گزشتہ دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے سکردو کابینہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے کمشنر گلگت بلتستان ڈویژن شجاع عالم سے ملاقات کی۔

اس دوران ذمہ داران نے کمشنر کو دعوتِ اسلامی کے دینی وفلاحی خدمات کے بارے میں بتاتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف پیش کیا۔

کمشنر نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

خوف خدا میں رونے کے فضائل:خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلا پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بےنیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء علوم الدین، کتاب الخوف و الرجا، باب بیان حقیقة الخوف، 190/4، ماخوذا،،، خوف خدا، ص 14)(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص 200) خوف خدا میں رونا ایک نہایت عظیم صفت ہے اور اس کے بےشمار فضائل منقول ہیں۔اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس بندۂ مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف کے سبب مکھی کے پر برابر بھی آنسو نکل کر اس کے چہرے تک پہنچا تو اللہ پاک اس بندے پر دوزخ کو حرام فرمادیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن و البکاء، 467/4، حدیث: 4197) جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔(سنن الترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی فضل الغبار فی سبیل اللہ، 236/3، حدیث: 1639) اللہ پاک کے نزدیک اس کے خوف سے بہنے والے آنسو کے قطرے اور اس کی راہ میں بہنے والے خون کے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ محبوب نہیں۔(الزہد لابن المبارک، باب ما جاء فی الشح، ص235، حدیث: 672) جس دن عرش الہٰی کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا اس دن اللہ پاک سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو تنہائی میں اللہ پاک کو یاد کرے اور (خوف خدا سے) اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔(بخاری شریف، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوة، 236/1، حدیث: 660)اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جس سے ہوسکے وہ روئے اور جسے رونا نہ آئے تو وہ رونے جیسی صورت ہی بنالے۔(احیاء العلوم، ج 4، ص 544)حضرت سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس شخص کی آنکھ خوف خدا میں آنسو بہاتی ہے روز قیامت نہ اس شخص کا چہرہ سیاہ ہوگا نہ اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جب اس کی آنکھ سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ پاک ان کے پہلے قطرے سے دوزخ کے شعلوں کو بجھادیتا ہے اور اگر کسی امت میں ایک بھی شخص خوف خدا سے روتا ہے تو اس کی برکت سے اس امت پر عذاب نہیں کیا جاتا۔(احیاء العلوم، ج 4، ص 544)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف سے میرا ایک آنسو بہانا میرے نزدیک پہاڑ برابر سونا صدقہ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔(احیاء العلوم، ج 4، ص 544)البتہ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ خوف خدا میں رونا اگرچہ بڑی عظیم سعادت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنا اور فرائض و واجبات کو ادا کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ درحقیقت خوف خدا والا بندہ وہی ہے جو اللہ کریم کی نافرمانیوں سے بچے۔اللہ پاک ہمیں اپنا اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مطیع و فرمانبردار بنائے اور ہمیں اپنے خوف میں رونے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

یا رب! میں ترے خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی شہنشاہ مدینہ کی بنادے(وسائل بخشش، ص 119)


رونا لفظ کو عربی میں البکاءکہتے ہیں، رونا کئی طرح کا ہوتا ہے، جیسا کہ غم سے رونا بہت خوشی میں رونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں رونا، مدینے کی یاد میں رونا، بادل روتا ہے تو چمن ہنستا ہے، اللہ پاک کے ڈر سے رونا، اللہ پاک کی یاد میں رونا وغیرہ، یہاں خوفِ خدا (اللہ پاک کے ڈر) سے رونا مراد ہے، خوف خدا میں بہنے والا آنسو کسی نعمت سے کم نہیں، یہ بہت بڑی سعادت مندی کی بات ہے، یہ خوف خدا میں بہنے والا آنسو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں، خوف سے ہی انسان کی اصلاح ہوتی ہے، اس خوف کی وجہ سے ہی انسان اپنے ربّ کے قریب ہوتا ہے، اللہ پاک کو ندامت سے بہنے والے آنسو بہت پسند ہیں، بندے کی شرمندگی اور خوف سے بہنے والا آنسو اللہ پاک کو بے حد محبوب ہے، میرے ربّ کریم نے خوفِ خدا کی صفت کو اختیار کرنے کا حکم ارشاد فرمایا:ارشادِ باری:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔ (پ4، ال عمران:102)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:ارشادِ باری:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ (پ3، ال عمران :28)ارشاد باری:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔ (پ22، الاحزاب:70)پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے نکلنے والے ان مقدس کلمات کو بھی ملاحظہ فرمائیے: حدیث: مبارکہ: سرور عالم، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کا خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کردیا ہے۔(شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 802)حدیث: مبارکہ:خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے :جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے، تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں۔ (شعب الایمان، ج1، ص491، حدیث: 803)حدیث: مبارکہ:سید المرسلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :جو اللہ پاک کے خوف سے روتا ہے، وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا، یہاں تک کہ دودھ(جانور کے) تھن میں واپس آجائے۔ (شعب الایمان، ج1، ص490، حدیث: 800)قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اکابرینِ اسلام کے اقوال میں بھی خوفِ خدا کی نصیحتیں وارد ہیں:1۔حضرت ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے۔2۔حضرت سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس دل سے خوف دور ہوجاتا ہے وہ ویران ہوجاتا ہے۔پیاری اسلامی بہنو!ایک ایسے عظیم شخصیت کی حکایت ملاحظہ فرمائیں، جو یارِ غار اور یارِمزار بھی، جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی، مگر ان کا خوفِ خدا اور تقویٰ مرحبا! ہمارے اور آپ کے پیارے صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ جو خوف خدا سے اس قدر گھبراتے تھے، فرماتے ہیں: کاش !میں درخت ہوتا، جسے کھالیا جاتا کاٹ دیا جاتا۔اتنی عاجزی، اتنا زہد و تقویٰ، اللہُ اکبر! وہ تو زبان کی احتیاط کیلئے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ لیا کرتے تھے، تاکہ زیادہ نہ بولنا پڑے اور آج دیکھیں ہمارا حال کیا ہے، ہمیں تو گناہ کرکے شرمندگی تو دور کی بات ہے، رونا تک نہیں آتا اور اس گناہ کے ہم چرچے کررہی ہوتی ہیں، جیسے ہمیں مرنا ہی نہیں، ربّ کریم کے حضور کھڑا ہی نہیں ہونا۔اے پیاری بہنو! اتنی بے باکی، اتنی بے خوفی اچھی نہیں، خدارا! اب بھی وقت ہے، سدھر جائیں، انسان تو جس سے محبت کرتا ہے، اس کی ناراضی سے ڈرتا ہے، مگر ہماری اپنے اللہ پاک سے کیسی محبت ہے، ہم تو ہر لمحہ اس کی ناراضی والے کام کرتی ہیں، ہم یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ ہم اللہ پاک سے محبت کرنے کے باوجود اس کو ناراض کرنے کے درپے ہیں، یاد رکھیں! اللہ پاک کے عذاب اور اس کی وعید سے بچنے کیلئے گناہ چھوڑنا بہت اچھی بات ہے، مگر اللہ پاک کی محبت میں گناہ چھوڑنا اس کا اپنا ہی مزہ ہے۔ایسا رونا، ایسا خوف، مانگا کرو، کیونکہ اللہ پاک کی محبت جسے نصیب ہوجاتی ہے، اس کو دنیا کی محبت سے پھر کوئی سروکار نہیں ہوتا، اللہ پاک سے ہی دعا مانگا کرو کہ

میں بس تیرے خوف سے روتی رہوں ہر دم تو بس دیوانی مجھے اپنے محبوب کی بنادے

وہ ربّ کریم ہمیں اپنی یاد میں تڑپنا، پھڑکنا اور آنسو بہانا نصیب فرمائے۔آمین۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں

ہمیشہ آنکھوں کے پانی سے ایمان کے کھیت کو سینچو، تاکہ اس پانی کی وجہ سے یہ باغ ہرابھرا رہے، اے اللہ پاک! ہم سب کو اپنے خوف سے معمور دل، رونے والی آنکھیں اور لرزنے والا بدن عطا فرما۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


خود کو راہِ راست پر لانے کے لئے اپنے اندر گناہوں کا احساس پیدا کرنا اور ان کے دنیوی و اُخروی نقصانات پر غور کرنا بہت ضروری ہے،  کیونکہ جب کسی انسان میں احساسِ گناہ پیدا ہوتا ہے اور وہ گناہ کو گناہ سمجھنے لگتا ہے تو یقیناً ندامت و پشیمانی سے اس کا سر جھک جاتا ہے، دل توبہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کے دھارے بہنے لگتے ہیں، جب کوئی گناہ گار اللہ پاک سے معافی مانگتا ہے تو وہ کریم ربّ اس کا بڑے سے بڑے سے بڑا گناہ بھی بخش دیتا ہے۔ اپنے معمولاتِ زندگی کا محاسبہ کرنے کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ انسان کے دل میں خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نیکیوں میں رغبت پیدا ہوتی ہے اور گناہوں سے وحشت محسوس ہوتی ہے۔قرآن عظیم میں وارد خوفِ خدا کے فضائل:1۔سورۂ رحمٰن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے، اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن:46)2۔ربِّ کریم کا خوف ذریعہ نجات ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا، ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا، جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ 28، الطلاق:2،3)3۔اپنے پروردگار کا خوف جہنم سے چھٹکارے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا، جو سب سے زیادہ پرہیزگار۔(پ30، اللیل:17)4۔خوفِ الٰہی اعمال کی قبولیت کا ایک سبب ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے، ترجمہ ٔ کنزالایمان:اللہ اسی سے قبول کرتا ہے، جسے ڈر ہے۔(پ 6، المائدہ:27)5۔اپنے ربّ کریم سے ڈرنے والے سعادت مند اس کی بارگاہ میں مقرب قرار پاتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، ترجمۂ کنزالایمان:بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26، الحجرات:13)احادیث مبارکہ میں وارد ہونے والے خوفِ خدا کے فضائل:1۔اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مؤمن کا دل اللہ پاک کے خوف سے لرزتا ہے تو اس کی خطائیں اس طرح جھڑتی ہیں، جیسے درخت سے اس کے پتے جھڑ تے ہیں۔(شعب الایمان، ج1،ص491، حدیث:803)2۔جنتی صحابی حضرت انس رضی اللہُ عنہُ سے مروی ہے: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا: اسے آگ سے نکالو، جس نے مجھے کبھی یاد کیا ہو یا کسی مقام میرا خوف کیا ہو۔(شعب الایمان، ج1،ص470، حدیث:740)3۔سرورِعالم، شفیع المعظم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں، اگرچہ مکھی کے پَر کے برابر ہوں، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کا ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان، ج1،ص490، حدیث:806)4۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کواس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جو(آنکھ سے) اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 60، خوف خدا، ص138)5۔جنتی ابنِ جنتی، صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔(شعب الایمان، ج1،ص478، حدیث:796، خوف خدا، ص138)


ایمان کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا خوفِ خدا بھی ہے،  یقیناً فکرِ آخرت میں رہنا، عذابِ جہنم سے اشکبار رہنا اور خوفِ خدا میں ڈوبے رہنا بہت بڑی نعمت ہے، آج دنیا کے لئے رونے والے تو ہیں، لیکن فکرِ آخرت و خوفِ خدا میں رونے کا جذبہ کم ہے، غور کریں تو اس دنیا کی حیثیت ہے ہی کیا، جو اس کے لئے آنسو بہائے جائیں، جبکہ خوفِ خدا میں رونے کے بہت سے فوائد ہیں، جس کی برکتیں دنیا میں بھی ملیں گے اور آخرت میں بھی نجات کا سبب بنیں گے۔یاد رکھئے! خوف خدا میں بہنے والے آنسو نکلتے تو باہر کو ہیں، لیکن انسان کے اندر کو صاف کر جاتے ہیں، یہ آنسو بہتے ظاہر پر ہیں، لیکن صفائی انسان کے باطن کی کرتے ہیں، خوف خدا میں رونے کے چند فضائل درج ذیل ہیں:آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوں گی، مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی، ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوف خدا سے روئی ہو گی۔(کنز العمال، کتاب المواعظ8/356، حدیث: 43350)خوف خدا میں رونے والے آنسو قلبی سکون فراہم کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو قبر کی تنگی اور وحشت کو دور کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو قبر کو گلِ گلزار بنا سکتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو کل ہونے والی ندامت سے بچا سکتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو بظاہر بےکسی کا اظہار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت عزتوں اور عظمتوں کو پانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو گناہوں کے بوجھ سے نجات دیتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو دل کی نرمی کا باعث بنتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو قلبی سکون فراہم کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو دل کی قساوت (سختی) کو دور کرتے ہیں، خوف خدا میں بہنے والے آنسو پُل صراط پر آسانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ان سب سے خوف خدا میں رونے کی اہمیت معلوم ہوئی، اللہ پاک خوف خدا میں رونا ہمیں بھی نصیب کرے۔آمین


خوف خدا کی تعریف: خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقعات کے سبب پیدا ہو، خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔(خوف خدا، ص14)ربّ کریم نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(پ 22، الاحزاب: 70) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اس صفتِ عظیمہ کو اپنانے کی تاکید فرمائی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: حکمت کی اَصل ربّ کریم کا خوف ہے۔(خوف خدا، ص16)خوفِ خدا میں رونے والوں کے فضائل: حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر بھی وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے تک پہنچے، اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:خوفِ خدا سے رونا، آنسو بہانا مجھے اس سے بھی زیادہ محبوب ہے کہ میں اپنے وزن کے مطابق صدقہ کروں، اس لئے کہ جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس کو نہ چھوئے گی۔(خوف خدا، ص141)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے ایک آنسو کا بہنا، میرے نزدیک ایک ہزار سے صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔( خوف خدا ، ص 142)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہو گا، حتی کہ دودھ(جانور کے) تھن میں واپس آجائے۔(خوف خدا، ص137)رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔(خوف خدا، ص 137) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی پسند نہیں، جو(آنکھ سے) اس کے خوف سے بہے یاخون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایاجاتا ہے۔(خوف خدا، ص138) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ،جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:اَفَمَنْ ھٰذَاحدیث: تَعْجَبُوْنَ، وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: تو کیا اس بات سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔(پ27، النجم: 59، 60)تو اصحابِ صفہ رضی اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں روتا دیکھ کر آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، آپ کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہ ہو گا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(خوف خدا، ص 139)حضرت ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائیں گی، اس چہرے پر قیامت کے دن غبار اور ذلت نہیں چڑھے گی، اگر اس کے آنسو جاری ہو جائیں تو اللہ پاک ان آنسوؤں کے پہلے قطرے کے ساتھ آگ کے کئی سمندر بجھا دیتا ہے اور جس اُمّت میں سے کوئی شخص (خوفِ خدا سے) روتا ہے،اس امت کو عذاب نہیں ہوتا۔(خوف خدا، ص141) اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے دل سے دنیا کا خوف نکال کر ہمیں اپنے خوف سے رونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یاالٰہی


اللہ پاک کی خفیہ تدبیر، اس کے احکامات کی خلاف ورزی کرنا اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہنا خوف خدا ہے اور خوف خدا سے بہنے والے آنسو دل کی سختی کو دور کرتے ہیں، جبکہ دل کی نرمی کا باعث بنتے ہیں، پُل صراط پر آسانی کا باعث بن سکتے ہیں، بظاہر یہ آنسو یہ بے کسی کا اظہار ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت عزت اور عظمت کو پانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔منقول ہے: حضرت داؤد علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے اللہ پاک! جو تیرے خوف سے روئے، یہاں تک کہ آنسو اس کے چہرے پر بہہ جائیں تو تُو اسے کیا اجر عطا فرمائے گا؟ارشاد فرمایا:میں اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھوں گا اور اسے گھبراہٹ والے دن(یعنی قیامت) سے امن عطا فرماؤں گا۔(شرح بخاری لابن بطال، 8/426)اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْكُوْنَ وَ یَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًا۩۔ترجمۂ کنزالایمان:اور ٹھوڑی کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے۔(پارہ 15، بنی اسرائیل:109)مذکورہ آیات مبارکہ میں خوف خدا سے رونے کی فضیلت کو بیان فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کے وقت رونا مستحب ہے۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک یہ قرآن حُزن کے ساتھ اُترا ہے، اس لئے جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بناؤ۔(ابن ماجہ، 2/129، حدیث: 1337) اگر یہ رونا اللہ پاک کے خوف سے ہو تو اس کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ترمذی اور نسائی کی حدیث: میں ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں نہ جائے گا، جو خوفِ خدا سے روئے۔(ترمذی،3/236، حدیث: 1639، نسائی،ص505، حدیث: 3105)خوف خدا سے رونے کے فضائل:خدا کے خوف سے بہائے جانے والے آنسو بندے کو گناہ کے کاموں سے روکتے ہیں، جب کہ نیک کاموں کی طرف متوجّہ کرتے ہیں، چنانچہ حدیث: شریف میں فرمایا گیا ہے: قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوں گی، مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی، ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوف خدا سے روئی ہوگی۔(کنز العمال، کتاب المواعظ8/356، حدیث:4335)حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے والد گرامی حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوزخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے، جسے وہی طے کرسکتا ہے جو بہت رونے والا ہو۔(شعب الایمان، 1/493، حدیث: 809)آخرت کی خوشی:حضرت عامر بن قیس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: آخرت میں سب سے زیادہ خوش وہ شخص ہوگا، جو دنیا میں(آخرت کے بارے میں) سب سے زیادہ متفکر رہنے والا ہو اور آخرت میں سب سے زیادہ ہنسنا اسی کو نصیب ہوگا، جو دنیا میں(خوف خدا پاک سے) سب سے زیادہ رونے والا ہوں اور بروزِ قیامت سب سے ستھرا سامان اسی کا ہو گا، جو دنیا میں زیادہ غور و فکر کرنے والا ہے۔(تنبیہ الغافلین،ص 308)رونے کے طبی فوائد:رونے کے طبی فوائد میں سے چند ایک یہ ہیں:٭آنسو انسانی جسم میں موجود کولیسٹرول لیول کو کم کرتے ہیں٭آنسو کو روکنے سے آنکھوں میں ڈی ہائیڈریشن ہوجاتی ہے، جس سے بینائی کمزور ہوتی ہے۔


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت ذمہ داراسلامی بھائیوں نے لاہور ریجن کے علاقے سمن آباد زون کا دورہ کیا جس دوران لاہور ریجن کے ذمہ دار ساجد عطاری نے دیگر اسلامی بھائیوں کے ہمراہ مختلف شخصیات سے ملاقات کی جن میں بلڈنگ انسپکٹر سمن آباد عمران ارشاد، بلڈنگ انسپکٹر فیروزوالہ محمد عرفان، بلڈنگ انسپکٹر سروےسمن آباد عبداللہ خان، انفورسمنٹ انسپکٹر سمن آباد طارق، بلڈنگ انسپکٹر عبدرحمٰن، وحید خان،عابد ،عطاءاللہ اورموسٰی رندھاوا شامل تھے۔

ذمہ داران نے انہیں دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف پیش کرتے ہوئے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور کا وزٹ کرنے اور دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع ومدنی مذاکرے میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی  کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے دعوت قبول کی۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

خوفِ خدا کا ہونا اور خوفِ خدا میں رونا،  یہ دونوں اللہ پاک کی بہت بڑی نعمتیں ہیں، جب تک یہ عظیم نعمت حاصل نہ ہو، گناہوں سے فرار نہیں حاصل ہوتا اور نہ ہی نیکیوں سے پیار ہوتا ہے، لیکن جب یہ عظیم دولت نصیب ہو جائے تو نیکیاں کرنا اور گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ خوف خدا کسی کہتے ہیں؟مطلقاً خوف سے مردا وہ قلبی کیفیت ہے، جو کسی نا پسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، جبکہ خوف خداکامطلب اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔(خوف خدا، ص 14) اور رونے کو عربی میں بکاء کہتے ہیں، رونا کئی طرح کا ہوتا ہے۔چنانچہ انسان فطری طور پر اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے، جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔سورۃ الرحمٰن میں ربِّ کریم فرماتا ہے:وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہَ جَنَّتٰنِ۔ ترجمہ:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27:242) ایک مقام پر یوں فرمایا:اِنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ:اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے۔(پ194:2) مزید یہ فرمایا:وَاللہُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ:اور اللہ ڈر والوں کا دوست ہے۔(پ25،الجاثیہ: 19) پتا چلا کہ خوفِ خدا کی کس قدر اہمیت وفضیلت ہے۔ فضائل پر مشتمل احادیث :نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مؤمن کی آنکھ سے اللہ کے خوف سے آنسو نکلتا ہے، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہو، پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصّے تک پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔ (کنز العمال ،ج 3،ص 73) حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے، عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نجات کیا ہے؟فرمایا اپنی زبان پر قابو رکھو ،تمھارا گھر تمھیں کفایت کرے (یعنی بلا ضرورت باہر نہ جاؤ) اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیا آپ کی امت میں کوئی بلا حساب بھی جنت میں جائے گا؟ فرمایا:ہاں! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے روئے۔ (احیاء العلوم، ج 4، ص 600) لہٰذا معلوم ہوا!خوف خدا کے سبب رونے والے کے لئے کس قدر فوائد ہیں، کہیں اس کے لئے دو جنتوں کی بشارت ہے تو کہیں ربِّ کریم کی ولایت کی، تو کہیں بخشش کی اور کہیں بلاحساب بخشش کی۔

میرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یاخدا یا الٰہی

خوف خدا میں رونے کی ایک فضلیت یہ بھی ہے کہ یہ سنتِ انبیا کرام ہے، کیونکہ انبیائے کرام ربِّ کریم کے چنے ہوئے بندے ہوکر بھی اس کے خوف سے خوب گریہ و زاری کرنے تھے، چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہُ سے روایت ہے: حضرت ابرہیم علیہ السلام خوف خدا کے سبب اس قدر گریہ و زاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے ان کے سینے میں ہونے والی گڑ گڑاہت کی آواز سنائی دیتی۔(خوف خدا،ص 45) ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے ربّ کی بر گزیدہ ہستیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ربّ کے خوف سے خود کو ڈرائیں اور اس کی بارگاہ میں خوب گریہ وزاری کریں۔


کچھ وقت تنہائی میں گزارنا تا کہ گناہوں پر احساس شرمندگی ہو اور وہ اخلاص کے ساتھ رب کریم کی بارگاہ میں گریہ و زاری کر سکے مستحب ہے،بارگاہ الٰہی میں اپنی بخشش کے لئے خوب گڑگڑائے کیونکہ مضطر کی دعا قبول ہوتی ہے،اپنی ذات کے لیے غفلتوں میں سارا وقت وقت صرف نہ کرے جس طرح جانوروں کی حالت ہوتی ہے جو کہ قیامت اور ساری مخلوق کے سامنے حساب و کتاب جیسی ہولناکیوں سے محفوظ ہوتے ہیں لہٰذا جب اس کے ساتھ حساب و کتاب جیسی چیز پیش آنی ہے اور وہ ان ہولناکیوں سے محفوظ نہیں تو اسے چاہیے کہ تنہائی میں خوب روئے اور دنیاوی زندگی کو قید خانے محسوس کرے کیونکہ اس میں گناہ سرزد ہوتے ہیں اس بارے میں کچھ فرآمین مصطفیٰ : جس مومن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو نکلتے ہیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں پھر وہ آنسو اس کے چہرے کے ظاہری حصے کو پہنچیں تو اللہ پاک اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے.(شعب الایمان، ، 1/491، حدیث:802)وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(شعب الایمان، ، 1/491، حدیث:798) امیر المومنین حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی کو خوف خدا سے رونا آئے تو وہ آنسوؤں کو کپڑے سے صاف نہ کرے بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت میں ربِّ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔(شعب الایمان، پاک، 1/493، حدیث:808)حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جائے تو آگ اس (رونے والے) کو نہ چھوئے گی۔(درۃ الناصحین، ص253)حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، پاک، 1/502، حدیث:842) اللہ پاک ہمیں بھی اپنے خوف میں رونا نصیب فرمائے ۔آمین

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکر ِمحبت عام ہے لیکن سوز ِمحبت عام نہیں


دعوتِ اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے تحت 16دسمبر 2021ء بروز جمعرات ننکانہ میں  ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا جس میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

اسی سلسلے میں شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران نے چیئرمین مونسپل کمیٹی چودھری نعیم اور سابق ایم پی اے مسلم لیگ ن ملک ذولقرنین ڈوگر کو اس اجتماعِ پاک میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اظہارِ مسرت کیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

       دعوت اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں جنوبی کوریا کے شہر انچن میں بذریعہ اسکائپ ون ڈے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں 11 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

فاریسٹ ریجن نگران اسلامی بہن نے”اندھیری قبر “کے بارے میں بیان کیااور سیشن میں شریک اسلامی بہنوں کو قبر اپنے اندر دفن ہونے والوں سے کیا کہتی ہے اور قبر کے متعلق خوف خدا کے بارے میں بھی بتایا نیز یہ بھی بتایا کہ کون سی چار چیزوں کو اپنانا چاہیے اور کون سی چار چیزوں سے بچنا چاہیئے۔ آخر میں پانی میں اسراف سے بچنے کے آداب اور مدنی پھول بیان کئے گئے۔