جن خوش نصیبوں کے ماں باپ زندہ ہیں انکو چاہیے کہ روزانہ انکے ہاتھ پاؤں چوما کریں والدین کی تعظیم کا بڑا درجہ ہے۔والدین کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے اگر ان کا دل خوش ہو جائے اور وہ دعا کر دیں تو بیڑا پار ہو جاتا ہے۔فرمان رسول ﷺ ہے کہ جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ (در مختار، 9/606)

منقول ہے کہ ایک شخص کو اسکی ماں نے آواز دی لیکن اس نے جواب نہ دیا اس پر اسکی ماں نے اسے بدعا دی تو وہ گونگا ہو گیا۔ (بر الوالدین، ص89)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے ماں باپ کا فرمانبردار ہے، اس کے لیے صبح کو ہی جنت کے دروازے کھول جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہی ہوتو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور(ماں باپ میں سے) ایک ہو توایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کی اگر چہ ماں باپ اس پر ظلم کریں۔ فرمایا اگر چہ ظلم کریں، اگر چہ ظلم کریں، اگر چہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

واقعی وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جو ماں باپ کو خوش رکھتا ہے، جو بدنصیب ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس کے لیے بربادی ہے۔

دل دکھانا چھوڑ دے ماں باپ کا ورنہ اس میں خسارہ ہے آپ کا

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے: ماں باپ کو ستانے والا، دیوث اور مردانی وضع بنانے والی عورت۔ (مستدرک، 1/252، حدیث: 2654)

جب ماں باپ کے نافرمان کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے دباتی ہے یہاں تک کہ اسکی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا اے جبرئیل!یہ کون لوگ ہیں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/139)

فرمان رسول ﷺ ہے کہ جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قبر پر ہر جمعہ کے دن زیارت کیلئے حاضر ہو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے والا لکھ دیا جائے گا۔ (نوادر الاصول، ص 97)

آقاﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: ماں باپ تیری دوزخ اور جنت ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662) ایک اور مقام پر فرمایا: سب گناہوں کی سزا اللہ پاک چاہے تو قیامت تک اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

اگر ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک ناراض ہے تو اسے ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر اور رو رو کر معافی تلافی کی ترکیب فرما لیجیئے گا، انکے جائز مطالبات پورے کر دیجیے کہ اسی میں دونوں جہانوں کی بھلائی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں!

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اس کے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا سول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662) یعنی ان کے ساتھ نیک سلوک کر کے تم جنت کے مستحق ہو گے اور ان کے حقوق کو پامال کر کے تم جہنم کا ایندھن بنو گے۔

ایک اور مقام پر ارشا د فرمایا: سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

حدیث پاک کا مضمون ہے: جو بچہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھے اللہ پاک اسے مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔

اللہ اکبر! ذرا سوچئے کہ محبت سے دیکھنے کا یہ اجر ہے تو خدمت کرنے کا عالم کیا ہوگا! ایک صحابی رسول نے عرض کی: حضور اگر کوئی دن میں سو بار دیکھے؟ آقا ﷺ فرماتے ہیں: کوئی سو بار بھی دیکھے تو اسے اللہ پاک مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان، 6/186، حدیث: 7859)

والدین کی خدمت سے ہی دونوں جہاں کی بھلائی،سعادت اور عظمت حاصل ہوتی ہے اور آدمی دونوں جہاں کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں کشادگی ہو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرے اور صلہ رحمی کرے۔ (الترغیب و الترہیب، 3/255، حدیث: 3798)

ماں باپ کا ادب و احترام کیجئے اور کوئی بھی ایسی بات یا حرکت نہ کیجئے جو ان کے احترام کے خلاف ہو۔

حدیث مبارکہ میں ہے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے ماں باپ کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ایک شخص نے عرض کی اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں فرمایا: اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں(شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

معلوم ہوا کہ والدین کی فرمانبرداری جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور والدین کی نافرمانی جہنم میں جانے کا راستہ ہے۔ بے شک تمام نیک اعمال سے بڑھ کر نیک عمل یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

والدین سے حسن سلوک کا حکم: اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا: اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔

اس کے علاوہ بے شمار احادیث میں والدین کی فرمانبرداری کرنے اور نہ فرمانی سے بچنے کا بیان آیا ہے یقینا جو والدین کی فرمانبرداری کرتا ہے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے اور والدین کا بے ادب سوائے رسوائی کے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔

حضرت عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا، اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسیٰ علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا: اے اللہ! تیرے اس بندے کا نام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تمہیں اس شخص کے تین عمل بتاتا ہوں: پہلا یہ کہ میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، یہ ان پر حسد نہیں کر تا تھا۔ دوسرا یہ کہ یہ شخص والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا۔ تیسرا یہ شخص چغل خوری نہیں کر تا تھا۔ (مکارم اخلاق، ص 183، حدیث: 257)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اجرو ثواب میں زیادہ تیز رفتار بھلائی (والدین کے ساتھ حسن سلوک والی) نیکی اور صلہ رحمی ہے اور سزا میں تیز رفتاری برائی سرکشی (ظلم و زیادتی اور بدکاری) اور قطع رحمی ہے۔

یعنی سب سے جلد جس خیر و بھلائی کا فائدہ اور ثواب آدمی کو ملتا ہے وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی و الا خیر ہے۔ ہر انسان کو ایک دن ضرور مرنا ہے۔ زندگی اور موت گرچہ انسان کے اختیار میں نہیں، پھر بھی کون شخص ہے جو اس دنیا میں طویل زندگی کا خواہشمند نہیں؟ اسی طرح کون ہے جو رزق کی وسعت اور مال و دولت کی فراوانی نہیں چاہتا؟ احادیثِ رسول میں یہ صراحت موجود ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک عمر اور روزی میں کشادگی کا باعث ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تقدیر کو کوئی چیز نہیں بدلتی سوائے دعاکے، عمر میں اضافہ نہیں ہوتا مگر (والدین کے ساتھ )حسن سلوک والی نیکی سے اور بے شک کبھی آدمی گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے روزی سے محروم کردیا جاتاہے۔ (ترغیب و ترہیب، 2/316، حدیث: 17)

اللہ کریم ہمارے والدین کا سایہ صحت و عافیت کے ساتھ ہمیشہ سلامت رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان سب کی بے حساب بخشش فرمائے۔ آمین


جہاں اسلام نے بڑوں کی عزت کرنے اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کا حکم دیا ہے وہی والدین کی فرمانبرداری کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ اس بارے میں نہ صرف قران پاک میں تعلیم دی گئی بلکہ احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی فرمانبرداری کرنے، انہیں راضی رکھنے، ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے اور ان کی خدمت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

اس بارے میں چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں: جیسا کہ حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: کہ وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں یعنی جو لوگ ان کو راضی رکھیں گے جنت پائیں گے اور جو ان کو ناراض رکھیں گے دوزخ کے مستحق ہوں گے۔(ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت و دوزخ سے تعبیر کیا گیا اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت ابن عباس نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمانبردار رہا تو اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ والدین کے بارے میں خدا تعالی کا نافرمان بندہ رہا تو اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ایک شخص نے کہا اگرچہ والدین اس پر ظلم کریں تو حضور ﷺ نے فرمایا: اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں، اگرچہ ظلم کریں۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو (یعنی ذلیل و رسوا ہو) کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت میں پایا پھر بھی (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو۔(مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

حضرت معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد جاہمہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے حضور سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ ارشاد فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ عرض کیا: ہاں! فرمایا: اس کی خدمت اپنے اوپر لازم کر لے کہ جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے۔ (مسند امام احمد، 5/290، حدیث: 15538)

ان احادیث مبارکہ میں والدین کی فرمانبرداری کی تعلیم دی گئی ہے حدیث پاک کا مضمون ہے کہ جو بچہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھے اللہ پاک اسے مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا ایک صحابی رسول نے عرض کی: حضور اگر کوئی دن میں سو بار دیکھے؟ آقا فرماتے ہیں: کوئی سو بار بھی دیکھے تو اسے اللہ پاک سو مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان، 6/186، حدیث: 7859)

اللہ اکبر! ذرا سوچیے کہ محبت سے دیکھنے کا یہ اجر ہے تو والدین کی خدمت کرنے ان کی فرمانبرداری کرنے کا عالم کیا ہوگا۔

اب والدین کی فرمانبرداری نہ کرنے کے بارے میں چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:

حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اس کے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا: سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


باپ ایک بہترین محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار ڈرائیور ہے جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔ ماں کی دعا کا شوق رکھ کر باپ کی بددعا سے بھی ڈرے۔ اگر ماں جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے۔ باپ سے بہتر کوئی نہیں۔ باپ سے بہتر کوئی درد مند نہیں باپ سے بہتر کوئی ہمدرد نہیں باپ سے بہتر کوئی استاد نہیں باپ ایک سورج کے مانند ہے گرم ضرور ہوتا ہے اگر نہ ہو تو اندھیرا ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے آقا جان ﷺ فرمایا: اللہ کریم کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے پروردگار کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا جان ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک غبار آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو یعنی (ذلیل و رسوا ہو) کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپے کے وقت پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہوا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

قرآن کریم میں اللہ پاک نے اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے۔

آخر میں الله کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا ادب کرنے والا بنا اور ہمارے والدین کو ایمان و عافیت والی لمبی طویل زندگی عطا فرما۔ آمین


اللہ کی عظیم نعمت والدین ہیں جو کہ اللہ پاک کی رحمت کا سبب ہیں انکی ناراضی رب کی ناراضی اور انکا راضی ہونا رب کا راضی ہونا ہے۔ در حقیقت یہ وہ نعمت کبری ہیں کہ جس کا کوئی بھی نعم البدل دنیا میں نہیں اس عظیم الشان نعمت کا جتنا شکر کرے اتنا ہی کم ہے۔ رب تعالی نے ان دو ہستیوں کو عطا فرمایا اور قرآن میں انکا ذکر بھی کیا انکے حقوق بجا لانے کا حکم ارشاد فرمایا انکی خدمت پر اجر عظیم اور جنت عطا فرمانے کی بشارت اور انکی نافرمانی پر جہنم کے عذاب کی وعید بیان فرمائی کثیر احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے حقوق اور ان سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا اسی طرح اسے کئی صحابہ اکرام اور بزرگان دین کہ جنہوں نے والدین کی خدمت پر بہت بہت اعلی منزلیں پائیں اور کامیابی کی راہوں پر گامزن ہوئے اجر عظیم سے دنیا ہی میں نوازے گئے اور ابھی آخرت کا اجر تو باقی ہے۔

اللہ قرآن مجید فرقان حمید میں والدین کے متعلق ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

والدین کے حقوق قرآن و حدیث میں بہت زیادہ ہیں اور جگہ جگہ رب تعالی نے اپنی عبادت کے ساتھ ان سے حسن سلوک کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

والدین گھر کی رونق ہوتے ہیں ماں ہو یا باپ دونوں کا رتبہ جدا جدا ہے والد کو جنت کا دروازہ جبکہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت کہا گیا، اسی سے ماں اور باپ دونوں کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا کس قدر بلند مقام ہے والد ایک گھر میں گویا کہ مضبوط محافظ ہے اور ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے۔ ماں باپ دنیا کی وہ واحد ہستیاں ہیں کہ جو ہر رشتے سے بڑھ کر اپنی اولاد کے لئے مخلص ہیں۔ والدین وہ رب تعالی کی عظیم الشان نعمت ہیں کہ یہ دونوں کبھی بھی اپنے اولاد کے لئے برا نہیں چاہتے والد بیٹے کا بہترین دوست اور والدہ ایک بیٹی کی بہترین دوست ہوتی ہے، اولاد کو ان سے حسن سلوک کرنے کا حکم اللہ پاک نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ اللہ فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ- (پ 20، العنکبوت: 8) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کیساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔

والدین حیات ہوں تو زندگی میں بھی انکے حقوق ہیں اور اگر وفات پا چکے تو انکے لئے دعائے مغفرت کرنا انکے لئے ایصال ثواب کرنا انکے حقوق میں شامل ہے جس نے ہر فرض نماز کے بعد اپنے والدین کے لئے دعائے مغفرت کی تو گویا اسنے اپنے والدین کا حق ادا کیا۔

والدین کی عزت و احترام کے بارے میں چند احادیث مبارکہ کا ترجمہ پیش خدمت ہے:

والدین کے ساتھ نیک سلوک: نماز، زکوة، روزہ، حج، اور جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل ہے، جس نے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اسے خوشخبری ہو کہ اللہ تعالی اس کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ تمہارے رب نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام کی ہے، والدین کو گالی دینا، گناہ کبیرہ ہے، ماں کے قدموں تلے جنت ہے، ایک حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق فرمایا گیا کہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والا بری موت نہیں مرتا۔ (تاریخ ابن معین، 2/328)

والدین سے کیسا برتاؤ کیا جائے؟ والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کے مختلف طریقے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں: والدین کا احترام کیجیے، انکی موجودگی میں اپنے فون کو دور رکھئے، انکی عزت و تعظیم کیجیے، اور محبت سے دیکھیے کہ ماں کی طرف محبت کی ایک نظر دیکھنا مقبول حج کا ثواب ہے، انکی باتوں کو بیچ سے نہ کاٹیے، بلکہ توجہ سے سنیے، ان کی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے انکے حکم اور مشورے کو قبول کیجیے، انکے ساتھ اچھی خبر شئیر کیجیے اور بری خبر سنانے سے بچیے، ان کے دوستوں ان کے بہن بھائیوں کی بھی تعظیم کیجیے تاکہ انکے دل میں خوشی داخل ہو انکے احسانات اکثر یاد کرتے رہیے، ایک بات دوبارہ بھی کریں تو اس طرح سنیے جس طرح پہلی بار سن رہے تھے۔ والدین کی خدمت کیجیے کہ یہی راستہ جنت کا راستہ ہے، حضرت ابن عمر و رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: رب کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے سوتے ہوئے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور جنت میں ایک قاری کی آواز سنی جو قرآن پڑھ رہا تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ فرشتوں نے جواب دیا: یہ حارثہ بن نعمان ہیں پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اصل نیکی یہی ہے، اصل نیکی یہی ہے اور حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی یہ خوبی تھی کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے تھے۔(مراۃ المناجیح، 6/756)

والدین کی نافرمانی کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ والدین کا نافرمان دنیا میں رہتے ہوئے ہی عذاب میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اسے دنیا میں بھی سزا دی جاتی ہے اور آخرت میں بھی رسوائی اس کا مقدر ہے لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے والدین سے حسن سلوک کریں ان کی ہر بات مانیں ان کی خدمت کریں انہیں خوش کرنے والے کام کریں اور خوب خوب ان کی خدمت کر کے دعائیں لیں کہ والدین کی دعائیں اپنی اولاد کے حق میں مقبول ہیں اور والدین کی دعاؤں سے اولاد ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتی ہے۔

اللہ کریم جن کے والدین زندہ ہیں انہیں صحت و عافیت والی ایمان والی لمبی زندگی عطا فرمائے اور جن کے دنیا میں نہیں یا دونوں میں سے کوئی ایک اگر دنیا فانی سے رخصت ہو گیا ہو تو اللہ پاک انہیں بے حساب بخشے انکی مغفرت و بخشش فرمائے انکے درجات میں بلندی عطا فرمائے اور ہمیں انکے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور دعا اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال ایصال ثواب کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین


دین اسلام مکمل طور پر انسانیت کی بہتری اور بھلائی کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی محمد عربی ﷺ نے اپنی زندگی کو مثالی اور عملی نمونہ بنا کر اپنی امت کو بہت سے نیک احکام کی تعلیم دی۔ جیسا کہ صلہ رحمی، سچائی، ایمانداری، امانت داری، ایثار و قربانی، مدد کرنا، معاف کرنا، بیماروں کی عیادت کرنا اور والدین کی فرمانبرداری کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ والدین پروردگار کا ایک عظیم تحفہ ہیں۔ نعمت کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھیے جو اس سے محروم ہیں، جو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دولت کی اہمیت ان سے پوچھیے جو غریبی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی طرح والدین کی اہمیت ان لوگوں سے پوچھیے جن کی زندگی اور جن کی محبت ان کی محبت سے محروم ہے۔

والدین کی فرمانبرداری کر کے انسان دنیا آخرت میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ قران کریم میں اللہ نے اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کا بھی حکم ارشاد فرمایا ہے۔

احادیث میں بھی آپ ﷺ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تلقین ارشاد فرمائی ہے، چند احادیث ملاحظہ کیجیئے۔

حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی رضامندی ماں باپ کی رضا مندی میں سے ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔ یعنی ماں باپ کو راضی رکھا تو اللہ پاک بھی راضی ہے اور ماں باپ کو ناراض کیا تو اللہ پاک بھی ناراض ہو گیا۔ کیونکہ اللہ پاک نے ماں باپ کو راضی رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ جب ماں باپ کو ناراض رکھا تو اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی ہوئی تو یہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا باعث ہوئی۔ ایک اور حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد اللہ پاک کی رضا والد کی رضا ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی والد کی ناراضگی ہے۔

والدین کے لیے دعا کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ جنت میں اپنے نیک بخت و صالح بندے کا درجہ بلند کرتا ہے۔ تو وہ پوچھتا ہے میرے پروردگار مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہوا؟ اللہ فرماتا ہے تیرے لیے تیرے بیٹے کی استغفار کی وجہ سے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 1/440، حدیث: 2354)

ماں کے ساتھ حسن سلوک جنت میں داخلے کی ضمانت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے سوتے ہوئے خواب میں اپنے آپ کو جنت میں دیکھا اور جنت میں ایک قاری کی آواز سنی، جو قرآن پڑھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ فرشتوں نے جواب دیا یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اصل یہی نیکی ہے، اصل نیکی یہی ہے اور حارثہ بن نعمان کی خوبی یہ تھی (کہ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا تھا) ۔ (مراۃ المناجیح، 6/756)

ماں باپ کی شان: باپ ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔ باپ ایک ذمہ دار ڈرائیور ہے جو گھر کی گاڑی کو اپنے خون پسینے سے چلاتا ہے۔ ماں کی دعا کا شوق رکھ کر باپ کی بددعا سے بھی ڈرے۔ اگر ماں جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے۔ باپ سے بہتر کوئی نہیں۔ باپ سے بہتر کوئی درد مند نہیں باپ سے بہتر کوئی ہمدرد نہیں۔ باپ سے بہتر کوئی استاد نہیں باپ ایک سورج کی مانند ہے گرم ضرور ہوتا ہے اگر نہ ہو تو اندھیرا ہوتا ہے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے اللہ تعالی ہمیں اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین 


دین اسلام نے خاندان کو خصوصی اہمیت سے سرفراز فرمایا ہے اور اہل خانہ پر ایک دوسرے کے حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں جن میں والدین سب سے مقدم ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں رب نے بڑی عظمت سے یوں بیان فرمایا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

آئیے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت احادیث کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:

1۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا حج، عمرہ اور راہ خدا میں جہاد کرنے سے افضل ہے۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، 3/ 6، حدیث: 2752 مفہوماً)

2۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جس زمانہ میں قریش نے صاحب قرآن ﷺ سے معاہدہ کیا تھا (یعنی صلح حدیبیہ کے بعد) میری مشرکہ ماں میرے پاس آئی، میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے دور ہے کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ ارشاد فرمایا: ہاں اس کے ساتھ صلہ رحمی سے پیش آؤ۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 131) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: کافر و مشرک ماں باپ کی بھی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ مشرک باپ کو بت خانہ لے نہ جائے مگر جب وہاں پہنچ چکا ہو تو وہاں سے گھر لے آئے کہ لے جانے میں بت پرستی پر مدد ہے اور لے آنے میں خدمت ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6 / 517)

3۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ اللہ کو کون سا عمل زیادہ پیارا ہے؟ فرمایا: وقت پر نماز۔ میں نے کہا: پھر کونسا؟ فرمایا: ماں باپ سے بھلائی۔(بخاری، 4/589، حدیث: 7534)

4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم شاہ بنی آدم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو کہ جو والدین میں سے ایک یا دونوں کو پائے اور (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

5۔ حضرت سیدنا ابو اسید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بنو سلمہ قبیلے کا ایک شخص آیا اور پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ ! کیا میرے والدین کے مرنے کے بعد ان سے بھلائی کرنے کی کوئی صورت ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! ان کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنا، ان کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔ (ابو داود، 4/434، حدیث: 5142)

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:

مطیع اپنے ماں باپ کا کر میں انکا ہر اک حکم لاؤں بجا یاالٰہی

اللہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کا حکم بجا لانے اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی توفیق عنایت فرمائے۔

حقوق والدین کی تفصیل جاننے کیلئے فتاویٰ رضویہ کی 24ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کا رسالہ الحقوق لطرح العقوق (والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق) کا مطالعہ کیجئے۔


والدین اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہیں، ان کی قدر کرنا سیکھیے، والدین کے حقوق کی احتیاط کیجیے، اگر وہ حیات ہیں تو ان کا خیال رکھیے، ان کی عزت و تعظیم کیجیے، ان کو احساس دلاتے رہیے کہ وہ آپ کے لیے بہت قیمتی ہیں، ان کو نیکیوں کی ترغیب دلاتے رہیے، ان کا ہر وہ حکم پورا کیجیے جو شریعت کے خلاف نہ ہو، اگر کوئی بات دوسری یا تیسری بار بھی کریں تو بھی ان کی بات کو ایسے غورسے سنیے کہ پہلی بار سن رہے ہیں، اگرچہ وہ آپ کے ساتھ حسن سلوک نہ کریں مگر آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیے، اگر وہ کوئی شرعی تقاضوں کے مطابق رائے دیں تو ان کی رائے کو مقدم کیجیے، روزانہ کم از کم ایک بار ان کے ہاتھ پاؤں چومیے، ان کی طرف پیٹھ یا پاؤں کر کے نہ بیٹھیے، الغرض ان کے تمام حقوق پورے کیجیے۔ اگر وہ جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیے، ان کے دوستوں رشتہ داروں کا خیال رکھیے۔

آئیے قرآن و سنت کی روشنی میں والدین کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں: اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں کونسا عمل پسندیدہ ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا: اللہ کی بارگاہ میں کونسا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟ ارشاد فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونساہے؟ ارشاد فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے عرض کی: پھر کونسا ہے ؟ارشاد فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/589، حدیث: 7534)

لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے برتاؤ کا کون حقدار ہے؟ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ ایک شخص نےرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: یارسول اللہ! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نےعرض کی: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ارشادفرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ ارشادفرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث: 5971)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو کہ جو والدین میں سے ایک یا دونوں کو بڑھاپے میں پائے اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

کبیرہ گناہ: حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ نے ارشادفرمایا: کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔ (بخاری، 4/295، حدیث: 6675)

اللہ پاک ہمیں والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


حقوق العباد کو پورا کرنا ہر مردو عورت پر لازم ہے اور حقوق العباد میں ایک حق حقِ والدین بھی ہے ہر مرد و عورت پر والدین کے حقوق کو بھی ادا کرنا فرض ہے۔ خاص کر کچھ ایسے حقوق ہیں جنکا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ آئیے کچھ والدین کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں کہ آخر والدین کے کیا کیا حقوق ہیں۔

1۔ خود کو اور مال کو والدین کا سمجھے ہمارے آخری نبی محمد عربی ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے ۔ (ابن ماجہ، 3/81، حدیث: 2292)اگر والدین اپنی ضرورت سے اولاد کے مال و سامان میں سے کوئی چیز لے لیں تو ہرگز برا نہ مانیں اور نہ ہی اظہار ناراضگی کریں بلکہ یہ سمجھیں کہ میں اور میرا مال سب میرے والدین کا ہی ہے۔

2۔ والدین کو ایصال ثواب کرنا والدین کا یا ان میں سے کسی ایک کا انتقال ہو جائے تو اولاد پر والدین کا یہ حق ہے کہ ان کے لیے دعائے مغفرت کی دعا کرتے رہیں اور اپنی نفلی عبادتوں، خیر و خیرات کا ثواب انکی روحوں کو پہنچاتے رہیں کھانوں اور شیرینی وغیرہ پر فاتحہ دلا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرتے رہیں۔ (جنتی زیور، ص 93)

3۔ دل نہ دکھائیں والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہرگز ہرگز اپنے فعل یا قول سے والدین کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ دیں اگرچہ والدین اولاد پر زیادتی بھی کریں مگر پھر بھی اولاد پر فرض ہے کہ وہ ہرگز کبھی بھی اور کسی حال میں بھی والدین کا دل نہ دکھائیں اور جن کاموں سے زندگی میں والدین کو تکلیف ہوا کرتی ہے ان کی وفات کے بعد بھی ان کاموں کو نہ کریں کہ اس سے انکی روحوں کو تکلیف پہنچے گی۔ (جنتی زیور، ص 94)

4۔ حکم کی فرمانبرداری والدین کا حق ہے کہ اولاد اپنے والدین کے حکموں کی فرمانبرداری کرے اور اگر وہ شریعت کی خلاف ورزی کریں تو انہیں احسن انداز میں سمجھایا جائے۔ (جنتی زیور، ص 93 )

5۔ قبروں کی زیارت والدین کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی والدین کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کریں انکی قبروں پر فاتحہ پڑھیں، سلام کریں اور انکے لیے دعائے مغفرت کریں اس سے والدین کی ارواح کو خوشی ہوگی، اور فاتحہ کا ثواب تو فرشتے نور کی تھالیوں میں رکھ کر انکے سامنے پیش کریں گے اور والدین خوش ہو کر اپنی اولاد کو دعائیں دیں گے۔ (جنتی زیور، ص 94)

ہم نے چند والدین کے حقوق سننے کی سعادت حاصل کی ہے والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں جن کو ادا کرنا اولاد پر فرض ہوتا ہے مگر افسوس ! کہ اس زمانے میں لڑکے اور لڑکیاں والدین کے حقوق سے بالکل غافل اور جاہل ہیں انکی تعظیم اور تکریم، اور فرمانبرداری اور خدمت گزاری سے منہ موڑ ے ہوئے ہیں بلکہ کچھ تو اتنے بد بخت اور نالائق ہیں کہ اپنے قول اور فعل سے والدین کو اذیت دیتے ہیں۔اور اسی طرح گناہ کبیرہ میں مبتلا ہو کر قہر قہار اور غضب جبار میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حقدار بن رہے ہیں۔

بس یہ یاد رکھو! کہ تم اپنے والدین کے ساتھ اچھا یا برا جو سلوک بھی کرو گے ویسا ہی سلوک تمہاری اولاد تمہارے ساتھ کرے گی اور یہ بھی جان لو ! کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک ﷺ کرنے سے رزق اور عمر میں خیر و برکت نصیب ہوتی ہے۔ تو اے کاش کہ ہم بھی اپنے والدین کی قدر کریں اور ان کے حقوق کو ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق العباد کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حقوق العباد میں سے سب سے مقدم حق والدین کا ہے، اور یہ اتنا مقدم حق ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق عبادت کے بعد جس حق کا ذکر کیا ہے وہ والدین کا حق ہے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔

1: والدین سے سے حسن سلوک: اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ- (پ 15، بنی اسرائیل: 23 ) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔

2: والدین کا ادب: ( بیٹے کو چاہیے کہ) والدین کی بات توجہ سے سنے، ماں باپ جب کھڑے ہوں تو تعظیماً ان کیلئے کھڑا ہو جائے جب وہ کسی کام کا حکم دیں تو فورا بجا لائے۔ ان دونوں کے کھانے پینے کا انتظام و التزام کرے اور نرم دلی سے ان کیلئے عاجزی کا بازو بچھائے وہ اگر کوئی بات بار بار کہیں تو ان سے اکتا نہ جائے ان کے ساتھ بھلائی کرے تو ان پر احسان نہ جتلائے وہ کوئی کام کہے تو اسے پورا کرنے میں کسی قسم کی شرط نہ لگائے ان کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور نہ ہی کسی معاملے میں ان کی نافرمانی کرے۔ (آداب دین، ص 52)

3: والدین کی اطاعت: والدین کی نارا ضگی اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے لہذا ہمیں والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے حدیث مبارکہ میں بھی والدین کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے ماں باپ کا حکم مانو، اگرچہ وہ تمہیں گھر سے نکل جانے کا حکم دیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد کو ہر صورت ماں باپ کی اطاعت و فرمان برداری کرنی اور یہاں تک نوبت نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ کہیں گھر سے نکل جاؤ۔ (حقوق والدین، ص140)

4: فوت شدہ والدین کے حقوق: سیدی اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ والدین کے انتقال کے بعد اولاد پر کن کن حقوق کی ادائیگی لازم ہے تو آپ نے حقوق بیان فرمائے ان کی موت کے بعد غسل کفن، دفن اور نماز کے معاملات میں، سنتوں اور مستحبات کا خیال رکھے۔ ان کیلئے دعاو استغفار کرتا رہے صدقہ خیرات اور نیکیاں کر کےان کا ثواب والدین کو پہنچائے ان پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میں جلدی کرے ان پر کوئی فرض عبادت رہ گئی ہو تو کوشش کر کے اس کی ادائیگی کرے مثلاً نماز و روزہ ان کے ذمہ باقی ہو تو اس کا کفارہ دے۔ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے ان کے دوستوں کا ہمیشہ ادب و احترام کرے اور سب سے بڑا حق یہ ہے گناہ کر کے قبر میں ان کو تکلیف نہ پہنچائے والدین کے انتقال کے بعد والدین کے حقوق سے پتا چلتا ہے کہ دین اسلام میں والدین کی وفات کے بعد بھی ان کی قدر و منزلت اور مقام بہت بلند وبالا ہے۔ (والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص 202)

5: والدین کی قبروں کی زیارت: (والدین کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر جمعہ کو ان کی زیارت قبر کے لئے جانا، وہاں یسین شریف پڑھنا ایسی یعنی اتنی آواز سے کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہچانا راہ میں جب کبھی ان کی قبر آئے بے سلام و فاتحہ (یعنی سلام و ایصال ثواب کیے بغیر) نہ گزرنا۔ (فتاوی رضویہ، 24/392)


والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں۔ بچپن میں والدین ہی اپنے بچے کی دیکھ بال اور پرورش کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے۔ کیونکہ بچے کی پیدائش میں ماں زیادہ تکالیف برداشت کرتی ہے۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِۚ-حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ وَّ فِصٰلُهٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ- (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔

صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہﷺ سب سے زیادہ احسان کا مستحق کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمارا باپ۔ (بخاری، 493، حدیث: 5971)

اور ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ ماں ہے، پھر ماں، پھرماں، پھر باپ، پھر وہ جو زیادہ قریب، پھر وہ جو زیادہ قریب۔ (مسلم، ص 1378، حدیث:2548)

والدین کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیے۔

اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اور بھلائی کیجیے۔

انکی ہر وہ بات فوراً سنیے جو شریعت کے خلاف نہ ہو۔

لوگوں سے انکے کیے ہوئے وعدے انکی وفات کے بعد بھی پورے کیجیے۔

انکے ساتھ ہمیشہ نرمی والا رویہ اختیار کیجیے۔ جب ان کے ساتھ بات کریں۔تو نرم لہجے میں اور نظریں جھکا کر بات کیجیے۔ اور بات کرتے ہوئے ہمیشہ پست آواز رکھیے۔

اللہ پاک بطفیل مصطفیﷺ ہمیں ہمارے والدین کا فرمانبردار بنائے اور ہمیں ہمارے والدین کے تمام حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ