شوہر
کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے۔ شوہر کی نافرمانی کی مذمت احادیث مبارکہ میں بھی آئی ہے
فرمان مصطفی ﷺ: کسی کو جائز نہیں کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرے اور اگر
میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو
سجدہ کرے۔ (الآثار لابی یوسف، ص 397، حدیث:921)
1۔ قسم
ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں
زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو بہتا ہو پھر عورت اس سے چاٹے تب بھی حق شوہر ادا نہ
کیا۔ (مسند امام احمد، 5/445، حدیث: 1249)
2۔ اور
بیوی بغیر اجازت اس شوہر کہ گھر سے نہ جائے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے
اللہ پاک اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں عرض کی گئی اگرچہ شوہر ظالم ہو فرمایا
اگرچہ ظالم ہو۔ (کنز العمال، 8/244، حدیث: 44201)
بات
بات پر روٹھ کر میکے چلی جانے والی عورتوں کے لیے مندرج بالا حدیث میں کافی درس ہے۔
3۔ تین
قسم کے لوگوں کی نماز کو اللہ پاک قبول نہیں فرماتا: ایک تو وہ عورت جو اپنے شوہر
کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے، دوسرا بھاگا ہوا غلام اور تیسرا وہ بادشاہ جس کی
رعایا اسے ناپسند کرتی ہو۔ (کنز العمال، 8/25، حدیث:43919)
4۔
قبیلہ خثعمیہ کی ایک خاتون نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میری شادی
نہیں ہوئی مجھے بتائیں کہ شوہر کا عورت پر کیا حق ہے تاکہ میں اس کے ادا کی طاقت
رکھوں تو نکاح کروں ورنہ یوں ہی بیٹھی رہوں ارشاد فرمایا: بے شک شوہر کا زوجہ پر
حق یہ ہے کہ عورت کجاوے پر بیٹھی ہو اور مرد اسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو
انکار نہ کرے اور مرد کا عورت پر یہ بھی حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ
نہ رکھے اگر رکھے گی تو بیکار بھوکی پیاسی رہی اور روزہ قبول نہ ہوا اور اس کی اجازت
کے بغیر کبھی کہیں نہ جائے اگر جائے گی تو آسمان اور رحمت و عذابات کے فرشتے اس پر
لعنت کریں گے جب کہ پلٹ کر نہ آئے یہ سن کر عرض کرنے لگی: پھر تو میں کبھی نکاح نہ
کروں گی۔
پیاری
پیاری اسلامی بہنو! گناہ اللہ پاک سے دور لے جاتے ہیں جبکہ نیکیاں اللہ پاک کا قرب
حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں لہذا اس گناہ سے بچنے کا ذہن بنا لیجئے کہ اگر اس گناہ کے
سبب اللہ پاک ناراض ہو گیا اس کے پیارے حبیب ﷺ روٹھ گئے اور ایمان برباد ہو گیا تو
ہمارا کیا بنے گا۔ شوہر کی نافرمانی گناہ کبیر ہے مگر اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا
بھی باعث اجر و ثواب ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ
حضرت زینب صفیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: اے عورتو! صدقہ کیا کرو اگرچہ
اپنے زیورات ہی سے کرو۔ تو میں اپنے شوہر کے پاس گئی اور کہا آپ ایک تنگدست شخص
ہیں اور رسول ﷺ نے ہمیں صدقے کا حکم دیا ہے آپ حضور سے پوچھیے کہ اگر میں آپ پر
صدقہ کروں تو کیا میری طرف سے ادا ہو جائے گا۔ اگر نہیں تو کسی اور پر خرچ کر دوں
تو انہوں نے فرمایا تم خود ہی چلی جاؤ۔ لہذا میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئی تو
دیکھا کہ انصار کی ایک عورت بھی یہی پوچھنے کے لیے حاضر ہے۔ ہم حضور سے مرغوب رہتی
تھیں چنانچہ جب حضرت بلال ہماری طرف آئے تو ہم نے ان سے کہا خدمت اقدس میں جا کر
عرض کیجئے کہ دو عورتیں یہ پوچھنے کے لیے دروازے پر کھڑی ہیں کہ اگر وہ اپنے شوہر
اور زیر کفایت یتیموں پر صدقہ کریں تو کیا ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ اور اے
بلال! یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں چنانچہ آپ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر جب
پوچھا تو حضور نے استفسار فرمایا عورتیں کون ہیں؟ عرض کی انصار کی ایک عورت اور
زینب ہے فرمایا: کون سی زینب عرض کی عبداللہ بن مسعود کی زوجہ۔ ارشاد فرمایا: ان
دونوں کے لیے دوگنا اجر ہے ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا۔
شادی شدہ خواتین کے لیے چند نصیحتیں:
1۔ میاں
حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم ہوتی ہے اس کے الٹ ہونے کا خیال بھی دل میں نہ لائیے
2۔ جب
میاں حاکم ہے تو اس کی ان معاملات میں اطاعت کرے جو خلاف شرع نہ ہوں۔ اطاعت کو
لازم سمجھے کہ اطاعت نہ کرنے والوں کی وعیدات بیان کی گئی ہیں۔
3۔ علم
دین حاصل کیجیے تاکہ عمل کا جذبہ پیدا ہو۔
4۔ ان
کی ہر وہ تنقید جو شرعاً درست ہو اگر اس پر برا لگے تو اسے شیطان کا وار سمجھ کر
لاحول شریف پڑھ کر شیطان کو نامراد لٹائے۔
5۔ اپنے
شوہر کی خوبیوں پر نظر رکھے۔