اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت اورنگ زیب،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

والدین اولاد کے حاکم ہوتے ہیں اور ہر حاکم پر لازم
ہے کہ وہ اپنی رعایا کی تربیت کرے۔ بروز قیامت ہر حاکم سے اس کی رعایا کے بارے میں
سوال کیا جائے گا اگر والدین کو دیکھا جائے تو سوال ہوگا کہ اپنی رعایا یعنی اولاد
کی کیا تربیت کی اور کیا سکھایا؟ اور اولاد بگڑنے میں اولا ہاتھ ماں باپ کا ہی
ہوتا ہے۔ اولاد بگڑنے کے اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ والدین بچپن سے ہی اولاد کی ہر خواہش پوری کرتے
ہیں کہ بس اولاد نے جس طرف اشارہ کیا وہی لے دیا تو یوں والدین اس بچے پر ظلم کرتے۔ان
کے بگڑنے کا سبب بنتے۔ اسے صبر کرنا نہیں آتا۔یوں ہر خواہش پوری کرنے کے باعث جب
یہی اولاد نوجوان ہوتی تو والدین کو تنگ کر کے رکھ دیتی کہ ہماری فلاں خواہش بھی
پوری کریں فلاں خواہش بھی پوری کریں۔
2۔ والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور
دوسرے کے ساتھ بے توجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے اس سے ایک بچے
کے اندر گھٹن،جلن و حسد،نفرت و مایوسی اور رقابت و بغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں
اور دوسرے میں غرور و برتری کے۔
3۔ تربیت میں کمی کی وجہ سے بھی اولاد میں بگاڑ
پیدا ہوتا۔اولاد بچپن سے ہی تربیت نہیں کرتے کہ ابھی اس کو کیا سمجھ بڑا ہوگا تو
سمجھائیں گے تب سمجھ جائے گا ابھی سمجھ نہیں بچہ ہے جو غلط کام کر رہا کرنے دیں
بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا۔ایسے جملے اولاد کو بگاڑنے میں بڑا سبب بنتے ہیں۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد عمران،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد بگڑنے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں، جو عموماً
والدین کی تربیت، ماحول، اور سماجی اثرات سے جڑے ہوتے ہیں۔ درج ذیل کچھ اہم اسباب
ہیں:
1۔ والدین کی غفلت: والدین
کا بچوں کے جذباتی یا جسمانی ضروریات کو نظرانداز کرنا۔
بچوں کے ساتھ وقت نہ گزارنا اور ان کی سرگرمیوں پر
نظر نہ رکھنا۔ ان کی زندگی میں دلچسپی نہ لینا یا حد سے زیادہ سختی کرنا۔
2۔ نامناسب ماحول: گھر
میں لڑائی جھگڑے یا بدسلوکی کا ماحول۔ والدین کے درمیان تعلقات کی خرابی یا
علیحدگی۔ ایسا ماحول جہاں اخلاقی اقدار کو نظرانداز کیا جاتا ہو۔
3۔ دوستوں کی بری صحبت:غلط
صحبت یا دوستوں کا اثر۔ نشے یا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ وقت
گزارنا۔
4۔ تعلیم و تربیت کی کمی: دینی
اور اخلاقی تربیت کا فقدان۔ والدین یا اساتذہ کا بچوں کی تعلیم کو اہمیت نہ دینا۔
5۔ میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال: انٹرنیٹ
اور سوشل میڈیا کا بے جا استعمال۔ غیر اخلاقی مواد تک رسائی۔
6۔ حد سے زیادہ آزادی یا روک ٹوک: والدین
کی طرف سے بچوں کو حد سے زیادہ آزادی دینا۔ یا پھر ان پر حد سے زیادہ پابندیاں
لگانا۔
7۔ عدم توجہ اور محبت کی کمی: والدین
کا بچوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ بچوں کو محبت اور اعتماد نہ دینا۔
8۔ غربت یا مال و دولت کی زیادتی: غربت
کی وجہ سے ضروریات پوری نہ ہونا۔ یا پھر بے جا دولت کی وجہ سے بچوں کا لاپرواہ ہو
جانا۔
9۔ والدین کا غلط رویہ: بچوں
کے سامنے غلط رویوں کا مظاہرہ۔ جھوٹ، دھوکہ، یا بے ایمانی کو معمول بنانا۔
10۔ دعا اور روحانی تعلق کی کمی: والدین
کا بچوں کے لیے دعا نہ کرنا۔
11 ۔ دین سے دوری: دین
سے دوری اور روحانی تربیت کا فقدان۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد شبیر،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا
روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،گالیاں دیتے ہیں،
نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر والدین یہ
کہتے نظر آتے ہیں کہ دوستوں کی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔لیکن کسی کا ذہن بھی اس طرف نہیں
جاتا کہ شاید ہم سے پرورش کرنے میں کوتاہی نا ہو گئی ہو۔ کیوں کہ اگر آج کل والدین
کو اگر دیکھیں تو ایک ہاتھ سے بچے کو فیڈر پلا رہے ہوتے ہیں تو دوسرے میں خود موبائل
دیکھتے ہیں، یا اگر بچہ رو رہا ہوتا ہے تو موبائل پر کارٹون یا کچھ میوزک وغیرہ
لگا دیتے ہیں۔ یہ مقام غور ہے والدین کے لیے کہ بچے کو موبائل کی عادت کون ڈال رہا
ہے بچوں کا دماغ تو کورا کاغذ ہوتا ہیں انکو کیا معلوم کہ موبائل کیا چیز ہے یہ ہم
ہی انکو دیتے ہیں کہ ہمیں تنگ نہ کریں اور اسکو دیکھ لیں۔ جب کہ والدین کو چاہئے
کہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں جب والدین ہی بچپن سے یہ عادت بنائیں گے تو
کیسے کہتے ہیں کہ دوستوں نے خراب کیا۔
نیز بچے قول سے کم سیکھتے ہیں جبکہ عمل سے زیادہ
سیکھتے ہیں۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتا دیکھتے ہیں یا اپنے
اردگرد موجود لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ لہذا اگر والدین کو چاہئے کہ ہماری اولاد
نمازیں پڑھے، نیک بنے تو اس کے لیے ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ ہم قرآن
پڑھیں گے یا نمازیں پڑھیں گے تو ہمارے بچے بھی وہی کریں گے۔ اگر ہم بزرگان دین کو
دیکھیں تو ان کے والدین بھی دین پر چلنے والے تھے اس لیے ہی ان ماؤں کی کوکھ سے
غوث اعظم رضی اللہ عنہ، اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستیوں نے جنم لیا۔
اگر ہم آج کے والدین کو دیکھیں تو خود گانے سنتی
ہوں گی، نمازیں قضا کرتی ہوں گی، رمضان کے روزے چھوڑتیں ہوں گی اور تمنا کریں گی
کہ ہمارا بچہ اچھا ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک خرابی جو پائی جاتی ہے کہ
جسکی وجہ سے بچے خراب ہو رہیں ہیں وہ یہ ہے کہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو والدین اسکو
کسی بری بات سے خاص منع نہیں کرتے بلکہ ہنس دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی بچہ
چھوٹا ہے بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا، بڑا ہو گا تو سمجھا دیں گے۔
یاد رہے کہ یوں چھوٹے ہوتے جو بری عادات پڑ جائیں
انکو چھڑوانا پھر بہت مشکل ہوتا ہے اور تب والدین کہہ دیتے ہیں کہ دوستوں نے خراب
کیا۔
نیز بچوں کے خراب ہونے کا ایک سبب انکی بےجا
خواہشات پوری کرنا بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکی مانی ہی نہ جائے بلکہ انکی کسی
بھی خواہش کو پورا کرنے سے پہلے غور کر لیا جائے اور صرف جائز خواہشات کو ہی پورا
کیا جائے۔
نیر والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت اسلام
کے پیارے اصولوں کے مطابق کریں۔ انہیں اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفٰی ﷺ کی
سنتیں سکھائیں تاکہ اولاد والدین کے لیے راحت و ٹھنڈک کا باعث بنے اور اس سے
والدین کی اور اولاد کی دنیوی اور اخروی زندگیاں بہتر بنیں۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت محمد ریاض،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اولاد کی
بہترین تربیت کرنا بھی ہے۔ کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔
لیکن آج کل ہمارےمعاشرے میں والدین اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے میں بہت سستی
کا شکار نظر آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اولاد بگڑ جاتی ہے اور نافرمان ہوجاتی ہے۔
اولاد بگڑنے کے چند اسباب درج ذیل یہ ہیں:
1۔ علم دین سے دوری:آج کل
والدین کی توجہ اپنی اولاد کو لے کر صرف دنیوی تعلیم پر ہی منحصر ہے والدین
اپنےبچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کی
حرص میں انسان بنانا بھول جاتے ہیں بچوں کو اگر ضروری دینی احکام سکھائیں جائیں تو
بچے ہر شعبے میں احسن کردار ادا کر کہ اچھا شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔
2۔ تربیت کی کمی:آج کل والدین
اپنی مصروفیات میں ہی لگے رہتے ہیں اور بچوں کی حالت سے بے خبر ہوتے ہیں جس کے سبب
اولاد کئی برائیوں
میں مبتلا ہو جاتی ہے والدین کو روزانہ اپنے بچوں کو کچھ نہ وقت دینا چاہیے بچوں
کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش اور برائیوں کو ختم
کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
3۔ بے جا پابندیاں: بعض
والدین اولادکی خبر ہی نہیں لیتے اور بعض اولاد کوانکی مرضی سے سانس بھی نہیں لینے
دیتے حتی کہ دینی معاملات میں بھی بچے خود مختار نظر نہیں آتے بعض بچےعلم دین حاصل
کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن والدین رکاوٹ بن جاتے ہیں لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ
بچوں کو اچھے کام ان کی رأئے سے کرنے کا
اختیار دیں۔
4۔ برے دوستوں کی صحبت:بعض
بچوں کو سکول کالج میں صحبت اچھی نہیں ملتی جس کا رنگ ان میں ظاہر ہونا شروع ہو
جاتا اور اچھے خاصے بچے بھی دن بہ دن بگڑتے نظر آتےہیں والدین کو اپنے بچوں کے
دوستوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ آیا یہ دوست میرے بچے کے لیے نفع بخش ہے یا
نقصان دہ۔
5۔ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال: آج
کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی(Tablet P۔C)،ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی
نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو
دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے
ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں
ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت باپ کی آنکھ کھلتی ہےمگر،اب پچھتائے
کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، لہٰذااگربچوں کوضرورتاًیہ جدید چیزیں دینی ہی ہیں
توآپ بحیثیت باپ پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال کے نقصانات بھی ضرور
بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے۔ بچوں کو
کڈز مدنی چینل دکھائیے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت عبدالمجید،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد کی تربیت کرنا والدین پر بہت بڑی ذمہ داری
ہوتی ہے اگر اولاد کی تربیت میں کمی پیشی ہو جائے تو اولاد بہت سی آفات میں مبتلا
ہو سکتی ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تربیت میں اچھی خاصی توجہ دیں تاکہ
نہ تو اولاد بگھڑے اور نہ گناہوں کے دلدل میں پھنسے۔
پیارے آقا ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہتریں نمونہ ہے حضور
ﷺ نے اپنی شہزادیوں کی کس طرح تربیت کی آپ ﷺ کی شہزادیاں ہر حال میں اللہ پاک کا
شکر ادا کرتیں اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی طرف گامزن رہتیں ان شہزادیوں نے
اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کی جو کہ امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی۔ اس
لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت اچھی کریں آج کل بہت سے ایسے اسباب
ہیں کہ جس کی وجہ سے اولاد دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب
ہیں:
1۔ اولاد کی بے جا خواہشات کو پورا کرنا خواہ وہ
خواہش جائز ہو یا نا جائز جس کی وجہ سے بچہ اپنی خواہشات کو دن بہ دن بڑھاتا جاتا
ہے اور بلآخر اسے اپنے والدین کی عزت و ذلت کی بھی پرواہ نہیں رہتی۔
2۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بچوں کو بگاڑنے میں
بہت موثر ہے اسی طرح ٹی وی موبائل فون ٹیبلٹ انٹرنیٹ یہ ایجادات بچوں کی تباہی کا
بہت بڑا سبب بنتی جا رہی ہیں۔
3۔ بچوں کی حد سے زیادہ تعریف کرنا اکثر مائیں بچوں
کی حد سے زیادہ تعریف کرتیں ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر زمین وآسمان کے قلابے
ملاتی ہیں حلانکہ بچوں کی تعریف کرنا ضروری ہے مگر حد سے زیادہ تعریف کرنا الٹا
اثر کرتی ہے۔
3۔ بری صحبت بچوں کو بگاڑنے کا سبب ہے بچے کا پتہ
اس کے دوستوں کی حاصل کردہ صحبت سے معلوم ہوتا ہے اگر تو دوست اچھے ہونگے تو بچہ
باقی دوسرے افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا اور اگر تو بری صحبت اختیار کرتا ہو
گا تو بچے کے صرف بولنے کے انداز سے ہی معلوم ہو جائے گا
کہ اس کا رویہ بگڑا ہوا ہے۔۔
5۔ گھر میں والدین کا بے جا جھگڑنا بات بات کر گالی
گلوچ کرنا اور پھر ایک دوسرے کا غصہ اولاد پر نکالنا۔جس کی وہ سے بچہ بد مزاج بد
تمیز ہو جاتا ہے۔
کسی کی اولاد کے بگڑنے کا سبب یہ ساری ہی وجوہات نہ
بھی ہو مگر ان میں سے کوئی ایک نہ ایک تو وجہ ضرور ہو گی جو کہ اولاد بگڑنے کا سبب
بنی ہو گی۔ لہذا ہر والدین کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کو ختم کریں کہ اکثر اولاد کے
مزاج وغیرہ میں بگاڑ کا سبب گھر والے بنتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان وجوہات کو
دور کر کے اولاد کی تربیت کریں، دینی تعلیمات کو اپنے گھر میں عام کریں۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت شمس پرویز،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ
مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ
الذُّكُوْرَۙ(۴۹) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ
یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(۵۰) (پ 25،
الشوریٰ: 49) ترجمہ کنز الایمان: اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت
پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں
ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بےشک وہ علم و قدرت والا ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول
پاک ﷺ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر پڑتا، کبھی
ادھر، رسول پاک ﷺ نے اس انداز سے سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پر
ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے جارہے ہیں،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بچے!جب کھانا
کھاؤ تو اللہ کا نام لو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521،
حدیث: 5376)
اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں
والدین کی تربیت، معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل شامل ہیں۔
تعلیمی عوامل: بچوں کو اچھی
تعلیم کی سہولت فراہم نہ کرنا، اساتذہ کی جانب سے سخت رویہ، بچوں کی تعلیمی
ضروریات کو نظرانداز کرنا، تعلیم کے بجائے کھیل یا دیگر سرگرمیوں پر زیادہ زور
دینا، بچوں کو تعلیمی میدان میں بےجا دباؤ ڈالنا۔
والدین کی جانب سے: والدین کا بچوں کو وقت نہ دینا،
تربیت میں سختی یا حد سے زیادہ نرمی، بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا اظہار نہ کرنا،
غلط صحبت کو نظرانداز کرنا، والدین کا آپس میں جھگڑنا یا تلخ کلامی۔
اولاد کی تربیت ایک اہم ذمہ داری ہے جو والدین اور
نگہبانوں پر عائد ہوتی ہے۔ صحیح تربیت سے بچے نہ صرف اچھی شخصیت کے حامل بنتے ہیں
بلکہ معاشرے میں بھی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ ذیل میں اولاد کی تربیت کرنے کے 20
مؤثر طریقے پیش کیے گئے ہیں:
1۔ مثبت مثال قائم کریں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود
وہ عادات اپنائیں جو وہ بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ بچے والدین کی حرکات
اور سلوک کو دھیان سے دیکھتے ہیں۔
2۔ محبت اور شفقت کا اظہار کریں۔ بچوں کو محبت اور
توجہ دینے سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
3۔ واضح حدود مقرر کریں۔ بچوں کو واضح قوانین اور
حدود بتائیں تاکہ وہ جان سکیں کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔
4۔ معمولات بنائیں۔ روزمرہ کے معمولات جیسے سونے کا
وقت، کھانے کا وقت، اور پڑھنے کا وقت مقرر کریں تاکہ بچوں کو استحکام کا احساس ہو۔
5۔ تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کی اچھی
کارکردگی پر ان کی تعریف کریں تاکہ ان میں مثبت رویے کی حوصلہ افزائی ہو۔
6۔ غلطیوں سے سیکھنے کی ترغیب دیں۔ بچوں کو یہ
سمجھائیں کہ غلطیاں زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے سیکھنا ضروری ہے۔
7۔ وقت پر سزا دیں۔ اگر بچے قواعد کی خلاف ورزی
کریں تو مناسب اور وقت پر سزا دیں تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔
8۔ گفتگو کو فروغ دیں۔ بچوں کے ساتھ کھل کر بات چیت
کریں تاکہ وہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کر سکیں۔
9۔ مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ بچوں میں مطالعہ کی عادت
پیدا کریں تاکہ ان کا ذہنی نشوونما ہو اور علم میں اضافہ ہو۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت ذوالفقار انور،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی
جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے
اور ا۔س کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ والدین کی خدمت
میں عرض ہے کہ تربیت کیجئے مگر ان کے بگڑنے والے اسباب کوبھی فراموش نہ کیجئے،آئیے
ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے: تم نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت
افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں
پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے
میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے، اس سے ان کے
بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)
بچوں کے بگاڑ کے چند اسباب اور اصلاح کی تدابیر کے
حوالے سے چند مدنی پھول آپکے پیشں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں، ملاحظہ ہوں:
1۔ غلط چیزوں کا بے جااستعمال: جیسے
آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی(Tablet P۔C)،ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی
نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، اسکی ایک وجہ یہ بھی کہ ابتداءًوالدین خود
ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے
خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر
گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت والدین کی آنکھ
کھلتی ہےمگر،اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، اب اگر والدین اس گندگی سے
نکالنا چاہیں بھی تو بچے ان چیزوں کوچھوڑنے کوتیار نہیں۔ لہٰذااگربچوں کوضرورتاًیہ
جدید چیزیں دینی ہی ہیں توآپ بحیثیت والدین پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال
کے نقصانات بھی ضرور بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے،ضرورت ہوتو سادہ موبائل
دلوائیےاور ان کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ کا وزٹ کروائیے۔
2۔ محبت دینے میں فرق کرنا: بچوں
کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں سے صرف ان کے والدین اور نہایت
قریبی عزیز ہی محبت کرتے ہیں۔ باقی دیگر رشتے دار و پڑوسی ان سے محبت تو درکنار
انہیں پیار کی ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے ایسے رویے بھی
بچوں میں نفرت و کشیدگی پیداکردیتے ہیں۔ کیوں کہ بچے نہایت حساس پھول ہوتے ہیں جو
پیار کی ایک نظر کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے محبت مانگتے ہیں، اس لئے ضروری
ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیں انہیں بھی
جنت کے پھول سمجھیں۔
4۔ احسانات جتانا: بچوں
کے بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین خصوصاً باپوں کا اپنے بچوں کے سامنے باربار اس طرح
کاتذکرہ بلکہ تکرار اور وہ بھی غصہ وجھنجھلاہٹ کے ساتھ کرنا بھی ہے کہ ہم تمہیں
کھلا رہے پلارہے ہیں۔ تمہارے سارے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ اس طرح کا انداز بچوں
کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بلکہ ان میں بیگانگت پیدا کردیتا ہے۔ ظاہر ہے
والدین ہی بچوں کے ساتھ غیروں وبیگانوں کا سلوک کریں ان پراحسان جتائیں تو پھر بچے
کسے اپنا کہیں یا سمجھیں گے۔ غلط حرکات پر غصہ وتادیب ایک الگ چیز ہوتی ہے اوراس
طرح باربار احسان جتانا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور ہی بات ہے۔ پھر بڑاہونے
پر وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح یگانگیت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاں حکمت کے
ساتھ اورغیرمحسوس طریقے سے ان میں یہ احساس ضرور پیداکریں کہ والدین کی ساری محنت
دوڑ دھوپ، اپنا سکھ چین وآرام قربان کرکے مصیبتیں اٹھانا تکلیفیں جھیلنا صرف انہیں
کی خاطر ہے۔
5۔ احساس کمتری: والدین کا
اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے
بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی
اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وبرتری کے۔ سوچنے
کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں اوران کے ساتھ لین
دین اوربرتاؤ میں امتیازی سلوک کرنے لگیں تو پھر کس سے وہ پرخلوص محبت اور انصاف
کی امید کریں؟
رسول اکرم ﷺ نے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے
والوں کو سخت تنبیہ کی ہے۔ نیز لڑکیوں کو کمتردیکھنا، ان کے ساتھ غلط سلوک کرنا
اورلڑکوں کو اہمیت دینا اور بے پناہ چاہنا اس سے بھی خدا اور رسولﷺ نے سختی کے
ساتھ منع فرمایا ہے۔
6۔ محبت وشفقت میں کمی: محبت
وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچو ں کے ساتھ نہایت
پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھیں۔ یہ بات نہایت
قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے جو حدیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت
ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور
سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ
چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے
دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے
اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟
7۔ بچپن کا ماحول:بچوں کو اگر
بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق
جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، باترجمہ وتشریح قرآن و حدیث کا مطالعہ اور
دینی احکام جاننے ان پر عمل کی کوششوں اور دینی وتعمیری کاموں میں حصہ لینے کے
بجائے رومانی و فحش ناولوں و لٹریچر کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں
میں اتنے مست ہوں کہ ذرہ برابر خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہوایسے ماحول سے کیوں کر
آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔
بچوں کی تربیت کے لیے تو نہ صرف والدین کا باعمل بننا، تمام برائیوں سے پرہیز
کرنا، نمازوں اور دیگرعبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ شریعت کی پوری پوری پابندی
کرنالازمی ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے پورے ماحول کو بھی دینی و پاکیزہ
بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ بچوں کو تونصیحتیں کی جارہی ہیں اور گھر کے لوگوں کے عمل
ان کے خلاف ہوں اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔ تو یہ درست نہیں آئیے
تربیت اولاد پر ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: کسی باپ کی طرف سے اس
کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی،
3/383، حدیث: 1959) لہذا والدین اپنی اولاد کی بچپن سے ہی تربیت اسطرح کریں کہ خود
اچھے اور غلط کے درمیان فرق کرنا خود سیکھ جائیں تاکہ انکی تربیت میں بگاڑکے اسباب
جنم ہی نہ لے سکیں۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت دلاور حسین،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور
ہر مسلمان کو یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اسے نیک اور صالح اولاد سے نوازے جو
دنیا میں اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں اس کے لئے ذریعہ نجات بنے تو جس طرح اولاد
کے نیک اور صالح بننے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اسی طرح ان کو
بگاڑنےمیں بھی سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے اسباب جانتے ہیں کہ وہ کام جن
کو کرنے سے بچوں کی صحت پر اثر پڑتا ہے اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت متاثر
ہوتی ہےاور بچے بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں:
1۔ سب سے اہم سبب ہے والدین کا آپس میں ہر وقت لڑتے
جھگڑتے رہنا جس کی وجہ سے گھر کا سکون بھی برباد ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بچوں کی
صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کا ذہنی سکون برباد ہو جاتا ہے بچوں کے دل سے
والدین کی عزت تکریم محبت سب ختم ہو جاتی ہے اور بچے نافرمانی کرتے ہیں اور برے
کاموں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔
2۔ بچوں کو بلا وجہ ڈانتے رہنا یاپھر لوگوں کے
سامنے ڈانٹنا یابچوں کو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مارنا۔
3۔ بچوں سے بجا محبت بھی بچے کو بگڑ دیتی ہے برے
کاموں پر ان کو سمجھنے کی بجائے ان کا ساتھ دینا۔
4۔ جب ماں یا باپ میں سے کوئی ایک بچے کو برے کام
سے روکے اور دوسرا بچے کا ساتھ دے اس طرح بچوں کے دل میں۔ سمجھانے والے کی عزت کم
ہو جاتی ہے اور ساتھ دینے والے کی عزت بڑھ جاتی ہے اور بچا برائی کرنے پر ڈاٹ جاتا
ہے۔
5۔ والدین کاایک بچے کو دوسرے پر ترجیح دینا اس طرح
کرنے سے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوتی ہے۔
6۔ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال۔
7۔ بچپن ہی سے ان کو اچھے برے اور حلال حرام کی
تمیز نہ سیکھنا۔
8۔ ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا۔
9۔ علم دین سے دوری۔
10۔ بری صحبت اختیار کرنا۔
11۔ والدین کا اپنے بچوں کو وقت نہ دینا ان سے
باتیں نہ کرنا۔ ہر وقت بچوں پر چیخ وپکار کرنا۔
12۔ اپنے بچوں کا دوسروں کے بچے کے ساتھ موازنہ
کرنا۔
یہ کچھ اسباب بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے بچے
بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں ان اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد
کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت خلیل احمد،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِذْ قَالَ
لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ
الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) (پ21، لقمان: 13) ترجمہ کنز العرفان:
اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! کسی
کواللہ کا شریک نہ کرنا، بیشک شرک یقینا بڑا ظلم ہے۔
رسول پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی
اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں
گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث: 2309)
بچوں کے بگڑنے کے اسباب:1۔
بچوں کے جذبات کو نظرانداز کرنا۔ 2۔ غیر متوازن توجہ: کسی ایک بچے کو زیادہ توجہ
دینا۔ 3۔ بچوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا۔ 4۔ والدین کا خود بری عادات کا
شکار ہونا۔ 5۔ بچوں پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کرنا۔
تربیت، انسانی اخلاق کو سنوارنے والی چیز ہے جس کی
وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں معزز بن جاتا ہے۔اگر اولاد کے اخلاق اچھے ہوں گے
تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور لوگ ان کی عزت کریں گے، جبکہ برے
اخلاق کی صورت میں معاشرے میں جہاں ان کا وقار ختم ہوگا وہیں الٹا والدین کی
بدنامی اور رسوائی بھی ہوگی۔ اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہیں،
جبکہ برے اخلاق غضب الٰہی اور لوگوں کی طرف سے خود پر بوجھ لادنے کا سامان ہیں۔ان
کے ظاہری اعمال و عبادات جیسے نماز وغیرہ کی طرف توجہ دیں، یعنی انہیں نماز
سکھائیں اور اسے پڑھنے کا عادی بنائیں، یونہیں ظاہری باطنی آداب کے ساتھ نماز
پڑھنے کی تعلیم و تربیت دیں اولاد کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی
چاہئے کہ جب یہ یقین دل میں بٹھا دیں گے کہ اللہ سمیع و بصیر، علیم و خبیر ہے، وہ
بندے کا ہر عمل ہر وقت دیکھ رہا ہے، کوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں اور ہر چھوٹے بڑے
عمل کا قیامت میں حساب دینا ہے، تو باطنی اصلاح بہت آسان ہوجاتی ہے۔
بچوں کی تربیت:
1۔ احترام سکھائیں: دوسروں
کا احترام کرنا سکھائیں تاکہ بچے معاشرتی تعلقات میں مہارت حاصل کریں۔
2۔ مسئلے حل کرنے کی صلاحیت بڑھائیں: بچوں
کو مختلف مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد کریں تاکہ وہ خود مختار بن سکیں۔
3۔ اخلاقی اقدار سکھائیں: ایمانداری،
امانت داری، اور دیگر اخلاقی اقدار کی تعلیم دیں تاکہ بچے صحیح اور غلط میں تمیز
کر سکیں۔
4۔ صبر اور تحمل کی تعلیم دیں: بچوں
میں صبر اور تحمل کی خصوصیات پیدا کریں تاکہ وہ مشکلات کا سامنا بہتر طریقے سے کر
سکیں۔
5۔ روحانی تعلیم دیں: مذہبی
تعلیم اور روحانی سرگرمیوں میں بچوں کی شرکت انہیں اندرونی سکون اور اخلاقی بنیاد
فراہم کرتی ہے۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت انعام اللہ بٹ،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اولاد کی نعمت سے نوازا ہے
اور اسلام میں اولاد کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن و حدیث میں اولاد کی نعمت کے بارے میں
بہت سارے حوالے ملتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ وَصَّیْنَا
الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ اِحْسٰنًاؕ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ
كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ
اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةًۙ-قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ
اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ
اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂاِنِّیْ تُبْتُ
اِلَیْكَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۵) (پ 26،
الاحقاف: 15) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے
آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے ا س کی ماں نے اُسے پیٹ میں رکھا
تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اُسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس
مہینہ میں ہے یہاں تک کہ جب اپنے زور کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوا عرض کی اے
میرے رب میرے دل میں ڈال کہ میں تیری نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے
ماں باپ پر کی اور میں وہ کام کروں جو تجھے پسند آئے اور میرے لیے میری اولاد میں
صلاح(نیکی) رکھ میں تیری طرف رجوع لایا اور میں مسلمان ہوں۔
حدیث میں بھی اولاد کی نعمت کے بارے میں بہت سارے
حوالے ملتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑھ کر نعمت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو
اولاد عطا کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے افضل یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں
کو نیک اولاد عطا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے اولاد کی نعمت مانگنے کے لیے بہت
سارے دعائیں بھی ہیں۔ یہ دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: رَبَّنَا هَبْ
لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا
لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) (پ 19، الفرقان:74) ترجمہ: اے ہمارے
رب! ہم کو اپنی بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو
پرہیزگاروں کا امام بنا۔ یہ دعا قرآن مجید کی سورۃ الفرقان کی آیت 74 ہے۔
اولاد بگڑنے کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں، جن میں سے
کچھ اہم اسباب یہ ہیں:
1۔ والدین کی ناکافی توجہ: جب
والدین اپنے بچوں کو مناسب توجہ اور وقت نہیں دیتے تو بچے بغاوت یا نافرمانی کی
طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
2۔ غلط رول ماڈلز: اگر
والدین یا گھر کے قریب کے لوگ برے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بچے ان سے متاثر ہو
کر اسی طرح کے رویے اپنا سکتے ہیں۔
3۔ کمزور تربیتی میتھڈز: اگر
والدین بچوں کو مناسب تربیت اور حدود نہیں سکھاتے تو بچے اپنی مرضی کے مطابق عمل
کرنے لگتے ہیں۔
4۔ سماجی و ماحولیاتی اثرات: سماجی
و ماحولیاتی عوامل بھی بچوں کے رویے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، جیسے کہ بدعتی دوست
یا ٹیلی ویژن پر بدامنی والی تصویریں۔
5۔ تعلیم کی کمی: اگر بچوں کو
مناسب تعلیم اور رہنمائی نہیں دی جائے تو وہ صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنے میں
ناکام رہ سکتے ہیں۔
6۔ والدین کے درمیان تعطل: گھر
میں والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے بچوں کے رویے پر منفی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
7۔ بچوں کی ضروریات کی ناکامی: اگر
بچوں کی بنیادی ضروریات جیسے کہ محبت، حفاظت اور سکون کی کمی ہو تو وہ بدتمیزی اور
بغاوت کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت اشفاق، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد کی اچھی تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے،
کیونکہ بچے کی شخصیت اور کردار سازی میں والدین کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
بدقسمتی سے، موجودہ دور میں والدین کی لاپروائی، دینی تعلیمات سے دوری، اور دنیاوی
مصروفیات نے بچوں کی تربیت پر منفی اثر ڈالا ہے۔
ذیل میں ان اسباب کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا جاتا
ہے:
1۔ دینی تعلیمات سے غفلت: آج
کل والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم دلانے پر توجہ دیتے ہیں لیکن دینی تعلیمات کو
نظرانداز کر دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی تعلیم اور اسلامی اخلاقیات سکھانے کی بجائے،
بچوں کو دنیاوی کامیابی کی دوڑ میں لگا دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچے اسلامی
اقدار سے دور ہو جاتے ہیں اور ان کا رویہ بگڑنے لگتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ
بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دیں اور انہیں نیک اعمال کی طرف راغب کریں۔
2۔ والدین کی لاپرواہی اور بےجا محبت: کئی
والدین بچوں کے ہر غلط کام کو نظرانداز کرتے ہیں اور ان پر سختی کرنے سے گریز کرتے
ہیں۔ بےجا محبت بچوں میں ضد، خودسری، اور نافرمانی پیدا کرتی ہے۔ بچوں کو حدود و
قیود سکھانے کے بجائے انہیں ہر بات کی اجازت دینا ان کے بگڑنے کا سبب بنتا ہے۔ محبت
کے ساتھ نظم و ضبط بھی ضروری ہے، تاکہ بچے صحیح اور غلط میں فرق کرنا سیکھیں۔
3۔ بچوں پر وقت نہ دینا: مصروف
زندگی کے باعث والدین بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزارتے، جس سے بچے توجہ کی کمی کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین کی غیر موجودگی میں بچے انٹرنیٹ، موبائل فون، اور دیگر
تفریحات میں مصروف ہو جاتے ہیں، جن کا غلط استعمال ان کے کردار کو متاثر کرتا ہے۔ والدین
بچوں کے لیے وقت نکالیں، ان کے سوالات کے جوابات دیں، اور ان کے دوستوں کی
سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
4۔ غیر اسلامی ماحول: گھروں
میں اسلامی ماحول کی کمی اور ٹی وی، موبائل، اور انٹرنیٹ پر غیر اخلاقی مواد بچوں
کے بگاڑ کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ جب بچوں کو نعتیں سننے یا دینی کتب پڑھنے کی
بجائے فلمیں اور گانے سننے دیے جائیں، تو ان کا ذہن منفی رجحانات کی طرف مائل ہو
جاتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو غیر اسلامی ماحول سے
دور رکھیں اور انہیں دینی اجتماعات میں شرکت کروائیں۔
5۔ والدین کا کردار اور عمل: والدین
کی زندگی بچوں کے لیے عملی مثال ہوتی ہے۔ اگر والدین خود نماز، روزہ، اور دیگر
دینی فرائض سے غافل ہوں، تو بچے بھی دینی احکام کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ والدین
اپنے عمل سے بچوں کو دینی راستے پر چلنے کی ترغیب دیں۔
6۔ دوستوں کی صحبت: بچے
کا بگڑنا اکثر اس کے دوستوں کی صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ برے دوست بچوں کو جھوٹ،
دھوکہ دہی، اور دیگر غلط عادتوں کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ والدین بچوں کے دوستوں پر
نظر رکھیں اور انہیں نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کریں۔
7۔ دعاؤں کی کمی: بچوں کی اصلاح
کے لیے دعا کا کردار بہت اہم ہے، لیکن اکثر والدین بچوں کے لیے دعا کرنے سے غافل
رہتے ہیں۔ والدین کو روزانہ بچوں کے لیے ہدایت اور نیک اعمال کی دعا کرنی چاہیے۔
8۔ عزت اور اعتماد کی کمی: والدین
کا بچوں کو نظرانداز کرنا یا ان پر بلاوجہ سختی کرنا ان میں اعتماد کی کمی پیدا کر
دیتا ہے۔ جب بچے کو عزت نہیں ملتی، تو وہ باغی رویہ اختیار کر لیتا ہے۔
اولاد کی تربیت ایک مقدس ذمہ داری ہے، جسے نبھانے
کے لیے والدین کو دین اسلام کی رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ
دینی تعلیمات پر خود بھی عمل کریں اور اپنی اولاد کو بھی ان پر عمل کرنے کی ترغیب
دیں۔ بچوں کے لیے دعائیں، وقت دینا، اور انہیں اسلامی ماحول فراہم کرنا ان کے
بگڑنے سے بچانے کے بنیادی اصول ہیں۔
اللہ پاک ہر اولاد کو نیک، صالح اور فرمانبردار بنائے،
انہیں برے ماحول اور فتنے سے محفوظ رکھے، اور والدین کو اولاد کی بہترین دینی
تربیت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت اشفاق احمد،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں سے
بعض اہم یہ ہیں:
والدین کی بے توجہی: اگر
والدین اپنے بچوں کی تربیت، نگرانی اور ضروریات پر مناسب توجہ نہ دیں، تو بچے بگڑ
سکتے ہیں۔ والدین کا بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی باتوں کو سننا بہت ضروری
ہے۔
غصہ اور تشدد: اگر والدین یا
دیگر بزرگ بچوں پر تشدد یا غصہ کرتے ہیں، تو اس سے بچے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے
ہیں اور ان میں بغاوت اور بدمعاشی کے رویے پیدا ہو سکتے ہیں۔
برا ماحول: اگر بچے ایسے
ماحول میں پلتے ہیں جہاں نشہ، جوا یا اخلاقی فساد ہو، تو ان پر برا اثر پڑ سکتا ہے
اور وہ ان برے عادات کو اپنا سکتے ہیں۔
مثبت رول ماڈلز کی کمی: اگر
بچوں کے اردگرد مثبت اور اخلاقی رول ماڈلز نہیں ہیں، تو وہ اپنی زندگی کی سمت اور
اقدار کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
تعلیمی ناکامی یا عدم دلچسپی: اگر
بچے تعلیم میں پیچھے رہ جائیں یا ان کی حوصلہ افزائی نہ ہو، تو یہ انہیں مایوس کر
سکتا ہے اور وہ منفی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کا غیر مناسب استعمال: انٹرنیٹ
اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری اور بے قابو استعمال بچوں میں منفی رویے پیدا کر سکتا
ہے، خاص طور پر اگر انہیں مناسب رہنمائی نہ ملے۔
خاندانی مسائل: والدین کے
درمیان جھگڑے یا طلاق جیسے مسائل بچوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور ان کی ذہنی حالت
کو متاثر کرتے ہیں، جس سے وہ بگڑنے لگتے ہیں۔
کمزوری یا ذہنی دباؤ: بچوں
کی ذہنی حالت یا ان کے ذاتی مسائل بھی ان کے بگڑنے کا سبب بن سکتے ہیں، جیسے کہ
احساس کمتری، کم خود اعتمادی، یا دلی مشکلات۔
دوستیوں کا منفی اثر: بچوں
کی دوستیاں ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اگر بچوں کے دوست منفی رویوں والے
ہوں، جیسے کہ شرارت یا جرم میں ملوث ہوں، تو بچے بھی ان کی نقل کر سکتے ہیں۔
مادیت پرستی: جب والدین
اپنے بچوں کو صرف مادی چیزوں کی اہمیت سکھاتے ہیں اور ان کی اخلاقی تربیت پر دھیان
نہیں دیتے، تو بچوں میں صرف دنیاوی چیزوں کی طلب بڑھ جاتی ہے، جو کہ ان کے بگڑنے
کا سبب بنتی ہے۔
نا مناسب وقت گزارنا: اگر
والدین اپنے بچوں کے ساتھ معیار وقت نہیں گزارتے، جیسے کہ مشترکہ سرگرمیاں، بات
چیت یا کھیل، تو بچے خود کو اکیلا اور نظرانداز محسوس کرتے ہیں، جس کا اثر ان کی
شخصیت پر پڑتا ہے۔
خود اعتمادی کی کمی: جب
بچے خود کو کمزور یا ناکام سمجھتے ہیں، تو وہ بگڑنے لگتے ہیں۔ والدین کا کردار ان
کی خود اعتمادی بڑھانے میں بہت اہم ہوتا ہے۔
خاندانی مالی مشکلات: معاشی
پریشانیوں کا بچوں پر اثر پڑتا ہے۔ اگر خاندان مالی مشکلات کا شکار ہو اور بچوں کو
احساس ہو کہ ان کی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں، تو وہ بگڑنے لگ سکتے ہیں۔