مہمان نواز ہونا ایسے امور میں سے ہے کہ جسے شرع اور عقل دونوں نے بہترین اور مستحسن امر قرار دیا ہے۔ روایات اسلامی میں مہمان نوازی کے متعلق اس قدر شدید تاکید وارد ہوئی ہے کہ اگر مومن کی جانب سے آپ کو طعام کی دعوت دی گئی ہے اور آپ حالت روزه میں ہیں تو اپنے مومن بھائی کا دل رکھنے کے لیے اپنا مستحب روزه توڑ سکتے ہیں، مہمان نوازی کے متعلق آیت قرآنی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ(۶۹) (پ 12، ہود: 69) ترجمہ: اور البتہ آچکے ہیں ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر، بولے سلام، وہ بولا سلام ہے، پھر دیر نہ کی لے آیا ایک بچھڑا تلا ہوا۔

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

1۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی ہے۔ (ابن ماجہ،4/51، حدیث:3356) حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/67)

2۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،2/33، حدیث:1641)

3۔ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں جنّۃ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (کنز العمال، 5/110، حدیث:25878)

مہمان نوازی کے آداب سے مراد وہ افعال و حرکات ہیں جو مہمان اور میزبان دعوت کے دوران انجام دیتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے اندر مہمان نوازی کے متعلق بہت سے آداب وارد ہوئے ہیں ان میں سے بعض آداب میزبان کے فرائض کی شکل میں ہیں اور مہمان کے حقوق کے بارے میں ہیں، اسی کے بالمقابل بعض امور مہمان کے فرائض کی صورت میں ہیں اور میزبان کے حقوق کے بارے میں. میزبان کے حقوق سے مراد یہ ہے کہ مثلاً بحیثیت مہمان، میزبان کی دعوت قبول کرنا اس کی جانب سے جو طعام کا اہتمام کیا گیا ہے اس کو کھانا اور مہمان کے فرائض سے مراد وہ امور ہیں کہ جیسے میزبان سے زیادہ تکلفات میں نہ پڑنے کا تقاضا کرنا یا میزبان کے لیے دعا کرنا وغیرہ۔

میزبان کے لئے آداب: کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ موافق ہے۔ مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے۔ جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اٹھایا جائے۔ مہمانوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروّت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دکھلاوا ہے۔

مہمان کیلئے آداب: جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو۔ جہاں بٹھایا جائے وہی بیٹھےصاحب خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اٹھےجب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دعا کرےوغیرہ۔ بغیر دعوت کے مت جائے۔ بعض افراد ہوتے ہیں جن میں مروت نہیں پائی جاتی مروت مرء سے ہے یعنی مرد ہونا، یہ چیز مردانگی کے خلاف ہے کہ کسی ایسی جگہ پر پہنچ جائیں جہاں پر آپ کو مدعو ہی نہیں کیا گیا اور خاص کر ایسے مواقع کہ جہاں میزبان کی جانب سے مقررہ افراد کے لیے ہی اہتمام کیا گیا ہو۔ کھانے میں شرم نہ کرے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کو جتنا بھی اصرار کیا جائے کھانا نہیں کھاتے اور اگر کھائیں بھی تو اپنی ضرورت سے کم کھاتے ہیں جبکہ روایات میں وارد ہوا ہے کہ میزبان کو اصرار کرنے پر مجبور نہ کریں بلکہ جب وہ آپ سے تقاضا کرے تو کھانا کھا لیں۔ ایک اور رسم جو ہمارے یہاں بہت زیادہ پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کو مدعو کردیا تو وہ اپنے ساتھ بچوں کو بھی ساتھ لے چلتا ہے جبکہ میزبان کی جانب سے فقط ایک فرد کو مدعو کیا گیا تھا، ہم اگرچہ بچے کو چھوٹا سمجھ کر ساتھ لے جانا چاہ رہے ہیں لیکن پھر بھی بچہ ایک پورا فرد ہے اور یہ آداب کے خلاف ہے کہ بغیر دعوت کے ہم بچے کو بھی ساتھ لے جائیں۔

اللہ پاک ہمیں میزبانی اور مہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ