بڑھتی
ہوئی طلاقوں کی وجوہات از بنت محمد اشرف، جامعۃ المدینہ کنگ سہالی گجرات
کسی بھی
معاشرے کا خاندانی نظام ہی اس کی بنیادی اکائی ہو ا کرتا ہے۔ خاندانی نظام کی
مضبوطی ہی معاشرے کی کامیابی کی ضامن ہے مضبوط خاندانی نظام ہی بچوں کی نشونما
پرورش اور تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے طلاق صرف دو افراد کے درمیان
علیحدگی کا ہی نام نہیں بلکہ یہ اس گھرانے کی آنے والی نسلوں پر بری طرح اثر انداز
ہوتی ہے۔چند ایک ایسی وجوہات ہیں جو طلاق کا باعث بنتی ہیں درج ذیل ہیں:
شک
و شبہات اور بدگمانیاں: شک و شبہات اور بدگمانیاں یہ طلاق کی سب سے بڑی
وجوہات میں سے ہیں اس کی وجہ سے زوجین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بغیر کسی ثبوت یا
دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں پھر بد
اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو طلاق کا باعث بنتی ہے۔
عدم
برداشت: میاں
بیوی میں برداشت کا ہر وقت موجود ہونا ضروری ہے ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں
کریں گے تو رشتے کبھی قائم نہیں رہ سکتے اج اسی برداشت کی کمی کی وجہ سے اور اپنی
خواہشات کو دوسروں سے مقدم رکھنے کی وجہ سے طلاقوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔
اسلام
سے دوری: طلاق
کی ایک بڑی وجہ دین اسلام سے دوری بھی ہے دین اسلام میں شادی کی اہمیت اور زوجین
کے درمیان باہمی حسن سلوک پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور میاں بیوی کے حقوق کی
ادائیگی کا خیال رکھا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے اپنے قول و فعل کے ذریعے زوجین کے
حقوق بیان کیے ہیں اگر دینِ اسلام کو صحیح معنی میں اپنایا جائے تو طلاق میں کمی
ہو سکتی ہے۔
موبائل فون
اور انٹرنیٹ کا استعمال: آج کے دور میں موبائل اور انٹرنیٹ کا ضرورت سے زیادہ
استعمال طلاق کی وجہ بنتا ہے لڑکیاں اپنے سسرال میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں
اپنے میکے میں بتاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی مائیں بہنیں غیر ضروری مشورے اور
ہدایات دیتی ہیں اس سے شوہر کے خاندان سے غلط فہمیاں اور تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے
اور میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہیں۔
انا
پرستی اور دکھاوا: انا پرستی اور دکھاوا ہمارے معاشرے میں اس قدر بڑھ
گیا ہے کہ دکھاوے کی وجہ سے اکثر بیویاں شوہروں سے بےجا الجھتی ہیں اور لڑائی
جھگڑوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
دینی
تعلیم کی کمی: آج
کل دینی تعلیم کی طرف لوگوں کا دھیان کم ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل شادی اور طلاق
جیسی نازک چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے اور طلاق کو مذاق سمجھتے ہیں۔دینی تعلیم کے
ذریعے لوگوں میں شعور پیدا ہوتا ہے اور اسلام میں میاں بیوی کے حقوق کی اہمیت واضح
ہوتی ہے اور ان پر عمل کرنے کی بھی کوشش ہوتی ہے اور بزرگان دین کی زندگیوں سے سبق
حاصل کرنے اور ان پر عمل کرنے کا ذہن بھی بنتا ہے۔
خاوند
کی نافرمانی: بعض
بیویاں اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں اور اپنے شوہر کی شکر گزار نہیں ہوتی ایسی
عورتیں بےجا خواہشات کے لیے اپنے شوہروں سے لڑائی جھگڑا کرتی ہیں۔ جس سے شوہر تنگ آتے
ہیں اور طلاق کی نوبت آتی ہے۔
والدین
کی ذمہ داری: تمام
والدین کی ذمہ داری ہے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اپنے بچوں کے جیون ساتھی میں
لازمی طور پر وہ اخلاقی اقدار موجود ہوں جن اخلاقی اقدار کے ساتھ انہوں نے اپنے
بچوں کی پرورش کی ہے۔ رشتے طے کرتے ہوئے مطابقت اور ہم آہنگی کا خیال نہ رکھا جائے
تو پھر نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
غیر
ذمہ دارانہ رویہ: ہمارے
معاشرے میں ایک یہ سوچ بھی کار فرما ہے اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی ذہنی انتشار کا
شکار ہے تو انہیں شادی کا مشورہ دیا جاتا ہے کوئی لڑکا اگر غیر ذمہ دارانہ رویے کا
مظاہرہ کرے تو اس کا علاج بھی شادی میں ڈھونڈا جاتا ہے اور فرض کر لیا جاتا ہے کسی
ذمہ داری پڑنے پر ٹھیک ہو جائے گا لیکن بعض اوقات کچھ ذمہ داریوں سے اکتا کر رشتے
توڑنے پر تل جاتے ہیں اور طلاق کو غیر سنجیدگی سے لیتے ہیں۔