ کو دودھ پلایا، ان کے علاوہ جن خواتین کو شرف حاصل ہوا وہ آپ کی رضاعی ماں کے
لقب سے مشرف ہوئیں۔آقا ﷺ کی ان سے کیسی محبت تھی اس بارے میں جانتی ہیں۔
ام ایمن:آپ رضی
اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن عبد المطلب کی کنیز تھیں جو وراثت میں آپ کے حصے میں آئیں
انہوں نے ولادت کے بعد ساری زندگی آپ کی خدمت میں گزار دی۔آقا ﷺ نے فرمایا:ام ایمن
میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیہ ، 1 / 428)
حضرت ثویبہ:آپ رضی اللہ عنہا ابو لہب کی کنیز تھیں جن کو آپ کی ولادت کی خوشخبری دینے کی
وجہ سے آزاد کردیا گیا تھا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے بعد انہوں نے آپ کو اپنا
دودھ پلایا ۔حضور ﷺ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہمیشہ کپڑا وغیرہ بھیجا کرتے
تھے۔( الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، 1/ 126تا 128)
حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا سے نکاح سے بعد جب حضرت
ثویبہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ﷺان کا بہت احترام فرماتے اور مدینے
سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لیے کپڑے وغیرہ کا ہدیہ بھیجا کرتے تھے ۔(الکامل فی
التاریخ ،1/356)
حضرت حلیمہ سعدیہ :مدت رضاعت میں جنہوں نے پیارے نبی ﷺ کو دودھ پلایا ان میں آپ سر فہرست ہیں ۔حضرت
حلیمہ رضی اللہُ عنہا جب بھی
بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ
غزوۂ حنین کے موقع پر جب آپ آقا ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لیے اپنی چادر
بچھائی۔( الاستعاب ، 4/347)
حضور ﷺ کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ
ایاز خان،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

حضور اکرم ﷺ اپنی رضاعی ماؤں سے بہت ہی محبت فرماتے تھے اور
ان کا نہایت ادب واحترام فرماتے تھے۔حضور اکرم ﷺ کو 6 خوش نصیب خواتین نے دودھ پلایا
ان تمام خواتین کو دولت ایمان اور صحابیات کا شرف حاصل ہوا۔حضور اکرم ﷺ کو سب سے
پہلے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا (جو کہ ابو
لہب کی لونڈی تھی)دودھ پلایا،حضور اکرم ﷺ ان سے بہت ہی محبت فرماتے تھے۔حضرت بی بی
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور اکرم ﷺ نے نکاح کر لیا تو حضرت ثویبہ رضی
اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ کے پاس آ یا کرتی
تھی،آپ ان کا احترام فرماتے تھے اور مدینہ منورہ سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لئے تحائف وغیرہ بھیجا کرتے تھے۔
(الکامل فی التاریخ ،1/356)
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے سب سے زیادہ عرصہ حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا۔حضور اکرم ﷺ نے اپنے
بچپن کے چار سال حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر گزارے۔حضور اکرم ﷺ ان سے بہت محبت اور احترام فرماتے تھے۔جب
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم
ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو تی تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ
ایک مرتبہ غزوۂ حنین
کے موقع پر جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور اکرم ﷺ سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔(الاستیعاب،4/324)ایک
مرتبہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا
حضور اکرم ﷺ کے پاس آئی اور قحط سالی کا بتایا تو حضور اکرم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو 1 اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن الجوزی، 1/169)
بی بی ام ایمن حضور اکرم ﷺ کے والد ماجد کی کنیز اور حضور ﷺ
کی رضاعی والدہ تھیں۔حضور ﷺ فرماتے ہیں:ام ایمن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب
لدنیہ،1/428ملخصاً)آپ نے حضور اکرم ﷺ کی تبلیغ سے ابتدا ہی اسلام قبول کر لیا تھا
نیز آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ ہجرت کی۔(اسدالغابہ، 7/325)
حضور اکرم ﷺ اپنی تینوں رضاعی ماؤں سے بہت محبت فرماتے اور
ان کا نہایت ہی احترام فرماتے۔ان کے علاوہ تین کنواری لڑکیوں نے حضور اکرم ﷺ کو
دودھ پلایا جو عاتقہ کہلاتی ہیں۔چنانچہ سرکار اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:تین
نوجوان کنواری لڑکیوں نے وہ خدا بھائی صورت دیکھی جو شِ محبت سے اپنی پستانیں دہن
اقد س میں رکھیں،تینوں کے دودھ اترآیا ، تینوں پاکیزہ بیبیوں کا نام عاتکہ
تھا۔عاتکہ کے معنی زن شریفہ،رئیسہ،کریمہ،سراپا عطرآلود، تینوں قبیلہ بنی سلیم سے
تھیں کہ سلامت سے مشتق اور اسلام سے ہم اشتقاق ہے۔(فتاویٰ رضویہ،30/295)
.jpg)
مورخہ 5مارچ2025بروز بدھ بعد نماز ظہر رکن شوری
حاجی محمد عقیل عطاری مدنی صاحب نے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں تشریف
لائے ہوئے ایک ماہ اعتکاف والوں کے درمیان تربیتی سیشن ہوا۔
تربیتی سیشن میں رکن شوری نے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام پانے کا نسخہ بیان کرتے ہوئے
نمازوں کی پابندی کرنےاور درودِ پاک کی کثرت کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ رکن شوری
حاجی محمد عقیل عطاری مدنی صاحب نے جنتوں کے نام بھی یاد کرنے اور انہیں جنت
الفردوس حاصل کرنے کےلیے نیک اعمال کرنے کا ذہن دیا۔(کانٹینٹ:شعیب احمد)
حضور ﷺ کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ
علی احمد،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

آقا کریم ﷺ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے آپ کی والدہ ماجدہ
حضرت بی بی آمنہ رضی الله عنہا نے اپنے
نورِ نظر اور لختِ جگر کو دودھ پلایا،پھر ابولہب کی آزاد کرده کنیز حضرت ثویبہ رضی
اللہ عنہا نے آپ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا۔جن خوش قسمت خواتین نے آپ کو دودھ
پلایا انہیں یہ انعام ملا کر انہیں ایمان
کی دولت نصیب ہوئی۔حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حق یہ ہے کہ حضرت ثویبہ
اور حضرت حلیمہ اسی طرح حضرت حلیمہ کے خاوند مسلمان ہوگئے۔(مراۃ المناجیح،6/534)
حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا: بی بی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور ﷺ نے نکاح کر لیا تو حضرت ثویبہ
رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آیا کرتی تھیں۔حضور ﷺ ان کا بہت احترام فرماتے تھے اور
مدینہ منورہ سے حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے لیے کپڑے وغیرہ ہدیا بھیجا کرتے تھے۔(مراۃ
المناجیح،6/ 534)
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا:جب حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا
ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔چنانچہ غزوۂ حنین کے موقع پر جب حضرت حلیمہ
سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ سے ملنے آئیں تو
آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔(الاستیعاب، 4/ 374)
ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ
کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی
اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین
سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی
حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:حضور ﷺ کے یہ دونوں عمل اظہار احترام واظہار کے لئے تھے۔معلوم ہوا!قیام
تعظیمی جائز ہے اور انسان خواہ کتنا ہی عظمت والا ہو مگر اپنے مربی یعنی (تربیت کرنے والے) کا احترام
کرے۔(مراۃ المناجیح،5/51)
ایک مرتبہ حضرت حلیمہ
سعدیہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے پاس آئیں
اور قحط سالی کی شکایت تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت
حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو 2 اونٹ اور 40 بکریاں دیں۔(الحدائق لابن جوزی، 1/149)
حضرت بی بی ام ایمن رضی اللہ عنہا:حضرت ام ایمن ربیعہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا وہ خوش نصیب
خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کی ولادت کے بعد اپنی ساری زندگی آپ کی خدمت
میں گزار دی۔آپ حضور ﷺ کی رضائی والدہ بھی تھی۔حضور ﷺ فرماتے ہیں:ام ایمن میری سگی
ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب لدنیۃ ، 1/ 428 ملخصاً)
.jpg)
28فروری2025ء کو پنجاب
کے شہر فیصل آباد کے علاقہ فور سیزن میں شعبہ مدرستہ المدینہ دعوت اسلامی کے تحت ایک عظیم الشان تقسیم
اسناد اجتماع منعقد ہوا۔
تقسیم اسناد اجتماع میں دعوت اسلامی کے مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن و صدر
کنزالمدارس بورڈ مولانا جنید رضا عطاری مدنی نے سنتوں بھرا بیان فرمایا جن میں 14
حفاظ 18 ناظرہ مکمل کرنے والے بچوں کی دستار فضیلت کی اور ساتھ میں اسناد بھی
تقسیم کیں اجتماع کے اختتام پر درودو سلام پڑھا گیا اور اجتماع کے شرکاء نے اپنے
تاثرات بھی دئیے۔(کانٹینٹ:شعیب احمد)
حضور ﷺ
کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ مختار احمد، پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ

دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو اور جن کے ساتھ ہمارا تعلق
وابستہ ہے ان کے ساتھ اچھا اور محبت بھرا
انداز رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خصوصاً اپنے رشتہ داری کے تعلق کو قائم رکھنے کا درس دیتا
ہے ۔اسی رشتے میں ایک رشتہ رضاعی ماں کا بھی ہے یعنی وہ عورت جس نے مدتِ رضاعت میں
کسی بچے کو دودھ پلایا ہو تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے۔دیگر رشتہ
داروں کی طرح رضاعی ماں کو بھی اہمیت حاصل ہے اور اس کے حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔اگر
بات کی جائے حضور ﷺ کی ماؤں کی تو ان میں
سب سے پہلی خاتون جن کو پیارے آقا ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل ہوئی وہ حضرت بی
بی آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں۔جنہوں نے ابتدائی ایام میں حضور ﷺ کو دودھ پلایا۔ان کے
بعد حضور ﷺ کو دودھ پلانے کی سعادت ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی حضرت ثویبہ رضی
اللہ عنہا کو ملی اور ان کے بعد حضرت حلیمہ
سعدیہ رضی اللہ عنہا نے یہ خدمت سر انجام دی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص59)جن مبارک ہستیوں
نے حضور اکرم ﷺ کو دودھ پلایا ان میں ایک نام حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا بھی
ملتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/296مفہوماً)
رسولِ اکرم ﷺ کو جتنی بھی خواتین نے دودھ پلایا ان کے ایمان
کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ سب ایمان
لائیں ۔(فتاویٰ رضویہ،30/295)
حضور ﷺ کا انداز کریمانہ جہاں اپنی ازواجِ مطہرات، اولاد
پاک، غلاموں اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ قابل رشک و بے مثال تھا وہیں آپ کا مبارک
انداز اپنی رضاعی ماؤں کے ساتھ بھی لاجواب تھا ۔اس کا اندازہ ذیل کی گفتگو سے لگایا
جا سکتا ہے۔چنانچہ
حضور اقدس ﷺ کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا
انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر شریف چھ سال کی ہوئی۔(سیرتِ رسولِ عربی،ص62) چونکہ
آقا ﷺ نے اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی حیات کا زیادہ عرصہ نہ پایا تھا
اس لیے جب ایک موقع پر آقا ﷺ اپنی والدہ کی
قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگے۔صحابہ کرام نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا: مجھے
اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آگئی تو میں روپڑا۔(سیرۃ حلبیہ،1/154)
آقا ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں
منقول ہے کہ جب حضرت ثویبہ رضی اللہ عنہا آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا
بہت ادب و احترام فرماتے اور مدینہ منورہ سے ان کے لیے تحائف بھیجا کرتے
تھے۔(الکامل فی التاریخ ،1/356)
اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے کہ
جب یہ پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور ان سے محبت بھرا
برتاؤ کرتے۔ایک مرتبہ ان کے آنے پر حضور ﷺ
نے ان کے لیے اپنی مبارک بچھا دی۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں
حاضر ہوکر قحط سالی کی شکایت کی تو نبی کریم ﷺ کے کہنے پر حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا نے انہیں 1 اونٹ اور 40بکریاں دی۔(الحدائق لابن جوزی،1/169)
حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا سے آقا ﷺ کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ان کے
بارے میں فرمایا:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی اُمِّ اَیمَن میری سگی ماں کے بعد میری ماں ہیں۔(مواہب
لدنیہ،1/428 ملخصاً)
ایک موقع پر آپ کو جنتی ہونے کی بشارت یوں عطا فرمائی کہ جو
کسی جنّتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ اَیمَن سے نکاح کرلے۔(الاصابہ،8/359)
حضور ﷺ کا اپنی ماؤں کے ساتھ یہ محبت بھرا انداز اپنے اندر
ہمارے لیے درس کے بے شمار پہلو رکھتا ہے۔ آقا ﷺ کی حیات طیبہ کے اس پہلو سے ہمیں یہ
سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے بڑوں کا خصوصاً والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے
اور ان کے آنے پر تعظیما کھڑے ہو جانا چاہئے۔ آقا ﷺ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے کبھی
والدین کے لیے ہم بھی اپنی چادر بچھا دیں، ان کے سامنے اونچی آواز سے کلام نہ کریں
۔نیز ان کی وفات کے بعد بھی ان کو یاد رکھیں اور ان کو خوب ایصال ثواب کرتی رہیں۔اللہ
پاک حضور ﷺ کی ماؤں کے صدقے ہمیں اپنی ماؤں کی محبت اور ان کی قدر نصیب فرمائے۔آمین
بجاہ خاتم النبیین ﷺ
حضور ﷺ کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت از بنتِ
عبدالرحمن،علی پور جتوئی پنجاب

ماں درحقیقت دنیا میں محبتِ الٰہی کا ایک روپ ہے۔چنانچہ سورۂ
لقمان میں ارشاد ہوتا ہے:وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ
فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)(پ21،لقمن:14)ترجمہ:اور ہم نے
آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا
کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان
میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے نہ صرف ہمیں والدین کی خدمت کے احکام بتائے
بلکہ عملی زندگی میں آپ نے کر کے دکھایا ۔چنانچہ
رسولِ پاک ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے بعد پہلے آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللہ
عنہا نے اپنے لخت جگر کو خود دودھ پلایا اس کے بعد کچھ مدت کے لیے کنیز ثویبہ رضی
اللہ عنہا نے اس کے بعد یہ خدمت سر انجام دی۔در اصل مکہ کے شرفا میں رواج تھا کہ
وہ اپنے شیر خواہ بچے کو کچھ عرصے کے لیے گاؤں میں رکھنا پسند فرماتے تاکہ شہر کی آلودہ
ماحول سے دور صاف ستھری فضا میں بچوں کی صحت خوشگوار رہے۔
حضور ﷺ کی رضائی ماؤں میں یہ خواتین شامل ہیں:
1- حلیمہ سعدیہ
2-ام فروہ
3-بی بی ثوبیہ
4- بنو سلیم کی دو
خواتین۔(آخری نبی کی پیاری سیرت،ص137)
رضائی ماں کا احترام:جعرانہ مکہ مکرمہ سے ایک منزل کے فاصلے پر ایک بستی ہے جہاں حضور ﷺ فتحِ حنین
کے بعد 16 دن قیام پذیر رہے اور مالِ غنیمت تقسیم فرماتے رہے۔
ابو طفیل غنوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی مقام پر حضور ﷺ
کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی، پس نبی کریم ﷺ نےاپنی چادر مبارک بچھا دی
اور وہ عورت اس چادر پر بیٹھ گئی۔ابو طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حاضرین
سے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سرکار دو عالمﷺ کو دودھ پلانے والی (دائی
حلیمہ) ہے۔(ابو داود،4/434،حدیث:5144)
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد اکرم، جامعۃ المدینۃ گلشن معمار کراچی

موجودہ حالات میں تقریباً ہر گھر کا سب سے بڑا
مسئلہ ہے اولاد کا بگڑا ہوا ہونا،اولاد کا نافرمان ہونا، والدین کی قدر نہ کرنا
وغیرہ۔ ان نا مساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اولاد کا دینی و دنیاوی تربیت
سے غافل ہونا بھی ہے جب والدین کا مقصد حیات حصول دولت،آرام طلبی،وقت گزاری بن جائے تو
وہ اولاد کی تربیت کیا کرینگے عموما دیکھا گیا ہے بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی
ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔
یاد رکھئے اولاد کی
تربیت صرف ماں یا باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔جب نبی اکرم ﷺ نے یہ صحابہ کے سامنے
تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ!
ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم
اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو
جو رب تعالی کو نا پسند ہیں۔ (در منشور للسیوطی، 8/225)
لہذا اللہ پاک خود حکم دیتا ہے کہ اپنی اولاد کی
شریعت کے مطابق تربیت کی جائے۔ لہذا ہمیں
اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچانا چاہے۔ویسے ہر ملک،معاشرہ،اور ماحول میں اسباب مختلف
ہو سکتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
1۔ والدین کے درمیان عدم اتفاق: گھر
میں والدین کے درميان باہمی اتفاق نہ ہونا،اولاد بگڑنے کا اہم سبب ہے ہر وقت کے
لڑائی جھگڑے اور ناساز گار ما حول بد سکونی اولاد میں منفی رجحان پیدا کرتی ہے بچے
سکون کی تلاش کے لیے چور راستے ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں جو غلط راستوں پر لے جاتے ہیں
یا پھر ان میں تناؤ،خوف اور کم تری کا احساس پیدا ہوتا ہے
2۔ نظراندازی:اولاد کو نظر
انداز کرنا،انکو توجہ نہ دینا یا انکی ضروریات کو پورا نہ کرنا ان کے بگڑنے کا سبب
بن سکتا ہے۔بعض دفعہ زیادہ بچے ہونے کی وجہ سے والدین اعتدال نہں رکھ پاتے جسکے
سبب بچے گھر کے باہر توجہ ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں یا شرارتیں کر کے کسی کا نقصان
کر کے والدین کو متوجہ کر کے پریشان کرتے ہیں۔
3۔غلط تربیت:اولاد کی
ظاہری زیب و زینت،اچھی غذا اچھے لباس اور دیگر ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ انکی
اخلاقی وروحانی تربیت بھی بے حد ضروری ہے والدین اسکول و مدرسہ میں داخل کروا کے
بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔جوائنٹ فیملی میں چغلی،ٹوہ وغیرہ کی عادت ڈلوانا بچوں کے
بگڑنے کا سبب ہے۔بچوں کی اچھی تربیت تب ہی ممکن ہے جب والدین اور گھر کے دیگر
افراد قدر کفايت علم دین کے حامل ہوں۔
4۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال:دیکھا
جاتا ہےکہ جب چھوٹا بچہ رو رہا ہوتا ہے،کھانا نہیں کھا رہا ہوتا تو مائیں انکو
موبائل پکڑا دیتی ہیں جس میں بچہ گیم،میوزک یا کارٹون وغیرہ کی طرف متوجہ ہو کہ
رونا چپ ہوجاتا ہے یا کھانا کھانے لگ جاتا ہے اسطرح بچے کی عادت بن جاتی ہے جیسے
جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے عادت پختہ ہوتی جاتی ہے۔بڑے ہونے کے ساتھ موبائل دیکھنے کے
تقاضے بھی بدل جاتے ہیں پھر وہ ڈرامے،فلمیں،ٹک ٹاک ویڈیوز،منفی و جنسی ویڈیوز،غلط
اور نا مکمل معلومات حاصل کرتا ہے چونکہ والدین صحیح رہنمائی نہیں کرتے بچے کی
سوشل میڈیا ایکٹیویٹی پر نظر نہیں رکھتے جسکی وجہ سے بچہ بگڑتا چلا جاتا ہے اور
ایک وقت آتا ہے وہ اخلاقی اقدار کو پامال کر دیتا ہے۔
5۔ تعلیمی اداروں کا مخلوط اور منفی
ماحول: تربیت
اولاد اہم ذمہ داری ہے اسکو بوجھ سمجھتے ہوئے غفلت برتتے
ہیں اسکول وکالج وغیرہ کے سپرد کرکے مہنگی فیسیں دے کرسمجھتے ہیں کہ وہی صحیح غلط
جائز اور نا جائز کی تربیت دینگے بچوں کو ان خطرناک حا لات میں آزاد چھوڑ دیا تو
نفس و شیطان انہیں آلہ کار بنا لیتے ہیں پھر جب انکے اثرات ظاہر ہوتے ہیں تو
والدین ہر کسی کے سامنے اپنی اولاد بگڑنے کا رونا روتے ہیں۔ ایسے والدین کو غور
کرنا چاہے کہ اولاد کو اس حال میں پہچانے میں کس کا ہاتھ ہے۔
6۔ تربیت کرنے والوں کے قول و فعل میں تضاد:تربیت
کرنے والوں کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد اولاد بگڑنے کا سبب بنتا ہے کہ
جس کام سے ہمیں منع کرتے ہیں خود کرتے ہیں۔ مثلاً جھوٹ بولنا، آپس میں لڑائی کرنا،
گالیاں دینا، غیبت کرنا، بڑوں کا ادب نہ کرنا، نمازوں کی پابندی نہ کرنا وغیرہ،
جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے بڑوں کی کوئی نصیحت ان کے دل میں گھر نہیں کرے گی۔
اولاد
کےبگڑنے کے اسباب از ام عبدالرحیم، جامعۃ المدینۃ سرجانی ٹاؤن کراچی

1۔ صحبت کا اثر والدین مشاھدہ کریں کہ ان کا
بچہ کس قسم کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔اگر اس کے قریب جمع ہونے والوں میں بری
عادت پائی جاتی ہیں یا وہ گمراہ عقائد رکھتے ہیں تو بچوں کو نرمی سے ایسے لوگوں سے
ملاقات کرنے سے روکیں، کیوں کہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت
طالح ترا طالح کند (اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھا اور برے آ دمی کی صحبت تجھے برا
بنا دےگی)
2۔ بے جا سختی اور مار پیٹ وقت بے وقت بچوں کو
ڈانٹتے رہنے سے بچوں کی خود اعتمادی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور زیادہ سختی کرنے سے
احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔کچھ والدین کی عادت ہوتی ہے کہ معمولی سی بات پر
بچے کو جھڑک دیتے ہیں اور اچھی خاصی پٹائی بھی کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں
ضد پیدا ہوتی ہے اور وہ باغی ہوجاتے ہیں پھر کسی کی بھی نہیں سنتے۔ فرمان امیر
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ: برتن میں سوراخ کرنےکے بعد جتنا بھر لو خالی رہے گا
یعنی مار کر ہم بچے کو سمجھا نہیں رہے بلکہ اسے خود سے دور کر رہے ہیں۔ بچے کی
غلطی پر اسے مکار،جھوٹا، چور وغیرہ کے القاب سے نوازنے والے والدین سخت غلطی پر
ہیں بچہ سوچتا ہے جب مجھے لقب مل گیا تو میں کامل طور پر بن کر دکھا دوں۔
ہےفلاح
و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
3۔ بچوں میں یکساں تعلق نہ رکھنا۔ بلا وجہ شرعی کسی
بچہ بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے بیٹے کو اس پر ترجیح دینا بچوں کے نازک دل پر
بہت سخت گزرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے قلوب پر بغض و حسد کی تہہ جمنا شروع ہو
جاتی ہے جس کی وجہ سے انکی شخصیت بہت متاثر ہوتی ہے اور ان میں خود اعتمادی کی کمی
آنا شروع ہو جاتی ہے۔پیارے آقا ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے:بے شک اللہ تبارک و تعالی
یہ پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے
میں بھی۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)
4۔ فلم بینی اور سوشل میڈیا کے استعمالات۔ فلمیں
ڈرامے گانے باجے اور سوشل میڈیا کا استعمال آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کا محبوب
مشغلہ بن چکا ہے جو آنکھ دیکھتی ہے دماغ اس کا اثر قبول کرتا ہے والدین بچوں کی ضد
کو ڈھال بنا کر ٹی وی اور اسمارٹ فون گھر لے آتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ میں پکڑا
دیتے ہیں کہ بچے تنگ نہ کریں اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کو پھر ایسی لت لگتی
ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور والدین سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔
5۔ علم دین سے دوری۔ اپنی اولاد کوکامل مسلمان
بنانے کے لیے زیور علم دین سے آراستہ کرنابے حد ضروری ہے۔مگر افسوس! آج دینی تعلیم
کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اپنے بچوی کو دنیاوی علوم و فنون تو سکھائے جاتے ہیں
مگر قرآن کریم اور سنن و فرائض کا علم سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اگر بچہ
ذہین و فطین ہو تو والدین اسے ڈاکٹر،انجینئر، پروفیسر بنانے کی جدو جہد میں لگ
جاتے ہیں اسکے لیے مخلوط تعلیمی زماداروں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن اگر گھر کا
کوئی بچی ضدی اور کند ذہن ہو تو اسے مدرسہ اور جامعہ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔جب
بچہ مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرےگا، علم دین سے دوری اور بدعقیدی لوگوں
کی صحبت میں پروان چڑھےگا تو پھر اسے حلال و حرام،والدین و استاذ کا ادب اور گھر
والوں سی نرمی و محبت کی کوئی پہچان نہیں ہوگی۔
اللہ کریم ہماری اولادوں کی نیک و صالح حافظ قرآن و
عالم دین بنائے۔ آمین

اللہ پاک نے اس دنیا کو بنایا اور حضرت آدم علیہ
السلام کے ذریعے نسل انسانی کو بڑھایا۔ پہلے میاں بیوی ہوتے ہیں پھر اللہ پاک
انہیں اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر یہی ماں باپ بن جاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت
اکثر ماں باپ کرتے ہیں وہ اولاد بگڑنے اور سنورنے کا بہت بڑا سبب ہوتے ہیں۔ آج کل
دیکھا جاتا ہے اکثر مسلمان اپنی اولاد کو صرف و صرف دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں اور
اس کے لئے خوب کوشش کرتے ہیں اور انہیں مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ اس کے
برعکس ان کا اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کے معاملے میں غفلت کا عالم ہوتا ہے
کہ اکثریت کو دیکھ کر بھی قرآن کریم درست پڑھنا نہیں آتا۔
نیک اولاد اللہ کا عظیم انعام ہے۔ یہی وہ نیک اولاد
ہوتی ہے جو دنیا میں والدین کے لئے راحت جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔
یہی وہ اولاد ہوتی ہے جو والدین کے گزرنے کے بعد ان کی بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا
کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع
ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ (2)
وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم،
ص 886، حدیث:1631)
ایک اور مقام پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت
میں آدمی کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟ تو
جواب ملتا ہے اس لیے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/185،
حدیث: 3660)
اولاد بگڑنے کے اسباب:
بچپن میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہی ساری عمر کرتا
ہے، بچپن کی عادتیں بھی بہت مشکل سے چھوٹتی ہیں۔ اس لئے بچے گھر کی چھوٹی موٹی
چیزیں چرا کر کھا جاتے ہیں یا کسی کے گھر سے چرا لاتے ہیں اگر انہیں مناسب وقت پر
والدین تنبیہ نہ کریں تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں پھر اولاد ہاتھ
سے نکل جاتی ہے۔ صحبت اثر رکھتی ہے اگر اپنے بچوں پر نظر نہ رکھی جائے کہ وہ کیسے
لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو بری صحبت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بھی اولاد
بگڑ جاتی ہے۔
ماں باپ کی جب ایک سے زائد اولادیں ہوتی ہیں تو اگر
انہیں کوئی چیز دینے اور پیار و محبت اور شفقت کرنے میں برابری نہ کی جائی (ایسا
بالخصوص بیٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے) تو اولاد اس طرح ماں باپ سے دور ہو جاتی ہے۔ نبی
کریم ﷺ نے ہمیں اولاد میں سے ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی تاکیدفرمائی
ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: بے شک اللہ پاک پسند کرتا ہے کہ تم
اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی (برابری کرو)۔ (کنز
العمال، 16/185، حدیث: 45342)
حضرت انس
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص تاجدار رسالت ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے
میں اس کا بچہ آگیا۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو بوسہ دیا اور پھر اپنی ران پر بٹھا
لیا۔ اسی دوران اس کی بچی بھی آگئی جسے اس نے اپنے سامنے بٹھا لیا (یعنی نہ اس کا
بوسہ لیا اور نہ گود میں بٹھایا) تو سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے
درمیان برابری کیوں نہ کی؟ (تربیت اولاد، ص 169)
اگر والدین کا مقصد حیات، حصول دولت، آرام طلبی،
وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب
ایسی تربیت اولاد کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین اپنی اولاد بگڑنے کا رونا
روتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے والدین کو غور کرنا چاہیے کہ اولاد کو اس حال
تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ عموماً ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ بگڑی ہوئی
اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے
ہیں۔ مگر یاد رہے کہ تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔