اللہ کریم نے انسانوں کی تخلیق فرمائی اور ان میں مرد اور عورتوں کے جوڑے بنائے۔ اللہ کریم نے پارہ 30 سورۃ النبا کی آیت 8 میں اپنی قدرت کی نشانیاں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَّ خَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًاۙ(۸) ترجمہ: اور تمہیں جوڑے بنایا۔

یہ اللہ کریم کی عظیم قدرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کا جوڑا اسی کی جنس سے بنایا جس سے وہ سکون حاصل کرتا ہے اور ان کے درمیان محبت و رحمت رکھی۔ اسلامی معاشرہ کی بقا چونکہ مرد و عورت سے متعلق ہے ان دونوں کے کچھ حقوق مقرر فرمائے اور اللہ کریم نے مرودں کو عورتوں پر حاکم بنایا چنانچہ

اللہ کریم نے پارہ 5 سورہ نساء کی آیت 34 میں ارشاد فرمایا: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر ۔

لہذا بیوی کو چاہیے کہ خود پر اپنے شوہر کی اطاعت لازم سمجھے اور ہر دم اسکی نافرمانی سے بچتی رہے حدیث مبارکہ میں ہے: اگر میں کسی کو غیر خدا کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث:24525)

شریعت اسلامیہ میں غیر خدا کے لیے سجدہ جائز نہیں البتہ اس سے شوہر کے مقام کو سمجھا جاسکتا ہے اللہ و رسول ﷺ کے بعد عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔

اس سے ان اسلامی بہنوں کو عبرت و نصیحت کے مدنی پھول حاصل کرنے چاہئیں جو اپنے بچّوں کے ابّوسے بد اخلاقی کرتی ہیں اور پھر معاذ اللہ اس کا فخریہ طور پر اظہار بھی کرتی ہیں۔حالانکہ یہ سب باتیں شریعت مطہرہ میں حرام اور جہنّم میں لے جانے والی ہیں۔

اللہ کریم نے نیک عورتوں کے اوصاف میں فرمایا: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

لہذا عورت کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارے اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور اس کا ہر حکم خوش دلی سے قبول کرے اسکے حقوق اچھی طرح ادا کرے اسکے مال عزت و آبرو وغیرہ کی حفاظت کرے آئیے حدیث مبارکہ سے ملاحظہ کیجیے کہ بہترین عورت کون ہے؟

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857) اس کے برعکس جب عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اسے تکلیف دے تو ایسیوں کے متعلق رسول پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنت میں حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے کہ اسے تکلیف مت دے، اللہ تجھے ہلاک کرے، بے شک وہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب اسے تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس آنا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

عورتوں کی لیے اپنے شوہر کی رضا کتنی ضروری ہے؟ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت ضروری ہے جب تک کہ اسکا حکم شریعت کی حدود سے باہر نہ ہو حدیث مبارکہ میں ہے: نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو حکم فرمایا: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالے رنگ کا بنا دے اور کالے رنگ کے پہاڑ کو سفید بنا دے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

یعنی مرد جتنے بھی مشکل کام کا حکم دے اسے بجالانے کی بھرپور کوشش کرے۔

اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے: جب آدمی بیوی کواپنی حاجت کے لیے بلائے تو اسے چاہیے کہ فوراً چلی جائے اگرچہ وہ تنور پر ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1163)

اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو جب بھی شوہر کسی وقت بھی بلائے اسکے بلانے پر فورا لبیک کہے اگرچہ اپنے شوہر کے ہی کسی کام میں مشغول ہو وہ کام چھوڑ کر شوہر کی بات سنے اس میں تاخیر کر کے شوہر کی نافرمانی میں مبتلا نہ ہو۔

جب شوہر اپنے بستر پر بلائے تو بغیر عذر کے انکار نہ کرے جب شوہر عورت کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ (بغیر عذر کے) انکار کردے اور خاوند ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری، 2/388، حدیث: 3237)

شوہر اگر بیوی کو نفل روزہ رکھنے سے روکے تو عورت نفل روزہ نہین رکھ سکتی اسی طرح بغیر شوہر کی اجازت کے گھر سے نہیں جاسکتی کیونکہ اگر شوہر منع کیےہو تو جانا اسکی نافرمانی ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ مرد کا حق یہ ہے کہ(بیوی) اس کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہ رکھے اگر رکھے گی تو بے کار بھوکی پیاسی رہی روزہ قبول نہ ہوگا اور گھر سے بے اجازت شوہر کہیں نہ جائے اگر جائے گی تو آسمان کے فرشتے، رحمت کے فرشتے، عذاب کے فرشتے سب اس پر لعنت کریں گے جب تک پلٹ کر آئے۔ (مجمع الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)

ان احادیث مبارکہ سے وہ عورتیں درس حاصل کریں جو کسی طرح بھی اپنے شوہر کی نافرمانی میں مبتلا ہیں، شوہر کی نافرمانی سے اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آئندہ نافرمانی سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں اور ساتھ ساتھ اپنے شوہر سے بھی معافی مانگیں۔

آئیے ترغیب کے لیے شوہر کی فرمانبرداری کرنے والی عورتوں کی جزاء ملاحظہ کیجیے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور اپنے ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 6/ 336، حدیث: 8830)

واضح رہے کہ شریعت مطہر ہ میں بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے،بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا،اس کو تکلیف پہنچانا،بچوں کو اس کے خلاف ورغلانا شرعا ناجائز و حرام ہے،آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کو لازم قراردیا ہے اور نافرمانی پر سخت وعیدات ارشاد فرمائیں ہیں،چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو(خداوند تعالیٰ کے علاوہ) کسی کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنےکاحکم کرتا۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

حدیث شریف میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں، پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔ (بخاری، 1/15، حدیث:29)

رسول خدا ﷺ نے فرمایا: ایسی عورت جو اپنے شوہر کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہو خداوند متعال اس کی کسی نیکی کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اپنے شوہر کو راضی نہ کرلے اگرچہ دن روزے سے اور پوری رات عبادت ہی میں گزارے اور خدا کی راہ میں کتنے غلام آزاد کروائے اور کتنے ہی گھوڑے صدقے میں دے دے سب سے پہلے اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

لیکن واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق میاں بیوی کے رشتے میں قانونی ضابطوں کے بجائے اخلاقی معیاروں کی پاسداری مطلوب ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنانے کی ٹھان لے تو نہ میاں کو بیوی سے شکوہ ہوگا اور نہ بیوی کو میاں سے۔

ایک شخص اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے گھر گیا، گھر کے اندر سے عورت کے عمر رضی اللہ عنہ کو ڈانٹنے کی مسلسل آواز آرہی تھی، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ ساکت وخاموش کھڑے تھے، پلٹ کر کوئی جواب بھی نہیں دے رہے تھے، میں نے سوچا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ جو اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں اور امیر المؤمنین بھی ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پھر میرا کیا حال ہوگا؟ تو میں واپس چل پڑا، اچانک عمر رضی اللہ عنہ گھر سے نکلے تو مجھے دیکھ کر پکارا کہ بھائی مجھ سے کوئی کام تھا؟ تو میں نے عرض کیا کہ جناب! میں اپنی بیوی کی بد اخلاقی اور زبان درازی کی شکایت کرنے آیا تھا، مگر آپ کے گھر کا حال بھی ویسا ہی دیکھا، تو پلٹ پڑا اور سوچ کر صبر کرلیا کہ اگر امیر المؤمنین کا حال یہ ہے تو پھر اپنی کوئی بات نہیں، فرمایا: بھتیجے میں یہ سب اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ اس کے میرے اوپر بہت احسان ہیں، یہ میرے لیے سالن بناتی ہے، روٹی پکاتی ہے، کپڑے دھو دیتی ہے، میرے بچوں کو دودھ پلاتی ہے، اور ان میں سے کوئی کام اس پر واجب نہیں ہے، پھر میرا دل اس کے ذریعہ حرام سے بچتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے، اس لیے میں اس کی باتیں برداشت کرلیتا ہوں، آدمی نے کہا: امیر المؤمنین یہ سارے کام تو میری بیوی بھی کرتی ہے تو آپ نے فرمایا: برداشت کرو بھائی! یہ تھوڑی سی مدت کا تو ساتھ ہے۔

شوہر کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ شوہر کی نافرمانی کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی آئی ہے فرمان مصطفی ﷺ: کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (الآثار لابی یوسف، ص 397، حدیث:921)

1۔ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو بہتا ہو پھر عورت اس سے چاٹے تب بھی حق شوہر ادا نہ کیا۔ (مسند امام احمد، 5/445، حدیث: 1249)

2۔ اور بیوی بغیر اجازت اس شوہر کہ گھر سے نہ جائے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ پاک اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں عرض کی گئی اگرچہ شوہر ظالم ہو فرمایا اگرچہ ظالم ہو۔ (کنز العمال، 8/244، حدیث: 44201)

بات بات پر روٹھ کر میکے چلی جانے والی عورتوں کے لیے مندرج بالا حدیث میں کافی درس ہے۔

3۔ تین قسم کے لوگوں کی نماز کو اللہ پاک قبول نہیں فرماتا: ایک تو وہ عورت جو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے، دوسرا بھاگا ہوا غلام اور تیسرا وہ بادشاہ جس کی رعایا اسے ناپسند کرتی ہو۔ (کنز العمال، 8/25، حدیث:43919)

4۔ قبیلہ خثعمیہ کی ایک خاتون نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میری شادی نہیں ہوئی مجھے بتائیں کہ شوہر کا عورت پر کیا حق ہے تاکہ میں اس کے ادا کی طاقت رکھوں تو نکاح کروں ورنہ یوں ہی بیٹھی رہوں ارشاد فرمایا: بے شک شوہر کا زوجہ پر حق یہ ہے کہ عورت کجاوے پر بیٹھی ہو اور مرد اسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو انکار نہ کرے اور مرد کا عورت پر یہ بھی حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے اگر رکھے گی تو بیکار بھوکی پیاسی رہی اور روزہ قبول نہ ہوا اور اس کی اجازت کے بغیر کبھی کہیں نہ جائے اگر جائے گی تو آسمان اور رحمت و عذابات کے فرشتے اس پر لعنت کریں گے جب کہ پلٹ کر نہ آئے یہ سن کر عرض کرنے لگی: پھر تو میں کبھی نکاح نہ کروں گی۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! گناہ اللہ پاک سے دور لے جاتے ہیں جبکہ نیکیاں اللہ پاک کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں لہذا اس گناہ سے بچنے کا ذہن بنا لیجئے کہ اگر اس گناہ کے سبب اللہ پاک ناراض ہو گیا اس کے پیارے حبیب ﷺ روٹھ گئے اور ایمان برباد ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ شوہر کی نافرمانی گناہ کبیر ہے مگر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا بھی باعث اجر و ثواب ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ حضرت زینب صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: اے عورتو! صدقہ کیا کرو اگرچہ اپنے زیورات ہی سے کرو۔ تو میں اپنے شوہر کے پاس گئی اور کہا آپ ایک تنگدست شخص ہیں اور رسول ﷺ نے ہمیں صدقے کا حکم دیا ہے آپ حضور سے پوچھیے کہ اگر میں آپ پر صدقہ کروں تو کیا میری طرف سے ادا ہو جائے گا۔ اگر نہیں تو کسی اور پر خرچ کر دوں تو انہوں نے فرمایا تم خود ہی چلی جاؤ۔ لہذا میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئی تو دیکھا کہ انصار کی ایک عورت بھی یہی پوچھنے کے لیے حاضر ہے۔ ہم حضور سے مرغوب رہتی تھیں چنانچہ جب حضرت بلال ہماری طرف آئے تو ہم نے ان سے کہا خدمت اقدس میں جا کر عرض کیجئے کہ دو عورتیں یہ پوچھنے کے لیے دروازے پر کھڑی ہیں کہ اگر وہ اپنے شوہر اور زیر کفایت یتیموں پر صدقہ کریں تو کیا ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ اور اے بلال! یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں چنانچہ آپ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضور نے استفسار فرمایا عورتیں کون ہیں؟ عرض کی انصار کی ایک عورت اور زینب ہے فرمایا: کون سی زینب عرض کی عبداللہ بن مسعود کی زوجہ۔ ارشاد فرمایا: ان دونوں کے لیے دوگنا اجر ہے ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا۔

شادی شدہ خواتین کے لیے چند نصیحتیں:

1۔ میاں حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم ہوتی ہے اس کے الٹ ہونے کا خیال بھی دل میں نہ لائیے

2۔ جب میاں حاکم ہے تو اس کی ان معاملات میں اطاعت کرے جو خلاف شرع نہ ہوں۔ اطاعت کو لازم سمجھے کہ اطاعت نہ کرنے والوں کی وعیدات بیان کی گئی ہیں۔

3۔ علم دین حاصل کیجیے تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔

4۔ ان کی ہر وہ تنقید جو شرعاً درست ہو اگر اس پر برا لگے تو اسے شیطان کا وار سمجھ کر لاحول شریف پڑھ کر شیطان کو نامراد لٹائے۔

5۔ اپنے شوہر کی خوبیوں پر نظر رکھے۔

اللہ پاک ہم سے اپنی رضا والے کام لے لے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اللہ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ: 228) ترجمہ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر ا چھے سلوک کیساتھ۔

رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرمایا: اگر میں خدا کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کرتی رہیں۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

اس حدیث مبارکہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ شوہر کا بہت بڑا حق ہے اور ہر عورت پر اپنے شوہر کا حق ادا کرنا فرض ہے عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے اور نہ ہی اسکی اجازت کے بغیر کسی کو اپنے مکان میں آنے کی اجازت دے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے کیونکہ یہ چیزیں شوہر کیطرف سے بیوی پر امانتیں ہوتی ہیں اور وہ ان سب پر امین ہے اگر کسی چیز کو جان بوجھ کر برباد کر دے تو عورت خیانت کے گناہ میں مبتلا ہو گی اور اس پر خدا کا بہت بڑا عذاب ہو گا اور کوئی بھی ایسا کام نا کرے جو شوہر کا ناپسند ہو۔

عورت کو لازم ہے کہ مکان، سامان اور اپنے بدن اور کپڑوں کی صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھے ہر وقت میلی کچیلی نا بنی رہے بلکہ بناؤ سنگھار سے رہا کرے تاکہ شوہر اسکو دیکھ کر خوش ہو جائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ بہترین عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

ہر عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے مزاج کو پہچان لے اور بغور دیکھتی رہے کہ اسکے شوہر کو کیا کیا چیزیں اور کون کون سی باتیں پسند ہیں اور وہ کن کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون کون سی باتوں سے ناراض ہوتا ہے اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے، پہننے اوڑھنے اور بات چیت میں اسکی عادت اور اسکا ذوق کیا اور کیسا ہے؟ خوب اچھی طرح شوہر کا مزاج پہچان لینے کے بعد عورت کو لازم ہے کہ وہ کام شوہر کے مزاج کے مطابق کرے خواہ شوہر کا طرز عمل اور طریقہ صحیح ہو یاغلط، عورت کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن شوہر کی مرضی کیلیے عورت وہی کام کرے جو شوہر کے مزاج کے مطابق ہو ہرگز ہرگز شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ کرے اور نا ہی کوئی کام کرے عورت کو لازم ہے کہ وہ شوہر کو کبھی جلی کٹی باتیں نہ سنائے اور نہ کبھی اسکے سامنے غصہ میں چلا چلا کر بولے نہ اسکی باتوں کا جواب دے نہ طعنہ مارے اور نہ اسکی لائی ہوئی چیزوں میں عیب نکالیں کیونکہ یہ تمام باتیں شوہر کی نافرمانی میں داخل ہوں گی اور اس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑے وغیرہ پیدا ہوں گے اور گھر تباہ و برباد ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جہنم میں عورتوں کو بکثرت دیکھا یہ سن کر صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ ﷺ اسکی کیا وجہ ہے کہ عورتیں بکثرت جہنم میں نظر آئیں تو فرمایا کہ عورتوں میں دو بری خصلتوں کی وجہ سے: ایک تو یہ کہ عورتیں دوسروں پر بہت لعن طعن کرتی رہتی ہیں اور دوسری یہ کہ عورتیں اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی رہتی ہیں، چنانچہ تم عمر بھر ان کیساتھ اچھا سلوک کرتے رہو لیکن اگر کبھی ایک ذرا سی کمی تمہاری طرف سے دیکھنے میں آئی تو یہی کہیں گی کہ میں نے کبھی تم میں کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (بخاری، 1/15، حدیث: 29)

آج کل عام شکایت ہے کہ زن و شو (میاں بیوی) میں نا اتفاقی ہے مرد کو عورت سے شکایت ہے تو عورت کو مرد سے، ہر ایک دوسرے کے لیے بلائے جان (مصیبت) ہے اور جب اتفاق نہ ہو تو زندگی تلخ اور نتائج خراب ہو جاتے ہیں آپس کی نا اتفاقی علاوہ دنیا کی خرابی کے دین بھی برباد کرنے والی ہوتی ہے۔ اس نا اتفاقی کا اثر بد انہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ اولاد پر بھی اثر پڑتا ہے اولاد کے دل میں نہ باپ کا ادب رہتا ہے، نہ ماں کی عزت۔

اس نا اتفاقی کا بڑا سبب یہ ہے کہ طرفین (میاں بیوی) میں ہر ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ نہیں رکھتے اور باہم رواداری سے کام نہیں لیتے۔ جب خیالات فاسدہ طرفین میں پیدا ہوں گے تو کیوں کر نبھ سکے گی۔ دن رات کی لڑائی اور ہر ایک کے اخلاق و عادات میں برائی اور گھر کی بربادی اسی کا نتیجہ ہے۔ عورت کو چاہیے کہ مرد کی نافرمانی نہ کرے کیونکہ مرد کو اس پر حاکم بنایا گیا ہے۔

چنانچہ اللہ پاک پارہ 5 سورہ نساء آیت نمبر 34 ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔ کیونکہ عورت کی ضروریات، اس کی حفاظت، اسے ادب سکھانے اور دیگر کئی امور میں مرد کو عورت پر تسلط حاصل ہے گویا کہ عورت رعایا اور مرد بادشاہ ہے اس لیے عورت پر مرد کی اطاعت لازم ہے، اس سے ایک بات یہ واضح ہوئی کہ میاں بیوی کے حقوق ایک جیسے نہیں بلکہ مرد کے حقوق عورت سے زیادہ ہیں اور ایسا ہونا عورت کے ساتھ ناانصافی یا ظلم نہیں بلکہ عین انصاف اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے۔

مرد کو عورت پر جو حکمرانی عطا ہوئی اس کی کثیر وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ رب تعالی نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ بیوی بغیر اجازت اس (شوہر) کے گھر سے نہ جائے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ پاک اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ عرض کی گئی: اگرچہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگرچہ ظالم ہو۔ (مجمع الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)بات بات پر روٹھ کر میکے چلی جانے والی عورتوں کے لیے مندرجہ بالا حدیث میں کافی درس ہے۔

2۔ شوہر نے بیوی کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور اس (شوہر) نے غصہ میں رات گزاری تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں اور دوسری روایت میں ہے: (شوہر) جب تک اس سے راضی نہ ہو اللہ پاک اس عورت سے ناراض رہتا ہے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 409)

قرآن و سنت سے ماخوذ شوہر سے متعلق نصیحتیں:

1۔ عورت ایسی ہو کہ شوہر اسکی طرف دیکھے تو اسکی پریشانی دور ہو جائے۔

2۔ بوقت وصال جس عورت کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنتی ہے۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث: 1173)

3۔ شوہر سے ناراض ہو کر رات گزارنے والی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔

4۔ شوہر کی رضا میں رب کی رضا ہے۔

5۔ عورت کو ہمیشہ شوہر کی خوشنودی کی تلاش میں رہنا چاہیے۔

6۔ شوہر کو نیکی کی ترغیب دلانے والی عورت جنتی ہے۔

7۔ شوہر کو تکلیف پہنچانے والی عورت پر جنتی حوریں ناراض ہوتی ہیں۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

بعض خواتین اپنے شوہروں کی سخت نافرمانیاں اور ناشکریاں کرتی ہیں اور ذرا کوئی بات بری لگ جائے تو پچھلے تمام احسانات بھلا کر کوسنا شروع کر دیتی ہیں انہیں اس سے باز رہنا چاہیے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 404)

مرد و عورت دونوں نکاح کے ذریعے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں میاں بیوی کو چاہیے کہ آپس میں رواداری اور محبت سے رہیں بیوی کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے شوہر کی فرمانبرداری کر کے اس کی نافرمانی سے بچتی رہے اس کے حقوق کا خیال رکھے اس کی جائز خواہشات کو پوری کرتی رہیں، زوجین یعنی میاں بیوی ہمارے معاشرے کا ایک اہم جز ہے اور زوجین کے ایک دوسرے پر بے شمار حقوق ہیں شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کا ہر حکم مانیں جو خلاف شرعی نہ ہو اور اس کی غیر موجودگی میں اس کے مال کی اور اس کی عزت کی حفاظت کرے اور اس کا محنت و مشقت سے کمایا ہوا مال فضول خرچے میں استعمال نہ کرے اس لیے بیوی کو چاہیے کہ وہ فضول خرچی سے بچے اور ہر حال میں اس کی نافرمانی سے بچتی رہے کیونکہ یہ اللہ پاک کی ناراضگی کا سبب ہے۔

احادیث مبارکہ:

شوہر نے عورت کو بلایا اور اس نے انکار کر دیا اور غصے میں اس نے رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/377، حدیث: 3237)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو تو اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔ (مسلم، ص 853، حدیث: 1436)

جب عورت اپنے شوہر کو ایذا دیتی ہے تو حور عین کہتی ہیں خدا تجھے قتل کرے اسے ایذا نہ دے یہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

اسی طرح پارہ 5 سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

جیسا کہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت اگر شوہر کا حکم نہ مانے گی تو اللہ پاک کے غضب میں گرفتار ہوگی جب تک شوہر ناراض رہے گا عورت کی کوئی نماز قبول نہ ہوگی اللہ کے فرشتے عورت پر لعنت کریں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 2/217)

لہذا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے بعد عورت پر جس ذات کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم ہے وہ اس کا شوہر ہے چنانچہ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ پاک کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

مشہور مفسر قرآن حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ اور عورت اس کے احسانات کی شکریہ سے عاجز ہے اسی لیے خاوند ہی اس کے لیے اس کے سجدے کا مستحق ہوتا خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے۔ (مراۃ المناجیح، 5/97)

اسی لیے اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ اس سے درس حاصل کریں اور شوہر کے حقوق میں کوئی کمی نہ آنے دے کیونکہ شوہر کی رضا میں رب کی رضا اور شوہر کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی پوشیدہ ہے اللہ پاک ہمیں شوہر کی نافرمانی سے بچائے۔ آمین

بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی فرمانبرداری کر کے اسے راضی رکھے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث: 1173)

بیوی شوہر کو اپنا غلام نہ بنا لے جو میں چاہوں وہی ہو، چاہے کچھ بھی ہو جائے مگر میری بات میں فرق نہ آئے بلکہ اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے حقوق کا خیال رکھے،اس کی جائز خواہشات کو پورا کرتی رہے اور اس کی نافرمانی سے بچتی رہے۔

حضرت قیس بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ کا فرمان عظیم الشان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ غیر خدا کو سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

اس حدیث پاک سے شوہر کی اہمیت خوب واضح ہوتی ہے لہذا اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ ان کے حقوق کے خیال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔

میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر ان کے آداب بجا لاتے رہیں اور ساتھ ہی دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مابین محبت قائم دائم رکھے اور ہمارا گھر امن کا گہوارہ بنائے۔

ہر نیک و جائز کام میں شوہر کی اطاعت فرمانبرداری کرنا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ اپنے شوہر کی اطاعت فرمانبرداری میں مشغول رہیں۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ کا قرآن پاک میں ارشاد ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

لہذا عورتوں کو مرد کی اطاعت فرمانبرداری کرنی چاہیے اس کے بجائے اگر عورت چاہے کہ شوہر میری مانے اور میرا فرمانبردار ہو تو یہ درست نہیں، جائز درخواستیں اور فرمائشیں مثلاً طرح طرح کے کھانے نت نئے ڈیزائن کے کپڑے وغیرہ کی طلب پوری کرنا شوہر پر واجب نہیں، واجب صرف نان و نفقہ وغیرہ ہے البتہ اگر شوہر دیگر فرمائشیں پوری کرتا ہے تو یہ بیوی پر احسان ہوگا۔ (عورت اور قرآن، ص 85)

شوہر کی نافرمانی کی مذمّت پر مشتمل احادیث مبارکہ:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس عورت کی نماز سر سے آگے نہیں بڑھتی جو اپنے خاوند کی نافرمانی کرے جب تک وہ اس (نافرمانی) سے باز نہ آ جائے۔ (طبرانی کبیر 3/36)

2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو قسم کے آدمی جن کی نماز ان کے سروں سے اونچی نہیں اٹھتی: اس غلام کی نماز جو اپنے آقا سے فرار ہو جائے جب تک وہ لوٹ نہ آئے اور اس عورت کی نماز جو شوہر کی نافرمانی کرے جب تک کہ شوہر کی نافرمانی سے باز نہ آ جائے۔

3۔ جو عورت بے ضرورت شرعی(یعنی بغیر تکلیف کے) خاوند سے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی،2/402، حدیث: 1191)

بیوی کے لیے لازم ہے کہ اپنے خاوند سے محبت میں مخلص ہو بیوی پر اس کے شوہر کے بہت زیادہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہیں بیوی پر اپنے شوہر کے اطاعت اور فرمانبرداری واجب ہے۔ اللہ تعالی نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم بنایا ہے اور بہت بڑی بزرگی دی جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

یاد رکھو بیوی پر شوہر کی اطاعت لازم ہے اور اپنے شوہر کو راضی و خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے اور ناراض رکھنا بہت بڑا گناہ۔

ایک روایت میں ہے کہ جب خاوند اس (بیوی) پر ناراض ہو تو وہ لعنت کے حقدار ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہےجب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنت میں حورین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے کہ اسے تکلیف مت دے اللہ تجھے ہلاک کرے بے شک وہ تو تیرے پاس مہمان ہے عنقریب اسے تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آنا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1177)

اس حدیث مبارکہ میں شوہر کی بڑی عزت و عظمت کا ذکر ہے نیز اس بات کا بھی ذکر ہے کہ نیک شوہر کو تکلیف دینا گویا جنتی مخلوق کو تکلیف دینا ہے۔

ایک بار آپ ﷺ سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کی وجہ کے متعلق استفسار کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں۔ (بخاری، 3/ 463، حدیث: 5197)

شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے شرعی عذر کے بغیر تسکین شہوت سے شوہر کو روکنا بیوی کے لیے شرعا جائز نہیں۔ احادیث میں ایسی عورتوں کے لیے سخت وعیدات آئی ہیں، مثلاً

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شوہر اپنی بیوی کو ہمبستری کے لیے بلائے بیوی انکار کر دے اور شوہر اپنی بیوی پر ناراضگی کی حالت میں ہی ساری رات گزار دے تو ایسی عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

بیوی کا غصہ بجا ہو یا بے جا مگر اطاعت کے پیش نظر اس کا فرض ہے کہ خاوند کے بستر پر حاضری دینا اگر وہ خفگی میں رات کو ایسا نہ کرے تو بلاشک اس وعید شدید کی مستحق ہے۔

کئی اسلامی بہنوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ شوہروں کی نافرمانی ہی کرتی رہتی ہیں چاہے شوہر ان کے لئے جتنی بھی محنت کرلے اور اپنی استطاعت کے مطابق جتنی ہی ان کے ساتھ بھلائی کرلے لیکن پھر بھی اسلامی بہنیں صبر و شکر کے بجائے ناشکری ہی کرتی رہتی ہیں جس کے انتہائی بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں، ایسی اسلامی بہنوں کو احسان فراموشی، ان کی نافرمانی، زبان کی بد تہذیبی اور بد تمیزی کی وجہ سے بسا اوقات دنیا میں یہ سزا ملتی ہے کہ شوہر تنگ آکر ان کو چھوڑ دیتا ہے اور پھر انہیں ساری عمر پچھتاوے کے ساتھ اور گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے سن کر گزارنا پڑتی ہے۔

بیوی کے لیے خاوند کی اطاعت ہی اس کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے اس لیے اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ اپنے جسم،لباس اور گھر کی صفائی کا خیال رکھے، شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرے، تاکہ شوہر کا دل خوش رہے کیونکہ شادی کی حکمت اور مصلحت میں سے ایک جنسی اور نفسانی خواہشات اور ضروریات کو پورا کرنا بھی ہے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی،2/ 273، حدیث: 1173)

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔ اس عورت کا باپ بیمار ہوا تو اس نے حضور ﷺ سے پیغام بھیج کر دریافت کیا کہ وہ اپنے والد کے پاس جائے یا خاوند کی فرماں برداری کرے؟ آپ ﷺ نے خاوند کی اطاعت کا حکم دیا۔ کچھ عرصہ بعد اس کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ تو اس عورت نے آپ ﷺ کو پیغام بھیجا۔ جس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تمہارے باپ کی مغفرت فرما دی ہے۔

اسلامی بہنوں کو چاہئے کہ ایسی حرکتوں سے پہلی فرصت میں توبہ کریں اور جس حال میں اللہ پاک نے شوہر کے ساتھ رکھا ہے اس کو غنیمت جانیں اور دنیوی اعتبار سے اپنے سے کم مرتبے والوں کی طرف نظر کریں تاکہ صبر و شکر کی کیفیت پیدا ہو۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، شوہر اور بیوی کے تعلقات میں باہمی عزت، محبت، اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیوی کو شوہر کی اطاعت کی ترغیب دی گئی ہے۔

شوہر کی نافرمانی کی وجوہات: شوہر کی نافرمانی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم وجوہات درج ذیل ہیں:

ناپسندیدہ رویہ: اگر شوہر کا رویہ ناپسندیدہ ہو، جیسے کہ سختی، توہین، یا بدسلوکی تو یہ بیوی کو دل سے اس کی اطاعت سے روک سکتا ہے۔

مساوات کی خواہش: جدید دور میں بہت سی خواتین اپنے حقوق اور مساوات کی اہمیت کو سمجھتی ہیں۔ وہ شوہر کے اس رویے کو قبول نہیں کرتیں جو ان کی خود مختاری کو مجروح کرتا ہو۔

شوہر کی نافرمانی کے اثرات:

ازدواجی زندگی پر منفی اثرات: نافرمانی کی وجہ سے گھر کا ماحول کشیدہ ہو سکتا ہے، جو کہ بچوں کی پرورش اور ازدواجی تعلقات پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔

اسلامی احکام کی خلاف ورزی: اسلامی نقطۂ نظر سے شوہر کی جائز بات ماننے سے انکار کرنا ناپسندیدہ عمل ہے اور اس سے اللہ کی ناراضی کا خدشہ ہوتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے، اور شوہر ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے اس پر صبح تک لعنت بھیجتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

مسائل کا حل:

باہمی بات چیت: دونوں کو ایک دوسرے کے مسائل اور جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے اختلافات کو باہمی گفتگو کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔

معاف کرنا اور سمجھوتا کرنا: اسلامی تعلیمات میں معاف کرنے اور صبر کرنے کو بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے، اس لیے بیوی اور شوہر دونوں کو ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے اور سمجھوتا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

قرآن پاک میں اللہ نے ارشاد فرمایا: وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّصْلِحَا بَیْنَهُمَا صُلْحًاؕ-وَ الصُّلْحُ خَیْرٌؕ- (پ 5، النساء: 128) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتی یا بے رغبتی کا اندیشہ کرے تو ان پر گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح خوب ہے۔

اسلامی تعلیمات پر عمل: اگر دونوں فریق اسلامی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے فرائض کو سمجھیں، تو زندگی میں سکون اور برکت حاصل ہو سکتی ہے۔

الغرض شوہر کی نافرمانی کا معاملہ نازک اور سنجیدہ ہے، جس کے اثرات دونوں فریقوں پر پڑتے ہیں۔ اسلامی اور اخلاقی اصولوں کے مطابق، دونوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں اور اختلافات کو حل کریں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ان کی ازدواجی زندگی بہتر ہوگی بلکہ ان کا گھرانہ اور معاشرہ بھی پرسکون اور خوشحال ہوگا۔

اللہ نے انسانی دنیا میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ بخشا ہے اور جن خوبیوں اور گونا گوں صفات سے نوازا ہے اور اس دنیا میں انسانی خوشگوار زندگی اورپرسکون حیات انسانی کیلئے عورت کو جو اساس و بنیاد کا درجہ حاصل ہے یہ کسی بھی باشعور انسان کی معرفت پر پوشیدہ نہیں اسی طرح اللہ نے مردوں کو بھی بہت زیادہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو عورت کا حاکم بنایا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

اس کی تفسیر میں صدر الافاضل سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تو عورتوں کو ان (مردوں) کی اطاعت لازم ہے اور مردوں کو حق ہے کہ وہ عورتوں پر رعایا کی طرح حکمرانی کریں اور ان کے مصالح اورتدابیر اور تادیب و حفاظت کی سرانجام دہی کریں۔ (خزائن العرفان، ص 107)

معلوم ہوا کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا ہے اور مرد کو بڑی فضیلت عطا کی ہے اس لئے بیوی کا فرض ہے کہ وہ خاوند کا حکم مانے اور ہر شرعی مسئلےمیں خاوند کی اطاعت کرے بلکہ عورت کیلئے اپنے شوہر کو راضی رکھنا بڑے اجر کا کام ہے۔ لہذا بیوی ہر لحاظ سے خاوند کی اطاعت گزاری اور اس کے حقوق میں ہرگز کوتا ہی نہ کرے بلکہ خود تکلیف جھیل کر اپنے خاوند کو آرام پہنچانے کی کوشش میں رہے کیونکہ عورت کیلئے اپنے شوہر کو راضی رکھنا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس عورت کا انتقال اس حالت میں ہو کہ اس کا شوہر اس سے خوش و راضی ہو تو وہ عورت جنت میں جائے گی۔ (شعب الایمان، 5 /421)

محترم اسلامی بہنو! اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کی رضا اور خوشنودی جنت میں جانے کا باعث ہے۔ لہذا شوہر کو ناراض رکھنا بات بات پر اختلاف اور جھنجھٹ کرنا ان سے شاکی رہنا مال یا دیگر سلسلے میں اسے پریشان کرنا ان کی خوشی اور نا خوشی کی پرواہ نہ کرنا یہ سب اچھی بات نہیں اور جنتی عورت کا یہ مزاج اورشیوہ نہیں۔ بہت سی عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کے شوہر بوڑھے ضعیف اور بیمار ہو جاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کرتیں۔ کمزوری اور بیماری کی وجہ سے ان کو خدمت اور کھانے پینے میں وقت کے لحاظ کی ضرورت ہوتی ہے تو عورت ایسی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔

شوہر کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ادا نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پرنور ﷺ کی خدمت میں ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر حاضر ہوا اور کہا کہ یہ میری بیٹی ہے شادی سے انکار کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بیٹی! اپنے والد کا کہنا مان لو۔ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اسوقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک کہ مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا بیوی پر یہ حق ہے کہ خاوند کو اگر کوئی زخم ہے تو بیوی چاٹ لے یا اس کی ناک سے پیپ یا خون بہے اور بیوی اسے پی بھی جائے تب بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہ کیا (یہ مبالغہ ہے غایت خدمت اور محبت سے حقیقا پینا مراد نہیں کیونکہ مذکورہ چیزیں ناپاک ہیں) اس نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں شادی نہیں کروں گی، کیونکہ مجھ سے حق ادا نہیں ہو سکے گا۔(مستدرک للحاکم، 2/547، حدیث: 2822)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت شوہر کا حق کماحقہ (Exactly) ادا نہیں کرسکتی۔ مطلب بیوی یہ نہ سوچے کہ میں نے فلاں خدمت کر دی حق ادا ہو گیا بلکہ خدمت کرتی رہے۔

جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید المرسلین ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ سے (گناہ کے بارے میں ڈرے اور گناہ نہ کرے) اور اپنی عزت کی حفاظت کرے اور شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں اور ان سے کہا جائے گا: جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406، حدیث: 1661)

جنت کے آٹھ دروازے ہوں گے۔ لوگ اپنے اپنے خصوصی اعمال کی وجہ سے جنت کے دروازے سے جائیں گے۔ عموما لوگ ایک دروازے سے جانے کے مستحق ہوں گے لیکن بعض مرد اور بعض عورتیں ایسی ہوں گی کہ ان کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے جانے کی اجازت ہوگی اور ان کو اختیار ہوگا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں جنت میں چلے جائیں۔

یہ کون عورت ہوگی جس میں یہ تین اوصاف ہوں گے:

(1) ایک یہ کہ تقویٰ والی زندگی یعنی تمام نا جائز اور شریعت کے منع کردہ چیزوں سے بچتی ہوگی۔ ہر گناہ کی بات سے بچتی ہوگی۔ مثلاً پانچوں نمازوں کی پابند، خصوصاً صبح کی نماز کی۔ اپنے زیوروں کے حساب سے اگر نصاب کے برابر ہو زکوۃ نکالتی ہوگی۔

کسی سے لڑتی جھگڑتی نہ ہوگی، لعن طعن نہ دیتی ہوگی، کوستی نہ ہوگی، احسان نہ جتلاتی ہوگی، اسی طرح بے پردہ کہیں نہ جاتی ہوگی،اجنبی مردوں سے سخت احتیاط کرتی ہوگی،بلا شدید ضرورت کے گھر سے باہر نہ پھرتی ہوگی،رشتہ داروں میں سے کسی سے کینہ اور بغض و عناد نہ رکھتی ہوگی، غیبت سے بچتی ہوگی، نا محرم رشتہ داروں اور دیور سے پردہ کرتی ہوگی، نہ ٹی وی خود دیکھتی ہوگی اور نہ گھر میں رکھتی ہوگی،ناچ و گیت گانے میں شریک نہ ہوگی۔ غرض کہ ہر گناہ کبیرہ سے بچتی ہوگی اور اگر کسی وجہ سےگناہ ہو جائے تو فورا توبہ کر لیتی ہوگی۔

(2) یہ کہ شوہر کے علاوہ کسی پر نظر اور نگاہ نہ رکھتی ہوگی۔

(3) شوہر کی اس امر میں جس سے شریعت نے منع نہیں فرمایا۔ اطاعت و فرمانبرداری کرتی ہوگی۔ اس میں غفلت وسستی کا بہانہ نہ تلاش کرتی ہوگی۔ مثلاً عادت اور ضرورت کے مطابق وقت پر تمام کام کر دیتی ہوگی۔ بیماری و تھکن کی حالت میں خدمت کر دیتی ہو گی۔ مثلاً شوہر کا مزاج (Disposition) معلوم ہے کہ گرم کھانا کھاتے ہیں۔ گرم پانی سے وضو کرتے ہیں تو ان (شوہر) کے حکم دینے سے پہلے ہی اس کا اہتمام رکھتی ہوگی۔ مطلب یہ کہ اس کی خوشی اور آرام کا لحاظ رکھتی ہوگی تو ایسی عورت کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔

محترم ماؤں، بہنوں! ان تینوں چیزوں پر پیشگی سے عمل کر لو اور اسی کی تعلیم موجودہ بیٹیوں اور کل کی ہونے والی ماں کو دو اور جنت کے آٹھوں دروازے کھلوا لو۔ آج تھوڑی نفس اور ماحول کیخلاف مشقت برداشت کرلو۔کل جنت کے مزے لوٹ لو جو ہمیشہ ہمیشہ کا مزہ ہے۔

اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

شوہر کی بلا اجازت گھر سے نکلنے پرفرشتوں کی لعنت: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے حضور پر نور ﷺ سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: جب عورت شوہر کے گھر سے شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے۔ ساری چیزیں انسان اور جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔(مجمع الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)

شوہر کی بلا اجازت کے جب عورت باہر نکلتی ہے تو آسمان کے فرشتے رحمت کے فرشتے عذاب کے فرشتے سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جب تک کہ وہ واپس نہ آ جائے۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)

عورتوں کیلئے نصیحت آموز حکایت: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور مکی مدنی سرکار،سرکار ابد قرار ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس کے والد گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ اس کے والد بیمار ہوئے تو اس نے حضور نور مجسم ﷺ کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر اس نے حضورطہ ویس ﷺ کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شوہر کی اطاعت کرو۔ پھر حضور سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ نے اس کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے تمہارے شوہر کی اطاعت کرنے کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کر دی اور جنت عطا فرما دی۔ (مجمع الزوائد، 4/316)

حدیث مذکورہ میں عورت کا اپنے والد کے پاس نہ جانا صرف شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تھا۔

یہ جذبہ ایمانی صحابیہ کا رضی اللہ عنہا ہے۔ ورنہ آج کے اس پرفتن دور میں کون عورت ہے کہ باپ وفات پا جائے اور وہ نہ جائے بلکہ اس زمانہ میں تو کوئی شریعت کی اجازت لینا ہی گوارا نہ کرے۔ اللہ ہماری اسلامی بہنوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حدیث مذکورہ پر غور کیجئے کہ حضور فخر بنی آدم ﷺ نے بھی اس صحابیہ رضی اللہ عنہ کو اسی بات کی تاکید کی تھی کہ جب شوہر نے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے تو مت نکلو اور شوہر کی بات کا نصیحت کا لحاظ رکھو۔ یہاں تک کہ والد کی وفات ہوگئی۔ اللہ نے خاوند کی اطاعت کی برکت سے اس کے والد کی مغفرت فرمادی اور جنت عطا فرما دی۔ جب بیوی کی اطاعت سے اس کے والد کی مغفرت ہو گئی تو خود عورت بھی مغفرت کے لائق نہ ہوگی؟ یقینا ہوگی۔

شوہر کی خدمت صدقہ ہے: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیوی کا شوہر کی خدمت کرنا صدقہ ہے۔ كنز العمال، 16/169)

شوہر کی خدمت گزار اسلامی ماؤں، بہنوں تمہیں مبارک ہو کہ اس کی خدمت کرنے کی کتنی فضیلت ہے کہ جس طرح اہل مال کو اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح تمہیں شوہروں کی خدمت میں ثواب ملتا ہے۔

شوہر کی خدمت کا مفہوم ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدمت کا مفہوم وسیع ہے۔ اس میں لیل و نہار یعنی دن اور رات کے تمام معمول شامل ہیں مثلاً ناشتہ اور کھانا ان کے وقت اور مزاج کی رعایت کر کے بنانا ان کے بھی سامان کی حفاظت اور طریقہ سلیقہ سے رہنا، غسل و وضو میں تعاون کرنا اور اگر غسل کی حاجت ہو تو ان کے کہے بغیر انتظام کرنا اور پہلے سے تیار رکھنا حسب ضرورت کپڑے دھودینا۔ پھٹے ہوں تو سی دیتا۔ حسب ضرورت سر پاؤں دبا دینا،بیمار ہوں تو ان کی دوا اور کھانے کے پر ہیز کا اہتمام کرنا، صبح فجر کیلئے دو پہر کو ظہر کیلئے جگا دینا،سونے سے پہلے تکیہ و بستر کا اہتمام کرنا۔ شوہر کے احباب اور مہمانوں کی خدمت کرنا رات میں کچھ دیر ہو جائے تو انتظار کرنا موسم کے موافق تھوڑا گرم کھانا دینا۔

غرض کہ ہر وہ کام جس میں شوہر کو راحت اور سکون ملے۔ اس کا اہتمام اور خیال کرنا خدمت ہے جس کے کرنے پر عورت کو صدقہ و خیرات کا سا ثواب ملتا ہے۔

لہذا جو عورت صدقہ مالی کا ثواب حاصل نہیں کر سکتی وہ خدمت سے صدقہ کا ثواب حاصل کر سکتی ہے۔

اللہ پاک اس کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین

اسلامی تعلیمات میں شوہر اور بیوی کا رشتہ: ایک مقدس اور مضبوط بندھ اسلام میں شوہر اور بیوی کے رشتے کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ رشتہ محض دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ نہیں، بلکہ محبت، سکون، اور رحمت پر مبنی ایک بابرکت تعلق ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، نکاح کو انسان کی فطرت کے مطابق بنایا گیا ہے اور اس رشتے کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ازدواجی تعلقات کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی قوامیت کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کی سرکشی کی صورت میں تین تدابیر بتائی ہیں: نصیحت کرنا، بستر الگ کرنا اور ہلکی سزا دینا، مگر ظلم اور زیادتی سے گریز لازم ہے۔

احادیث مبارکہ:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے اور اس کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کے اعمال کو اللہ کے ہاں قبول نہیں کیا جاتا۔ اس حدیث میں بیوی کی نافرمانی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔ بیوی پر شوہر کے حقوق کا احترام لازم ہے، اور اگر وہ نافرمانی کرے تو اس کے اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتے۔

نافرمانی کے اسباب: محبت اور توجہ کی کمی، گھریلو مسائل اور اختلافات، دین کی کمی یا روحانی تربیت کا فقدان، بے جا توقعات، دیگر لوگوں کا منفی اثر، شک و شبہات، مالی مسائل یا بے روزگاری، شخصی آزادی اور خود مختاری کی خواہش، نفسیاتی اور جذباتی مسائل وغیرہ۔

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا واقعہ نافرمانی کی علامت کے طور پر تاریخ میں ملتا ہے۔ وہ اپنی قوم کی بداعمالیوں میں شریک تھی اور اپنے شوہر کے پیغام کو رد کرتی رہی۔ جب عذاب آیا اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم سمیت شہر چھوڑنے کا حکم دیا گیا، تو بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی نافرمانی کی اور عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد محبت، فرمانبرداری اور اعتماد پر ہونی چاہیے؛ ورنہ نافرمانی نہ صرف فرد بلکہ خاندان اور معاشرتی زندگی پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے ازدواجی تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی کی اہمیت پر یوں فرمایا کہ:

ہر کجا عشق آید و ساکن شود ہر بدی و ناخوبی بہتر شود

ترجمہ: جہاں محبت آ جائے اور قیام کرے، وہاں ہر برائی اور ناخوشگواری نیکی اور بھلائی میں بدل جاتی ہے۔

یہ شعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر بیوی اور شوہر کے درمیان محبت اور فرمانبرداری ہو تو تعلقات میں حسن اور برکت پیدا ہوتی ہے، جبکہ نافرمانی اور سرکشی سے تعلقات میں تلخی اور خرابی جنم لیتی ہے۔

ہر نيک و جائز كام ميں اپنے شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا شوہر كی نافرمانی كہلاتا ہے

ہر وه جائز كام جو خلاف شرع نہ ہو اس ميں اپنے شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا شوہر كی نافرمانی كہلاتا ہے۔ ہر وه دينی و دنياوی جائز كام جس كے كرنے كا شوہر حكم دے اور وه خلاف شرع بھی نہ ہو اس كام ميں شوہر كی اطاعت و فرمانبرداری نہ كرنا جيسے شوہر بيوی كو بناؤ سنگھار كا كہے اور بيوی نہ كرے يہ شوہر كی نافرمانی ہوئی بيوی پر شوہر كی اطاعت كرنا واجب ہے۔ اللہ فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ- (پ 21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی۔

قرآن پاک ميں ارشاد ہوتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

عورت پر سب سے زياده حق اس كے شوہر كا ہوتا ہے اور مرد پر اس كی ماں كا۔

شوہر كی فرمانبرداری پر انعام:

1۔ عورت جب پانچوں نمازيں پڑھے اور ماه رمضان كے روزے ركھے اور اپنی عزت و ناموس كی حفاظت كرے اور شوہر كی اطاعت كرے تو جنت كے جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔ (سنی بہشتی زيور، ص 299)

2۔عورت كے ذمہ پر (3) فرائض ہيں جو قرآن پاک نے اس پر عائد كيے: 1۔اپنے شوہر كی اطاعت گزار اور وفادار ہو 2۔ سليقہ شعار ہو كہ شوہر كے مال و دولت كو برباد نہ كرے 3۔عفت مآب ہو كہ اپنی اور اپنے شوہر كی عزت و ناموس پر آنچ نہ آنے دے۔ (سنی بہشتی زيور، ص 228)

نافرمانی كرنے كا انجام: شوہر نے عورت كو بلايا اور اس نے انکار كرديا اور غصے ميں رات گزاری تو صبح تک اس عورت پر فرشتے لعنت بھيجتے رہتے ہيں اور دوسری روايت ميں ہے كہ جب تک شوہر اس سے راضی نہ ہو اللہ اس سے ناراض رہتا ہے۔

ايک روايت ميں ہے كہ وه عورت جس كا شوہر اس سے ناراض ہے اس كی نماز قبول نہيں ہوتی اور كوئی نيكی بلند نہيں ہوتی۔ (ترمذی، 1/375، حدیث: 360)

جو عورت بغير كسی حرج كے شوہر سے طلاق كا سوال كرے اس پر جنت كی خوشبو حرام ہے۔ (سنی بہشتی زيور، ص236)

عورت اپنے شوہر كی اجازت كے بغير گھر سے (بلاوجہ) باہر نہ جائے اور جو عورت اپنے شوہر كی اجازت كے بغير باہر جاتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت كرتے ہيں۔ (مجمع الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)

اے عورتو! خدا سے ڈرو اور شوہر كی رضا مندی كی تلاش ميں رہو اس ليے كہ عورت كو اگر معلوم ہوتا كہ شوہر كا كيا حق ہے تو جب تک يہ اس كے پاس كھاتا رہتا تو كھڑی رہتی۔