اسلامی تعلیمات میں شوہر اور بیوی کا رشتہ: ایک مقدس اور مضبوط بندھ اسلام میں شوہر اور بیوی کے رشتے کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ رشتہ محض دو افراد کے درمیان ایک معاہدہ نہیں، بلکہ محبت، سکون، اور رحمت پر مبنی ایک بابرکت تعلق ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، نکاح کو انسان کی فطرت کے مطابق بنایا گیا ہے اور اس رشتے کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

ازدواجی تعلقات کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہر کی قوامیت کو تسلیم کرتے ہوئے بیوی کی سرکشی کی صورت میں تین تدابیر بتائی ہیں: نصیحت کرنا، بستر الگ کرنا اور ہلکی سزا دینا، مگر ظلم اور زیادتی سے گریز لازم ہے۔

احادیث مبارکہ:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہے اور اس کے حقوق کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کے اعمال کو اللہ کے ہاں قبول نہیں کیا جاتا۔ اس حدیث میں بیوی کی نافرمانی کے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔ بیوی پر شوہر کے حقوق کا احترام لازم ہے، اور اگر وہ نافرمانی کرے تو اس کے اعمال اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتے۔

نافرمانی کے اسباب: محبت اور توجہ کی کمی، گھریلو مسائل اور اختلافات، دین کی کمی یا روحانی تربیت کا فقدان، بے جا توقعات، دیگر لوگوں کا منفی اثر، شک و شبہات، مالی مسائل یا بے روزگاری، شخصی آزادی اور خود مختاری کی خواہش، نفسیاتی اور جذباتی مسائل وغیرہ۔

حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا واقعہ نافرمانی کی علامت کے طور پر تاریخ میں ملتا ہے۔ وہ اپنی قوم کی بداعمالیوں میں شریک تھی اور اپنے شوہر کے پیغام کو رد کرتی رہی۔ جب عذاب آیا اور حضرت لوط علیہ السلام کو اپنی قوم سمیت شہر چھوڑنے کا حکم دیا گیا، تو بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی نافرمانی کی اور عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد محبت، فرمانبرداری اور اعتماد پر ہونی چاہیے؛ ورنہ نافرمانی نہ صرف فرد بلکہ خاندان اور معاشرتی زندگی پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔

مولانا جلال الدین رومی نے ازدواجی تعلقات میں محبت اور ہم آہنگی کی اہمیت پر یوں فرمایا کہ:

ہر کجا عشق آید و ساکن شود ہر بدی و ناخوبی بہتر شود

ترجمہ: جہاں محبت آ جائے اور قیام کرے، وہاں ہر برائی اور ناخوشگواری نیکی اور بھلائی میں بدل جاتی ہے۔

یہ شعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر بیوی اور شوہر کے درمیان محبت اور فرمانبرداری ہو تو تعلقات میں حسن اور برکت پیدا ہوتی ہے، جبکہ نافرمانی اور سرکشی سے تعلقات میں تلخی اور خرابی جنم لیتی ہے۔