اللہ
نے انسانی دنیا میں عورتوں کو جو مقام و مرتبہ بخشا ہے اور جن خوبیوں اور گونا گوں
صفات سے نوازا ہے اور اس دنیا میں انسانی خوشگوار زندگی اورپرسکون حیات انسانی
کیلئے عورت کو جو اساس و بنیاد کا درجہ حاصل ہے یہ کسی بھی باشعور انسان کی معرفت
پر پوشیدہ نہیں اسی طرح اللہ نے مردوں کو بھی بہت زیادہ مقام و مرتبہ عطا فرمایا
ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد کو عورت کا حاکم بنایا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ
بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْؕ- (پ 5، النساء: 34) ترجمہ کنز العرفان:عورتوں پرنگہبان ہیں اس
وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں
پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
اس کی
تفسیر میں صدر الافاضل سید مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: تو عورتوں کو ان (مردوں) کی اطاعت لازم ہے اور مردوں کو حق ہے کہ وہ عورتوں
پر رعایا کی طرح حکمرانی کریں اور ان کے مصالح اورتدابیر اور تادیب و حفاظت کی
سرانجام دہی کریں۔ (خزائن العرفان، ص 107)
معلوم
ہوا کہ اللہ نے مردوں کو عورتوں کا حاکم بنایا ہے اور مرد کو بڑی فضیلت عطا کی ہے
اس لئے بیوی کا فرض ہے کہ وہ خاوند کا حکم مانے اور ہر شرعی مسئلےمیں خاوند کی
اطاعت کرے بلکہ عورت کیلئے اپنے شوہر کو راضی رکھنا بڑے اجر کا کام ہے۔ لہذا بیوی
ہر لحاظ سے خاوند کی اطاعت گزاری اور اس کے حقوق میں ہرگز کوتا ہی نہ کرے بلکہ خود
تکلیف جھیل کر اپنے خاوند کو آرام پہنچانے کی کوشش میں رہے کیونکہ عورت کیلئے اپنے
شوہر کو راضی رکھنا بہت بڑی سعادت مندی ہے۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے
مروی ہے کہ حضور تاجدار کائنات ﷺ نے فرمایا: جس عورت کا انتقال اس حالت میں ہو کہ
اس کا شوہر اس سے خوش و راضی ہو تو وہ عورت جنت میں جائے گی۔ (شعب الایمان، 5 /421)
محترم
اسلامی بہنو! اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شوہر کی رضا اور خوشنودی جنت میں
جانے کا باعث ہے۔ لہذا شوہر کو ناراض رکھنا بات بات پر اختلاف اور جھنجھٹ کرنا ان
سے شاکی رہنا مال یا دیگر سلسلے میں اسے پریشان کرنا ان کی خوشی اور نا خوشی کی
پرواہ نہ کرنا یہ سب اچھی بات نہیں اور جنتی عورت کا یہ مزاج اورشیوہ نہیں۔ بہت سی
عورتوں کو دیکھا گیا ہے کہ ان کے شوہر بوڑھے ضعیف اور بیمار ہو جاتے ہیں تو ان کی
پرواہ نہیں کرتیں۔ کمزوری اور بیماری کی وجہ سے ان کو خدمت اور کھانے پینے میں وقت
کے لحاظ کی ضرورت ہوتی ہے تو عورت ایسی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیتی ہے۔
شوہر
کا حق اتنا زیادہ ہے کہ ادا نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور پرنور ﷺ کی خدمت میں ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر حاضر ہوا اور کہا
کہ یہ میری بیٹی ہے شادی سے انکار کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے بیٹی! اپنے والد
کا کہنا مان لو۔ اس نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں
اسوقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک کہ مجھے یہ نہ معلوم ہو جائے کہ بیوی پر شوہر کا
کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ شوہر کا بیوی پر یہ حق ہے کہ خاوند کو اگر کوئی زخم
ہے تو بیوی چاٹ لے یا اس کی ناک سے پیپ یا خون بہے اور بیوی اسے پی بھی جائے تب
بھی اس نے خاوند کا حق ادا نہ کیا (یہ مبالغہ ہے غایت خدمت اور محبت سے حقیقا پینا
مراد نہیں کیونکہ مذکورہ چیزیں ناپاک ہیں) اس نے کہا: قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے
ساتھ بھیجا ہے میں شادی نہیں کروں گی، کیونکہ مجھ سے حق ادا نہیں ہو سکے گا۔(مستدرک
للحاکم، 2/547، حدیث: 2822)
اس
حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عورت شوہر کا حق کماحقہ (Exactly)
ادا نہیں کرسکتی۔ مطلب بیوی یہ نہ سوچے کہ میں نے فلاں خدمت کر دی حق ادا ہو گیا
بلکہ خدمت کرتی رہے۔
جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں: حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید المرسلین ﷺ نے فرمایا: جو عورت اللہ سے
(گناہ کے بارے میں ڈرے اور گناہ نہ کرے) اور اپنی عزت کی حفاظت کرے اور شوہر کی
اطاعت و فرمانبرداری کرے اس کیلئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتےہیں اور ان
سے کہا جائے گا: جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند امام احمد، 1/406،
حدیث: 1661)
جنت
کے آٹھ دروازے ہوں گے۔ لوگ اپنے اپنے خصوصی اعمال کی وجہ سے جنت کے دروازے سے
جائیں گے۔ عموما لوگ ایک دروازے سے جانے کے مستحق ہوں گے لیکن بعض مرد اور بعض
عورتیں ایسی ہوں گی کہ ان کو جنت کے آٹھوں دروازوں سے جانے کی اجازت ہوگی اور ان
کو اختیار ہوگا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہیں جنت میں چلے جائیں۔
یہ
کون عورت ہوگی جس میں یہ تین اوصاف ہوں گے:
(1)
ایک یہ کہ تقویٰ والی زندگی یعنی تمام نا جائز اور شریعت کے منع کردہ چیزوں سے
بچتی ہوگی۔ ہر گناہ کی بات سے بچتی ہوگی۔ مثلاً پانچوں نمازوں کی پابند، خصوصاً
صبح کی نماز کی۔ اپنے زیوروں کے حساب سے اگر نصاب کے برابر ہو زکوۃ نکالتی ہوگی۔
کسی
سے لڑتی جھگڑتی نہ ہوگی، لعن طعن نہ دیتی ہوگی، کوستی نہ ہوگی، احسان نہ جتلاتی
ہوگی، اسی طرح بے پردہ کہیں نہ جاتی ہوگی،اجنبی مردوں سے سخت احتیاط کرتی ہوگی،بلا
شدید ضرورت کے گھر سے باہر نہ پھرتی ہوگی،رشتہ داروں میں سے کسی سے کینہ اور بغض و
عناد نہ رکھتی ہوگی، غیبت سے بچتی ہوگی، نا محرم رشتہ داروں اور دیور سے پردہ کرتی
ہوگی، نہ ٹی وی خود دیکھتی ہوگی اور نہ گھر میں رکھتی ہوگی،ناچ و گیت گانے میں
شریک نہ ہوگی۔ غرض کہ ہر گناہ کبیرہ سے بچتی ہوگی اور اگر کسی وجہ سےگناہ ہو جائے
تو فورا توبہ کر لیتی ہوگی۔
(2)
یہ کہ شوہر کے علاوہ کسی پر نظر اور نگاہ نہ رکھتی ہوگی۔
(3)
شوہر کی اس امر میں جس سے شریعت نے منع نہیں فرمایا۔ اطاعت و فرمانبرداری کرتی
ہوگی۔ اس میں غفلت وسستی کا بہانہ نہ تلاش کرتی ہوگی۔ مثلاً عادت اور ضرورت کے
مطابق وقت پر تمام کام کر دیتی ہوگی۔ بیماری و تھکن کی حالت میں خدمت کر دیتی ہو
گی۔ مثلاً شوہر کا مزاج (Disposition) معلوم ہے کہ گرم کھانا کھاتے ہیں۔ گرم پانی
سے وضو کرتے ہیں تو ان (شوہر) کے حکم دینے سے پہلے ہی اس کا اہتمام رکھتی ہوگی۔
مطلب یہ کہ اس کی خوشی اور آرام کا لحاظ رکھتی ہوگی تو ایسی عورت کیلئے جنت کے
آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے۔
محترم
ماؤں، بہنوں! ان تینوں چیزوں پر پیشگی سے عمل کر لو اور اسی کی تعلیم موجودہ
بیٹیوں اور کل کی ہونے والی ماں کو دو اور جنت کے آٹھوں دروازے کھلوا لو۔ آج تھوڑی
نفس اور ماحول کیخلاف مشقت برداشت کرلو۔کل جنت کے مزے لوٹ لو جو ہمیشہ ہمیشہ کا
مزہ ہے۔
اللہ
ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شوہر کی بلا اجازت گھر سے نکلنے پرفرشتوں کی لعنت: حضرت
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے حضور پر نور ﷺ سے سنا کہ آپ فرما
رہے تھے: جب عورت شوہر کے گھر سے شوہر کی ناراضگی میں نکلتی ہے تو آسمان کے سارے
فرشتے اور جس جگہ سے گزرتی ہے۔ ساری چیزیں انسان اور جن کے علاوہ سب لعنت کرتے ہیں۔(مجمع
الزوائد، 4/563، حدیث: 7638)
شوہر
کی بلا اجازت کے جب عورت باہر نکلتی ہے تو آسمان کے فرشتے رحمت کے فرشتے عذاب کے
فرشتے سب اس پر لعنت کرتے ہیں۔ جب تک کہ وہ واپس نہ آ جائے۔ (معجم اوسط، 6/408،
حدیث: 9231)
عورتوں کیلئے نصیحت آموز حکایت: حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ حضور مکی مدنی سرکار،سرکار ابد قرار ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک
شخص گھر سے باہر جاتے ہوئے اپنی بیوی سے کہہ گیا کہ گھر سے نہ نکلنا۔ اس کے والد
گھر کے نچلے حصہ میں رہتے تھے اور وہ گھر کے اوپر رہا کرتی تھی۔ اس کے والد بیمار
ہوئے تو اس نے حضور نور مجسم ﷺ کی خدمت میں بھیج کر عرض کیا اور معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: اپنے شوہر کی بات مانو چنانچہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ پھر اس نے
حضورطہ ویس ﷺ کے پاس آدمی بھیج کر معلوم کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: شوہر کی اطاعت کرو۔
پھر حضور سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ ﷺ نے اس کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ اللہ نے
تمہارے شوہر کی اطاعت کرنے کی وجہ سے تمہارے والد کی مغفرت کر دی اور جنت عطا فرما
دی۔ (مجمع الزوائد، 4/316)
حدیث
مذکورہ میں عورت کا اپنے والد کے پاس نہ جانا صرف شوہر کی اطاعت کی وجہ سے تھا۔
یہ
جذبہ ایمانی صحابیہ کا رضی اللہ عنہا ہے۔ ورنہ آج کے اس پرفتن دور میں کون عورت ہے
کہ باپ وفات پا جائے اور وہ نہ جائے بلکہ اس زمانہ میں تو کوئی شریعت کی اجازت
لینا ہی گوارا نہ کرے۔ اللہ ہماری اسلامی بہنوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حدیث
مذکورہ پر غور کیجئے کہ حضور فخر بنی آدم ﷺ نے بھی اس صحابیہ رضی اللہ عنہ کو اسی
بات کی تاکید کی تھی کہ جب شوہر نے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے تو مت نکلو
اور شوہر کی بات کا نصیحت کا لحاظ رکھو۔ یہاں تک کہ والد کی وفات ہوگئی۔ اللہ نے
خاوند کی اطاعت کی برکت سے اس کے والد کی مغفرت فرمادی اور جنت عطا فرما دی۔ جب
بیوی کی اطاعت سے اس کے والد کی مغفرت ہو گئی تو خود عورت بھی مغفرت کے لائق نہ
ہوگی؟ یقینا ہوگی۔
شوہر کی خدمت صدقہ ہے: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیوی کا شوہر کی خدمت کرنا صدقہ ہے۔ كنز العمال،
16/169)
شوہر
کی خدمت گزار اسلامی ماؤں، بہنوں تمہیں مبارک ہو کہ اس کی خدمت کرنے کی کتنی فضیلت
ہے کہ جس طرح اہل مال کو اللہ کے راستہ میں مال خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح
تمہیں شوہروں کی خدمت میں ثواب ملتا ہے۔
شوہر
کی خدمت کا مفہوم ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدمت کا مفہوم وسیع ہے۔ اس میں لیل و
نہار یعنی دن اور رات کے تمام معمول شامل ہیں مثلاً ناشتہ اور کھانا ان کے وقت اور
مزاج کی رعایت کر کے بنانا ان کے بھی سامان کی حفاظت اور طریقہ سلیقہ سے رہنا، غسل
و وضو میں تعاون کرنا اور اگر غسل کی حاجت ہو تو ان کے کہے بغیر انتظام کرنا اور
پہلے سے تیار رکھنا حسب ضرورت کپڑے دھودینا۔ پھٹے ہوں تو سی دیتا۔ حسب ضرورت سر
پاؤں دبا دینا،بیمار ہوں تو ان کی دوا اور کھانے کے پر ہیز کا اہتمام کرنا، صبح
فجر کیلئے دو پہر کو ظہر کیلئے جگا دینا،سونے سے پہلے تکیہ و بستر کا اہتمام کرنا۔
شوہر کے احباب اور مہمانوں کی خدمت کرنا رات میں کچھ دیر ہو جائے تو انتظار کرنا
موسم کے موافق تھوڑا گرم کھانا دینا۔
غرض
کہ ہر وہ کام جس میں شوہر کو راحت اور سکون ملے۔ اس کا اہتمام اور خیال کرنا خدمت
ہے جس کے کرنے پر عورت کو صدقہ و خیرات کا سا ثواب ملتا ہے۔
لہذا
جو عورت صدقہ مالی کا ثواب حاصل نہیں کر سکتی وہ خدمت سے صدقہ کا ثواب حاصل کر
سکتی ہے۔