میزبان کے پانچ حقوق از بنت رفاقت حسین، جامعۃ المدینہ سراجا منیرا گجرات
میزبان سے مراد
مہمان نوازی کرنے والا ، ضیافت کرنے والا ہے۔ احادیث مبارکہ میں مہمان نوازی کے
بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں جیسا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جب کوئی
مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے
تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
جہاں مہمان نوازی کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی وہیں
کچھ میزبان کے حقوق بھی ہیں، چنانچہ مہمان کاحق ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی
دعوت کو قبول کرے، سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: اگر مجھے بکری کے پائے کی
دعوت دی جائے تو بھی میں قبول کروں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2568) اسی طرح احیاء
العلوم میں ہے کہ فقیر وغنی کے لیے دعوت قبول کرنا سنت ہے بعض آسمانی کتابوں میں
مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو،دو میل چل کر جنازہ میں شریک ہو اور
تین میل چل کر دعوت قبول کرو۔(احیاء العلوم، 2/47)
احیاء العلوم میں ہے: اگر نفل روزہ ہو تو افطار کر دے
کیونکہ مسلمان کے دل کو خوش کرنا روزہ رکھنے سے افضل ہے۔ اگر کھانے، جگہ یا بچھونے کے بارے میں شبہ ہو
یا دعوت دینے والا فاسق ہو تو دعوت قبول کرنا منع ہے۔
مہمان کو چاہیے کہ ایسی دعوت میں نہ جائے جہاں اس
کو نہ بلایا گیا ہو کہ حدیث مبارکہ میں ہے: جو شخص ایسی دعوت پر گیا جہاں اسے نہیں
بلایا گیا تو وہ فاسق بن کر گیا اور اس نے حرام کھایا۔ (فردوس الاخبار، 2/287، حدیث:
6117)
مہمان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ میزبان کو آنے سے
پہلے اطلاع کردے مہمان کو چاہیے کہ اپنے میزبان کی مصروفیات اور ذمے داریوں کا لحاظ
رکھے۔
بہار شریعت جلد 3 صفحہ 391 پر ہے: جو شخص اللہ پاک
اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ
ہے ( یعنی آؤ بھگت کرے) اور ضیافت تین دن ہے اور تین دن کے بعد صدقہ ہے مہمان کے
لیے حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے ( یعنی مہمان) کو حرج میں ڈال دے۔ (بخاری،
4/136، حدیث: 6135)
جب آپ کسی کے پاس بطور مہمان جائیں تو مناسب ہے کہ
اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ حسب حیثیت میزبان یا اس کے بچوں کے لیے تحفہ لیتے جائیں۔
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کو
چار باتیں ضروری ہیں: جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔ جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا
جائے اس پر خوش ہو یہ نہ کہنے لگے کہ اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا
ہوں یا اس طرح کے دوسرے الفاظ۔ بغیر اجازت ( میزبان کی اجازت لیے بغیر) وہاں سے نہ
اٹھے۔ جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ (بہار شریعت، 3/349)
خزینہ رحمت میں ہے کہ جب کسی مسلمان بھائی کے گھر
دعوت پر جائے تو کھانے کے بعد اللہ تعالی کی حمد کرے اور پھر اپنے مسلمان بھائی کے
لیے دعا کرے جس کا طریقہ اس دعا میں ہمیں تعلیم فرمایا گیا ہے: اَللّٰهُمَّ
أَطْعِمْ مَّنْ اَطْعَمَنِى وَاسْقِ مَنْ سَقَانِى ترجمہ:
یاالہی اس کو کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اس کو پلا جس نے مجھے پلایا۔
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی مہمان اور
میزبان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ