طلاق کا لفظی معنی چھوڑنا ہے طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے۔ طلاق کی وجہ سے نا صرف ایک رشتہ ختم ہوتا ہے بلکہ بچوں کی زندگیوں پر اسکا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور یوں خاندانی دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ طلاق اللہ پاک کو ناپسند ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے۔ (ابو داود، 2/370، حدیث: 2178)

مگر افسوس اسکی شرح میں اضافہ ہی ہوا ہے ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 35 فیصد طلاق میں اضافہ ہوا ہے، آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اپنے خاوند سے بلاضرورت طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث: 1190)

طلاقوں کی چند وجوہات:

1۔ برداشت کا نا ہونا: طلاق ہونے میں ایک بنیادی سبب برادشت کی کمی ہے، جو شوہر بیوی ایک دوسرے کی ناپسندیدہ بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور پھر عدم برداشت کو اپنا معمول بنالیتے ہیں انکے رشتے کیلیے یہ بہت بری چیز ثابت ہوتی ہے۔

2۔ بدگمانی: مرد کا عورت پر اور عورت کا مرد پر شک کرکے بدگمانیوں میں مبتلا ہوجانا کہ یہ کسی اور سے ترکیب میں ہے اور اپنے ذہن میں ہی اس بات کو حقیقت جاننا، چاہے وہ بات سچ میں حقیقت ہو یا نہ ہو۔

3۔ ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا: ذہنی ہم آہنگی ازدواجی رشتے میں بہت ضروری ہے۔ ذہنی ہم آہنگی جب تک میاں بیوی کے درمیان قائم نہ ہو تو یوں ہوتا ہے کہ کہا کچھ جاتا سمجھا کچھ اور جاتا۔

4۔ بے جا خواہشات: بیویاں شوہر کی مالی حالت جاننے کے باوجود جب اس سے غیر ضروری اشیاء کی فرمائش کرتی ہیں اور وہ چاہ کر بھی اسکی خواہش پوری نا کر پائے تو عورت شوہر کو برا بھلا کہتی ہے جس سے رشتے میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

5۔ شوہر کے حکم کی عدم تکمیل: جو بیویاں شوہر کی اہمیت سے بے خبر ہوتی ہیں وہ شوہر کی نافرمان ہو جاتی ہیں اور شوہر کے ضروری حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہیں جسکا نتیجہ ان کو طلاق کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

6۔ ناشکری: کچھ عورتیں اپنے شوہروں کی طرف سے ملی ہوئی آسائشوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے یہ کہتی ہیں: میں نے تمہارے پاس کوئی بھلائی نہیں دیکھی، فلاں کو دیکھو اپنی بیوی کو کیا کیا لے کر دیتا ہے۔ یوں ان کے درمیان لڑائیاں بڑھتی جاتی ہیں۔