واضح رہے کہ شریعت مطہر ہ میں بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے،بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا،اس کو تکلیف پہنچانا،بچوں کو اس کے خلاف ورغلانا شرعا ناجائز و حرام ہے،آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کو لازم قراردیا ہے اور نافرمانی پر سخت وعیدات ارشاد فرمائیں ہیں،چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں کسی کو(خداوند تعالیٰ کے علاوہ) کسی کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنےکاحکم کرتا۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

حدیث شریف میں ہے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں، پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔ (بخاری، 1/15، حدیث:29)

رسول خدا ﷺ نے فرمایا: ایسی عورت جو اپنے شوہر کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہو خداوند متعال اس کی کسی نیکی کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک وہ اپنے شوہر کو راضی نہ کرلے اگرچہ دن روزے سے اور پوری رات عبادت ہی میں گزارے اور خدا کی راہ میں کتنے غلام آزاد کروائے اور کتنے ہی گھوڑے صدقے میں دے دے سب سے پہلے اسے جہنم میں ڈالا جائے گا۔

لیکن واضح رہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق میاں بیوی کے رشتے میں قانونی ضابطوں کے بجائے اخلاقی معیاروں کی پاسداری مطلوب ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنانے کی ٹھان لے تو نہ میاں کو بیوی سے شکوہ ہوگا اور نہ بیوی کو میاں سے۔

ایک شخص اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے گھر گیا، گھر کے اندر سے عورت کے عمر رضی اللہ عنہ کو ڈانٹنے کی مسلسل آواز آرہی تھی، جبکہ عمر رضی اللہ عنہ ساکت وخاموش کھڑے تھے، پلٹ کر کوئی جواب بھی نہیں دے رہے تھے، میں نے سوچا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ جو اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں اور امیر المؤمنین بھی ہیں، ان کا یہ حال ہے کہ پھر میرا کیا حال ہوگا؟ تو میں واپس چل پڑا، اچانک عمر رضی اللہ عنہ گھر سے نکلے تو مجھے دیکھ کر پکارا کہ بھائی مجھ سے کوئی کام تھا؟ تو میں نے عرض کیا کہ جناب! میں اپنی بیوی کی بد اخلاقی اور زبان درازی کی شکایت کرنے آیا تھا، مگر آپ کے گھر کا حال بھی ویسا ہی دیکھا، تو پلٹ پڑا اور سوچ کر صبر کرلیا کہ اگر امیر المؤمنین کا حال یہ ہے تو پھر اپنی کوئی بات نہیں، فرمایا: بھتیجے میں یہ سب اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ اس کے میرے اوپر بہت احسان ہیں، یہ میرے لیے سالن بناتی ہے، روٹی پکاتی ہے، کپڑے دھو دیتی ہے، میرے بچوں کو دودھ پلاتی ہے، اور ان میں سے کوئی کام اس پر واجب نہیں ہے، پھر میرا دل اس کے ذریعہ حرام سے بچتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے، اس لیے میں اس کی باتیں برداشت کرلیتا ہوں، آدمی نے کہا: امیر المؤمنین یہ سارے کام تو میری بیوی بھی کرتی ہے تو آپ نے فرمایا: برداشت کرو بھائی! یہ تھوڑی سی مدت کا تو ساتھ ہے۔