میزبان کے پانچ حقوق از بنت الیاس، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ پاک نے سب کے لیے ایک دوسرے کے حقوق بنائے ہیں
اسی طرح مہمانوں کے حقوق بھی بیان کیے ہیں کہ جب کوئی مہمان آپ کے گھر پر آئے تو
اس کی عزت و احترام کریں اور اس کا اکرام کریں اسی طرح مہمانوں کی سنتیں بھی بیان
کی گئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ مہمان کہیں جانا چاہتا ہو اپنے میزبان کو آمد و
رفت اور کھانے کے متعلق بتا کر جائے۔
2۔ مہمان کو چاہیے کہ فرمائش نہ کرے۔
3۔ دسترخوان پر کئی اقسام کے کھانے ہوں تو سب سے
کھائے۔
4۔ کھانے کے وقت ہلکی پھلکی خوشگوار گفتگو کرے۔
صدمے، ناراضگی اور خوف کی باتیں یا پیچیدہ علمی گفتگو نہ کرے۔
5۔ مہمان اتنی دیر تک رہائش نہ کرے کہ میزبان تنگ آجائے۔
مہمان نوازی کے بارے میں احادیث مبارکہ بیان کی گئی
ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:
احادیث مبارکہ:
1۔ جس طرح چھری اونٹ کے کوہان میں تیزی سے آجاتی ہے
اس سے کہیں زیادہ تیزی سے بھلائی اس کے گھر میں آتی ہے جس گھر میں مہمان کثرت سے آتے
ہیں۔(ابن ماجہ،4/51، حدیث:3356)
2۔ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو
تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے مہمان کی خصوصی ضیافت (خاطر مدارات)
ایک دن اور ایک رات تک ہے اور عمومی
ضیافت تین دن اور تین راتوں تک، تین دن بعد بھی اگر میزبان بوجھ نہ سمجھے اور
مہمان کی ضیافت کرے تو یہ صدقہ شمار ہوگا۔ مہمان کو چاہیے کہ وہ اپنے میزبان کے
پاس اتنے دن ٹھہرے کہ میزبان حرج اور تنگی میں پڑ جائے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
3۔ جس کے گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں اللہ اس
گھر سے محبت کرتا ہے۔
4۔ امام
نووی فرماتے ہیں: مہمان نوازی کرنا آداب اسلام اور انبیاء صالحین کی سنت ہے۔
5۔ مہمان اپنا رزق لے کر آتا ہے اور صاحب خانہ کے
گناہ لے کر جاتا ہے۔(کشف الخفاء،2/33، حدیث: 1641)
میزبان کے پانچ حقوق از بنت خوشی محمد، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ جو اللہ پاک اور قیامت پر
ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا احترام کرے۔ اسوہ رسول اللہ ﷺ میں میزبانوں
کو، مہمان نوازی کرنے والے کو اور مہمانوں کی خدمت کرنے والے کو مہمان نوازی کی
طرف توجہ دلائی گئی ہے، اس حدیث مبارکہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں چند باتوں کی طرف
توجہ دلانا چاہتی ہوں:
مہمانوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں پس جہاں
مومن کو یہ حکم ہے کہ مہمان کا خیال
رکھو مہمانوں کو بھی ہدایت دی گئی ہے کہ
تم نے اپنے حقوق کس طرح ادا کرنے ہیں اور
فرائض کس طرح ادا کرنے ہیں کسی کے گھر کب
اور کس طرح جانا ہے اور کیسے واپس آنا ہے اگر مہمان یہ سب باتیں مدنظر رکھے تو معاشرے کے ہر طبقے میں مختلف حالات
میں موجود جو تعلقات ہیں ان کی وجہ سے بےچینیاں نہ ہوں۔
ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے گھروں کے سوااوردوسرےگھروں میں داخل نہ ہوا
کرو یہاں تک کہ اجازت لے لو۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں
آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو یہ صاحب خانہ کے
گناہ بخشوانے کا سبب بنتا ہے۔(کشف الخفاء،2/33، حدیث: 1641)
فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں
برکت اس تیزی سے اترتی ہے جس تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی ہے۔ (ابن
ماجہ،4/51، حدیث:3356) اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فرماتے ہیں: اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی صرف چربی ہی ہوتی ہے اور اس کو
چھری سے بہت جلد کاٹ لیا جاتا ہے اور اس کی تہ تک بھی پہنچ جاتی ہے اس لئے اس سے
مشابہت دی گئی ہے۔(مراۃ المناجیح، 6/67)
محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ و آخرت
کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی تعظیم و خاطرداری کرے۔(بخاری، 4/136،
حدیث: 6135)
مہمان کے
ساتھ احسان و تکلف کا زمانہ ایک دن و رات ہے اور مہمان نوازی کرنے کا زمانہ تین دن
ہیں ان تین دنوں کے بعد جو بھی دیا جائے گا وہ ہدیہ و خیرات ہوگا اور مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ میزبان کے
ہاں تین دن کے بعد تک اس کی استطاعت کے بغیر رکے کہ میزبان تنگ ہو جائے۔ (بخاری، 4/136،
حدیث: 6135)
میزبان کے آداب: کھانا
حاضر کرنے میں جلدے کرے، جب تک مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ
اٹھایا جائے، مہمانوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو اس کے لئے کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف
ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ ہمیں میزبان
کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
میزبان کے پانچ حقوق از بنت طاہر راحیلہ، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
مہمان نواز ہونا ایسے امور میں سے ہے کہ جسے شرع
اور عقل دونوں نے بہترین اور مستحسن امر قرار دیا ہے۔ روایات اسلامی میں مہمان
نوازی کے متعلق اس قدر شدید تاکید وارد ہوئی ہے کہ اگر مومن کی جانب سے آپ کو طعام
کی دعوت دی گئی ہے اور آپ حالت روزه میں ہیں تو اپنے مومن بھائی کا دل رکھنے کے
لیے اپنا مستحب روزه توڑ سکتے ہیں، مہمان نوازی کے متعلق آیت قرآنی ہے، چنانچہ
قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ جَآءَتْ
رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا
لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(۶۹) (پ 12، ہود:
69) ترجمہ: اور البتہ آچکے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر، بولے
سلام، وہ بولا سلام ہے، پھر دیر نہ کی لے آیا ایک بچھڑا تلا ہوا۔
مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:
1۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس
تیزی سے اترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی ہے۔ (ابن ماجہ،4/51،
حدیث:3356) حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اونٹ
کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس
کی تہ تک پہنچ جاتی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت
بہت جلد پہنچتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/67)
2۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق
لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب
ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،2/33، حدیث:1641)
3۔ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی
مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے
گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل
اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو
ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی
ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں جنّۃ الخلد اور
نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (کنز العمال، 5/110، حدیث:25878)
مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں
جو مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان
نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی
شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان
کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد
یہ ہے کہ مثلاً بحیثیت مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا
اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے
میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا
وغیرہ۔
میزبان کے لئے آداب: کھانا
حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں
کیونکہ طبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ موافق ہے۔ مختلف اقسام کے کھانے ہوں
تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے
تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے۔ جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ
روک لے تب تک دسترخوان نہ اٹھایا جائے۔ مہمانوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو
انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروّت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ
رکھنا بناوٹ و دکھلاوا ہے۔
مہمان کیلئے آداب: جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا
جائے اس پر خوش ہو۔ جہاں بٹھایا جائے وہی بیٹھےصاحب خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے
نہ اٹھےجب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دعا کرےوغیرہ۔ بغیر دعوت کے مت جائے۔ بعض
افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی مروت مرء سے ہے یعنی مرد ہونا، یہ چیز
مردانگی کے خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا
گیا اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی
اہتمام کیا گیا ہو۔ کھانے میں شرم نہ کرے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو
جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی تو اپنی ضرورت سے کم
کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار کرنے پر مجبور نہ کریں
بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے تو کھانا کھا لیں۔ ایک اور رسم جو ہمارے یہاں بہت
زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مدعو کردیا تو وہ اپنے ساتھ بچوں کو
بھی ساتھ لے چلتا ہے جبکہ میزبان کی جانب سے فقط ایک فرد کو مدعو کیا گیا تھا، ہم
اگرچہ بچے کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ لے جانا چاہ رہے ہیں لیکن پھر بھی بچہ ایک پورا فرد
ہے اور یہ آداب کے خلاف ہے کہ بغیر دعوت کے ہم بچے کو بھی ساتھ لے جائیں۔
اللہ پاک ہمیں میزبانی اور مہمانی کے آداب کا خیال
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ
النبی الامین ﷺ
میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیت
مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس
کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات
میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ۔
میزبان کے ہاں زیادہ دیر نہ ٹھہرا جائے: نبی
اکرم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی تین دن ہے اس کے بعد صدقہ ہوگا جو مہمان کو دیا
جائے گا، تم میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کے ہاں اتنے دن مہمانی پر مت ٹھہرے کہ اسے
حرج میں ڈال دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)
بغیر دعوت کے مت جائیں: بعض
افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی، مروت مرء سے ہے یعنی مرد ہونا، یہ چیز
مردانگی کے خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا
گیا، اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی
اہتمام کیا گیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے علی! آٹھ افراد ایسے ہیں جن کو اگر
ذلیل و خوار کیا جاتا ہے تو انہیں چاہیے کہ کسی اور کو سرزنش کرنے کی بجائے خود کو
سرزنش کریں: ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی ایسی دعوت پر مہمان بن کر پہنچ جائے جہاں
پر اسے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
عربی زبان میں مہمان کو ضیف کہتے ہیں اور میزبان کو
مضیف، اردو اصطلاح میں میزبان سے مراد وہ شخص ہے جو کسی کی ضیافت کا اہتمام کرے،
مثلا جو مہمان کا خیال رکھے اسے کھانے پینے اور آرام کا سامان مہیا کرے۔ اکثر
اوقات ہم مہمان نوازی کے حقوق کے بارے میں پڑھتے اور سنتے ہیں آئیں آج ہم میزبان
کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ مہمان پر میزبان کے کیا کیا حقوق ہوتے ہیں جس
طرح ماں باپ بہن بھائی استاد شاگرد کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح مہمان اور میزبان کے
حقوق بھی ہوتے ہیں جن میں سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:
(1)اللہ پاک پارہ 26 سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 24
تا 27میں ارشاد فرماتا ہے: هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ
ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَۘ(۲۴) اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا
سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَۚ(۲۵) فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ
فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍۙ(۲۶) فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا
تَاْكُلُوْنَ٘(۲۷)ترجمہ: اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز
مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس کے پاس آ کر بولے سلام کہا سلام نا شناسا لوگ ہیں پھر
اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے ایا پھر اس سے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے
نہیں۔
بعض دفعہ میزبان کے ہاں کھانے کی تیاری نہیں ہوتی
اس لیے مہمان کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے اور میزبان کو شرمندہ نہ کرے مہمان کو
یہ ڈیمانڈ نہیں رکھنی چاہیے کہ میرے ساتھ اعلی قسم کا برتاؤ کیا جائے میزبان کو یہ
اخلاقی اقدار رکھنے چاہیے کہ میں نے کس کس سے کس طرح مہمان نوازی کرنی ہے اور کس
کو کس طرح رخصت کرنا ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کو کھانے کی
دعوت دی جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے چاہے نہ کھائے۔ (مسلم، ص 575،
حدیث: 1430)
3۔ میزبان جہاں بٹھائے وہاں بیٹھ جائیں اس کی اجازت
کے بغیر جگہ نہ بدلے مہمان کو چاہیے میزبان کے گھر جا کر کوئی سوال جواب نہ کرے
بلکہ میزبان کی دلجوئی کرے میزبانی کے حقوق میں سے ہے کہ تین دن سے زیادہ اس کے
پاس نہ رکے اگر کوئی مہمان بنتا بھی ہے تو وہ تین دن کے اندر رخصت ہو جائے جب کسی
کے ہاں جائے تو بالکل دروازے کے سامنے کھڑے نہ ہو بلکہ دائیں یا بائیں کھڑا ہو
میزبان کے لیے سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ مہمان وقت پر نہیں آتے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد: جو شخص اللہ اور آخرت پر
ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ دستور کے مطابق اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے، عرض
کی گئی یا رسول اللہ ﷺ دستور کیا ہے؟ فرمایا: ایک دن اور ایک رات اور ضیافت
(مہمانی) تین دن ہے اور تین دن کے بعد صدقہ ہے۔(مسلم، ص 736، حدیث: 4513)
مسلم کی روایت میں ہے: کسی مسلمان کے لیے یہ حلال
نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہ میں مبتلا کر دے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ وہ اس کو گناہ میں کیسے مبتلا
کرے گا؟ ارشاد فرمایا: وہ اس شخص کے یہاں اتنے وقت تک ٹھہرے کہ اس کے پاس مہمان
نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔ (مسلم، ص 736، حدیث: 4514)
مہمان پر لازم ہے کہ جب میزبان کے گھر جائے تو میزبان کی اچھی بات ہی بیان کرے اگر ان کی
برائی دیکھے تو برائی بیان نہ کرے مہمان اس کے ہاں بنا جائے جہاں یہ معلوم ہو کہ
اس کی کمائی حلال ہے۔
اللہ ہمیں مہمان اور میزبان کے حقوق اخلاص کے ساتھ
ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دین اسلام ہمیں جہاں بہت ساری باتوں کا درس دیتا ہے
وہیں ہمارا پیارا دین میزبان کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔ بلاشبہ کسی کو اپنے گھر
مہمان بلانا یا کسی کی میزبانی کرنا انبیاء اور سلف الصالحين کا طریقہ ہے ۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام کس قدر میزبانی کے عمل کو پسند کر تے کہ آپ کے دسترخوان بر جب
تک کوئی مہمان نہیں آجاتا آپ کھانا نہیں تناول فرماتے تھے۔ اسی طرح ہمارے آقا ﷺ بھی
اکثر اوقات اپنے صحابہ کرام کی دعوت فرماتے اور آپ اکثر دعوت کو قبول بھی کرتے اسی
لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جب کوئی اسلامی بہن اپنے گھر دعوت کی پیشکش کرے تو بلا شرعی
عذر اسے رد نہ کریں بلکہ خوشی خوشی قبول کریں فقیر و غنی کیلئے دعوت قبول کرناسنت
ہے، بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو، دو میل چل کر
جنازہ میں شرکت کرو اور تین میل چل کر دعوت قبول کرو۔ (احیاء العلوم، 2/47)
حضرت ابوہريره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ
روزہ دار ہو تو دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھالے۔ (مسلم، ص 576، حدیث:
3520)
لہٰذا پیارے آقا کی اس حدیث پاک پر عمل کرتے ہوئے جب
بھی ہمیں کوئی اسلامی بہن دعوت دے تو اس
کو قبول کرنا چاہیے۔ یہ نہ سوچیں کہ وہ غریب یا امیر ہے، یاد رہے کہ ہمارے آقا
اکثر غریب صحابہ کی دعوت کو جلد قبول فرماتے اور ویسے بھی اگر ہم کسی ایسی اسلامی
بہن کی دعوت قبول نہیں کرتے جو بیچاری
غریب ہے تو آپ کا اس طرح منع کرنا اسے احساس کمتری کا شکار کر سکتا ہے اور اس کی
دل آزاری بھی ہو سکتی ہے اور کسی مسلمان کی بلا عذر شرعی دل آزادی کرنا سخت گناہ
ہے اور مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک اپنے مسلمان بھائی کی
دعوت کو قبول کرنا بھی ہے، ویسے تو یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر جتنی بات کی جائے کم ہے مگر ہم
اس کو چند الفاظ میں سمیٹنے کی کو شش کرتے ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ہمیں دعوت قبول کرتے وقت
اور دعوت پرجاتے وقت خیال رکھنا چاہیے ہم
یہاں 5 حقوق پر گفتگو کرتے ہیں:
1۔ جب میزبان آپ کو دعوت دے تو قبول کریں اور جو
ٹائم دیا ہے کو شش کر کے اسی وقت پرجانے
کی ترکیب بنا ئیں۔
2۔ کوئی بھی اسلامی بہن بغیر بلائے دعوت میں نہ
جائے اور نہ ہی بلائی ہوئی اسلامی بہن بلا اجازت میزبان اپنے ساتھ کسی اور اسلامی
بہن کو لے کر جائے۔
3۔ میزبان اپنے گھر میں جہاں بٹھادے وہیں بیٹھ جائے
اس کے گھر تاکہ جھانکی کرنے سے بچے اور اس کے گھر کی ترتیب اور اشیاء میں نقص نہ
نکالے۔
4۔ مہمان کھانا کھاتے وقت کسی آجانے والے شخص کو کوئی
آرڈر نہ کرے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ مہمان کھانے کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ
اس طرح کسی کو بھی کھانے کیلئے نہیں کہہ سکتا۔
5۔ میزبان کے بنائے گئے کھانے میں نقص نہ نکالے اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو چپ
رہیں اور کوئی چیز کھالیں اور اسی طرح میزبان
کے گھر سے واپس آ کر اس کی چیزوں، گھرکی ترتیب اور کھانے میں نقص نہ نکالے اس میں غیبت
میں پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے اور اپنی کسی مسلمان بہن کی غیبت کرنا گویا اس کا مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
ان تمام باتوں کا خیال رکھیں اور جب کسی کے ہاں
مہمان جائیں تو موسم کے مطابق کوئی پھل یا کوئی اور چیز لےکر جائیں اس طرح آپ کے میزبان کے دل میں خوشی پیدا ہوگی ور وہ آپ سے خوش ہوگی اور اس کو خوش کرنے کی برکت سے اللہ پاک
آپ کو بھی خوشیاں عطا کرے گا اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے دلوں میں خوشیاں داخل کرنے
کی توفیق عطا کرے اور ہمیں حقوق العباد احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھی توفیق دے۔
آمین بجاہ خاتم النبیین
میزبان کے پانچ حقوق از بنت رفاقت حسین، جامعۃ المدینہ سراجا منیرا گجرات
میزبان سے مراد
مہمان نوازی کرنے والا ، ضیافت کرنے والا ہے۔ احادیث مبارکہ میں مہمان نوازی کے
بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جب کوئی
مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے
تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
جہاں مہمان نوازی کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی وہیں
کچھ میزبان کے حقوق بھی ہیں، چنانچہ مہمان کاحق ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی
دعوت کو قبول کرے، سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: اگر مجھے بکری کے پائے کی
دعوت دی جائے تو بھی میں قبول کروں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2568) اسی طرح احیاء
العلوم میں ہے کہ فقیر وغنی کے لیے دعوت قبول کرنا سنت ہے بعض آسمانی کتابوں میں
مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو،دو میل چل کر جنازہ میں شریک ہو اور
تین میل چل کر دعوت قبول کرو۔(احیاء العلوم، 2/47)
احیاء العلوم میں ہے: اگر نفل روزہ ہو تو افطار کر دے
کیونکہ مسلمان کے دل کو خوش کرنا روزہ رکھنے سے افضل ہے۔ اگر کھانے، جگہ یا بچھونے کے بارے میں شبہ ہو
یا دعوت دینے والا فاسق ہو تو دعوت قبول کرنا منع ہے۔
مہمان کو چاہیے کہ ایسی دعوت میں نہ جائے جہاں اس
کو نہ بلایا گیا ہو کہ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص ایسی دعوت پر گیا جہاں اسے نہیں
بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔ (فردوس الاخبار، 2/287، حدیث:
6117)
مہمان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ میزبان کو آنے سے
پہلے اطلاع کردے مہمان کو چاہیے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذمے داریوں کا لحاظ
رکھے۔
بہار شریعت جلد 3 صفحہ 391 پر ہے: جو شخص اللہ پاک
اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ
ہے ( یعنی آؤ بھگت کرے) اور ضیافت تین دن ہے اور تین دن کے بعد صدقہ ہے مہمان کے
لیے حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے ( یعنی مہمان) کو حرج میں ڈال دے۔ (بخاری،
4/136، حدیث: 6135)
جب آپ کسی کے پاس بطور مہمان جائیں تو مناسب ہے کہ
اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسب حیثیت میزبان یا اس کے بچوں کے لیے تحفہ لیتے جائیں۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کو
چار باتیں ضروری ہیں: جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔ جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا
جائے اس پر خوش ہو یہ نہ کہنے لگے کہ اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اس طرح کے دوسرے الفاظ۔ بغیر اجازت ( میزبان کی اجازت لیے بغیر) وہاں سے نہ
اٹھے۔ جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ (بہار شریعت، 3/349)
خزینہ رحمت میں ہے کہ جب کسی مسلمان بھائی کے گھر
دعوت پر جائے تو کھانے کے بعد اللہ تعالی کی حمد کرے اور پھر اپنے مسلمان بھائی کے
لیے دعا کرے جس کا طریقہ اس دعا میں ہمیں تعلیم فرمایا گیا ہے: اَللّٰهُمَّ
أَطْعِمْ مَّنْ اَطْعَمَنِى وَاسْقِ مَنْ سَقَانِى ترجمہ:
یاالہی اس کو کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اس کو پلا جس نے مجھے پلایا۔
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی مہمان اور
میزبان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ