اسلام میں ماں کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس بات کا اندازہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے فرمان” جنت ماں کے قدموں تلے ہے “ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے بھی اُن کو اُف تک کہنے سے منع فرمایا ہے۔ ماں کی عظمت کے متعلق چند فرامین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم درج ذیل ہیں:

(1) حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی لوگوں میں سب سے زیادہ میرے حسن سلوں کا حقدار کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیری ماں پھر عرض کی کون ؟ ارشاد فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کی کون؟ ارشاد فرمایا: تیری ماں۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، ص1378 احدیث2527)

(2) باپ کے حکم سے فضلیت والا حکم: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی حالت میں ماں باپ تمہیں بلائیں تو ماں کے بلانے پر چلے جاؤ اور باپ کے بلانے پر نہ جاؤ۔ (کنز العمال، ج16ص470)

(3) صلہ رحمی کرنا: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے فرماتی ہیں رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں آئی اور اس وقت وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی میری ماں میرے پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔ (بخاری۔ کتاب الهبۃ وفضلها جلد 2 صفحہ 182 حدیث۔2625)

(4)جہاد فی سبیل اللہ سے افضل‌‌: حضرت طلحہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ رکھتا ہوں حضور نے فرمایا تمہاری ماں زندہ ہے میں نے عرض کی جی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اس کے پاؤں سے چمٹے رہو وہی جنت ہے۔ (مجمع الزوائد ج 8 ص 138)

(5)جہنم سے حجاب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کےدرمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کیلے جہنم سے حجاب ہے ۔ (کنز العمال جلد 16 صفحہ 462)

آج کل ہمارے معاشر میں ماں کی نافرمانی عام ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ماں کی نافرمانی سے بچتے ہوئے اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا،ارشاد باری تعالٰی ہے:وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ۔اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)

تفسیر کبیر میں ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اِیجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں ا س لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا،پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ ا ٓیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب عَزَّوَجَلَّ نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو ۔ (تفسیرکبیر، الاسراء، تحت الآیۃ23، 7/321،323)

والدہ کی فرمانبرداری احادیث کی روشنی میں آپ بھی پڑھئے اور علم میں اضافہ کیجئے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسنِ صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ ارشاد فرمایا:’’تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 4/93، الحدیث5971)

حضرت اسماء رضی اللہ عنھافرماتی ہیں’’جس زمانہ میں قریش نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: ’’اس کے ساتھ سلوک کرو۔(بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک، 4/96، الحدیث 5978)یعنی کافرہ ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث :3312 ، اور شعب الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ ’’ حارثہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184، الحدیث7851)

حضرت ابو اسید بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(کنز العمال، حرف النون، کتاب النکاح، قسم الاقوال، الباب الثامن فی برّ الوالدین، 8/192، الحدیث45441، الجزء السادس عشر)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏ نے ارشاد فرمایا ’’تین شخص جنت میں نہ جائیں گے (1)ماں باپ کا نافرمان (2)دیّوث (3)مَردوں کی وضع بنانے والی عورت۔(معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: ابراہیم، 2/43، الحدیث: 2443)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


والدین اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہے۔اسلام میں والدین کے حقوق کو اولین درجہ دیا گیا ہے۔ اولاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھے۔ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی وحدانیت کے ساتھ والدین کی فرمانبرداری کا حکم ارشاد فرمایا اور متعدد احادیث میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے والدین کی فرمانبرداری کا حکم فرمایا ہے: والدین کی رضا رب العزت کی رضا حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے والدین کی رضا کو رب تعالیٰ کی رضا قرار دیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:58)

والدہ کی طرف پیار سے دیکھنا: والدہ کی طرف رحمت کی نظر کرنا عبادت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بیٹا والدہ کی طرف پیار بھری نظر کرے تو ہر نظر پر اسے ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی اگرچہ وہ دن میں سو(100) مرتبہ نظر کریں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں اللہ عزوجل بڑا اور پاک ہے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:59) یعنی اللہ رب العزت کے ہاں اجر کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر بیٹا سو (100) مرتبہ دیکھے گا تو سو 100 حج کا ثواب ملے گا۔

جہنم کی آگ سے حفاظت : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آڑ بن جائے گا۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:60)

والدہ کے پاؤں تلے جنت: جنت کو ماں کے پاؤں کے نیچے قرار دیا یعنی ماں کی خدمت پر جنت کی بشارت ہے، چنانچہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی: میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے اجازت لینے آیا ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہے؟ اس نے عرض کی ہاں۔ فرمایا: چلا جا اور اس کی خدمت کر بے شک جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:60)

ایک جھٹکے کا بدلہ :اولاد کے لیے والدہ کے حقوق کی مکمل ادائیگی ناممکن ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت ان پر ڈالا جاتا کباب ہو جاتا میں میل تک اپنی والدہ کو گردن پر سوار کر کے لے گیا ہوں کیا میں اب اس کے حق سے بری ہو گیا؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور، ص:62)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر والدہ کی فرمانبرداری کا حکم ہوا ہے اور دیگر احادیث مبارکہ کے اندر والدین کے نافرمان کی مغفرت نہ ہوگی۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے ماں باپ کا فرمانبردار بنائے اور ان کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


آج ہمارے معاشرے میں بہت سے گناہ عام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے انسان خسارے میں پڑتا جا رہا ہے اس میں سے ایک گناہ والدہ کی نافرمانی بھی عام ہو چکی ہے جس کو لوگ عام سمجھتے ہیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر فرمایا گیا کہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو میں کچھ احادیث کریمہ والدہ کی فرمابرداری کے بارے میں آپ کی نظر کرتا ہوں۔

(1)والدہ کی خدمت کرنا: حضرت معاویہ بن جاہمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت سیدنا جاہمہ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کرنے کا ارادہ ہوا تو میں مشورہ لینے آپ کی بارگاہ میں چلا آیا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تیری ماں ہے عرض کی جی ہاں! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تم اس کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیوں کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے (حوالہ نمبر: سنن النسائی کتاب الجہاد٬باب فضل من یجاھد فی سبیل اللہ٬ج٬6ص11)

(2)زیادہ مستحق کون:حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی کہ میری اچھی خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی پھر کون حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس نے دوبارہ عرض کی پھر کون حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہاری ماں: اس نے دوبارہ عرض کی پھر کون! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارا باپ۔(صحیح بخاری کتاب الآداب ٬باب من احق الناس بحسن الصبح193/4٬الحدیث5971)

(3)کاش میری ماں زندہ ہوتی: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کاش میری ماں زندہ ہوتی اور میں عشاء کی نماز کے لیےمصلے پر کھڑا ہوتا اور سورۃ فاتحہ شروع کر چکا ہوتا٬اُدھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری پکارتی محمد تو میں ان کے لیے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا لبیک اے ماں۔ (شعب الایمان)284/10)

(4)جنت ماں کے قدموں تلے: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔( صفحہ نمبر 45 جلد نمبر ٬7 شرح صیحح مسلم)

(5)قدموں میں چمٹے رہو: حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنی ماں کے پیروں ساتھ چمٹے رہو وہیں جنت ہے ۔ (حوالہ نمبر: صفحہ نمبر ٬45 جلد نمبر ٬7 شرح صحیح مسلم)

ان احادیث کریمہ کو ہمیں غور سے پڑھنا چاہیے اوراس پر عمل کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین!

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شاد مانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں ہر انسان چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیے قابلِ قدر ہے۔

1۔ پیار بھری نظر کا ثواب: شعب الایمان کی حدیث پاک ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو بیٹا والدہ کی طرف پیار بھری نظر کرے تو ہر نظر پر اسے ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا صحابہ کرام علیم الرضوان نے عرض کی اگر چہ وہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے ? آپ علیہ السلام نے فرمایا:ہاں اللہ عزوجل بڑا اور پاک ہے (یعنی اس کے ہاں اجر کی کمی نہیں ہے) سو مرتبہ دیکھے گا تو سو حج کا ثواب ملے گا۔(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام، صفحہ59، مکتبہ اشاعتہ الاسلام لاہور)

ماں کو پیار سے دیکھنے کا کتنا ثواب ملتا ہے انسان حج کرنے جاتا ہے لیکن اس کو پتا نہیں ہوتا کہ حج مقبول ہے یا نہیں اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنی پیاری بشارت عطار فرمائی ہے اللہ پاک ہمیں دیکھنا نصیب فرمائے آمین۔

2۔ دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دینا کا ثواب: شعب الایمان کی حدیث پاک ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آڑ بن جائے گا ۔ (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ60، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

دیکھے اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنی پیاری فضلیت ارشاد فرمائی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ماں بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے اللہ پاک یہ نعمت سب کو عطا فرمائے آمین

3۔جنت کی بشارت: جنت کو ماں کے پاؤں کے نیچے قرار دیا یعنی ماں کی خدمت پر جنت کی بشارت ہے چنانچہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے اجازت لینے آیا ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہے?اس نے عرض کی ہاں فرمایا: چلا جا اور اس کی خدمت کر بےشک جنت اس کے پاؤں کے نیچے ہے (صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ 60، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

4۔ والدین سے حسن سلوک : اخروی فوائد کے ساتھ ساتھ والدین سے حسن سلوک دنیا میں بھی فائدہ مند ہے چنانچہ مسند احمد کی حدیث پاک حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ ہو تو وہ والدین سے حسن سلوک کرے اور صلہ رحمی کرے(صلہ رحمی اور قطع تعلقی کے احکام،صفحہ61، مکتبہ اشاعت الاسلام لاہور)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بہت ہی خوبصورت اور انمول نعمت ہے، اس کی اصل خوبصورتی اور رونق والدین کے دم سے ہے۔گلاب جیسی خوشبو،سچائی کا پیکر،لازوال محبت و شفقت اور قربانی جیسے الفاظ یکجا ہو جائیں تو دو الفاظ بن جاتے ہیں ماں اور باپ۔

اسلام نے حقوق العباد سے لے کر حقوق اللہ تک سب کے حقوق اور فرمانبرداری پر زور دیا ہے۔اور ان میں سے بھی خاص طور پر والدین اور ان میں سے والدہ پر خاص توجہ دی ہے۔ والدہ کی فرمانبرداری پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سے ارشادات ملتے ہیں۔جیسے اللہ کے محبوب، دانائے غیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ماں کی نافرمانی حرام ہے اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور بد سلوکی کو حرام کر دیا۔ (صحیح بخاری: حدیث: 2408)

ایک اور جگہ فرمایا: حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار تمہاری ماں ہے ۔ (صحیح بخاری: حدیث:5971)

ماں وہ ہستی ہے جس کے بارے میں قران سے لے کر حدیث تک بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔قران و حدیث کے ساتھ ساتھ اولیا ء کے اقول اور ان کی زندگی کے بہت سے واقعات بھی ملتے ہیں۔ایک واقعہ جو ایک شخص کا ہے جس کا نام حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔آپ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک دور پانے کے باوجود شرف صحابیت حاصل نہ کر سکے۔اور آپ کے شرف صحابیت حاصل نہ کرنے کی وجہ بیمار والدہ کی خدمت تھی ۔

صحابہ بھی حضرت اویس قرنی سے دعا کرواتے: حضرتِ سَیِّدُنا اُسَیْر بن عَمرو رضی اللہ عنہ جنہیں ابن جابر بھی کہا جاتا ہے، بیان کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جب یمنی مددگار مجاہدین کے قافلے آتے تو آپ ان سے دریافت فرماتے: ’’ کیا تم میں اُویس بن عامر ہیں؟ ‘‘ یہاں تک کہ (ایک قافلے میں) جب سیدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ اُن کے پاس پہنچے توسیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’کیا آپ اُویس بن عامر ہو؟ ‘‘ انہوں نے کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ قبیلہ مُراد اور قَرَن سے ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کو برص کی بیماری تھی جو ایک درہم کی جگہ کے علاوہ ساری ٹھیک ہوگئی؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘ فرمایا: ’’کیا آپ کی والدہ ہیں؟ ‘‘ کہا: ’’جی ہاں۔ ‘‘

سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے حضور نبی رحمت شفیع اُمَّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تمہارے پاس یمنی مددگار مجاہدین کے قافلوں کے ہمراہ اُویس بن عامر آئیں گے، وہ قبیلہ مراد اور (اس کی شاخ) قرن سے ہوں گے، انہیں برص کی بیماری تھی پھر ایک درہم کے برابر جگہ کے علاوہ ٹھیک ہوچکی ہوگی، اُن کی والدہ بھی ہوں گی اور وہ والدہ ساتھ نیکی کرنے والے ہوں گے، اگر وہ کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کی قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم ضرور پوری فرمادے گا، اگر تم سے ہوسکے تو ان سے اپنے لیے مغفرت کی دعا کروانا۔ لہٰذا آپ میرے لیے بخشش کی دعا کیجیے۔ چنانچہ حضرت سیدنا اُویس قرنی رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے لیے دعا مانگی۔ ‘‘ (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اویس القرنی رضی اللہ عنہ، ص1375، حدیث 2542۔)

حدیث مذکورہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالی عنہ کو وہ مقام عطا فرمایا کہ آپ سے صحابہ بھی آ کر آپ سے دعا کرواتے تھے۔اور یہ مقام آپ کو اپنی والدہ کی خدمت اور فرمانبرداری سے حاصل ہوا۔

والدہ کے حقوق کے متعلق تین فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں:

ماں کے قدموں میں جنت: ماں کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے۔ (مسند امام احمد، حدیث معاویۃ بن جاھمۃ، 5/290، حدیث: 15538۔)

والدہ کی خدمت کا صلہ: ماں کی خدمت میں اللہ کی اطاعت کرو جب تم ایسا کرو گے تو تم حاجی،معتمر اور مجاہد کا مرتبہ پالو گے۔ (معجم اوسط، 2/171، حدیث: 2915)

مرد پر سب سے زیادہ حق اس کی ماں کا ہے۔(مستدرک حاکم، کتاب البروالصلۃ، باب بِرّاُمّک۔۔۔ الخ، 5/208، حدیث: 7326)مذکورہ احادیث میں نبی رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ماں کی فرمانبرداری اور خدمت کرنے والے کو اللہ تعالی حاجی،معتمر(یعنی عمرہ کرنے والا)اور مجاہد کا مرتبہ عطا فرماتا ہے۔

اسی طرح ہمیں والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ایک اور حدیث نبوی ہے:

حسن سلوک کا مستحق کون؟: چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ایک صحابی ، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسولُ اللہ ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں ہے ۔ انھوں نے پوچھا: اس کے بعد کون ہے ؟ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پھر تمہارا باپ ہے ۔(صحيح البخاري، رقم الحديث 5971، وأيضاً صحيح مسلم، رقم الحديث 1 ۔ 2548)

بیان کی گئی تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ والدہ کے فرمانبرداری دنیا کے ان انمول ترین کاموں میں سے ایک کام ہے کہ جو کام رضائے الہی تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس طرح کی کئی اور حدیث اور آیات قرآنی ملتی ہیں جو کہ والدہ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر توجہ دلاتی ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں والدہ کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر دو طرح کے حقوق لازم کیے ہیں:پہلا حقوق اللہ اور دوسرا حقوق العباد ہے، حقوق العباد میں سب سے افضل اور اہمیت کا حامل والدین کے حقوق ہیں اور والدین کے حقوق میں سے والدہ کے حقوق والد کے حقوق سے افضل ہیں۔

حسن سلوک کا زیادہ مستحق کون؟: حدیث مبارکہ میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون کون ہے؟ اس کے جواب میں سرکار کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے۔ سائل نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے تیسری مرتبہ عرض کیا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری والدہ۔ سائل نے چوتھی بار پوچھا: پھر کون ؟رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اپنے باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ والدہ کے حقوق باپ سے تین گنا زیادہ ہیں کیونکہ ماں بچے پر تین احسان کرتی ہے :(1)پیٹ میں رکھنا (2)پیدا کرنا(3)پروش کرنا۔(بخاری شریف، 2/883)

والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی جزا:اُمُّ المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کی آواز سنی، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے عرض کیا: حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں، نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے، نیکی کا ثواب اسی طرح ہے تو ان کو یہ مقام کس طرح ملا تو فرشتوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ اپنی ماں کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا کرتے تھے۔(شرح مشکاۃ شریف، 6/525)

فوت شدہ ماں کی طرف سے حج: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی: میری والدہ نے حج کی نظر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئی کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس کی طرف سے حج کر۔ بھلا بتا تو سہی اگر تیری والدہ پر کچھ قرض ہوتا تو تو ادا کرتی کہ نہ کرتی۔ اس نے عرض کیا: بے شک ادا کرتی۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پھر اللہ پاک کا بھی قرض ادا کرو، اس کا قرض ادا کرنا تو ضروری ہے۔(نسائی شریف، 2/3)

والدہ کے حقوق: (1)والدہ کے سامنے اُف نہ کہنا (2)والدہ کے ہاتھ پاؤں چومنا(3)والدہ کا حکم ماننا(4)ان کے ساتھ نرمی اور بھلائی کے ساتھ پیش آنا(5)ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا(6)ان کے فوت ہونے کے بعد صالح ثواب کرنا(7)ان کی قبر پر جا کر دعائے مغفرت کرنا۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی والدہ کے حقوق کی صحیح معنوں میں ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو! انسانیت کی زبانوں پر سب سے زیادہ خو بصورت اور پیارا لفظ ماں ہے اور سب سے زیادہ حسین پکار ہماری ماں کی ہے یہ ایک لفظ ہے جس سے امید و محبت کا بھر پور اظہار ہوتا ہے ماں وہ ہستی ہے کہ جس کے قدموں تلے جنت ہے۔ ماں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہےاس کائنات کی رونق ماں سے ہے اور زندگی میں ساری بہار ماں کے دم سے ہے تو لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی ماں سے ادب اور حسن سلوک سے پیش آئے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حق دار تمہاری ماں ہے۔اسی مناسبت سے والدہ کی اہمیت و فرما برداری پر پانچ احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں :

(1)جنت میں داخلے کی ضمانت: نبی کریم صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے سوتے ہوئے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور جنت میں ایک قاری کی آواز سنی جو قرآن پڑھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ فرشتوں نے جواب دیا: یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اصل نیکی یہی ہے، اصل نیکی یہی ہے۔ اور حارثہ بن نعمان (کی خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے تھے (المستدرك على الصحيحين للحاكم: 7247 وصححہ الذهبی)

(2)جنت کہاں ہے: امام احمد و نسائی وبہقی نے معاویہ بن جاہمہ سے روایت کی کہ ان کے والد جاہمہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور صلی اللہ علیہ سے مشورہ لینے کو حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا تیری ماں ہے؟ عرض کی ہاں فرمایا اس کی خدمت لازم کر لے کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل حدیث معاویہ بن جاهمة، الحدیث 15538 ج5 ص 290 نسائی ج 2ص53)

(3)ماں کی نافرمانی کرنا حرام: صحیح بخاری ومسلم میں مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں تم پر حرام کر دی ہیں:ماؤں کی نافرمانی، کرنا، اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا اور دوسروں کا جو اپنے اوپر آتا ہو اسے نہ دینا اور اپنا مانگنا کہ لاؤ۔ (صحیح البخاری، کتاب الاستقراض والریون باب ما ینھی عن اضاعة المال، الحدیث:2408 ج 2 ص 111)

(4)سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار کون: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ نبوی میں عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ کون حقدار ہے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: تمہاری والدہ تمہارے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار ہے عرض کیا پھر کون؟ آپ نے فرمایا تمہاری والدہ، تیسری مرتبہ پھر عرض کیا پھر کون؟ ارشاد فرمایا تمہاری والدہ سائل نے چوتھی بار پھر پوچھا اور کون ؟ تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تمہارا باپ۔( مسند امام احمد بن حنبل ج2ص328 ابو داؤد شریف ج2ص352)

(5)جہنم کی آگ سے حجاب: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب ہوگا۔(کنز العمال ج 16 ص 462)

پیارے اسلامی بھائیو ماں کی خدمت کرنا بہت عظیم الشان عبادت ے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ماں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے،ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کوبیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے؛ غرض ر شتے بناکر اللہ تعالی نے ان کے حقوق مقر ر فرمادیے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کر نا ضروری ہے، لیکن رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ ایک شخص نےرسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نےعرض کی: ’’ پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ ارشاد فرمایا: ’’تمہاری ماں۔ ‘‘ اس نے عرض کی: ’’پھر کون؟‘‘ ارشادفرمایا: ’’تمہارا باپ۔ ‘‘اور ایک روایت میں یوں ہے: (اس شخص نے عرض کی)’’یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! لوگوں میں میرے اچھے سلوک کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر تمہارا قریبی، پھر تمہارا قریبی۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:3 ، حدیث نمبر:316)

پیارے اسلامی بھائیو! والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا لوگوں میں سب سے زیادہ نیک بخت ہے اور بُرا سلوک کرنے والا سب سے بڑا بدبخت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں بربادی ہی بربادی ہے۔ والدہ کی اِطاعت، رضا اور عظمت و شان پر مشتمل تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحظہ کیجئے:

1 اللہ تعالی کی خوشی ماں باپ کی خوشی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔

2 جو کوئی نیک بخت لڑکا اپنے ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر پر حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے۔

3 ماں باپ کے فرمانبردار کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز کرے۔

ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئے،ان کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا چاہئے۔ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765)

دعاہے کہ الله عزوجل ہمیں اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ان کے ہر حکم کو احاطۂ شریعت میں رہتے ہوئے تسلیم کرنے والا بنائے۔امین بجاہ النبی الامین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو!ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہِ نبوی صلی علیہ وسلم میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جائے تو کباب ہو جاتا! میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے گیا ہوں،کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں،سرکار نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا! تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ نہ ہو سکے پیارے پیارے اسلامی بھائیو! احادیث مبارکہ میں ماں کی خدمت،عظمت اور حقوق بیان کئے گئے ہیں آیئے چند ہم بھی سنتے ہیں:

(1)اچھے سلوک کا مستحق: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کون لوگ میرے اچھے سلوک کے حقدار ہیں آپ نے فرمایا تمہاری ماں کہا پھر کون فرمایا تمہاری ماں فرمایا پھر کون فرمایا تمہاری ماں کہاپھر،فرمایا پھر تمہارا باپ۔ ( شرح صحیح مسلم ج7ص40ح6377)

(2)جہنم کی آگ سے حجاب: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص نے اپنی ماں کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا وہ بوسہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے حجاب ہو گا۔ ( شرح صحیح مسلم ج7ص45)

(3) جنت کہاں ہے: حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اپنی ماں کے پیروں (قدموں) سے چمٹے رہو جنت وہیں ہے۔

(4)ماں کی نافرمانی کرنا حرام: صحیح بخاری ومسلم میں مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں تم پر حرام کر دی ہیں:ماؤں کی نافرمانی، کرنا، اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا اور دوسروں کا جو اپنے اوپر آتا ہو اسے نہ دینا اور اپنا مانگنا کہ لاؤ۔( صحیح البخاری، کتاب الاستقراض والریون باب ما ینھی عن اضاعۃ المال، الحدیث:2408 ج 2 ص 111)

(5) جنت ماں کے قدموں تلے: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (کنزالعمال ج 16 ص 461)

پیارے اسلامی بھائیو ماں کی خدمت کرنا بہت عظیم الشان عبادت ے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ماں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


الله عزوجل نے ہم پر کروڑں رحمتوں اور نعمتوں کا انعام فرمایا اللہ تعالٰی کی بہت ہی پیاری نعمت والدہ بھی ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی نعمتوں اور عظیم نعمت ماں کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ والدہ کے متعلق حدیث پاک میں بھی بہت تاکید فرمائی گئی ہے۔ یہاں پانچ احادیث مبارک آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔

(1) حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے۔ اور وہ مشرکہ ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آپ نے قریش سے عہد کیا ہوا تھا میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت کیا۔ کہ میری ماں آئی ہے دین سے بیزار ہے کیا میں اس سے حسن سلوک کروں فرمایا ہاں! اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(شرح صحیح مسلم، ج 2، ص927، ح 2221)

(2) حضرت سیدنا معاویہ بن جاهمہ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت سیدنا جاهمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرا جہاد کرنے کا ارادہ ہوا تو میں آپ کی بارگاہ میں مشورہ کرنے کیلئے چلا آیا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کیا تیری ماں زندہ ہے عرض کیا: ہاں تو فرمایا اسکی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے۔ (سنن النسائی، ج 2،ص 11)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یار سول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ حسن صحبت (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے ارشاد فرمایا تیری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے) انہوں نے پوچھا پھر کون ارشاد فرمایا تمہاری ماں انہوں نے پوچھا پھر کون حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر ماں کو بتایا انہوں نے پھر پوچھا پھر کون ارشاد فرمایا تیری ماں۔ (بخاری، الحديث 5971)

(4) حضرت سیدنا طلحہ بن معاویہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خاتم المرسلین جناب صادق امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں فرمایہ کیا تیری ماں زندہ ہیں عرض کی جی ہاں فرمایا اسکے قدموں سے لگے رہو جنت وہیں ہے۔ (المعجم الکبیر، رقم 8162، ج8، ص 311)

(5)ماں کے ساتھ نیکی کرنےکا ثواب باپ کے مقابلے میں دگنا ہے۔ (احیاء العلوم،جلد دوم،ص 783)

اللہ عزوجل ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


پیارے اسلامی بھائیو والدہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اُس نے ہمیں نو ماہ اپنے پیٹ میں رکھا پھر ہمیں پیدا کیا اور اس کے بعد ہماری اچھے طریقے سے پرورش کی ہمیں چاہیے کہ اس کے ہر حکم کی تعمیل کریں۔ اس کی ہر ہر بات پوری کی جائے ماں کی فرمابرداری کرنا ہم پر فرض ہے جس نے اپنے ماں کے قدموں کو بوسہ دیا گویا اُس نے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا جس نے اپنی ماں کو خوش کیا اُس نے اللہ تعالٰی کو خوش کیا اور جس نے اپنی ماں کو ناراض کیا اُس نے اللہ تعالٰی کو ناراض کیا۔آئیے والدہ کی فرمانبرداری کے متعلق کچھ احادیث پڑھتے ہیں:

(1)جنت ماں کے قدموں تلے:فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے یعنی اس سے بھلائی کرنا جنت میں داخلہ کا سبب ہے۔(مسند شہاب،ج 1،ص102،حدیث 119)

(2)جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دینا:حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے اپنی ماں کے قدموں کو بوسہ دیا گویا اُس نے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا یعنی جنت کے دروازے کو۔ (درمختار ج 9 ص 404)

(3)ماں کے ساتھ حسن سلوک: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا۔ میں نے سوتے ہوئے خواب دیکھا اور خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ جنت میں ایک قاری کی آواز سنی جو قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا یہ حارثہ بن نعمان ہیں پھر حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اصل نیکی یہی ہے۔ اصل نیکی یہی ہے۔ نعمان کی خوبی یہ تھی کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حُسن سلوک کرنے والے تھے(المستدرک الصحیحین للحاکم 7247)

(4)ماں کے بلانے پر نماز توڑ کر جانا:حضرت جابر سے روایت ہے اگر نماز کی حالت میں تمہارے ماں باپ تمہیں بلائیں تو باپ کے بلانے پر نہ جانا اور ماں کے بلانا پر چلے جانا۔(کنز العمال، جلد 16،ص 470)

(5)سب سے زیادہ احسان کا مستحق کون ہے؟: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، سب سے زیادہ حسن صحبت یعنی احسان کا مستحق کون ہے ؟ ارشاد فرمایا۔ تمہاری ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا، پھر کون ؟ ارشاد فرمایا،تمہاری ماں، انہوں نے پوچھا، پھر کون؟ حضور ا کرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے پھر ماں کو بتایا انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون ؟ ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔(بخاری، حدیث5971)

ہمیں اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اُن کی نافرمانی نہ کریں وہ جو کہے اُسی وقت کرنا چاہیے اُن کو ناراض تو ہرگز نہ کریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی ماں کی فرمابرداری زیادہ سے زیادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے: امین بجاہ نبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔