محمد فہیم عزیز (درجۂ
سادسہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ملتان، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو! والدہ کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے بعض لوگ ماں کی خدمت اور برکت سے بہت دور
رہ جاتے ہیں، ماں کتنی بڑی ہستی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ماں کی خدمت اور ادب
و احترام کے حوالےسے وہ چیز نظر نہیں آتی جو آنی چاہیے اور نہ ہی ماں سے اتنی محبت
کا اظہار(show)
کیا جاتا ہے حالانکہ ہماری زندگی(Our life) میں والدہ کی ایک خاص اہمیت اور کردار ہے۔
اسلام سے پہلے
معاشرے میں عورت کو سب سے زیادہ ظلم کا نشانہ بنایا گیا عورت کی عزت کو پامال کیا
گیا۔ حتیٰ کہ ماں کی بھی کوئی قدر نہیں تھی غرض یہ کہ عورت ہر معاملے میں ظلم کی
چکی میں پس رہی تھی۔ پس اس دوران ایک ایسی ہستی (ہمارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم) ظاہر ہوئی جس نے عورت پر ظلم و ستم کو دور کردیا عورت کے حقوق
بحال کئے عورت کو ظلم سے نکال کر عزت و اعلیٰ مقام دیااگر عورت بیٹی تھی تو رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس رحمت بنا دیا اگر عورت ماں تھی تو ہمارے
پیارے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ماں کے قدموں تلے جنت بنا دی
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَ
وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ
وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-ترجمۂ
کنز الایمان:اور ہم نے آدمی کو حکم کیاکہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا س کی ماں
نے اُسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اُسے اٹھائے پھرنا اور
اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینہ میں ہے۔
مختصر تفصیل
اس آیت کریمہ
سے معلوم ہوا ماں باپ دونوں کے حق میں تاکید فرما کر ماں کو پھر خاص الگ کر کے گنا
کہ ماں کا حق بہت زیادہ ہے اولاد کو چاہیئے کہ اپنی ماں کی قدر کرے ان کا حکم
مانیں اپنی ماں پر ظلم نہ کرے بلکہ ان کا کہنا مانے کیونکہ ماں اپنی سختیوں اور
تکلیفوں کو اپنی اولاد کے لیے برداشت(abide) کرتی ہے۔ ماں کی فرمانبرداری پر چند احادیث
ملاحظہ فرمائیں
روزانہ جنت کی چوکھٹ چومئے: جن
خوش نصیبوں کی والدہ زندہ ہے ان کو چاہیے کہ روزانہ کم از کم ایک بار اپنی والدہ
کے ہاتھ(Hand)پاؤں
ضرور چوما کریں والدہ کی تعظیم کا بڑا درجہ ہے
1:-رسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت ماوؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند
الشھاب ج 1 ص 102 حدیث نمبر 119 )یعنی والدہ سے بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب
ہے ۔
2:- ایک اور
مقام پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنی
والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بھوسا دیا۔(در
مختار 9 ص 606 دارالمعرفت بیروت)
بھلائی کرنے والے کا انعام: جو
لوگ اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اجر ضرور دیتا ہے ان کا
اجر ضائع نہیں ہوتا بلکہ ان کو ضرور بھلائی کا اجر ملتا ہے ماں کے ساتھ بھلائی
کرنے والے کے بارے میں حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :
3:- شرح سنہ
میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز
سنی، میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے ؟ تو فرشتوں نے عرض کیا حارثہ بن نعمان ہیں۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، حارثہ اپنی
ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے۔(بہار شریعت حصّہ 16 ص 552 شعبہ تخریج المدینۃ
العلمیہ دعوتِ اسلامی)
سب
سے زیادہ احسان کس پر کیا جائے: پیارے پیارے اسلامی بھائیو جتنا بھی
ہوسکے اپنی امی جان کے ساتھ اچھا سلوک کریں کیونکہ اس نے آپ کی
پرورش کی ہے اور بھی بہت سارے احسان ہیں جس کا بدلہ ہم نہیں چکا سکتے اس بارے میں
حضور پاک نے فرمایا
4:- صحیح
بخاری اور مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض
کی، یا رسول اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ حسن صحبت یعنی احسان
کا مستحق کون ہے ؟ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھاری
ماں یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے پھر فرمایا تمھاری ماں - انھوں نے پوچھا کہ پھر کون؟ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمھارا والد۔ ایک اور روایت میں ہے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین مرتبہ فرمایا کہ تمھاری ماں احسان کی مستحق
ہے۔( بہار شریعت حصّہ 16 شعبہ تخریج المدینۃ العلمیہ دعوتِ اسلامی)
والدین کے
حقوق بہت زیادہ ہیں ان کے حقوق کو پوری(complete) طرح ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔
گرم
پتھروں پر ماں کو گندھوں پر اٹھانے والا صحابی:ایک صحابی رضی
اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی میں عرض(Asked) کی! ایک راہ (path)میں
ایسے گرم پتھر تھے اگر گوشت کا ٹکڑا(piece) ان پر ڈالا جاتا تو وہ کباب ہو جاتا! میں
اپنی ماں کو گردن پر(کندھوں پر) سوار کر کے چھ میل تک لے گیا ہوں، کیا میں ماں کے
حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں ؟
5:-رسولِ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے
اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔( المعجم الصغیر
للطبرانی ج1 ص94 حدیث 256)
پیارے اسلامی
بھائیو اور اسلامی بہنو! ماں اپنے بچے کے لیے سخت تکلیفیں اٹھاتی ہے بچے کی ولادت
(Delivery)
کے وقت درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے جتنا ہو سکے اپنی ماں کی کبھی بھی نا فرمانی نہ
کیا کریں جنت میں داخلے کی محرومی کا سبب بھی ہوسکتا ہے جو بھی ماں جائز حکم کرے
اسے فوراً پورا کیا کرو۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد تنویر عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃ
المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
والدین بچپن
میں جیسی محبت و شفقت بچے پر کرتے اور اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات خیال کرتے
ہیں۔اور اس کی تکالیف کو ہمیشہ دفع کرنے کی ہی سعی میں رہتے ہیں۔لہٰذا اس بچے کو
بھی چاہیے کہ والدین کے بڑھاپے میں خاص کر ان کی خدمت کرے اور ان کی خدمت میں اپنی
جان کھپا دے اور خوب دنیا و آخرت کی برکتیں سمیٹ لے۔اپنے والدین کو نعمت سمجھتے
ہوئے ان کی قدر کرنا اپنی جان پر لازم کرنا چاہیے اور لمحہ بھر بھی ان کی نافرمانی
کا ہرگز مت سوچیں۔
آئیے ہم
والدین بالخصوص والدہ کے حقوق کے متعلق احادیث مبارکہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ایک شخص نے
خدمت اقدس حضور پر نور صلی لله تعالی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کی: یا
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس
کے ساتھ نیک رفاقت کروں؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر، فرمایا: تیری ماں، عرض
کی: پھر، فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر، فرمایا: تیرا باپ۔ (صحيح البخاري، كتاب
الأدب، الحديث: ٥٩٧١، ج 4، ص ٩٣)
فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :
جنت ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشهاب ج ا ص 102 حدیث 119)
بہار
شریعت حصہ 16 صفحہ 88 پر ہے: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے، حدیث میں ہے جس
نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ
دیا۔ (در مختارج ٩ ص ٦٠٦ دار المعرفة بيروت)
پیارے اسلامی
بھائیو! ان احادیث مذکورہ بالا سے والدین کی عظمت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے
چاہیے تو یہ تھا کہ ہر بندہ ماں کی ممتا کی لاج رکھتا اور اپنی جان و مال کو
والدین پر خرچ کرنے کو باعث خیر سمجھتا مگر افسوس معاشرے میں ناقابل بیان درد ناک
داستانیں رقم ہوتی دکھتی ہیں تو روح مع الجسد کانپ جاتی ہے۔
بہار شریعت
حصہ 16 صفحہ 195 صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی
اعظمی رحمۃ الله علیہ نقل کرتے ہیں: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمان حقیقت نشان ہے، یہ بات کبیرہ گناہوں میں ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے۔
لوگوں نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا کوئی اپنے
والدین کو بھی گالی دیتا ہے؟ فرمایا ہاں، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو
گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا
ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (مسلم شریف ص 60 حدیث 146)
حدیثِ مبارکہ
میں والدین کو گالی دلوانے کی مذمت ذکر کی گئی ہے یقیناً ہر مسلمان کو اپنے والدین
کی دل آزاری کسی بھی ذریعے سے کرنے سے بچنا چاہیے اور خوش نصیب والدین کی خدمات
انجام دے کر جنت کے قریب تو ہوتے چلے جاتے ہیں مگر افسوس بد نصیب لوگ ماں باپ کو
خود گالیاں بکتے پھرتے ہیں۔ الامان و الحفیظ
اللہ پاک ہمیں
والدین کے اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
یا رب العالمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد اسد جاوید عطّاری (درجۂ
سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
ماں ایک رحم
دل اور شفیقہ خاتون ہے جو اپنی اولاد کی زندگی میں ایک درخت کی جڑ کی مانند ہے جو
اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں برداشت کرتی ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی
خواہشات کو قربان کردیتی ہے اپنی خوشیوں کو مٹی تلے دفن کردیتی ہے جو خود نہیں
کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کی بد قسمتی اس پاکیزہ
رشتے کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ماں کے حقوق کو پاؤں تلے روندا جا رہا ہے ماں
پر ظلم کیا جا رہا ہے کچھ بد بخت تو اپنی ماں کو برا بھلا کہتے ہیں گالیاں دیتے
ہیں مارتے ہیں یہاں تک کہ اسے اپنے گھر سے نکال دیتے ہیں۔
حالانکہ یہ تو
وہ رشتہ جس کے حقوق خود الله پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمائے اور الله پاک کے
پیارے پیارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی احادیث میں اس کی
تلقین فرمائی۔
چنانچہ الله
پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا
تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا
یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ
لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(23)ترجمہ
کنزالایمان: اور تمہارے رب
نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر
تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ
کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔(پ 15، بنی اسرائیل: 23)
آیت مبارکہ
میں اللہ پاک نے شرک سے منع فرمانے کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
ارشاد فرمایا اور ان کے آگے اف تک نا کہنے کا ارشاد فرمایااگر ذہن میں یہ بات آئے
کہ اف تک بھی نہیں کہنا آخر ایسا کیوں؟ تو فوراً اپنے اوپر اپنی ماں کے احسانات کو
یاد کیجئے ان تکالیف کو یاد کیجئے جو نو ماہ انہوں نے اپنے پیٹ میں آپ کو رکھ کر
برداشت کی پھر پیدائش کے وقت کی الگ تکالیف سخت سردی کی رات میں خود گیلے بستر پر
سو کر آپ کو خشک بستر پر سلایا آپ کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی اپنی پسند
کو آپ کی پسند پر قربان کر دیا خود بھوکی رہ کر تمہیں پیٹ بھر کھلایا تو اس کا یہ
حق ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوئے اف تک نا کہا جائے
۔
کثیر احادیث
میں بھی والدہ کے حقوق بیان کیے گئے ہیں :
ماں
کے ساتھ حسن سلوک :حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض
کیا: لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور
مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر
کون؟ حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص
نے عرض کیا پھر کون؟حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔(بخاری،
کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، 2/93 الحدیث: 5971)
حضرت اسماء رضی
اللہ عنہافرماتی ہیں جس زمانہ میں قریش نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے معاہدہ کیا تھا،میری ماں جو مشرکہ تھی میرے پاس آئی، میں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام کی طرف راغب ہے یا وہ
اسلام سے اِعراض کیے ہوئے ہے، کیا میں اس کے ساتھ سلوک کروں ؟ ارشاد فرمایا: اس کے
ساتھ سلوک کرو۔ (بخاری، کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک،2/92، الحدیث: 5978)
یعنی کافرہ
ماں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا۔
ماں
سے حسن سلوک کا انعام :حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں گیا اس میں قرآن
پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان رضی
اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے
احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔(شرح السنّۃ، کتاب البرّ والصلۃ، باب برّ الوالدین،
2/222، الحدیث: 3312)
اور شعب
الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت
بھلائی کرتے تھے۔ (شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 2/182،
الحدیث: 7851)
انسان اپنی
والدہ کا حق کبھی ادا نہیں کر سکتا چنانچہ حدیث پاک میں ہےایک صحابی رضی اللہ عنہ نے
بارگاہِ نبوی میں عرْض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا اُن
پرڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا!میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کرکے چھ(6) مِیل تک لے
گیاہوں،کیا میں ماں کے حقُوق سے فارِغ ہوگیاہوں؟سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں دَرد کے جس قَدَر جھٹکے اُس نے
اُٹھائے ہیں شاید یہ اُن میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔(معجم
صغیر،1/92،حدیث:257)
اس حدیث پاک
کو بغور پڑھیں کتنی مشکل سے وہ صحابی رسول چلے لیکن پھر بھی اپنی والدہ کا کماحقہ
حق ادا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہوتے وقت درد کے ایک جھٹکے کا حق بھی بمشکل ادا ہوا ہے
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاد کے بدلے ماں باپ کی خدمت کا حکم
دیا چنانچہ ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوئے
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے
عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں
تلے ہے۔ (نسائی جلد 2 ص 303 کتاب الجہاد)
مرنے کے بعد
ماں کا حق یہ ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص (سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) نے آنحضرت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کیا میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میں سمجھتا ہوں
اگر وہ بات کرپاتی تو کچھ خیرات کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو اس
کو کچھ ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ (بخاری، جلد اول،کتاب الجنائز حدیث
نمبر1305)
حدیث پاک میں
جنت ماں کے قدموں تلے بتائی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ والدہ کی خدمت کر کے انسان
جنت میں جا سکتا ہے چنانچہ حدیث پاک میں ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے‘‘۔(شعب الایمان، رقم الحدیث: 370، ص: 132)
پیارے اسلامی
بھائیو! قرآن پاک اور کثیر احادیث سے والدہ کی فرمانبرداری کی اہمیت واضح ہوتی ہے
اور اس کے بدلے میں ملنے والا انعام بھی بہت زیادہ ہے الله پاک ہمیں اپنی والدہ کے
حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نافرمانی سے بچائے رکھے۔ آمین ثم آمین یا
رب العالمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد اکرام طفیل عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
ماں دنیا کی بڑی
نعمتوں میں سے ایک ہے ماں کے قدموں کے
نیچے جنت ہے اگر ہم ماں کی فرمانبرداری کریں گے ضرور ہم اللہ کے فضل و کرم سے
جنت میں داخل ہوں گے لیکن افسوس آج کل ہمارے معاشرے میں ماں کی بالکل ہی عزت نہیں
کی جاتی بہت سی احادیث مبارکہ ماں کی فرمانبرداری میں وارد ہوتی ہیں آپ بھی چند
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں اور جھوم اٹھیے:
(1)سب
سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے
مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ایک
شخص نے عرض کی کہ لوگوں میں سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار کون ہے تو آقا علیہ
الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیری ماں اس نے پھر عرض کی پھر کون پھر فرمایا تیری ماں
اس شخص نے پھر عرض کی پھر کون آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیری ماں پھر اس
شخص نے عرض کی کون فرمایا تیرا باپ۔( مسلم شریف باب الوالدین )
(2)ماں
کے ساتھ صلہ رحمی کرو:حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے وہ
فرماتی ہیں میری ماں جو کہ مشرکہ قریش کے عہد اور مدت میں جب کہ انہوں نے رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا ہوا تھا اپنے باپ کے ساتھ مدینہ
منورہ آئیں میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے ساتھ
صلہ رحمی کر سکتی ہوں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ
صلہ رحمی کرو۔ (بخاری شریف کتاب الادب )
(3)ماں
کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا ماں کے قدموں کے ساتھ چمٹے رہو جنت ماں کے قدموں کے نیچے
ہے۔( مسلم شریف )
(4)ماں
کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی
عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں تو
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تیری ماں زندہ ہے تو
اس نے عرض کی جی ہاں تو آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تم اس کی خدمت میں رہ
کر جہاد کرو۔( مسلم شریف)
(5)گرم
پتھروں پر:ایک
صحابی نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان
پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا چھ میل تک اپنی ماں کو اپنے گردن پر سوار کر کے لے
گیا ہوں کیا اب ان کے حق سے ادا ہو گیا تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان
میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے۔( طبرانی شریف )
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ان احادیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
اپنے والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عباس علی عطاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
آئیے جانتے
ہیں ایک ایسی ہستی کے بارے میں جو اپنی جوانی کو، اپنی خواہشوں کو،اپنے وقت کو،اپنی
طاقت کو،اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ساری زندگی کو، سب کچھ اپنی اولاد پر صرف کردیتی
ہے وہ کوئی اور نہیں وہ (ماں)ہے ماں کی محبت اولاد کےلئے بےلوث ہوتی ہے۔اگر والدہ جیسی
نعمت کا ساری زندگی بھی شکر ادا کیا جائے تو نہیں ہو سکتا ایک ماں کا اللہ پاک کی
بارگاہ میں کیا مقام ہے اور کیا حقوق ہے آئیے جانتے ہیں:
ماں
کا حق کیا؟ حضرت
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور رسول راحت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا لوگوں میں میرے حسن سلوک کا سب
سے زیادہ مستحق کون ہے ؟۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
تمہاری ماں۔ اس شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں وہ شخص نے عرض کیا پھر کون ؟حضور سید عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں اس شخص نے عرض کیا پھر کون؟حضور
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے باپ۔
جہاد
سے اہم والدہ کا حق: ایک حدیث پاک میں ہےحضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ
حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت
لینے کے لئے حاضر ہوئے تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تمہارے
والدین زندہ ہیں ؟ میں نے عرض کی جی ہاں (زندہ ہیں) آپ نے فرمایا: انہیں کے ساتھ
رہو کہ جنت انہیں کے پاؤں تلے ہے ۔ (نسائی جلد 2 صفحہ نمبر 303 کتاب الجہاد)
ایک حدیث پاک میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالی عنہا سے مروی ہے کہ تین چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے ان میں سے دو یہ ہیں: ماں باپ کے چہرے کو اور قرآن مجید کو۔ (کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 476)
ایک حدیث پاک
میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ جو مسلمان اپنے
ماں باپ کے چہرے کی طرف خوش ہوکر محبت کی نظر سے دیکھے گا اللہ تعالی اس کو مقبول
حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔(کنزالعمال جلد 16 صفحہ نمبر 469)
والدہ کے حقوق
میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:(1) احترام کرنا۔زبان سے اف تک نہ کہے(2) محبت
کرنا۔ہاتھ پاؤں چومنا (3) اطاعت: ان کی فرماں برداری کرنا (4) خدمت: ان کے کام
کرنا۔حکم بجا لانا (5)ان کو آرام پہنچنا (6)ان کی ضروریات کو پوری کرنا۔(7)قرض ادا
کرنا(8)جب فوت ہوجائےتو دعائے مغفرت کرنا(9)ان کی جائز وصیت پر عمل کرنا۔ (10) گاہ
گاہ ان کی قبر کی زیارت کرنا۔
والدین کی
مثال دو آنکھوں کی سی ہے، ایک دائیں ہے اور دوسری بائیں، اگر ایک آنکھ چلی جائے تو
بینائی متأثر ہوتی ہے اور اگر دونوں آنکھیں چلی جائیں انسان اندھا ہوجاتا ہے،
سواپنے والدین کی حفاظت اور خیال اپنی آنکھوں کی طرح کرو اور کہتے رہا کرو: رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(24) ترجمہ
کنزالایمان:اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی
عمر) میں پالا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل:24)
اللہ پاک ہمیں
اپنے والدین کا ادب کرنے ان کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
حافظ محمد انس عطاری (درجہ
اولی جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے مسلمانوں پر دوسرے مسلمانوں کے حقوق فرض کیے ہیں، جنہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے،
حقوق العباد میں سب سے مقدم حقوق والدین کے ہیں اور پھر والدین کے حقوق میں زیادہ
اہمیت ماں کے حقوق کو حاصل ہے
ہمارے پیارے
آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر ماں کی
فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں، کہیں ماں اور باپ دونوں کی فرمانبرداری
اور کہیں پر علیحدہ علیحدہ ان دونوں کی فرمانبرداری پر احادیث بیان فرمائی ہیں۔
چنانچہ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ میں آدمی کو وصیت کرتا
ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس
کی ماں کے حق میں، وصیت کرتا ہوں اُس کے باپ کے حق میں۔(المسند، ج6، ص463، حدیث:
18812۔الحقوق لطرح العقوق، ص36)
اس حدیث میں
بار بار وصیت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ خدمت میں باپ پر ماں کو ترجیح دے۔ مثلاً: ماں
باپ دونوں نے ایک ساتھ پانی مانگا تو پہلے ماں کو پلائے پھر باپ کو یا پھر دونوں
سفر سے آئے ہیں تو پہلے ماں کے پاؤں دبائے اور پھر باپ کے۔
اسی طرح ایک
اور حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ) روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں
کہ: ایک شخص نے خدمت اقدس حضور پرنور میں حاضر ہو کر عرض کی: یا رسول اللہ! صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اُس کے ساتھ نیک
رفاقت کروں؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟
فرمایا: تیری ماں، عرض کی: پھر؟ فرمایا: تیرا باپ ۔(صحیح البخاری، کتاب الادب،
حدیث: 5981 ج4، ص93)(الحقوق لطرح العقوق، ص36)
اس حدیث
مبارکہ میں پہلے والی حدیث کی طرح بار بار وصیت کی کہ ماں کو باپ پرخدمت میں ترجیح دی جائے لیکن ایک بات کا خیال رکھیں کہ
اگر والدین کا آپس میں جھگڑا ہو جائے تو ماں کا ساتھ دیتے ہوئے معاذ اللہ باپ کو
کسی طرح تکلیف پہنچانے کی کوشش کی نہ جائے یا اسے جواب دیا جائے یا بے ادبانہ آنکھ
ملا کر بات کی جائے، تو یہ سب باتیں حرام اور اللہ کی معصیت (نافرمانی) ہیں اور اللہ
عزوجل کی معصیت (نافرمانی) میں نہ ماں کی اطاعت اور نہ باپ کی اطاعت، تو اسے ماں
باپ میں سے کسی ایک کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں۔
اُم المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: میں نے حضور اقدس سید عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی: عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: شوہر
کا، میں نے عرض کی: اور مرد پر سب سے بڑا حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا۔ (مستدرک،
کتاب البرّ و الصلۃ، باب بر امک ثم اباک ثم القرب فالقرب حدیث: 7326، ج5،
ص208)(الحقوق لطرح العقوق، ص35)
ماں کی عظمت
اور شان بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جنت
ماؤوں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند الشّھاب، ج1، ص102، حدیث: 119)(سُمندری گُنبد،
ص5)
یعنی ان سے
بھلائی کرنا جنت میں داخلے کا سبب ہے اور اس سے متعلقہ ایک حدیث ہے کہ تاجدار دو
جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما، تو
ایسا ہے جیسے جنّت کی چوکھٹ (یعنی دروازے) کو بوسہ دیا ۔(دُرِّ مختار، ج9، ص606،
دارالمعرفۃ بیروت) (سُمندری گُنبد، ص5)
میٹھے اسلامی
بھائیو! ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً اُن کے بڑھاپے میں
زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے۔ یقینا ماں باپ کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال
دیتا ہے اور سخت بڑھاپے میں بعض اوقات بستر ہی پر بول و بزار (یعنی گندگی) کی
ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے، مگر یاد رکھیے! ایسے
حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے۔ بچپن میں ماں بھی تو بچے کی گندگی برداشت
کرتی ہی ہے اس لیے ہمیں چاہیے ہم اُن سے بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا کرنے کے بجائے
اُن سے محبت سے پیش آئیں اور اُن کی فرمانبرداری کریں۔
دل
دکھانا چھوڑ دیں ماں باپ کا
ورنہ
اس میں ہے خسارہ آپ کا
(وسائل
بخشش، 377)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
آج کے دور کے
اندرجو لوگ logic
کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسلام کے احکام کو چھوڑ رہے ہیں جبکہ تمام چیزوں
کااسلام میں بیان کیا جا چکا ہے ایسی ہی ایک عظیم ہستی ہماری والدہ بھی ہے جو ہمیں
پہلے دن سے لیکر اپنے آخری سانس تک ہم سے محبت کرتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہم ان کی
قدر نہیں کرتے۔ جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہاں بقیہ رشتوں کے
متعلق فرمایا وہیں پر ماں کی شان و عظمت کو بھی بیان کیا ہےبلکہ دین اسلام نے
والدین کے احترام کو اس حد تک ملحوظ رکھا ہے کہ کسی اور کے والدین کو بھی گالی
دینے کی اجازت نہیں دی یعنی دوسروں کے والدین کی بھی عزت کی جائے اور انہیں احترام
کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے لیکن ایک ہم
ہیں کہ اپنی والدہ کی قدر نہیں کرتے ایک تعداد ایسی ہے ہم میں سے کہ وہ اپنی والدہ
کو گالیاں دیتی نظر آتی ہے
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک
شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس پر قادر
نہیں ہوں۔ اس کی بات سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا کیا تیرے
والدین میں سےکوئی زندہ ہے؟ عرض گزار ہوا والدہ زندہ ہیں۔آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پس تو اپنی ماں کی خدمت اور فرمانبرداری کے معاملے میں
اللہ عز وجل سے ڈر جب تو اس پر عمل کرے گا تو حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اور
جہاد کرنے والا ہو گا۔جب تیری ماں تجھے بلائے تو اس کی فرمانبرداری کے بارے میں
اللہ عز وجل سے ڈرنا یعنی اس کی نافرمانی نہ کرنا اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک سے
پیش آنا۔(در منثور جلد چہارم صفحہ 172)
ایک اور حدیث
پاک میں ہے حضرت انس رضی الله تعالى عنہ فرماتے ہیں کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ (كنز
العمال جلد 16 صفحہ نمبر 461)
اورحضور نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے
کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ حسن سلوک کی مستحق ماں ہے، حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے
حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون
ہے فرمایا کہ تمہاری والدہ، عرض کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری والدہ ہے، عرض
کی کہ پھر کون ہے؟ فرمایا کہ تمہارا والد ہے۔ (بخاری، الصح كتاب الادب، باب من أحق
الناس، 5، 2227، قم، 2 5626 مسلم، الصح كتاب البر والصلة)
یہ تو مسلمان
والدہ کے متعلق ارشاد ہے جبکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تو مشرک
والدہ کے متعلق بھی حسن سلوک کا ارشاد فرمایا :
حضرت اسماء
بنت ابوبكر رضى الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں مکہ سے آئی ہے اور وہ مشرکہ ہےاور وہ دین اسلام
سے بھی بیزار ہے کیا میں اُس سے حسن سلوک کروں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا ہاں اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(مسلم، كتاب زكوة)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو والدہ کی فرمانبرداری کرنے کی توفيق عطا فرمائے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عتیق الرحمن عطاری (درجۂ
سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان مکہ راولپنڈی، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو! ماں وہ انمول اور عظیم ہستی ہے جس کا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ماں وہ
ہستی ہے جس کے احسانات کا بدلہ نہیں دیا جا سکتا ماں اپنی اولاد سے سب سے بڑھ کر
پیار کرتی ہے وہ اپنی اولاد سے وفاؤں کا بدلہ نہیں چاہتی لہٰذا جتنے ایک ماں کے
احسانات ہیں اتنا ہی زیادہ تاکید کے ساتھ ہمیں قرآن کریم اور احادیث کریمہ میں اپنی
ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے، بھلائی کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے
کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احادیث
طیبہ میں انسان سے ماں کے ساتھ بھلائی کرنے پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
ماں کے ساتھ
بھلائی اور فرمانبرداری کرنے کے بارے میں درج ذیل احادیث ہیں۔
اچھے
برتاؤ کی حقدار ماں ہے:1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک
شخص نے عرض کیا یارسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے اچھے برتاؤ کا
زیادہ حقدار کون ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہاری ماں
اس نے پھر عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری
ماں عرض کیا پھر کون؟ فرمایا: تمہارا باپ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا: تمہاری
ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہاری ماں پھر تمہار اباپ پھر تمہارا قریبی پھر قریبی۔
شرح حدیث: اس
سے معلوم ہوا کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے کیونکہ ماں بچے پر تین احسان
کرتی ہے پیٹ میں رکھنا،جننا،پرورش کرنا باپ صرف پرورش ہی کرتا ہے۔ بیٹا ماں باپ
دونوں کی خدمت کرے مگر مقابلہ کی صورت میں ادب و احترام باپ کا زیادہ کرے خدمت ماں
کی زیادہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ ان سے نرم اور نیچی آواز سے کلام کرے
مالی و بدنی خدمت کرے یعنی اپنے نوکروں سے ہی ان کا کام نہ کرائے بلکہ خود کرے ان
کا ہر جائز حکم مانے انہیں نام لے کر نہ پکارے اگر وہ غلطی پر ہوں تو نرمی سے ان
کی اصلاح کرے اگر قبول نہ کریں تو ان پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح جلد:6, حدیث نمبر:4688، ص 353،قادری پبلشر)
کافرہ
ماں سے بھی حسن سلوک کرو: حضرت سیدتنا اسماء بنت ابی بکر رضی
اللہ تعالٰی عنہما سےروایت ہے فرماتی ہیں: رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے زمانے میں میرے پاس میری ماں آئی اور اس وقت وہ مشرکہ تھی تو میں نے
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سوال کرتے ہوئے عرض کی ’’میری ماں
میرے پاس آئی ہے اور اسے کچھ طمع ہے کیا میں اپنی ماں سے صلہ رحمی کروں ؟
‘‘ارشادفرمایا: ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔
شرح حدیث:
معلوم ہوا کہ کافر و مشرک ماں باپ کی بھی خدمت اولاد پر لازم ہے۔
حدیث پاک سے ماخوذ چند فوائد:عَلَّامَہ بَدْرُ
الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْغَنِی فرماتے ہیں: اس حدیث پاک سے چند
فوائد حاصل ہوئے:
(1) جس طرح مسلمان ماں سے صلہ رحمی کرنا جائز ہے
اسی طرح کافرہ ماں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا جائز ہے۔
(2) یہ حدیث
پاک اُن علماء کی مستدل (یعنی دلیل) ہے کہ جو مسلمان بیٹے پر کافر ماں باپ کا نفقہ
واجب کرتے ہیں۔
(3) رشتہ
داروں سے ملاقات کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔
(4) اِس حدیث پاک میں سَیِّدتُنا اسماء رضی اللہ
عنہا کی فضیلت ہے کہ انہوں نے کافر ماں سے صلہ رحمی کرنے کے بارے میں غورو فکر کیا
اور یہی آپ کی شانِ عظیمی کے لائق تھا کہ آپ سَیِّدُنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی
بیٹی اور حضرتِ سَیِّدُنا زبیر بن عوام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی زوجہ ہیں۔
(فیضان رياض الصالحین,حدیث نمبر:312، ص 609، المدینة العلمیہ)
والدہ
کی خدمت کو لازم پکڑو:حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ان کے والد جاہمہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور
عرض کیایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میرا جہاد میں جانے کا ارادہ
ہے میں آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا کیا تیری ماں ہے؟عرض کیا ہاں۔ فرمایا اس کی خدمت اپنے اوپر لازم
کر لے کہ جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے۔(مسند للإمام أحمد بن حنبل، حدیث:15538، ص
1046، مکتبہ دار السلام)
ماں
کے ساتھ بھلائ کرنے کی جزاء:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ وسلَّم نے فرمایا: میں جنت میں گیا، اس میں قرآن پڑھنے کی
آواز سنی،میں نے پوچھا یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا، حارثہ بن نعمان
ہیں۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہی حال ہے
احسان کا، یہی حال ہے احسان کا، حارثہ اپنی ماں کے ساتھ بہت بھلائی کرتے تھے ۔(بہار
شریعت،جلد 3،حصہ 16، باب سلوک کرنے کا بیان، ص 552، المدینۃ العلمیہ)
ماں
سے بھلائی کرنے کی تاکید: حضرت ابو سَلامہ سَلامی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں آدمی کو اپنی ماں کے
ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرنے کی
وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں
آدمی کو اپنے باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، میں آدمی کو اپنے مولیٰ کے
ساتھ جس کا وہ والی ہو بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ اس کو اُس سے تکلیف ہی
کیوں نہ پہنچی ہو۔
شرح حدیث:عربی میں مولیٰ کا لفظ آزاد کردہ غلام
یا دوست یا رشتے دار یا ساتھی سبھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یہاں کوئی بھی معنی
مراد لے سکتے ہیں۔ اگرچہ اس سے تکلیف پہنچے لیکن اس کےبدلے میں تکلیف نہ دے بھلائی
تو یہی ہے کہ برائی کے بدلے نیکی کرے، اور جو اپنے سے رشتہ توڑے اس سے رشتہ جوڑے۔ (سنن
ابن ماجہ، آداب کا بیان، والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا باب، جلد 2، ص 936، ح
3657، مکتبة البشری)
لہٰذا ہمیں
بھی چاہیے ہم اپنی ماں کے ساتھ بھلائی کریں ان کے ہر حکم کو مانیں ان کو(اُف)تک
بھی نہ کہیں،ان کو آتے دیکھ کر باادب کھڑے ہوجائیں۔
اللہ کریم
ہمیں اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک و بھلائی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم
النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد سرور خان قادری (درجۂ سادسہ
جامعۃُ المدینہ شیرانوالہ گیٹ لاہور، پاکستان)
پیارے اسلامی
بھائیو الله پاک نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے۔ ان نعمتوں
میں سے ایک عظیم الشان نعمت والدۂ محترمہ بھی ہیں۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے
الله پاک کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہئے۔
ماں کے ساتھ
حسن سلوک کرنے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے سے اللہ تعالیٰ دنیاوآخرت دونوں
جہان میں اپنا خاص فضل فرماتا ہے،اوروالدین کی خدمت وفرمانبرداری کرنے والوں کو
اکثر دنیا میں بہت آرام،سکون،خوشیاں اور مال و دولت نصیب ہوتا ہےاور آخرت میں تو
اس کے وارے ہی نیارے ہیں۔
جنت
کی چوکھٹ:ماں
کے قدموں کے نیچے جنت ہے ماں کی خدمت وفرمانبرداری کرنا جہاد سے بھی افضل عبادت
ہے۔حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم! میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں اور میں اس معاملے میں آپ کی اجازت لینے
آیا ہوا ہوں۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیری والدہ
زندہ ہے ؟عرض کی:جی ہاں! فرمایا ہمیشہ اس کے قدموں سے چمٹے رہو کیونکہ اس کے قدموں
میں جنت ہے۔ اس شخص نے یہ بات تین بار عرض کی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ویسے ہی جواب ارشاد فرمایا۔(مجمع الزوائد،جلد8،صفحہ137)
ایک اور حدیث
شریف میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں جنت میں
گیا اس میں قرآن پڑھنے کی آواز سنی، میں نے پوچھا:یہ کون پڑھتا ہے؟ فرشتوں نے کہا،
حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: یہی حال ہے احسان کا، یہی حال ہے احسان کا۔ (شرح السنّۃ، کتاب البرّ
والصلۃ، باب برّ الوالدین، 6/426، الحدیث: 3312)
اور شعب
الایمان کی روایت میں مزید یہ بھی ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کے ساتھ بہت
بھلائی کرتے تھے۔(شعب الایمان، الخامس والخمسون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، 6/184،
الحدیث: 7851)
علّامہ علی بن
محمد خازن رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے
بڑھ کر کوئی اطاعت و فرمانبرداری نہیں۔
پیارے اسلامی
بھائیو ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے والدین کی زندگی ہی میں ان کی قدر اور ان کی اطاعت
وفرمانبرداری کرلیں یہ نہ ہو کہ بعد میں پچتاوا ہو۔
الله کریم کی
پاک بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی والده کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اور جن کی والده اس دنیا فانی سے چلی گئیں ہیں ان کی بے حساب
بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد اویس عطّاری (درجۂ ثانیہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انسان کو اللہ
تبارک و تعالی نے اس دنیا میں پیدا فرمایا انسان اس دنیا میں دو ہستیوں کے وسیلے
سے آتا ہے جنہیں ماں باپ کہا جاتا ہے اس سے پچھلے ماہنامہ میں ہم نے والد کی
فرمانبرداری پر احادیث پڑھی اس مرتبہ والدہ کی فرمانبرداری پر احادیث پڑھتے
ہیں۔والدین کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کرنے کا حکم رب تعالی نے قرآن پاک میں دیا
ہے جبکہ قرآن و حدیث میں والدہ کے حقوق زیادہ بیان کیے گئے ہیں کیونکہ والدہ زیادہ
مشقتیں جھیلتی ہے بچے کی پیدائش پرورش وغیرہ کے مراحل کی مشکلیں ماں ہی جھیلتی ہے
ماں ٹھنڈی چھاؤں کی طرح ہے جس کے سائے میں جا کر انسان سکون پاتا ہے ایک صحابی رضی
اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ نبوی میں عرض کی ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر
گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے
چھ میل تک لے گیا ہوں کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں سرکار صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے
اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے (نیکی کی دعوت،ص445)واقعی
ماں نے اپنے بچے کے لیے سخت تکلیفیں اٹھائی ہوتی ہیں درد زہ یعنی بچے کی ولادت کے
دوران ہونے والے درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ آئیے والدہ کی فرمانبرداری پر کچھ
احادیث پڑھتے ہیں:
سب
سے زیادہ حسن سلوک: (1) ایک شخص نے خدمت اقدس حضور پرنور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت کروں فرمایا
تیری ماں عرض کی پھر فرمایا تیری ماں عرض کی پھر فرمایا تیری ماں عرض کی پھر
فرمایا تیرا باپ۔(صحیح بخاری،حدیث 5971)
حضور
کی وصیت ماں کے حق میں: (2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس
کی ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں وصیت کرتا ہوں اس کے باپ کے
حق میں۔(ابن ماجہ، حدیث 3657)
مرد
پر سب سے بڑا حق: (3)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
تعالی عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور اقدس سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے عرض کی عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے فرمایا شوہر کا میں نے عرض کی اور مرد پر
سب سے بڑا حق کس کا ہے فرمایا اس کی ماں کا۔(المستدرک،حدیث 7326)
جنت
ماں کے قدموں کے پاس: (4)حضرت سیدنا معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ
تعالی عنہما فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اللہ عزوجل
کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرا جہاد کرنے کا ارادہ ہوا تو میں آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں مشورہ کرنے چلا آیا تو رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے عرض کی ہاں فرمایا
تو اس کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(سنن
نسائی، کتاب الجہاد،ج 4،ص 11)
مشرکہ
ماں سے حسن سلوک:(5)حضرت
سیدتنا اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میری ماں جو کہ مشرکہ
تھی قریش کے عہد اور اس کی مدت میں جبکہ انہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا ہوا تھا اپنے باپ کے ساتھ مدینہ منورہ آئیں میں نے
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی
کر سکتی ہوں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ
صلہ رحمی کرو۔(فیضان ریاض الحین, جلد 4, صفحہ 16)
پیارے پیارے
اسلامی بھائیو دیکھا آپ نے کہ والدین کے ساتھ بھلائی اور اچھا سلوک کرنا صرف
مسلمان والدین کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اگر وہ دونوں کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ
اچھا سلوک کیا جائے گا۔اللہ عزوجل ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی
فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد اسجد عطّاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو یقینا ماں باپ کا درجہ بہت بلند و بالا ہے ان کی دعائیں اولاد کے حق
میں مقبول ہوتی ہیں بس انہیں خوش رکھیے خوب ان کی خدمت کر کے دعائیں لیجیے ان کی
خوشی ایمان کی سلامتی اور ان کی ناراضی ایمان کی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے آئیے
ایک حکایت پڑھتے ہیں ایک ڈاکٹر کا بیان ہے ایک شخص کو دل کا شدید دورہ پڑا بچنے کی
امید نہ تھی اس کی ماں بچھونے کے پاس بیٹھی دعا کر رہی تھی جو حاضرین نے سنی وہ
کہہ رہی تھی یا اللہ عزوجل میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا ڈاکٹرز
علاج میں مشغول تھے اور محترمہ دعا میں لگی ہوئی تھی جب آخری وقت آیا مریض نے بلند
آواز سے کلمہ پڑھا ہونٹوں پر تبسم پھیل گئی اور روح پرواز کر گئی سبحان اللہ جس
مسلمان کی ماں آخری وقت اس سے خوش ہو اس کی بھی کیا شان ہے اور جس کو آخری وقت
کلمہ نصیب ہو جائے خدا کی قسم وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے چنانچہ اللہ عزوجل کے محبوب
دانائے غیوب منزہ عیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان جنت نشان ہے جس کا آخری
کلمہ لا الہ الا اللہ وہ جنت میں داخل ہوگا میٹھے اسلامی بھائیو اگر آپ کے ماں باپ
یا ان میں سے کوئی ایک ناراض ہے تو فورا ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لیجئے
اس میں دونوں جہاں کی بھلائیاں ہیں۔
(1)کیا
میں نے والدہ کا حق ادا کر لیا؟ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے
بارگاہ نبوی میں عرض کی کہ ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان
پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے
گیا ہوں کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں سرکار نامدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں
شاید یہ ان میں سے کسی ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکتا ہے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد 3)
(2)سب
سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہو کر عرض کی لوگوں میں سب سے
زیادہ میرے حسن سلوک کا حقدار کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد
فرمایا پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیرا باپ۔(مسلم شریف, حدیث
2548)
(3)کافرہ
والدہ کے ساتھ بھی حسن سلوک حضرت سیدنا اسماء رضی اللہ تعالی عنہا
سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میری ماں جو کہ مشرکہ تھی قریش کے احد اور اس کی مدت میں
جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا ہوا تھا
اپنے باپ کے ساتھ آئی میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کیا میں
اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(صحیح بخاری،حدیث 5979)
جہاد
پر جانے کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے (5)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی
اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں اس نے عرض
کی جی ہاں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پس تو ان دونوں کی خدمت
میں رہ کر جہاد کر۔(صحیح مسلم, حدیث 2549)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
دیا ہے خصوصا ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے یقینا ماں باپ کا
بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے بسا اوقات سخت بڑھاپے میں اکثر بستر ہی پر
بول و براز یعنی گندگی کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموما اولاد بیزار ہو جاتی
ہے یاد رکھیے ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے بچپن میں ماں بھی تو
بچے کی گندگی برداشت کرتی ہیں۔اس لیے ہمیں کبھی بھی ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے
اور تو اور ماں باپ کو محبت کے ساتھ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب بھی ملتا ہے آپ
اپنے والدین کو خوش ہو کر محبت کے ساتھ دیکھیں ان شاءاللہ آپ کو مقبول حج کا ثواب
ملے گا۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
حاجی محمد فیضان (درجۂ ثانیہ
جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
محترم
قارئین!ماں ایک باشعور اور عظیم خاتون ہیں جو بچوں کی زندگی میں باد صبا کی مانند
ہے جو اولاد کے لیے طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتی ہے جو اپنی اولاد کی خاطر اپنی
آرزوؤں کا گلا گھونٹ دیتی ہے اپنی خواہشات کو خاک میں ملا دیتی ہے جو خود نہیں
کھاتی اور اپنے بچوں کو کھلاتی ہے لیکن آج معاشرے میں ایسے نوجوان پائے جاتے ہیں
جو اپنی ماں کو گالیاں دیتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں۔
محترم قارئین!آپ
کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ وہ بھی تو انسان ہے مگر اتنی
تاکید کیوں دی جا رہی ہے کہ تم اسے اُف تک نہ کہو اس کا احترام کرو بلکہ اس کے
چاہنے والوں کا بھی ادب کرو جب یہ سوال ابھرے تو ماں کا لطف و کرم آپ سے سوال کرے
گا بیٹا بھول گئے وہ میں ہی ہوں جس نے تمہیں اپنے جگر کا خون دودھ بنا کر پلایا وہ
میں ہی ہوں جب تو بستر پر استنجاء کر دیتا تھا تو میں تمہیں دوسری جانب سلا دیتی
تھی خود وہاں سوتی تھی اور جب تو دوسری جانب بھی استنجاء کر دیتا تھا تو میں
سردیوں کی راتوں میں گیلے بستر پر سوتی اور تجھے اپنے سینے پر سلاتی۔ دل عزیز
سامعین ماں کی فرمانبرداری کا حکم اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے بھی فرمایا ہے آئیے آپ کے فرمان سے ماں کی فرمانبرداری کی اہمیت سمجھتے ہیں:
(1)مشرکہ
ماں سے بھلائی کا حکم حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی
ہیں کہ میری ماں آئی جب کہ وہ قریش میں مشرکہ تھی میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری ماں میرے پاس آئی ہیں وہ دین سے دور ہیں کیا میں ان
سے صلہ رحمی کروں فرمایا ہاں کرو۔ (مراۃ المناجیح ,حدیث 4692 ,جلد 6,ص 387)
(2)
ماں کی خدمت کا اجر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک
شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی میں
جہاد کا شوق رکھتا ہوں مگر طاقت نہیں رکھتا فرمایا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ
ہے عرض کیا جی ہاں میری ماں زندہ ہے فرمایا تو اس کی خدمت میں اللہ پاک کی اطاعت
کرو جب تم ایسا کرو گے تو تم حاجی یعنی عمرہ کرنے والا اور مجاہد کا مرتبہ پاؤ گے۔(المعجم
الاوسط,حدیث 6915،ج 6،ص 171)
(3)
اچھے برتاؤ کا حقدار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ
ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے اچھے برتاؤ
کا زیادہ حقدار کون ہے فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض
کیا پھر کون فرمایا تمہاری ماں عرض کیا پھر کون فرمایا تمہارا باپ۔ (مرآۃ
المناجیح،حدیث 4690,ج 6, ص 171)
(4)بھلائی
ایسی ہوتی ہے حضرت
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا کہ میں جنت میں گیا تو میں نے اس میں تلاوت سنی میں نے کہا یہ کون
ہے عرض کیا یہ حارثہ ابن نعمان ہے بھلائی ایسی ہوتی ہے بھلائی ایسی ہوتی ہے اور وہ
اپنی ماں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکوکار تھے۔(مرآۃالمناجیح،حدیث 4708,ج 6,ص 393)
(5)
جنت ماں کے پاس ہےحضرت
معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جاہمہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے حاضر ہوا ہوں تو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیری ماں زندہ ہے عرض کیا ہاں فرمایا اسے
مضبوط پکڑو کیونکہ جنت اس کے پاس ہے۔(مرآۃ المناجیح،حدیث 4718,ج 6،ص 402)
اللہ عزوجل سے
دعا ہے کہ اللہ عزوجل ہمیں اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک اور فرمانبرداری کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔