شادی کے بعد زندگی ایک نئے دور سے گزرتی ہے تو اس
زندگی کو خوشحال بنانے میں شوہر اور بیوی دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے اس لیے اسلام
نے دونوں میاں اور بیوی پر کچھ حقوق لازم کیے ہیں۔ اگر دونوں وہ حقوق ادا کرتے رہیں
تو ان کی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق
عورتوں پر فرض فرمائے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے
ہیں جن کا ادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے
ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث:
1165)
1۔ ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق فرض ہے کہ
وہ اس کے کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے
مطابق اور اپنی طاقت بھر انتظام کرے۔ ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اللہ کی بندی
میرے بندھن میں بندھی ہوئی ہے۔ اور اپنے والدین، بہن، بھائی اور عزیزو اقارب کو
چھوڑ کر صرف میری ہو کر رہ گئی ہے۔اور میری زندگی کے دکھ سکھ کی شریک بن چکی ہے۔ اس
لیے اس کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا میرا فرض ہے۔
2۔ عورت کو بلا کسی بڑے قصور کے کبھی ہرگز ہرگز نہ
مارے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام
کو مارا کرتا ہے پھر دوسرے وقت میں اس سے صحبت بھی کرے۔ (بخاری،3/465، حدیث: 5204)
البتہ ہاں اگر عورت کوئی بڑا قصور کر بیٹھے تو بدلہ
لینے یا دکھ دینے کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اسے مار سکتا ہے لیکن مارتے
وقت اس بات کا دھیان رہے کہ عورت کو شدت چوٹ یا زخم نہ پہنچے۔
3۔ میاں بیوی کی خوش گوار زندگی بسر ہونے کے لیے جس
طرح عورتوں کو مردوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح مردوں کو بھی لازم
ہے کہ وہ بھی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ ورنہ جس طرح مرد کی ناراضگی سے عورت
کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی طرح عورت کی ناراضگی بھی مرد کے لئے وبال بن سکتی
ہے۔ اس طرح مرد پر لازم ہے کہ عورت کی سیرت اور صورت پر طعنہ زنی نہ کرے۔
4۔ مرد کو چاہیے کہ خبر دار خبر دار اپنی عورت کے
سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال یا اس کی خوبیوں کی تعریف نہ کرے ورنہ عورت بد
گمانی کا شکار ہو سکتی ہے یا یہ سمجھے گی کہ میرے شوہر کے دل میں اس کے لیے لگاؤ
ہے۔اور یہ خیال عورت کے دل کا ایک ایسا کانٹا ہے کہ عورت کو ایک لمحہ بھی سکون
نصیب نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو! جس طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے
ساتھ ساز باز ہوتے نہیں دیکھ سکتا ایسے ہی بیوی بھی اپنے شوہر کے بارے میں یہ
برداشت نہیں کر سکتی کے اس کا کسی دوسری عورت کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔ لہٰذا اس معاملے
میں شوہر کولازم ہے کہ بہت احتیاط رکھے۔ ورنہ بد گمانیوں کا طوفان میاں بیوی کی
خوش گوار زندگی کو تباہ و برباد کر دے گا۔
5۔ عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی
فریضہ ہے کہ عورت کی غم خواری اور تیماداری میں ہرگز ہرگز کوئی کوتاہی نہ کرے بلکہ
اپنی دلجوئی و دلداری اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دے کے میرے شوہر کو
مجھ سے بے حد محبت ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے
گی۔ اور وہ بھی شوہر کی خدمت گزاری میں اپنی جان لڑا دے گی۔
اللہ ارشاد فرماتا ہے: وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
اللہ نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ
زندگی گزارنے کا حکم فرمایا۔لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرے،شوہر پر بحیثیت شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے کھانے، کپڑے اور رہائش کی ذمہ داری
ہے۔ حضور رحمت عالم ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہت اچھی طرح خوش مزاجی اور خوش
اخلاقی سے اپنی زندگی کے شب وروز بسر کرتے تھے۔ آپ کی خاطر داری اور دل جوئی کے
چند واقعات ملاحظہ کریں۔
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی
ہیں: یعنی حضور ﷺ گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مثلا کبھی جھاڑو دے
دیا کبھی بستر وغیرہ تہ کر دیا یا آنا وغیرہ گوندھ دیایا سینے پرونے کے کام میں
شامل ہو گئے لیکن افسوس کہ آج کے شوہر سارے کام بیو بیوں سے لینا چاہتے ہیں، ان کی
ناز برداری اور ان کے راحت اور آرام کا خیال نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہوناچاہیے۔
2۔ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خوش
کرنے کے لیے ان کی سہیلیوں کو گڑیا کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ
حضور ﷺ نے حضرت عائشہ کے پاس گھوڑے کی گڑیا دیکھی جس کے دونوں بازو پر پر لگے ہوئے
تھے، فرمایا یہ گھوڑا کیسا ہے ؟ اس کے دونوں پر کیسے ہیں؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا
کہ حضرت سلیمان کے گھوڑے کے پر نہ تھے۔ یہ جواب سن کر حضور بہت ہنسے۔
3۔ خیبر سے واپسی کے وقت ایک مقام پر
حضور ﷺ کی اونٹنی پھسل گئی اور حضور گر پڑے اور ام المومنین حضرت صفیہ بھی گر پڑیں۔
حضرت ابوطلحہ آپ کو سنبھالنے کے لیے آپ کی طرف دوڑے تو آپ نے فرمایا: پہلے عورت کی
خبر لو، چنانچہ حضرت ابوطلحہ اپنے چہرہ پر کپڑا ڈال کر ان کی طرف چلے، جب ان کے
پاس پہنچ گئے تو وہی کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا اور کجا وہ درست کر کے ان کو سوار کر
دیا۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت صابر حسین، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اسلام نے نکاح کو اللہ کی ایک نعمت اور پاکیزہ ترین
رشتہ قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح نکاح سے دوری کو کسی قسم کی نیکی اور فضیلت
کا سبب نہیں گردانا بلکہ اسے اللہ کے محبوب بندوں انبیاء اور رسولوں کی صفت بتایا،
چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ
اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ- (پ
13، الرعد: 38) ترجمہ: ہم
آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔
جس
طرح بیوی کے اوپر شوہر کے حقوق ہیں اسی طرح شوہر کے او پر بیوی کے بھی کچھ حقوق
ہیں تا کہ ازدواجی زندگی خیر و سعادت کے ساتھ گذرے۔ ان حقوق میں سے کچھ ملاحظہ
فرمائیے۔
عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے
حقوق کا لحاظ رکھیں، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں:
(1) میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت
کرتا ہوں، وہ تمہارے پاس مقیّدہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ
وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں میں علیحدہ
چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے
خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق
ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ
کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔
تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی،
2/ 387، حدیث: 1166)
(2) جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو
حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے،
عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی، 2 / 392،
حدیث: 1177)
(3) جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر
راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، 2/386،
حدیث: 1164)
(4) میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی
وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں
میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر
ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)
(5) عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ تیرے لئے کبھی
سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا
کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)
شوہر پر بیوی کے حقوق: شوہر
پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے
سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف
ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی
دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق
نہیں۔
چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان چل رہا ہے۔ لہٰذا یہاں
ان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو
چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جومال تم اسے دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ
لو۔ ا ہل عرب میں یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت انہیں
پسند آجاتی تو ا پنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاتے تاکہ وہ اس سے پریشان ہو کر جو کچھ
لے چکی ہے واپس کردے اور طلاق حاصل کر لے۔ (تفسیر بیضاوی، 2 / 163)
عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے
حقوق کا لحاظ رکھیں، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں:
(1) حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں عورتوں
کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، وہ تمہارے پاس مقیدہیں، تم ان کی کسی چیز کے
مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں
تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ
تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور
عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو
تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں
نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی
کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، 2 / 387،
حدیث: 1166)
(2) سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت اپنے
شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ
دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی،
2 / 392، حدیث: 1177)
(3) سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس
حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، 2 / 386، حدیث: 1164)
(4) میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی
وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں
میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر
ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)
(5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پسلی سے پیدا
کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت
میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم،
ص 775، حدیث: 1468)
بیوی کے پانچ حقوق از بنت امیر احمد، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
عورت خدا کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہےدنیا
کی آبادکاری اور دینداری میں مردوں کے ساتھ تقریباً برابر شریک ہےمرد کے دل کا
سکون،روح کی راحت،بدن کا چین ہےعورت کا وجود انسانی تمدن کے لئیے بے حد ضروری ہے
اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بدتر ہوتی، عورت کی زندگی کے
راستہ میں یوں تو بہت موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص طور پر قابل ذکر
ہیں: 1) عورت کا بچپن۔ 2) عورت بالغ ہونے
کے بعد۔ 3) عورت بیوی بن جانے کے بعد۔ 4) عورت ماں بن کے بعد۔
تیسرے دور کہ جب عورت بیوی بن جائے تو جس طرح بیوی
پر شوہر کے حقوق اس پر لازم ہو جاتے ہیں اسی طرح شوہر پر بیوی کے حقوق لازم ہوتے
ہیں جن کا ادا کرنا مرد پر فرض ہے۔ الله کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔
اسی طرح حدیث پاک میں رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم
میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں، اب بیوی کے حقوق میں سے
چند بیان کیے جاتے ہیں:
1۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زائد ہوں تو
اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک کرےکھانے،پینے بناؤ
سنگھار غرض تمام معاملات میں برابر برتےاسی طرح رات گزارنے کے بارے میں بیویوں میں
باری مقرر کرنے میں بھی برابری کا لحاظ رکھے یاد رکھئے !اگر کسی نے تمام بیویوں کے
درمیان یکساں و برابر سلوک نہ کیا تو وہ حق العبد میں گرفتار اور عذاب نار کا
حقدار ہوگا۔
2۔ اسی طرح بیوی کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ
شوہر بیوی کے اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے اپنی آمدنی
کو دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔
3۔ عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر
عورت کی نفاست اور بناؤ سنگھار کا سامان یعنی صابن،تیل،کنگھی،مہندی،خوشبو وغیرہ
فراہم کرتا رہے تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھری رکھے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے۔
4۔ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی اختلاف یا کشیدگی
پیدا ہو جائے تو شوہر پر لازم ہے کہ طلاق دینے میں ہرگز ہرگز جلدی نہ کرے بلکہ
اپنے غصہ کو ضبط کرے اور غصہ اتر جانے کے بعد خوب غور و فکر کرے اور طلاق میں جلدی
نہ کرے کہ طلاق اچھی چیز نہیں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: حلال چیزوں میں سب سے
زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
5۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر
عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے بلکہ اس کو راز
بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
خدا کے نزدیک بدترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے پھر اس کے پردہ کی باتوں
کو لوگوں پر ظاہر کرے اور اپنی بیوی کو دوسروں کی نگاہ میں رسوا کرے۔
اللہ تعالیٰ نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول
وضوابط دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات
استوار ہیں اور دونوں نے نبی اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے
کا اہتمام کیا تو ایک نیک صالح کنبہ وجود میں آئے گا، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:اللہ
وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تمہیں سکون
حاصل ہو۔
اور سکون تب ہوگا جب نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب
زندگی کو اپنایا جائے لہذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو
شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کئے ہیں:
1۔ مہر کی ادائیگی: مہر عورت کا
حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کے دوران اس
کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، بہر صورت شوہر پر واجب ہو جاتا ہے، معاف اسی
صورت میں ہو سکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کر دے، اگر نہیں
ادا کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور تھوڑا مہر
متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ دھوکہ کیا اور
اگر ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کر کے لایا جائے گا۔
2۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی
کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا یہ بھی بیوی کا حق ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے
اسے بچوں کے سامنے ذلیل نہ کیا جائے گھر کی دیگر خواتین کے سامنے اس کی عزت بڑھائی
جائے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق
بہترین ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی،
2/ 386،حدیث: 1165)اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اچھے اخلاق کو کمال ایمان کی علامت
قرار دیا ہے اور بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کو سب سے بہتر ہونے کی علامت بتایا
ہے۔
3۔ بیوی کے عیب تلاش نہ کریں: اگر
کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اس دنیا میں ہر انسان میں بے
شمار خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں آدمی کو ہمیشہ سامنے والے کی خوبیوں پر
نگاہ رکھنی چاہیے کسی کی برائیاں تلاش کر کے اس کو ذلیل نہ کیا جائے، اسی طرح بیوی
میں بے شمار خوبیاں ہیں انہی کو بنیاد بنا کر زندگی گزاری جائے اگر کوئی معمولی
برائی ہے تو نظر انداز کر دی جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس میں ایک برائی ہے
تو دوسری اچھائی بھی تو ہے اسے دیکھ لیا کرو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)
کیا یہ خوبی کوئی کم ہے کہ وہ شوہر کے ایمان کی حفاظت
میں بہترین مددگار ہے ورنہ شوہر کسی گناہ میں مبتلا ہو کر ایمان کا نقصان کر دے تو
آخرت برباد ہو جائے گی۔ یہ خوبی کم ہے کہ آدمی کی معاشرے میں عزت بڑھتی ہے، کیا یہ
خوبی کم ہے کہ شوہر کے بچوں کی نگہداشت کر رہی ہے۔
4۔ نان و نفقہ اور معاشی حقوق: مردوں
کے ذمے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی کفالت کو رکھا اور عورت کے نان نفقے اور
اس کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ
نساء کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں: اَلرِّجَالُ
قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ
4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔
بیوی کے پانچ حقوق از بنت عبد القادر، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں، اسی طرح بیوی کے
بھی شوہر پر حقوق ہیں ان میں کچھ مالی حقوق ہیں اور کچھ
غیر مالی ہیں۔
1۔ مہر: یہ خاص بیوی کا حق ہے، اس کی قلت اور کثرت
کی کوئی حد نہیں ہے لیکن مہر میں مبالغہ کرنا نا پسندیدہ فعل ہے رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو۔
2۔ نفقہ: اس کا مطلب خاوند پر بیوی کا
واجب الاداء خرچ جیسے کھانا، کپڑا اور ہائش اور دواو غیر ہ اگر چہ بیوی مالدار ہو۔
3۔ حسن سلوک: خاوند پر سب سے بڑی ذمہ داری
یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اس کی عزت کرے اور ایسا کام کرے جو
دلوں میں محبت پیدا کرے۔ مسلم شخص کے کمال اخلاق کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ
اپنی بیوی کے ساتھ مہربان ہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین اخلاق
والا سب سے کامل مومن ہے اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے
ہوں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) عورت کی
عزت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو برداشت کیا جائے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری
ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور عورتوں کے ساتھ
خیر خواہی کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے بنی ہے اور پسلی میں نچلی پسلی سب سے ٹیڑھی ہے
تو اگر اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر یونہی چھوڑ دیا تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے
گی، عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)اور حسن سلوک میں یہ بھی ہے کہ خاوند
بیوی کے اندر محبت و سرور پیدا کرے کیونکہ اس سے خاندان میں مودت اور رحمت کا
ماحول پیدا ہوتا ہے۔
رسول الله ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنسی مذاق کرتے
تھے اور دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے۔
4۔ بیوی کی ہر اس چیز سے حفاظت کرنا جو
اس کی عزت کو ٹھیس پہنچائے: مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے تئیں غیرت کے معاملہ
میں میانہ رو ہو تا کہ ازدواجی زندگی میں فساد بر پانہ ہو جائے اور زندگی جہنم نہ
بن جائے۔ ان کے درمیان اعتبار ختم ہو جائے اور زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے۔
5۔ دینی تعلیم دینا اور گناہ سے بچانا:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ28،
التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو
آگ سے بچاؤ۔
6۔ عورت کا راز فاش نہ کرے: رسول الله ﷺ
نے فرمايا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برا شخص قیامت کے دن وہ ہے جو اپنی عورت کے
پاس جائے اور عورت اس کے پاس جائے (یعنی صحبت کرے) پھر اس کا بھید
ظاہر کر دے۔
8۔ جب خاوند زیادہ عرصہ گھر سے دور رہے تو رات میں
اچانک گھر میں نہ آئے جیسے کہ وہ سفر پر ہو۔ اگر وہ پہلے
سے باخبر کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ زوجین کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے
کے لئے یہ اسلامی آداب میں سے ایک اعلی اصول ہے، اس میں بیوٹی کے جذبات کا احترام
ہے، آپکا اعتماد باقی رہتا ہے اور محبت پائیدار ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب
تم کو گھر چھوڑے ایک مدت گزرگئی ہو تو اچانک رات میں نہ آیا کرو۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: اور ان (عورتوں) سے
اچھا برتاؤ کرو۔
بیوی کے حقوق: بیوی کے ساتھ
اچھا سلوک کرو، اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ اور اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرو۔
1۔ اے لوگوں عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی
کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تو میری نصیحت کو قبول کرو بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر
حق ہے تم ان کو پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)
2۔ تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی
طرح پیش آئیں ان کی ہر ضرورت پوری کریں ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔(ترمذی، 2/387، حدیث:
1165)
3۔ مرد اور عورت دونوں کو حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے
کے ساتھ مخلص اور وفادار ہیں ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔
4۔ مسلمان مرد اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے اگر اس کی
ایک عادت بری ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1469)
محمد حسان (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم
ساندہ لاہور، پاکستان)
اللہ تعالیٰ
نے زمین میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء کرام بھیجے جو لوگوں تک اللہ پاک کا
پیغام پہنچاتے اور انہیں ہدایت کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں
بے شمار اوصاف سے نوازا۔ انہیں انبیاء کرام میں سے آج ہم حضرت اسحاق علیہ السلام
کے بارے میں پڑھیں گے۔
تعارف:
آپ علیہ
السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔ آپ
علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی اللہ پاک نے آپ کی ولادت اور نبوت
کی بشارت دیدی تھی۔بنی اسرائیل میں سے آنے والے تمام انبیاء علیہم السلام آپ ہی کی
نسل پاک سے ہوئے۔آپ علیہ السلام کا کچھ تفصیلی تذکرہ قرآن مجید میں چھ مقامات پر
آیا ہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَامْرَاَتُهٗ
قَآىٕمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَۙ-وَمِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ
یَعْقُوْبَ (71)
ترجمۂ کنز الایمان: اور اس کی بی بی کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی
خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی۔(ھود:71)
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی
خوشخبری دی اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی
بھی خوشخبری دی۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: 71، 3/923، مدارک، ہود، تحت الآیۃ: 71، ص505،
خازن، ہود، تحت الآیۃ: 71، 2/362، ملتقطاً)
وَهَبْنَا
لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَؕ-وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(49) ترجمۂ
کنز الایمان: ہم نے اسے اسحق اور یعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو غیب کی خبریں بتانے
والا کیا۔ (مریم:49)
یادرہے کہ
حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام سے بڑے ہیں، لیکن چونکہ حضرت
اسحاق علیہ السلام بہت سے انبیاء علیہم السلام کے والد ہیں، اس لئے خصوصیت کے ساتھ
ان کا ذکر فرمایا گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 49، 3/237، مدارک، مریم، تحت
الآیۃ: 49، ص676، ملتقطاً)
وَ
بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(112)وَ بٰرَكْنَا عَلَیْهِ
وَ عَلٰۤى اِسْحٰقَؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اور ہم نے اسے خوشخبری دی اسحق
کی کہ غیب کی خبریں بتانے والا ہمارے قربِ خاص کے سزاواروں میں۔ اور ہم نے برکت
اتاری اس پر اور اسحق پر۔ (سورة الصّٰٓفّٰت، 112، 113)
حضرت ابراہیم
علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام پر دینی اور دُنْیَوی ہر طرح کی برکت
اتاری اور ظاہری برکت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں کثرت کی اور
حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے حضرت یعقوب علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ
علیہ السلام تک بہت سے انبیاء ِکرام علیہم السلام مبعوث کئے۔(مدارک، الصافات، تحت
الآیۃ: 113، ص1008)
اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ
رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(39) ترجمۂ کنز الایمان:سب خوبیاں اللہ کو
جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دیئے بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔ (ابراہیم:39)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کی دعا کی
تھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی تو آپ علیہ السلام نے اس کا شکر ادا کیا اور
بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کیلئے ہیں جس نے مجھے
بڑھاپے کے باوجود حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام دئیے۔ بیشک میرا رب
عَزَّوَجَلَّ میری دعا قبول فرمانے والا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت اس
وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر99 برس ہو چکی تھی اور حضرت اسحاق علیہ
السلام کی ولادت اس وقت ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر مبارک 112 برس ہو
چکی تھی۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: 39، 3/89، جلالین، ابراہیم، تحت الآیۃ: 39،
ص209، ملتقطاً)
اَمْ
كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُۙ-اِذْ قَالَ لِبَنِیْهِ مَا
تَعْبُدُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْؕ-قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَ اِلٰهَ اٰبَآىٕكَ
اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا وَّاحِدًاۖ-ۚ وَّ نَحْنُ لَهٗ
مُسْلِمُوْنَ(133)
ترجمۂ کنز الایمان:بلکہ تم میں کے خود موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی جبکہ اس نے
اپنے بیٹوں سے فرمایا میرے بعد کس کی پوجا کروگے بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے
آپ کا اور آپ کے والدوں ابراہیم و اسمٰعیل و اسحاق کا ایک خدا اور ہم اس کے حضور
گردن رکھے ہیں۔(البقرۃ: 133)
اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے جواب میں یہ آیت نازل
کی تھی جس میں یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت
اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے دین پر رہنے کی نصیحت کی۔(خازن، البقرۃ،
تحت الآیۃ: 133، 1/93)
حضرت اسحاق
علیہ السلام کی شان بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کے صدقے ہماری بے
حساب بخشش فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
محمد انس عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم ساندہ لاہور، پاکستان)
انبیاء کرام علیہم السلام کا ئنات
کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرے موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں
خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے
اور سیرت وکردار کی بلندیاں عطا فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کو
بہت سے اوصاف سے نوازا ہے آج ہم جس نبی علیہ السلام کے اوصاف بیان کریں گے وہ اللہ
پاک کے پیارے نبی حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں۔
آپ علیہ
السلام کا تعارف:
آپ علیہ السَّلام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور
حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے
پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت و نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی بشارت دیدی
تھی۔ بنی اسرائیل میں آنے والے تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ ہی کی نسل پاک سے
ہوئے۔(سیرت الانبیاء،ص365)
نام مبارک:
آپ علیہ السلام کا نام مبارک اسحاق ہے، یہ
عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا عربی میں معنی ہے ضحاک یعنی ہنسنے والا، شاداں، خوش و
خرم۔آپ علیہ السلام کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ ولادت کی بشارت کے وقت آپ کا مبارک
نام بھی اللہ تعالی نے بیان فرمادیا تھا۔ (سیرت الانبیاء ص365)
نمبر 1 : حضرت
اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ آپ علیہ السلام کی نبوت اور قرب خاص کے لائق
بندوں میں سے ہونے کی بشارت بھی دی گئی، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:وَ
بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (112)ترجمہ
کنزالایمان:اور ہم نے اسے خوشخبری دی اسحٰق کی کہ غیب کی خبریں بتانے والا۔ (پ 23
سورت الصافات آیت: 112)
نمبر 2 :اللہ پاک نے حضرت اسحاق علیہ السلام پر
وحی کے ذریعے بعض احکام نازل فرمائے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ
كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ
اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ
الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-ترجمہ
کنز الایمان: بے شک
اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو
بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور
عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی۔(پ6، النسآء:163)
نمبر 3: وَهَبْنَا
لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-وَ كُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(49) ترجمۂ
کنز العرفان: ہم نے اسے اسحاق اور اس کے بعد یعقوب عطا کئے اور ان سب کو ہم نے نبی
بنایا۔ (پ 16، سورۂ مریم آیت49)
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
ابو کفیل محمد جمیل عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ
فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
حضرت اسحاق
علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔
آپ علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت و
نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی بشارت دیدی تھی۔ بنی اسرائیل میں آنے والے تمام
انبیاءکرام علیہم السّلام آپ ہی کی نسل پاک سے ہوئے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں
جہاں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر کیا وہی حضرت اسحاق علیہ السلام کا ذکر
خیر بھی کیا ہےآیئے قرآن پاک سے آپ کا کچھ تذکرہ پڑھتے ہیں۔
نمبر 1: اللہ
تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کے بارے میں
خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ امْرَاَتُهٗ قَآىٕمَةٌ فَضَحِكَتْ
فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَۙ-وَ مِنْ وَّرَآءِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ(71)ترجمہ
کنزالایمان:اور اس کی بی بی کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری
دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی۔(پارہ 12 سورہ ھود آیت نمبر 71)
نمبر 2:حضرت
اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ کے والد محترم اللہ کے نبی
حضرت ابرہیم علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں یوں دعا کی:اَلْحَمْدُ
لِلّٰهِ الَّذِیْ وَهَبَ لِیْ عَلَى الْكِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَؕ- اِنَّ
رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآءِ(39) ترجمۂ کنز الایمان:سب خوبیاں اللہ کو
جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل و اسحاق دیئے بیشک میرا رب دعا سننے والا ہے۔(پارہ
13، ابرہیم، آیت نمبر 39)
نمبر 3: اللہ
تعالیٰ کا نعمت عطا فرمانا: وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ
یَعْقُوْبَؕ ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے انہیں
اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔(سورہ انعام،پارہ7،آیت نمبر 84)
نمبر 4:اللہ
تعالیٰ نے اپنے محبوب سے حضرت اسحاق علیہ السلام کی طرف وحی کا تذکرہ ان الفاظ کے
ساتھ فرمایا : اِنَّاۤ
اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْۢ
بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ
یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ
سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) ترجمۂ کنز
العرفان:بیشک اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد
پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان
کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی فرمائی اور
ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔
آپ علیہ السلام کا وصف: حضرت اسحاق علیہ السلام لوگوں کو آخرت
کی یاد دلاتے اور کثرت سے آخرت کا ذکر کرتے تھے اور دنیا کی محبت نے ان کے دلوں
میں ذرہ بھر بھی جگہ نہیں پائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ
اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِۚ(46)ترجمہ
کنزالایمان: بے شک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد
ہے۔
اللہ پاک کی
بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نیک بندوں سے محبت کرنے اور ان کے نقشے
قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔
عبدالحفیظ (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم
ساندہ لاہور، پاکستان)
اللہ ربُّ
العزت نے اپنے نیک بندوں میں سے جنہیں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے منتخب
فرمایا اُنہیں شریعت کی اِصطلاح میں اَنبیاءاور رُسول کہا جاتا ہے۔ آج ہم اللہ
تعالیٰ کے جس نبی کا ذکر کریں گے وہ حضرت اسحاق علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں، آپ علیہ
السلام کو اللہ تعالیٰ نے کثیر اوصاف سے نوازا ہے، آیئے آپ علیہ السلام کا مختصر
تعارف اور قرآنی تذکرہ پڑھتے ہیں۔
تعارف! آپ
علیہ السلام کا نام مبارک اسحاق ہے،آپ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور
حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی دنیا میں تشریف آوری سے
پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کی ولادت و نبوت اور صالحین میں سے ہونے کی بشارت دیدی
تھی۔ بنی اسرائیل میں آنے والے تمام انبیاءکرام علیہم السلام آپ ہی کی نسل پاک سے
ہوئے۔آیئے! آپ علیہ السلام کے چند اوصاف ملاحظہ فرماتے ہیں!
(1)آپ کے والد
محترم حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کی دعا فرمائی جو اللہ پاک
نے قبول فرما لی اور آپ کی ولادت کی بشارت دی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَوَهَبْنَا
لَهٗۤ اِسْحٰقَؕ-وَیَعْقُوْبَ نَافِلَةًؕ-وَكُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ(72) ترجمہ
کنزُالعِرفان: اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا فرمایا اور مزید یعقوب (پوتا) اور
ہم نے ان سب کو اپنے خاص قرب والے بنایا۔ (پارہ نمبر17 سورۃ الانبیاء،آیت نمبر 72)
حضرت ابراہیم علیہ
السلام نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بیٹے کے لیے دعا کی تھی مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے
انہیں بیٹے کے ساتھ ساتھ پوتے کی بھی بشارت دی جوکہ بغیر سوال کے عطا کیا گیا اور
ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص قرب والا بنایا۔(مدارک، الانبیاء، تحت الآیۃ: 72،
ص721، 722)
(2)حضرت اسحاق
علیہ السلام بڑے برگزیدہ اور عبادت گزار تھے۔ آپ علیہ السلام کی ولادت سے قبل ہی اللہ
ربُّ العزَّت نے حضرت ابراہیم علیہم السلام کو آپ علیہ السلام کے نیک اور نبی ہونے
کی خوشخبری سنا دی تھی۔جیسا کہ اللہ تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ
بَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(112)وَبٰرَكْنَا عَلَیْهِ وَ
عَلٰۤى اِسْحٰقَؕ- ترجمہ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری
دی جو اللہ کے خاص قرب کے لائق بندوں میں سے ایک نبی ہے۔ اور ہم نے اس پر اور
اسحاق پربرکت اتاری۔ (پارہ نمبر 23، سورة الصّٰٓفّٰت آیت نمبر 112، 113)
(3) اللہ کے
بہترین بندےجیسے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا!
وَ
اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِؕ(47)
ترجمہ کنزالایمان: اور
بےشک وہ ہمارے نزدیک چنے ہوئے پسندیدہ ہیں ۔ (پ23،سورۃ صٓ47)
اس آیت میں
فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم، اسحق اور یعقوب علیہم السلام بہترین چنے ہوئے ہیں اور
یہاں بہترین سے مراد یہ ہے کہ ان میں کوئی خاص بات ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اُن میں
آخرت کے گھر کی یاد ہے اور وہ لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے، کثرت سے آخرت کا ذکر
کرتے اور دنیا کی محبت نے اُن کے دلوں میں جگہ نہیں پائی اور بیشک وہ ہمارے نزدیک
بہترین چُنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔(روح البیان، ص، تحت الآیۃ: 45-46، 8/46،
مدارک، ص، تحت الآیۃ: 45-47، ص1024، خازن، ص، تحت الآیۃ: 45-47، 4/43-44،
ملتقطاً)
اور آپ کے
اوصاف احادیث میں بھی بیان کیے گئے ہیں جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بیشک کریم،
کریم کے بیٹے، کریم کے فرزند اور کریم کے صاحبزادے یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن
ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ (ترمذی، کتاب التفسير، باب و من سورة يوسف، 81/5، حدیث:
3127)
اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔آمین ثم آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔