خواتین میں اسلامی شعور پیدا کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 26 فروری 2025ء کو USA میں سنتوں بھرا اجتماع ہوا جس میں مقامی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

اجتماع کا آغاز تلاوتِ قراٰنِ پاک سے کیا گیا اور نعت خواں اسلامی بہنوں نے حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیاجس کے بعد مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا۔

مبلغۂ دعوتِ اسلامی نے دورانِ بیان اسلامی بہنوں کی دینی و اخلاقی تربیت کرتے ہوئے انہیں دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔آخر میں دعوتِ اسلامی کی نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے بذریعہ انٹرنیٹ دعا کروائی۔

آسٹریلیا کی ریاست کوئنز لینڈ  (Queensland) میں دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے دینی کاموں کے سلسلے میں 26 فروری 2025ء کو مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کی شرکت ہوئی۔

اس مدنی مشورے میں کوئنز لینڈ کے اسلامی بہنوں کے درمیان ہونے والے اجتماع کے شیڈول اور شرکا کی تعداد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامی بہنوں کی رسالہ و مدنی مذاکرہ کارکردگی کا جائزہ لیا۔

علاوہ ازیں ذمہ دار اسلامی بہنوں نے مدرسۃالمدینہ بالغات کی کلاس کا آغاز کرنے اور نیک اعمال رسالہ اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنے پر مشاورت کی جس پر تمام اسلامی بہنوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔


دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے سلسلے میں 18 فروری 2025ء کو ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں میلبرن نگران سمیت دیگر سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

میٹنگ کی ابتدا میں رہائشی کورسز کے مدنی پھولوں کا فالو اپ لیتے ہوئے ڈونیشن باکسز رکھوانے اور کھلوانے کے متعلق تبادلۂ خیال کیا گیا نیز فنانس ڈیپارٹمنٹ ٹیسٹ دلوانے کا ذہن دیا گیا۔

اس کے علاوہ رمضان ورکشاپ کا فالو اپ سمیت عالمہ اسلامی بہنوں کو شارٹ کورسز کے لئے تیار کروانے پر مشاورت ہوئی جس پر تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔

17 فروری 2025ء کو عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں کینبرا نگران اور شعبہ مشاورت کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

معلومات کے مطابق مدنی مشورے میں ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے حوالے سے کلام کیا جن میں سے بعض یہ ہیں:٭مختلف دینی کاموں کے مدنی پھول٭سنتوں بھرے اجتماع کی اپڈیٹ٭سالانہ رمضان ڈونیشن٭شعبہ اصلاحِ اعمال للبنات کی کارکردگی۔


عالمی سطح پر نوجوان نسلوں کی اصلاح کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے  تحت 17 فروری 2025ء کو ایک مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک مشاورت کی اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔

دعوتِ اسلامی کے تحت اسلامی بہنوں کے درمیان ہونے والے دینی کاموں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ذمہ داران نے مختلف نکات پر مشاورت کی جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

٭1 ڈے کفن دفن سیشن٭فیضانِ صحابیات کے رہائشی کورسز٭نوجوان لڑکیوں میں نئے کورسز کروانا٭فجی (Fiji) ملک میں آن لائن کورسز اور دینی کاموں کو بڑھانا٭مختلف علاقوں میں فیضانِ تلاوت کلاس کا انعقاد٭اسلامی بہنوں کو مختلف کورسز کرنے کے لئے تیار کرنا٭دینی کاموں میں مزید بہتری، اسلامی بہنوں کی تقرری اور ان کے مسائل کا حل۔

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین عطاری رمضان المبارک میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں مختلف مقامات پر ہونے والے ایک ماہ اعتکاف کا دورہ کیا۔

رکن شوریٰ نے 6 مارچ کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ مانسہرہ، 7مارچ کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ پشاور اور 8 مارچ 2025ء کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بعد نماز عصر افطار اجتماعات میں سنتوں بھرے بیانات کئے اور دعائے افطار کا سلسلہ ہوا۔


10 مارچ 2025ء کو دعوت اسلامی کے شعبہ خدام المساجد والمدارس المدینہ کے تحت موہلنوال ہاوسنگ اسکیم لاہورمیں جامع مسجد ”فیضان اسلام“ کا افتتاح ہوا۔افتتاح کے سلسلے میں افطار اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شخصیات اور مقامی عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا ۔ بیان میں رکنِ شوریٰ نے مسجدکی تعمیرات میں حصہ لینے، مسجد کو آبادکرنے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنےکی ترغیب دلائی۔


دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں 12 مارچ 2025ء بمطابق 11 رمضان المبارک کودینی حلقہ ہوا جس میں Freelancers، Ecommerce، کمیونٹی ایجنسی کے مالکان اور CEOsنے شرکت کی۔

رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت پر گفتگو کی اور شرکا کو اس مہینے زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اپنے نامۂ اعمال میں نیکیاں جمع کرنے اور رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرنے کا ذہن دیا۔


دین اسلام نے ہمیں ایک مکمل نظام حیات عطا کیا ہے، اس نے اپنے ماننے والوں کو کہیں بھی بے بس و مجبور نہیں چھوڑا ہے بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے۔زندگی کے ہر ہر پہلو کے متعلق اسلامی تعلیمات اور شرعی رہنمائی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

قرآن کریم میں نیک عورتوں کا ایک وصف اطاعت کرنے والی بیان کیا گیا ہے۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔

شوہر کے حقوق و مرتبہ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بلند فرمایا ہے، قرآن و حدیث میں بھی شوہر کی اطاعت کرنے اور نافرمانی سے بچنے کا حکم ہے۔

چنانچہ حدیث شریف میں ہے: رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: سب سے بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ شوہر جب اسے دیکھے تو عورت اسے خوش کر دے اور شوہر جب حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال میں شوہر کا نا پسندیدہ کام نہ کرے، اس کی مخالفت نہ کرے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث:2857)

فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

ہمارا دین اسلام امن و سلامتی والا کامل مذہب ہے، دین اسلام نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک کامل طریقہ عطا فرمایا ہے، زندگی کے ہر ادوار میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے، ہماری شریعت نے ہمیں شوہر کی نافرمانی کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، اور شوہر کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے، تاکہ گھر امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔

افسوس صد کروڑ افسوس! آج معاشرہ جس طرح بگڑتا جا رہا ہے، ہر طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے دین اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے منہ پھیر لیا ہے، آج بیویاں شوہر کی حاکم بنی ہوئی نظر آتی ہیں، بلکہ باضابطہ جن کے شوہر ان کی ہر اچھی بری بات کو مانتے ہیں، عورتیں ان کی خوب تعریف کرتی نظر آتی ہیں اس کے برعکس اگر کوئی شخص شرعی یا اخلاقی معاملات میں اپنی زوجہ کی اصلاح کرے یا روک ٹوک کرے تو عورتیں ایسے شوہر کو نا جانے کن کن برے القابات سے پکارتی ہیں اور ان سے بدظن ہوتی ہیں۔ جبکہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح و شام کا کھانا لیکر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

شوہر کی نافرمانی کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے اور عورتیں اسے اپنی آزادی سمجھ بیٹھی ہیں،ان سب کے اسباب علم دین سے دوری، شرعی احکام سے ناواقف ہونا، خوف خدا کا نا ہونا یا کم ہونا، دینی تربیت کی کمی وغیرہ ہے۔

کئی بیویاں ایسا بھی کر گزرتی کہ جب شوہر کہیں جانے سے منع کردے وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے چھپ چھپا کر نکل پڑتی ہیں۔ جبکہ غور کریں کہ ہمارے پیارے پیارے آقا ﷺ کیا فرماتے ہیں: جو عورت اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرے اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 6/408، حدیث: 9231)

اللہ اکبر! جو شوہر قدرت کے باوجود اپنی بیوی کو بے پردگی سے نہ روکے تو شریعت مطہرہ اسے دیوث قرار دیتی ہے لیکن آج بدقسمتی سے ایسا ماحول پلٹا ہے کہ آج جو شوہر اپنی بیوی کو پردے کا حکم دے وہ بیچارہ قصوروار ٹھہرتا ہے، نماز کا کہے تو بیویاں چڑتی ہیں، یہ معاملات تو فرائض کے ہیں جن پر ہمیں ہر حال میں عمل پیرا ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ کے احکام میں بھی شوہر کی نافرمانی سے بچنا چاہیے، وہ تمام کام جو شریعت سے نہ ٹکراتے ہوں، اس میں فوراً شوہر کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے۔

حدیث پاک میں ہے: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (مسند امام احمد، 9/353، حدیث: 24565)

ایک اور حدیث میں آیا ہے: کسی عورت کا شوہر گھر میں حاضر ہو تو اس کے لیے اس کی اجازت کی بغیر نفل روزہ رکھنا جائز نہیں اور نہ ہی وہ کسی کو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر میں آنے دے۔ (فیضان ریاض الصالحین، 3/496، حدیث: 282)

ان احادیث طیبہ کی روشنی میں سوچیں کہ جب ایک عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ بھی رکھنے کی اجازت نہیں، جو کہ نیکی کا کام ہے، تو عورتیں کس طرح دیگر دنیاوی کاموں میں اپنے شوہر کی نافرمانی کر سکتی ہیں؟

جو مومنہ عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت کرتی ہیں اور انہیں راضی رکھنے کی کوشش کرتی ہیں، اسے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

چنانچہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اس حال میں فوت ہو جائے اس کا شوہر اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

شوہر کی نافرمانی پر کی گئی وعیدوں اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر ملنے والے اجر کو اگر مد نظر رکھ جائے، تو ان شاءاللہ ضرور اطاعت کا ذہن بنے گا اور گھر کا گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اللہ نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بےراہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقا و بڑھوتری اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے انہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ ازدواج کہلاتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا اہم ہے اتنا نازک بھی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے،درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو نظر انداز کر کے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔ گھر میاں بیوی کی باہمی محبت میں حسن سلوک اور عفو درگزر سے ہی سکون کا گہوارہ بنتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کا نافرمان ہوگا تو گھر کا سکون برباد ہو جائے گا۔

شوہر کو بھی شریعت کا پابند ہونا لازمی ہے اور بیوی کو بھی۔ اگر بیوی اپنے شوہر کے عیب کسی دوسری عورت کے سامنے بیان کرے گی تو اس طرح دونوں میں ناچاقیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے بیوی پر شوہر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ بیوی نافرمان ہو، اس کو تکلیف پہنچانے والی ہو، بچوں کو اس کے خلاف کرنے والی ہو تو یہ شرعا ناجائز و حرام ہے۔ حضور ﷺنے بہت ساری احادیث میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کو لازم قرار دیا اور نافرمانی پر سخت وعیدات ارشاد فرمائی ہیں۔ چنانچہ

حدیث پاک میں ہے: اگر میں کسی کو خداوند تعالی کے علاوہ کسی اور کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کرتا تو بیوی کو خاوند کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم کرتا۔ (ابن ماجہ،2/411، حدیث: 1853)

ذرا سوچیے کہ پیارے اقا علیہ الصلوۃ والسلام نے شوہر کے حقوق کو کتنی اہمیت کے ساتھ بیان فرمایا۔

شوہر کے حقوق کے بارے میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے: جب شوہر بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو اس پر لازم ہے کہ شوہر کے پاس چلی آئے اگرچہ چولہے کے پاس بیٹھی ہو۔ (ترمذی، 2/386، حدیث:1163)

شوہر بیوی کو اپنے بچھونے پر بلائیں اور وہ آنے سے انکار کرے اور اس کا شوہر اس بات سے ناراض ہو کر سو جائے تو رات بھر اس عورت کے فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 3/462، حدیث: 5193)

حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا ہے

اے عورتو! اللہ پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی رضا کو لازم پکڑ لو اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وہ صبح اور شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔ (کنز العمال، جز 16، 2/145، حدیث: 44809)

ایک اور جگہ پر فرمایا: اگر شوہر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس پر کس قدر ثواب رکھا گیا ہے۔ فکر آخرت دلانے والے ہمارے پیارے اقا علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان عبرت نشان ہے: میں نے دیکھا کہ جہنم میں اکثر عورتوں کی تعداد تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ اس کی کیا وجہ ہے فرمایا وہ ناشکری کرتی ہیں پوچھا گیا وہ اللہ پاک کی ناشکری کرتی ہیں؟ ارشاد فرمایا:وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان سے مکر جاتی ہیں، اگر کسی عورت کے ساتھ عمر بھر اچھا سلوک کرو پھر بھی تم سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ کہیں گی: میں نے تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ (بخاری،3/463، حدیث: 5197)

اگر شوہر کے ساتھ احسان فراموشی والا سلوک کرنے، فرامائش پوری نہ کرنے پر اسے جلی کٹی باتیں سنانے اور اس کا دل دکھانے کی وجہ سے اگر جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ شوہر کی ناشکری سے عورت کو اس لیے بھی بچنا چاہیے کہ مسلسل اس قسم کی باتیں شوہر کے دل میں نفرت کے طوفان پیدا کر دیں گی اور اگر خدانخواستہ اس کی ضد میں آ کر تعلقات کی کشتی ڈوب گئی تو عمر بھر پچھتانا پڑے گا اس لیے کامیاب بیوی وہی ہے جو کبھی بھی ناشکری کے الفاظ زبان پر نہ لائے بلکہ آسانیوں ب کے علاوہ تنگدستی کے حالات میں بھی صبر و شکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر کے ساتھ زندگی کے دن گزارے تاکہ شوہر پریشانیوں میں خود کو تنہا نہ سمجھے۔

اللہ پاک ہمیں تادم حیات اسلام کی عمدہ تعلیمات پر عمل کرنے اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہم میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ میرے حقوق پورے کیے جا ئیں اور یہ بھول جاتا ہے کہ دوسروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا مجھ پر لازم ہے بس یہیں سے نا اتفاقی کی آ گ شعلہ زن ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے کا روپ دھار کر قلبی سکون جلا کر راکھ کر دیتی ہے اگر میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرے اور اپنے حقوق کے معاملےمیں نرمی سے کام لے تو گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ کسی کام سے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں جب رسول اللہ ﷺ انکی حاجت پوری فرما چکے تو ارشاد فرمایا:کیا تم شوہر والی (شادی شدہ)ہو؟انہوں نے عرض کی جی ہاں! فرمایا:تم خدمت کے اعتبار سے شوہر کے لیے کیسی ہو؟عرض کی: جو کام میرے بس میں نہ ہو اسکے علاوہ میں ان کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرتی ارشاد فرمایا:اس بارے میں غور کر لینا کہ شوہر کے اعتبار سے تمہارا کیا مقام ہے کیونکہ وہی تمہاری جنت اور دوزخ ہے۔ (سنن کبریٰ للنسائی، 5/311، حدیث: 8963)

یقیناً دانش مند اور ذہین عورت وہی ہے جو اپنے گھر کی بربادی بننے والی چیزوں کو پیش نظر رکھے اور ان سے بچنے کی کوشش جاری رکھے اگر کبھی لڑائی جھگڑے یا اختلاف کی کوئی صورت پیدا ہو جائے تو نہایت خوش اسلوبی سے اسے رفع دفع کرے، کیونکہ اللہ نے عورت کو یہ خوبی بخشی ہے اگر وہ چاہے تو چند لمحوں میں گھر کے نا خوش گوار ماحول کو خوش گوار بنا سکتی ہے۔

بیوی اپنے شوہر کی نا فرمانی تبھی کرتی ہے جب اس پر ظلم کیا جائے یا پھر اسے برا سمجھا جائے۔

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ-فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں خاوند کے پیچھے حفاظت رکھتی ہیں جس طرح اللہ نے حفاظت کا حکم دیا ۔

شوہر کی نافرمانی پر احادیث مبارکہ:

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: تین شخصوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں اٹھتی: آقا سے بھاگا ہوا غلام جب تک پلٹ کر آئے، عورت کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو اور جو کسی قوم کی امامت کرے وہ اس کے عیب کے باعث اس کی امامت پر راضی نہ ہوں۔ (ترمذی، 1/375، حدیث: 320)

پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو عورت بلا حاجت شرعی اپنے گھر سے باہر جائے اور اسکے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فرشتہ اس پر لعنت کرئے گا اور جن و آدمی کے سوا جس جس چیز پر گزرئے سب اس پر لعنت کریں۔ (معجم اوسط، 1/158، حدیث: 513)

پیاری اسلامی بہنو! آج ہر اسلامی بہن گھر میں ناچاقیوں اور لڑائی جھگڑے سے پریشان ہے غور کریں اسکی وجہ اسکی شوہر کی نافرمانی تو نہیں۔شوہر کی ناراضگی اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی ناراضگی ہے جو عورتیں بات بات پہ شوہر سے روٹھتی گال پھلاتی اور غصے میں چلا چلا کر کفتگو کرتی ہیں اگر زبان سے غصے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو تو گھر کی قیمتی چیزیں توڑ کر شوہر کا مالی نقصان کرتی ہیں اور بچوں کو مار پیٹ کر گھر کا ماحول خراب کر دیتی ہیں ایسی بے باک عورتیں نہ صرف اپنا وقار کھو دیتی ہیں بلکہ پورے گھر کا چین وسکون بھی داؤ پر لگا دیتی ہیں۔

ہونا تو یہ چاہے اگر شوہر سے کسی بات پر ناراضی ہو بھی جائے تو ازدواجی زندگی اور گھر کے سکون کو برباد نہ کیا جائے۔بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ ناراضی کا اظہار بھی ہو جائے اور گھر یلو معاملات بھی متاثر نہ ہوں۔

شادی شدہ اسلامی بہنوں کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے حقوق ادا کریں کیونکہ ہم نے صرف اپنا حساب دینا ہے۔


اللہ نے بیوی پر شوہر کی اطاعت فرض کی ہے جب تک شوہر سے اللہ کی معصیت کا حکم نہ دے بیوی پر واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر بات مانے اور اس کے حکم کو فوراً بجا لائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ عورتوں میں سے کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ عورت کہ جب اس کا شوہر دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب وہ اسے حکم دے تو یہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان و مال کے بارے میں کوئی ایسا اقدام نہ کرے جو اس کے شوہر کو ناگوار ہو۔(سنن کبریٰ للنسائی،5/ 310،حدیث: 8961)

یہاں ہمیں ایک ضابطہ یاد رکھنا چاہیے کہ شوہر حاکم ہوتا ہے اور بیوی محکوم ہوتی ہے اس کو الٹ کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:میں نے جہنم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی ہے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا شوہر کو ناشکری اور احسان فراموشی کرتی تھی۔

بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی حیثیت سے بڑھ کر فرمائش نہ کرے اس کی خوشیوں میں شریک ہو پریشانی میں اس کی ڈھارس بنے اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے اور خاموش رہے۔

بیوی کو چاہیے بغیر اجازت شوہر کے گھر سے نہ نکلے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے اللہ پاک اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں عرض کی گئی اگرچہ شوہر ظالم ہو؟ فرمایا: اگرچہ شوہر ظالم ہو۔

اگر شوہر نے بیوی کو بلایا اس نے انکار کر دیا اور شوہر نے غصے میں رات گزاری تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری، 2/377 ، حدیث: 3237)

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1162)

ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شوہر کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ان کے حقوق کی ادائیگی کس قدر لازم ہے شوہر کے حقوق میں شامل ہے جب اس کا شوہر اسے نفل روزہ رکھنے سے منع کرے تو وہ ہرگز نہ رکھے اور اگر رکھے گی تو روزہ قبول نہ ہو گا مرد حاکم ہے اس لئے عورت اس کی اطاعت کرے گی اور نافرمانی سے ہر دم بچے گی کہ شوہر کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز الایمان: مرد افسر ہیں عورتوں پر ۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مرد اپنی عورت کی بداخلاقی پر صبر کرتا ہے اسے صبر ایوب جتنا اجر دیا جائے گا اور جو عورت اپنے شوہر کی بد سلوکی بد خلقی کو برداشت کرے گی آسیہ زوجہ فرعون جتنا اجر ملے گا۔

اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ بنائے شوہر کی نافرمانی اور حکم عدولی کی بنا پر عورتوں کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔

اللہ مسلم معاشرے کی تمام خواتین کو شوہر کے حقوق احسن انداز میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین