طلاق کے لغوی معنی ہیں ترک کر دینا یعنی چھوڑ دینا۔ اس اصطلاح سے ہم سب بخوبی واقف ہیں جس کے ذریعے مرد اپنی بیوی سے نکاح ختم کرتے ہوئے اس سے ازدواجی تعلق ختم کردیتا ہے جبکہ نکاح انسانیت کی بقاء کیلئے ایک مضبوط شرعی معاہدہ سمجھا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں مردوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(۱۹) (پ 4، النساء: 13) ترجمہ: ان عورتوں کے ساتھ اچھی گزر بسر کرو اور اگر وہ تم کو نا پسند ہو تو ممکن ہے کہ تم ایک چیزنا پسند کرو اور خدا اس کے اندر کوئی فائدہ رکھ دے۔

احادیث میں بھی بلا ضرورت طلاق کو نا پسند فرمایا گیا ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ الله کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔ (ابو داود، 2/370، حدیث: 2178) حدیث شریف میں ہے کہ جو عورت سخت مجبوری کے بغیر خود طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔(ترمذی، 2/402، حدیث: 1190)

ہمارے معاشرے میں جس تیزی سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہ خطرناک تو ہے ہی مگر کچھ واقعات اتنی تکلیف دہ ہیں کہ عقل بھی حیران ہے دو افراد کا یہ رشتہ خوف خدا کی بنیاد پر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا ادراک کریں۔

ہمارے معاشرے میں طلاق کی بیشتر و جوہات موجود ہیں جو ہنستے کھیلتے گھروں کو اجاڑنے اور بالخصوص نوجوان جوڑوں کی زندگیاں اجاڑ نے کا سبب بن رہی ہے لہذا ان تمام وجوہات کا تدارک کرنا بے حد ضروری ہے۔

عدم برداشت: ہماری زندگی میں کوئی ایسا پہلو نہیں جس میں برداشت کی حد ختم نہ ہو چکی ہو میاں بیوی کے رشتے میں برداشت کے عنصر کا ہر وقت موجود ہونا لازم و ملزوم ہے آج یہی برداشت کرنے کے مادے میں کمی اور اپنی خواہشات کو مقدم رکھنے کے باعث طلاق میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے گھریلو ناچاقیاں کہاں نہیں ہوتی؟ لیکن جو آزمائش کی اس گھڑی میں صبر کے ساتھ برداشت کر جائےاس کی زندگی سکھی اور جو جذبات میں آکر صبر کا دامن چھوڑ دے اس کی زندگی دکھی ہو جاتی ہے۔

جوائنٹ فیملی سسٹم: طلاق کا ایک بڑا سبب جوائنٹ فیملی سسٹم ہے جوائنٹ فیملی سسٹم میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اورتہمت لگانے کا رحجان بڑھتا جارہا ہے رشتے دار اکثر میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ایک ہی گھرانے میں مقیم زیادہ تر گھرانے آ پس میں الفت واتفاق قائم رکھنے کے بجائے الزام تراشیوں پر زیادہ مصروف رہتے ہیں اور یہی گھر ٹوٹنے کی وجہ بنتی ہے۔

پسند کی شادی: دنیا میں مجموعی طور پر 80 فیصد طلاقوں اور خلع کے کیسز (cases) پسند کی شادی کے ہوتے ہیں لیکن جو نوجوان جوڑے بڑی امیدوں کے ساتھ شادی کرتے ہیں۔ وہ امیدیں چند عرصہ میں کانچ کی طرح ٹوٹ جاتی ہیں، شادی کرنےسے زیادہ مشکل اسے نبھانا ہوتا، پسند کی شادی کے کچھ عرصے بعد ہی دونوں کو احساس ہوتا ہے یہ تو میرا آئیڈیل نہیں تھا اس کا تو کریکٹر ہی خراب ہے تب احساس ہوتا ہے کہ وہ باتیں صرف فون پر ہی اچھی لگتی تھیں اس لیے لو میرج کی بنیاد پر کھڑے نازک رشتے اکثر چل نہیں پاتے جسکا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔

فلموں اور ناولوں کا کردار: اس حقیقت سے سب واقف کہ میڈیا کے تمام ذرائع انسانوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی سوچ بدلنے میں خاص کردار ادا کر رہے ہیں اور میڈیا میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے نوجوان نسل اسے اپنانے کی کوشش ضرور کرتی ہے کہانیوں میں معاشرتی برائیوں اور اچھائیوں کے درمیان تمییز و تفریق کو مٹادیا گیا ہے عشق و محبت کی وہی افسانی باتیں لکھی جاتی ہیں جسے پڑھ کر کوئی بھی توقعات کی گہری وادی میں گر جائے اور حقائق کے برعکس اپنے جیون ساتھی سے امیدیں باندھ لے اور جب وہ خواہشیں پوری نہ ہو تو محبت نفرت میں بدل جاتی ہے جو بالآخر طلاق کا سبب بنتی ہے۔

مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ مزید وجوہات اور ہیں جو طلاق کا سبب بنتی ہیں جیسے میاں بیوی کا ایک دوسرے کے حقوق سے لاعلمی،غصہ،عورتوں کا سسرال کی باتیں میکہ میں جاکر کرنا،آزاد خیالی،عورت کی یہ سوچ کہ شریعت نے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، آ پس میں اتفاق نہ ہونا،ایک دوسرے کو طعنے دینا وغیرہ وغیرہ یہ وہ معاملات ہیں جنہیں ہم ذرا سی برداشت ذرا سے صبر سے حل کر سکتے ہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو طلاق جیسے قبیح فعل سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین