والدہ بچوں کی زندگی میں باد صباء کی مانند ہے۔جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیف اٹھاتی ہے۔ ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، ماں شفقت خلوص بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے اس کا سایہ ہمارے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہے اس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی دنیا میں پیدا نہیں ہوئی اور اس کی محبت میں کبھی کمی نہیں آتی ہے احادیث مبارکہ کی روشنی میں والدہ کی فر نبرداری کے بارے میں پانچ حدیثیں ذکر کرتا ہوں پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے:

(1) سب سے زیادہ حسن محبت کا مستحق: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔ سب سے زیادہ حسن محبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا پھر کون ؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری کتاب الادب، باب من احق الناس بحسن الصحبة 93/4، الحديث (5971)

(2) کافرہ ماں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا، میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری کتاب الادب، باب صلة الوالد المشرك: 96/4، الحدیث: 5978)

(3) ماں کے ساتھ بھلائی کرنا جنت میں لے گیا: حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے ؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔ (شعب الایمان،الحدیث 7851)

(4) ماں کی نافرمانی حرام ہے:حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام کر دیا ہے۔(صحیح بخاری حدیث 3183، ج 2، ص 371)

(5)جنت ماں کے قدموں کے نیچے:فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ یعنی ان سے بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔(مسند الشهاب، ج 1,ص 102, حدیث 119)

اللہ عزوجل ہمیں اپنی والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے کئی رشتے بنائے ہیں۔ان سب رشتوں میں سب سے گہرا اور محبت بھرا رشتہ ماں کا رشتہ ہے۔ماں وہ عظیم ہستی ہے کہ انسان اپنی ماں کی خدمت کر کے، اس کو راضی کر کے دنیا و آخرت میں بہت کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔ماں دنیا کے میٹھے ترین کلمات میں سے ایک کلمہ ہے۔ ماں خلوص محبت شفقت کا مظہر ہوتی ہے۔

احادیث کریمہ میں کئی مقامات پر ماں کی شان اور اس کی فرمانبرداری کے فضائل کو بیان کیا گیا ہے،ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

(1)جنت ماں کے قدموں کے نیچے:پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مشورہ لینے کو حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تیری ماں ہے؟ عرض کی، ہاں۔ فرمایا:اس کی خدمت لازم کرلے کہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، حدیث 15538)

(2)زیادہ حسن سلوک کا حقدار کون؟حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ اُس نے عرض کی: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ اُس نے عرض کی: پھر کون۔ فرمایا: تمہارا باپ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا؛ تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہار اباپ، پھر تمہارا قریبی، پھر قریبی۔(مشکاة المصابیح، حدیث:741)

(3)اگر ماں نہ ہوتو خالہ سے اچھا سلوک کرو: ایک شخص نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں نے بہت بڑا گناہ کرلیا ہے تو کیا میری توبہ ہوسکتی ہے؟ فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ عرض کی: نہیں۔ فرمایا: کیا تیری کوئی خالہ ہے؟ عرض کی: ہاں۔ فرمایا: اس سے اچھا سلوک کرو۔(سنن ترمذی حدیث 1904)

(4)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی چادر بچھا دی: روایت ہے حضرت ابو طفیل سے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مقام جعرانہ میں گوشت تقسیم فرماتے دیکھا کہ ایک بی بی صاحبہ آئیں حتی کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قریب ہوگئیں تو حضور نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی وہ اس پر بیٹھ گئیں میں نے کہا یہ کون ہیں لوگوں نے کہا یہ حضور کی وہ ماں ہیں جنہوں نے حضور کو دودھ پلایا ہے۔{مشکاة المصابیح }

(5)والدین کی زیارت سے مقبول حج کا ثواب:رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ نہیں ہے کوئی اپنے ماں باپ سے بھلائی کرنے والا لڑکا جو اپنے والدین کو ایک نظر رحمت سے دیکھے مگر الله اس کے لیے ہر نظر کی عوض مقبول حج لکھتا ہے عرض کیا کہ اگرچہ ہر دن سو بار دیکھےفرمایا ہاں الله بہت بڑا اور بہت پاک ہے۔ {مشکاة المصابیح }

6:اس شخص کی ناک خاک آلود ہو: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ فرمایا:اُس کی ناک خاک آلود ہو۔ کسی نے پوچھا:یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کون؟ ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا۔{صحیح مسلم حدیث 2551}

7:دنیا میں ہی سزا حضرت ابی بکرہ سے روایت ہے، رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:تمام گناہوں میں سے الله جو چاہے بخش دے گا سوا ماں باپ کی نافرمانی کے کہ اس شخص کے لیے موت سے پہلے زندگی میں ہی سزا دیتا ہے۔{مشکاة المصابیح }

اللہ کریم ہمیں بھی اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائےاوران کے تمام حقوق کو بجا لانے اور ان کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو الله پاک نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان نعمت والدۂ محترمہ بھی ہیں۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔

ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت دونوں جہان میں اپنا خاص فضل فرماتا ہے،اوروالدین کی خدمت وفرمانبرداری کرنے والوں کو اکثر دنیا میں بہت آرام،سکون،خوشیاں اور مال و دولت نصیب ہوتا ہےاور آخرت میں تو اس کے وارے ہی نیارے ہیں۔

جنت کی چوکھٹ:ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ماں کی خدمت وفرمانبرداری کرنا جہاد سے بھی افضل عبادت ہے۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں اور میں اس معاملے میں آپ کی اجازت لینے آیا ہوا ہوں۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیری والدہ زندہ ہے ؟عرض کی:جی ہاں! فرمایا ہمیشہ اس کے قدموں سے چمٹے رہو کیونکہ اس کے قدموں میں جنت ہے۔ اس شخص نے یہ بات تین بار عرض کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ویسے ہی جواب ارشاد فرمایا۔(مجمع الزوائد،جلد8،صفحہ137)

ایک اور حدیث شریف میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

علّامہ علی بن محمد خازن رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت و فرمانبرداری نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے والدین کی زندگی ہی میں ان کی قدر اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری کرلیں یہ نہ ہو کہ بعد میں پچتاوا ہو۔

الله کریم کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور جن کی والده اس دنیا فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ (24) ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:24)

اس آیاتِ مُبارَکہ کے تحت حضرت علّامہ مَولانا سَیِّدْ مُفتی محمد نعیمُ الدِّین مُراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب والِدَین پر ضُعْف (کمزوری) کا غَلَبہ ہو، اَعضاء میں قُوَّت نہ رہے اور جیسا تُو بچپن میں اُن کے پاس بے طاقت تھا ایسے ہی وہ آخرِ عُمْر میں تیرے پاس ناتُواں(کمزور)رہ جائیں۔ اِس لئے بندے کو چاہئے کہ بارگاہِ اِلٰہی میں اُن پر فَضْل و رَحمت فرمانے کی دُعا کرے اور عَرض کرے کہ یاربّ!میری خدمتیں اُن کے اِحسان کی جَزا (بدلہ)نہیں ہو سکتیں تُو اُن پر کرم کر کہ اُن کے اِحسان کا بدلہ دے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ماں ہی وہ مہربان ہستی ہے جو اَولاد کے لئے رو رو کر دُعائیں کرتی ہے،ماں کی دُعا جنّت میں لے جاتی ہے، ماں کی دُعاربِّ کریم کا فرمانبردار بناتی ہے،ماں کی دُعا بُرائیوں سے بچاتی ہے،ماں کی دُعا اَولاد کو مقامِ وِلایت تک پہنچا دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

والدہ کی فرمانبرداری پر پانچ آحادیث ملاحظہ فرمائیں

اَلْحَدِيْثُ الْاَوَّلُ:

وَعَنْ ابی ہریرة رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ اِلٰى رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِيْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ قَالَ: اَبُوْكَ ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نےعرض کی: ’’ پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ارشادفرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ ارشادفرمایا: ’’تمہارا باپ۔(مسلم: کتاب البر والصلة والآداب، جلد4/رقم:2548)

اَلْحَدِيْثُ الثَّاْنِى:

عن ابي هريرة لَوْ ادرَكْتُ وَالِدَيّ اوْ احَدَهُما وَقَدْ افْتَتَحْتُ صَلاةَ العشَاء وَقَرَأتُ الفَاتِحَةَ فَدَعَتْنِى امَّى يَا مُحَمَّدُ لاجَبْتُها لَبَّيكِ ترجمہ: حضرت ابو ہريره سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر میں اپنے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی پاتا اور میں نماز عشاء کو شروع کر کے فاتحہ بھی پڑھ چکا ہوتا تو میری ماں مجھے پکارتی (یَا مُحَمَّدُ) اے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تو ضرور میں جواب میں کہتا: لبیک۔ اے میری ماں میں حاضر ہوں۔(جامع لکبیر للسیوطی، 75/7، رقم: 17847)

اَلْحَدِيْثُ الثالث:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ رَجُلٍ يَنْظُرُ اِلَى اُمِّهِ رَحْمَةً لَهَا اِلَّا كَانَتْ لَهُ بِهَا حَجَّةٌ مَقْبُولَةٌ مَبْرُورَةٌ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاِنْ نَظَرَ اِلَيْهَا فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ قَالَ وَاِنْ نَظَرَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ اَلْفِ مَرَّةٍ فَاِنَّ اللَّهَ اَكْثَرُ وَاَطْيَبُ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنی ماں کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھے مگر یہ کہ اس کے لیے اسی فعل کی وجہ سے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، عرض کی کہ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ اگرچہ اس کی طرف دن میں 100 مرتبہ بھی دیکھے تو مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ دن میں ایک لاکھ مرتبہ بھی دیکھے تو بھی مقبول حج کا ثواب ملے گا۔(البر والصلۃ لامام ابن جوزى 68/1 رقم: 48)

اَلْحَدِيْثُ الرابع:

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ اَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ اِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اَرَدْتُ اَنْ اَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ اَسْتَشِيرُكَ فَقَالَ هَلْ لَكَ مِنْ اُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَالْزَمْهَا فَاِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا ترجمہ: معاویہ بن جاہمہ سلمی سے روایت ہے کہ جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔(حدیث سنن نسائی: رقم الحديث: 3104)

مدنی پھول:

(1)حضرتِ سَیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ والدین کے ساتھ اچھائی کس طرح کی جائے؟ فرمایا: تمہاری ملکیت میں جو کچھ ہے اسے والدین پر خرچ کرو اور معصیت کے علاوہ ہر بات میں ان کی اطاعت کرو۔

(2)والدین بوڑھے ہوں یا جوان ہر حال میں ان کی خدمت کرنی چاہیے البتہ جوانی کے مقابلے بڑھاپے میں وہ خدمت کے زیادہ حق دار ہیں۔

(3) بوڑھے والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لینی چاہئیں کہ بوڑھے کی دعا رب تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔

(4) بوڑھے والدین کی سخت باتوں پر بھی صبر کرنا چاہیے اور ان کی سختی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔

والدین کا دل دُکھانے والا اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتاہے اور آخرت میں بھی عذابِ نار کاحق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)

اللہ پاک نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیونکہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ پاک ہے اور ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں۔اس وجہ سے اللہ پاک نے پہلے اپنی تعظیم کا حکم ارشاد فرمایا پھر والدین کی تعظیم کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔احادیثِ مبارکہ میں بھی ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم موجود ہے۔

سب سے زیادہ احسان کی مستحق:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں۔

جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں: بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے متعلق خدا کی نافرمانی کرتا ہے، اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے کہا، اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں ؟ فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، باب في برالوالدین، فصل في حفظ حق الوالدین بعد موتھما، فصل، الحدیث: 7916،ج 6، ص 206۔)

ماں کے قدم کے پاس جنت: ایک صحابیِ رسول حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی، یارسول اللہ! (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے مشورہ لینے کو حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا: تیری ماں ہے؟ عرض کی، ہاں۔ فرمایا:اس کی خدمت لازم کرلے کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، حدیث معاویۃ بن جاھمۃ،الحدیث: 15538،ج 5، ص 290۔)

کافر ماں سے بھی نیک سلوک: صحیح بخاری و مسلم میں اسماء بنتِ ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے مروی، کہتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)سے معاہدہ کیا تھا میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یارسول اﷲ!(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا:اس کے ساتھ سلوک کرو۔یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی سلوک کیا جائے گا۔(صحیح البخاری،کتاب الجزیۃ والموادعۃ، الحدیث: 3183 ،ج 2،ص 371)

اللہ پاک ہمیں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور والدین کی نافرمانی سے بچائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اس دنیا میں ہر انسان کا وجود اس کے والدین کے سبب سے ہے، والدین میں سے ہر ایک ہی عزت و تعظیم کے لائق ہیں، دونوں کے ہی بہت حقوق ہیں مگر ایک اعتبار سے والدہ کا حق والد پر مقدم ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔ (لقمان: 14)

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:ماں کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے: یہاں ماں کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی،دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں رکھا،تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا،اس سے معلوم ہوا کہ ماں کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ماں کی باپ سے تین درجے زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں آکر عرض کی:میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایاتمہاری ماں۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، ’’تمہاری ماں ‘‘،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں۔“عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاراباپ“۔(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

ماں کاحق باپ کے حق پرمقدم ہے: اعلیٰ حضرت، مُجدّدِدین وملت،شاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:اولاد پرماں باپ کا حق نہایت عظیم ہے اور ماں کاحق اس سے اعظم، قَالَ اللہ تَعَالٰی:وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-ترجمہ: اور ہم نے تاکید کی آدمی کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کی اسے پیٹ میں رکھے رہی اس کی ماں تکلیف سے اور اسے جنا تکلیف سے اور اس کاپیٹ میں رہنا اور دودھ چھٹنا تیس مہینے میں ہے۔

اس آیہ کریمہ میں رب العزت نے ماں باپ دونوں کے حق میں تاکید فرماکر ماں کو پھر خاص الگ کرکے گنا اور اس کی ان سختیوں اور تکلیفوں کو شمار فرمایا جو اسے حمل وولادت اور دوبرس تک اپنے خون کاعطر پلانے میں پیش آئیں جن کے باعث اس کاحق بہت اَشد واَعظم ہوگیا مگر اس زیادت کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں، دینے میں باپ پرماں کوترجیح دے مثلاً سوروپے ہیں اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر (یعنی ماں کو فضیلت دینے میں رکاوٹ) نہیں توباپ کو پچیس دے ماں کو پچھتر، یاماں باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا توپہلے ماں کو پلائے پھرباپ کو، یادونوں سفر سے آئے ہیں پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھرباپ کے، وَ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاس۔ (فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، 24/387-390، ملتقطاً)

اسی طرح احادیث میں بھی والدہ کی فرمابرداری کے متعلق فرمایا گیا ان میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:

(1) ایک شخص نے عرض کیا یارسول الله میرے اچھے برتاوے کا زیادہ حقدار کون ہے فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہارا باپ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہار اباپ پھر تمہارا قریبی پھر قریبی۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6، حدیث نمبر:4911)

(2) حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اس کے ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کی حق میں وصیت کرتا ہوں اس کے باپ کے حق میں۔ (المسند جلد 6،صفحہ: 463 حدیث: 18812)

(3)اپنے ماں باپ کی نافرمانی نہ کرو اگرچہ وہ تمہیں اپنے گھر بار اور مال سے نکل جانے کا حکم کریں۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ، حدیث نمبر:61)

(4) جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشہاب103/1 حدیث: 119)

(5) جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما گویا جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو چوما۔

حضرت عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت استاذ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی میں نے رات خواب میں دیکھا کہ آپ کی داڑھی جواہر و یاقوت سے مرصع (یعنی سجی ہوئی) ہے۔ تو آپ نے جواب دیا تو نے سچ کہا ہے کیونکہ رات میں نے اپنی ماں کے قدم چومے تھے۔

(6) ماں باپ تیری دوزخ اور جنت ہیں۔ (ابن ماجہ:1،86/4 حدیث:3662)

یعنی تیرے ماں باپ تیرے لیے جنت دوزخ میں داخلہ کا سبب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کر کے دوزخی۔ (مراة المناجیح،540/6)

(7) جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ پاک اس کے لئے ہر منظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: اگر چہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے؟ فرمایا نعم اللہ اکبر و اطیب یعنی ہاں اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ پاک ہے۔ (شعب الایمان،186/6 حدیث 7856)

(8)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آخری نبی، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا میں جنت میں گیا تو میں نے تلاوت قرآن کی آواز سنی میں نے پوچھا: یہ کون ہے ؟ جواب دیا گیا: یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ بھلائی ایسی ہوتی ہے بھلائی ایسی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے زیادہ اچھا سلوک کرنے والے تھے۔ (مشکاة المصابیح،206/2 حدیث: 4926)

والدہ کی فرمانبرداری میں جو کردار ہمارے اسلاف کا رہا اس کی مثال وہ خود ہیں۔ چنانچہ حضرت بایزید بِسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سردیوں کی ایک سخت رات میری ماں نے مجھ سے پانی مانگا، میں گلاس بھر کر لے آیا مگر ماں کو نیند آگئی تھی، میں نے جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پانی کا گلاس لئے اس انتظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا۔ کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو چکی تھی اور گلاس سے کچھ پانی بہ کر میری انگلی پر جم کر برف بن گیا تھا۔ بہر حال جب والدہ محترمہ بیدار ہوئی تو میں نے گلاس پیش کیا برف کی وجہ سے چپکی ہوئی انگلی جوں ہی پانی کے گلاس سے جدا ہوئی ان کی کھال ادھڑ گئی اور خون بہنے لگا، ماں نے دیکھ کر پوچھا: یہ کیا ؟ میں نے سارا ماجرا عرض کیا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! میں اس سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔(نزہۃ المجالس الجز الاول 261/1)

اللہ پاک سب مسلمانوں کو اپنے والدین کا فرما نبردار بنائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انسان کو اللہ تعالیٰ نے کائنات میں افضل اور اشرف مخلوق بنایا ہے۔ اور والدین کو انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنایا ہمارا وجود والدین کی وجہ سے ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بھی والدین کے ساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ پارہ 15 سورۃ بنی اسرائیل آیت 15 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23) ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا اسی کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرو اور اُف تک بھی نہ کہو،اور ماں کی فرمانبرادری کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن پاک پارہ 21 سورۃ لقمان آیت 14 میں ارشاد فرماتاہے: وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(14) ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اُس کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے۔

احادیث میں والدین میں والدہ کا مقام و مرتبہ اور اس کی تعظیم زیادہ رکھی گئی ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آئی اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ میں کس کے ساتھ نیکی کروں تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ اس نے پھر کہا کس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے پھر عرض کی حضور کس کے ساتھ تو نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنے والد کے ساتھ۔( مجمع الزوائد ج 8 ص139 )

(2) حضرت طلحہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی پاک کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اللہ پاک کی راہ میں جہاد کرنے کا ارداہ رکھتا ہوں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے میں نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا اپنی ماں کے قدموں سے چمٹے رہو وہی تمہاری جنت ہے۔ (مجمع الزوائد ج 8ص 138 )

(3) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اپنی ماں کے پیروں سے چمٹے رہو جنت وہی ہے۔( کنزالعمال ج 16 ص 463)

(4) ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گَردن پر سُوار کرکے چھ (6) مِیل تک لے گیاہوں،کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار، مکی مدنی سرکارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَردکے جس قَدَر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں،شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(ابن ماجہ، کتا ب الادب، باب بر الوالدین 4/186،رقم:3662)

لہٰذا ہمیں اپنے ماں باپ کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ہمیں ان احادیث سے یہ درس ملتا ہے کہ سب سے زیادہ جس کی تعظیم و فرمانبرداری کی جائے وہ ماں ہے اور ماں کا حق مقدم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اولاد کی تربیت حمل، وضع حمل، اور پرورش کے دیگر مراحل طے کرنے میں ماں کو زیادہ مشقت ہوتی ہے ۔

اللہ عزوجل کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! والدین وہ ہستی ہیں کہ جو خود مشقتیں برداشت کرکے بھی اپنے بچوں کو پالتے پوستے ہیں ان کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں اگر بچہ تکلیف میں ہو تو اس کے والدین بھی بے چین ہوجاتے ہیں اسے طبیبوں اور حکیموں کے پاس لئے پھرتے ہیں غرض کہ جس قدر ممکن ہوتا ہے اپنی اولاد کو آرام و سکون فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

بالخصوص ماں کی بچوں پر شفقت اور بچوں سے پیار کے تو کیا کہنے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو خود بھوکی رہتی ہے لیکن اپنے بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔ خود گیلے بستر پر سو جاتی ہے لیکن اپنے بچوں کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔یہ ماں ہی ہوتی ہے کہ جو اپنے بچے کی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرنا شروع کر دیتی ہے اسی وجہ سے ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے کیونکہ بچہ سیکھنے کی ابتداء اپنی ماں کی گود سے ہی کرتا ہے اور اس کی ماں ہی اس کی پہلی استانی ہوتی ہے کہ جو اسے اچھے بُرے کی تمیز سکھاتی ہے اسے اس دنیا میں موجود اشیاء کی پہچان کرواتی ہے۔

لہٰذا والدہ کا مقام و مرتبہ احادیث کریمہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں دعا ہے کہ اللہ پاک حق سچ لکھنے کی توفیق عطا فرمائے

احادیثِ کریمہ:-

(1) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اَلجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّھَاتِ یعنی جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔(مسند الشھاب، ج١، ص ١٠٢، حدیث ١١٩)یعنی: ان سے بھلائی کرنا، ان کا کہا ماننا، اور ان کے آگے اُف تک نہ کہنا جنت میں داخلے کا سبب ہے۔بہارِ شریعت میں صدرالشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے، حدیث مبارکہ میں ہے: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا۔(بہارِ شریعت، حصہ ١٦، صفحہ ٨٨)لہٰذا جن خوش نصیبوں کے والدین حیات ہیں ان کو چاہئے کہ روزانہ کم از کم ایک بار ان کے ہاتھ پاؤں ضرور چوما کریں۔

(2) سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رحمت نشان ہے: جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کیلئے ہر نظر کے بدلے حجِّ مبرور (یعنی مقبول حج) کا ثواب لکھتا ہے۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: اگرچہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے! فرمایا: نَعَمْ اللہ اکْبَرُ و اطْیَبُ یعنی ہاں اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے اور اطیَب (یعنی سب سے زیادہ پاک) ہے۔ (شُعَبُ الایمان، ج ٢، ص ١٨٦، حديث ٧٨٥٦)

یقینًا اللہ پاک ہر شے پر قادر ہے، وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے، ہر گز عاجز و مجبور نہیں لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف 100 بار بھی رحمت کی نظر کرے تو وہ اُسے مقبول حج کا ثواب عنایت فرمائے گا سو جن کے والدین حیات ہیں انہیں چاہیے کہ بغیر کسی خرچ کے بالکل مفت ثواب کا خزانہ حاصل کریں، خوب ہمدردی اور پیار و محبت سے ماں باپ کا دیدار کریں۔

(3)والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں ان سے سَبُکدوش (یعنی بریُّ الذّمہ) ہونا ممکن نہیں ہے چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ (6) میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے حُقُوق سے فارِغ ہوگیا ہوں؟ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قدر جھٹکے اُس نے اُٹھائے ہیں شاید اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔(اَلمُعجَمُ الصَّغِیر لِلطّبَرانی، ج ١، ص ٩٢، حديث ٢٥٦)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقعی ماں نے اپنے بچے کیلئے سخت تکلیفیں اٹھائی ہوتی ہیں، دردِ زِہ یعنی بچے کی ولادت کے وقت ہونے والے درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔

میرے آقا اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: عورت کو صدہا مصائب کا سامنا ہے، نو (9) مہینے پیٹ میں رکھتی ہے کہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، پھر پیدا ہوتے وقت تو ہر جھٹکے پر موت کا پورا سامنا ہوتا ہے، پھر اَقسام اَقسام کے درد میں نِفاس والی (یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کی تکلیف میں مبتلا ہونے والی) کی نیند اُڑ جاتی ہے۔

اسی لئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان: اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے ہے۔(پارہ ٢٦، الاحقاف، ١٥)

تو ہر بچے کی پیدائش میں عورت کو کم از کم تین برس بامَشَقَّت جیل خانی ہے۔ مرد کے پیٹ سے اگر ایک دفعہ بھی چوہے کا بچہ پیدا ہوتا تو عمر بھر کو کان پکڑ لیتا۔(فتاویٰ رضویہ، ج ٢٧، ص ١٠١، رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاھور)

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ اپنے والدین خصوصًا والدہ کی قدر کریں ان کی خدمت میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے اُسے بجا لائیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتَمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو اور اسلامی بہنو! والدین بہت عظیم ہستیاں ہیں۔ والدین کا جتنا ہو سکے ادب کرنا چاہیے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا چاہئے احادیث مبارکہ میں والدین کی فرمانبرداری کی اہمیت بیان کی گئی یہاں ہم والدہ کی فرمانبرداری کے متعلق چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں!

حضرت سیدنا ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی: الله عزوجل کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ پسندیدہ ہے ؟ ارشاد فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے عرض کی: پھر کون سا ہے ؟ ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ (فیضان ریاض الصالحین جلد: 3 حدیث: 314)

حضرت سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ ارشاد فر مایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی، پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر عرض کی کہ پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ اور ایک روایت میں یوں ہے اس شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ پھر تمہارا قریبی۔ پھر تمہارا قریبی۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 حدیث:316)

ماں کا حق زیادہ ہونے کا سبب اور معنی: ماں کا حق زیادہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ بچے کی ولادت اور حمل و غیرہ کے سلسلے میں ماں انتہائی سختیاں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے۔ ماں کا حق زیادہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدمت کرنے اور دینے میں ماں کو باپ پر ترجیح دی جائے گی جیسےکوئی چیز دونوں کو دینی ہو تو پہلے ماں کو دے، یہ نہیں کہ ماں باپ میں جھگڑا ہو تو ماں کی طرف داری میں باپ کو اذیت و تکلیف دینا شروع کر دے، البتہ تعظیم میں باپ مقدم ہے۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


محترم پیارے اسلامی بھائیو الله پاک نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت والده بھی ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ماں کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ اور جو شخص ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے وہ دنیا میں شاد و آباد رہنے کے ساتھ ساتھ وہ عزتيں اور رفعتیں بھی پاتا ہے۔

آئیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کی روشنی میں والده کی فرمانبرداری کے متعلق پڑھتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2) حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک 4/96 الحدیث 5978)

(3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

محترم اسلامی بھائیوآپ نے پڑھا کے والده کی اطاعت و فرمانبرداری کا کتنا اجر و ثواب ہے۔

الله کریم کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور جن کی والده اس دنیائے فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو عورت ماں کے روپ میں وہ عظیم ہستی ہے کہ جس کا وجود باعث برکت ہے۔ جو گھر کی زینت ہے۔ گھر کا سکون جس کے دم سے قائم رہتا ہے۔ جسے محبت کے ساتھ دیکھنے سے حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔جس کی خدمت رضائے الٰہی کا سبب ہے اور جس کے بغیر گھر اجڑا ہوا چمن لگتا ہے۔ ماں کے احسانات کی کوئی حد نہیں۔ ماں تکلیفوں پر صبر کرتی ہے۔ آئیے ہم ماں کی فرمانبرداری احادیث کی روشنی میں پڑھتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2)حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

(3)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہاپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ ماں کی فرمانبرداری کا حکم نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے۔

ایک صحابی رضی الله عنہ نے حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کے اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے گیا ہوں۔ کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ؟ الله کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔ (معجم صغیر جلد 1 صفحہ 92 حدیث 257)

الله کریم کی بلند بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے الله ان کا سایہ ہم پر قائم و دائم فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

محترم پیارے اسلامی بھائیو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت والده بھی ہے۔ ہمیں ایسی نعمت کی قدر کرتے ہوئے الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔ اور جو شخص ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے وہ دنیا میں شاد و آباد رہنے کے ساتھ ساتھ وہ عزتيں اور رفعتیں بھی پاتا ہے۔

آئیں حدیث مبارکہ میں والدہ کی شان و عظمت کے متعلق احادیث مبارکہ سنتے ہیں۔

(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث: 5971)

(2)حضرت اسماء رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث: 5978)

یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

3) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)

اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہاپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث: 7851)

محترم اسلامی بھائیوآپ نے پڑھا کے والده کی اطاعت و فرمانبرداری کا کتنا اجر و ثواب ہے۔

الله کریم کی پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اور جن کی والده اس دنیائے فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔