بڑھتی ہوئی
طلاقوں کی وجوہات از بنت محمد وسیم ظفر، جامعۃ المدینہ صدر راولپنڈی
نکاح کے ذریعے
مردو عورت رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ یہ رشتہ ان دونوں کے ما بین ایک پختہ
عہد ہوتاہے۔ مرد یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ
دار ہو گا اور اس کے تمام حقوق کی پاسداری کرے گا۔ عورت یہ عہد کرتی ہے کہ وہ اپنے
خاوند کی فرمانبرداری کرے گی، اس کی خدمت کرکے اسے سکون پہنچائے گی اور اس کے گھر
اور ان کے ہاں ہونے والی اولاد کی پرورش کرے گی۔ لیکن ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے
ہیں کہ بعض لوگ اس عظیم رشتہ کو باوجود اس کے عظیم فوائد کے اسے قائم رکھنے میں
کامیاب نہیں ہوتے اور طلاق کے واقعات ہیں کہ رفتہ رفتہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بسا
اوقات معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے اور ہنستا بستا گھر برباد
ہو جاتا ہے۔
ویسے تو طلاق
کے اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن ہم یہاں چند اہم اسباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور نیت
کرتی ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے معاملات میں ان اسباب سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں
گی:
1۔
شکوک وشبہات اور بد گمانیاں: شکوک وشبہات اور بد گمانیوں کی بناء پر
زوجین کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی
ہے۔ اور بعض لوگ تو بے انتہاء شک و شبہ اور بد گمانی میں مبتلا رہتے ہیں۔اور بے
بنیاد اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی بد گمانی کر لیتے ہیں۔ اور بغیر کسی ثبوت یا
دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرکے زوجین اپنے تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں۔
پھر اتنی بد اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد طلاق دینے کا پختہ عزم کر لیتا ہے یا
بیوی اپنے خاوند سے بار بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔
2۔
عورت کی زبان درازی: بعض خواتین نہایت بد زبان ہوتی ہیں حتی کہ اپنے
شوہروں کا بھی احترام نہیں کرتیں۔ ان سے بد کلامی کرتی ہیں۔ انہیں برا بھلا کہتی
ہیں اور بے عزت تک کرتی ہیں ! ان میں سے بعض کو جب ان کے خاوند دھمکی دیتے ہیں کہ
تم باز آجاؤ ورنہ طلاق دے دونگا۔ تو وہ جوابا کہتی ہیں: طلاق دینی ہے تو دے دو یا
چیلنج کرتی ہیں کہ تم طلاق دے کر دکھاؤ ! چنانچہ مرد طیش میں آجاتے ہیں اور طلاق
دے دیتے ہیں۔
3۔
خاوند کی نافرمانی: بعض بیویاں اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں۔ وہ ان
کی کوئی پروا نہیں کرتیں۔ ہر کام میں من مانی کرتی ہیں اور ان کے شوہر انہیں جس
بات کا حکم دیں یا کسی کام سے منع کریں تو وہ اس کے الٹ ہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ
وہ اپنے خاوندوں کی شکر گذار بھی نہیں ہوتیں۔ ایسی عورتوں کا یہ طرز عمل ان کیلئے
تباہ کن ہوتا ہے اور ان کے شوہر آخر کار انہیں طلاق دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
4۔
خود مختار زندگی گزارنے کی خواہش: طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک اور اہم
وجہ خود مختار زندگی گزارنے کی خواہش ہے۔ آج کی خواتین نہ صرف اپنے تعلیمی اور
پیشہ ورانہ سفر میں آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی
خواہش بھی رکھتی ہیں۔ یہ خواہش انہیں ایک ایسے رشتے میں رہنے سے روکتی ہے جہاں
انہیں محدود کیا جائے یا ان کی آزادی پر پابندی لگائی جائے۔ خود مختاری کی یہ
خواہش اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین اب اپنی صلاحیتوں اور خود اعتمادی پر یقین
رکھتی ہیں۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف گھر کی چار دیواری میں
محدود رہنا نہیں بلکہ اپنی قابلیت کے ذریعے اپنی پہچان بنانا اور سماج میں اپنا
کردار ادا کرنا ہے۔ تاہم، یہ خواہش بعض اوقات ازدواجی رشتے میں چیلنج پیدا کرتی
ہے، خاص طور پر جب شوہر یا سسرال کے لوگ اس آزادی کو قبول نہیں کرتے یا اسے رشتے
کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
5۔
عدم برداشت: ہمیں
لاحق ہو چکا ہے زندگی میں کوئی ایسا پہلو نہیں جہاں ہماری برداشت کی حد ختم نہ
ہوچکی ہو میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں برداشت کے عنصر کا ہر وقت موجود ہونا لازم
وملزوم ہےاگر میاں بیوی ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کریں گے لچک کا مظاہرہ
نہیں کریں گے تو رشتے کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔
6۔
ذہنی ہم آہنگی کا فقدان: تمام والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ
اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیٹے یا بیٹی کے جیون ساتھی میں لازمی طور پر وہ اخلاقی
اقدار موجود ہوں جن اخلاقی اقدار کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے رشتے
طے کرتے ہوئے جب مطابقت اور ہم آہنگی کو ہی پس پشت ڈال دیا جائے تو نتیجہ پھر طلاق
کی صورت میں نکلتا ہے۔
7۔
بے میل خاندان میں رشتہ جوڑنا: اکثر خاندان اپنے سے اونچے یا بہت نیچے
خاندانوں سے رشتے جوڑ لیتے ہیں جن کے رہن سہن طور طریقوں اور زندگی گزارنے کے سٹائل
میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور پھر انہی مس میچ رشتوں کے بیچ پڑنے والی دراڑیں
طلاقوں تک پہنچ جاتی ہیں لہٰذا لومیرج ہویا ارینجڈ میرج کسی بھی صورت میں مناسب
خاندانوں کا انتخاب سب سے زیادہ ضروری ہے اپنے بچوں کی زندگی خراب کرنے سے بہتر ہے
کہ رشتہ ہی مناسب جگہ پر کر لیا۔
یہ چند اسباب
طلاق بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اللہ پاک ہمیں ان اسباب سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین