والدین کے لیے وہ دن کتنا سہانا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیتے اور خوشی سے نہال ہوتے ہیں کہ ان کے ناتواں کندھوں سے ایک بھاری ذمے داری کا بوجھ اتر گیا۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن شادی کے کچھ ہی عرصے بعد جب اس جوڑے کی آپس میں نہیں بنتی، روز کے چھوٹے موٹے جھگڑے بڑھ جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک آپہنچتی ہے، تب والدین کو ایسا شدید صدمہ ہوتا ہے جو انہیں اندر سے مکمل طور پر ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

یہ صرف ایک گھر کا نہیں بلکہ دونوں خاندانوں کا چین و سکون چھین لیتا ہے۔ طلاق، گھروں کے گھر اجاڑ دیتی ہے۔ بدنصیبی سے ہمارے سماج میں بھی یہ ایک سنگین صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ اب تو معمولی رنجشوں پر بھی طلاق عام ہے۔ جس میں سر فہرست صبر و برداشت کی کمی ہے۔

آج معاشرے میں طلاق عام ہوتی جارہی ہے اور معمولی باتوں پر گھر اجڑ رہے ہیں۔ آخر طلاقیں کیوں بڑھ رہی ہیں ؟آئیے اسکے بارے میں ملاحظہ فرمائیے:

یہ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بڑھ رہا ہے۔ طلاق کے بڑھنے کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے، جن میں میاں بیوی کے درمیان عدم ہم آہنگی، مالی مسائل، جذباتی ناچاقی، سماجی دباؤ، اور خواتین کی خود مختاری کی بڑھتی ہوئی سوچ شامل ہیں۔

طلاق کی اہم وجوہات اور انکا حل:

1۔ عدم برداشت: آج کے دور میں مرد ہو یا عورت دونوں میں صبر و برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ گھروں میں لڑائی جھگڑے بڑھتے جاتے ہیں۔ زبان درازی عام ہے اور چھوٹی سی بات تو تو میں میں سنگین صورت اختیار کر جاتی ہے۔ مرد غصے میں ایک بات کرتا ہے تو بیوی آگے سے چار سناتی ہے۔ بس پھر یہی سلسلہ چلتا ہوا طلاق تک آ پہنچتا ہے۔ اگر دونوں صبر کا مظاہرہ کریں اور مرد کے ساتھ عورت بھی زبان پر قابو رکھے تو گھر کو نار کے بہ جائے گل زار بنا سکتی ہے۔

2۔ بے اولادی: خود سوچیے کیا اولاد نرینہ کا ہونا نہ ہونا عورت کے اختیار میں ہے؟ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہے بیٹا دیتا ہے یا انہیں (بیٹے اور بیٹیاں) جمع کر کے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کی عطا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اگر نرینہ اولاد کے خواہش مند افراد دوسری شادی کرنا چاہیں تو بیوی جھٹ یہ کہہ کر طلاق کا مطالبہ کردیتی ہے کہ یہاں میں رہوں گی یا وہ رہے گی۔ ایسے عورتوں کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک روایت حضرت ثوبان رضی الله عنہ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ رسول ﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت بھی بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث: 1190)

کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد حضرات دوسری بیوی کی خاطر پہلی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ یہ انتہائی برا عمل ہے کہ وہ ایک کا گھر آباد کرنے کی خاطر دوسری کا گھر برباد کر دیتے ہیں۔ایسے مردوں کو چاہئے کہ وہ الله سے ڈریں کہ اولاد دینا نہ دینایہ الله پاک کے اختیارات میں سے ہے اس میں خود عورت کاکوئی عمل دخل نہیں اور اگر وہ نہیں دے رہا تو اس میں بھی الله کی کوئی حکمت ہی ہے تو مرد کو چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے الله کی ذات پر بھروسہ رکھے کہ الله کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں اور جو چیز تاخیر سے ملے اسکا پھل یقینا میٹھا ہوتا ہے۔لہذا دعا کرتے رہئے اور یقین قائم رکھئے۔

3۔ سسرال کی باتیں میکے میں بتانا: طلاق کی سب سے بڑی وجہ، جو میرے سروے میں نمایاں ہو کر سامنے آئی، وہ نئی نویلی شادی شدہ لڑکیوں کی اپنی ماؤں یا بڑی بہنوں کے ساتھ غیر معمولی موبائل رابطے ہیں۔ یہ لڑکیاں اپنے سسرال میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی بات کو روزانہ تفصیل سے اپنی ماں یا بہن کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ان کی مائیں یا بہنیں نہ صرف ان باتوں کو اپنی رائے یا جذبات کے ساتھ مزید پیچیدہ بناتی ہیں، بلکہ اکثر لڑکی کو مختلف معاملات میں غیر ضروری مشورے اور ہدایات بھی دیتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نئے رشتے میں اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ لڑکی کے شوہر اور اس کے خاندان کے ساتھ تعلقات میں غلط فہمیاں اور تناؤ بھی پیدا کرتا ہے۔ مداخلت کے اس انداز کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان معاملات کو خود حل کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور چھوٹے مسائل وقت کے ساتھ بڑے تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خدارا اپنے سسرالی مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ میکے جاکر ان کا مزید بگاڑ بنائیں ایسے کرنے سے ناصرف سسرال میں آپکی عزت خراب ہوگی بلکہ میکے والوں کے سامنے بھی آپکی حیثیت کم ہوگی۔ آپکے والدین نے کتنی جتنوں اور مسائل کا سامنا کرکے آپکی شادی کی پھر اگر آپ آکر چھوٹی چھوٹی باتیں میکے میں شکایت کریں تو اس سے والدین کا ہی دکھ بڑھے گا کسی کا کیا جانا؟ آپ ہی کے والدین پریشان ہونگے لہذا سمجھ بوجھ سے کام لیں اور ہر حال میں اپنے شوہر اور سسرال والوں کی خدامت گزار بن کررہیں اور اپنے شوہر سے اختلاف پیدا کرنے والے اسباب سے بچیں ان شاء الله الکریم آپ خود اسکے بہترین نتائج دیکھیں گے۔

4۔ بے جوڑ رشتے کرنا: بے جوڑ رشتے بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہیں۔ کئی والدین اپنی اولاد کے لیے بڑے ہی سہانے خواب دیکھتے ہیں جیسے اچھا بنگلہ ہو، عیش و عشرت کی زندگی ہو، لڑکا اچھا کمانے والا ہو اور خود مختار ہو اور بیٹی جب اپنے سے اونچے گھر میں جاتی ہے تو وہاں کے ماحول میں خود کو ڈھال نہیں پاتی یا کبھی کبھار کچھ ایسے مسائل رونما ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ساری زندگی کے لیے طلاق کا دھبا لیے گھر میں آبیٹھتی ہے۔ کئی جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دین دار والدین اپنی بیٹی کو بے دین لڑکے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ لڑکی جب لڑکے کو دین کی طرف مائل کرنا چاہتی ہے تو لڑکا اپنے جواز پیش کرتا ہے اور پھر طلاق تک نوبت چلی جاتی ہے۔والدین سے گزارش ہے کہ خدارا! اپنے بچوں کی زندگی مت خراب کریں، انہیں اس بندھن میں جوڑنے سے پہلے خوب دیکھ بھال کرلیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق رشتے کریں اور اپنے بچوں کی تربیت ایسے خطوط پر کریں کہ وہ دوسرے گھر کو بھی اپنا سمجھیں اور اپنے آپ کو اسی ماحول میں ڈھالیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کو صبر و برداشت کی تلقین کریں۔ تاکہ وہ اپنے گھر کو سنواریں اور اسے برباد ہونے سے بچائیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے معاشرے میں لفظ طلاق کا ذکر بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور لوگ اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ سماجی رویے بدل گئے ہیں، اور اب یہ لفظ نہ صرف عام طور پر بولا جاتا ہے بلکہ طلاق کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آئیے ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔ ایک موقع پر رسول اﷲﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے فرمایا: اے معاذ! روئے زمین پر اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور روئے زمین پر کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ (دار قطنی، 4/40، حدیث: 3939)

مزید ایک مقام پر میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلاوجہ شرعی طلاق دینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند و مبغوض و مکروہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 12/323)

لہذا نوجوان نسل سے بھی گزارش ہے کہ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کریں، اگر دونوں میں کسی ایک سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو معذرت میں پہل کریں۔ غصے کے وقت خاموشی اختیار کریں۔ بحث سے جتنا ممکن ہوسکے بچیں۔ معمولی باتوں پر لڑنے کے بہ جائے درگزر سے کام لیں، تاکہ آپ کا گھر امن کا گہوارہ بن سکے۔

اللہ پاک ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین