دین اسلام ہمیں جہاں بہت ساری باتوں کا درس دیتا ہے وہیں ہمارا پیارا دین میزبان کے حقوق کا بھی درس دیتا ہے۔ بلاشبہ کسی کو اپنے گھر مہمان بلانا یا کسی کی میزبانی کرنا انبیاء اور سلف الصالحين کا طریقہ ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کس قدر میزبانی کے عمل کو پسند کر تے کہ آپ کے دسترخوان بر جب تک کوئی مہمان نہیں آجاتا آپ کھانا نہیں تناول فرماتے تھے۔ اسی طرح ہمارے آقا ﷺ بھی اکثر اوقات اپنے صحابہ کرام کی دعوت فرماتے اور آپ اکثر دعوت کو قبول بھی کرتے اسی لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جب کوئی اسلامی بہن اپنے گھر دعوت کی پیشکش کرے تو بلا شرعی عذر اسے رد نہ کریں بلکہ خوشی خوشی قبول کریں فقیر و غنی کیلئے دعوت قبول کرناسنت ہے، بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو، دو میل چل کر جنازہ میں شرکت کرو اور تین میل چل کر دعوت قبول کرو۔ (احیاء العلوم، 2/47)

حضرت ابوہريره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو وہ قبول کرے۔ اگر وہ روزہ دار ہو تو دعا کرے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو کھالے۔ (مسلم، ص 576، حدیث: 3520)

لہٰذا پیارے آقا کی اس حدیث پاک پر عمل کرتے ہوئے جب بھی ہمیں کوئی اسلامی بہن دعوت دے تو اس کو قبول کرنا چاہیے۔ یہ نہ سوچیں کہ وہ غریب یا امیر ہے، یاد رہے کہ ہمارے آقا اکثر غریب صحابہ کی دعوت کو جلد قبول فرماتے اور ویسے بھی اگر ہم کسی ایسی اسلامی بہن کی دعوت قبول نہیں کرتے جو بیچاری غریب ہے تو آپ کا اس طرح منع کرنا اسے احساس کمتری کا شکار کر سکتا ہے اور اس کی دل آزاری بھی ہو سکتی ہے اور کسی مسلمان کی بلا عذر شرعی دل آزادی کرنا سخت گناہ ہے اور مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو حقوق ہیں ان میں سے ایک اپنے مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا بھی ہے، ویسے تو یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر جتنی بات کی جائے کم ہے مگر ہم اس کو چند الفاظ میں سمیٹنے کی کو شش کرتے ہیں اسی طرح میزبان کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کا ہمیں دعوت قبول کرتے وقت اور دعوت پرجاتے وقت خیال رکھنا چاہیے ہم یہاں 5 حقوق پر گفتگو کرتے ہیں:

1۔ جب میزبان آپ کو دعوت دے تو قبول کریں اور جو ٹائم دیا ہے کو شش کر کے اسی وقت پرجانے کی ترکیب بنا ئیں۔

2۔ کوئی بھی اسلامی بہن بغیر بلائے دعوت میں نہ جائے اور نہ ہی بلائی ہوئی اسلامی بہن بلا اجازت میزبان اپنے ساتھ کسی اور اسلامی بہن کو لے کر جائے۔

3۔ میزبان اپنے گھر میں جہاں بٹھادے وہیں بیٹھ جائے اس کے گھر تاکہ جھانکی کرنے سے بچے اور اس کے گھر کی ترتیب اور اشیاء میں نقص نہ نکالے۔

4۔ مہمان کھانا کھاتے وقت کسی آجانے والے شخص کو کوئی آرڈر نہ کرے کہ آؤ کھانا کھا لو کیونکہ مہمان کھانے کا مالک نہیں ہوتا اس لیے وہ اس طرح کسی کو بھی کھانے کیلئے نہیں کہہ سکتا۔

5۔ میزبان کے بنائے گئے کھانے میں نقص نہ نکالے اگر آپ کو پسند نہیں آیا تو چپ رہیں اور کوئی چیز کھالیں اور اسی طرح میزبان کے گھر سے واپس آ کر اس کی چیزوں، گھرکی ترتیب اور کھانے میں نقص نہ نکالے اس میں غیبت میں پڑنے کا خطرہ ہو سکتا ہے اور اپنی کسی مسلمان بہن کی غیبت کرنا گویا اس کا مردہ گوشت کھانے کے مترادف ہے۔

ان تمام باتوں کا خیال رکھیں اور جب کسی کے ہاں مہمان جائیں تو موسم کے مطابق کوئی پھل یا کوئی اور چیز لےکر جائیں اس طرح آپ کے میزبان کے دل میں خوشی پیدا ہوگی ور وہ آپ سے خوش ہوگی اور اس کو خوش کرنے کی برکت سے اللہ پاک آپ کو بھی خوشیاں عطا کرے گا اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کے دلوں میں خوشیاں داخل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں حقوق العباد احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھی توفیق دے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین