دنیا بظاہر بڑا
پُر رونق مقام ہے، لیکن اس کا عیب یہ ہے کہ یہاں کی ہر چیز کی کوئی نہ کوئی اِنتہا
ہے۔عنقریب ایک دن ایسا آئے گا کہ جب دنیا کی تمام رنگینیاں ختم ہو جائیں گی،دنیا
کی خوبصورتی پر زوال آجائے گا،دنیا اُجڑے ہوئے چمن کی طرح ویران ہوجائے گی،بڑے بڑے
پہاڑ بکھر جائیں گے اور دُھنی ہوئی روئی کی طرح پرواز کرتے ہوں گے،عالیشان محلات
ٹوٹ پھوٹ جائیں گے،چمکتے ہوئے ستارے اپنی جگہ چھوڑ دیں گے،سورج اور چاند کی روشنی
مدھم پڑجائے گی، زمین، چاند اور سورج گُل
ہونے کی وجہ سے تاریک ہوچکی ہوگی،سمندر سُلگائے جائیں گے،زمین ایسے تَھرتَھرائے گی
کہ کبھی نہ تَھرتَھرائی ہو گی، زمین اپنا بوجھ باہر پھینک دے گی، آسمان پھٹ کر بہہ
جائے گا، ایک عجیب سماں ہوگا،حال یہ ہو گا کہ دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے
کو بھول جائے گی،ایسی تباہی مچے گی کہ اَلْاَمَان وَالْخَفِیْظ،اسی کو قیامت کا دن کہتے ہیں، اسی کو حسرت و پشیمانی کا دن کہتے ہیں،اسی کو
حساب کتاب اور سوال جواب کا دن کہتے ہیں،اسی کو زلزلے اور تباہی کا دن کہتے ہیں، اسی کو واقع ہونے اور دل دہلا
دینے کا دن کہتے ہیں۔قیامت پر ایمان رکھنا
بہت ضروری ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کوئی
مسلمان نہیں ہو سکتا، قیامت کب آئے گی؟ اس
کا حقیقی علم تو اللہ پاک اور اس کی عطا سے اس کے حبیب، طبیبوں کے طبیب
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ہے۔(کتاب اسلامی بیانات، صفحہ 155،156)احادیثِ مبارکہ میں قیامت قائم ہونے کی کئی علامات بیان فرمائی گئی ہیں۔حدیثِ
مبارکہ میں غیب جاننے والے آقا، مدینے والے مصطفٰی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت کی دو نشانیاں بیان
فرمائی ہیں:1۔ایک یہ کہ لونڈی اپنے مالک کو جنم دے گی۔ 2۔دوسری یہ کہ ننگے پاؤں
برہنہ جسم والے، مفلس اور بکریاں چرانے والے بلندوبالا گھروں کی تعمیرات میں ایک
دوسرے پر فخر کرتے ہوں گے۔( اسلامی
بیانات،ص 162)ان علامات کے علاوہ بھی احادیثِ طیبہ میں قیامت کی کئی اور
علامتیں بیان ہوئی ہیں: 1:تین خسف ہوں گے، یعنی آدمی زمین میں دھنس جائیں گے، ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا جزیرۂ عرب میں۔ 2:علم اُٹھ جائے
گا، یعنی علما اٹھا لئے جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ علما تو باقی رہیں اور ان کے
دلوں سے علم محو کردیا جائے۔ 3: مرد کم ہوں گے اور عورتیں زیادہ، یہاں تک کہ ایک
مرد کی سر پرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی۔ 4: زنا کی زیادتی ہوگی اور اس بے حیائی
کے ساتھ زنا ہوگا، جیسے گدھے جُفتی کھاتے
ہیں، بڑے چھوٹے کسی کا لحاظ نہ ہو گا۔5:
دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہو گا، جیسے
مُٹھی میں انگارا لینا،یہاں تک آدمی قبرستان میں جاکر تمنا کرے گا: کاش! میں اس
قبر میں ہوتا۔(بہار شریعت ،ص، 116۔118)
حضرت حنظلہ رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں:ہم نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر
تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں نصیحتیں ارشاد فرمائیں، جن کو سن کر ہمارے دل نرم
ہو گئے، ہماری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے
اورہم نے اپنے آپ کو پہچان لیا،پھر جب میں اپنے گھر واپس پہنچااور میری بیوی میرے قریب آئی تو ہمارے درمیان
دنیاوی گفتگو ہونے لگی، اس کا نتیجہ یہ
ہوا کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں میرے دل پر جو کیفیت طاری ہوئی تھی،تبدیل ہو
گئی اور ہم دنیا کے کاموں میں مشغول ہو گئے، پھر جب مجھے وہ بات یاد آئی تو میں نے دل ہی دل میں کہا:میں تو منافق ہو
گیا ہوں،کیونکہ جو خوف اور رقّت مجھے پہلے حاصل تھی،وہ تبدیل ہو گئی۔چنانچہ وہ
گھبرا کر باہر نکلا اور پکار کر کہنے لگا:حنظلہ منافق ہو گیا،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ میرے
سامنے تشریف لے آئے اور فرمایا:ہرگز نہیں! حنظلہ منافق نہیں ہوا۔ بالآخر میں یہی
بات کہتے کہتے سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ گیا تو نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں!
حنظلہ منافق نہیں ہوا۔ تو میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !جب ہم آپ کی خدمت اقدس میں
حاضر تھے تو آپ نے ہمیں وعظ فرمایا،جس کو سن کر ہمارے دل دہل گئے اور آنکھوں سے
آنسو جاری ہو گئے اور ہم نے اپنے آپ کو پہچان لیا، اس کے بعد میں اپنے گھر والوں کی طرف پلٹا اور
ہم دنیاوی باتوں میں مشغول ہو گئے، جس کے
سبب آپ کی بارگاہ میں پیدا ہونے والا سوزوگداز رُخصت ہو گیا، یہ سن کر نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اے حنظلہ! اگر تم
ہمیشہ اسی حالت میں رہتے تو فرشتے راستے اور تمہارے بستر پر تم سے مصافحہ
کرتے، لیکن یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔